میں قربان تنہاں توں باھوؒ

میں قربان تنہاں توں باھوؒ

میں قربان تنہاں توں باھوؒ

مصنف: وقار حسن مارچ 2022

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ ہماری صوفیانہ ادبی روایت کے ایک منفرد ترین شاعر اور نثر نگار ہیں-ان کی نثری تحریروں کے علاوہ  فارسی اور پنجابی شاعری منفرد اسلوب رکھتی ہے- بالخصوص پنجابی شاعری میں انہوں نے تصوف کے عمیق اسرار و رموز کو بڑے سادہ انداز میں قلم بند کیا ہے-ان کے ابیات جس قدر فکری و ذہنی حوالہ کے ساتھ ساتھ اپنی خاص لَے، آہنگ، اسلوب، قدرت اور آفاقیت کے حامل ہیں یہ سلطان العارفین کا ہی خاصہ ہے کہ اتنی عمدہ شاعری کی مثال کسی اور زبان کے ادب میں تلاش کرنا مشکل ہے-سلطان العارفین ؒ کے پنجابی ابیات جو 200 کے لگ بھگ ہیں-ہر بیت منفرد رنگ اور فکری دھارے رکھتا ہے-ان ابیات میں جہاں پر دین و دنیا کے علوم کو پیش کیا گیا ہے-وہاں فنی حوالہ سے بھی کمالات دیکھنے کو ملتے ہیں-جس کی ایک سادہ سی مثال ان کے ہر مصرعہ کے آخر پر آنے والے لفظ ’’ھو‘‘کی ہے-جو قاری اور سامع کو اپنے سحر میں مسحور کیے بنا نہیں چھوڑتا اور قاری جس قدر’’ھو‘‘ کی کھوج میں نکلتا ہے اس کے لیے نئے نئے راستے کھلتے جاتے ہیں-

حضرت سلطان باھوؒ  کا مقام و مرتبہ عام فہم سے بالاتر ہے-یعنی ایک حقیقی عارف و مردِ کامل کی حقیقت تک پہنچنا فقط عقلی سرگرمی ہی نہیں ہے بلکہ اس کیلئے مشقِ عشق بھی ضروری ہے  جبکہ آپؒ سلطان العارفین یعنی عارفوں کے سلطان ہیں-ان ابیات شریف میں آپؒ نے ایک مخصوص انداز میں طالبان مولیٰ کے اوصاف کو گنوایا ہے-اس میں طالبان مولیٰ کے مختلف اوصاف، درجات اور ان کی کیفیات کا پرچار کیاگیا ہے-جیسا کہ آپؒ اس وصف کا تذکرہ کرنے سے قبل فرماتے ہیں کہ میں اس پر قربان ہو جاؤں جس میں یہ وصف ہے اور ابیات باھو میں 19 مقامات پر آپؒ نے اس طرح سے اوصافِ طالبِ مولیٰ کا تذکرہ کیا ہے-

 بحیثیتِ امتِ محمدی (ﷺ) ہمارا یہ فخر ہے کہ ہم خاتم النبیین حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کے امتی ہیں اور آپ (ﷺ) کا امتی ہونا ہی اس امت کو دوسری امتوں پر فضیلت اور فوقیت بخشتا ہے-بزبانِ حضرت سلطان باھوؒ:

مَیں قُربان تِنہاں توں باھوؒ جنہاں مِلیا نَبیؐ سوہارا ھو
 

یعنی مَیں ان لوگوں پر قربان جاؤں جن کافقط سہارا آقا کریم (ﷺ) کی ذات قدسیہ ہے- اس کا ایک باطنی پہلو یہ ہے کہ آپؒ ان طالبانِ مولیٰ پر فدا ہو رہے ہیں جنہوں نے طلب الٰہی کی راہ کا سفر اختیار کیا اور اس راہ میں ان کو رسالت مآب (ﷺ)کی زیارت نصیب ہوئی-گویا جس انسان نے معرفتِ حق کے لئے اپنے قلب سے صورتِ مصطفےٰ کریم (ﷺ)کو پا لیا وہ خوش نصیب ہے اور اس خوش نصیب پر سلطان العارفینؒ قربان ہونا چاہتے ہیں- کیونکہ معرفتِ الٰہی کا بنیادی وسیلہ ہی صورتِ مصطفےٰ کریم (ﷺ) ہے-عشق، طلبِ الٰہی اور معرفت الٰہی کی راہ عقل سے ما ورا ہے-اس راہ میں طالب کے پاس فقط عشق کی دولت ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ قربِ الٰہی کی منازل طے کرتا ہے- اسی لیے سلطان العارفین ؒفرماتے ہیں :

مَیں قُربان تنہاں تُوں باھوؒ جنہاں عِشق جَوانی چَڑھیا ھو
 

’’عشق جوانی چڑھنا‘‘سے مراد عشق میں اوجِ کمال حاصل کرنا ہے-یعنی جن لوگوں میں معرفتِ الٰہی اور قرب الٰہی کا شوق بدرجہ اتم مو جود ہوتا ہے وہ ذاتِ الٰہی کی طلب میں سر گرداں رہتے ہیں-کیونکہ راہ عشق امتحانات کی راہ ہے جس میں قدم قدم پر رکاوٹیں، مشکلات،تکالیف اور قربانیوں کا سامنا ہوتا ہے-اس راہ میں ثابت قدم رہنا اور استقامت حاصل کرنا بھی اس کی رحمت اور کرم کے بغیر ممکن نہیں - جن پر رب کریم کا کرم اور فضل ہو جائے وہ اس کے امتحانات میں کامیاب ہوتے ہیں-کیونکہ راہِ عشق میں کرامت سے بہتر استقامت ہے- جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:

مَیں قُربان تِنہاں تُوں باھوؒ جنہاں عِشق سلامت کِیتا ھو

راہ فقر میں ہر لمحہ طالب پر نئے اسرار و رموز اور مقامات اِفشا ہوتے ہیں-بعض ناقص طالب ان مقامات اور مراتب کے چکر میں پھنس جاتے ہیں جس کے باعث وہ فقر کی حقیقت تک رسائی حاصل کرنے میں نا کام ہو جاتے ہیں -کیونکہ راہ معرفت میں مقامات اور مراتب پر رکنا ناقص لوگوں کا کام ہے-اسی لیے سلطان العارفین ؒ فرماتے ہیں :

مَیں قُربان تِنہاں تُوں باھوؒ جِنہاں رَکھیا قَدم اَگیرے ھو

راہِ حق میں حصولِ قربِ الٰہی کے لیے ذکرِ الٰہی ضروری ہے-کیونکہ انسان قلبی ذکر کے ذریعے ہی اپنی روح بیدار کر کے اپنے دل سے مخلوق کی محبت کو نکال کر خالق کی محبت پاسکتا ہے-

مرشدِ کامل طا لب کو اس راہ میں قدم رکھتے ہی  پہلا کام قلبی ذکر’’اسم اللہ ذات‘‘ کا وظیفہ عطا کرتا ہے-ذکرِ اسم اللہ ذات سانسوں کے ذریعے دل سے کروایا جاتا ہے- یعنی انسان کی دو سانسیں ہیں، سانس اندر جائے تو ’’اللہُ‘‘ اور سانس باہر آئے تو ’’ھو‘‘کا ذکر کیاجاتاہے-جو اپنی سانسوں کو اللہ پاک کے ذکر میں قید کر لیتا ہے اور ہمہ وقت اس کے ذکر میں مگن رہتا ہے اس کے بارے میں آپؒ فرماتے ہیں:

مَیں قُربان تِنہاں تُوں باھوؒ جِنہاں کھُوہ پَریم دے جُتھے ھو

’’پریم‘‘ محبت کو کہتے ہیں، ’’کھوہ‘‘ کنویں کو اور ’’جتے‘‘ کا مطلب کنواں چلانا ہے-کنواں ایسا ذخیرہ ہے جہاں سے مسافروں اور فصلوں کو سیراب کیا جاتا ہے، بجلی آنے سے قبل گھوڑے، بیل اور اونٹ وغیرہ سے کنویں چلائے جاتے تھے جو کنویں کے گرد گھومتے رہتے تھے اور کنویں سے پانی جاری و ساری رہتا-اس تناظر میں بیت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اے باھُو! میں ایسے صادقانِ راہ کے قربان جاؤں جنہوں نے اپنی روح محبت کے فیض کے سر چشمہ یعنی ’’اسم اللہ ذات‘‘ کے طواف میں مگن رکھی-

ایک اور بیت میں فرماتے ہیں:

مَیں قُربان تنہاں تُوں باھوؒ جَہڑا ھُو نوں صحی کَریندا ھو
3

’’ھو‘‘ اللہ تعالیٰ کا اسم ذات ہے اور ’’صحی کرنا‘‘ سے مراد درست طریقے سے ادا کرنا ہے-یعنی جو اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر درست طریقے سے کرتا ہے-لغت میں ’صحی کرنا‘ کے معانی تصدیق کرنا کے بھی آئے ہیں-یہاں مراد ہو گا کہ جو اللہ تعالیٰ کی ذات کی تصدیق کرتا ہےجس کو تصدیق بالقلب کہتے ہیں-صحی کا تیسرا مطلب حضرت سلطان باھُوؒ کے آبائی علاقہ سون سکیسر کے لہجہ میں ’’پہچاننا یا جان لینا‘‘ بھی ہے تو اس سے مراد ہوگا جس نے اسمِ ھُو کی معرفت کو حاصل کر لیا یا ذاتِ حق کی معرفت کو پا لیا-یہ تینوں اوصاف طالبِ مولیٰ کے ہیں کہ وہ ذکرِ اللہ  درست انداز میں بھی کرتا ہے اور اپنے دل سے ذاتِ الٰہی کی تصدیق بھی کرتا ہے اور اس کی  معرفت سے بہرہ ور بھی ہو جاتا ہے -

راہِ معرفت میں جہاں پر طالب میں طلبِ صادق کا ہونا ضروری ہے وہاں اس راہ میں راہبری اور راہنمائی کیلئے مرشد کامل کا پکڑنا بھی ضروری ہے-کیونکہ یہ راہ وسیلت کی راہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ حکیم میں اس کی ذات تک رسائی حاصل کرنے کیلئے انسان کو وسیلہ پکڑنے کا حکم فرمایا ہے-صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ وہ وسیلہ مرشدِ کامل کی ذات ہوتی ہے جو خود راہِ معرفت کے اسرار و رموز کو جانتا ہے اور اپنے مرید کو بخیریت یہ سفر طے کرواتا ہے- آپؒ اس مرشد کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مَیں قُربان اُس مرشد باھوؒ جِس دَسیا بھیت اِلٰہی ھو

یعنی میں اس مرشد پر قربان جاؤں جس نے قربِ الٰہی اور وصالِ الٰہی کا راز مجھ پر آشکار کیا ہے-نگاہِ مردِ مومن میں اللہ تعالیٰ نے وہ طاقت رکھی ہے کہ اس کی نگاہِ کرم اور شفقت سے لوگوں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں-جیساکہ آقا کریم (ﷺ) نے اپنی نگاہِ مبارکہ سے عرب کے جاہلو ں کے دل نورِمعرفت سے بھر دیئے-مرشد کامل بھی اپنی نگاہ سے مردہ دلوں اور ارواح کو زندگی بخشتا ہے-آپؒ اس مرشد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مَیں قُربان تِنہاں تُوں باھوؒ جیہڑے ہکی نگاہ جواون ھو

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں:

میں قُربان تِنہاندے باھوؒ جہڑا وچھڑے یار مِلاوے ھو

دراصل انسان عالمِ لاہوت کا باسی ہے-وہاں پر وہ قربِ الٰہی میں رہا ہے-اس عالمِ ناسوت میں اس کو ذاتِ الٰہی سے جدائی دی گئی ہے-آپؒ فرماتے ہیں کہ میں اس مرشد پر قربان جاؤں جو اس جدائی کو ختم کرے اور اسی دنیا میں انسان کو اس کے خالق حقیقی سے ملا دے-راہِ معرفت کا بلند ترین مقام و مرتبہ ذات الٰہی کے استغراق میں مستغرق ہونا ہے  یعنی اس کی ذات میں اس قدر فنا ہونا کہ انسان کو اپنی خبر بھی نہ رہے-توحید کی اس راہ کو اختیار کرنا کہ مخلوق کی خبر تک نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی پردہ نہ ہو-

مَیں قربان تنہاں تُوں باھوؒ جنہاں ذاتوں ذات بَسیرے ھو

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں:

مَیں قُربان تِنہاں دے باھوؒ جہڑے وحدت دیوچ وڑدے ھو

جیساکہ بیان ہوا ہے کہ راہِ معرفت میں طالب مولیٰ کا مقصود و مطلوب فقط ذاتِ الٰہی ہوتی ہے تو جس خوش نصیب کو اس ذات کا  قرب و وصال نصیب ہو جائے اس کے بارے میں آپؒ فرماتے ہیں :

مَیں قُربان تنہاں توں باھوؒ جِنہاں مِلیا یار یگانہ ھو

آپؒ طالبان مولیٰ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ:

مَیں قُربان تِنہاں توں باھوؒ جِنہاں خُون بَخشیا دِلبر نوں ھو

یعنی جن کو معرفتِ الٰہی حاصل ہو گئی ہے وہ کسی بھی طرح کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے -پھروہ قربانی چاہے مال کی ہو یا عزت و آبرو کی حتیٰ کہ انسان کو سب سے عزیز تر اس کی اپنی جان ہوتی ہے لیکن عاشق اپنی جان کی بھی بازی لگا دیتے ہیں-کیونکہ رضائے الٰہی کی خاطر اپنے خون کی قربانی دینا ازل سے عشاق کا شیوہ رہا ہے- قربانی کا یہ عظیم جذبہ طالبانِ مولیٰ کو سیدنا ابراہیم و سیدنا اسماعیلؑ اور اہلبیت و اصحابِ مصطفےٰ (ﷺ) کی سیرت سے نصیب ہوتا ہے جنہوں نے حق کی طلب و جستجو اور لذتِ وصل میں اپنا سب کچھ محبوبِ حقیقی کیلئے قربان کر دیا-

طالبِ مولیٰ کا ایک اہم ترین وصف عاجزی و انکساری ہے- اس کے وجود میں تکبر، غرور،گھمنڈ نہیں ہوتا ہے-وہ خالق کی بارگاہ میں ادب اور عاجزی سے پیش ہوتا ہے اور مخلوق کے ساتھ نرمی کا رویہ رکھتا ہے-چاہےاس کو بلند سے بلند تر مرتبہ نصیب ہو لیکن وہ اپنی طاقت، اختیارات کو مخلوق خدا کو تکلیف پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کرتا-جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:

مَیں قُربان تِنہانتوں باھوؒ جہڑے ہوندیاں ہمت ہینے ھو

یعنی اختیار اور اقتدار کے ہوتے ہوئے بھی وہ عاجز اور کمزور کہلواتے ہیں-اپنے اختیارات اور طاقت کو ظاہر نہیں کرتے-

ایک اور خوبصورت ترین بیت مبارک کے چاروں مصرعوں میں آپؒ نے طا لبِ مولیٰ کے چار اہم ترین اوصاف کا تذکرہ فرمایا ہے کہ طالبِ مولیٰ کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ با اخلاق ہوتا ہے، اس کی زبان سے کسی  کو تکلیف نہیں پہنچتی اور اس کی زبا ن سے فضول گوئی نہیں ہوتی-دوسرا وصف یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ایک بات کرتا ہے اور وہ بات قربِ الٰہی کے حصول کی ہوتی ہے -کیونکہ اس کا مقصود و مطلوب وہی ذات ہوتی ہے- تیسرا وصف یہ ہے کہ طالبِ مولیٰ اپنی نفسانی خواہشات کو ترک کر کے رضائے الٰہی کے مطابق زندگی گزارتا ہے اس کے وجود میں نفسانی اور شیطانی خواہش کا بسیرا اور اظہار نہیں ہوتا -بلکہ وہ اپنے نفس کو احکام الٰہی کے تابع رکھتا ہے-آخری اور اہم ترین بات یہ ہےکہ وہ سونے کی مانند قیمتی اور اہم ہونے کے با وجود بھی اپنے آپ کو حقیر اور لوہے کی طرح کمتر کہلواتا ہےاور تمام بڑائی اپنے مالک کی بیان کرتا ہے-

خوبصورت بیت ملاحظہ ہو:

سَو ہزار تِنہاں تُوں صَدقے جہڑے مُنہ نہ بولن پھِکّا ھو
لَکھ ہَزار تِنہاں تُوں صَدقے جہڑے گَل کریندے ہِکّا ھو
لَکھ کروڑ تِنہاں تُوں صَدقے جہڑے نَفْس رکھیندے جھِکّا ھو
نِیل پَدم تِنہاں تُوں صَدقے باھوؒ جِہڑے ہوون سون سڈاوِن سِکّا ھو

مندرجہ بالا ابیات کےمصرعوں سے طالبانِ مولیٰ کے اوصاف واضح ہوتے ہیں اور اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ حضرت سلطان باھوؒ جیسے جلیل القدر صوفی کے ہاں ان اوصاف کے مالک انسان کی کیا قدر و قیمت ہے-

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اوصاف کو کسی مردِ کامل کی تربیّت سے سیکھا جائے جیسا کہ پیروں کے پیر سید نا عبد القادر الجیلانیؓ نے الفتح الربانی میں فرمایا ہے: ’’جو کسی فلاح والے کو دیکھے گا نہیں فلاح نہیں پائے گا‘‘ ۔

یعنی فلاح پانے کیلئے فلاح یافتہ لوگوں کی زیارت و تربیت میں رہنا ضروری ہے- حضرت سلطان العارفین سلطان باھُو ؒ کی خانقاہِ عالیہ سے حضرت سلطان محمد علی صاحب اسلاف کی اس عظیم تربیتی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور مجھ جیسے ہزاروں نوجوان ان کی تربیت سے محبت، اخلاق، خدا خوفی، عشقِ رسول (ﷺ) اور طلبِ حق تعالیٰ کی راہ پہ گامزنِ عمل ہیں-آئیے آپ بھی اس تربیت و صحبت کا حصہ بن جائیں تاکہ ہم معاشرۂ انسانی کیلئے خیر کا باعث بن سکیں اور دنیا میں آنے کے مقصد کو حاصل کر سکیں- ہو سکتا ہے ہم بھی ان سعادت مند لوگوں کی صف میں شامل کر دیئے جائیں جنہیں حضرت سخی سلطان باھُوؒ مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میں قربان تنہاں توں باھُو‘‘

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر