ابیات باھوؒ : سینے وِچ مَقام ہے کَیندا سَانوں مُرشد گَل سَمجھائی ھو

ابیات باھوؒ : سینے وِچ مَقام ہے کَیندا سَانوں مُرشد گَل سَمجھائی ھو

ابیات باھوؒ : سینے وِچ مَقام ہے کَیندا سَانوں مُرشد گَل سَمجھائی ھو

مصنف: Translated By M.A Khan فروری 2020

س: سینے وِچ مَقام ہے کَیندا سَانوں مُرشد گَل سَمجھائی ھو
اِیہو سَاہ جو آوے جاوے ہور نہیں شئے کائی ھو
اِس نوں اِسمُ الاعظَم آکھن ایہو سرِّ اِلٰہی ھو
اِیہو موت حَیاتی باھوؒ ایہو بھَیت الٰہی ھو

Whose dwelling is breast murshid has explained Hoo

It is this breath, which enters and exits and nothing else retained Hoo

It is called Glorious name and it is Allah’s secret Hoo

This is life and death Bahoo this is Allah’s secret Hoo

Senay wich maqam hay kainda sanoo’N murshid gall samjhaee Hoo 

Eiho sah jo Aaway jaway hor nai shai kaee Hoo

Iss nu’N ism ul azam Aakhan eiho sir ilahee Hoo

Eiho moot hiyati Bahoo eiho bhait ilahee Hoo

تشریح

ای سرِّ تود رسینۂ ہر صاحبِ راز

 

ہر کس  کہ  بدرگاہِ  تو آید  بنیاز[1]

1-’’الٰہی تیرا بھید ہر صاحب ِراز کے سینے میں جلوہ گر ہے، تیر ی رحمت کا دروازہ   ہر کسی کے لئے کھلا ہے، جو بھی تیری بارگاہ میں عاجزی سے آتا ہے وہ بھلاکب محروم رہتا ہے؟‘‘

مرشد چونکہ  مخزن بحرِ حقیقت اوراسرارِ الہیہ کا امین ہوتاہے اس لیے ’’ برتن سے وہی چیز برآمد ہوتی ہے جو اُس کے اندر موجود ہوتی ہے ‘‘ [2]کے تحت جو بھی اس کی خدمت میں حاضرہوتاہے اس کو وہ رازسے آگاہی بخشتا ہے جیسا کہ  حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:

’’دانا بن اور یاد رکھ کہ اللہ تعالیٰ کا بھید صرف صاحب ِ راز  کے سینے میں پنہاں ہے- اگر تُو آئے تو دروازہ کھلا ہے اور نہ آئے تو اللہ بے نیاز ہے‘‘-[3]

راہ ِفقر میں  مرشد کی اہمیت اس لیے ہے کہ وہ طالب اللہ کو اس راز کے بارے میں مطلع فرماتاہے جس کے بارے میں حدیثِ قدسی میں  فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’   اَ لْاِنْسَانُ سِرِّیْ وَ اَ نَا سِرُّہٗ ‘‘[4]            ’’انسان میرا راز ہے اور مَیں انسان کا راز ہوں‘‘-

مرشد کامل کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپؒ رقمطراز ہیں :

’’جو شخص چاہے کہ اُسے حق حاصل ہو جائے اور وہ واصل بخدا ہو جائے تو اُسے چاہیے کہ سب سے پہلے مرشد ِکامل مکمل تلاش کرے کہ وہ خزائن ِ دل کا مالک ہوتا ہے - اسم اللہ ذات کے تصور اور ذکر اللہ کی تاثیر سے فقیر کا وجود نورِ الٰہی سے پُر ہوتا ہے- جو شخص دل کا محرم ہو جاتا ہے وہ نعمت ِحق سے ہرگز محروم نہیں رہتا-حدیث: ’’پہلے واقف ِراہ کی رفاقت حاصل کرو پھر راہ پر چلو‘‘-حدیث: ’’اُس کا دین ہی نہیں جس کا مرشد نہیں‘‘-حدیث: ’’جس کا مرشد نہیں اُسے شیطان گھیر لیتا ہے‘‘ -[5]

نگہدار   دم  را کہ  عالم  دمیست

 

دمی  پیش دانا  بہ  از   عالمیست[6]

2-3-4: ’’دم کی نگہبانی کر کہ دم ایک پورا جہان ہے، داناؤں کے نزدیک (تصورِ اسم االلہ میں گزرا ہوا)ایک دم جہان بھر سے افضل ہے‘‘-

مکن عمر ضائع بافسوس و حیف

 

کہ فرصت عزیزست و الوقت  سیف[7]

’’حیف وافسوس میں اپنی عمر برباد نہ کر، فرصت ِدم کو عزیز رکھ کہ وقت کی تلوار اُسے کاٹ رہی ہے‘‘ -

بیت مبارک کے اگلے  تین مصرعوں میں آپؒ نے سانس کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے دراصل مرشد کامل اپنے طالب کو اس راز سے بھی آگاہی عطافرماتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے  سانسوں کی صورت میں تجھے لازوال خزانہ عطافرمایاہے جس کی اہمیت سے آگاہ ہوکر  اللہ تعالیٰ کا قرب ووصال حاصل کرسکتاہے جیساکہ آپؒ کئی مقامات  پہ سانسوں کی قدر و اہمیت بیان فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں :

’’ رات دن کے چوبیس گھنٹے ہیں اور آدمی ان چوبیس گھنٹوں میں چوبیس ہزار سانس لیتاہے- ہر سانس کی نگہبانی کر کہ ہر سانس میں چودہ تجلیات، چودہ الہامات اور چودہ علوم پائے جاتے ہیں‘‘- [8]

مزید ارشادفرمایا :

’’جو فقیر تصدیق ِدل اور اقرارِ زبان کے ساتھ شوق و محبت سے اسم اللہ  کا ذکر کرتا ہے اور ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ تصور ِ اسم اَللہُ  میں مشغول رہتاہے وہ گویا ہر سانس کے ساتھ چار ہزار قرآن مجید ختم کرتا ہے‘‘-[9]

’’درویشی کے لائق وہ شخص ہے جو ہر وقت اپنا محاسبہ کرتا ہے- درویش وہ ہے جو دم بھر کے لیے بھی ذکر ِ خدا سے غافل نہ ہو کہ فرمایا گیا ہے : ’’  زندگی کے سانس گنے ہوئے ہیں اور جو سانس ذکر اللہ کے بغیر گزرے وہ مردہ ہے‘‘-[10]

’’جس ذکر سے مشاہدۂ حضور کھلتاہے وہ ذکر قربِ الٰہی کا راز ہے-ذکر کا تعلق آواز سے نہیں کیونکہ ذکر کا تعلق اگر آواز سے ہوتاتو آواز کے ساتھ ذکرِ’’ یَاھُوْ‘‘ کبوتر بھی کرتے ہیں اورفاختہ و طوطی ودیگر پرندے بھی کرتے ہیں‘‘-[11]


[1]( عین الفقر)

[2]( اسرارالقادری)

[3]( عین الفقر)

[4]( امیرالکونین)

[5]( عین الفقر)

[6]( ایضاً)

[7]( ایضاً)

[8]( شمس العارفین)

[9]( عین الفقر)

[10]( کلیدالتوحید(کلاں)

[11]( نورالھدٰی)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر