جوناگڑھ پرناجائز فوجی قبضہ: بھارتی جارحانہ پالیسیوں کا جائزہ

جوناگڑھ پرناجائز فوجی قبضہ:  بھارتی جارحانہ پالیسیوں کا جائزہ

جوناگڑھ پرناجائز فوجی قبضہ: بھارتی جارحانہ پالیسیوں کا جائزہ

مصنف: محمد محبوب ستمبر 2023

 ابتدائیہ:  

“Any encroachment on Junagadh Sovereignty or its territory would amount to hostile act”.[1](M.A Jinaah)

’’ جونا گڑھ کی خودمختاری اور سر زمین پر کسی قسم کی دخل اندازی کو جارحانہ عمل تصور کیا جائے گا‘‘-(قائد اعظم)

ریاست جونا گڑھ کا 15 ستمبر 1947ء کو پاکستان کا باقاعدہ حصہ بننے کے بعد بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھارتی گورنر جنرل اور اس کی قیادت کو خبردار کرتے ہوئے واضح کیا کہ ریاست جوناگڑھ اب باقاعدہ پاکستان کا حصہ بن چکی ہے- اس لئے جونا گڑھ پر بھارتی جارحیت کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا بلکہ اس عمل کو بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف جارحانہ عمل تصور کیا جائے گا- اگر بھارت کے قیام کے بعد اس کی فوجی کاروائیوں کا جائزہ لیا جائے تو بھارت کی مناوادر اور جوناگڑھ پر چڑھائی، پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے- بھارت کی پہلی فوجی کاروائی ہی دوسرے ہمسایہ ملک ( پاکستان) کی خودمختاری اور سالمیت کے خلاف اور اس کی زمین پر غیر قانونی قبضہ جمانے کے لئے تھی-

زیر نظر مضمون میں ہم بھارتی قیادت کی جونا گڑھ پر فوجی کاروائی کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے اور مستند تاریخی حوالہ جات سے بھارتی کابینہ کی طرف سے پاکستان کی سرزمین جونا گڑھ پر قبضہ کے لئے ملٹری پلاننگ کا جائزہ لیں گے-

جونا گڑھ پر باقاعدہ بھارتی فوجی جارحیت کی منصوبہ بندی :

حکومت پاکستان کی جانب سے ریاست جونا گڑھ کا الحاق قبول کرنے کے بعد ، 17 ستمبر 1947 کو بھارتی کابینہ کا جونا گڑھ کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے میٹنگ کا انعقاد ہوا- بقول لارڈ ماؤنٹ بیٹن میٹنگ کے انعقاد سے قبل بھارتی رہنماؤں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جونا گڑھ کا حل صرف ’’فوجی کاروائی‘‘ہے- [2]

Alan Campbell-Johnson کے نوٹ کے مطابق بھارتی کابینہ 17 ستمبر کو ہی ملٹری ایکشن پلان ترتیب دے چکی تھی-

“The Cabinet had fully prepared itself to approve military measures”.[3]

’’ کابینہ مکمل طور پر اپنے آپ کو(جونا گڑھ ) پر فوجی کاروائی کے لئے تیار کر چکی تھی‘‘-

ماؤنٹ بیٹن نے برطانوی بادشاہ کے نام رپورٹ میں یہ بھی لکھا کہ وزیر اعظم نہرو اور ڈپٹی وزیر اعظم سردار پٹیل کے ذہنوں میں ریاست جونا گڑھ کے متعلق عسکریت پسندی (Militant frame of Mind) تھی - [4]

17ستمبر 1947ء کو ہونے والی کابینہ کی میٹنگ کے مندرجات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ جونا گڑھ کے اردگرد فوجیں کھڑی کرنے کے علاوہ سپلائی لائن منقطع کرنے کا فیصلہ ہوا-

“Economic measures such as the discontinuance of supplies of diesel oil, coal and petrol from the territories of the Indian Dominion and of the acceding States, should also be taken”.[5]

’’اقتصادی اقدامات جیسے کہ ہندوستان اور اس سے الحاق کرنے والی ریاستوں کے علاقوں سے ڈیزل تیل، کوئلہ اور پیٹرول کی سپلائی بند کرنا جیسے اقدامات لئے گئے‘‘-

19ستمبر 1947ءکو حکومت پاکستان نے بھارتی حکومت کے سامنے جونا گڑھ کے قریب بھارتی افواج کھڑی کرنے کے معاملے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے اسے دشمنی کا عمل (Hostile Act )قرار دیا- [6]

جونا گڑھ کے معاملے پر بھارتی کابینہ کی دوبارہ میٹنگ 24 ستمبر 1947ء کو ہوئی- اس میٹنگ کے مندرجات کے مطابق کاٹھیاواڑ میں ایک بریگیڈ تعینات کرنے کے علاوہ بابریواد اور منگرول میں بھی بھارتی فوج اتارنے کا فیصلہ کیا گیا-[7] یہاں یہ بات قابلِ ذکر رہے کہ منگرول اور بابریواد پر ریاست جونا گڑھ کا دعویٰ تھاجبکہ اس کی صحیح اور واضح قانونی حیثیت متنازعہ تھی- اس متنازع حیثیت کے باوجود بھارت نے ان دو ریاستوں میں فوج کشی کرنے کا فیصلہ کیا-

24ستمبر 1947 ہی کو سردار گردیال سنگھ کی قیادت میں کاٹھیاواڑ ڈیفینس فورس کا قیام عمل میں لایا گیا-یہ فورس ایک پوری بریگیڈ پر مشتمل تھی- اس بریگیڈ میں بھارت کے ساتھ کاٹھیاواڑ کی الحاق کرنے والی ریاستوں کی فوجیں شامل تھیں- وزیراعظم نہرو نے دوبارہ 25 ستمبر کو پٹیل کو اعتماد میں لیا کہ ’’ہم پہلے ہی فوجی کاروائی کے امکان پر غور کر رہے ہیں‘‘-[8]

25ستمبر1947ءکو پاکستان کے دفتر خارجہ نے جونا گڑھ پر بھارتی اقدامات کو پاکستانی خود مختاری کے خلاف قرار دیا -

“Pakistan Government feel India Dominion by their policy and action are infringing sovereignty of Pakistan”.[9]

’’حکومت پاکستان کو یہ محسوس ہوتا ہے بھارتی ڈومینین اپنی پالیسی اور عمل کی وجہ سے پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ورزی کر رہا ہے‘‘-

جب بھارتی قیادت نے منگرول اور بابریواد پر چڑھائی کرنے کا فیصلہ کیا تو بھارت کی تینوں سروسز کے چیف آف سٹافس نے بھارتی کابینہ کے سامنے اس حملے کے مضمر نتائج سے اپنی تشویش کا اظہار کیا- ان کے مطابق کاٹھیاواڑ خصوصاً جونا گڑھ میں فوجی ایکشن دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دے گا- انہوں نے بھارتی قیادت پر زور دیا کہ ملٹری ایکشن کی بجائے بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے- چیف آف سٹافس کے ملٹری ایکشن کے خلاف مشورہ پر بھارتی قیادت سیخ پا ہو گئی اور اس کو بے وفائی (Disloyal) اور غلط (improper)قرار دیا- بھارتی قیادت کے اس احتجاج کے بعد انہوں نے اپنا پیپر واپس کر لیا اور جونا گڑھ اور کاٹھیاواڑ میں بھارت کی جارحیت کے خلاف بننے والا بندکھل گیا- [10]

مشہور مؤرخ ایچ وی ہڈسن نے اپنی کتاب دی گریٹ ڈیوائڈ میں اس نقطہ کو اٹھایا ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھارتی کابینہ کو برطانوی طرز پر ڈیفنس کمیٹی کے قیام کا مشورہ دیا- بھارتی قیادت نے اس مشورے کو فوراً قبول کرتے ہوئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا- ہڈسن کے مطابق ماؤنٹ بیٹن آئینی بادشاہ Constitutional Monarch کی بجائے باقاعدہ بھارتی کابینہ کا حصہ بن گئے اور سارے اہم فیصلے ان کی سربراہی میں ہوتے تھے- اس کے علاوہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن انڈیا اور پاکستان کے مابین جوائنٹ ڈیفنس کونسل کے بھی چیئرمین تھے- ہڈسن یہ نقطہ اٹھاتے ہیں کہ جوائنٹ ڈیفنس کونسل میں ماؤنٹ بیٹن کے لئے غیر جانبداری impartiality برقرار رکھنا بہت مشکل تھا اور بھارتی فیصلے اثر انداز ہو رہے تھے-[11]

28 ستمبر کو کابینہ میٹنگ کے بعد ماؤنٹ بیٹن ، جواہر لعل کے نام خط جونا گڑھ پر فوجی کاروائی کے لئے اپنی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے خفیہ ایجنٹس بھیجنے کا تذکرہ کرتے ہیں کہ:

“Personally, I entirely agree with the continuation of the military plans and precautions which we have had under discussion. I also renew my recommendation that we should make every endeavour to set up an adequate intelligence organization in that area forthwith, and that up to a dozen intelligence officers or agents should be sent to the area to make sure that we are furnished with reliable and up-to-date information”.[12]

’’ذاتی طور پر، میں مکمل فوجی منصوبوں اور احتیاطی تدابیر کے تسلسل سے متفق ہوں جن پر ہم زیر بحث آئے ہیں- میں اپنی سفارش کی تجدید بھی کرتا ہوں کہ ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے- اس علاقے میں فوری طور پر ایک مناسب انٹیلی جنس تنظیم قائم کریں، اور یہ کہ ایک درجن تک انٹیلی جنس افسران یا ایجنٹوں کو علاقے میں بھیجا جائے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہمارے پاس قابل اعتماد اور تازہ ترین معلومات موجود ہیں ‘‘-

29ستمبر کو جونا گڑھ کے معاملے پر اپنے نوٹ میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن لکھتے ہیں کہ وی پی مینن اس کے پاس آئے اور بتایا کہ جونا گڑھ کے متعلق پالیسی پر وزیر اعظم نہرو اور ڈپٹی وزیر اعظم پٹیل کے مابین مکمل اختلاف پایا جاتا ہے - حتی کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے یہ بھی دھمکی دی کہ اس کی جونا گڑھ کے متعلق جارحانہ پالیسی کو نہ اپنایا گیا تو وہ مستعفی ہو جائیں گے- [13]

4 اکتوبر 1947ء کو ڈیفنس کمیٹی کی دوسری میٹنگ کا انعقاد ہوا- جس میں بھارتی قیادت نے تفصیلاً ریاست جونا گڑھ پر بات کی- جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ بابریواد اور منگرول کی قانونی حیثیت متنازعہ تھی اور ان پر جونا گڑھ کا دعویٰ تھا، بھارت نے منگرول اور بابریواد تنازع کا سہارا لیتے ہوئے جونا گڑھ پر چڑھائی کا فیصلہ کیا- متشدد پالیسی کے حامل سردار ولبھ پٹیل کا خیال بھی یہی تھا کہ :

“If the Government of India supported Babariawad and Mangrol militarily, the question of Junagadh itself would speedily be settled”.[14]

’’اگر حکومت ہند نے بابریواد اور منگرول کی فوجی حمایت کی تو جوناگڑھ کا مسئلہ خود ہی جلد حل ہو جائے گا‘‘-

کابینہ نے جوناگڑھ کی صورت حال کا دوبارہ جائزہ لیا اور فوج کو حکم دیا کہ وہ جوناگڑھ، منگرول اور بابریواد کے علاقوں کو محفوظ بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرے-

بھارتی فوج کے چیف آف جنرل سٹاف نے کمانڈر کاٹھیاواڑ ڈیفنس فورس گردیال سنگھ کو 10 اکتوبر 1947ء کو ایک طویل اور تفصیلاً ہدایات جاری کیں- جن کے مطابق، ابتدائی طور پر بابریواد میں فوجیں داخل کرنے کی تیاریوں کا ذکر کیا گیا-[15]

اس کے علاوہ بھارتی نیوی اور ائیر فورس کے ایک مکمل سکاڈرن کی تعیناتی اور اس کی زمہ داریوں کا ذکر درج ہے-

اگر اس عرصہ کے دوران پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی سرکاری خط و کتابت کا جائزہ لیا جائے تو گفتگو کا مرکز و محور منگرول اور بابریواد کی قانونی حیثیت کے متعلق جاری رہتا ہے- بھارت کی طرف سےجونا گڑھ سے منسلک ان ریاستوں کے الحاق کے نام پر منگرول اور بابریواد کے ساتھ ساتھ جونا گڑھ پر فوجی چڑھائی کی منصوبہ بندی کو جاری رکھا گیا- حکومت پاکستان نے بھارت کو اس فوجی پیش قدمی سے باز رہنے کی متعدد بار تنبیہ کی-

بھارتی فوج نے اس تنبیہ کے باوجود اپنی پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے 22 اکتوبر 1947ءکو ریاست مناوادر پر قبضہ کر لیا- پاکستانی وزارت خارجہ نے بھارتی وزارتِ خارجہ کو لکھا کہ :

“Latest reports from Junagadh indicate that not only you have not evacuated Sardargarh and BANTVA but have even sent your troops to occupy MANAVADAR which has already acceded to Pakistan”.[16]

’’جوناگڑھ سے تازہ ترین اطلاعات اشارہ کر رہی ہیں کہ نہ صرف آپ نے سردار گڑھ اور بانٹوا کو خالی نہیں کیا بلکہ یہاں تک کہ مناوادر پر قبضہ کرنے کے لیے اپنی فوج بھیج دی ہے جو پہلے ہی پاکستان سے الحاق قبول کر چکا ہے‘‘-

23 اکتوبر 1947ء کو ہونی والی ڈیفنس کمیٹی میں سردار پٹیل نے اپنی تشدد اور جارحیت پر مبنی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ منگرول اور بابریواد پر فوجی کاروائی نہ کرنا بھارت کی ریاستوں کے متعلق پالیسی کمزوری ظاہر کر رہی ہے- انہوں نے ریاست حیدرآباد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کمزور پالیسی اختیار کرنے سے حیدر آباد کے ساتھ بات چیت متاثر ہوگی-[17]

جونا گڑھ پر بھارتی فوج کشی کی ترتیب:

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ 24 ستمبر 1947ء کو بھارتی کابینہ کی جانب سے سردار گردیال سنگھ کی سربراہی میں ایک پوری بریگیڈ اور کاٹھیاواڑ کی ریاستوں کی فورسز پر مشتمل کاٹھیاواڑ ڈیفنس فورس کو جونا گڑھ کے اردگرد تعینات کرنے کا حکم مل گیا تھا- اس کے علاوہ 4 اکتوبر 1947ء کو منگرول اور بابریواد کی متنازع حیثیت کا سہارا لیتے ہوئے بھارت نے اپنی فورسز داخل کرنے کا منصوبہ بنایا - جس کے لئے بھارتی فوج کے چیف آف جنرل سٹاف نے کمانڈر کاٹھیاواڑ ڈیفنس فورس گردیال سنگھ کو 10 اکتوبر 1947 کو ایک طویل اور تفصیلاً ہدایات جاری کیں- جن کے مطابق، ابتدائی طور پر بابریواد میں فوجیں داخل کرنے کی تیاریوں کا ذکر کیا گیا تھا-[18] اس میٹنگ کے بعد جام نگر میں واقع نمبر 8 سکواڈرن رائیل انڈین ائیر فورس نے انڈین یونین کے عزم کی علامت کے طور پر جوناگڑھ کے اوپر کچھ نچلی سطح کی تیز رفتار پرواز کی- چونکہ ریاست جونا گڑھ کا کراچی سے سمندری راستہ بہت کم تھا اور ممکنہ طور پر پاکستان کی طرف سمندری امداد پہنچنی تھی- اس لئے ابتدائی طور پر بھارتی نیوی کی جانب سے بحیرہ عرب سے پاک بحریہ یا فوج کے جوناگڑھ پر بھارتی قبضے کے عمل میں کسی رکاوٹ کو روکنے کے لیے کاٹھیاواڑ کے ساحل پر ایک آرمی ٹاسک فورس کو اتارنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا- 10 اکتوبر 1947ء کو نیول ہیڈ کوارٹرز میں چیف آف اسٹاف کموڈور MHSL Nott کی منصوبہ بندی اور کنٹرول کے تحت، تین فریگیٹس کرشنا، کاویری اور جمنا، تین فلیٹ مائن سویپرز کونکن، مدراس اور روہیل کھنڈ، تین لینڈنگ کرافٹ ٹینکوں پر مشتمل ایک بحری فوج، ایل سی ٹیز، 1310، 1358 اور 360 اور ایک موٹر لانچ ایم ایل 420 کو کمانڈر آر ڈی کٹاری (جو بعد میں ایڈمرل اور چیف آف دی نیول اسٹاف بنے) کی کمان تیار کیا گیا- جونا گڑھ کے لئے تیار کی گئی فورس کو یہ کام تفویض کیا گیا تھا کہ کاٹھیاواڑ کے ساحل پر پوربندر، جعفرآباد اور مینگرول پر اسلحہ، سازوسامان اور ہتھیاروں کے ساتھ تین کالموں کی فوج کا لینڈنگ کرنا تھا- جمنا کے ذریعے ساحل سمندر کے ہائیڈرو گرافک سروے کے بعد، پہلا کالم، جس کا کوڈ نام ’’نامڈ‘‘ تھا، پوربندر میں کِستنا، کاویری، کونکن اور مدراس، LCTs 1310,1358 اور 1360 اور Ml 420 کو 05 اکتوبر 1947ء کو اتارا گیا- کالم ’’جفکول‘‘ کرسنا، جمنا اور کونکن اور LCTs l358 اور 13S0 کو 17 اکتوبر 1947 کو جعفرآباد میں اور تیسرا کالم، رتکول، کرسنا، کاویری، کونکن، روہیل کھنڈ اور ایم ایل 420 ،1 نومبر 1947 منگرول میں اتارا گیا-[19]

15اکتوبر 1947 کو ہونے والی پانچویں ڈیفنس کمیٹی کی میٹنگ میں جو ڈرافٹ اعلامیہ جاری کیا گیا اس کے مطابق:

  1. 25ویں کماؤن رجمنٹ کے ڈوگروں کی ایک کمپنی کو کاٹھیاواڑ میں میجر شیام رتن کی کمان میں رائل انڈین انجینئرز کے دستوں کے ساتھ، انڈین کور آف سگنلز اور انڈین آرمی میڈیکل کور، کو رائل انڈین نیوی کے جہازوں سے جعفرآباد میں 17 اکتوبر 1947ء کو اتارنے کی منصوبہ بندی کی گئی- اس کے علاوہ حصہ لینے والے بحری جہاز sloops HMIS Kistna ہیں (کمانڈر آر ڈی کٹاری، آر آئی این، سینئر آفیسر) اور ایچ ایم آئی ایس جمعہ، فلیٹ مائن سویپر HMIS کونکن اور ٹینک لینڈنگ کرافٹ نمبر 1358 اور 1360 شامل تھے-
  2. فوجیوں کو اترنے کے بعد HMIS کستنا بھاو نگر کے قریب سے مول دوارکا اور کوڈینار (Baroda) کا دورہ کرنا تھا- رائل انڈین نیوی کے جہازوں کا دوسرے کاٹھیاواڑ بندرگاہوں کا دورہ بھی بندوبست کیا گیا-
  3. حکومت ہند نے راجکوٹ میں بھی ایک پورے بریگیڈ گروپ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا - یہ تشکیل ہندوستان کی فوجی اکائیوں اور بڑودہ، بھاونگر، نواں نگر اور پوربندر کی فوج اور دستے پر مشتمل تھی- جس کی کمانڈ بریگیڈیئر گوردیال سنگھ کو سونپی گئی-
  4. 8 نمبر سکواڈرن رائل انڈین ایئر فورس نے اسکواڈرن لیڈر  P. S. Gill کی کمان میں جو کہ ٹیمپیسٹ طیارے پر مشتمل تھا، کو کاٹھیاواڑ میں تعینات کیا -[20]

جب جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق ہوگیا تو بھارت اور دیگر ریاستوں کی فوجیں سب سے پہلے ریاست کے اردگرد جمع ہوئیں تاکہ ریاست کے خلاف Offensive Tactics استعمال کر کے ریاست کا پاکستان سے الحاق کو واپس کیا جا سکے- بھارت نے 22 اکتوبر کو مناوادر جبکہ یکم نومبر 1947ء کو بھارتی فورسز نے کاروائی کرتے ہوئے منگرول اور بابریواد پر بھی قبضہ کر لیا- جب ریاست جونا گڑھ کی جانب سے پاکستان سے الحاق واپس کرنے کیلئے دباؤ کسی کام نہیں آیا اور بھارت کے تمام حربے ناکام ہوئے تو بھارت نے مناوادر ، منگرول اور بابریواد کے بعد 9 نومبر 1947ء کو ریاست جونا گڑھ میں فوجیں داخل کیں- 9 نومبر کو ہندوستانی فوج جوناگڑھ میں داخل ہوئی-بھارت کے وزیراعظم نہرو نے رسمی طور پر پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کو اس اقدام سے آگاہ کیا- ایڈمرل ستیندرا سنگھ نے بحریہ کے جونا گڑھ آپریشنز کے لیے ہندوستانی فوج کو لینڈ کرنے کے منصوبے کو ’’امن کی مشق‘‘ Operation Peace کا نام دیا- ریاست جونا گڑھ پر قبضے کے بعد 8 دسمبر کو، نئی دہلی میں لیاقت علی خان کے ساتھ ایک ملاقات میں، جیسا کہ ماؤنٹ بیٹن نے ریکارڈ کیا ’’پنڈت نہرو نے کھلے عام اعتراف کیا کہ بھارت جوناگڑھ کے بارے میں کسی نہ کسی طریقے سے غلط تھا‘‘-[21]

اختتامیہ:

بھارت کی برطانوی راج سے آزادی کے بعد اگر باقاعدہ طور پر پہلی فوجی کاروائی اور اس کی جارحیت کا جائزہ لیا جائے تو واضح معلوم ہوتا ہے کہ وہ  غیر قانونی قبضہ (Illegal Occupation) کیلئے تھی- اس وقت کی بھارتی لیڈر شپ خصوصاً آئرن مین آف انڈیا سردار ولبھ بھائی پٹیل اور نہرو کی سوچ و فکر اور جارحانہ اندازکو جب ان کی اپنی گفتگو اورکئے جانےوالے عمل سے جانچا اور پرکھا جائے تو اس بات میں کوئی دورائے پیدا ہی نہیں ہوتی ہے کہ ان کی متشددانہ ذہنیت ہی پاکستان کی سرزمین جونا گڑھ پرفوجی طاقت کے زور پر غیر قانونی قبضے کا باعث بنی- Unbiasedاور Objective تجزیہ ہمیں اس نقطہ پر پہنچاتا ہے کہ بھارت کے ہمیشہ سے ہمسایہ خصوصاً پاکستان کے خلاف Territorial Disputes کی وجہ ہی ’’اکھنڈ بھارت‘‘ اور ’’ہندوتوا نظریات ‘‘ کی تکمیل رہی ہے جو ذہنیت آج Butcher of Gujrat کی صورت میں بھارت پر حکمرانی کر رہی ہے-

حالیہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، پاکستان کے علاقوں میں دراندازی، افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا، چین کے ساتھ بارڈر پر جھڑپیں، نیپال ، بھوٹان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ سرحدی تنازعات نہ صرف 1947ء والی بھارتی قیادت کی ذہنیت کا تسلسل بلکہ عملی عکاسی ہے-

٭٭٭



[1]M.A Jinnah to Mountbatten see, Jinnah Papers. Vol. 8 Document No 165.

[2]Hudson, H. V. (1969). The Great Divide: Britain, India, Pakistan. Hutchinson Radius.

[3]JP. Document No 166.

[4]Hudson, Great Divide.

[5]Bhasin, Avtar.Singh. India–Pakistan Relations 1947–2007 A Documentary Study. Published in Cooperation with Public Diplomacy Division Ministry of External Affairs of India. Vol, 6. Document No 1939

[6]Ibid, Document No 1940

[7]Ibid, Document No 1948

[8]Selected Works of Jawaharlal Nehru; Second Series; Vol. 4, page 425

[9]Telegram from Pakistan Foreign Office to Indian Ministry of External Affairs, Bhasin, Avtar.Singh. Document No. 1952

[10]JP, vol.8, Document No 179.

[11]Hudson. The Great Divide.

[12]Telegram from Mountbatten to Nehru. JP. Vol 8 Document No 183

[13]JP. Vol 8 Document No 186

[14]The minutes of the Defense Committee, Bhasin, Avtar.Singh. Document No. 1967

[15]ibid

[16]Telegram from Pakistan Foreign Office to Indian Ministry of External Affairs, Bhasin, Avtar.Singh. Document No. 1983

[17]The minutes of the Defense Committee, Bhasin, Avtar.Singh. Document No. 1985

[18]ibid Document No 1974

[19]Rear Admiral Satyendra Singh AVSM, From Blueprint to Bluewater, The Indian Navy 1951-1965, Pp 29

[20]The Minutes of Defense Committee JP Document No , 205.

[21]The Statesman; September 21, 1997SWJN; Vol.4, page 362

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر