امیر الکونین قسط 46

امیر الکونین قسط 46

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے : ’’میری اُمت کےعلماء انبیائے بنی اسرائیل سے افضل ہیں‘‘- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت کے یہ علماء عارف باللہ ولی اللہ فقیر ہیں-

بیت’’ علمِ وحدت سے مَیں باخدا عالم بنا ہوں کہ جو علم معرفت ِ وحدت کے لئے پڑھا جائے وہ باطن کی صفائی کرتا ہے‘‘-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’علماء ابنیاء (علھم السلام)کاورثہ ہیں‘‘-اُن علماء کی مجلس گویا ابنیاء (علیھم السلام) کی مجلس ہے کہ   ابنیاء (علیھم السلام) کی طر ح یہ علماءبھی کبر و حرص و ہوا سے فارغ ہوتے ہیں -

ابیات: (1)’’جو وحدت ِ حق کا عالم بن جاتا ہے اُس کے وجود میں خودی نہیں رہتی اور جس کے اندر خودی موجود ہو وہ علمِ حق نہیں پڑھ سکتا ‘‘-

(2)’’ موذی نفس کو تیغِ قال سے قتل کر دے ورنہ نفس اہل ِقال کو تیغِ زوال سے قتل کر دیتا ہے‘‘-

(3)’’ جو کوئی اپنے نفس کو قتل کرنا چاہتاہے اُسے چاہیے کہ وہ اُسے تصورِ اسم اللہ ذات کی تلوار اور ترک ِہو ا سے قتل کرے ‘‘-

فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’جس نے خود کو ہوائے نفس سے روکا بے شک اُس کا ٹھکانا جنت ہے‘‘- نفس جب تک علمِ دیدار سے مشرف ِحضوری کا سبق نہیں پڑھتا وہ ہرگز ہوا و گناہ سے باز نہیں آتا- اگر چہ کوئی عمر بھر سنگ ِ ریاضت سے سر پھوڑتا پھرے اُس کا کوئی فائدہ نہیں-

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’ اور مَیں اپنے نفس کو بے قصور نہیں ٹھراتا ، بے شک نفس بڑی برائی کا حکم دیتا ہے‘‘-

ابیات : (1)’’اِس نفس کو اگر قید کر لیا جائے تو پھر کیا غم ہے؟لیکن نفس کو یہ بت پرست کہاں پہچان سکتے ہیں؟‘‘(2)’’ نفس کی شناخت قرب ِخدا سے ہوتی ہے کہ قرب ِ خدا میں نفس شرمندہ ہو کر ہو ا سے رک جاتا ہے‘‘-(3)’’قرب ِخدا میں پہنچ کر نفس و قلب و روح کا نام و نشان باقی نہیں رہتا،وہاں تو عارف غرق فی التوحید ہو کر باادب ہو جاتا ہے‘‘- (4)’’عارف کے ساتوں اندامِ وجود سے ستر نور ہویدا ہوتے ہیں جو یک جا ہو کر حضور ِحق میں حاضر ہوتے ہیں‘‘-(5)’’طالب ِدیدار خدا کو پاتا ہے اور طالب ِ مردار نفس و ہوا کو پاتا ہے‘‘-(6)’’ طالبوں کوحق طلبی کے سوا اور کیا چاہیے؟ تُو اپنی جان کو رازِ ربانی کی تلاش میں فدا کردے‘‘-(7)’’ اگر تُو عاشق ِحق ہے تو دم نہ مار اور اپنا سر پیش کردے، اِس راہ میں اگر سر گردن سے جدا ہو جائے تو بہت اچھاہے‘‘- (8)’’جو گم نام ہو جائے وہ مرتا ہرگز نہیں کہ صاحب ِنظر اپنے نام کو پوشیدہ رکھتے ہیں‘‘- (9)’’  اے باھُو! ہر ادنیٰ و اعلیٰ اپنی طلب رکھتا ہے، قلب کی طلب قلب سے پوری ہوتی ہے اور کلب(طالب ِدنیا کتے) کی طلب کلب سے پوری ہوتی ہے‘‘-

جان لے کہ شعراء کا علم بلاغت ِدانش سے معمور ہوتا ہے بلکہ اُن کے اشعار میں شعور کی پختگی ہوتی ہے اور فقراء  کا علم قرب اللہ حضوری سے ہوتا ہے اگرچہ وہ خام ہی کیوں نہ نظر آئے -شعراءکے کلام میں بھرپور لذت ہوتی ہے تاہم فقراء کا کلام خام نظر آنے کے باوجود شہد کی طرح شیریں اور شوقِ دیدار کی لذت سے پُر سیم و زر سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے-

بیت: ’’  میرا کلام اسرارِ الٰہی کا جامع ہے اِسے وہ سمجھے گا جو بے سر ہو کر اِسے پڑھے گا کہ بے سر عارف صاحب ِنظر ہوتا ہے‘‘-

 

(جاری ہے)

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے : ’’میری اُمت کےعلماء انبیائے بنی اسرائیل سے افضل ہیں‘‘- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت کے یہ علماء عارف باللہ ولی اللہ فقیر ہیں-

بیت’’ علمِ وحدت سے مَیں باخدا عالم بنا ہوں کہ جو علم معرفت ِ وحدت کے لئے پڑھا جائے وہ باطن کی صفائی کرتا ہے‘‘-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’علماء ابنیاء (﷩)کاورثہ ہیں‘‘-اُن علماء کی مجلس گویا ابنیاء (﷩) کی مجلس ہے کہ   ابنیاء (﷩) کی طر ح یہ علماءبھی کبر و حرص و ہوا سے فارغ ہوتے ہیں -

ابیات: (1)’’جو وحدت ِ حق کا عالم بن جاتا ہے اُس کے وجود میں خودی نہیں رہتی اور جس کے اندر خودی موجود ہو وہ علمِ حق نہیں پڑھ سکتا ‘‘-

(2)’’ موذی نفس کو تیغِ قال سے قتل کر دے ورنہ نفس اہل ِقال کو تیغِ زوال سے قتل کر دیتا ہے‘‘-

(3)’’ جو کوئی اپنے نفس کو قتل کرنا چاہتاہے اُسے چاہیے کہ وہ اُسے تصورِ اسم اللہ ذات کی تلوار اور ترک ِہو ا سے قتل کرے ‘‘-

فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’جس نے خود کو ہوائے نفس سے روکا بے شک اُس کا ٹھکانا جنت ہے‘‘- نفس جب تک علمِ دیدار سے مشرف ِحضوری کا سبق نہیں پڑھتا وہ ہرگز ہوا و گناہ سے باز نہیں آتا- اگر چہ کوئی عمر بھر سنگ ِ ریاضت سے سر پھوڑتا پھرے اُس کا کوئی فائدہ نہیں-

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’ اور مَیں اپنے نفس کو بے قصور نہیں ٹھراتا ، بے شک نفس بڑی برائی کا حکم دیتا ہے‘‘-

ابیات : (1)’’اِس نفس کو اگر قید کر لیا جائے تو پھر کیا غم ہے؟لیکن نفس کو یہ بت پرست کہاں پہچان سکتے ہیں؟‘‘(2)’’ نفس کی شناخت قرب ِخدا سے ہوتی ہے کہ قرب ِ خدا میں نفس شرمندہ ہو کر ہو ا سے رک جاتا ہے‘‘-(3)’’قرب ِخدا میں پہنچ کر نفس و قلب و روح کا نام و نشان باقی نہیں رہتا،وہاں تو عارف غرق فی التوحید ہو کر باادب ہو جاتا ہے‘‘- (4)’’عارف کے ساتوں اندامِ وجود سے ستر نور ہویدا ہوتے ہیں جو یک جا ہو کر حضور ِحق میں حاضر ہوتے ہیں‘‘-(5)’’طالب ِدیدار خدا کو پاتا ہے اور طالب ِ مردار نفس و ہوا کو پاتا ہے‘‘-(6)’’ طالبوں کوحق طلبی کے سوا اور کیا چاہیے؟ تُو اپنی جان کو رازِ ربانی کی تلاش میں فدا کردے‘‘-(7)’’ اگر تُو عاشق ِحق ہے تو دم نہ مار اور اپنا سر پیش کردے، اِس راہ میں اگر سر گردن سے جدا ہو جائے تو بہت اچھاہے‘‘- (8)’’جو گم نام ہو جائے وہ مرتا ہرگز نہیں کہ صاحب ِنظر اپنے نام کو پوشیدہ رکھتے ہیں‘‘- (9)’’  اے باھُو! ہر ادنیٰ و اعلیٰ اپنی طلب رکھتا ہے، قلب کی طلب قلب سے پوری ہوتی ہے اور کلب(طالب ِدنیا کتے) کی طلب کلب سے پوری ہوتی ہے‘‘-

جان لے کہ شعراء کا علم بلاغت ِدانش سے معمور ہوتا ہے بلکہ اُن کے اشعار میں شعور کی پختگی ہوتی ہے اور فقراء  کا علم قرب اللہ حضوری سے ہوتا ہے اگرچہ وہ خام ہی کیوں نہ نظر آئے -شعراءکے کلام میں بھرپور لذت ہوتی ہے تاہم فقراء کا کلام خام نظر آنے کے باوجود شہد کی طرح شیریں اور شوقِ دیدار کی لذت سے پُر سیم و زر سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے-

بیت: ’’  میرا کلام اسرارِ الٰہی کا جامع ہے اِسے وہ سمجھے گا جو بے سر ہو کر اِسے پڑھے گا کہ بے سر عارف صاحب ِنظر ہوتا ہے‘‘-

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر