ابیاتِ باھوؒ

ابیاتِ باھوؒ

Our longing pain is within ourselves death I shall face if I expose Hoo

Those who are fond of world, of my state how could they suppose Hoo

Ishq’s deep ocean which causes hindrance all the while Hoo

Reaching Hazoor isn’t easy Bahoo beg for your name in meanwhile Hoo

Dard andar da sa’Ry bahir kara’N ta’N ghaail Hoo

Hall asa’Da kivai’N ooh janan,  jo dunia tay maail Hoo

Bahr samandar ishqay wala, har dam rahnda Haail Hoo

Pohanch Hazoor Asan na Bahoo, asa’N naam teray day saail Hoo

تشریح:

راز ِدل ایک درد ہے-اس راز کو چھپانا فرض ہے لیکن کیاکیجئے کہ یہ چھپائے نہیں چھپتا،اس کااظہار ضرور ہے لیکن کیاکریں مخلوق اِس راز کی تاب نہیں رکھتی-عاشق ہر وقت اِسی کشمکش سے دو چار رہتاہے-قربِ حق کی تجلی کانام رازِدل ہے-عاشق اس تجلی کو چھپانے پہ مجبور ہے-قربِ ذات کی تجلی اگر ظاہر ہوجائے تو مخلوق درد و سوز سے پروانہ وار جلنے لگے-جیسا کہ حضور سلطان العارفین قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ:

’’آخری زمانے میں میرے محبوب حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)کی اُمت کے فقیروں کے دلوں پر ہر روز سترّ ہزار بار ایسے انوارِ تجلیات برسیں گے لیکن اُن میں کوئی تغیر پیدا نہ ہو گا بلکہ وہ فریاد کناں ہوں گے اور عرض کریں گے:’’ الٰہی ہمارا اشتیاق اور ہماری محبت جوں کی توں ہے‘‘-کیونکہ اُن کے دل میں وہ آتش ِعشق بھڑک رہی ہے جو عاشق درویشو ں کے د ل کے علاوہ کہیں اور قرار نہیں پکڑ سکتی-اگر خدانخواستہ اُن میں سے کوئی صاحب ِ درد غلبات ِشوق سے مجبور ہو کر اپنے سینے سے ایک آہ بھی نکال دے تو مشرق سے مغرب تک تمام عالم جل اُٹھے اور کچھ بھی باقی نہ بچے‘‘[1]-

اِس لیے عاشق اِس تجلی کو خود برداشت کرتاہے اورمخلوق کو آزمائش میں نہیں ڈالتا-عشاق کایہ درد اسوۂ حسنہ کے مطابق ہے کہ آپ قدس اللہ سرہٗ اُم المومنین حضر ت عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہما) کے حوالے سے ایک روایت نقل فرماتے ہیں کہ:

’’اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہما)فرماتی ہیں :’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہر وقت مشاہدۂ معرفت اور قربِ اِلٰہی میں مشغول رہتے تھے اور مشاہدۂ توحید و نور حضور میں اُن کی محویت اِس قدرہوتی تھی کہ دم بھر کے لیے بھی مشاہدۂ حضورِربانی سے فارغ نہیں ہوتے تھے‘‘-[2]

(۲)عاشق کی مذکورہ کیفیت سے دُنیا دار کبھی آگاہ نہیں ہوسکتے-اس کی وجہ یہ ہے کہ عاشق الٰہی اوردُنیا دار ایک دوسرے کی ضد ہیں کیونکہ عاشق کے دل میں اسم اللہ ذات ہوتا ہے جب کہ دُنیادار کے دِل میں حب دُنیا براجمان ہوتی ہے-عاشق کی ایک بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ساری مخلوق خداعشق ِ الٰہی کی راہ پر گامزن ہوجائے لیکن دُنیاداروں کی ترجیحات میں عشق اوراس کا حاصل شامل نہیں ہوتا-عاشق فقیر اپنی کیفیت کے راز سے پردہ نہیں اُٹھاتا اوردُنیا دار اُس کی ظاہری خستہ حالی دیکھ کر اُسے تختۂ مذاق بنا لیتا ہے-

(۳)اہل فقر پہ ایک کیفیت ایسی بھی وارد ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کاوجود کالعدم ہوجاتاہے-مگر اس سے پہلے عاشق کو عشق کاسمندر عبور کرنا پڑتا ہے-عاشق اور معشوق حقیقی کے مابین عشق کاوسیع سمندر حائل ہوتاہے-لیکن یہ یادر رہے کہ عشق کایہ سمندر کوئی رکاوٹ نہیں ہوتا بلکہ خدا تک پہنچنے کاوسیلہ ہوتا ہے-عشق کے سمندر سے ہی فقیر عرفانِ ذات کے انمول گوہر حاصل کرتاہے-جس کی وجہ سے وہ شوق الی اللہ کی انتہا پہ پہنچ جاتاہے-بحر عشق میں ہی غوطہ زن ہوکر عاشق ماسوٰی اللہ مقاصد وخواہشات سے پاک ہوجاتا ہے-دریائے عشق فقیر کو فنا فی اللہ کے مرتبہ پہ پہنچا کربقاباللہ کی جانب گامزن کرتاہے-حدیث قدسی میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ :

’’کُنْتُ کَنْزاًمَخْفِیاًّ فَاَرَدْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِیَعْرِفُوْنِیْ ‘‘[3]

 

’’مَیں ایک مخفی خزانہ تھا ،میرا ارادہ ہوا کہ مَیں پہچانا جاؤں ،پس مَیں نے مخلوق کو پیدا کیا تا کہ وہ مجھے پہچانیں‘‘-

مخلوق کی تخلیق سے پہلے وہ جیسا تھا اب بھی ویسا ہی ہے یعنی توحید ہی توحید،وحدت ہی وحدت اوروحدتِ حق تک پہنچنے کے لیے عشق کا دریا عبور کرنا پڑتا ہے-بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ عشق ہی ذات حق تک پہنچاتا ہے-

(۴)اسم اللہ ذات کے بغیر وحدت حق تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا-اسم اللہ ذات کیا ہے ؟اسم اللہ ذات توحید ہی توحید ہے-فقیر کے قرب حق کے سوال کاجواب اسم اللہ ذات ہے-وہ اللہ تعالیٰ سے بھی اسم اللہ ذات کے سوا کوئی دوسرا سوال نہیں کرتا کہ اسم اللہ ذات کے ذریعے ہی قرب ذات کے مراتب حاصل ہوتے ہیں-

عشق  را  بامِ  بلند  است  اسم اَللّٰہُ نرد بان

 

ہر  مکانی  بی  نشانی  می   برد  در لا مکان

 ’’ عشق کی چھت بہت بلند ہے، اُس پر پہنچنے کے لئے اسم اللہ ذات کی سیڑھی استعمال کر جو تجھے ہر منزل و ہر مقام بلکہ لامکان تک پہنچا دے‘‘[4]-


[1](عین الفقر، ص:125)

[2](کلید التوحید:ص:79)

[3](کتاب التعریفات،ص:120)

[4](عین الفقر،ص:291)

د:83

 

 

Our longing pain is within ourselves death I shall face if I expose Hoo

Those who are fond of world, of my state how could they suppose Hoo

Ishq’s deep ocean which causes hindrance all the while Hoo

Reaching Hazoor isn’t easy Bahoo beg for your name in meanwhile Hoo

Dard andar da sa’Ry bahir kara’N ta’N ghaail Hoo

Hall asa’Da kivai’N ooh janan,  jo dunia tay maail Hoo

Bahr samandar ishqay wala, har dam rahnda Haail Hoo

Pohanch Hazoor Asan na Bahoo, asa’N naam teray day saail Hoo

تشریح:

راز ِدل ایک درد ہے-اس راز کو چھپانا فرض ہے لیکن کیاکیجئے کہ یہ چھپائے نہیں چھپتا،اس کااظہار ضرور ہے لیکن کیاکریں مخلوق اِس راز کی تاب نہیں رکھتی-عاشق ہر وقت اِسی کشمکش سے دو چار رہتاہے-قربِ حق کی تجلی کانام رازِدل ہے-عاشق اس تجلی کو چھپانے پہ مجبور ہے-قربِ ذات کی تجلی اگر ظاہر ہوجائے تو مخلوق درد و سوز سے پروانہ وار جلنے لگے-جیسا کہ حضور سلطان العارفین قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ:

’’آخری زمانے میں میرے محبوب حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)کی اُمت کے فقیروں کے دلوں پر ہر روز سترّ ہزار بار ایسے انوارِ تجلیات برسیں گے لیکن اُن میں کوئی تغیر پیدا نہ ہو گا بلکہ وہ فریاد کناں ہوں گے اور عرض کریں گے:’’ الٰہی ہمارا اشتیاق اور ہماری محبت جوں کی توں ہے‘‘-کیونکہ اُن کے دل میں وہ آتش ِعشق بھڑک رہی ہے جو عاشق درویشو ں کے د ل کے علاوہ کہیں اور قرار نہیں پکڑ سکتی-اگر خدانخواستہ اُن میں سے کوئی صاحب ِ درد غلبات ِشوق سے مجبور ہو کر اپنے سینے سے ایک آہ بھی نکال دے تو مشرق سے مغرب تک تمام عالم جل اُٹھے اور کچھ بھی باقی نہ بچے‘‘[1]-

اِس لیے عاشق اِس تجلی کو خود برداشت کرتاہے اورمخلوق کو آزمائش میں نہیں ڈالتا-عشاق کایہ درد اسوۂ حسنہ کے مطابق ہے کہ آپ قدس اللہ سرہٗ اُم المومنین حضر ت عائشہ صدیقہ(﷞) کے حوالے سے ایک روایت نقل فرماتے ہیں کہ:

’’اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ(﷞)فرماتی ہیں :’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہر وقت مشاہدۂ معرفت اور قربِ اِلٰہی میں مشغول رہتے تھے اور مشاہدۂ توحید و نور حضور میں اُن کی محویت اِس قدرہوتی تھی کہ دم بھر کے لیے بھی مشاہدۂ حضورِربانی سے فارغ نہیں ہوتے تھے‘‘-[2]

(۲)عاشق کی مذکورہ کیفیت سے دُنیا دار کبھی آگاہ نہیں ہوسکتے-اس کی وجہ یہ ہے کہ عاشق الٰہی اوردُنیا دار ایک دوسرے کی ضد ہیں کیونکہ عاشق کے دل میں اسم اللہ ذات ہوتا ہے جب کہ دُنیادار کے دِل میں حب دُنیا براجمان ہوتی ہے-عاشق کی ایک بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ساری مخلوق خداعشق ِ الٰہی کی راہ پر گامزن ہوجائے لیکن دُنیاداروں کی ترجیحات میں عشق اوراس کا حاصل شامل نہیں ہوتا-عاشق فقیر اپنی کیفیت کے راز سے پردہ نہیں اُٹھاتا اوردُنیا دار اُس کی ظاہری خستہ حالی دیکھ کر اُسے تختۂ مذاق بنا لیتا ہے-

(۳)اہل فقر پہ ایک کیفیت ایسی بھی وارد ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کاوجود کالعدم ہوجاتاہے-مگر اس سے پہلے عاشق کو عشق کاسمندر عبور کرنا پڑتا ہے-عاشق اور معشوق حقیقی کے مابین عشق کاوسیع سمندر حائل ہوتاہے-لیکن یہ یادر رہے کہ عشق کایہ سمندر کوئی رکاوٹ نہیں ہوتا بلکہ خدا تک پہنچنے کاوسیلہ ہوتا ہے-عشق کے سمندر سے ہی فقیر عرفانِ ذات کے انمول گوہر حاصل کرتاہے-جس کی وجہ سے وہ شوق الی اللہ کی انتہا پہ پہنچ جاتاہے-بحر عشق میں ہی غوطہ زن ہوکر عاشق ماسوٰی اللہ مقاصد وخواہشات سے پاک ہوجاتا ہے-دریائے عشق فقیر کو فنا فی اللہ کے مرتبہ پہ پہنچا کربقاباللہ کی جانب گامزن کرتاہے-حدیث قدسی میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ :

’’کُنْتُ کَنْزاًمَخْفِیاًّ فَاَرَدْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِیَعْرِفُوْنِیْ ‘‘[3]

 

’’مَیں ایک مخفی خزانہ تھا ،میرا ارادہ ہوا کہ مَیں پہچانا جاؤں ،پس مَیں نے مخلوق کو پیدا کیا تا کہ وہ مجھے پہچانیں‘‘-

مخلوق کی تخلیق سے پہلے وہ جیسا تھا اب بھی ویسا ہی ہے یعنی توحید ہی توحید،وحدت ہی وحدت اوروحدتِ حق تک پہنچنے کے لیے عشق کا دریا عبور کرنا پڑتا ہے-بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ عشق ہی ذات حق تک پہنچاتا ہے-

(۴)اسم اللہ ذات کے بغیر وحدت حق تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا-اسم اللہ ذات کیا ہے ؟اسم اللہ ذات توحید ہی توحید ہے-فقیر کے قرب حق کے سوال کاجواب اسم اللہ ذات ہے-وہ اللہ تعالیٰ سے بھی اسم اللہ ذات کے سوا کوئی دوسرا سوال نہیں کرتا کہ اسم اللہ ذات کے ذریعے ہی قرب ذات کے مراتب حاصل ہوتے ہیں-

عشق  را  بامِ  بلند  است  اسم اَللّٰہُ نرد بان

 

ہر  مکانی  بی  نشانی  می   برد  در لا مکان

’’ عشق کی چھت بہت بلند ہے، اُس پر پہنچنے کے لئے اسم اللہ ذات کی سیڑھی استعمال کر جو تجھے ہر منزل و ہر مقام بلکہ لامکان تک پہنچا دے‘‘[4]-



[1](عین الفقر، ص:125)

[2](کلید التوحید:ص:79)

[3](کتاب التعریفات،ص:120)

[4](عین الفقر،ص:291)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر