قائداعظم سیکیورٹی ڈاکٹرائن اور قومی سلامتی

قائداعظم سیکیورٹی ڈاکٹرائن اور قومی سلامتی

قائداعظم سیکیورٹی ڈاکٹرائن اور قومی سلامتی

مصنف: راناعبدالباقی اگست 2018

بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح دنیائے سیاست میں قومی فکر و نظر رکھنے والے ایک ایسے عظیم مدبر تھے جنہوں نے ریاستی اقتدار اعلیٰ کے حوالے سے قیامِ پاکستان سے قبل ہی قومی سلامتی سے متعلقہ ’’سیکیورٹی کنسرن‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی بے مثال فہم و فراست سے مستقبل کی پیش بندی کی اور جنوبی ایشیاء میں ایک زبردست ہندو اکثریت اور مؤثر حکمران انگریز انتظامی مخالفت کے باوجود ایک آزاد و خود مختار ریاست یعنی حصول پاکستان کے خواب کو ممکن بنانے میں کامیابی حاصل کی-قائد اعظم ہندو سائیکی کو اکھنڈ بھارت کے پُر فریب فلسفے کے توسط سے اچھی طرح سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے 23 مارچ 1940ء میں لاہور کے منٹو پارک (مینار پاکستان ) میں قرار داد لاہور جو تاریخ میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی کی منظوری کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے بڑی وضاحت سے کہا تھا کہ:

’’یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو دھرم کی اصلیت کو کیوں نہیں سمجھتے-درحقیقت یہ دونوں محض مذاہب ہی نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے سے مختلف معاشرتی نظام بھی ہیں - یہ محض ایک خواب ہے کہ کبھی ہندو اور مسلمان مل کر ایک قوم بن سکتے ہیں-ہندوؤں اور مسلمانوں کا مذہبی فلسفہ، معاشرتی طور طریقے اور ادب ایک دوسرے سے مختلف ہے- اُن کا تعلق دو مختلف تہذیبوں سے ہے اور اِن تہذیبوں کی بنیاد ایک دوسرے سے متضاد نظریات اور تصورات پر قائم ہے - مسلمانوں اور ہندوؤں کی تاریخ کے ماخذ مختلف ہیں، اِن کی بہادری کی داستانیں، واقعات اور اِن کے نامور مختلف ہیں، اِن میں سے ایک نامور دوسرے کے دشمن ہیں اور اِسی طرح ایک کی فتح دوسرے کی شکست ہے ‘‘-

قائد اعظم سیکیورٹی فکر و نظر کی گیرائی اور گہرائی کے حوالے سے اِس اَمر کا بخوبی ادراک رکھتے تھے کہ ہندوستان کے مشترکہ دفاعی انتظامات کے نام پر ہندو اکثریت کی حمایت یافتہ کمانڈر انچیف کی موجودگی میں انگریزوں کے وطن چھوڑ جانے کے بعد ہندو کانگریس کیلئے ہندوستان میں اکھنڈ بھارت کے فلسفے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا آسان تر ہو جائے گا جس کی ابتدا اُنہوں نے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے حوالے سے پاکستان کو کمزور تر کرنے کیلئے کی اور ریاست جموں و کشمیر میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی مدد سے فوجی ایکشن کے ذریعے بھارتی قبضہ کو ممکن بنایا- وہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے مشترکہ دفاع کے حوالے سے مستقبل کا بھارت ڈیورنڈ لائین ( پاک افغان سرحد ) پر فوجی موجودگی کی آڑ میں میں اکھنڈ بھارت کے حوالے سے مغربی پاکستان کی خود مختاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے جس کیلئے صوبہ سرحد میں پختونستان تحریک اور برٹش بلوچستان میں خان آف قلات کے حوالے سے پاکستان کو سیاسی طور پر کمزور بنانے کی ناکام کوششیں کی گئیں اور سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارت آج بھی بلوچستان اور فاٹا میں حالات بگاڑنے میں مصروف عمل نظر آتا ہے جبکہ غور و فکر کرنے والے بھارتی ادارے پاکستان میں مبینہ طور پر طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو بھارتی سیکیورٹی کیلئے خطرہ جانتے ہوئے طالبان کو دریائے سندھ پر روکنے کیلئے بھارتی فوجوں کے ممکنہ رول پر فکری تجاویز کو عملی شکل دینے میں مصروف نظر آتے ہیں-ہمیں اِس اَمر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ بھارت اب دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کا دفاعی پارٹنر ہے جبکہ ہمارے اربابِ اختیار گذشتہ 8 سال سے ملکی اقتدار اعلیٰ اور قومی سلامتی کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک مؤثر ایٹمی قوت ہونے کے باوجود امریکی ڈکٹیشن پر اہم قومی معاملات جن میں لچک کے نام پر مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ سے واپس لینے اور کشمیریوں کے حق خود اختیاری بھی شامل ہے، محض کمپرومائز کرنے میں مصرف عمل نظر آتے ہیں جس کا موثر تدارک کیا جانا چاہیے-

پاکستان کے اقتدار اعلیٰ اور قومی سلامتی کے حوالے سے قائد اعظم کے خدشات کی تائید بعد میں ظاہر ہونے والے ہندو ردعمل سے بھی ہوتی جب برطانوی وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے 3 جون 1947ء کے تقسیم ہندوستان کی اسکیم کے پلان جسے ہندو کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے ہی تسلیم کیا تھا، کو تسلیم کرنے کے باوجود کانگریس کے صدر اور عبوری حکومت ہند کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے آل انڈیا ریڈیو پر ہندو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فی الوقت تقسیم ہند ناگزیر ہو چکی ہے لیکن اُنہیں اُمید ہے کہ تھوڑی ہی مدت میں اِس غلطی کا ازالہ ہو جائے گا اور ہندوستان کی تقسیم کالعدم ہو جائے گی-اِس کی تائید 15 جون 1947ء کو انڈین نیشنل کانگریس کی مجلس عاملہ نے 3 جون کے پارٹیشن پلان کی منظوری دیتے ہوئے ایک قرارداد میں اِس اُمید کا اظہار کرتے ہوئے کیا کہ ہندوستان ایک بار پھر متحد ہو جائے گا اور دو قومی نظرئیے کے پُرفریب تصور کو مسترد کر دیا جائے گا -قائد اعظم جانتے تھے کہ ہندوستان میں ہندو اکثریت اور سیاسی اقتدار میں شامل اُن کے انگریز شراکت داروں کی موجودگی میں مسلمانوں کیلئے ہندوستان میں ایک علیحدہ مملکت کی تحریک چلانا ایک مشکل ترین کام تھا لیکن اُنہوں نے اپنی جدوجہد کے تسلسل سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا-وہ خود کہتے تھے کہ :

’’کردار، جرأت، محنت اور مستقل مزاجی ہی چار ایسے ستون ہیں جن پر تمام تر حیات انسانی کی مکمل عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے اور ناکامی کا لفظ اُن کے مزاج میں نہیں ہے‘‘-

حیرت ہے کی تاریخ اور قائداعظم کی تعلیمات سے سبق سیکھنے کی بجائے آج کے پاکستان میں قائد اعظم کا نام تو تواتر سے استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن قائد اعظم کی فکر و نظر اور سیاسی فراست رکھنے والی شخصیت کوئی نہیں ہے-بہرحال تحریک پاکستان کے آخری مرحلے پر قائد اعظم اِس اَمر کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ انگریز ہندو اتحاد برّ صغیر ہندوستان کی تقسیم پر تو راضی ہو گیا ہے لیکن انگریز ایک آزاد اور خود مختار مسلم ریاست کے اقتدار اعلیٰ کو دفاعی پیچیدگیوں کے دلدل میں دھکیلنے کیلئے ہندوستان کیلئے مشترکہ دفاع کے حوالے سے دفاعی کمیٹی میں دونوں ملکوں کی مساوی نمائندگی کے نام پر تمام تر اختیارات فوج کے انگریز، یا پھر ہندو کمانڈر انچیف کے حوالے کرنا چاہتے تھے-

لہذا قائد اعظم نے  28 مارچ 1946ء میں برٹش انڈیا کے کمانڈر انچیف سر آرتھر سمتھ سے ملاقات کی-جنرل سمتھ نے یہ بات بڑی وضاحت سے کی کہ ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں دفاعی معاملات کو مکمل ہندوستان کے دفاع کے حوالے سے دیکھا جائے گا لیکن قائد اعظم نے اِس رائے سے اتفاق نہیں کیا اورمضبوط موقف اختیار کرتے ہوئے کہا :

 “Quaid-e-Azam said that it would be impossible as it would impinge on the sovereign rights of both states”.

’’قائد اعظم نے کہا کہ یہ ناممکن ہو گا کیونکہ یہ دونوں ممالک کے حق خودمختاری سے ٹکر ائے گا‘‘-

جنرل سمتھ کو بادل ناخواستہ اپنی رپورٹ میں لکھنا پڑا کہ: 

“That if the defence of India must be considered as one whole, the case for Pakistan falls to the ground as “DEFENCE IS THE KEY PIN OF THE PROBLEM”.

’’اگرچہ ہندوستان کے دفاع کو مجموعی طور پر ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے مگر مقدمہ پاکستان اپنی شناخت کھو دیتا کیونکہ دفاع ہی تو مسئلہ کی اصل کڑی ہے‘‘-

قائد اعظم نے جنرل سمتھ سے ملاقات پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اُنہوں نے 4 اپریل1946ء میں برطانوی کیبنٹ ڈیلیگیشن سے ملاقات کے دوران (سر کرپس سے گفتگو کے دوران) زور دے کر کہا کہ وہ مشترکہ دفاعی نظام کے حوالے سے کسی بھی ایسے دفاعی میکنیزم پر اتفاق نہیں کریں گے جس سے مستقبل کی مسلم ریاست پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر زد پڑتی ہو-درج ذیل گفتگو میں اِس اَمر کی وضاحت بڑے حیران کن طریقے سے ہو جاتی ہے کہ:

“Lord Pethick Lawrence, Secretary of State for India, asked the Quaid, why he objected to work in with some all-India machinery for defence? Quaid-e-Azam asked, 'what sort of machinery is envisaged?' Sir Stafford Cripps said, some sort of machinery by which policy and administration could be concerted. There could be a Joint Secretariat, Joints Chiefs of Staff, with equal representation, which could concert measures for common defence. Quaid-e-Azam said he could not agree to anything which would derogate from the sovereignty of Pakistan”.

’’ریاستِ ہندوستان کے سیکرٹری، لارڈ پیتھک لارنس نے قائد اعظم سے پوچھا کہ انہوں نے ہندوستان کی دفاعی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے پر اعتراض کیوں صادر کیا؟ قائد اعظم نے پوچھا، آپ کس طرح کی انتظامیہ کی بات کر رہے ہیں؟ سر سٹیفرڈ کرپس نے کہا ایسی انتظامیہ جس سے پالیسی اور انتظامی امور پر رائے لی جا سکے-جس کا برابر نمائندگی کے ساتھ ایک متفقہ سیکرٹری، متفقہ چیف آف سٹاف بھی ہو سکتا ہے جو یکساں دفاع کیلئے اپنی رائے دے سکتا ہے-قائد اعظم نے کہا وہ ایسی کسی معاہدہ پر متفق نہ ہوں گے جو پاکستان کی خود مختاری کو کمزور سمجھے‘‘-

فی الحقیقت مستقبل کی مسلم ریاست کی خود مختاری اور اقتدارِ اعلیٰ کو منوانے کیلئے قائد اعظم کی جہدِ مسلسل جاری رہی اور بلا آخر اُنہوں نے مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل لیاقت علی خان سے برطانوی حکومت ہند اور وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے نام متعدد خطوط لکھوانے کے بعد 8/9 اپریل 1947ء میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی اور پاکستان کو بھارت کی ’’subservient state‘‘ بنانے کی بجائے نئی مسلم ریاست کی قومی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کو ممکن بنانے کیلئے برٹش انڈیا کی مقامی نفری کو ہندوستان کی مشترکہ فوج بنانے کی بجائے پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا-

“Quaid-e-Azam stressed that the defence forces must be divided. Pakistan and Hindustan must be responsible separately for their own defence. He was not prepared to accept any form of central organization responsible for the defence of whole of India”.

’’قائد اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ دفاعی فورسزز کو تقسیم کیا جائے-پاکستان اور بھارت اپنے اپنے دفاع کے لیےعلیحدہ طور پر خود ذمہ دار ہوں گے-آپ کسی بھی ایسی مرکزی تنظیم کے ڈھانچہ کو قبول کرنے پر تیار نہ تھے جو پورے بھارت کے دفاع کے ذمہ دار ہو‘‘-

بلاآخر قائداعظم کو اپنے مشن میں کامیابی ہوئی جب اُنہوں نے 23 جون 1947ء میں وائسرائے کے تقسیم ہند کے اعلان کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی -

“On 23 June Quaid-e-Azam discussed with Lord Mountbatten the partition of Armed Forces. Quaid-e-Azam insisted that for operational purposes he must have a Commander-in-Chief in Pakistan before 15 August 1947. Vicroy agreed but added that for administrative purposes the two Dominion armies would continue to be controlled by the present C-in-C until the partition of the armies had become an established fact”.

’’قائد اعظم نے 23جون کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ افواج کی تقسیم کی بات کی-قائد اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ انتظامی امور کے لیے انہیں 15اگست 1947ء سے پہلے کمانڈر ان چیف پاکستان میں چاہیے-وائسرے متفق ہو گیا مگر مزید کہا جب تک کہ افواج کی تقسیم ایک حقیقت نہیں بن جاتی انتظامی امور کے لیے دونوں افواج موجودہ کمانڈر ان چیف کے تابع رہ سکتی ہیں‘‘-

ہندوستان کے مشترکہ دفاع کے  لئے نہیں بلکہ ایک خودمختار مملکت پاکستان کے ریاستی اقتدار اعلیٰ کے تحت مسلح افواج کے اصول کو منوانا قائداعظم کی غیر معمولی سیاسی کامیابی تھی لیکن اِس کامیابی کی اہمیت کو چند طالع آزما جرنیلوں نے درست پیرائے میں نہیں لیا اور عوامی رائے سے قائم ہونے والی مملکت پاکستان میں تواتر سے فوجی مداخلت کر کے قائد اعظم کے نظریات کی توہین کرنے کے مرتکب ہوئے-  حقیقت یہی ہے کہ قائداعظم نے خالی ہاتھ ہوتے ہوئے بھی تحریک پاکستان کے زور پر قومی سلامتی اور پاکستان کے ریاستی اقتدار اعلیٰ کے حصول کیلئے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا جبکہ گذشتہ 8سال میں پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے کے باوجود صدر جنرل پرویز مشرف نے بیرونی ڈکٹیشن لیتے ہوئے ریاستی اقتدار اعلیٰ پر جو قیامتیں ڈھائی گئیں، عوامی حقوق کو غصب کیا گیا، جمہوریت و آئین کا دیدہ دلیری سے مذاق اُڑایا گیا، عدلیہ اور میڈیا کو سیاسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، وہ اپنی جگہ ایک اور قومی لمحۂ فکریہ ہے-یہ درست ہے کہ قائداعظم کے انتقال کے بعد پاکستان کے چند طالع آزما فوجی جرنیلوں نے اکھنڈ بھارت کی فلاسفی کے حوالے سے پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کو یکسر محسوس نہیں کیااور ملک میں جمہوری تسلسل کو فروغ دینے کی بجائے نظریۂ ضرورت کی بنیاد پر ماوراء آئین و قانون نظریات پر مبنی بدترین آمریت کو قومی سیاست میں داخل کرکے عوام اور حکمرانوں کے درمیان ایک وسیع تر خلیج حائل کر دی جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنی-پاکستان پر چھائی ہوئی آمریت کی اِس دھند میں جب 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے موقع پر جواہر لال نہرو کی صاحبزادی اندرا گاندہی نے اعلان کیا کہ اُنہوں نے سقوط مشرقی پاکستان کو ممکن بنا کر ہندوستان پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے اور دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے تو تن آسان مارشل لائی لیڈروں کی سیاسی حماقتوں اور تواتر سے قومی سلامتی سے کھیلنے کے باعث آسمانوں میں موجود قائد کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کی لڑی ضرور جاری ہوئی ہوگی؟ بہرحال یہ اَمر اپنی جگہ اہم ہے کہ بنگلہ دیش تو بن گیا لیکن وہ بھارت کا حصہ نہیں بنا بلکہ ایک مسلم جمہوری ملک کے طور پر قائم و دائم ہے-

قائداعظم سیکیورٹی ڈاکٹرائن کے حوالے سے مملکت پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کیلئے جمہوری فکر و نظر کے فروغ پر بہت زور دیتے تھے- آج قائد اعظم ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اُن کے افکار بہرحال موجود ہیں - تحریک پاکستان کے کارکنوں اور ہماری نوجوان نسل کو ہمارے ارباب اختیار کے قول و فعل میں تضاد بیانی کے عنصر کو دیکھتے ہوئے اِس اَمر پر حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے کچھ ارباب اختیار اپنے شخصی اور مخصوص وقتی سیاسی مفادات کے پیش نظر قائد اعظم کا نام تو بے دریغ استعمال کرتے ہیں لیکن اُن کے افکار پر توجہ نہیں دیتے-اگر ہم اپنی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے حوالے سے قائداعظم کے افکار پر غور و فکر کریں تو بہت سے بگڑے کام بن سکتے ہیں-قائداعظم نے تحریک پاکستان کے مختلف ادّوار میں بڑی وضاحت سے کہا جن میں درج ذیل اقوال بھی شامل ہیں :

1.       1925ء میں وائسرائے کی قانون ساز کونسل کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اچھی حکومت کا مطلب مطلق العنان حکومت نہیں ہے اور نہ ہی آمرانہ حکومت ہے- اچھی حکومت وہ ہے جو عوام کے نمائندوں کو جوابدہ ہے ( یعنی باوردی آمریت نہیں بلکہ جمہوریت میں ہی ہماری بقاء پوشیدہ ہے)-

2.       1937ء میں لکھنو میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا، مَیں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ اپنی تقدیر خود بنانا سیکھیں-ہمیں ایسے لوگ چاہئیں جو یقین محکم، حوصلہ اور عزم راسخ رکھتے ہوں اور زمانے بھر کی مخالفت کے باوجود تن تنہا اپنے ملک کیلئے لڑ سکیں( یعنی 11/9 کے بعد اغیار کی ایک دھمکی پر ڈھیر نہ ہو جائیں )-

3.       1942ء میں دہلی میں خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ: یہ کہنا سراسر بہتان ہے کہ ہم برطانوی سامراج کے حامی ہیں-میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی اِس امکان کو تسلیم نہیں کیا کہ ہم اِس ملک میں کسی غیر ملکی تسلط کے تحت زندگی گزار سکتے ہیں-اگر ایسا کوئی منصوبہ یا حل ہم پر ٹھونسا گیا جو مسلمانوں کے مفادات کے منافی ہو تو ہم پوری قوت سے اِس کی مخالفت کریں گے اور اِس ضمن میں تمام تر نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہیں اور اِس کوشش میں اگر ہماری جان بھی چلی جائے تو ہمیں پرواہ نہیں (لیکن آج ہم اِس نصب العین سے دور تر ہوتے جا رہے ہیں )-

4.       1944ء میں لندن میں اُنہوں نے کہا کہ :آزادی کیلئے مسلمانوں نے قیام پاکستان کا مطالبہ کیا ہے جہاں وہ اپنی پسند کی حقیقی جمہوریت قائم کر سکیں-اِس حکومت کو پاکستانیوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوگی اور وہ ذات پات، عقیدہ و مسلک یا رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر پاکستان کے تمام عوام کی خواہشات کے مطابق کام کرے گی-( یعنی جمہوریت، آمریت نہیں )-

اندریں حالات آج کے پاکستان کو قائد اعظم کے زرین اصولوں پر قائم کرنے کیلئے ہمیں اپنی روح کو پھر سے تلاش کرنا چاہیے-قائد اعظم نے پاکستان کی خود مختاری اور اقتداراعلیٰ کو ناقابل تسخیر بنانے اور ہندوستان کے مکمل دفاع کیلئے مشترکہ فوج کے تصور کو رد کر دیا تھا اور کشمیر میں بھارت کی فوج کشی کے بعد وزیرستان سے فوج واپس بلا کر آزاد کشمیر کے آزاد علاقے کو مضبوط بنایا تھا-یہی اُن کی سیکیورٹی ڈاکٹرائن تھی- وہ جمہوری اصولوں کو مستحکم بنانا چاہتے تھے اور آج بھی ہمارے مسائل کا حل سویلین اور فوجی کی تفریق پیدا کرنے میں نہیں ہے بلکہ جمہوری اصولوں کے فروغ میں ہے- آج کی دنیا جمہوریت کی دنیا ہے اور عوام کے بنیادی حقوق کی پاس داری کرکے ہی ہم خطے کی حقیقتوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور اپنے ملک کی قومی سلامتی کو ممکن بناتے ہوئے ریاستی اقتدار اعلیٰ کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر سکتے ہیں-میں جناح آف پاکستان کے مصنف سٹینلے والپرٹ کی جانب سے قائداعظم کو پیش کئے جانے والے درج ذیل ’’tribute‘‘ کے ساتھ ہی اپنے اِس مقالے کو منسوب کرتا ہوں -

 اگر ہم صرف زمانہ جدید کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو ہمیں ایسے اولو العزم انسانوں کی ایک طویل فہرست ملتی ہے جن کے عظیم الشان کارناموں سے اقوام عالم کی یہ کہانی روشن و مزین ہے- تاہم ایسے انسانوں کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جنہوں نے واقعات عالم کا رخ موڑ دیا-پھر ایسی ہستیاں تو بہت تھوڑی ہیں جنہوں نے اپنے عزم بالجزم سے دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا-اگر ایک قدم بڑھا کر ایسے افراد کی جستجو کریں جنہوں نے اپنے مضبوط قوت ارادی اور اٹل فیصلہ کے بل پر ایک قومی ریاست قائم کرکے دنیا سے اپنی قیادت کا لوہا منوایا لیا،تو ہمیں ایک اور صرف ایک نام ملتا ہے- یہ اعزاز صرف بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے حصہ میں آیا جنہوں نے بیک وقت یہ تینوں کارنامے انجام دے کر تاریخ میں منفرد و یکتا مقام حاصل کیا- بقول علامہ اقبالؒ:

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے[1]

٭٭٭


[1](بالِ جبریل)

بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح دنیائے سیاست میں قومی فکر و نظر رکھنے والے ایک ایسے عظیم مدبر تھے جنہوں نے ریاستی اقتدار اعلیٰ کے حوالے سے قیامِ پاکستان سے قبل ہی قومی سلامتی سے متعلقہ ’’سیکیورٹی کنسرن‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی بے مثال فہم و فراست سے مستقبل کی پیش بندی کی اور جنوبی ایشیاء میں ایک زبردست ہندو اکثریت اور مؤثر حکمران انگریز انتظامی مخالفت کے باوجود ایک آزاد و خود مختار ریاست یعنی حصول پاکستان کے خواب کو ممکن بنانے میں کامیابی حاصل کی-قائد اعظم ہندو سائیکی کو اکھنڈ بھارت کے پُر فریب فلسفے کے توسط سے اچھی طرح سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے 23 مارچ 1940ء میں لاہور کے منٹو پارک (مینار پاکستان ) میں قرار داد لاہور جو تاریخ میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی کی منظوری کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے بڑی وضاحت سے کہا تھا کہ:

’’یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو دھرم کی اصلیت کو کیوں نہیں سمجھتے-درحقیقت یہ دونوں محض مذاہب ہی نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے سے مختلف معاشرتی نظام بھی ہیں - یہ محض ایک خواب ہے کہ کبھی ہندو اور مسلمان مل کر ایک قوم بن سکتے ہیں-ہندوؤں اور مسلمانوں کا مذہبی فلسفہ، معاشرتی طور طریقے اور ادب ایک دوسرے سے مختلف ہے- اُن کا تعلق دو مختلف تہذیبوں سے ہے اور اِن تہذیبوں کی بنیاد ایک دوسرے سے متضاد نظریات اور تصورات پر قائم ہے - مسلمانوں اور ہندوؤں کی تاریخ کے ماخذ مختلف ہیں، اِن کی بہادری کی داستانیں، واقعات اور اِن کے نامور مختلف ہیں، اِن میں سے ایک نامور دوسرے کے دشمن ہیں اور اِسی طرح ایک کی فتح دوسرے کی شکست ہے ‘‘-

قائد اعظم سیکیورٹی فکر و نظر کی گیرائی اور گہرائی کے حوالے سے اِس اَمر کا بخوبی ادراک رکھتے تھے کہ ہندوستان کے مشترکہ دفاعی انتظامات کے نام پر ہندو اکثریت کی حمایت یافتہ کمانڈر انچیف کی موجودگی میں انگریزوں کے وطن چھوڑ جانے کے بعد ہندو کانگریس کیلئے ہندوستان میں اکھنڈ بھارت کے فلسفے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا آسان تر ہو جائے گا جس کی ابتدا اُنہوں نے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے حوالے سے پاکستان کو کمزور تر کرنے کیلئے کی اور ریاست جموں و کشمیر میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی مدد سے فوجی ایکشن کے ذریعے بھارتی قبضہ کو ممکن بنایا- وہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے مشترکہ دفاع کے حوالے سے مستقبل کا بھارت ڈیورنڈ لائین ( پاک افغان سرحد ) پر فوجی موجودگی کی آڑ میں میں اکھنڈ بھارت کے حوالے سے مغربی پاکستان کی خود مختاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے جس کیلئے صوبہ سرحد میں پختونستان تحریک اور برٹش بلوچستان میں خان آف قلات کے حوالے سے پاکستان کو سیاسی طور پر کمزور بنانے کی ناکام کوششیں کی گئیں اور سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارت آج بھی بلوچستان اور فاٹا میں حالات بگاڑنے میں مصروف عمل نظر آتا ہے جبکہ غور و فکر کرنے والے بھارتی ادارے پاکستان میں مبینہ طور پر طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو بھارتی سیکیورٹی کیلئے خطرہ جانتے ہوئے طالبان کو دریائے سندھ پر روکنے کیلئے بھارتی فوجوں کے ممکنہ رول پر فکری تجاویز کو عملی شکل دینے میں مصروف نظر آتے ہیں-ہمیں اِس اَمر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ بھارت اب دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کا دفاعی پارٹنر ہے جبکہ ہمارے اربابِ اختیار گذشتہ 8 سال سے ملکی اقتدار اعلیٰ اور قومی سلامتی کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک مؤثر ایٹمی قوت ہونے کے باوجود امریکی ڈکٹیشن پر اہم قومی معاملات جن میں لچک کے نام پر مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ سے واپس لینے اور کشمیریوں کے حق خود اختیاری بھی شامل ہے، محض کمپرومائز کرنے میں مصرف عمل نظر آتے ہیں جس کا موثر تدارک کیا جانا چاہیے-

پاکستان کے اقتدار اعلیٰ اور قومی سلامتی کے حوالے سے قائد اعظم کے خدشات کی تائید بعد میں ظاہر ہونے والے ہندو ردعمل سے بھی ہوتی جب برطانوی وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے 3 جون 1947ء کے تقسیم ہندوستان کی اسکیم کے پلان جسے ہندو کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے ہی تسلیم کیا تھا، کو تسلیم کرنے کے باوجود کانگریس کے صدر اور عبوری حکومت ہند کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے آل انڈیا ریڈیو پر ہندو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فی الوقت تقسیم ہند ناگزیر ہو چکی ہے لیکن اُنہیں اُمید ہے کہ تھوڑی ہی مدت میں اِس غلطی کا ازالہ ہو جائے گا اور ہندوستان کی تقسیم کالعدم ہو جائے گی-اِس کی تائید 15 جون 1947ء کو انڈین نیشنل کانگریس کی مجلس عاملہ نے 3 جون کے پارٹیشن پلان کی منظوری دیتے ہوئے ایک قرارداد میں اِس اُمید کا اظہار کرتے ہوئے کیا کہ ہندوستان ایک بار پھر متحد ہو جائے گا اور دو قومی نظرئیے کے پُرفریب تصور کو مسترد کر دیا جائے گا -قائد اعظم جانتے تھے کہ ہندوستان میں ہندو اکثریت اور سیاسی اقتدار میں شامل اُن کے انگریز شراکت داروں کی موجودگی میں مسلمانوں کیلئے ہندوستان میں ایک علیحدہ مملکت کی تحریک چلانا ایک مشکل ترین کام تھا لیکن اُنہوں نے اپنی جدوجہد کے تسلسل سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا-وہ خود کہتے تھے کہ :

’’کردار، جرأت، محنت اور مستقل مزاجی ہی چار ایسے ستون ہیں جن پر تمام تر حیات انسانی کی مکمل عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے اور ناکامی کا لفظ اُن کے مزاج میں نہیں ہے‘‘-

حیرت ہے کی تاریخ اور قائداعظم کی تعلیمات سے سبق سیکھنے کی بجائے آج کے پاکستان میں قائد اعظم کا نام تو تواتر سے استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن قائد اعظم کی فکر و نظر اور سیاسی فراست رکھنے والی شخصیت کوئی نہیں ہے-بہرحال تحریک پاکستان کے آخری مرحلے پر قائد اعظم اِس اَمر کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ انگریز ہندو اتحاد برّ صغیر ہندوستان کی تقسیم پر تو راضی ہو گیا ہے لیکن انگریز ایک آزاد اور خود مختار مسلم ریاست کے اقتدار اعلیٰ کو دفاعی پیچیدگیوں کے دلدل میں دھکیلنے کیلئے ہندوستان کیلئے مشترکہ دفاع کے حوالے سے دفاعی کمیٹی میں دونوں ملکوں کی مساوی نمائندگی کے نام پر تمام تر اختیارات فوج کے انگریز، یا پھر ہندو کمانڈر انچیف کے حوالے کرنا چاہتے تھے-

لہذا قائد اعظم نے  28 مارچ 1946ء میں برٹش انڈیا کے کمانڈر انچیف سر آرتھر سمتھ سے ملاقات کی-جنرل سمتھ نے یہ بات بڑی وضاحت سے کی کہ ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں دفاعی معاملات کو مکمل ہندوستان کے دفاع کے حوالے سے دیکھا جائے گا لیکن قائد اعظم نے اِس رائے سے اتفاق نہیں کیا اورمضبوط موقف اختیار کرتے ہوئے کہا :

“Quaid-e-Azam said that it would be impossible as it would impinge on the sovereign rights of both states”.

’’قائد اعظم نے کہا کہ یہ ناممکن ہو گا کیونکہ یہ دونوں ممالک کے حق خودمختاری سے ٹکر ائے گا‘‘-

جنرل سمتھ کو بادل ناخواستہ اپنی رپورٹ میں لکھنا پڑا کہ:

“That if the defence of India must be considered as one whole, the case for Pakistan falls to the ground as “DEFENCE IS THE KEY PIN OF THE PROBLEM”.

’’اگرچہ ہندوستان کے دفاع کو مجموعی طور پر ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے مگر مقدمہ پاکستان اپنی شناخت کھو دیتا کیونکہ دفاع ہی تو مسئلہ کی اصل کڑی ہے‘‘-

قائد اعظم نے جنرل سمتھ سے ملاقات پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اُنہوں نے 4 اپریل1946ء میں برطانوی کیبنٹ ڈیلیگیشن سے ملاقات کے دوران (سر کرپس سے گفتگو کے دوران) زور دے کر کہا کہ وہ مشترکہ دفاعی نظام کے حوالے سے کسی بھی ایسے دفاعی میکنیزم پر اتفاق نہیں کریں گے جس سے مستقبل کی مسلم ریاست پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر زد پڑتی ہو-درج ذیل گفتگو میں اِس اَمر کی وضاحت بڑے حیران کن طریقے سے ہو جاتی ہے کہ:

“Lord Pethick Lawrence, Secretary of State for India, asked the Quaid, why he objected to work in with some all-India machinery for defence? Quaid-e-Azam asked, 'what sort of machinery is envisaged?' Sir Stafford Cripps said, some sort of machinery by which policy and administration could be concerted. There could be a Joint Secretariat, Joints Chiefs of Staff, with equal representation, which could concert measures for common defence. Quaid-e-Azam said he could not agree to anything which would derogate from the sovereignty of Pakistan”.

’’ریاستِ ہندوستان کے سیکرٹری، لارڈ پیتھک لارنس نے قائد اعظم سے پوچھا کہ انہوں نے ہندوستان کی دفاعی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے پر اعتراض کیوں صادر کیا؟ قائد اعظم نے پوچھا، آپ کس طرح کی انتظامیہ کی بات کر رہے ہیں؟ سر سٹیفرڈ کرپس نے کہا ایسی انتظامیہ جس سے پالیسی اور انتظامی امور پر رائے لی جا سکے-جس کا برابر نمائندگی کے ساتھ ایک متفقہ سیکرٹری، متفقہ چیف آف سٹاف بھی ہو سکتا ہے جو یکساں دفاع کیلئے اپنی رائے دے سکتا ہے-قائد اعظم نے کہا وہ ایسی کسی معاہدہ پر متفق نہ ہوں گے جو پاکستان کی خود مختاری کو کمزور سمجھے‘‘-

فی الحقیقت مستقبل کی مسلم ریاست کی خود مختاری اور اقتدارِ اعلیٰ کو منوانے کیلئے قائد اعظم کی جہدِ مسلسل جاری رہی اور بلا آخر اُنہوں نے مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل لیاقت علی خان سے برطانوی حکومت ہند اور وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے نام متعدد خطوط لکھوانے کے بعد 8/9 اپریل 1947ء میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی اور پاکستان کو بھارت کی ’’subservient state‘‘ بنانے کی بجائے نئی مسلم ریاست کی قومی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کو ممکن بنانے کیلئے برٹش انڈیا کی مقامی نفری کو ہندوستان کی مشترکہ فوج بنانے کی بجائے پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا-

“Quaid-e-Azam stressed that the defence forces must be divided. Pakistan and Hindustan must be responsible separately for their own defence. He was not prepared to accept any form of central organization responsible for the defence of whole of India”.

’’قائد اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ دفاعی فورسزز کو تقسیم کیا جائے-پاکستان اور بھارت اپنے اپنے دفاع کے لیےعلیحدہ طور پر خود ذمہ دار ہوں گے-آپ کسی بھی ایسی مرکزی تنظیم کے ڈھانچہ کو قبول کرنے پر تیار نہ تھے جو پورے بھارت کے دفاع کے ذمہ دار ہو‘‘-

بلاآخر قائداعظم کو اپنے مشن میں کامیابی ہوئی جب اُنہوں نے 23 جون 1947ء میں وائسرائے کے تقسیم ہند کے اعلان کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی -

“On 23 June Quaid-e-Azam discussed with Lord Mountbatten the partition of Armed Forces. Quaid-e-Azam insisted that for operational purposes he must have a Commander-in-Chief in Pakistan before 15 August 1947. Vicroy agreed but added that for administrative purposes the two Dominion armies would continue to be controlled by the present C-in-C until the partition of the armies had become an established fact”.

’’قائد اعظم نے 23جون کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ افواج کی تقسیم کی بات کی-قائد اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ انتظامی امور کے لیے انہیں 15اگست 1947ء سے پہلے کمانڈر ان چیف پاکستان میں چاہیے-وائسرے متفق ہو گیا مگر مزید کہا جب تک کہ افواج کی تقسیم ایک حقیقت نہیں بن جاتی انتظامی امور کے لیے دونوں افواج موجودہ کمانڈر ان چیف کے تابع رہ سکتی ہیں‘‘-

ہندوستان کے مشترکہ دفاع کے  لئے نہیں بلکہ ایک خودمختار مملکت پاکستان کے ریاستی اقتدار اعلیٰ کے تحت مسلح افواج کے اصول کو منوانا قائداعظم کی غیر معمولی سیاسی کامیابی تھی لیکن اِس کامیابی کی اہمیت کو چند طالع آزما جرنیلوں نے درست پیرائے میں نہیں لیا اور عوامی رائے سے قائم ہونے والی مملکت پاکستان میں تواتر سے فوجی مداخلت کر کے قائد اعظم کے نظریات کی توہین کرنے کے مرتکب ہوئے-  حقیقت یہی ہے کہ قائداعظم نے خالی ہاتھ ہوتے ہوئے بھی تحریک پاکستان کے زور پر قومی سلامتی اور پاکستان کے ریاستی اقتدار اعلیٰ کے حصول کیلئے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا جبکہ گذشتہ 8سال میں پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے کے باوجود صدر جنرل پرویز مشرف نے بیرونی ڈکٹیشن لیتے ہوئے ریاستی اقتدار اعلیٰ پر جو قیامتیں ڈھائی گئیں، عوامی حقوق کو غصب کیا گیا، جمہوریت و آئین کا دیدہ دلیری سے مذاق اُڑایا گیا، عدلیہ اور میڈیا کو سیاسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، وہ اپنی جگہ ایک اور قومی لمحۂ فکریہ ہے-یہ درست ہے کہ قائداعظم کے انتقال کے بعد پاکستان کے چند طالع آزما فوجی جرنیلوں نے اکھنڈ بھارت کی فلاسفی کے حوالے سے پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کو یکسر محسوس نہیں کیااور ملک میں جمہوری تسلسل کو فروغ دینے کی بجائے نظریۂ ضرورت کی بنیاد پر ماوراء آئین و قانون نظریات پر مبنی بدترین آمریت کو قومی سیاست میں داخل کرکے عوام اور حکمرانوں کے درمیان ایک وسیع تر خلیج حائل کر دی جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنی-پاکستان پر چھائی ہوئی آمریت کی اِس دھند میں جب 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے موقع پر جواہر لال نہرو کی صاحبزادی اندرا گاندہی نے اعلان کیا کہ اُنہوں نے سقوط مشرقی پاکستان کو ممکن بنا کر ہندوستان پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے اور دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے تو تن آسان مارشل لائی لیڈروں کی سیاسی حماقتوں اور تواتر سے قومی سلامتی سے کھیلنے کے باعث آسمانوں میں موجود قائد کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کی لڑی ضرور جاری ہوئی ہوگی؟ بہرحال یہ اَمر اپنی جگہ اہم ہے کہ بنگلہ دیش تو بن گیا لیکن وہ بھارت کا حصہ نہیں بنا بلکہ ایک مسلم جمہوری ملک کے طور پر قائم و دائم ہے-

قائداعظم سیکیورٹی ڈاکٹرائن کے حوالے سے مملکت پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کیلئے جمہوری فکر و نظر کے فروغ پر بہت زور دیتے تھے- آج قائد اعظم ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اُن کے افکار بہرحال موجود ہیں - تحریک پاکستان کے کارکنوں اور ہماری نوجوان نسل کو ہمارے ارباب اختیار کے قول و فعل میں تضاد بیانی کے عنصر کو دیکھتے ہوئے اِس اَمر پر حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے کچھ ارباب اختیار اپنے شخصی اور مخصوص وقتی سیاسی مفادات کے پیش نظر قائد اعظم کا نام تو بے دریغ استعمال کرتے ہیں لیکن اُن کے افکار پر توجہ نہیں دیتے-اگر ہم اپنی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے حوالے سے قائداعظم کے افکار پر غور و فکر کریں تو بہت سے بگڑے کام بن سکتے ہیں-قائداعظم نے تحریک پاکستان کے مختلف ادّوار میں بڑی وضاحت سے کہا جن میں درج ذیل اقوال بھی شامل ہیں :

1.       1925ء میں وائسرائے کی قانون ساز کونسل کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اچھی حکومت کا مطلب مطلق العنان حکومت نہیں ہے اور نہ ہی آمرانہ حکومت ہے- اچھی حکومت وہ ہے جو عوام کے نمائندوں کو جوابدہ ہے ( یعنی باوردی آمریت نہیں بلکہ جمہوریت میں ہی ہماری بقاء پوشیدہ ہے)-

2.       1937ء میں لکھنو میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا، مَیں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ اپنی تقدیر خود بنانا سیکھیں-ہمیں ایسے لوگ چاہئیں جو یقین محکم، حوصلہ اور عزم راسخ رکھتے ہوں اور زمانے بھر کی مخالفت کے باوجود تن تنہا اپنے ملک کیلئے لڑ سکیں( یعنی 11/9 کے بعد اغیار کی ایک دھمکی پر ڈھیر نہ ہو جائیں )-

3.       1942ء میں دہلی میں خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ: یہ کہنا سراسر بہتان ہے کہ ہم برطانوی سامراج کے حامی ہیں-میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی اِس امکان کو تسلیم نہیں کیا کہ ہم اِس ملک میں کسی غیر ملکی تسلط کے تحت زندگی گزار سکتے ہیں-اگر ایسا کوئی منصوبہ یا حل ہم پر ٹھونسا گیا جو مسلمانوں کے مفادات کے منافی ہو تو ہم پوری قوت سے اِس کی مخالفت کریں گے اور اِس ضمن میں تمام تر نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہیں اور اِس کوشش میں اگر ہماری جان بھی چلی جائے تو ہمیں پرواہ نہیں (لیکن آج ہم اِس نصب العین سے دور تر ہوتے جا رہے ہیں )-

4.       1944ء میں لندن میں اُنہوں نے کہا کہ :آزادی کیلئے مسلمانوں نے قیام پاکستان کا مطالبہ کیا ہے جہاں وہ اپنی پسند کی حقیقی جمہوریت قائم کر سکیں-اِس حکومت کو پاکستانیوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوگی اور وہ ذات پات، عقیدہ و مسلک یا رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر پاکستان کے تمام عوام کی خواہشات کے مطابق کام کرے گی-( یعنی جمہوریت، آمریت نہیں )-

اندریں حالات آج کے پاکستان کو قائد اعظم کے زرین اصولوں پر قائم کرنے کیلئے ہمیں اپنی روح کو پھر سے تلاش کرنا چاہیے-قائد اعظم نے پاکستان کی خود مختاری اور اقتداراعلیٰ کو ناقابل تسخیر بنانے اور ہندوستان کے مکمل دفاع کیلئے مشترکہ فوج کے تصور کو رد کر دیا تھا اور کشمیر میں بھارت کی فوج کشی کے بعد وزیرستان سے فوج واپس بلا کر آزاد کشمیر کے آزاد علاقے کو مضبوط بنایا تھا-یہی اُن کی سیکیورٹی ڈاکٹرائن تھی- وہ جمہوری اصولوں کو مستحکم بنانا چاہتے تھے اور آج بھی ہمارے مسائل کا حل سویلین اور فوجی کی تفریق پیدا کرنے میں نہیں ہے بلکہ جمہوری اصولوں کے فروغ میں ہے- آج کی دنیا جمہوریت کی دنیا ہے اور عوام کے بنیادی حقوق کی پاس داری کرکے ہی ہم خطے کی حقیقتوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور اپنے ملک کی قومی سلامتی کو ممکن بناتے ہوئے ریاستی اقتدار اعلیٰ کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر سکتے ہیں-میں جناح آف پاکستان کے مصنف سٹینلے والپرٹ کی جانب سے قائداعظم کو پیش کئے جانے والے درج ذیل ’’tribute‘‘ کے ساتھ ہی اپنے اِس مقالے کو منسوب کرتا ہوں -

 

 

 اگر ہم صرف زمانہ جدید کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو ہمیں ایسے اولو العزم انسانوں کی ایک طویل فہرست ملتی ہے جن کے عظیم الشان کارناموں سے اقوام عالم کی یہ کہانی روشن و مزین ہے- تاہم ایسے انسانوں کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جنہوں نے واقعات عالم کا رخ موڑ دیا-پھر ایسی ہستیاں تو بہت تھوڑی ہیں جنہوں نے اپنے عزم بالجزم سے دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا-اگر ایک قدم بڑھا کر ایسے افراد کی جستجو کریں جنہوں نے اپنے مضبوط قوت ارادی اور اٹل فیصلہ کے بل پر ایک قومی ریاست قائم کرکے دنیا سے اپنی قیادت کا لوہا منوایا لیا،تو ہمیں ایک اور صرف ایک نام ملتا ہے- یہ اعزاز صرف بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے حصہ میں آیا جنہوں نے بیک وقت یہ تینوں کارنامے انجام دے کر تاریخ میں منفرد و یکتا مقام حاصل کیا- بقول علامہ اقبال (﷫):

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے[1]

٭٭٭



[1](بالِ جبریل)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر