کلامِ اقبال : پندِ بازبابچہ ءِخویش(فارسی نظم)

کلامِ اقبال : پندِ بازبابچہ ءِخویش(فارسی نظم)

کلامِ اقبال : پندِ بازبابچہ ءِخویش(فارسی نظم)

مصنف: مترجم: پروفیسرحمید اللہ شاہ ہاشمی نومبر 2025

تُو دانی کہ بازاں ز یک جوہر اند
 دلِ شیر دارند و مُشتِ پر اند

تو جانتا ہے کہ سارے باز ایک ہی جوہر سے ہیں، ایک ہی جوہر ذاتی رکھتے ہیں-مشت پر ہیں مگر شیر کا دل رکھتے ہیں-

نکو شیوہ و پُختہ تدبیر باش
 جسُور و غیور و کلاں گیر باش

نیک اطوار اور پختہ تدبیر کرنے والا بن-دلاور اور غیرت دار اور بڑے شکار پر جھپٹنے والا بن-

میامیز با کبک و تورنگ و سار
 مگر ایں کہ داری ہوائے شکار

تیتر ، چکور اور مینا کے ساتھ میل جول نہ رکھ-سوائے اس کے کہ تو ان کے شکار کی خواہش رکھتا ہو –

چہ قومے فرومایۂ ترسناک!
 کند پاک منقارِ خود را بخاک!

  کیا تھڑ دلی فقٹی قوم ہے (پرندوں سی) یہ کیسی کم مایہ اور کمینہ قوم ہے جو اپنی منقار (چونچوں) کو مٹی سے پاک کرتی ہے-

شد آں باشہ نخچیرِ نخچیرِ خویش
 کہ گیرد ز صیدِ خود آئین و کیش

وہ باشہ آپ اپنے شکار کا شکار ہو گیا جو اپنے صید کے رنگ ڈھنگ اپنا لیتا ہے –

 بسا شکرہ افتادہ بر روئے خاک
 شد از صحبتِ دانہ چیناں ہلاک

  کتنے ہی شکرے زمین پر گر گئے دانہ چگنے والوں (چڑیوں) کی صحبت سے ہلاک ہو گئے-

نِگہ دار خود را و خورسند زی
دلیر و درشت و تنومند زی

خود پر نگاہ رکھ اور خوش خوش زندہ رہ-دلیری اور درشتی اور شہزوری سے زندگی بسر کر-

تنِ نرم و نازک بہ تیہو گزار
رگِ سخت چوں شاخِ آہو بیار

نرم و نازک بدن ممولے (بیڑ) کے لئے چھوڑ دے-ہرن کے سینگ کی طرح مضبوط اعصاب پیدا کر-

نصیبِ جہاں آنچہ از خُرمی است
 ز سنگینی و محنت و پُر دمی است

شادمانی کی قبیل سے جو کچھ دنیا کا مقدر ہے محکمی اور محنت اور پُردمی (یعنی ہمت و طاقت) کی وجہ سے ہے-

چہ خوش گفت فرزندِ خود را عقاب
 کہ یک قطرہ خوں بہتر از لعلِ ناب

عقاب نے اپنے بیٹے سے کیاخوب کہا کہ لہو کی ایک بوند اچھوتے خالص یاقوت (لعل) سے بہتر ہے-

مجو انجمن مثلِ آہو و میش
 بخلوت گرا چوں نیاگانِ خویش

ہرن اور بھیڑ کی طرح بزم (آرام کی زندگی) تلاش نہ کر-اپنے بزرگوں (اسلاف) کی مانند تنہائی کی طرف میلان رکھ-

چنیں یاد دارم ز بازانِ پیر
 نشیمن بشاخِ درختے مگیر

اسی لئے میں اپنے بزرگوں کی یہ نصیحت یاد رکھتا ہوں کہ کسی درخت کی شاخ پر بسیرا نہ کر-

کنامے نگیریم در باغ و کشت
 کہ داریم در کوہ و صحرا بہشت

ہم باغوں اور کھیتوں میں آشیانہ نہیں بناتے کیونکہ ہماری جنت پہاڑوں اور بیابانوں میں  ہے-

ز روئے زمیں دانہ چیدن خطاست
 کہ پہنائے گردوں خدا دادِ ماست

زمین پر سے دانہ چگنا غلط ہے کیونکہ خدا نے ہمیں آسمان کی وسعت عطا کر رکھی ہے-(ہم اپنا رزق فضا کی بلندیوں میں تلاش کرتے ہیں-)

نجیبے کہ پا بر زمیں سودہ است
 ز مرغِ سرا، سفلہ تر بودہ است

وہ اصیل عقاب جو (رزق چننے کیلئے) مٹی پر پاؤں رکھتا ہے وہ پالتو مرغ سے بھی زیادہ نیچ (کمینہ) ہوگیا ہے-

پئے شاہبازاں بساط است سنگ
 کہ بر سنگ رفتن کند تیز چنگ

پتھر شہبازوں کے لئے قیمتی غالیچہ ہے کہ پتھر پر چلنا پنجوں کو تیز کرتا ہے-

تُو از زرد چشمانِ صحراستی
 بگوہر چوں سیمرغ والا ستی

تو صحراکے زرد چشموں (صحرا کے شکاری پرندوں) میں سے ہے تو سیمرغ کی طرح عالی نسب ہے -

جوانے اصیلے کہ در روزِ جنگ
 برد مردمک را ز چشمِ پلنگ

  ایسا اصیل جوان جو جنگ کے دن چیتے کی آنکھ سے پتلی نکال لیتا ہے-

بہ پروازِ تُو سطوتِ نوریاں
 بہ رگہائے تُو خونِ کافوریاں

تیری اڑان میں فرشتوں کی سی شان و شوکت ہے-تیری رگوں  میں کافوریوں کا لہو ہے-

تہِ چرخِ گردندۂ کوز پُشت
 بخور آنچہ گیری ز نرم و درشت

اس گھومتے ہوئے کبڑے آسمان کے تلے (نیچے) نرم ہو یا درشت اپنا ہی شکار کیا ہوا کھا-

ز دستِ کسے طعمہ خود مگیر
 نکو باش و پندِ نکویاں پذیر

اپنا نوالہ کسی کے ہاتھ سے نہ لے نیک بن اور اچھوں کی نصیحت سن (قبول کر)-

نوٹ: باز اور شاہین یہ دونوں اقبال کے محبوب پرندے ہیں ان پرندوں میں اقبال کے مرد مومن کی بعض صفات پائی جاتی ہیں-چنانچہ اپنے ایک خط میں جو انہوں نے پروفسیر ظفر احمد صدیقی کو لکھا تھا-بایں الفاظ اس بات کی وضاحت فرمائی تھی کہ ’’شاہین کی تشبیہ‘‘ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے-اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں:

  • خود دار اور غیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا
  • بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا
  • بلند پرواز ہے
  • خلوت پسند ہے
  •  تیز نگاہ ہے

٭٭٭ 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر