زیار ت میں زیارتِ قائد کی تباہی (منظر نامہ)

زیار ت میں زیارتِ قائد کی تباہی (منظر نامہ)

زیار ت میں زیارتِ قائد کی تباہی (منظر نامہ)

مصنف: طارق اسمٰعیل ساگر جولائی 2013

مردِ مجاہد ، مومنِ کامل ، پاسبانِ ملت بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ کی ریذیڈنسی پر حملہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب ہوا جب رات کی تاریکی میں دس سے بارہ دہشت گرد پہاڑی کی جانب سے اندر گھسے تو موقع پر موجود پولیس اہلکار نے انہیں روکنے کی کوشش کی جس پر ایک پولیس اہلکار کو شہید کرنے کے بعد دہشت گرد ریذیڈنسی میں داخل ہوئے اور انہوں نے پانچ مقامات پر بارود لگا کر دھماکے کئے اس کے نتیجہ میں قائد اعظم کی یادگار جہاں انہوں نے اپنی عمر عزیز کے آخری دو ماہ گزارے آگ کی لپیٹ میں آ گئی- بتایا جاتا ہے کہ ریذیڈنسی میں دھماکوں کے سبب دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹ کر دور جا گرے جبکہ اندر رکھا فرنیچر فوری طور پر جل گیا-ریذیڈنسی کا فرش بھی لکڑ ی کا بنا ہوا تھا وہ بھی خاکستر ہو گیا- اطلاعات کے مطابق ریذیڈنسی میں قائد اعظم کے کمرے میں موجود ان کا بیڈ، ملاقاتیوں کے لیے رکھی گئی کرسیاں، اس کے علاوہ ڈاکٹر کا کمرہ، فاطمہ جناح کا کمرہ، ڈرائنگ روم میں پڑا فرنیچر بھی تباہ ہو گیا جبکہ ریذیڈنسی کے نوادرات کے کمرہ میں شہدا بلوچ قائدین کے ساتھ قائد اعظم کی تصاویر، قائد کے دستخط شدہ معاہدے اور تحائف وغیرہ بھی ضائع ہو گئے- ریذیڈنسی کے حوالے سے تلخ سلخ یہ ہے کہ اپنی سیکورٹی پر کروڑوں استعمال کرنے والے حکمرانوں نے دہشت گردی کی لہر کے باوجود وہاں ابھی تک غیر مسلح غیر تربیت یافتہ گارڈ رکھا ہوا تھا جو شام کو گھر چلا جاتا تھا اور ایک پولیس اہلکار قائد کی یادگار کے تحفظ کا ذمہ دار تھا جو بابائے قوم کی یادگار کو بچانے کے لئے جان پر کھیل گیا۔

یہ حملہ قائداعظم ریذیڈنسی پر نہیں ہر محب وطن پاکستانی پر ہوا ہے۔ راکٹ قائداعظم ریذیڈنسی پر نہیں ہمارے کلیجے پر پھٹے ہیں۔ اصولی طور پر ہمیں ہمارے حکمرانوں کو شرم سے ڈوب کر مر جانا چاہیے تھا لیکن میں سوچتا ہوں کہ ہم زندہ تھے ہی کب؟ کیا ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے؟ کیا اس ملک کی ٹی وی سکرینوں پر لوگوں نے ایک بزعم خویش سیاسی لیڈروں ، دانشوروں اور صحافیوں کو قائداعظم کی توہین کرتے نہیں سنا، نہیں دیکھا، اس کے پیروکاروں کو اس توہین کو جائز بناتے نہیں دیکھا، نہیں سنا۔ بی ایل اے تو ایک سپانسرڈ دہشت گرد تنظیم ہے جس نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کیا ہوا ہے لیکن دوسری طرف تو وہ لوگ تھے جو اس بات کے بھی دعوے دار ہیں کہ انہوں نے پاکستان بنایا ہے۔ جب کسی قوم کی غیرت مر جائے تو ایسے ہی سانحے جنم لیا کرتے ہیں۔ جب سیاستدانوں کے لیے سیاست صرف اقتدار پر قبضے کا گھناﺅنا کھیل بن کر رہ جائے پھر یہی کچھ ہوتا ہے۔

شرم آنی چاہیے ان لبرل دہشت گردوں کو جو دن رات صرف غیر ملکی آقاﺅں کا حق نمک ادا کرنے کے لیے غیر ملکی ایجنسیوں کے سپانسرڈ دہشت گردوں کے حقوق کا ماتم کرتے اور افواجِ پاکستان و پاکستانی ایجنسیوں کے خلاف ہذیان بکتے نہیں تھکتے۔ جو مغربی عشرت کدوں میں مقیم غیر ملکی پاکستان دشمن ایجنسیوں کے بھونپو بننے والے بلوچ دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر ٹی وی سکرینوں پر سجاتے ہیں اور جو ہذیان پاکستان کے خلاف بکیں اسے بغیر سنسر کیے نوجوان پاکستانیوں کو سناتے ہیں۔

اگر زیارت، تربت، کوئٹہ، بلوچستان کے شہروں کے نام ہیں تو یہاں سے قائداعظمؒ کی عظمت کو سلام کرنے والے، ان ہزاروں غیور بلوچوں کے جلوس جو ریذیڈنسی پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد شاید پہلی مرتبہ اس طرح تڑپے ہیں، اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام سب سے زیادہ محب وطن ہیں۔ (تادمِ تحریر میں نے تو ایسا کوئی جلوس پنجاب میں ابھی تک نہیں دیکھا)۔ اس میں مجھے تو کم از کم کوئی شک و شبہ نہیں کہ بلوچ وعوام پنجابی عوام سے زیادہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں وہ پاکستان کے ان حالات پر ہم سے زیادہ افسردہ ہیں اور اگر بلوچستان میں علیحدگی کا نظریہ حقیقت ہوتا تو لوگ یوں دیوانہ وار اپنے قائد سے اظہارِ محبت نہ کرتے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علیحدگی کا نعرہ صرف ”ریڈیو دہلی “ ہی کی سازش ہے اس میں بلوچ عوام کی ذرہ برابر رائے بھی شامل نہیں۔ 

سید خورشید شاہ سندھ کا باسی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن میرے قائداعظمؒ کی عظمت پر ہونے والے اس حملے پر آپ نے اس کا ری ایکشن دیکھا؟ وہ کہہ رہا تھا کہ حملہ کرنے والے کوئی بھی ہوں حکومت کو چاہیے انہیں مار ڈالے لیکن تادمِ تحریر میں نے کسی مسلم لیگی لیڈر کو اس پر تڑپتے نہیں دیکھا۔ کس حکمران نے ٹی وی پر خصوصی خطاب کر کے قوم کے زخموں پر پھاہا رکھا بلکہ پراسرار خاموشی اختیار کر کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہونے والے جن مناصب پر بیٹھے ہیں یہ سب میرے قائداعظم کی جوتیوں کے صدقے میںہمیں حاصل ہوئے ہیں۔ اگر میرا قائداعظمؒہماری طرح صرف اقتدار کا رسیا ہوتا تو اسے سارے ہندوستان کی وزارتِ عظمی مل رہی تھی لیکن اس نے جوتے کی نوک پر نہیں رکھا۔ ہماری خصوصاً (پنجاب کی) ان خواتین کو جو ہندو بنیئے کے ہاں ”گروی“ تھیں،آزاد ملک دیا-جو عام حالات میں شودروں سے بدتر زندگی بسر کرنے والے تھے - اگر میرا قائداعظم ہمیں مملکت خدا داد نہ دیتا تو وہ آج ہندوستان میں شودروں کی زندگی بسر کررہے ہوتے۔

اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں پاکستان میں ستر فیصد سے زیادہ وہ سرمایہ دار اور اجارہ دار ہیں جو متحدہ ہندوستان کی صورت میں آج غلاموں سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہوتے- میں سوال پوچھتا ہوں کہ کیا قائداعظم کی ٹی بی کا علاج برطانیہ میں نہیں تھا؟ کیا قائداعظم اتنے دولت مند نہیں تھے کہ اپنا علاج وہاں کروا کر صحت مند زندگی بسر کرتے؟ لیکن وہ پاکستان بنانے کی دُھن میں خود کو فراموش کر چکے تھے- مرنے کے لیے زیارت چلے آئے- کوئی کچھ بھی کہے سچ یہ ہے کہ قائداعظمؒ کو علم تھا کہ اب زندگی ان کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسل رہی ہے۔

یاد ہے ناں! ماﺅنٹ بیٹن کی وہ بات.... کیا کہا تھا اس نے۔

” اگر ہمیں قائداعظم کی بیماری کا علم ہو جاتا تو دو ماہ تک تقسیم ہند کو روک لیتے-“

وہ بھی جانتا تھا کہ قائداعظم کے بعد میدان خالی ہے- ہائے! میرے قائداعظم نے اس سازش کو سمجھتے ہوئے کسی مستند ڈاکٹر سے علاج نہ کروایا کہ مبادا برٹش انٹیلی جنس کو اس موذی مرض کی خبر ہو جائے- بیماری میں آرام کے بہانے زیارت آگئے- وہ زیارت جسے آپ نے زندگی کے آخری ایام گزارنے کے لیے منتخب فرمایا جہاں کے بوڑھے اگر آپ کبھی اس ریذیڈنسی میں گئے ہوں تو آپ کو بھی قائداعظم کے آخری دنوں کی وہ کہانیاں سنائیں کہ میری طرح آپ کی آنکھیں بھی خون روئیں- جی ہاں، 2010ءمیں جب میں برادر ثاقب کے ساتھ یہاں گیا تو ایک بوڑھے بلوچ نے ہمیں قائداعظم کے آخری دنوں کا احوال سنایا- جب آپ کے ” کشمیر پر حملے“ کے احکامات کو خاطر میں نہ لایا گیا- میں یہاں کوئی متنازعہ بات لکھ کر نئی بحث شروع نہیں کروانا چاہتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ آزادی کے بعد سے ہم نے اپنی اس متاعِ عزیز کی وہ قدر نہ کی جس کے وہ مستحق تھے اگر کرتے تو کراچی ایئر پورٹ سے شہر آتے ہوئے ان کی ایمبولینس خراب نہ ہوتی- بڑی متنازعہ باتیں ہیں.... اگر قدر کرتے توقائداعظم کی بہن ایک ڈکٹیٹر سے الیکشن نہ ہارتیں.... بہت باتیں ہیں کرنے والی.... ہم احسان فراموش ہیں- ہمارے حکمران ہی نہیں عوام بھی.... نہ ہوتے تو آج کا دن ہم پر نہ اترتا ....۔

اب کوئی ہے جو اس ظلم کا حساب بے باق کرے- کوئی ہے؟ یا ابھی ایسے اور کتنے تماشے ہم نے دیکھنے ہیں؟ وہ این جی او مارکہ دانشور جو گلہ پھاڑ پھاڑ کر بلوچستان پر فوج کے جعلی مظالم کی کہانیاں سناتے ہیں- غداروں کو عزت دیتے اور شہادتیں پیش کرنے والوں کو ذلیل کرتے ہیں- اگر آج ان پر سکوت مرگ طاری نہیں ہو گیا تو بتاﺅ ان دہشت گردوں کے خلاف کس عدالت میں کیس چلائیں؟ میرے قلم میں مزید لکھنے کی سکت نہیں ہے لیکن اپنے ملک کی مسلح افواج کے کمانڈرِ اعلیٰ سے التجا گزار ہوں کہ خدارا کسی تنقید کو جوتے کی نوک پر نہ رکھیں ان درندوں کو جہاں کہیں بھی چھپے ہوں ان کے بلوں سے نکال کر اس ریذیڈنسی کے باہر لگے درختوں سے لٹکائیں تاکہ پاکستانیوں کو اپنے زندہ ہونے کا احساس ہو خواہ اس کی کچھ بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔

کوئٹہ دہشت گردی کی آگ میں جلتا رہا، دہشت گردوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی یادگار زیارت ریذیڈنسی کو تباہ کر دیا جبکہ ویمن یونیورسٹی کی بس پر حملہ کیا اور اس کے بعد ہسپتال پر قبضہ کر لیا- پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آپریشن میں دو خود کش حملہ آوروں سمیت پانچ دہشت گرد ہلاک ہوئے ایک گرفتار کر لیا گیا جبکہ قریباً اتنے ہی دہشت گردوں کے بچ نکلنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے - آئی جی مشتاق سکھیرا اور چیف سیکرٹری بم دھماکہ کے باوجود بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تاہم ان کے ساتھ جانے والے ڈپٹی کمشنر کوئٹہ منصور الرحمن کاکڑ سر اور سینے میں گولیاں لگنے سے شہید ہو گئے۔ پولیس اور ایف سی کے جوانوں نے انتہائی دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مریضوں اور زخمیوں کو ہسپتال سے نکالا اور قریباً 6گھنٹے کے آپریشن میں ہسپتال کو کلیئر کروانے میں کامیاب ہو گئے۔

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر