ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

جیں دینہہ دا مَیں در تینڈے تے سجدہ صحی ونج کیتا ھو

اس دینہہ دا سر فدا اتھائیں،میں بیادربار نہ لیتا ھو

سردیون سرّ آکھن ناہیں ،اساں شوق پیالا پیتا ھو

میں قربان تنہاں توں باھُوؔ جنہاں عشق سلامت کیتا ھو

JaiN'h deeN'h da mein dar taind'ey te sajda sahi wanj kreeta Hoo

Os deeN'h da sar fida othaeiN, main biya darbar na leeta Hoo

Sar devan sir'r aakhan naheeN asaaN shoq piyala peeta Hoo

Main qurban tinhaaN tooN "Bahoo" jinhaaN ishq salamat keeta Hoo

Ever since the day I am at your door, I have perfected my prostration Hoo

Head sacrificed there since that day I have no burdens of oppression Hoo

They sacrifice their head but they do not disclose secret, we have consumed the goblet of passion Hoo

I sacrifice upon you "Bahoo" who have kept their Ishq secure in compassion Hoo

تشریح:

عاشق اورعابد میں نمایاں ترین فرق معرفت وعرفان ذات کاہے -عابد معبود کونہ بھی پہچانے تو بھی عبادت کی جزا‘ اجروثواب ودرجات کی صورت میں عابد کومل سکتی ہے اورمسجود کی پہچان کے بغیر بھی ساجد کو سجدے کاثواب مل جاتاہے -مگر عشق کادستور مذکورہ امر سے قطعی مختلف ہوتا ہے-عاشق کاآنِ واحد میں تینوں قسم کی معرفت سے سرفراز رہنا ازحد ضروری ہوتاہے ،(۱)عاشق خود کوفناسے پہچانتاہے(۲)کائنا ت کے ذرے ذرے میں معشوق کی جلوہ آرائی دیکھتاہے(۳)عشق کو بقاسے جانتاہے-عاشق خود کو فناسے پہچانے گا تبھی اُسے عشق اورمعشوق کی معرفت حاصل ہوگی -عاشق کے ذکر ،فکر ،عبادت ،ریاضت ،مراقبہ ،مجاہدہ ،تقویٰ ،پیار ومحبت ،عشق ولگن صرف اورصرف معشوق حقیقی اللہ رب العزت کے نورِمعرفت سے منور ومزین ہوتے ہیں -وحدت حق تعالیٰ کے سواعاشق کی زندگی میں کوئی ر نگینی ودلچسپی باقی نہیں رہتی -عاشق کے قلب میں جب قرب الٰہی کی آرزو پیدا ہوتی ہے تودیگر تمام خواہشات دم توڑ جاتی ہیں -حضرت سید عبدالقادرجیلانی ؓ فرماتے ہیں:فرمان حق تعالیٰ ہے :-میں نے جنوں اورانسان کومحض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے -یعنی معرفت کے لئے پیداکیاہے -پس جوشخص اللہ تعالیٰ کوپہچانتا نہیں وہ اُس کی عبادت(مرتبۂ احسان) کس طرح کرسکتاہے ----لہٰذا یہ حقیقت کھل کرسامنے آگئی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کومحض اپنی معرفت وپہچان کے لئے پیدا فرمایا ہے -(سرالاسرار:۷۲) ذات حق تعالیٰ کے انوار وتجلیات کے سرورمیں اداکیاگیا سجدہ ہی عاشق کی کُل متاع حیات ہوتاہے -علامہ اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:وہ سجدہ رُوح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی اُسی کوآج ترستے ہیں منبر ومحراب اسی سجدہ کے طفیل عاشق اللہ رب العزت کی وحدت کابھیدپالیتاہے - عاشق کومعشوق حقیقی کی بارگاہ سے ’ ’انسان میرا راز ہے اورمَیں انسان کاراز ہوں‘‘کے خطاب سے مخاطب کیاجاتاہے-حیاتِ عاشق کے شب و روز بھید الٰہی کی محافظت میں گزرتے ہیں -بھیدالٰہی کی حفاظت کے جرم میں عاشق کو زہر کاپیالہ دیا جاتاہے مگر آفرین ہے کہ عاشق اپنی جان سے گزرجاتاہے مگر بھید الٰہی سے نقاب کشائی نہیں کرتا-اسی بھید الٰہی کی محافظت میں عاشق کاعشق تاقیامت سلامت رہتاہے-

جس منزل نوں عشق پچاوے،ایمان نوں خبر نہ کوئی ھُو

میرا عشق سلامت رکھیں باھُوؔ ایمان دیاں دھروئی ھُو

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر