ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

جیوندے کے جاننط سارمویاں دی سو جانے جو مردا ھُو

قبراں دے وچ اَن ناں پانی اوتھے خرچ لوڑیندا گھر دا ھُو

اک وچھوڑا ما پیو بھائیاں دوجا عذاب قبر دا ھُو

واہ نصیب انہاندا باھُو (رح) جیہڑا وچ حیاتی مردا ھُو

Jiondey ki janan saar moyaaN di so janey jo marda Hoo

QabraaN dey wich an naaN pani othey kharch loR'heendha ghar da Hoo

Ikk wicho'ra maa pio bhaeyaN dooja azab qabar da Hoo

Wah naseeb onhanda "Bahoo" jehRa wich hayati marda Hoo

 

How would living know the plight of deceased, one knows who dies Hoo

There is no food or water in greaves, household expense in needed Hoo

Initial grief of separation from kith and kin, secondly punishment of the greave indeed Hoo

Excellent fate is of the one "Bahoo" within life who dies Hoo

تشریح:

عالمِ حیات و عالم ِممات دریا کے دوکناروں کی مانند ہمیشہ ایک ساتھ متوازی چلتے ہیں لیکن کبھی مل نہیں پاتے -زندگی کے کنارے پہ رہنے والے موت کے کنارے پہ مقیم لوگوں کے احوال نہیں جان سکتے تاوقتیکہ ایک کنارے والے دوسرے کنارے پہ منتقل نہ ہوجائیں-اِلہامی ذرائع سے اہل زندگی کو اہل موت کے حالات سے باخبر کیاجاتاہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان حالات وواقعات کی تصدیق صرف مرنے کے بعد ہی ہوسکتی ہے- سلطان العارفین رحمۃ اللہ علیہ نے واشگاف الفاظ میں بتایا ہے بعداز وفات حالات پہ مرنے سے پہلے کوئی عام آدمی آگاہ نہیں ہوسکتا کیونکہ عالَمِ حیات اورعالَمِ ممات کے باہم معلومات کی ترسیل اوران کا اِظہار عام طور پہ ممکن نہیں ، یہ علم اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف اپنے خاص چنے ہوئے بندوں کو عطا فرمایا ہے -

﴿۲﴾ عاقبت توجائی خانہ شد قبر           کس نبردہ در قبر این سیم و زر

’’آخر تیرا ٹھکانہ بھی تو قبر کا گھر ہے اور قبر میں کبھی کوئی سونا چاندی ساتھ لے کر نہیں جاتا ‘‘ - ﴿امیرالکونین:۷۵۲﴾

قبر میں دُنیَوی ساز و سامان کام نہیں آتا بھلے تہہ خانہ بنا کر ضروریاتِ زندگی ذخیرہ کر لی جائیں اور اُسی کے ساتھ کوئی دفن بھی ہو جائے مگر یہ کاوش بے فائدہ ہو گی - دُنیا سے اَعمال حسنہ کی جو سوغات لے کر جائو گے وہی نجات کا سبب بنے گی اور خاص کر معرفتِ الٰہی کا توشہ قبر کو خلوت خانہ ٔ خاص بنائے گاکہ جہاں بندہ اپنے مولیٰ کے ساتھ راز ونیاز میں مصروف رہے گا-

گر بمیرم  برد  ما  را  زیرِ خاک                     جان تن من خوش بگوید ذکر پاک

’’اگر مَیں مر بھی گیا اور مجھے زمین میں دفنا دیا گیا تو میری جان و تن من ذکرِاَللّٰہُ میں مشغول رہیں گے ‘‘ -

 خوش بگویم آنچہ دارم د رضمیر                    چوں بیایند نزدِ من منکر نکیر

’’جب منکر نکیر میرے پاس آئیں گے تو مَیں اُن کو اپنا مافی الضمیردکھا دوں گا ‘‘ - ﴿عین الفقر:۵۱۲﴾

﴿۳﴾ شریعت سے یہ امر ثابت ہے کہ میت اپنے اردگرد بین کرنے والوں کی صدائیں سماعت بھی کرتی ہے - لیکن فرق یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے اِظہار سے محروم ہوتی ہے - اسی لیے فرمایا گیا کہ مرنے والے کواپنے خاندان سے بچھڑنے کا احساس ہوتا ہے بلکہ اپنے اعزّہ سے دُوری اُن کے لئے باعث ِکرب بھی ہوتی ہے - جب کہ گناہ گاروں کے لئے تو اُن کی قبر جہنم کا گڑھا ثابت ہو گی اور جہنم کا عذاب پوری طرح محسوس کریں گے - ﴿۴﴾ حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے ایک لطیف اورپُر مغز نکتہ بیان فرمایا کہ انسان کو موت کا ذائقہ ایک بار چکھنا ہے اس لئے وہ فقیر بڑے نصیب والے ہوتے ہیں جو مرنے سے پہلے ہی مرجاتے ہیں - یعنی خواہشات و آرزوئوں سے جدا ہونے کی جو تکلیف موت کے وقت ہوتی ہے فقیر اُسے اپنی زندگی میں ہی قربِ الٰہی کے جلوئوں میں برداشت کر چکے ہوتے ہیں -اس لئے موت اور قبر اُن کے لئے خلوت میں ذکرِ الٰہی کا وافر سامان فراہم کرتی ہے - ’’ مناسب یہ ہے کہ نفس کو کھانے کے لئے دائمی ذکر اللہ کی خوراک دی جائے، رہنے کے لئے زیرِ زمین قبر کھود کر گھر بنایا جائے، پہننے کے لئے کفن کا لباس دیا جائے اورسیر چشمی کے لئے روزِ حشر کا تماشا دکھایا جائے تاکہ اُس کا دل صاف ہو کر جمعیت پکڑے، ہر قسم کی کدورت و آلودگی سے پاک ہو جائے، اللہ تعالیٰ اور اُس کے مابین جملہ حجابات اُٹھ جائیں، دنگا فساد اور لڑائی جھگڑے سے باز رہ کر پُر سکون ہو جائے اور مرنے سے پہلے مر کر ’’ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا ‘‘ کا مصداق بن جائے ‘‘ - ﴿عین الفقر:۹۶۱﴾

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر