(تمہید از انتخاب کنندہ: علامہ محمد اقبال کی نظم صقلیہ(جزیرہ سسلی) بانگِ درا میں ہے جو سسلی پہ مسلمانوں کے 500سالہ عہدِ عروج کے بعد چھین لئے جانے کا مرثیہ ہے - جزیرہ سِسلی (Sicily) مسلم افواج نے خلافتِ عباسیہ کے زمانے میں قیروان (تیونس) کی اغلبی سلطنت کے کماندار اسد ابن الفرات کی قیادت میں 827ء میں فتح کیا تھا- صلیبی جنگوں میں اسلامی افواج کے ہاتھوں شرمناک شکست کے انتقام میں یورپ میں مسلمانوں پہ زندگی تنگ کی گئی تو اسی دوران 1250ء سے 1300ء کے درمیان سسلی بھی چھینا گیا- آج سِسلی جمہوریہ اٹلی کا خودمختار علاقہ ہے، جو 1861ء میں اٹلی کے ساتھ شامل ہوا- عہدِ اسلامی میں اس علاقے کے تجارتی اثر کی وجہ سے حتیٰ کہ جدید اطالوی (Italian) زبان پہ بھی عربی زبان کے واضح اثرات دیکھے جا سکتے ہیں -)
اقبال کی یہ نظم (صقلیہ) صرف 17 اشعار اور 4 بنود پر مشتمل ہے، پہلا بند چھ اشعار، دوسرا چار، تیسرا صرف تین اور چوتھا یا آخری بند چار اشعار پر مشتمل ہے-ہر بند ایک مستقل وحدت ہے جو طویل و وسیع پس منظر کی حامل اور اپنا اپنا جدا رنگ لئے ہوئے ہے-یوں کہنا چاہیے کہ ہر شعر بلکہ ہر مصرع ایک مستقل عنوان اور الگ مضمون ہے جس کی وسعتوں کو سمیٹنا اور گہرائیوں میں اترنا حوصلے کا تقاضا کرتا ہے-
شاعر اگر عالم ہو تو اس کا کلام بھی علم و معرفت کا بحر زخار ہوگا-علم کے ساتھ اگر وہ مفکر و فلسفی بھی ہو تو ایسے شاعر کے شعر کی گہرائی اور گیرائی بھی لا محدود اور بے انتہا ہوگی- لیکن جب وہ علم و فلسفہ کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ قائد و مصلح بھی ہو تو پھر اس کے کلام میں اور باتوں کے علاوہ درد بھی ہوگا اور فکر و عمل کی دعوت بھی ہوگی-جس طرح یہ سب باتیں کسی شاعر میں جمع ہونا مشکل ہے لیکن اقبال میں یہ سب باتیں جمع تھیں، اسی لئے اس کےکلام میں بھی یہ تمام باتیں بیک وقت پائی جاتی ہیں-
اقبال شاعر بھی تھا ،عالم بھی اور قائد و مصلح بھی- وہ شعر برائے شعر یا ادب برائے ادب کے جھمیلوں میں پڑنے کا قائل بھی نہ تھا-اس کے نزدیک شعر کا ایک مقصد تھا، وہ شعر برائے زندگی، شعر برائے انسانیت اور شعر برائے اسلام کا قائل تھا- وہ ایک فلسفی و مفکر بھی تھا مگر وہ فکر و فلسفہ کو تخیل کا ایک غبارہ سمجھ کر اور اس میں بیٹھ کر خیال کی فضاؤں میں اڑنے کا قائل بھی نہ تھا-اس نے فکر و فلسفہ کو نہ صرف ایک دعوت و پیغام کیلئے استعمال کیا-بلکہ اس خشک مضمون کے لئے شعر جیسا نازک قالب بھی استعمال کیا تاکہ انسانی ذہنوں کو جھنجھوڑ سکے اور ایک مطلوبہ نہج پر انسان کو ڈھال بھی سکے-وہ ایک مصلح بھی تھا، جو عزیمت اصلاح کے ساتھ ساتھ درد سے لبریز دل بھی رکھتا تھا جس کی اصلاح میں نشتر کے ساتھ مرہم بھی تھا-وہ ایک قائد و زعیم بھی تھا جو بلند نگاہ، جان پر سوز اور سخن دل نواز کی دولتِ خداداد کا مالک بھی تھا-اس نے نہ صرف یہ کہ اپنی قوم کی قیادت کی بلکہ اسے محمد علی جناح کی شکل میں قائد بھی فراہم کیا-مگر عجیب بات یہ ہے کہ اقبال کی یہ تمام خوبیاں اس کی مختصر سی نظم میں بیک وقت مجتمع نظر آتی ہیں-’’صقلیہ‘‘ میں اقبال شاعر بھی ہے عالم بھی ہے، فلسفی بھی ہے اور قائد بھی مگر عجیب تر بات یہ ہے کہ نظم کا ہر مصرع ایک منفرد مضمون، ایک الگ مضمون کا حامل بلکہ ایک مستقل کتاب کا داعی و مستحق بھی ہے-
’’صقلیہ‘‘ اقبال کی ایک نادر و منفرد تخلیق ہے، لفظ اور معنی دونوں لحاظ سے ایک شاہکار نظم ہے، لفظوں کی بندش بے ساختہ، پُرکشش اور سیلِ رواں کی طرح امڈتی ہوئی دکھائی دیتی ہے،جو قوت سامعہ کیلئے شیرینی و حلاوت، حسن طلب نگاہ کے لئے تازگی و طراوت اور ایمان سے لبریز دلوں کے لئے جوش و حرارت مہیا کرتی ہے- اس مختصر سی نظم میں اقبال صرف اسلام کا مؤرخ ہی نظر نہیں آتا بلکہ امت مسلمہ کو اس تاریخ کا شعور بھی عطا کرتا دکھائی دیتا ہے-جہاں ہمیں صقلیہ کا جغرافیائی محل وقوع اور اس کی اہمیت چند لفظوں میں سمٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے-وہاں اس کا قدیم گہوارۂ اسلام اور تہذیبِ حجاز کی روایات و آثار کے امین جزیرے کے جغرافیائی عناصر و آثار بھی شاعر سے براہِ راست ہمکلام نظر آتے ہیں-
اقبال ہمیں اسلامی تاریخ کے المناک حوادث کا شعور بھی دیتا ہے اور عربی، فارسی اور اردو شاعری میں ان حوادث کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ادبی شاہکاروں کی طرف بھی ہماری توجہ مبذول کراتا ہے-یہی نہیں، بلکہ ماضی کا آئینہ دکھا کر ہمیں اپنے حال کو سنوارنے اور روشن و شاندار مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے اور آنے والے خطرات سے بھی خبردار کرتا ہے-اقبال کی یہ نظم ہمیں تہذیب مغرب سے مایوس یورپی انسان کی خود غرضانہ مادہ پرستی کے ستائے ہوئے انسانیت کے مستقبل کے لئے تہذیبِ حجاز کے آرزو مند شاعر کے امڈتے ہوئے صرف آنسو ہی نہیں دکھائی دیتے بلکہ اس میں عبرت کا ایک تازیانہ اورمستقبل کے متعلق اعتماد اور امید کی کرنیں بھی پھوٹتی نظر آتی ہیں-
صقلیہ کے ساحل پر نظر پڑتے ہی اقبال کو تہذیب حجاز کی روایات، نشانات اور آثار کا احساس ہوتا ہے تو بے ساختہ دل کھول کر خون کے آنسو بہانے کی سوجھتی ہے- مگریہ منظر غم والم جلد ہی اوجھل ہو جاتا ہے اور شاعر اپنی چشم تصور سے سسلی پر مسلمانوں کی 500 سالہ حکومت و اقتدار کے مختلف مناظر سامنے لاتا ہے -عرب کے صحرانشینوں کا جوش و ولولہ اس سرزمین پر ایک ہنگامہ برپا کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے-پھر مراکش، تونس، بغداد اور قاہرہ سے آتے ہوئے بحری قافلے شاعر کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں جوسسلی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور سمندر کی متلاطم موجوں سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں، پھر شاعر کے سامنے تاریخ اسلام کے کچھ مناظر آجاتے ہیں-وہ دیکھتا ہے کہ قیصر و کسرٰی اور عرب و عجم کے شاہی دربار ہیں جو فرزندان توحید کے رعب و دبدبہ کے باعث لرزاں نظر آتے ہیں -توحید ربانی کے مستانے بادشاہوں کے رعب و جلال اور کروفر کو خاطر میں نہیں لا رہے بلکہ ان کی آمد سے ایک زلزلہ برپا ہے جس کے سبب تحت الٹنے والے ہیں اور تاج خاک میں ملنے والے ہیں-لیکن پھر اچانک اقبال کی نظروں کے سامنے تاریخ اسلام کے زیادہ زور دار مناظر آجاتے ہیں- بدر و اُحد، خیبر وحنین اور قادسیہ و زلاقہ کے معرکہ ہائے کارزار میں مجاہدین اسلام کی شمشیریں بجلیوں کی طرح کوندتی اور چمکتی نظر آنے لگتی ہیں -لیکن فورًا تاریخ کے جھروکے سے ایک اور زیادہ اہم منظر جھانکنے لگتا ہے -غار حرا سے پھوٹنے والی فجر اسلام ایک نئی بشارت لے کر سامنے آرہی ہے-ایک نیا جہاں تعمیر کرنے کا عزم و پیغام سنائی دیتا ہے-پھر قدیم جاہلانہ رسوم ملیا میٹ ہوتی دکھائی دیتی ہیں- کاروان حجاز جہاد فی سبیل اللہ کیلئے نکل کھڑا ہوا ہے -بیکس، مردہ دل اور کمزور لوگ دعوت حق پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں- تو ہُّمات کا طلسم پاش پاش ہو جاتا ہے- انسان احترام آدمیت، آزادی و مساوات کا درس لیتا ہے، غلام عزت و آزادی سے نوازے جاتے ہیں، ظہور اسلام اور رسالت حق کی پُر جوش تحریک وقت کے سمندر میں ایک ایسا زور دار پتھر ہے جس سے اٹھنے والی لہریں تا قیامت دور دور تک پھیلتی چلی جائیں گی اور یہ سلسلہ یومِ آخرت تک جاری رہے گا-مگر اقبال سوال کرتا ہے کہ فرزندانِ اسلام کے جس نعرہ تکبیر کو آج بھی انسان سن رہے ہیں لیکن کیا اس پر ہمیشہ کے لیے خاموشی طاری ہو سکتی ہے؟ اقبال کے اپنے الفاظ یہ ہیں:
|
رو لے اب دل کھول کر اے دیدۂ خُوننابہ بار |
اب شاعر تاریخ کے جھروکے سے نظر ہٹاتا ہے اور ایک بار پھر سسلی کے جغرافیے پر نظر ڈالتا ہے- اس تکون جزیرے کا محل وقوع بڑا اہم اور انوکھا ہے، جو سمندر کے لئے کے لیے عزت و وقار کا باعث اور بحری مسافروں کیلئے روشنی کا مینار ہے-جس طرح کسی لق و دق صحرا میں کوئی روشنی کا مینار قافلوں اور مسافروں کے لیے خوشی و اطمینان کا باعث ہوتا ہے اسی طرح دور دور تک پھیلے ہوئے وسیع سمندر کے عین وسط میں جزیرہ سسلی مسافروں کی امیدوں کا مرکز اور ملاحوں کے لیے خوشی کا پیغام ثابت ہوتا ہے- یہ جزیرہ بحیرہ روم کی زینت اور بحری مسافر کے لیے اطمینان و تسلی کی کرن ہے- شاعر کی دعا ہے کہ صقلیہ کا نظر آنا ہمیشہ مسافروں کے لیے وجہ تسلی رہے اور اس کے ساحل پر رونق بھی رہے، مگر ساتھ ہی اسے یہ بھی احساس دلاتا ہے کہ اس کی تاریخ کا روشن ترین باب مسلمانوں کا عہد حکومت ہے جن کی تہذیب کے لیے صقلیہ ایک گہوارہ تھا ایک ایسی قوم کا حسن و جمال دنیا کے لیے حسد اور جلن کا باعث تھا- ایک دنیا تھی جو اس قوم کی عظمتوں کا نظارہ کر کے جلتی تھی:
|
آہ اے سِسلی! سمندرکی ہے تجھ سے آبرو |
پھر اچانک صقلیہ کے حسن و جمال اور مرتبہ و مقام کے وصف و بیان کا سلسلہ رک جاتا ہے - اقبال ایک بار پھر تاریخ کے جھروکے سے جھانکنے لگتا ہے-یہ صقلیہ کبھی جس پُر عزم ، پُر وقار اور بلند اخلاق قومِ حجاز کی منزل اور تہذیب حجاز کا گہوارہ تھا- وہی قوم اور وہی تہذیب جس کے عظیم و حسین کارناموں پر ایک عالم رشک کرتا تھا اس کی تاریخ میں کیا کچھ نہیں ہوا؟ قیامت کے مظالم تھے اور بڑے اذیت ناک و المناک حوادث تھے جنہوں نے بار بار کاروانِ حجاز کا راستہ روکا اور تاریخ کو اپنا دھارا بدلنے پر مجبور کرتے رہے- وہ کاروانِ حجاز انسانیت کے احترام، مساوات اور اخوت کا علمبردار تھا- وہ ایک مشن تھا جو اس حیات مستعار کی دنیا کو پر سکون ، مطمئن اور خوشحال ماحول مہیا کر کے ایک ایسے جذبۂ تعمیر سے معمور و آباد کرنا چاہتا تھا جہاں اللہ کے بندے اللہ کی سرزمین پراللہ کی مرضی ومنشا کے مطابق زندگی گزار کر اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی سنوار سکیں- مگر انسانیت کے دشمن مفاد پرست اور حق کا راستہ روکنے والے ہوس پرستوں نے اپنی خواہشات و مفادات کو مختلف رنگوں میں ڈھال کر اور متنوع لبادوں میں چھپا کر کاروانِ حجاز پر شب خون مارے اور لوٹ مار کرتے رہے- اصل میں ان کا مطلب انسانیت کے مقاصد اعلیٰ اور بلند عزائم کوٹھکرانا تھا-
تاریخ کے یہ ہولناک واقعات اور قیامت کے یہ مظالم جو بار بار انسانی تاریخ کے رُخ کو غلط سمت میں ڈالتے رہے ہیں اور امت مسلمہ کو اذیت پہنچاتے رہے ہیں، مسلمانوں کی ادبی تواریخ پر بھی پوری طرح اثر انداز ہوتے رہے ہیں- اور اس ضمن میں شعرائے اسلام نے ملت اسلامیہ کے رنج والم اور شدید صدمات کی ترجمانی کرتے ہوئے کچھ ادبی شاہکار تخلیق کئے- یہ مختلف حکمرانوں اور خانوادوں یا بلاد اسلامیہ کے مرثیے اور شہر آشوب ہیں جو عربی، فارسی، اردو اور دیگر اسلامی زبانوں میں بکثرت موجود ہیں - اقبال اسلام کی تاریخ کے اس خاص پہلو سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ ان میں سے بعض کی ادبی تاریخ و مقام کا بھی شعور رکھتے ہیں- ان ادبی شاہکاروں میں سے صرف تین کا اس مرثیہ میں تذکرہ کرتے ہیں جو اسلامی تاریخ کے تین المناک حوادث کے ترجمان ہیں-
ان میں سے ایک داغ کا مرثیہ دلی ہے- دوسر اسعدی کا مرثیہ بغداد ہے اور تیسرے ادبی شاہکار کا تعلق سقوط اندلس کے المیہ سے ہے چوتھا حادثہ فاجعہ سقوط صقلیہ ہے جس کا ماتم ’’غم نصیب اقبال‘‘ خود کرتا ہے اور یوں وہ بھی ایک چوتھا ادبی شاہکار تخلیق کر کے ان کے شعرائے اسلام کی صف میں شامل ہو گیا ہے جو مختلف مدن و بلا د اسلام کی ادبی تاریخ میں شہرت عام اور بقائے دوام سے بھی سرفراز ہو گئے –
اسلام کی ادبی تاریخ کے اس دلچسپ مگر المناک پہلو کا ذکر کرتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں:
|
نالہ کش شیراز کا بُلبل ہُوا بغداد پر |
سقوط صقلیہ کے تقریباً پانچ صدیاں بعد ’’غم نصیب اقبال‘‘ جب تہذیب مجاز کے اس مزار کا ماتم کر چکا اور نوشتہ تقدیر کے انتخاب کے مطابق خود کو صقلیہ کا محرم راز قرار دے کر اپنے آپ کو اس کے ساتھ متشخص کر چکا، تو گویا اب بُعد و مغائرت کے تمام فاصلے نابود ہو گئے - اقبال بھی سرزمین صقلیہ کا جزو لا ینفک بن گیا اور یہاں کے آثار اسلامی اور مظاہر فطرت میں شامل ہو گیا- اس لیے محرم راز کو یہ حق بھی حاصل ہو گیا ہے کہ وہ اس سے راز و نیاز کی باتیں کرے، راز دارانہ انداز میں سوال کرے اور ہمدردانہ طریقے سے جواب لے - خاموش ساحل کی زبانِ حال اپنی داستان کہہ رہی ہے اور آنکھوں سے آنسو برساتے ہوئے اقبال بھی اس کے سامنے سراپا گوش ہے - باہم تفا ہم کا یہ رشتہ اس قدر قوی ہو گیا ہے کہ اقبال اور صقلیہ سراپا درد بن کر ایک دوسرے کے دکھ درد کی گہرائی کو پورے طور پر محسوس کرنے لگے ہیں- اس باہمی راز و نیاز اور درد آشنائی کے نتیجے میں اقبال صقلیہ سے اپنے اسلاف کی داستان سننے کی آرزو کرتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ خود وہ بھی اسی کا روانِ حجاز کی گردِ راہ ہے - شاعر چاہتا ہے کہ سرزمین صقلیہ اسے کاروانِ حجاز کے وُرود و نزول اور فروکش ہونے سے لے کر عروج و زوال اور سقوط کے درد ناک منظر تک کی تمام داستان حرف بہ حرف ایک تصویر الم کی شکل میں اس کے سامنے پیش کر دے تا کہ وہ جب واپس جائے تو برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ کو یہ تصویرِ درد دکھا کر اور اپنی آہ و بکا کے مناظر سامنے لا کر سب کو تڑپا دے-سب سرا پا فریاد بن کر اٹھ کھڑے ہوں، جہدِ آزادی کے میدان میں کود پڑیں ، ایک ایسی زور دار تحریک چلائیں جو عصر حاضر کو اسلام کا معجزہ دکھا دے اور پاکستان بنادے!
اقبال جب تہذیب مغرب سے مکمل مایوسی کے بعد یورپ سے واپس آرہا تھا تو اس کا دل غم سے چُور چُور تھا، مستقبل کے اندیشے اور ماضی کی یادیں اسے تڑپا رہی تھیں- ستایا ہوا غم زدہ دل جب سر زمین اسلام کے چھینے ہوئے سب سے پہلے ٹکڑے کے پاس پہنچا تو اس پر نظر پڑتے ہی سراپا آہ و بکا اور فریاد و فغاں بن گیا- تہذیب مغرب کے گماشتے سامراجی اور انسانیت کو طبقاتی زندان لعنت میں جکڑنے والے برہمنی سامراج کے فریب کار اور مطلب پرست اس کی ملت کو اپنے نرغے میں لئے ہوئے تھے- اسے اسلام کی چھینی ہوئی سرزمین کا غم بھی تھا اور اپنی ملت کے مستقبل کی فکر بھی تھی - وہ اپنی ملت کے پاس ایک تصویر درد لے کر پہنچنا چاہتا تھا تا کہ سب کو جگا دے، چونکا دے، تڑپا دے اور اپنے ساتھ آہ و بکا میں شامل کرلے، ایک محشر نما ہنگامہ بر پا کر دے، چنانچہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
|
ہے ترے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں |
٭٭٭
(ماخوذاز: اقبال کی نظم صقلیہ کا مطالعہ ، مطبوعہ سنگِ میل پبلی کیشنز)