افغانستان پر اوائی سی کا غیر معمولی اجلاس

افغانستان پر اوائی سی کا غیر معمولی اجلاس

افغانستان پر اوائی سی کا غیر معمولی اجلاس

مصنف: ادارہ جنوری 2022

افغانستان میں موجودہ انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی وضع کرنے پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کا سترواں غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر 2021 کو اسلام آباد میں منعقد ہوا- 20 سال کی طویل جنگ کے بعد طالبان کا افغانستان پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد یہ افغانستان کی موجودہ صورتحال پر اب تک کا سب سے بڑا بین الاقوامی اجلاس تھا- اجلاس میں 20 وزرائے خارجہ، 10 نائب وزرائے خارجہ، 437 مندوبین نے شرکت کی- P5 ممالک، یورپی یونین اور کئی دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندگان نے بھی شرکت کی- وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کلیدی خطاب کیا- یہ کامیاب میٹنگ مسلم دنیا اور عالمی برادری کے پاکستان پر اعتماد اور مسئلہ کے حل کیلئے پاکستان کی سنجیدگی کی وجہ سے ممکن ہوئی-

ایشیا کا دل افغانستان 1980ء کی دہائی سے جنگ، بدحالی اور افراتفری کی لپیٹ میں رہا ہے اور ایک بار پھر سنگین انسانی بحران کی لپیٹ میں ہے- اگرچہ اقوام متحدہ اور بہت سی دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے بار بار افغانستان میں موجودہ انسانی بحران، معاشی صورتحال اور انتظامی تباہی کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن دنیا اب بھی افغانیوں کی حمایت کرنے کی بجائے ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر قائم ہے-

اس اجلاس کا مقصد افغانستان میں موجودہ سنگین انسانی اور معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے تھا- سیشن میں مقررین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت کے حوالے سے شدید مہنگائی، بے روزگاری جیسی صورتحال میں افغانستان میں ہونے والی اقتصادی بدحالی سے 22.8 ملین افغان باشندوں پر انسانی آفت آئے گی- اس حوالے سے پاکستانی وزیر خارجہ نے درست کہا ہے کہ اس مرحلے پر افغانستان کو نظر انداز کرنا ایک تاریخی غلطی ہوگی- حکمرانی کا ایک نازک ڈھانچہ، لیکویڈیٹی کی شدید قلت اور مالیاتی پابندیوں نے ملک کو معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور اس صورتحال نے طویل عرصے سے موجودہ انسانی بحران کو مزید سنگین کر دیا ہے- دوسری طرف کابل میں طالبان کی حکومت کی عالمی سطح پر شناخت نہ ہونے کی وجہ سے علاقائی اور بین الاقوامی ڈونرز سے افغانستان کی عوام کے لیے درکار سماجی و اقتصادی امداد کی دستیابی میں رکاوٹ ہے- یہ مسائل افغانستان کو غیر مستحکم کر دیں گے اور بحری مہاجرین کے بحران، منشیات کی ترسیل اور سمگلنگ کی طرف لے جائیں گے- یہ عدم استحکام دہشت گردی کی طرف راہ ہموار کر سکتا ہے- اس کے پھیلاؤ کا اثر علاقائی امن اور خطے کی خوشحالی کو مزید متاثر کرے گا-

اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی کے امور کے انڈر سیکرٹری جنرل مارٹن گریفتھس نے OIC سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کو آزاد زوال کے طور پر بیان کیا- انہوں نے کہا ’’اگر آج ہم فیصلہ کن اقدامات نہیں کرتے تو مجھے ڈر ہے کہ یہ زوال پوری آبادی کو اپنے ساتھ کھینچ لے جائے گا‘‘- اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق 22.8 ملین لوگ جو افغانستان کی آبادی کا نصف سے زیادہ ہیں خوراک کی شدید قلت، شدید خشک سالی اور برسوں کی طویل جنگ سے وراثت میں ملنے والی غربت کی بلند سطح کا شکار ہیں- 70فیصد اساتذہ کو تنخواہ نہیں مل رہی اور لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں- ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بن سکتا ہے- ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 3.2 ملین افغان بچے شدید قسم کی غذائی قلت کا شکار ہیں- ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر بروقت اصلاحی اقدامات نہ کیے گئے تو صرف اس سال 5سال سے کم عمر کے 10 لاکھ بچے بھوک سے مر سکتے ہیں-

او آئی سی انسانی بحران کے آغاز ہی سے افغانستان کی عوام کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے- اس نے فلسطینی عوام اور غیر قانونی قبضے کے شکار کشمیریوں کی سیاسی اور معاشی آزادی کے حق خود ارادیت کی مسلسل حمایت کی ہے- تاریخ گواہ ہے کہ اس تنظیم نے بڑے عالمی سیاسی انتشار کے درمیان بھی نہ صرف مسلسل عوام کے حق کی حمایت کی ہے بلکہ باقی عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی ملکی و داخلی سیاسی و اقتصادی مجبوریوں سے بالاتر ہو کر سوچیں- اس غیر معمولی اجلاس کو افغانستان کے لوگوں کے لیے ایک واضح تبدیلی اور اشارہ دینا چاہیے کہ ہم ان کی مدد کرنے اور ان کی معیشت اور ملک کو مستحکم کرنے کے لیے متحد ہیں- او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس میں مزید یہ عہد کیا گیا کہ مسلم دنیا بحیثیت مجموعی اقوام متحدہ، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور بڑے عطیہ دہندگان کو افغانستان میں پھیلتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے اجتماعی مہارت فراہم کرنے کے لیے آگے آئی ہے-

پاکستان کے وزیر خارجہ نے موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے او آئی سی کے نمائدگان کے سامنے چھ نکاتی فریم ورک کی تجویز پیش کی:

  1. تنظیم ایک منظم منصوبہ بندی بنائے تاکہ او آئی سی کے رکن ممالک اور دیگر عطیہ دہندگان سے افغان عوام کے لیے انسانی اور مالی امداد کو فوری طور پر چینلائز کیا جائے-
  2. تمام ممالک کو افغان نوجوانوں کو تعلیم، صحت، فنی اور پیشہ ورانہ مہارت جیسے شعبوں میں دو طرفہ طور پر یا او آئی سی کے ذریعے افغانستان کے لوگوں میں سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق کرنا چاہیے-
  3. او آئی سی، اقوام متحدہ اور IFIs (بین الاقوامی مالیاتی اداروں) پر مشتمل ماہرین کا ایک گروپ قائم کیا جانا چاہیے تاکہ افغانستان کی جائز بینکنگ خدمات تک رسائی کو آسان بنانے کے طریقوں اور ذرائع پر غور کیا جانا چاہیے تاکہ افغان عوام کی لیکویڈیٹی چیلنج کو کم کیا جا سکے-
  4. یہاں موجود تمام ممالک کو افغان عوام کی غذائی تحفظ کو بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے، اسلامی تنظیم برائے تحفظ خوراک ان کوششوں کی قیادت کر سکتی ہے اور کرنی چاہیے-
  5. دہشتگردی اور منشیات کی غیر قانونی تجارت سے نمٹنے کے لیے افغان اداروں کی استعداد کار بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کی جانی چاہیے-
  6. او آئی سی کو بین الاقوامی برادری کی توقعات پر پورا اترنے میں مدد کے لیے افغان حکام کے ساتھ مشغول ہونا چاہیے، خاص طور پر سیاسی اور سماجی شمولیت، انسانی حقوق کے احترام بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے حقوق اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جیسا کہ مشرق کے عظیم شاعر فلسفی علامہ محمد اقبال نے افغانستان کو پورے خطے کے لیے امن، استحکام اور خوشحالی کا محور قرار دیا-

اجلاس کے اختتام پر افغانستان اور فلسطین سے متعلق دو متفقہ قراردادیں منظور کی گئیں- انسانی بنیادوں پر ٹرسٹ قائم کرنے اور فوڈ سیکیورٹی پروگرام شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے- یہ سب کا اجتماعی نقطہ نظر ہے کہ بینکنگ چینلز کو بحال کیا جانا چاہیے کیونکہ بینکنگ کے بغیر معیشت نہیں چل سکتی- علاوہ ازیں افغانستان کے لیے او آئی سی کے خصوصی مندوب کی تجویز بھی دی گئی- او آئی سی کے اجلاس نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی مطالبہ کیا کہ پابندیاں انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں بننی چاہئیں-

اس اجلاس کے موقع پر سامنے آنے والی ایک اہم پیشرفت افغانستان کی عبوری حکومت کی مغربی ممالک کے مندوبین سے ملاقات تھی-طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اجلاس میں شرکت کی اور ایک بار پھر دنیا کو یقین دلایا کہ وہ افغان عوام کے وسیع تر مفاد کے لیے عالمی برادری کے مطالبات پر عمل کریں گے-اب تک افغانستان کی عبوری حکومت سے دنیا کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اثاثوں کے انجماد اور عدم شناخت جیسے مسائل پوری آبادی کو ایک ہولناک تباہی کی طرف ضرور دھکیل رہے ہیں-

افغان بحران سے نمٹنے کے لیے پوری عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے- افغانستان میں صورتحال کی سنگینی تمام فریقین کی فوری توجہ کا تقاضا کرتی ہے اور 1990ء کی دہائی میں افغانوں کو درپیش بحران سے گریز کیا جانا چاہیے- یہ بحران نہ تو افغانستان اور نہ ہی پوری دنیا کے مفاد میں ہے اور اس سے صرف اجتماعی کوششوں سے ہی بچا جا سکتا ہے- بین الاقوامی برادری کو او آئی سی کے اجلاس سے افغان عوام کی مشکلات کو دور کرنے اور تباہی سے بچنے کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر