صومالیہ کا یومِ آزادی

صومالیہ کا یومِ آزادی

صومالیہ کا یومِ آزادی

مصنف: عثمان حسن جولائی 2013

کسی بھی قوم کا یومِ آزادی ایک نعمت سے کم نہیں ہوتا- ہر سال قومیں اپنا یومِ آزادی منا کر اپنی آزادی کے حصول کے مقاصد کو پورا کرنے اور دُنیا میں سر اٹھا کر جینے کیلئے از سرِ نو عزم کرتی ہیں۔ مگر دُنیا میں کچھ خطے ایسے بھی ہیں جہاں ظلم اس انتہا پر پہنچ گیا ہے کہ وہاں کی پسی ہوئی عوام کیلئے جغرافیائی آزادی کا ہونا یانہ ہونا کوئی خاص معنی نہیں رکھتا کیونکہ وہاں کی عوام زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہو کر فقط اپنے بچاﺅ کا سوچ رہی ہے۔صومالیہ انہی خطوں میں سے ایک خطہ ہے جسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ جغرافیائی سرحدوں تک کی آزادی انسانی ضروریات کیلئے کافی نہیں بلکہ سیاسی، تجارتی، معاشی اور بالخصوص رنگ، نسل اور قبائلی شناختوں سے آزادی کس قدر اہم ہے ۔

 شمالی صومالیہ برطانیہ سے ۲۶ جون ۱۹۶۰ کو آزاد ہوا جبکہ جنوبی صومالیہ اٹلی سے یکم جولائی ۱۹۶۰ کو آزاد ہوا اور دونوں نے مل کرSomali Republic (عرف عام میں صومالیہ )کے نام سے یکم جولائی ۱۹۶۰ کو آزاد مملکت کی بنیاد رکھی۔ اِس وقت صومالیہ کی کُل آبادی ایک کروڑ دو لاکھ کے قریب ہے جن میں ۴۴ فیصد کے قریب چودہ سال سے کم عمر بچے شامل ہیں-تاریخی حوالے سے صومالیہ میں اِسلام آٹھویں صدی عیسوی میں پہنچا۔ اس خطہ ارض پر بھی باقی مسلمان علاقوں کی طرح اِسلام کے پیغام کو عام کرنے کیلئے صوفیاءنے گراں قدر خدمات سر انجام دیں -طریقت کے مختلف سلاسل کے اولیاءنے اس سلسلے میں نمایاں کردار ادا کیا-آج بھی صومالیہ کے عوام صوفیاءسے گہری عقیدت رکھتے ہیں ۔

 قدرتی وسائل سے مالا مال اور نہایت اہم جغرافیہ پر واقع صومالیہ میں آزادی کے بعد ابتداءمیں جمہوری نظام قائم رہا جس کا خاتمہ ۹۶۹۱ میں ہوا جب  Maj-Gen Muhammad Siad Barre  نے حکومت کا تختہ اُلٹا اور اقتدار سنبھالا-اُس نے صومالیہ کو سوشلسٹ سٹیٹ ڈیکلئر کیا اور تیزی سے انڈسٹری کو نیشنلائز کیا- صومالیہ نے ہمسایہ ممالک میں رہنے والی صومالی آبادی کے حق رائے دہی کی حمایت کی کہ وہ کس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں-اسی وجہ سے ایتھوپیا اور کینیا سے اختلافات شدت اختیار کر گئے اور ایتھوپیا کے ساتھ ۸۷۹۱ میں آٹھ ماہ کی جنگ ہوئی جس میں صومالیہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا-اس جنگ میں سوویت یونین نے ایتھوپیا کا ساتھ دیا،سوویت یونین سے اختلافات کے بعد صومالیہ نے امریکہ سے تعلقات بہتر کئے اور امریکہ نے بھی ایرانی انقلاب کے بعد خطے میں پاﺅں جمانے کیلئے صومالیہ سے تعلقات بہتر کئے اور اسے معاشی اور دفاعی مدد دی کیونکہ جغرافیائی اعتبار سے صومالیہ نہایت اہمیت کا حامل ہے،ایتھوپیا سے جنگ کے بعد عوام میں حکومت مخالف تحریکیں اُٹھنا شروع ہوئیں اور ۲۸۹۱ میں صومالی نیشنل موومنٹ کے نام سے حکومت کے خلاف باقاعدہ تحریک شروع ہوئی جس نے شدت اختیار کر لی اور ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھنے لگا- ۰۹۹۱ تک ملک میں ۰۵ سے ۰۶ ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور چار لاکھ کے قریب لوگ ایتھوپیا کی جانب ہجرت کر گئے-معاشی مسائل کی وجہ سے عوام میں حکومت کے خلاف غم و غصہ بڑھا اور ۱۹۹۱ میں خانہ جنگی نے شدت اختیار کی اور Barre کی حکومت کا خاتمہ ہوا- Maj-Gen Muhammad Siad Barre کے دور کے اختتام سے صومالیہ میں مضبوط وفاقی حکومت نہیں بن سکی اور ملک کے مختلف حصے علیحدگی کی تحریک بھی چلاتے رہے ہیں۔

۱۹۹۱ میں مرکزی حکومت ٹوٹنے کے بعد برطانیہ سے آزادی پانے والے حصے نےRepublic of Somaliland کے نام سے خود مختاری کا اعلان کیا مگر اسے عالمی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا-کمزور وفاق کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میںطاقتور قبائل اور مسلح گروہوں نے وسائل پر قبضے شروع کر دیئے خاص طور پر متوسط طبقے(Middle Class) کے افراد سے زبردستی وسائل چھینے گئے،مختلف قبائل کے درمیان بھی اسی سلسلے میں جھڑپیں ہوتی رہیں،خانہ جنگی نے ملکی نظام کو درہم برہم کر دیا اور خصوصاً زراعت کو بہت نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں ۲۹۹۱میں ملک میں قحط پڑ گیا،اس خانہ جنگی اور قحط سے دو لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے،خودمختاری کا اعلان کرنے والے صومالی لینڈ میں بھی جھڑپیں ہوتی رہیں مگر صومالیہ کے باقی حصوں کی نسبت حالات بہتر رہے -اقوام متحدہ کا امن مشن UNOSOM ۲۹۹۱، ۳۹۹۱ میں صومالیہ آیا-امریکہ نے ایک ”بَرا مشن“ ‘Operation Restore Hope کے نام سے شروع کیا، متعدد تجزیہ نگاروں کے مطابق اس مشن کا بظاہر مقصد صومالیہ میں امن قائم کرنا اور وفاقی حکومت کو مضبوط کرنا تھا مگر درحقیقت صومالیہ میں موجود تیل بالخصوص اور دیگر معدنیات بالعموم پر قبضہ جمانا تھا اس وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھا اور عالمی ادارے امن قائم کرنے ، قحط سے نمٹنے اور حکومت کو مضبوط کرنے میں ناکام رہے۔ ۵۹۹۱ میں تمام امن مشن کو صومالیہ سے نکال لیا گیا،صومالیہ میں خانہ جنگی نہ رکی اور ۸۹۹۱ میں Puntland نے بھی خود مختاری کا اعلان کر دیا،اس دوران ملک میں خانہ جنگی کی شدت میں کمی آئی اور بڑی جھڑپوں کی نسبت چھوٹی سطح پر جھڑپیں ہوتی رہیں اور زیادہ تر مسلح گروہ جرائم کی حد تک محدودہو گئے،بیرون ممالک سے آنے والی امداد بھی زیادہ تر کرپشن اور خانہ جنگی کی وجہ سے عوام کو خاطر خواہ فائدہ نہ دے سکی۔

۰۰۰۲ میں قیامِ امن کیلئے کوششیں تیز ہوئیں اور نئی گورنمنٹ قائم کی گئی مگر صومالی لینڈ اور پنٹ لینڈ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا-۶۰۰۲ میں Islamic Courts Union نے ملک کے جنوبی حصے میں کنٹرول سنبھال لیا اور شریعت کا نفاذ شروع کیا- ۶۰۰۲ میںIslamic Courts Union نے ایتھوپیا کے خلاف جنگ کا اعلان کیاجس پر ایتھوپیا کی فوج نے Islamic Courts Union کے خلاف جنگ شروع کی اِس دوران امریکہ کے جنگی طیاروں نے بھی بمباری کی اور ۷۰۰۲ تک Islamic Courts Union سے آخری شہر بھی چھڑا لیا گیا، ایتھوپیا نے جلد از جلد اپنی فوج کو علاقے سے نکال لیا اور اس کی جگہ اقوامِ متحدہ کے امن مشن نے لی اور ٹرانزیشنل فیڈرل گورنمنٹ کی مدد کی تا کہ وہ اُن علاقوں پر اپنا کنٹرول مضبوط کر سکے جنہوں نے ابھی تک خود مختاری کا اعلان نہیں کیا تھا- ۷۰۰۲ میں ملک میں ایمرجنسی لگائی گئی اور تمام مسلح گروپوں سے غیر مسلح ہونے کا کہا گیا مگر دوبارہ خانہ جنگی شروع ہو گئی اور ایک بار پھر خوراک کی قلت اور دیگر مسائل عوام کی دہلیز پر آن پہنچے،صومالی قزاقوں نے بحری جہازوں کو اغوا کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا جس نے عالمی سطح پر صومالیہ کے سمندروں کو غیر محفوظ کر دیا،صومالیہ کے حالات بد سے بدتر ہو گئے ،امریکہ نے اس دوران صومالیہ میں ڈرون حملے بھی کئے جن میں زیادہ تر سویلین ہلاک ہوئے،جنگی حالات اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ۰۱۰۲ میں ایک بار پھر شدید قحط پڑا اور خوراک کی قلت ہو گئی -دو سال کے عرصے میں ڈھائی لاکھ سے زائد صومالی باشندے قحط کے باعث ہلاک ہوئے جن میں کثیر تعداد بچوں کی ہے۔

ایک ایسا وقت جب اِنسان کو خلاءمیں بسانے کا سوچا جا رہا ہے اور کھربوں ڈالر ”انسان مخالف ہتھیاروں “ پر خرچ کئے جا رہے ہیں اس دوران لاکھوں افراد کا خوراک سے محروم ہونا عالمی اداروں کیلئے لمحہ فکریہ ہے خاص طور پر جب ایک اندازے کے مطابق ترقی یافتہ ممالک سالانہ ۲۲۲ ملین ٹن خوراک ضائع کر دیتے ہیں جو کہ Sub-Saharan Africa کی کُل پیداوار کے برابر ہے۔وہاں کے مقامی حالات جیسے بھی ہوں مگر جب چند سو افراد کی ہلاکت کی وجہ سے افغانستا ن میں کھربوں روپے لگا کر جنگ کی جاتی ہے، عراق میں لاکھوں لوگوں کو بلا وجہ ہلاک کیا جاتا ہے اور وہاں جنگ کرنے والے ایک فوجی پر سالانہ کم و بیش تین لاکھ نوے ہزار ڈالر خرچ کیا جاتا ہے ایسے میں ایک خطے کے عوام کو قحط، بھوک اور ظلم کے سائے میں بے یار و مدد گار چھوڑ دینا اور اُن کی مدد کیلئے کوئی ٹھوس ایکشن نہ لینا عالمی طاقتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق صومالیہ کے المناک انسانی المیہ کی بنیادی وجہ مرکزی حکومت کی کمزوری اور قبائلی مسلح گروہوں کی وسائل پر قابض ہونے کیلئے خانہ جنگی ہے لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ ۱۹۹۱ سے پہلے حالات ایسے نہ تھے، صومالیہ کی پڑوسی ممالک سے جنگوں اور معاشی بدحالی کی وجہ سے یہ سب کچھ د یکھنے کو ملا اور اس دوران صومالیہ سرد جنگ کا حصہ بھی بنا اور پہلے سوویت یونین اور بعد ازاں امریکہ سے مالی معاونت بھی حاصل رہی،عالمی طاقتوں نے صومالیہ کی حکومت کو اپنے مقاصد کی حد تک تو ساتھ رکھا مگر آنے والے اندھیروں سے نمٹنے کیلئے عوام کے بارے میں کچھ نہ سوچا گیا اور عوام کے اندر آہستہ آہستہ حکومت کے خلاف جذبات بڑھتے چلے گئے جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے اگر اسی طرح کے جذبات کسی ایسے علاقے میں اُبھرتے نظر آتے ہیں جہاں کی حکومت عالمی طاقتوں کی حمایت یافتہ نہیں ہوتی تو فوری طور پر اُس حکومت کا پانسہ پلٹ دیا جاتا ہے یا اُس کے خلاف محاذ کھڑاکر دیا جاتا ہے،صومالیہ کے اس المناک انسانی المیہ کی ذمہ داری وہاں کے قبضہ گروپوں اور مسلح گروہوں کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں پر بھی عائد ہوتی ہے،عالمی طاقتیں سوڈان، عراق، افغانستان میں تو بھر پور کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں مگر صومالیہ کے لاکھوں افراد کو بھوک کے باعث موت کے منہ میں جانے سے روکنے کیلئے ٹھوس اور ہنگامی اقدامات سے گریزاں نظر آتی ہیں اور عملی طور پر کوئی قدم نظر نہیں آتا۔

آج صومالیہ کے بھوک و افلاس کے شکار لاکھوں افراد عالمی اداروں کی مدد کے منتظر ہیں۔وہ قبائل و نسل سے بالا تر ہو کر اقوامِ عالم سے اپنے حقوق طلب کرتے نظر آتے ہیں اور اپنے مُلک میں خانہ جنگی سے قبل والے ماحول اور مستحکم حکومت کی تلاش میں ہیںتا کہ وہ پہلے کی طرح اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوں اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیںاور فخر کے ساتھ اپنا یومِ آزادی منا سکیں جو کہ نہ صرف جغرافیائی آزادی ہو بلکہ معاشی، سیاسی اور قبائلی آزادی بھی ہو جہاں نہ تو کوئی عالمی طاقت اپنے مقاصد کیلئے سیاست کو کوئی رُخ دے سکے اور نہ ہی وہاں کے قبائل ایک دوسرے کے دُشمن بن کے اپنے ہی ملک کو خانہ جنگی میں دھکیلیںبلکہ صومالیہ کے عوام یک جان ہو کر اپنے ملک کا مستقبل بھی طے کریں اور انسانی بنیادوں پر عالمی برادری کے شانہ بشانہ جی سکیں۔

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر