|
تُو دانی کہ بازاں ز یک جوہر اند |
تو جانتا ہے کہ سارے باز ایک ہی جوہر سے ہیں، ایک ہی جوہر ذاتی رکھتے ہیں-مشت پر ہیں مگر شیر کا دل رکھتے ہیں-
|
نکو شیوہ و پُختہ تدبیر باش |
نیک اطوار اور پختہ تدبیر کرنے والا بن-دلاور اور غیرت دار اور بڑے شکار پر جھپٹنے والا بن-
|
میامیز با کبک و تورنگ و سار |
تیتر ، چکور اور مینا کے ساتھ میل جول نہ رکھ-سوائے اس کے کہ تو ان کے شکار کی خواہش رکھتا ہو –
|
چہ قومے فرومایۂ ترسناک! |
کیا تھڑ دلی فقٹی قوم ہے (پرندوں سی) یہ کیسی کم مایہ اور کمینہ قوم ہے جو اپنی منقار (چونچوں) کو مٹی سے پاک کرتی ہے-
|
شد آں باشہ نخچیرِ نخچیرِ خویش |
وہ باشہ آپ اپنے شکار کا شکار ہو گیا جو اپنے صید کے رنگ ڈھنگ اپنا لیتا ہے –
|
بسا شکرہ افتادہ بر روئے خاک |
کتنے ہی شکرے زمین پر گر گئے دانہ چگنے والوں (چڑیوں) کی صحبت سے ہلاک ہو گئے-
|
نِگہ دار خود را و خورسند زی |
خود پر نگاہ رکھ اور خوش خوش زندہ رہ-دلیری اور درشتی اور شہزوری سے زندگی بسر کر-
|
تنِ نرم و نازک بہ تیہو گزار |
نرم و نازک بدن ممولے (بیڑ) کے لئے چھوڑ دے-ہرن کے سینگ کی طرح مضبوط اعصاب پیدا کر-
|
نصیبِ جہاں آنچہ از خُرمی است |
شادمانی کی قبیل سے جو کچھ دنیا کا مقدر ہے محکمی اور محنت اور پُردمی (یعنی ہمت و طاقت) کی وجہ سے ہے-
|
چہ خوش گفت فرزندِ خود را عقاب |
عقاب نے اپنے بیٹے سے کیاخوب کہا کہ لہو کی ایک بوند اچھوتے خالص یاقوت (لعل) سے بہتر ہے-
|
مجو انجمن مثلِ آہو و میش |
ہرن اور بھیڑ کی طرح بزم (آرام کی زندگی) تلاش نہ کر-اپنے بزرگوں (اسلاف) کی مانند تنہائی کی طرف میلان رکھ-
|
چنیں یاد دارم ز بازانِ پیر |
اسی لئے میں اپنے بزرگوں کی یہ نصیحت یاد رکھتا ہوں کہ کسی درخت کی شاخ پر بسیرا نہ کر-
|
کنامے نگیریم در باغ و کشت |
ہم باغوں اور کھیتوں میں آشیانہ نہیں بناتے کیونکہ ہماری جنت پہاڑوں اور بیابانوں میں ہے-
|
ز روئے زمیں دانہ چیدن خطاست |
زمین پر سے دانہ چگنا غلط ہے کیونکہ خدا نے ہمیں آسمان کی وسعت عطا کر رکھی ہے-(ہم اپنا رزق فضا کی بلندیوں میں تلاش کرتے ہیں-)
|
نجیبے کہ پا بر زمیں سودہ است |
وہ اصیل عقاب جو (رزق چننے کیلئے) مٹی پر پاؤں رکھتا ہے وہ پالتو مرغ سے بھی زیادہ نیچ (کمینہ) ہوگیا ہے-
|
پئے شاہبازاں بساط است سنگ |
پتھر شہبازوں کے لئے قیمتی غالیچہ ہے کہ پتھر پر چلنا پنجوں کو تیز کرتا ہے-
|
تُو از زرد چشمانِ صحراستی |
تو صحراکے زرد چشموں (صحرا کے شکاری پرندوں) میں سے ہے تو سیمرغ کی طرح عالی نسب ہے -
|
جوانے اصیلے کہ در روزِ جنگ |
ایسا اصیل جوان جو جنگ کے دن چیتے کی آنکھ سے پتلی نکال لیتا ہے-
|
بہ پروازِ تُو سطوتِ نوریاں |
تیری اڑان میں فرشتوں کی سی شان و شوکت ہے-تیری رگوں میں کافوریوں کا لہو ہے-
|
تہِ چرخِ گردندۂ کوز پُشت |
اس گھومتے ہوئے کبڑے آسمان کے تلے (نیچے) نرم ہو یا درشت اپنا ہی شکار کیا ہوا کھا-
|
ز دستِ کسے طعمہ خود مگیر |
اپنا نوالہ کسی کے ہاتھ سے نہ لے نیک بن اور اچھوں کی نصیحت سن (قبول کر)-
نوٹ: باز اور شاہین یہ دونوں اقبال کے محبوب پرندے ہیں ان پرندوں میں اقبال کے مرد مومن کی بعض صفات پائی جاتی ہیں-چنانچہ اپنے ایک خط میں جو انہوں نے پروفسیر ظفر احمد صدیقی کو لکھا تھا-بایں الفاظ اس بات کی وضاحت فرمائی تھی کہ ’’شاہین کی تشبیہ‘‘ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے-اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں:
- خود دار اور غیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا
- بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا
- بلند پرواز ہے
- خلوت پسند ہے
- تیز نگاہ ہے
٭٭٭