مقبوضہ کشمیر میں G-20 اجلاس اور بھارت کے مذموم عزائم

مقبوضہ کشمیر میں G-20 اجلاس  اور بھارت کے مذموم عزائم

مقبوضہ کشمیر میں G-20 اجلاس اور بھارت کے مذموم عزائم

مصنف: محمد محبوب جولائی 2023

 ابتدائیہ:

کہتے ہیں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس- شاید یہ مقولہ اکثر مواقع پر جب طاقت کا اندھا دھند استعمال ہو، لا قانونیت اور ظلم و بربریت کا بازار گرم ہو، ظالم کا ظلم عروج پر ہو تو سچ ثابت ہو- آج جس گلوبل ویلیج، میڈیا اور سوشل میڈیا کے دور میں ہم زندہ ہیں وہاں طاقت کے زور پر مظلوم کو خوف زدہ تو کیا جاسکتا ہے، حتی کہ معاشروں میں خوف و ہراس بھی پھیلایا جا سکتا ہے لیکن ظلم اور بربریت کو خوشنمائی پردوں میں لپیٹ کر نہ چھپایا جا سکتا اورنہ اس سے مظلوموں کی آواز کو دبایا جا سکتا ہے- دنیا کے سامنے فریب، جھوٹ اور مکاری کی بنیاد پر ڈرامہ رچا کر گمراہ نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ پوری طرح حقیقت عیاں ہو- ہاں!یہ الگ بات ہے کہ شاید اپنے ذاتی اور معاشی تعلقات و مفادات کی خاطر دنیا کے کچھ ممالک حقیقت دیکھنے سے عاری ہوں لیکن سچ بہر طور سچ ہی رہتا ہے- دنیا ہمیشہ ’’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘‘ کے اصولوں پر نہیں چلتی اور نہ  ہی چل سکتی ہے- اگر ایسا ہوتا تو اقوام متحدہ نہ بنتی- سلامتی کونسل نہ بنتی، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نہ بنتی اور حتی کہ مہذب کہلائے جانے والے معاشروں میں یورپی یونین کا قیام بھی عمل میں نہ آتا- اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بین الاقوامی نظم و نسق اور کاروبار کو چلانے کے لئے ہمیشہ سے اصول، ضوابط اور قوانین کی ضرورت رہی ہے-

تمہید سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت، سیکولرازم کے لبادے میں چھپی چنگیزیت اور اقلیتوں پر مظالم ڈھانے والی سامراجیت، بھارت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ طاقت اور زور سے مظلوموں پر ظلم تو کیا جاسکتا ہے لیکن آج کی دنیا میں اسے چھپانا ناممکن ہے- آج کی دنیا کے کونے کونے میں بیٹھا شخص میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعے حالات و واقعات سے باخبر ہے- بھارت، گزشتہ ستر برسوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر پر غیر قانونی قبضہ جمائے بیٹھا ہے- بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اپنے حق خودارادیت کے حصول کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو کچل کر لاکھوں افراد کو شہید اور زخمی کر چکا ہے- ہزاروں بے گناہ افراد جیلوں میں بند ہیں- حتی کہ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے جنت نظیر وادی میں قیامت برپا کر رکھی ہے- مقبوضہ جموں و کشمیر، دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکی ہے- ہر طرف کریک ڈاؤن اور کرفیو کا نفاذ ہے- بھارت نے دنیا کے کشمیریوں پر اپنے مظالم اور مکروہ چہرے کو چھپانے کےلئے G-20 ممالک کے ٹورازم ورکنگ گروپ کی میٹنگ منعقد کی جس میں اسے پوری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا- اس اجلاس کے انعقاد سے بھارت کو منہ کی کھانی پڑی-

زیر نظر مضمون میں بھارتی پالیسی ، اس کے پسِ پردہ عزائم اور ان کے مضمرات سمجھنے کی کوشش کریں گے -

جموں و کشمیر کی مقبوضہ حیثیت:

اگر آسان اور سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو عالمی سطح پر، بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کے تحت جبکہ اقوام متحدہ کی درجنوں قراردادوں کی روشنی میں جموں و کشمیر، پاکستان اور بھارت کے مابین ایک متنازعہ علاقہ ہے- جس کے مستقبل کا فیصلہ حق خود ارادیت کے تحت اس کی عوام طے کریں گے- مسئلہ کشمیرپر 1948ء میں چار قرار دادیں منظور ہوئی- 1950ء میں ایک قرار داد، 1952ء میں ایک قرار داد، 1957ء میں تین قرار دادیں اس مسئلہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش ہو چکی ہیں- اس کے علاوہ 1965ء میں پانچ مختلف قراردادیں اور کشمیر تنازعہ کے متعلق فیصلے منظور ہوئے- اسی طرح 1971ء میں دو قرار دادوں میں مسئلہ کشمیر کا ذکر تھا- یوں آج تک مسئلہ کشمیر پر ایک درجن سے زائد قراردادیں منظور ہو چکی ہیں- اگر ان کا ماخذ بیان کیا جائے تو اس کے مطابق:

“Question of accession of Jammu and Kashmir should be decided through democratic methods of free and impartial plebiscite”.[1]

’’جموں و کشمیر کے الحاق کے سوال کا فیصلہ، آزادانہ اور جمہوری طریقوں سے غیر جانبدارانہ رائے شماری سے ہونا چاہیے‘‘-

بھارت نے خود کئی مواقع پر کشمیریوں سے حق خود ارادیت دینے کا وعدہ دے رکھا ہے-

“The people of Kashmir would decide the question of accession. It is open to them to accede to either Dominion then”.[2]

’’الحاق کا فیصلہ کشمیری عوام کریں گے- یہ ان کے لیے کھلا ہے کہ وہ دونوں میں سے کسی ایک کو ڈومینین تسلیم کریں ‘‘-

اس سے واضح ہوا کہ جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے جو ابھی تک حل طلب ہے- چنانچہ اس علاقے پر غیر قانونی اور غاصبانہ قبضہ کو نہ کشمیری عوام مانتی ہے اور نہ عالمی قوانین اس کی اجازت دیتے ہیں-

متنازعہ علاقہ کے متعلق عالمی قوانین:  

جب کسی دو ممالک کے مابین کسی علاقہ کا تنازعہ ہو تو اسے بین الاقوامی قانون کی زبان میں متنازعہ علاقہ (Disputed Territory) کہتے ہیں- قبضے کا قانون International humanitarian law (IHL) کی ایک شاخ ہے جو کسی علاقے پر قبضے کی تعریف اور مقبوضہ علاقے اور آبادی کے تئیں، قابض طاقت کی ذمہ داریوں کو مرتب کرتا ہے- دی ہیگ ریگولیشنز آرٹیکل 42 کے تحت، کسی علاقے کو اس وقت مقبوضہ سمجھا جاتا ہے جب اسے دراصل دشمن فوج کے اختیار میں ہوتا ہے- قبضہ صرف اس علاقے تک سمجھا جاتا جہاں قابض طاقت کی طرف سے اختیار (Authority) قائم کیا گیا ہو- جب تک متنازعہ علاقہ کی حیثیت واضح نہیں ہو جاتی یا اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہو جاتا جو ملک بھی اس علاقہ پر قابض ہوگا اس ملک پر کچھ عالمی قوانین لاگو ہوتے ہیں- مثلاً چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل (6) 49 کے مطابق، قابض طاقت مقبوضہ علاقوں کی حیثیت تبدیل نہیں کرے گی-

“[t]he Occupying Power shall not deport or transfer parts of its own civilian population into the territory it occupies”.[3]

’’قابض طاقت اپنی شہری آبادی کے کچھ حصوں کو اس کے زیر قبضہ علاقے میں جلاوطن یا منتقل نہیں کرے گی‘‘-

بھارت نے تو حالیہ 5 اگست 2019ء کو عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو روندتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے اپنے یونین علاقوں میں ضم کر دیا ہے- بھارت نے نہ صرف ضم کیا ہے بلکہ وہ جغرافیائی تبدیلیاں کر کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کر رہا ہے- اگر ہم 1907 Hague Regulations کے Article 55 کا مطالعہ کریں تو واضح ہے کہ قابض طاقت کا مقبوضہ علاقوں پر صرف عارضی، انتظامی بنیادوں پر سمجھا جاتا ہے- اس سے یہ معلوم ہوتا ہے قابض طاقت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ مقبوضہ علاقوں پر رائج عالمی قوانین اور اصولوں کے منافی کوئی اقدامات اٹھائے۔ 

بھارت کا متنازع علاقہ میں G-20 میٹنگ کا اعلان اور پاکستان  کاردعمل:

بھارت نے یکم دسمبر 2022ء کو جی20گروپ کی صدارت سنبھالی تھی- دی انڈین ایکسپریس کی 24 جون 2022ء کی خبر کے مطابق بھارت، جموں و کشمیر میں بھی G-20 گروپ کا ایک اجلاس منعقد کروائے گا- اس کے لئے بھارتی وزارت خارجہ نے بہت پہلے تقریباً 4 جون کو مقامی حکام کو ضروری انتظامات کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کر دی تھیں-[4]

اس موقع پر پاکستان نے اپنا شدید ردعمل پیش کیا اور احتجاج جمع کروایا- 26 جون 2022ء کو پاکستان نے انڈیا کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر ’’بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے‘‘-

پاکستان نے یہ بھی کہا کہ :

’’توقع کی جاتی ہے کہ بھارت کی طرف سے ایسی کسی متنازعہ تجویز کی صورت میں، جو 7 دہائیوں سے جاری غیر قانونی اور ظالمانہ قبضے کے لیے بین الاقوامی جواز تلاش کرنے کیلئے تیار کی جائے گی، جی 20 کے اراکین قانون اور انصاف کے تقاضوں سے پوری طرح آگاہ ہوں گے اور اسے یکسر مسترد کر دیں‘‘-

مزیدپاکستان نے واضح کیا کہ :یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گزشتہ 7 دہائیوں سے ایک نامکمل ایجنڈا ہے- جموں و کشمیر کے متنازع حیثیت کی وجہ سے عالمی برادری اس اجلاس کو کسی صورت قبول نہیں کر سکتی‘‘-[5]

پاکستان کی بھرپور سفارتی کوششیں:

 سری نگر میں G-20 سربراہی اجلاس شروع ہونے سے پہلے، پاکستان نے کشمیر کی ’’متنازعہ حیثیت ‘‘ اور بھارت کے 5 اگست کے غیرقانونی اقدام کو زیادہ زوردار انداز میں اجاگر کرنے کیلئے اپنے تمام سفارتی چینلز کو فعال کر دیا-اس لئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے متعلق بھارتی عزائم کو بھانپتے ہوئے پاکستان نے سفارتی محاذ پر اپنی کاوشوں کو تیز کیا- اگر اجلاس کے انعقاد میں شرکت اور ردعمل کو دیکھا جائے تو پاکستان کو سفارتی محاذ پر حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں- مثلاً چین کا واضح انکار اور کشمیر کی متنازع حیثیت کا ذکر، سعودی عرب، انڈونیشیا اور ترکی کا اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اور رکن ممالک کا انتہائی نچلے درجے کی شرکت، اس بات کی نشاندہی ہے کہ پاکستان نے سفارت کاری کے میدان میں کامیابی حاصل کی- پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس کے لیے اپنے حالیہ دورہ بھارت کے دوران جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور G-20کی میٹنگ کے انعقاد پر بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا-

رکن ممالک اور عالمی سطح پر ردعمل:

بھارت کے اس غیر قانونی اقدام کا نہ صرف G-20 رکن ممالک بلکہ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری سے بھی ردعمل آیا- اس حوالے سے چین کا ردعمل انتہائی قابل تعریف ہے- چین نے واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’’چین متنازعہ علاقوں میں جی- 20 کا کوئی بھی اجلاس بلانے کی بھرپور مخالفت کرتا ہے اور ایسی کسی بھی میٹنگ میں شرکت نہیں کی جائے گی‘‘-[6] اسی طرح رکن ممالک سعودی عرب، ترکیہ، مصر اور انڈونیشیا بھی اس اجلاس سے دور رہے جبکہ دیگر ممالک نے نیو دہلی میں موجود اپنے اپنے نمائندوں کو سری نگر نہیں بھیجا- اس حوالے سے اقوام متحدہ کے خصوصی نامہ نگار برائے اقلیتی مسائل فرنینڈ ڈی ورینس نے جی 20 کے سری نگر میں اجلاس کے بارے میں کہا کہ:

بھارت کی جانب سے 2019ء کے بعد مقبوضہ کشمیر پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شدید اضافہ ہوا ہے-[7]

 انہوں نے خبردار کیا کہ :

’’بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں اپنے فوجی قبضے کو معمول بنانے کی کوشش کر رہی ہے‘‘-

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے اس سے قبل اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو بتایا کہ ’’کشمیر کے علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال تشویشناک ہے‘‘-[8]

خصوصی رپورٹ میں ایک بیان جاری کیا گیا جس میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا کہ جموں و کشمیر میں تشدد، ماورائے عدالت قتل، کشمیری مسلمانوں اور اقلیتوں کی سیاسی شرکت کے حقوق سے انکار، جمہوری حقوق کی معطلی جیسی خلاف ورزیاں شامل ہیں- 2019ء سے اب تک اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں حالات شدید خراب ہو گئے ہیں اور ماہرین کو ان حالات کے مزید بگڑنے کے شدید خدشات ہیں- جی -20 ایک ایسے وقت پر منعقد کی جا رہی ہے جب مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں، غیر قانونی اور من مانی گرفتاریاں، سیاسی ظلم و ستم، پابندیاں اور حتی کہ آزاد میڈیا اور انسانی حقوق کے محافظوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے- بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریاں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلامیہ کو اب بھی جی -20 جیسی تنظیموں کے ذریعہ برقرار رکھا جانا چاہیے- انہوں نے مزید کہا کہ ’’مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کی مذمت کی جانی چاہیے، اس اجلاس کے انعقاد کے ساتھ ہی اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے‘‘-

عالمی میڈیا اور بین الاقوامی سطح پر ردعمل:

عالمی میڈیا اور بین الاقوامی سطح پر ایسے آزادانہ حلقوں، جو کشمیریوں پر ہونے والے مظالم سے بخوبی آگاہ ہیں، نے رچائے جانے والے ڈرامے کے خلاف اپنی بھر پور آواز اٹھائی- بھارت کی اپنی نیوز ایجنسی دی وائر نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا کشمیر میں جی-20 اجلاس نے سیاحت یا افراتفری کو اجاگر کیا؟[9]

الجزیرہ اور اے پی نیوز کے مطابق، جی -20 ایونٹ کے انعقاد سے، بھارت متنازعہ کشمیر میں ’’حالات معمول پر‘‘ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے-دی وائر نے یہ بھی لکھا کہ جہاں میٹنگ کا فوکس کشمیر کی سیاحت کو ظاہر کرنا تھا، وہیں بڑا مقصد خطے میں ’معمول کےحالات‘ کی واپسی کو بھی اُجاگر کرنا تھا- لیکن اس اجلاس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ( مقبوضہ جموں و کشمیر کے متعلق) بنیادی مسائل پر بھی توجہ مرکوز ہوئی- دی وائر کے مطابق، مقامی سیاسی رہنماؤں نے نشاندہی کی کہ اس تقریب سے پہلے ہی بھارتی قابض فورسز نے وادی میں گرفتاریوں کی ایک نئی لہر شروع کر دی تھی اور اس تقریب کے دوران بہت سے نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا تھا-نیویارک میں قائم صحافیوں کی تنظیم سی پی جے نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میڈیا کے خلاف اپنا وحشیانہ کریک ڈاؤن ختم کرے اور زبردستی طور پر نظر بند کئے گئے، چار کشمیری صحافیوں کو فوری رہا کرے-[10]

 

 

دی کنورسیشن نے لکھا کہ: بھارت G-20 سربراہی اجلاس کو مقبوضہ کشمیر میں اپنے آبادکار نوآبادیاتی عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے-[11]

معروف امریکی فلسفی، ماہر لسانیات اور سیاسی تجزیہ کار پروفیسر نوم چومسکی نے اپنے وڈیو پیغام میں جو بات کی ہے وہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے-

چومسکی نے کہا کہ :

’’جی- 20 کیلئے کسی بھی قسم کا اجلاس منعقد کرنا غیر معقول ہے- انہوں نے زور دیا کہ رکن ممالک مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں سیاحتی اجلاس سے گریز کریں‘‘-[12]

 کشمیر کے تنازع کی ابتداء پر گفتگو کرتے ہوئے، نوم چومسکی نےG-20 ممالک سے بھارت کی طرف سے کی جانے والی اس کوشش سے دور رہنے کی اپیل کی-دی گارڈین نے واضح الفاظ میں لکھا کہ:

’’جی-20 گروپ کی ہندوستانی صدارت، متنازعہ ہو گئی ہے، کیونکہ متنازعہ علاقے میں سیاحتی اجلاس منعقد کروایا‘‘-[13]

کشمیریوں کا ردعمل :

بھارت کے اس گمراہ کن اقدام پر کشمیریوں نے نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں شدید ردعمل کا اظہار کیا- مقبوضہ جموں و کشمیر میں رہنے والے کشمیری ہی بہتر جانتے ہیں کہ وہاں ان پر سخت سیکورٹی ، کرفیو، لاک ڈاؤن اور سالوں سے نافذ جنگل کے قانون میں کیا بیت رہی ہے- جہاں نہ تو بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری ہے اور نہ ہی انسانی اقدار کی حفاظت- میڈیا بلیک آؤٹ اور انٹرنیٹ کو بند کر کے سخت فوجی محاصرے میں رہنے والے کشمیری اپنی آواز عالمی برادری تک نہیں پہنچا سکتے - میٹنگ کے انعقاد کے موقع پر عالمی میڈیا کو کشمیریوں کی جانب سے دیے گئے انٹرویوز کے مطابق کشمیری عوام میں خوف، ڈر اور ہیجان انگیزی پھیلی ہوئی تھی- کانفرنس کے موقع پر الجزیرہ نے سری نگر میں مختلف افراد سے اس کے متعلق انٹرویوز کئے جنہوں نے خوف اور ڈر کی وجہ سے اپنی شناخت چھپاتے ہوئے کہ بتایا کہ ’’کسی بھی جگہ پر محض کانفرنس کے انعقاد سے تحفظ فراہم نہیں ہوتا ہے‘‘-ایک اور کشمیری نے کانفرنس کوجیسے ہمارے مصائب پر پردہ ڈالنا (like putting a lid on our miseries )قرار دیا ہے- [14] حتی کہ بھارت کی حامی جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی اجلاس کے متعلق کہا کہ بھارت نے محض سیاحت پر میٹنگ کرنے کے لیے خطے کو گوانتاناموبے جیل کے برابر بنا دیا ہے- انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی، اپنے پروموشنل مقاصد کے لیےG-20 کو ہائی جیک کر رہی ہے-[15]کشمیری سکالر اطہر ضیاء کے مطابق، آبادکار نوآبادیاتی سیاق و سباق میں سیاحت سامراجی سیاست کی توسیع ہے- یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے نوآبادیاتی زمینوں کو ایک بالادستی ریاست کے ذریعے جذب کیا جاتا ہے-[16] لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب آباد کشمیریوں اور دنیا بھر میں مکمل ہڑتال کی گئی اور اس اقدام کے خلاف اپنی ناراضگی اور غم و غصے کے اظہار کے لیے مظاہرے کیے گئے، جس نے بین الاقوامی قبولیت پر سوالات اٹھائے-اس ہڑتال کی کال کل جماعتی حریت کانفرنس نے دی- کشمیریوں نے لندن،

 

برسلز، نیویارک اور واشنگٹن سمیت دنیا کے بااثر دارالحکومتوں میں احتجاجی مظاہرے کیے اور رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کو اپنے عہد کی پاسداری کرنے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے پر آمادہ کریں- ’’مقبوضہ کشمیر میں جی -20 کو نہیں کہو‘‘، ’’بھارت کشمیر چھوڑ دو‘‘ اور ’’کشمیر کو ڈی کالونائز‘‘ کے پیغامات چمکانے والے ڈیجیٹل اشتہاری ٹرک واشنگٹن میں کیپیٹل ہل کے اطراف میں سڑکوں پر گھومتے نظر آئے-[17]

سری نگر میں G-20 کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کے وزیر خارجہ نےکشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے آزاد کشمیر میں واضح طور پر کہا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے جس کا دفاع ہر صورت کیا جائے گا، کشمیرسے متعلق پالیسی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی آئے گی، پاکستان کی حکومت ہمیشہ کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہو گی‘‘-

اجلاس کا انعقاد اور سری نگر سمیت، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال:

 بھارت نے 22 سے 24 مئی تک سخت فوجی محاصرے، کرفیو اور لاک ڈاؤن کی صورتحال میں اجلاس کا انعقاد کیا- جی -20 کے ورکنگ گروپ کا تیسرا اجلاس کڑے سکیورٹی حصار میں سرینگر کے انٹرنیشنل کنوینشن سینٹر میں منعقد ہوا- جھیل ڈل کے کنارے واقع اس سینٹر کے ارد گرد پانچ کلومیٹر کا علاقہ سیل کیا گیا تھا اور انڈین بحریہ کے خصوصی کمانڈوز ’مارکوس‘ جھیل میں تعینات تھے- اس اجلاس میں چین، سعودی عرب، انڈونیشیا اور ترکیہ نے شرکت سے معذرت کی جبکہ باقی رکن ممالک نے احتیاط برتتے ہوئے مقامی نمائندوں کو اجلاس میں بھیجا- اجلاس سے کئی ہفتوں پہلے بازار اور سکولوں کو بند کیا گیا- کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے مار کر متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا- بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں فوجی بنکرز، جو کشمیر میں ایک عام نظر آتے ہیں، انہیں نظر سے چھپانے کیلئے جی 20 بینرز سے ڈھانپ دیا گیا تھا- ایلیٹ سیکورٹی فورسز بشمول میرین کمانڈوز، نیشنل سیکورٹی گارڈز، بارڈر سیکورٹی فورس اور پولیس فورس کو جگہ جگہ تعینات کیا گیا تھا- میرے خیال کے مطابق دیکھنے والوں کو سچ کے ساتھ ساتھ تحریکِ آزادی کا جذبہ پورے جوش سے نظر آگیا ہے ، عالمی منافق بھلے اپنا مکروہ چہرہ چھپانے کی کوشش کرتے رہیں -

بھارت کے مذموم مقاصد:

بھارتی قیادت کی طرف سے اپنی مکاری کے تحت، اصل زمینی حالات و واقعات سے بے خبر دنیا کو اس حد تک دھوکہ دیاگیا کہ دنیا کی سب سے بڑی انسانی جیل کو سیاحت کا مرکز بنا کر پیش کرنے کی جسارت کی گئی مگر لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ کشمیر کا اسپیشل سٹیٹس ختم ہونے کے بعد چار سال کی اندھیری رات سہہ کر بھی آزادی کے متوالے غاصب قوت کے سامنے سینہ سپر ہیں - گزشتہ سات دہائیوں اور خصوصاً حالیہ اگست 2019ء کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر ظلم و بربریت کا ایک منظر پیش کر رہا ہے- جہاں طاقت کے زور پر انسانی حقوق اور اقدار کو پامال کیا جا رہا ہے- ایسے حالات میں جنت نظیر کشمیر G-20 ممالک کے سیاحتی شعبے کا اجلاس منعقد کروانا، دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا- اس اجلاس کے انعقاد سے بھارت مندرجہ ذیل مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا:

  1. جی- 20، جس میں دنیا کے 19 امیر ترین ممالک کے علاوہ یورپی یونین شامل ہیں، عالمی اقتصادی پیداوار کا 85فیصد اور دنیا کی آبادی کا دو تہائی حصہ ہے، کے سامنے بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر پر ناجائز قبضے کو بین الاقوامی سطح پر قبولیت دلوانا چاہتا تھا-
  2. بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں، گزشتہ 70برسوں اور حالیہ تین چار برسوں میں ڈھائے جانے والے مظالم کو ’’سیاحت ‘‘کے لبادے میں پیش کرنا چاہتا تھا-
  3. دنیا کے اہم ترین ممالک کو مقبوضہ علاقوں میں بلا کر حالات کو نارمل دکھانے کی مذموم کوشش تھی-
  4. بھارت کی یہ سازش تھی دنیا کے سامنے مقبوضہ علاقوں کی حیثیت کو ، بطور بھارتی علاقے بنا کر پیش کئے جائیں-
  5. پاکستان کا مقبوضہ جموں و کشمیر کے متعلق ایک اصولی مؤقف رہا ہے- بھارت اس اجلاس کے انعقاد سے سفارتی محاذ پر پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا تھا-
  6. دوران اجلاس، کشمیر کی آزادی اور بھارتی قبضے کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو جیلوں میں ڈال کر، BJPرہنماؤں کو کشمیری عوام بنا کر، کشمیر کی جدوجہد آزادی کی تحریک کو ناکام بنانے کی کوشش کی گئی-

اختتامیہ:

بلاشبہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں G-20 کے اجلاس کے انعقاد سے بھارت اپنی چانکیائی اور مکارانہ چالوں سے دنیا کی آنکھوں میں بری طرح ناکام رہا ہے- چین کی عدم شرکت کے ساتھ ساتھ چین کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق واضح پوزیشن کہ یہ ایک ’’متنازعہ‘‘علاقہ ہے، نے اس مسئلہ کو مزید عالمی سطح پر نمایاں کیا ہے- اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دوست ممالک، سعودی عرب، ترکیہ اور انڈونیشیا کی عدم شرکت اور دیگر ممالک کی نچلی سطح پر شرکت بھارت کے لئے ایک واضح پیغام تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے- اقوام متحدہ کے اقلیتی امور کے نمائندے کا پیغام بھی انتہائی اہمیت کا حامل تھا- اگر مقبوضہ جموں و کشمیر، بھارت کا So-called اندورنی معاملہ اور Integral part ہوتا تو پورا گروپ بلاجھجک اس اجلاس میں شرکت کرتا- بھارت کی اس حرکت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو دوبارہ عالمی میڈیا اور بین الاقوامی برادری میں بطور مقبوضہ علاقہ نمایاں کر دیا ہے جو کہ بھارت کیلئے سفارتی ناکامی ہے- اس صورتحال میں اگرچہ پاکستان کو اجلاس منعقد نہ کروانے میں کامیابی حاصل تو نہ ہو سکی لیکن دوست ممالک اور بین الاقوامی سطح پر کشمیر کو نمایاں کرنے کی کامیابی ضرور ملی ہے- اس گروپ میں اکثر ایسے ممالک ہیں جو سلامتی کونسل میں کشمیریوں کو ’’حق خودارادیت ‘‘ کا وعدہ دے چکے ہیں ۔ ایسے ممالک کے بارے میں عالمی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ:

’’ایک طرف سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی حمایت اور دوسری طرف اسی مقبوضہ علاقے میں غاصب کی دعوت اڑانا غیر مہذب، بے اصول اور مضحکہ خیز حرکت ہے ‘‘-

٭٭٭



[1]United Nations Security Council Resolution No 47.

[2]India’s Commitment of Plebiscite for the People of Kashmir

https://na.gov.pk/en/print.php?content.php&id=85

[3]Article 49(6) of the fourth geneva convention

[4]J&K to host G-20 meetings in 2023:

https://indianexpress.com/article/india/jammu-and-kashmir-g20-meeting

[5]Mofa:https://mofa.gov.pk/press-release-503/

[6]China to Boycott G-20 Meet in Kashmir, Calls it Disputed Region:

https://www.bloomberg.com/news/articles/2023-05-20/china-to-boycott-g-20-meet-in-kashmir-calls-it-disputed-region

[7]https://twitter.com/fernanddev/status/1658026322772336640?t=upIM6nCMUmmkSW0Fbfx-vw&s=08

[8]https://pakobserver.net/un-rights-chiefs-worrying-hr-situation-in-kashmir-comment-unnerves-india/

[9]Did G20 Meet in Kashmir Highlight Tourism or Turmoil? –

https://m.thewire.in/article/diplomacy/did-g20-meet-kashmir-tourism-turmoil

[10]As India holds G20 meet, ‘brutal’ Kashmir media crackdown slammed

https://www.aljazeera.com/news/2023/5/23/as-india-holds-g20-meet-brutal-kashmir-media-crackdown-slammed

[11]https://theconversation.com/india-is-using-the-g20-summit-to-further-its-settler-colonial-ambitions-in-kashmir-205166

[12]https://youtu.be/ghmm6b0V4Fs

[13]https://www.theguardian.com/world/2023/may/22/china-saudi-arabia-boycott-g20-meeting-india-kashmir

[14]Is India projecting ‘normalcy’ in Kashmir by holding G20 meeting?

https://www.aljazeera.com/news/2023/5/17/is-india-projecting-normalcy-in-kashmir-by-holding-g20-meeting

[15]https://www.theguardian.com/world/2023/may/22/china-saudi-arabia-boycott-g20-meeting-india-kashmir

[16]https://theconversation.com/india-is-using-the-g20-summit-to-further-its-settler-colonial-ambitions-in-kashmir-205166

[17]https://www.radio.gov.pk/23-05-2023/kashmiris-protest-in-front-of-un-building-against-g20-meeting-in-kashmir

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر