پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ جونا گڑھ پر خط و کتابت (نومبر 1947-1951): ایک جائزہ

پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ جونا گڑھ پر خط و کتابت  (نومبر 1947-1951): ایک جائزہ

پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ جونا گڑھ پر خط و کتابت (نومبر 1947-1951): ایک جائزہ

مصنف: محمد محبوب فروری 2023

 ابتدائیہ: 

“It is necessary to state that Junagadh is on the agenda of the Security Council to be dealt with after the Kashmir dispute has been settled and cannot be as a dead issue”.[1]

’’یہ بتانا ضروری ہے کہ جوناگڑھ سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے جس سے مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد نمٹا جائے گا اور اسے ایک مردہ مسئلہ نہیں بنایا جا سکتا‘‘-

یہ الفاظ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے خط بنام جواہر لال نہرو (14 فروری 1950ء) کے ہیں جس میں بھارتی وزیراعظم کے سامنے جونا گڑھ پر پاکستان کا سرکاری موقف واضح کیا کہ جونا گڑھ کے مسئلہ کو مردہ نہ سمجھا جائے بلکہ سلامتی کونسل میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کے بعد جونا گڑھ کے مسئلے پر بات کی جائے گی-

بد قسمتی سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کو پچھلی سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل حل کرنے میں ناکام رہی ہے- اس کے علاوہ ایک درجن کے قریب قراردادیں بھی منظور ہو چکی ہیں لیکن کشمیری آج بھی انصاف کے حصول کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں-

اگر پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کے اقوام متحدہ کو بھیجے گئے بھارتی الزامات کے جواب میں درج کروائی گئی شکایات کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان نے صرف مقبوضہ جموں و کشمیر پر بات نہیں کی تھی بلکہ اس کے علاوہ جونا گڑھ سمیت پاکستان کے بھارت کے ساتھ متعدد مسائل کا ذکر کیا گیا تھا جو کہ حل طلب تھے-

پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعات کا ذکر کرتے ہوئے سرظفر اللہ نے تفصیلاً جونا گڑھ کا تذکرہ کیا تھا-ابتدائی دنوں میں جوناگڑھ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکاری سطح پر خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا جس سے پاکستان کے سرکاری مؤقف کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے-

پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان جب تک حیات تھے دونوں نے جوناگڑھ کے مسئلہ پر بھارت کے سامنے ہمیشہ پاکستان کا واضح موقف رکھا-لیکن بدقسمتی سے نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جوناگڑھ کے مسئلہ پر اتنی شدت سے بھارت کے ساتھ کبھی بات نہیں ہوئی جس طرح بانیان پاکستان کا موقف رہا تھا-

زیرنظرمضمون میں ہم نومبر 1947 ءمیں جونا گڑھ پر بھارتی قبضہ ہونے کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کےدور حکومت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکاری خط و کتابت کا تذکرہ کریں گے- یہ واضح رہےکہ سرکاری سطح پر وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد بھی پاکستان نے کئی بار جونا گڑھ کا مسئلہ اٹھایا لیکن طوالت سے بچنے کے لئے یہاں خط و کتابت کا تذکرہ صرف لیاقت علی خان کے دور حکومت تک محدود رہےگا جس کا مقصد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ بانیانِ پاکستان نے جونا گڑھ پر کبھی بھارت کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا تھا بلکہ ہمیشہ جونا گڑھ میں ہونے والے بھارتی مظالم اور دوہرے معیارات کو بے نقاب کرتے رہے -

سردار ولبھ بھائی پٹیل کا دورہ جونا گڑھ :

جونا گڑھ پر بھارتی قبضے کے بعد سردار ولبھ بھائی پٹیل نے جونا گڑھ کا دورہ کیا- جہاں انہوں نے عارضی حکومت کے کارکنوں (جنہوں نے جونا گڑھ کو تباہی کے دہانے پر لایا تھا) کے اجتماع کے سامنے تشدد، نفرت پر مبنی اور اشتعال انگیزانہ تقاریر کیں- اس دوران سردار پٹیل نے ریاست حیدرآباد ( جو کہ آزادی ہندایکٹ 1947ءکے تحت آزادی کی خواہاں تھی) کو بھی شدید الفاظ میں دھمکی دی کہ اگر وہ بھارت کے ساتھ الحاق نہیں کرنا چاہتی ہے تو جان لے کہ حیدرآباد کے ساتھ وہی کیا جائے گا جو جونا گڑھ کے ساتھ کیا گیا ہے-

“Patel’s speech at Bahaddin College, Junagadh, “If Hyderabad does not see the writing on the wall, it goes the way Junagadh has gone”.[2]

’’اگر حیدر آباد کو نوشتہ دیوار نظر نہیں آتا ہے تو اس کے ساتھ بھی وہی کیا جائے گا جس طرح جوناگڑھ کےساتھ کیا گیا ہے‘‘-

یہ ساری تقریر اس طرح کی گئی تھی جیسے کوئی غاصب اور قابض کسی کی زمین کو بزورقوت جبرا ًحاصل کرتا ہے ، اور بین السطور اکسایا گیا تھا ہندو انتہا پسندوں کے مسلح جتھوں کو نیز تشدد، مار دھاڑ اور خون خرابے کی ترغیب دی گئی تھی - اس تقریر میں حیدرآباد ریاست کو دھمکی دینے سے خود بھارت کی طرف سے کئے گئے اقدامات سے پردہ بے نقاب ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ علاقائی امن اور عالمی قانون کی دھجیاں بکھرتی نظر آتی ہیں ، کیونکہ مار دھاڑ وغیرہ کی ترغیب یو این چارٹر میں سختی سے منع کی گئی ہے -

بھارت نے ریاست جوناگڑھ کے قانونی حق کا احترام نہیں کیا:

جب کسی شاہی ریاست نے اپنا قانونی حق استعمال کرنا چاہا تو ہندو انتہا پسند مسلح جتھوں کو آگے رکھ کر بھارت اس ریاست پر چڑھ دوڑا چاہے حیدرآباد ہو یا جونا گڑھ ہر ریاست کے لئے بھارت کی واضح دھمکی تھی کہ یا تو بھارت کے ساتھ الحاق کیا جائے یا پھر خون خرابہ اور جنگ- بھارت نے جونا گڑھ میں انتہا پسند غنڈوں کے ذریعے ریاست کی انتظامیہ کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور یہی دھمکی حیدر آباد کو دی گئی-(حیدر آباد میں بھارتی اقدامات ویسے ہی تھے جیسے جونا گڑھ میں)-چاہے جونا گڑھ ہو یا حیدر آباد ، بھارت نے دونوں کو فوجی کاروائی کے بعد زبردستی حاصل کیا-

وزیراعظم لیاقت علی خان نے 16 نومبر 1947ء کو پریس میں ایک بیان جاری کیا اور یہی بیان وزیر اعظم نہرو کو بھی بھیجا گیا- جس میں سردار پٹیل کی جونا گڑھ میں پاکستان مخالف تقریر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جونا گڑھ میں بھارتی حکومت کی سرپرستی میں عارضی حکومت کی کاروائیوں نے ریاست کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا- لیاقت علی خان نے پاکستان کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ:

"The indisputable legal position is that in view of the State’s accession to Pakistan the Dewan had no right to proffer and the India Government had no right to accept the so-called invitation to the India Government to take over the administration of the State”.[3]

’’غیر متنازعہ قانونی پوزیشن یہ ہے کہ ریاست (جونا گڑھ) کے الحاقِ پاکستان کے بعد دیوان جونا گڑھ (وزیر اعظم جوناگڑھ)کو ہندوستان کو دعوت دینے کا کوئی حق نہیں تھا اور حکومت ہندوستان کو نام نہاد دعوت قبول کرنے اور ریاست کا نظم و نسق سنبھالنے کا کوئی حق نہیں تھا‘‘-

ریاستِ جونا گڑھ میں ریاستی مشینری کی تباہی:

وزیراعظم نہرو نے اپنے 17 نومبر 1947ء کے خط میں دیوان آف جوناگڑھ سر شاہنواز بھٹو کی بھارت کو جونا گڑھ کی انتظامی حکومت سنبھالنے کی درخواست کا ذکر کیا- اس کے بعد انہوں نے جونا گڑھ میں عارضی حکومت کے کارکنوں کو جونا گڑھ کے مقامی لوگوں کی حکومت قرار دے دیاجس کے جواب میں وزیر اعظم پاکستان نے 22 نومبر 1947ء کو وزیر اعظم نہرو کو واضح لکھا کہ:

India(n) Government deliberately created conditions which brought administration in Junagadh to the verge of breakdown”.[4]

’’بھارتی حکومت نے جان بوجھ کر حالات پیدا کئے جس نے جوناگڑھ میں انتظامیہ کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا‘‘-

آپ مزید لکھتے ہیں کہ ریاست جونا گڑھ اور دیوان کو حکومتِ پاکستان اور نواب آف جوناگڑھ کی جانب سے یہ ہدایات دی گئیں تھیں کہ :

“Our instructions to Junagadh State were that on no account should they do anything which lead to disorder or bloodshed”.[5]

’’جوناگڑھ ریاست کو ہماری ہدایات یہ تھیں کہ وہ کسی بھی صورت میں کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے فساد یا خونریزی ہو‘‘-

آپ نے یہ بھی لکھا کہ جونا گڑھ میں غیر مسلم آبادی مکمل طور پر محفوظ اور پر امن تھی جبکہ بھارتی حکومت نے جان بوجھ کر (نان سٹیٹ ایکٹرز کے ذریعہ) ریاست میں تشدد کو ہوا دی-

“Junagadh administration followed those instructions strictly and the non-Muslims in the State were perfectly safe. Nevertheless, the India Government persisted in their activities directed against the administration of Junagadh”.[6]

’’جوناگڑھ انتظامیہ نے ان ہدایات پر سختی سے عمل کیا اور ریاست میں غیر مسلم بالکل محفوظ رہے- اس کے باوجود، بھارتی حکومت نے جوناگڑھ کی انتظامیہ کے خلاف اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا‘‘-

ریاست میں لوٹ مار :

30 دسمبر 1947ء کو پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھارت کو جونا گڑھ سے پاکستان آنے والے مہاجرین کا آنکھوں دیکھا حال جس کے مطابق ریاست میں دہشت کا سماں، مسلمانوں کی قتل و غارت اور مال و اسباب کی لوٹ مار کے متعلق آگاہ کیا-

“In Bantwa alone Muslim property worth several crores is reported to have been looted and respectable and peaceful families deliberately dishonoured. All Muslim institutions are reported to have been closed down and a number of mosques and tombs desecrated”.[7]

’’اطلاع ہے کہ صرف بانٹوا میں ہی مسلمانوں کی کئی کروڑ کی املاک لوٹی گئیں جبکہ باعزت اور پرامن خاندانوں کی جان بوجھ کر بے عزتی کی گئی- تمام مسلم اداروں، متعدد مساجد کو بند کرنے اور مقبروں کی بے حرمتی کی گئی ہے‘‘-

پاکستان نے جونا گڑھ کے مختلف حصوں میں ہونے والے واقعات پر بھارت کو واضح کیا کہ :

“Pakistan Government cannot but regard these happenings with the gravest concern”.[8]

’’حکومت پاکستان کے حوالے سے یہ واقعات انتہائی تشویش دہ ہیں‘‘-

پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ نے1 جنوری 1948ء کو پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات پر پریس کانفرنس میں کئی مسائل کا ذکر کیا- اس دوران آپ نے جونا گڑھ پر گفتگو کرتے ہوئے بھارتی اقدامات کو’’ نازی جرمنی کے ہٹلر‘‘ کی کمزور ریاستوں کے خلاف جارحانہ پالیسی سے تشبیہ دی-

“As soon as Junagadh’s accession to Pakistan was announced a campaign was started against the state which was closely reminiscent of Nazi technique for overwhelming weaker neighbours”.[9]

’’جوناگڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان ہوتے ہی ریاست کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا گیا جو کمزور پڑوسیوں کے لیے نازی تکنیک کی قریب سے یاد دلاتی ہے‘‘-

وزیر خارجہ نے مزید معاشی ناکہ بندی اور عارضی حکومت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ :

Active help was afforded to the so called provincial Government by the officers and authorities of the Dominion of India. The treatment for which the Rulers of Manvadar and Mangrol were subjected again, brought to mind the methods of Hitler”.[10]

’’افسروں اور ڈومینین آف انڈیا کے حکام کی طرف سے نام نہاد صوبائی حکومت کو فعال مدد فراہم کی گئی- جس طرح مناوادر اور منگرول کے حکمرانوں کو نشانہ بنایا گیا ایک بار پھر، ہٹلر کے طریقوں کو ذہن میں لاتا ہے‘‘-

4 جنوری 1948ء کو کراچی میں وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان کی شاہی ریاستوں پر بھارتی قبضے کے متعلق کہا کہ :

India’s forcible occupation of Junagadh, Manavadar and others states in Kathiawar which acceded to Pakistan as well as the fraudulent procurement of the accession of Jammu and Kashmir State are acts of hostility against Pakistan whose destruction is Indias immediate objective.”[11]

’’جوناگڑھ، مناوادر اور کاٹھیاواڑ کی دیگر ریاستوں، جنہوں نے پاکستان سے الحاق کیا، پر بھارت کا زبردستی قبضہ کے ساتھ ساتھ دھوکہ دہی سے ریاست جموں و کشمیر کا الحاق (پاکستان کے خلاف) دشمنی کاروائیاں ہیں-پاکستان کی تباہی بھارت کا فوری مقصد ہے‘‘-

جیسےآج کل مقبوضہ جموں و کشمیر میں تین برس سے جاری بد ترین کرفیو کے باوجود مختلف مواقع پہ بھارتی نمائندے ڈھٹائی اور بے حیائی سے "سب کچھ اچھا" کا جھوٹا راگ الاپتے رہتے ہیں - بالکل ایسے ہی 6 جنوری 1948ء کو بھارتی وزارت خارجہ نے جونا گڑھ میں ہونے والی قتل و غارت اور لوٹ مار کو غلط بیانی قرار دیتےہوئے ریاست میں ’’ سب کچھ اچھا‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا- اس کے علاوہ وزارت خارجہ نے مسلمانوں پر الزامات عائد کئے کہ مسلمان ہندوؤں اور سرکاری املاک پر حملے کر رہے ہیں-

No War Declaration:

اعلان جنگ نہ کرنے کا اعلامیہ

حکومت پاکستان نے جنگ نہ کرنے’’No War Declaration‘‘ کرنے کی تجویز پر 3 دسمبر 1949ء کو Aide Memoire جاری کرتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا اور پاکستان اور بھارت کے مابین مسائل کے پر امن حل کیلئے جن مسائل کا ذکر کیا ان میں جونا گڑھ بھی شامل تھا- ان مسائل کی فہرست میں جونا گڑھ کا ذکر ان الفاظ میں بیان کیا گیا تھا -

“Junagadh and neighboring States that have acceded to Pakistan”.[12]

اس اعلامیہ میں حکومت پاکستان نے واضح کہا کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے کمیشن کو سونپا گیا ہے- اگر یہ کامیاب نہیں ہوتا تو دونوں حکومتوں کو ثالثی (Arbitration)پر رضامند ہونا ہوگا-

پاکستان کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال اور جارحیت:

24نومبر 1950ء کو بھارتی وزیراعظم نہرو نے لیاقت علی خان کے نام خط میں اس بات کا ذکر کیا کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ مسائل کو حل کرنے کےلیےکبھی طاقت کا استعمال نہیں کیا- جس کے جواب میں 27 نومبر 1950ء کو لیاقت علی خان وزیر اعظم نہرو کو جوناگڑھ اور دیگر ریاستوں پر بھارت کی طرف سے فوجی طاقت کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ:

I Sincerely hope and trust that you have not forgotten that your military forces have occupied Junagadh and its neighboring States which lawfully acceded to Pakistan and form part of its territories”.[13]

’’مجھے پوری امید اور بھروسہ ہے کہ آپ یہ نہیں بھولے کہ آپ کی فوج نے جوناگڑھ اور اس کی ہمسایہ ریاستوں پر قبضہ کر لیا ہے جنہوں نے قانونی طور پاکستان اور اس کے علاقوں میں شمولیت اختیار کی تھی‘‘-

26 جولائی 1951ء کو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے دوبارہ جونا گڑھ کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیراعظم نہرو کو بتایا کہ یہ مسئلہ ابھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے زیرِ التواء ہے-

“Firstly, as to Junagadh, I need hardly remind you that Junagadh acceded to Pakistan, was invaded by Indian forces and its occupation by India is a continuing act of aggression against, Pakistan. The case is pending before the Security Council”. [14]

’’سب سے پہلے، جوناگڑھ کے بارے میں، مجھے آپ کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ جوناگڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا-جس پر بھارتی افواج نے حملہ کیا تھا اور اس پر بھارت کا قبضہ ہے اور پاکستان کے خلاف جارحیت کا سلسلہ جاری ہے- (اقوامِ متحدہ کی ) سلامتی کونسل کے سامنے یہ کیس زیر التوا ہے‘‘-

JUNAGADH IS Not Dead Issue:

جونا گڑھ مردہ مسئلہ نہیں ہے:

وزیراعظم لیاقت علی خان نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں 17 جنوری 1950ء کو تقریر کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے مابین مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے جونا گڑھ کا بھی خصوصاً ذکر کیا- جس کے جواب میں 18 جنوری 1950ء کو بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ مسئلہ جونا گڑھ میں کوئی جان نہیں ہے- بھارتی وزیراعظم کے جواب میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کا واضح جواب اس مضمون کے آغاز میں شامل ہے-23 اکتوبر 1950 کو وزیراعظم لیاقت علی خان نےدوبارہ نہرو کو یاد دلایا کہ:

“(Y)ou now regard as dead, but which in fact is alive, namely, Junagadh”.[15]

’’جس مسئلے کو آپ مردہ سمجھ رہے وہ جونا گڑھ کے نام سے زندہ ہے‘‘-

29 مئی 1951ء کو پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھارتی ہائی کمیشن کو پاکستان اور بھارت کے مابین مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ :

State of Jammu and Kashmir And the State of Junagadh are forming the subjects of disputes pending before the U.N., and the Government of Pakistan do not acknowledge their occupation by India. The High Commission are, therefore, wrong in claiming that these states are forming part of India”.[16]

’’ریاست جموں و کشمیراور ریاست جوناگڑھ اقوام متحدہ کے سامنے تنازعات کے زیر التواء موضوعات ہیں- بھارت کی طرف سے ان کا قبضہ، حکومت پاکستان تسلیم نہیں کرتی ہے- لہذا بھارتی ہائی کمیشن یہ دعویٰ کرتے ہوئے غلط ہےکہ یہ ریاستیں ہندوستان کا حصہ بن رہی ہیں‘‘-

مسئلہ جونا گڑھ اوراقوام متحدہ:

ریاست جوناگڑھ میں جب بھارتی سر پرستی میں المناک واقعات جاری تھے وہیں کشمیر تنازعہ بھی تھا-بھارتی حکومت نے یکم جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کا مقدمہ پیش کیا- جواباً 15 جنوری 1948ء کو پاکستان نے بھارت کے خلاف کئی شکایات درج کیں- ان میں جوناگڑھ تنازعہ سمیت کشمیر اور دیگر معاملات کو سلامتی کونسل کے سامنے رکھا گیا تھا-

 پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ نے18 فروری 1948ء کو سلامتی کونسل میں تقریر کے ساتھ کاروائی کا آغاز کیا- 26 فروری اور 8 مارچ 1948ء کو سلامتی کونسل میں جونا گڑھ کے مسئلہ پر سیر حاصل بحث ہوئی-

سر ظفر اللہ نے اپنی تقاریر میں حکومت پاکستان کی جانب سے بھارت سے مطالبہ کیا کہ :

“Pakistan desired that the Government of India should, of its own accord or through some action or agency of the Security Council, withdraw Indian forces from Junagadh and restore the rulers of Junagadh and Manavadar to their States so that normal administration should be restored”.[17]

’’پاکستان کی خواہش ہے کہ بھارتی حکومت اپنی مرضی سے یا سلامتی کونسل کی کسی کاروائی یا ایجنسی کے ذریعے جوناگڑھ سے ہندوستانی افواج کو واپس لے اور وہاں کے حکمرانوں کو بحال کرے- جوناگڑھ اور مناوادر کو اپنی نارمل حالت میں لایا جائے تاکہ انتظامی معاملات بحال ہو جائیں‘‘-

مزید پاکستان نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ مہاجرین کی بحالی اور ان کے املاک کو پہنچنے والے نقصانات کا بھارت ہر جانہ پیش کرے-

“The Pakistan Government desired, in addition, that such people in Junagadh as had suffered at the hands of the military forces or officials of the Dominion of India should be restored to their homes and property and be compensated for any losses”.[18]

’’اس کے علاوہ حکومت پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ جوناگڑھ میں ایسے لوگوں کو بحال کیا جائے جو فوجی دستوں یا ڈومینین آف انڈیا کے اہلکاروں کے ہاتھوں ظلم و تشدد کا نشانہ بنے تھے-ان کے گھروں، املاک اور کسی بھی قسم کے دوسرے نقصان کی تلافی کی جائے‘‘-

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 7 مئی 1948ء کو میٹنگز نمبر 289 اور 290 میں بھی جونا گڑھ اور دوسری ریاستوں کا مسئلہ زیر غور رہا- چونکہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر میں جنگ کا آغاز ہو گیا تھا تو اس لیے سلامتی کونسل نے 20 جنوری 1948ء کو پہلے مسئلہ کشمیر سےنمٹنے کیلئے ایک کمیشن تشکیل دیا- سلامتی کونسل نے کہا کہ جوناگڑھ جیسے دیگر مسائل پر غور تب تک ملتوی رہے گا جب تک مسئلہ کشمیر پر مکمل غور نہیں کیا جاتا-

اختتامیہ:

طوالت سے بچنے کے لئے اس مختصر مضمون میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دور حکومت میں پاکستان اور بھارت کے مابین جونا گڑھ پر ہونے والی سرکاری خط و کتابت کا تذکرہ کرنے کا مقصود یہ تھا کہ:

  1. جونا گڑھ کے متعلق نایاب معلومات سامنے لائی جائیں-
  2. بنیادی ماخذ (Primary Sources)استعمال کرنے سے بھی یہی مقصود تھا کہ مستند حوالہ جات محققین اور عوام کے سامنے پیش کئے جائیں -
  3. یہ بات بھی مدنظر تھی کہ ابتدائی دنوں میں کس طرح جونا گڑھ پاکستان اور بھارت کے مابین ایک گرما گرم بحث ( Hot Discussion) تھی-
  4. مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اور خصوصاً عام قارئین تک جونا گڑھ کے متعلق پاکستان کے بانیان کا مؤقف پیش کیا جائے-
  5. جونا گڑھ کو بانیان پاکستان نے ایک مردہ مسئلہ نہیں سمجھا بلکہ اسے زندہ رکھا اور قانونی جد و جہد جاری رکھی-
  6. نیز ؛یہ کہ آج بھی جونا گڑھ کا مسئلہ اقوام متحدہ میں ہے اور کشمیر کے بعد اسے دیکھا جائے گا-
  7. قومی قیادت اور خصوصاً نوجوان نسل کو یہ یاد دلانا کہ ’’جونا گڑھ‘‘ بانیان پاکستان کا ایک خواب تھا جس کے متعلق انہوں نے آخری وقت تک سمجھوتہ نہیں کیا- آج ہم پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس خواب کوپوراکرنے کےلئے لکھ کر، گفتگو کر کے، پڑھ کر اور آگاہی پھیلاکر اپنا کردار ادا کریں اور ’تکمیل پاکستان‘ کو عملی جامہ پہنانے کے پُر امن کارواں میں حصہ ڈالیں-

٭٭٭



[1]Prime Minister Liaquat Ali Khan to Prime Minister Nehru. See, Bhasin, Avtar.Singh. India–Pakistan Relations 1947–2007

A Documentary Study. Published in Cooperation with Public Diplomacy Division Ministry of External Affairs of India. Vol- Document No. 1668.

[2]Gokhale, Sandhya. Hindu Rashtra’s Propaganda on J&K.

[3]Liaquat Ali Khan to Jawaharlal Nehru, Zaidi, Z. H.Quaid-i-Azam Papers Project. (1993). Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah papers. Islamabad: Quaid-i-Azam Papers Project, National Archives of Pakistan. Vol-8 Document No. 229.

[4]Ibid, Document No, 231.

[5]ibid.

[6]Ibid.

[7]M. Ikramullah to G. S. Bajpai, JP. Vol-8 Document No 234.

[8]ibid.

[9]Bhasin, Avtar.Singh. Document No 25.

[10]Ibid.

[11]Bhasin, Avtar.Singh. Document No 26.

[12] Bhasin, Avtar.Singh. Document No 1661.

[13]ibid

[14]ibid

[15]Bhasin, Avtar.Singh. Document No 1677.

[16]ibid

[17]There are details given in The Year Book of the United Nations, 1947-48.

Complaint to the U. N. Security Council JP. Vol 8 Document No 236.

[18].ibid

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر