ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

س: سُن فریاد پِیراں دِیا پِیرا مَیں آکھ سنانواں کینوں ھو
تیرے جیہا مَینوں ہور نہ کوئی مَیں جیہیاں لَکھ تینوں ھو
پھَول نہ کاغذ بَدیاں والے دَر تُوں دھک نہ مینوں ھو
مَیں وچ ایڈ گُناہ نہ ہوندے باھوؒ تُوں بخشیندوں کینوں ھو

Listen to my plea O mentor of the mentors! to whom should I plea to Hoo

There is none as you for me and there are hundreds of thousand as me for you Hoo

Do not scrutinise my bad deeds and do not rid me from your door Hoo

If I did not have such sins 'Bahoo' then who would you had pardoned more Hoo

Sun faryad pira’N diya pira! mai’N Aakh sunawa’N kenoo’H Hoo 

Tery jeha menoo’N haor na koi mai’N jehaa’N lakh tenoo’N Hoo

Phaol na kaghaz badia'N walay dar to’N dhik na menoo’N Hoo

Mai’N wich aid gunah na hondaay Bahoo too’N bakshendoo’N kenoo’H Hoo

 تشریح: 

1-ملاذاً دستگیری تو معاذاً دل پذیری تو

 

بہ لطفِ خود  رہائی دہ  ز  گردابِ پریشانی[1]

’’(اے شاہِ جیلان!) آپؒ کی دستگیری و د ل پذیری میری جائے پناہ ہے، براہ ِلطف و کرم مجھے گردابِ ِپریشانی سے رہائی دلا دیں‘‘ -

’’یاد رہے کہ اگر کوئی شخص پورے یقین و اعتقا د اور اخلاصِ خاص کے ساتھ کَہ دے  ’’یا شیخ عبد القادرجیلانی  شَیْاً  لِلّٰہِ  اُمْدُ دْ نِیْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ تو اُس پر ابتدا و انتہا کی حقیقت روشن ہوجاتی ہے اور وہ ہدایت ِمعرفت اور ولایت ِفقر کے اُس کمال پر پہنچ جاتا ہے کہ جس کے متعلق فرمایا گیا ہے: ’’ جب فقر اپنے کمال کو پہنچتاہے تو اللہ ہی اللہ ہوتا ہے‘‘-[2]

ایک اور مقام پہ آپؒ حضورشہنشاہِ بغداد(قدس اللہ سرّہٗ) کی بارگاہ ِ اقدس سے اکتساب فیض کا طریقہ بتاتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’اگر کسی کو مشکل پیش آجائے اور وہ شیخ محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی کو تین بار ان الفاظ سے پکارے کہ’’ اُحْضُرُوْ ا بَمَلَکَ الْاَرْوَاحِ الْمُقَدَّ سِ وَالْحَیُّ الْحَقِّ یا شیخ عبدالقادرجیلانی حاضر شو‘‘اور ساتھ ہی تین بار دل پر کلمہ طیب  کی ضرب لگائے تو اسی وقت حضرت پیر دستگیرؒ تشریف لے آتے ہیں اور سائل کی امداد کر کے اس کی مشکل حل فرما دیتے ہیں‘‘-[3]

2- ترا چوں من ہزاران بندہ ہا ہستند  درِ عالم

 

مرا  جز  آستانت   نیست  اگر  خوانی و  گررانی [4]

’’آپ کےپاس  مجھ جیسے ہزاروں غلام دنیا میں موجودہیں لیکن میرے لئے آپ کے آستان کے سوا اور کوئی جائے پناہ نہیں‘‘-

طالب اور مرشد کا تمام تعلق انتہائی حساس دلیل و کیفیات پہ مبنی ہوتا ہے، طالب اپنے مرشد کے مقابلے میں تمام چیزوں کو ہیچ سمجھتاہے-جیسا کہ سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں :

’’پیر ہو تو ایسا ہو کہ جیسے میرے پیر شاہ محی الدین سلطان عبدالقادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) ہیں جو روزانہ ہزار مریدوں کو حضور علیہ الصلوٰۃُ والسلام کی مجلس کی حضوری بخشتے ہیں‘‘-

منم سائل بجز تو نیست غم خوارم کہ گیرد دست

 

بہ رحمت کُن  نظر  بر  من  توئی  مختارِ سبحا نی[5]

’’مَیں آپ(رضی اللہ عنہ) کے در کا سوالی ہوں آپ کے سوا میری دستگیری کرنے والا کوئی غم خوار نہیں ہے، مجھ پر نگاہِ رحمت فرمائیں کہ آپ(رضی اللہ عنہ) مختارِ سبحانی ہیں‘‘-

4-اے شاہِ جیلان! جہان بھر کے بوڑھے، بچے، عورتیں اور مرد آ پ کے مرید ہیں، خطا پوشی، عطا پاشی، دین بخشی اور جہان بانی آپ کا وصف ِ خاص ہے- آپ شاہِ ا ولیاء ہیں اور اولیاء آپ کے در کے سوالی ہیں- مشائخ آپ کے در پر سر جھکاتے ہیں اور آ پ کی دربانی پر فخر کرتے ہیں -تمام دیو و ملائک و پریاں اور جن آپ کے تابع ہیں، آ پ شہنشاہوں کے شہنشاہ اور اِنسانوں اور روحانیوں کے اِمام ہیں‘‘-[6]


[1](کلیدالتوحیدکلاں)

[2](نور الھدیٰ)

[3]( شمس العارفین)

[4](کلیدالتوحیدکلاں)

[5](ایضاً)

[6](محک الفقر کلاں)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر