ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

Flames emerging from smoke of longing pain no one dare acquire warmth from it Hoo

The heat of such smoke is scorching hot only acquainted could accesses heat from it Hoo

He is standing with drawn sword over the head if he takes pity he might remove the sword Hoo

O girl! our have to go to in-laws Bahoo you are not to remain forever in parental abode Hoo

Dard mandaa’N day dhoe’N Dukhday Darda koi na sekay Hoo

Inha’N dhowaa’N day ta tikheray mehram howay taa’N sekay Hoo

Chik shamsher kha’Ra hay sar tay tars powis taa’N thekay Hoo

Sahvray ku’Riye apnay wanjnaa’N Bahoo sada naa’N rahnaa’N pekay Hoo

تشریح:

بلبل نیم کہ نعرہ  زنم  و درد سر کنم
پروانہ نیستم کہ بہ یک شعلہ جاں دہم

 

پروانہ ام کہ سوزم  و دم بر نیاورم
مرغ سمند رم  کہ  در آتش  نشستہ  ام[1]

’’مَیں بلبل نہیں کہ نعرہ زن ہو کر سردردی کا باعث بنوں،مَیں تو پروانہ ہوں کہ جل کر بھی دم نہ ماروں -بلکہ مَیں پروانہ بھی نہیں کہ ایک ہی شعلہ سے جان دے دوں،مَیں تومرغِ سمندر ہوں کہ جس کی جائے زیست آگ ہے‘‘-

عاشق ہی صحیح معنوں میں دردمند ہوتے ہیں کہ اُنہوں نے جہاں بھر کے درد کو اپنے دل میں سمیٹ رکھا ہے-حضور سلطان العارفین ؒ فرماتے ہیں کہ :-

این ندرویش اند بخود خود پسند

 

درویش آن باشد کہ دردِ عالم برند[2]

’’یہ  خود پرست لوگ درویش نہیں ہوتے ، درویش وہ ہیں جو سارے جہان کا درد اپنے دل میں چھپائے رکھتے ہیں ‘‘-

درد مندوں کے دل میں شوق الی اللہ کی آگ بھڑک رہی ہوتی ہے-عشق ایک آگ ہے اور اس کا مسلسل بھڑکنا ہی اس کی خاصیت ہے-جیسے آگ کا وجود شعلے سے ہے بعینہٖ فقیر کا وجود عشق سے ہے-محبت آتشِ عشق کادھواں ہے- اس لیے آتشِ عشق میں جلنے والے محبت کے پیام بر ہوتے ہیں -شمع اپنی لو اس شوق میں برقرار رکھتی ہے کہ پروانے اس کے گرد جمع ہوں اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ شمع اورپروانوں کاساتھ دائمی ہے -لیکن اُس فقیر کے درد کا اندازا کون کرسکے گا کہ جو ہمہ وقت آتش عشق روشن کیے بیٹھا ہے لیکن اس سے فیض یاب ہونے والے موجود نہ ہوں-فقیر کے اندر یہ جذبہ ہوتا ہے کہ تمام مخلوق خدا اللہ تعالیٰ کی دیوانی ہوجائے لیکن لوگوں کی رغبت توصرف مال،دولت اورآسائش زندگی ہے -اس لیے اُنہیں یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ اگر وہ فقیر کی صحبت میں گئے تو اسبابِ دُنیا کی محبت سے اُن کادل خالی ہوجائے گا-رزق کی کمی کاخوف انہیں راہِ راست کی جانب آنے نہیں دیتا-فقیر عاشق محرم راز کامنتظر ہوتا ہےکیونکہ اس کی اندرونی کیفیت کو محرم راز ہی سمجھ سکتا ہے-عشق اپنے لاؤ لشکر سمیت فقیر کے دل میں براجمان ہے توا ب ضرورت ہے ایسے طالب کی جو تیرگیٔ دُنیا سے بیزار ہوکر شمعٔ عشق پہ جان کی بازی لگانے آئے-فقیر ایک خوش نما پھول ہے جس کی خوشبو چہار سو پھیلی ہو-

مرشد عشق کی تلوار لیے سر پہ کھڑا ہے اورطالب فقیر اُس کے روبرو سرتسلیم خیم کیے ہے آپ فرماتے ہیں کہ:-

’’مرشد مشفق و محرمِ اسرار مہرِمحبت کو کہتے ہیں- مرشد تلوار کی مثل ہے، اُس کے پاس وہ طالب جائے جو اپنا سر گردن سے جدا کرا سکتا ہو-مرشد چھری کی مثل ہے، اُس کے پاس وہ طالب جائے جو خود کو اپنے ہی ہاتھوں ذبح کرا سکتا ہو- مرشد ملک الموت عزرائیل علیہ السلام کی مثل ہے، اُس کے پاس وہ طالب جائے جسے اپنی جان کی طمع نہ ہو- مرشد فقر و فاقہ کی حویلی کی مثل ہے،اُس کے پاس وہ طالب جائے جو فقر و فاقہ جھیل سکتا ہو-مرشد پھانسی کے پھندے کی مثل ہے، اُس کے پاس وہ طالب جائے جو سولی پرچڑھ سکتا ہو- مرشد آگ کی مثل ہے، اُس کے پاس وہ طالب جائے جو نفس کافر کو جلا سکتا ہو-جو طالب مرشد کے ساتھ با اخلاص رہنا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ وہ اپنی نگاہ محبت پر رکھے نہ کہ نیکی و بدی پر کہ نیکی و بدی پر نظر رکھنا جاسوسوں کا کام ہے نہ کہ طالبانِ مولیٰ کا‘‘[3]-

یہاں پیکے (میکے) سے مراد ظاہری زندگی ہے اورساہورے (سسرال ) کو اُخروی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے -ایک ہوش مند خاتون والدین کے گھر میں رہ کر سخت تربیت سے گزرتی ہے تاکہ سسرال میں آنے والی زندگی آسان ہوسکے -اس دُنیا میں بھی انسان کاقیام عارضی نوعیت کا ہے -جو لوگ دُنیَوی زندگی کو حرفِ آخر سمجھ لیتے ہیں ایسے انسان کو قریباً تمام الہامی مذاہب غافل گردانتے ہیں -یہ غفلت اُس کی دُنیَوی زندگی بھی خراب کردیتی ہے -جو پرندے خوشگوار موسم میں اَناج ذخیرہ نہیں کرتے سخت موسم اُن کے لیے جان لیوا ثابت ہوتاہے-جو انسان اپنی جوانی میں محنت نہیں کرتا اُس کابڑھاپا سامانِ عبرت بن جاتا ہے -جولوگ اس دُنیا میں معرفت خداوندی سے عاری ہوں گے وہ آخرت میں بھی قربِ ذات سے محروم رہیں گے -دنیوی زندگی عارضی میکے کی طرح عارضی بسیرا ہے اورآخرت سسرال کی طرح مستقل قیام کی جگہ ہے-


[1](کلید توحید کلاں، ص:521)

[2](محک الفقر، ص:231)

[3](عین الفقر، ص:413)

تشریح:

بلبل نیم کہ نعرہ  زنم  و درد سر کنم
پروانہ نیستم کہ بہ یک شعلہ جاں دہم

 

پروانہ ام کہ سوزم  و دم بر نیاورم
مرغ سمند رم  کہ  در آتش  نشستہ  ام[1]

’’مَیں بلبل نہیں کہ نعرہ زن ہو کر سردردی کا باعث بنوں،مَیں تو پروانہ ہوں کہ جل کر بھی دم نہ ماروں -بلکہ مَیں پروانہ بھی نہیں کہ ایک ہی شعلہ سے جان دے دوں،مَیں تومرغِ سمندر ہوں کہ جس کی جائے زیست آگ ہے‘‘-

عاشق ہی صحیح معنوں میں دردمند ہوتے ہیں کہ اُنہوں نے جہاں بھر کے درد کو اپنے دل میں سمیٹ رکھا ہے-حضور سلطان العارفین (﷫)فرماتے ہیں کہ :-

این ندرویش اند بخود خود پسند

 

درویش آن باشد کہ دردِ عالم برند[2]

’’یہ  خود پرست لوگ درویش نہیں ہوتے ، درویش وہ ہیں جو سارے جہان کا درد اپنے دل میں چھپائے رکھتے ہیں ‘‘-

درد مندوں کے دل میں شوق الی اللہ کی آگ بھڑک رہی ہوتی ہے-عشق ایک آگ ہے اور اس کا مسلسل بھڑکنا ہی اس کی خاصیت ہے-جیسے آگ کا وجود شعلے سے ہے بعینہٖ فقیر کا وجود عشق سے ہے-محبت آتشِ عشق کادھواں ہے- اس لیے آتشِ عشق میں جلنے والے محبت کے پیام بر ہوتے ہیں -شمع اپنی لو اس شوق میں برقرار رکھتی ہے کہ پروانے اس کے گرد جمع ہوں اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ شمع اورپروانوں کاساتھ دائمی ہے -لیکن اُس فقیر کے درد کا اندازا کون کرسکے گا کہ جو ہمہ وقت آتش عشق روشن کیے بیٹھا ہے لیکن اس سے فیض یاب ہونے والے موجود نہ ہوں-فقیر کے اندر یہ جذبہ ہوتا ہے کہ تمام مخلوق خدا اللہ تعالیٰ کی دیوانی ہوجائے لیکن لوگوں کی رغبت توصرف مال،دولت اورآسائش زندگی ہے -اس لیے اُنہیں یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ اگر وہ فقیر کی صحبت میں گئے تو اسبابِ دُنیا کی محبت سے اُن کادل خالی ہوجائے گا-رزق کی کمی کاخوف انہیں راہِ راست کی جانب آنے نہیں دیتا-فقیر عاشق محرم راز کامنتظر ہوتا ہےکیونکہ اس کی اندرونی کیفیت کو محرم راز ہی سمجھ سکتا ہے-عشق اپنے لاؤ لشکر سمیت فقیر کے دل میں براجمان ہے توا ب ضرورت ہے ایسے طالب کی جو تیرگیٔ دُنیا سے بیزار ہوکر شمعٔ عشق پہ جان کی بازی لگانے آئے-فقیر ایک خوش نما پھول ہے جس کی خوشبو چہار سو پھیلی ہو-

مرشد عشق کی تلوار لیے سر پہ کھڑا ہے اورطالب فقیر اُس کے روبرو سرتسلیم خیم کیے ہے آپ فرماتے ہیں کہ:-

’’مرشد مشفق و محرمِ اسرار مہرِمحبت کو کہتے ہیں- مرشد تلوار کی مثل ہے، اُس کے پاس وہ طالب جائے جو اپنا سر گردن سے جدا کرا سکتا ہو-مرشد چھری کی مثل ہے، اُس کے پاس وہ طالب جائے جو خود کو اپنے ہی ہاتھوں ذبح کرا سکتا ہو- مرشد ملک الموت عزرائیل علیہ السلام کی مثل ہے، اُس کے پاس وہ طالب جائے جسے اپنی جان کی طمع نہ ہو- مرشد فقر و فاقہ کی حویلی کی مثل ہے،اُس کے پاس وہ طالب جائے جو فقر و فاقہ جھیل سکتا ہو-مرشد پھانسی کے پھندے کی مثل ہے، اُس کے پاس وہ طالب جائے جو سولی پرچڑھ سکتا ہو- مرشد آگ کی مثل ہے، اُس کے پاس وہ طالب جائے جو نفس کافر کو جلا سکتا ہو-جو طالب مرشد کے ساتھ با اخلاص رہنا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ وہ اپنی نگاہ محبت پر رکھے نہ کہ نیکی و بدی پر کہ نیکی و بدی پر نظر رکھنا جاسوسوں کا کام ہے نہ کہ طالبانِ مولیٰ کا‘‘[3]-

یہاں پیکے (میکے) سے مراد ظاہری زندگی ہے اورساہورے (سسرال ) کو اُخروی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے -ایک ہوش مند خاتون والدین کے گھر میں رہ کر سخت تربیت سے گزرتی ہے تاکہ سسرال میں آنے والی زندگی آسان ہوسکے -اس دُنیا میں بھی انسان کاقیام عارضی نوعیت کا ہے -جو لوگ دُنیَوی زندگی کو حرفِ آخر سمجھ لیتے ہیں ایسے انسان کو قریباً تمام الہامی مذاہب غافل گردانتے ہیں -یہ غفلت اُس کی دُنیَوی زندگی بھی خراب کردیتی ہے -جو پرندے خوشگوار موسم میں اَناج ذخیرہ نہیں کرتے سخت موسم اُن کے لیے جان لیوا ثابت ہوتاہے-جو انسان اپنی جوانی میں محنت نہیں کرتا اُس کابڑھاپا سامانِ عبرت بن جاتا ہے -جولوگ اس دُنیا میں معرفت خداوندی سے عاری ہوں گے وہ آخرت میں بھی قربِ ذات سے محروم رہیں گے -دنیوی زندگی عارضی میکے کی طرح عارضی بسیرا ہے اورآخرت سسرال کی طرح مستقل قیام کی جگہ ہے-



[1](کلید توحید کلاں، ص:521)

[2](محک الفقر، ص:231)

[3](عین الفقر، ص:413)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر