شمس العارفین : قسط 11

شمس العارفین : قسط 11

جب سالک اسمِ ’’ھُوْ‘‘  کا  تصور کرتاہے تو علمِ دعوت اُسے مقامِ حضور میں پہنچا دیتا ہے جہاں و ہ معیت ِحق تعالیٰ میں آیاتِ قرآن کی بار بار تلاوت کرتا ہے- یہ مرتبہ ہے اُس عامل ِدعوت حافظ ِربانی کا جس کا قلب زندہ ، نفس  مردہ اور روح باعیان اہل ِفرحت ہو- جو شخص اِس طرح کی دعوت پڑھ سکتا ہے وہ عامل ِ دعوتِ قبور اور کامل اہل ِحضور ہے-انتہائی دعوت یہی دعوت ہے- یہ مرتبہ ہے جوہر شناس و جمعیت بخش جامع فقراء کا - اسمِ ’’ھُوْ‘‘  یہ ہے-

ھُوْ

 جب سالک اسمِ  ’’مُحَمَّدٌ‘‘کا تصور کرتاہے تو لایحتاج ہوجاتاہے اور ہر بات میں نورِمحمدی (ﷺ) سے زبان کھولتاہے- تصورِ اسمِ محمد جس پر تاثیر کرتاہے وہ روشن ضمیر و صاحب ِقلب سلیم ہو کر صراطِ مستقیم پر قائم ہوجاتاہے، اُسے عظمت ِعظیم حاصل ہوجاتی ہے، وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہم دم و ہم قدم و ہم جا ن و ہم زبان و ہم کلام و ہم شنوا وہم نظر ہوجاتاہے اور ہمیشہ لباسِ شریعت میں ملبوس رہتاہے- صاحب ِتصورِ اسمِ محمد (ﷺ) نہ تو دم مارتاہے اور نہ ہی شور و غوغا کرتاہے کہ وہ   ’’اَلنِّھَایَۃُ ھُوَالرَّجُوْعُ اِلَی الْبِدَ ایَۃِ ‘‘[1] کے مرتبے پر پہنچ جاتاہے - اسمِ محمد کے حر ف ’’  م ‘‘ کے تصور سے معرفت ِالٰہی کا مشاہدہ نصیب ہوتاہے،حرف ’’ح ‘‘ کے تصور سے مقامِ حضوری حاصل ہوتاہے، حرف’’ مِ دوم‘‘ کے تصور سے تماشائے کونین منکشف ہوتاہے اور حرف’’ د‘‘کے تصور سے شروع ہی میں جملہ مقصود حاصل ہوجاتے ہیں- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام کے چاروں حروف ننگی تلواراور قاتل ِ کفار و یہود ہیں-اسمِ محمد (ﷺ)یہ ہے-

مُحَمَّدٌ

(جاری ہے)


[1]انتہا ابتدا کی طرف لوٹ جانے کا نام ہے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر