ابیات باھو : عشق دیاں اَوَلڑیاں گلاں جِہڑا شَرع تھِیں دور ہَٹاوے ھو

ابیات باھو : عشق دیاں اَوَلڑیاں گلاں جِہڑا شَرع تھِیں دور ہَٹاوے ھو

ابیات باھو : عشق دیاں اَوَلڑیاں گلاں جِہڑا شَرع تھِیں دور ہَٹاوے ھو

مصنف: Translated By M.A Khan اپریل 2022

عشق دیاں اَوَلڑیاں گلاں جِہڑا شَرع تھِیں دور ہَٹاوے ھو
قَاضِی چھوڑ قضائیں جاون جد عِشق طَمانچہ لاوے ھو
لوک اَیانی مَتِیں دَیوَن عاشقاں مَتْ ناں بھَاوے ھو
مُڑن مَحال تِنہاں نوں باھوؒ جنہاں صاحب آپ بُلاوے ھو

 

Fire of ishq burns with bones aashiq acquires warmth from it Hoo

They cut their soul with saw and see how they make kebab of it Hoo

They suck their hearts blood remain perplexed all the while in longing pain Hoo

Among thousand ashiq’s Bahoo ishq is destiny in which some remain Hoo

Ishq di bhaa ha’Daa’N da balan aashiq baih sekainday Hoo

Ghat kay jan jigar wich aara wekh kabab talainday Hoo

Sar girdan phiran har welay khoon jigar da peenday Hoo

Hoye hazara’N aashiq Bahoo par ishq naseeb kahainday Hoo

تشریح : 

عِزِّ دنیا را نہ طلبش انبیأ

 

ترکِ دنیا فرض شد بر اولیأ

 ’’انبیاء ؑ عزوجاہِ دنیا سے پاک تھے اور اولیائے   اَللّٰہُ  پر ترکِ دنیا فرض ہے‘‘-(اسرارالقادری)

سیدی رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے: ’’جس راہ کو شریعت رد کر دے وہ زندقہ کی راہ ہے‘‘-لیکن یاد رہے اسلام صرف ظاہری احکام کا نام نہیں بلکہ اسلا م شریعت، طریقت،معرفت اور حقیقت کے مجموعے کا نام ہے- صوفیاءکرا م کے ہاں ان کے بعض اقوال سے جویہ تاثر ملتاہے کہ شاید یہاں احکام ِ شرع کو اہمیت نہیں دی گئی،حالانکہ بات دراصل یہ ہے کہ اہلِ عشق جہاں شریعت کے محافظ ہوتے ہیں وہاں باطن(طریقت،معرفت اور حقیقت) کےبھی ترجمان ہوتے ہیں اور باطن کے تقاضے بعض اوقات اپنے معبودِ حقیقی کی بارگاہِ اقدس میں گھربار چھوڑنے اورجان و مال کی قربانی کے ہوتے ہیں جن کو ظاہر بین شریعت سے متصادم قرار دیتے ہیں-جیسا کہ سُلطان العارفین حضرت سلطان محمد باھوؒ ارشاد فرماتے ہیں:’’تمام فرائض میں سے افضل ترین فرض خدائے تعالیٰ کو حاضر ناظر جاننا ہے اور افضل ترین سنت راہِ خدا میں گھر بار کو صدقہ کرنا ہے‘‘(عین الفقر)-مزید ارشاد فرمایا:’’مذکر طالب ِمولیٰ وہ ہے جو دنیا سے وضو اور آخرت سے غسل کر لیتا ہے اور اپنا مال و اسباب، اولاد و گھر بار اور جان و دل اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتا‘‘(عین الفقر)-

اس کی حقیقت کو یہاں دومثالوں سے عرض کرتاہوں ایک یہ کہ جب غزوہ تبوک کے موقع پہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے مال طلب فرمایااور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سارا مال قربان فرما دیا تو کیاسیدنا ابوبکرصدیقؓ کو حضور نبی کریم(ﷺ)کے یہ فرمان مبارک ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جواپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہے‘‘ اور ’’اجر کے اعتبارسے بہترین صدقہ وہ ہےتو اپنے اہل وعیال پہ خرچ کرے‘‘سامنے نہ تھے ؟اوردوسری گزارش یہ ہے کہ کیاحضرت موسٰیؑ اورحضرت خضرؑ کے واقعہ میں رونماہونے والے افعال (کشتی توڑنا،بلا اجرت دیوار سیدھی کرنااور بچے کو قتل کرنا)شریعت کے خلاف تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ صوفیاء کرام نے ہمیشہ شریعت کی پاسبانی کی ہے ،شریعت کی اہمیت پہ زور دیا  ہے انہوں نے کبھی ظاہر ی ارکان ِ اسلام کی نفی نہیں فرمائی بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ شریعت کے ظاہری وباطنی تقاضے پورے کیے جائیں-جیسا کہ حضرت سلطان محمدباھُوؒ نے خود اپنے بارے میں ارشادفرمایا: ’’ راہِ شریعت پر گامزن ہو کر مَیں عرش و کرسی سے بالا تر مقامات پر جا پہنچا اور سرِّ وحدت کے ہر مقام کا خوب مشاہدہ کیا‘‘-(عین الفقر)

2: ’’فقر کیا چیز ہے؟ فقر گھر کی ویرانی کا نام ہے جیسے کہ آقا کریم(ﷺ) نے اپنا گھر ویران کیا اور گھر کی ہر چیز کو راہِ خدا میں صدقہ کر کے دنیا کوتین طلاقیں دے دیں حتیٰ کہ گھر میں دیا جلانے کیلئے تیل اور فرش پر بستر بچھانے کے لئے بوریا تک نہ چھوڑا- فقیر بھی اُسی کو کہتے ہیں جو خدا کا دیا خدا کو لوٹا دے اور خداکا دلوایا خدا ہی کو دے دے‘‘-(عین الفقر)

اللہ عزوجل کے محبوب کریم (ﷺ) کی یہ سُنت مبارک ہردور میں علماء وصُلحاء ادا کرتے آئیں ہیں جیساکہ آپؒ لکھتے ہیں :

’’مراقبہ و فقر کی خاطر تو بادشاہانِ دنیا نے بادشاہی اور گھر بار چھوڑ دیئے اور غریبی و یتیمی اختیار کر لی اور اپنے نفس کے گھوڑے کو میدانِ توحید میں ڈال دیا، پھر وہ عشق و محبت اور شوقِ الٰہی سے دستبردار نہیں ہوئے اور آخرت کی بازی جیت گئے اور خود کو اللہ کے سپرد کر دیا- بظاہر وہ مر گئے لیکن بباطن نہیں مرے، وہ ایسے حاجی اہل اللہ ہیں کہ اُن کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے- اُن میں سے بعض نے اپنے نفس پر دس سال کا احرام باندھا، بعض نے چالیس سال کا اور بعض عمر بھر رات دن مراقبہ میں غرق رہے‘‘-(عین الفقر)

3:اہلِ دنیااور اہلِ عشق کی راہیں جُدا جُدا ہیں ،دونوں کی ترجیحات الگ الگ ہیں جیساکہ آپؒارشادفرماتے ہیں:

’’جو چیز مردہ دل کے لئے موت ہے وہ عاشق کے لئے عین حیات ہے کہ اُس سے عاشقوں کو نجات حاصل ہوتی ہے‘‘(نور الھدٰی)- مزیدارشادفرمایا :’’جب کو ئی دل کے ورق سے اسمِ ھُوْ کا مطالعہ کر لیتا ہے تو پھر اُسے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی ، ایسی حالت میں وہ خلق کی نظر میں تو بے شعور ہوتا ہے مگر خالق کے ہاں وہ صاحب ِحضور ہوتا ہے‘‘-(محک الفقرکلاں)

4:’’ذکر ِحامل ایسا ذکر ہے کہ جسے ذاکر اگر چھوڑ بھی دے تو یہ ذکر اُسے ہر گز نہیں چھوڑتا بلکہ بلا فکر جاری ہو کر اُس کے وجود پر اور زیادہ اَثرانداز ہوتا ہے اور اُسے اپنے قبضہ و تصرف میں رکھتا ہے‘‘(کلیدالتوحیدکلاں)-اِ س مقام پہ اللہ عزوجل اپنے خاص فضل وکرم سے اُن کی حفاظت فرماتا ہے جیساکہ آپؒ لکھتے ہیں کہ اللہ عزوجل دنیا کو مخاطب کر کے ارشادفرماتا ہے:

’’خبردار! میرے دوستوں کے قریب مت جا، اُن سے دور رہ اور اُن کے سامنے خود کو بد صورت و بد نما و روسیاہ بنا کر پیش کر تاکہ میرے دوست تجھ سے گریز کریں اور تجھے نہ چاہیں، تجھ سے توبہ کریں اور تیرے ساتھ واسطہ نہ رکھیں - مَیں تیرے دوستوں کو نہیں چاہتا، تُوبھی میرے دوستوں کو نہ چاہ‘‘-(عین الفقر)

سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھوؒ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :

’’ تصور ِحضور اور تصرفِ مغفور کا نور میرے ساتوں اندام میں اِس طرح سما گیا ہے جس طرح کہ دودھ میں پانی- اگر مَیں نور حضور کو چھوڑوں بھی تو وہ مجھے نہیں چھوڑتا- اگر میں تجلیاتِ انوارِ دیدار کی سوزش و گرمی سے عاجز ہو کر اُن سے گریز کروں اور ہوائے نفس کی طرف متوجہ ہو نے کی کوشش کروں تو نورِ حضور مجھ پر غالب آجاتاہے اور وہ مجھے ایسا نہیں کرنے دیتا‘‘-(امیرالکونین)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر