ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

دل بازار تے منہ دروازہ سینہ شہر ڈسینْدا ھو
روح سوداگر نفس ہے راہزن جہڑا حق دا راہ مرینْدا ھو
جاں توڑی ایہہ نفس نہ ماریں تاں ایہہ وقت کھڑینْدا ھو
کردا ہے زایا ویلا باھوؒ جان نوں تاک مرینْدا ھو

Heart is bazar mouth is gate and city in breast seems Hoo

Spirit is merchant and nafs is bandit upon true path stoppage it deems Hoo

Until you kill this nafs, you will be wasting your time in extreme Hoo

Wasting your time Bahoo until its extinction is foreseen Hoo

Dil bazaar munh darwaza seenah shehar diseenda Hoo

Rooh soda gar nafs hai rahzan jeh’Ra Haq da rah marenda Hoo

Ja’N to’Ri aih nafs nah mare’N ta’N aih waqt khaRainda Hoo

Karda he zaya wela Bahoo jan no’N taak marenda Hoo

تشریح:

(۱)پرانے زمانوں میں زیادہ تر شہر قلعہ، فصیل اور چاردیواری میں بسائے جاتے تھے اِ ن شہروں میں داخل ہونے کے لیے باقاعدہ دروازے ہوتے تھے اور ان دروزاوں کے سوا شہر میں داخلہ کی کوئی صورت نہ تھی اور شہر میں ہی بازار سجتے تھے اور ان بازاروں میں دُنیا کی مختلف حصوں سے سوداگر آتے اور اپنا مالِ تجارت فروخت کے لیے پیش کرتے لیکن اس مثبت اور تعمیر سرگرمیوں کے ساتھ منفی اورتخریبی سرگرمیاں بھی جاری رہتیں مثلاً سوداگروں کو سب زیادہ خطرہ رہزنوں، چوروں اور ڈاکوؤں سے ہوتا جو نہ صرف ان کو مال تجارت سے محروم کردیتے بلکہ ان کی زندگیاں بھی چھین لیتے-حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ ان تشبیہات سے روحانی سلطنت و ریاست کی وضاحت فرماتے ہیں کہ :

’’سینہ روحانی سلطنت کا مرکز ہے اس میں دل، فواد اور رُوح مثبت اور تعمیری کردار ہیں اور نفس اور ابلیس منفی کردار ہیں جو  اس راہ کے رہزن اور ڈاکو ہیں اور رُوح کو لطافتِ نور حق سے محروم کرنے کے درپے رہتے ہیں-سینہ کی رُوحانی سلطنت میں دِل ایک بازار ہے کہ جہاں معرفت کے لعل، لقائے باری تعالیٰ کے جواہر اور انوار و تجلیات کے چراغ موجود ہیں، اسم اللہ ذات ،اسم ھُواور اسم محمد کے خزائن بھی یہیں پوشیدہ ہیں-اس روحانی ریاست میں داخل ہونے کیلئے منہ دروازہ ہے-سینہ کی روحانی ریاست کے مثبت اورمنفی کرداروں کو منہ کے ذریعے ہی طاقت و قوت اور لشکر فراہم ہوتے ہیں‘‘-

آپ قدس اللہ سرہ مزید فرماتے ہیں کہ:

’’پس معلوم ہوا کہ جس طرح علما ٔکا مرتبہ علم کاہے اور وہ علم کا مطالعہ زبان سے کرتے ہیں اور زبان کا تعلق سرمیں منہ سے ہے اِسی طرح فقیر کے پاس تصدیق القلب کا مرتبہ ہے اور علمِ تصدیق اسرارِ کُنْ  کا علم ہے جس کا مسکن سینہ و قلب ہے‘‘-[1]

(۲)انسانی روح ایک سوداگر ہے جو مذکورہ نورانی مال کی تجارت کرتی ہے لیکن نفس امّارہ چور اور راہزن ہے جو رُوح کو ہرمقام پہ دھوکہ اورفریب دے کر متاعِ نور سے محروم کرنا چاہتا ہے- حضور غوث الاعظم سیّدنا پیر عبدالقادرجیلانی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ سینۂ انسان کے اندر امرِربی (روحِ حقیقی) کے لطافت کے لحاظ سے چار مقامات ہیں اور ہر مقام کا مالِ تجارت اور نفع الگ الگ ہے -آپ قدس اللہ فرماتے ہیں کہ :

’’بازارِ جسم میں روحِ جسمانی کی دوکان سینہ اور اعظائے ظاہری ہیں-اُس کی متاع شریعت ہے -اُس کی تجارت شرک سے پاک اعمال و احکامِ شریعت کی ادائیگی ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’اور اپنے واحد ربّ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو‘‘- اللہ واحد ہے اور وحدت کو پسند کرتا ہے-مطلب یہ ہے کہ اعمال ریا و تصنع و دنیوی لالچ سے پاک ہوں آخرت میں اِس تجارت کا منافع جنت اور اُس کی نعمتیں ہیں جوسب سے پہلی جنت میں پائی جاتی ہیں جسے جنت الماویٰ کہا جاتا ہے-روحِ روانی کی دوکان دل ہے، اُس کی متاع علمِ طریقت ہے اور اُس کی تجارت حروف و آواز کے بغیر بارہ اسمائے اصول میں سے پہلے چار اسمائے اصول کا دائمی ذکر و شغل ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’محبوب ! آپ فرما دیں کہ خواہ تم اللہ کَہ کر پکارو یا رحمان کَہ کر پکارو تم جس نام سے بھی پکارو سب اللہ ہی کے اچھے نام ہیں‘‘-اِس میں اشارہ ہے اِس بات کی طرف کہ جملہ اسمائے حسنیٰ محل ِاشتغال اللہ ہیں جن سے علمِ باطن کھلتا ہے اور معرفت ِالٰہی اسمائے توحید کے شغل کا نتیجہ ہے -- یہ بارہ اسما ٔکلمہ ٔ  توحید ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہُ ‘‘کے بارہ حروف کے مطابق اللہ تعالیٰ کے بارہ اسمائے اصول ہیں --اُس کا ٹھکانہ دوسری جنت ہے جسے جنت ِنعیم کہا جاتا ہے- روحِ سلطانی کی دوکان فواد ہے - اُس کی متاع معرفت ہے اور اُس کی تجارت زبانِ دل سے چار وسطی اسمائے اصول کا ذکر ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمانِ ہے:’’علم دو قسم کا ہے،ایک زبانی علم ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت ہے اپنی مخلوق پر اور دوسرا قلبی علم جو منافع بخش ہے اور اِس دائرہ میں یہ بے حد مفید ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :’’بے شک قرآن کا ایک ظاہر ہے او ر ایک باطن ہے- اِس گروہ کا ٹھکا نہ تیسری جنت ہے جسے جنت الفردوس کہا جاتا ہے-روحِ قدسی کی دوکان مقامِ سِرّ میں ہے جیسا کہ حدیث ِقدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے:   ’’انسان میرا سِرّ (بھید) ہے او مَیں انسان کا سِرّ (بھید ) ہوں‘‘- اُس کی متاع علمِ حقیقت ہے جسے علمِ توحید بھی کہتے ہیں - اِس کی تجارت سِرّی زبان کے ساتھ بغیر آواز کے آخری چار اسمائے اصول کا دائمی ذکر ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’اور اگر تُو بات پکار کر کہے (یا دل میں کہے) تو وہ تو بھید کو بھی جانتا ہے اور اُسے بھی جانتا ہے جو اِس سے بھی زیادہ مخفی ہے‘‘- پس اللہ کے علاوہ اُس پر کوئی مطلع نہیں- اُس کا منافع طفل ِمعانی کا ظہور اور چشمِ سِرّ سے ذاتِ باری تعالیٰ کا دیدار اور اُس کے جمال و جلال کا مشاہدہ و معائنہ و نظارہ ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے:’’ اُس دن کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے اور اپنے ربّ کو بلا کیف و کیفیّت و بلا تشبیہہ دیکھنے والے ہوں گے‘‘- فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’اُس کی مثل کوئی شے نہیں ،وہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی ہے‘‘-[2]

(۳)نفس دشمنِ دِین و ایمان ہے اس کے ساتھ ہر وقت برسرپیکار رہنا مشکل اور دِقت طلب کام ہے یہ دشمن ہر وقت تاک میں ہوتا ہے اور سالک اگر ایک پل کے لیے بھی اس دشمن کے سے غافل ہوجائے تو یہ عیار اُسی وقت حملہ کرکے سالک کی دولتِ ایمان پہ نقب لگالیتا ہے اور یوں سالک کی دولت ایمان بتدریج کم ہوتی رہتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ اس دشمن کو ایک ہی وار میں ختم کردیا جائے اور کلمہ طیب کی تلوار سے اس غیرِ حق کا سر قلم کر دیا جائے-

(۴) اگر انتہائی طاقتوردشمن گھر سے باہر ہمہ موجود رہے تو بار بار گھر کے دروازے کو کھولنے اور بند کرنے میں خطرہ رہتا ہے اور آخرکار وہ دشمن گھر میں داخل ہو جاتا ہے تو اس سے پہلے والی ساری کاوش رائیگاں چلی جاتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس دشمن( نفسِ امّارہ) کو آگے بڑھ کر نقصان پہنچانے سے قبل ہی ختم کردیا جائے تاکہ اندیشوں سے خلاصی ہوسکتے اور خطرات ٹل جائیں -


[1] (امیرالکونین)

[2](سر الاسرار)

دل بازار تے منہ دروازہ سینہ شہر ڈسینْدا ھو
روح سوداگر نفس ہے راہزن جہڑا حق دا راہ مرینْدا ھو
جاں توڑی ایہہ نفس نہ ماریں تاں ایہہ وقت کھڑینْدا ھو
کردا ہے زایا ویلا باھوؒ جان نوں تاک مرینْدا ھو


 

Heart is bazar mouth is gate and city in breast seems Hoo

Spirit is merchant and nafs is bandit upon true path stoppage it deems Hoo

Until you kill this nafs, you will be wasting your time in extreme Hoo

Wasting your time Bahoo until its extinction is foreseen Hoo

Dil bazaar munh darwaza seenah shehar diseenda Hoo

Rooh soda gar nafs hai rahzan jeh’Ra Haq da rah marenda Hoo

Ja’N to’Ri aih nafs nah mare’N ta’N aih waqt khaRainda Hoo

Karda he zaya wela Bahoo jan no’N taak marenda Hoo

(۱)پرانے زمانوں میں زیادہ تر شہر قلعہ، فصیل اور چاردیواری میں بسائے جاتے تھے اِ ن شہروں میں داخل ہونے کے لیے باقاعدہ دروازے ہوتے تھے اور ان دروزاوں کے سوا شہر میں داخلہ کی کوئی صورت نہ تھی اور شہر میں ہی بازار سجتے تھے اور ان بازاروں میں دُنیا کی مختلف حصوں سے سوداگر آتے اور اپنا مالِ تجارت فروخت کے لیے پیش کرتے لیکن اس مثبت اور تعمیر سرگرمیوں کے ساتھ منفی اورتخریبی سرگرمیاں بھی جاری رہتیں مثلاً سوداگروں کو سب زیادہ خطرہ رہزنوں، چوروں اور ڈاکوؤں سے ہوتا جو نہ صرف ان کو مال تجارت سے محروم کردیتے بلکہ ان کی زندگیاں بھی چھین لیتے-حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ ان تشبیہات سے روحانی سلطنت و ریاست کی وضاحت فرماتے ہیں کہ :

’’سینہ روحانی سلطنت کا مرکز ہے اس میں دل، فواد اور رُوح مثبت اور تعمیری کردار ہیں اور نفس اور ابلیس منفی کردار ہیں جو  اس راہ کے رہزن اور ڈاکو ہیں اور رُوح کو لطافتِ نور حق سے محروم کرنے کے درپے رہتے ہیں-سینہ کی رُوحانی سلطنت میں دِل ایک بازار ہے کہ جہاں معرفت کے لعل، لقائے باری تعالیٰ کے جواہر اور انوار و تجلیات کے چراغ موجود ہیں، اسم اللہ ذات ،اسم ھُواور اسم محمد کے خزائن بھی یہیں پوشیدہ ہیں-اس روحانی ریاست میں داخل ہونے کیلئے منہ دروازہ ہے-سینہ کی روحانی ریاست کے مثبت اورمنفی کرداروں کو منہ کے ذریعے ہی طاقت و قوت اور لشکر فراہم ہوتے ہیں‘‘-

آپ قدس اللہ سرہ مزید فرماتے ہیں کہ:

’’پس معلوم ہوا کہ جس طرح علما ٔکا مرتبہ علم کاہے اور وہ علم کا مطالعہ زبان سے کرتے ہیں اور زبان کا تعلق سرمیں منہ سے ہے اِسی طرح فقیر کے پاس تصدیق القلب کا مرتبہ ہے اور علمِ تصدیق اسرارِ کُنْ  کا علم ہے جس کا مسکن سینہ و قلب ہے‘‘-[1]

(۲)انسانی روح ایک سوداگر ہے جو مذکورہ نورانی مال کی تجارت کرتی ہے لیکن نفس امّارہ چور اور راہزن ہے جو رُوح کو ہرمقام پہ دھوکہ اورفریب دے کر متاعِ نور سے محروم کرنا چاہتا ہے- حضور غوث الاعظم سیّدنا پیر عبدالقادرجیلانی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ سینۂ انسان کے اندر امرِربی (روحِ حقیقی) کے لطافت کے لحاظ سے چار مقامات ہیں اور ہر مقام کا مالِ تجارت اور نفع الگ الگ ہے -آپ قدس اللہ فرماتے ہیں کہ :

’’بازارِ جسم میں روحِ جسمانی کی دوکان سینہ اور اعظائے ظاہری ہیں-اُس کی متاع شریعت ہے -اُس کی تجارت شرک سے پاک اعمال و احکامِ شریعت کی ادائیگی ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’اور اپنے واحد ربّ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو‘‘- اللہ واحد ہے اور وحدت کو پسند کرتا ہے-مطلب یہ ہے کہ اعمال ریا و تصنع و دنیوی لالچ سے پاک ہوں آخرت میں اِس تجارت کا منافع جنت اور اُس کی نعمتیں ہیں جوسب سے پہلی جنت میں پائی جاتی ہیں جسے جنت الماویٰ کہا جاتا ہے-روحِ روانی کی دوکان دل ہے، اُس کی متاع علمِ طریقت ہے اور اُس کی تجارت حروف و آواز کے بغیر بارہ اسمائے اصول میں سے پہلے چار اسمائے اصول کا دائمی ذکر و شغل ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’محبوب ! آپ فرما دیں کہ خواہ تم اللہ کَہ کر پکارو یا رحمان کَہ کر پکارو تم جس نام سے بھی پکارو سب اللہ ہی کے اچھے نام ہیں‘‘-اِس میں اشارہ ہے اِس بات کی طرف کہ جملہ اسمائے حسنیٰ محل ِاشتغال اللہ ہیں جن سے علمِ باطن کھلتا ہے اور معرفت ِالٰہی اسمائے توحید کے شغل کا نتیجہ ہے -- یہ بارہ اسما ٔکلمہ ٔ  توحید ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہُ ‘‘کے بارہ حروف کے مطابق اللہ تعالیٰ کے بارہ اسمائے اصول ہیں --اُس کا ٹھکانہ دوسری جنت ہے جسے جنت ِنعیم کہا جاتا ہے- روحِ سلطانی کی دوکان فواد ہے - اُس کی متاع معرفت ہے اور اُس کی تجارت زبانِ دل سے چار وسطی اسمائے اصول کا ذکر ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمانِ ہے:’’علم دو قسم کا ہے،ایک زبانی علم ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت ہے اپنی مخلوق پر اور دوسرا قلبی علم جو منافع بخش ہے اور اِس دائرہ میں یہ بے حد مفید ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :’’بے شک قرآن کا ایک ظاہر ہے او ر ایک باطن ہے- اِس گروہ کا ٹھکا نہ تیسری جنت ہے جسے جنت الفردوس کہا جاتا ہے-روحِ قدسی کی دوکان مقامِ سِرّ میں ہے جیسا کہ حدیث ِقدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے:   ’’انسان میرا سِرّ (بھید) ہے او مَیں انسان کا سِرّ (بھید ) ہوں‘‘- اُس کی متاع علمِ حقیقت ہے جسے علمِ توحید بھی کہتے ہیں - اِس کی تجارت سِرّی زبان کے ساتھ بغیر آواز کے آخری چار اسمائے اصول کا دائمی ذکر ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’اور اگر تُو بات پکار کر کہے (یا دل میں کہے) تو وہ تو بھید کو بھی جانتا ہے اور اُسے بھی جانتا ہے جو اِس سے بھی زیادہ مخفی ہے‘‘- پس اللہ کے علاوہ اُس پر کوئی مطلع نہیں- اُس کا منافع طفل ِمعانی کا ظہور اور چشمِ سِرّ سے ذاتِ باری تعالیٰ کا دیدار اور اُس کے جمال و جلال کا مشاہدہ و معائنہ و نظارہ ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے:’’ اُس دن کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے اور اپنے ربّ کو بلا کیف و کیفیّت و بلا تشبیہہ دیکھنے والے ہوں گے‘‘- فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’اُس کی مثل کوئی شے نہیں ،وہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی ہے‘‘-[2]

(۳)نفس دشمنِ دِین و ایمان ہے اس کے ساتھ ہر وقت برسرپیکار رہنا مشکل اور دِقت طلب کام ہے یہ دشمن ہر وقت تاک میں ہوتا ہے اور سالک اگر ایک پل کے لیے بھی اس دشمن کے سے غافل ہوجائے تو یہ عیار اُسی وقت حملہ کرکے سالک کی دولتِ ایمان پہ نقب لگالیتا ہے اور یوں سالک کی دولت ایمان بتدریج کم ہوتی رہتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ اس دشمن کو ایک ہی وار میں ختم کردیا جائے اور کلمہ طیب کی تلوار سے اس غیرِ حق کا سر قلم کر دیا جائے-

(۴) اگر انتہائی طاقتوردشمن گھر سے باہر ہمہ موجود رہے تو بار بار گھر کے دروازے کو کھولنے اور بند کرنے میں خطرہ رہتا ہے اور آخرکار وہ دشمن گھر میں داخل ہو جاتا ہے تو اس سے پہلے والی ساری کاوش رائیگاں چلی جاتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس دشمن( نفسِ امّارہ) کو آگے بڑھ کر نقصان پہنچانے سے قبل ہی ختم کردیا جائے تاکہ اندیشوں سے خلاصی ہوسکتے اور خطرات ٹل جائیں -



[1](امیرالکونین)

[2](سر الاسرار)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر