ابتداء:
ہر نسل کا فرض بنتا ہے کہ وہ اقبال کو ازسرِنو دریافت کرے- لیکن کیا اقبال کو صرف بطور شاعر پڑھنا کافی ہے؟ ہرگز نہیں- اس کا مطلب ہے اقبال کو ایک ایسی آواز کے طور پر دریافت کیا جائے جو آپ کے ضمیر میں عقل و انسانی شعور کی نمائندہ ہو-
اقبال نے کس قسم کی آزادی کا خواب دیکھا تھا؟ کیا وہ صرف نوآبادیاتی نظام سے آزادی تھی؟ یا پھر ذہنی غلامی، بے حسی اور خوف سے نجات کا خواب تھا؟
بت شکنی اور ذہنی آزادی
اقبال غلامی کے دور میں پیدا ہوئے، مگر یہ غلامی جسمانی یا صرف سیاسی نہیں بلکہ فکری تھی- جب ذہن غلام تھے،اُس دور میں علامہ اقبال نے مستعار خیالات کے بت توڑنے کی جرأت کی-
انہوں نے ایسے نظریات کو چیلنج کیا کہ کیا سچ صرف یورپ سے آ سکتا ہے؟ اور ہمیں یہ سکھایا کہ اصل آزادی تلوار کی بغاوت سے نہیں، بلکہ ذہن کی بغاوت سے شروع ہوتی ہے-اگر اقبال غلامی کے دور میں آزاد سوچ سکتے تھے، تو کیا ہم مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور ایلگورتھم کے اس دور میں آزاد نہیں سوچ سکتے؟
مطالعہ بطور احیائے نو:
اقبال کا پیغام ایک انتشاری یا فسادی خونی انقلاب کی طرف نہیں لے جاتا بلکہ حرکت و تسلسل و تغیر کے ذریعے ایک فکری احیائے نو اور سیاسی بعثِ نو کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو کہ وسیع و مستقل عادتِ مطالعہ تقاضا کرتا ہے - ہم میں سے کتنے لوگ نصابی کتب اور سوشل میڈیا فیڈ سے آگے بڑھ کر کچھ کتب اور سنجیدہ لٹریچر پڑھتے ہیں؟
اقبال اُس دور کے ایک عام انسان سے بہت مختلف تھے- انہوں نے وسیع اور عمیق مطالعہ کیا- افلاطون سے لے کر نطشے تک، کلام و اصولِ فقہ سے تصوف تک ، سوشل ازم سے لے کر مغربی جدیدیت تک ، قرآن مجید سے لیکر ریاضی اور جدید طبیعات تک -
ان کی علمی و فکری طاقت کسی ایک علم کے سبب نہیں تھی، بلکہ تمام علوم، سائنس، مذہب، فن اور فلسفے کو جوڑنے اور انسان و انسانی معاشرے کا بطور مجموعی مطالعہ کرنے کی صلاحیت میں تھی- وہ مطالعہ اس لیے نہیں کرتے تھے کہ کسی کی بات سے اتفاق یا اختلاف کریں، بلکہ اس لیے کہ خود علم حاصل کریں، چیزوں کوسمجھ سکیں اور سمجھ کر تبدیلی لا سکیں- یہی مطالعے کی اصل طاقت ہے-
انسانیت سے ہم آہنگی:
لاہور ، دہلی ، کابل ، کیمبرج ، ہائیڈلبرگ، قرطبہ، روم، فلسطین تک، اقبال نے مختلف قوموں، مذاہب اور فلسفوں سے ملاقات کی- انہوں نے یہ سیکھا کہ تنوع ایمان کے لیے خطرہ نہیں، بلکہ اسے پختہ کرتا ہے- مسجد قرطبہ میں ان کا عشقِ حقیقی دیکھیں، اور مسلم اسپین جہاں کبھی مسلمان، عیسائی اور یہودی مل کر علم بانٹتے تھے مل جل کر رہتے ہوئے اس پر امن بقائے باہمی کے تصور کو اقبال اسلام کے سنہرے دور سے جوڑتے ہیں -
اپنے آپ سے پوچھیں کہ ہم میں سے کتنے افراد نے پاکستان کے تمام صوبوں کا سفر کیا ہے؟ یا اضلاع کا؟
طلباء کو پاکستان کے لسانی، مذہبی ، جگرافیائی اور نسلی تنوع کو کمزوری نہیں، طاقت کے طور پر دیکھنا چاہئے- یہ ہم پہ منحصر ہے کہ ہم اسے اپنی طاقت بنا کر پیش کرتے ہیں یا کمزوری -
مختلف خیالات کو قبول کرنا:
اقبال کسی کے بھی خیالات سے ڈرتے نہیں تھے- وہ ان کا خیرمقدم کرتے، مطالعہ کرتے، سمجھتے اور پھر ان میں سے خیر کو ترجیح دیتے- انہوں نے ہر قسم کے فلسفی، سائنسدان اور شاعر کو پڑھا- وہ مغرب کی سائنسی ترقی کے معترف تھے، مگر اس کی اخلاقی و ذہنی پستی پر تنقید بھی کرتے تھے- وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ کھلے یا لبرل ذہن کا مطلب بے سُروپا ہونا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ انسان اپنی بنیادوں سے مضبوطی کے ساتھ جڑا ہوا ہو، مگر نئے خیالات کے لیے تیار بھی ہو-
علم کی مسلسل جستجو:
اقبال کا فلسفہ جامد نہیں تھا- وہ مسلسل سیکھتے رہے- ان کی شاعری اور خیالات کا سفر اور ارتقاء اس بات کی دلیل ہے- ان کی سوچ وقت کے ساتھ گہری اور پختہ ہوتی گئی-وہ سمجھتے تھے کہ عقل کو انسانیت کی خدمت سوچنی چاہیے اور روح کی تسکین کا سامان تلاشنا چاہئے، لطافت اور قدر کے اعتبار سے عقل کو روح پر حاوی نہیں سمجھنا چاہیے-
طلباء کیلئے ضروری ہے کہ: اپنے خیالات میں ارتقاء و تغیر سے نہ ڈریں بلکہ سیکھنا چھوڑ دینے سے ڈریں-
اخلاقیات اور مکالمہ:
سیاسی اختلافات میں بھی، اقبال نے باوقار اور بااخلاق انداز میں گفتگو کی- الٰہ آباد میں انہوں نے ایک نظریہ پیش کیا جو دوسروں پر حملہ کرنے اور انہیں گرانے کے لیے نہیں، بلکہ اپنی قوم کو بیدار کرنے اور بلند کرنے کے لیے تھا-
ذہین انسان:
اقبال کے نزدیک عقل، خدا کی طرف سے ایک امانت ہے- قرآن کی پہلی وحی ’’اِقْرَأْ‘‘صرف پڑھنے کا حکم نہیں، بلکہ غور و فکر، تدبر اور سمجھنے کا تقاضا ہے- اقبال نے انسانیت کے مشن کو وحی کی روشنی میں عقل کو بیدار کرنا قرار دیا-
فن،جمالیات، اور روح:
اقبال کا مسجد قرطبہ کا سفر صرف تاریخی نہیں، ایک عالی قدر جذباتی تجربہ تھا- انہوں نے اس کی محرابوں میں ایک ایسا حسن دیکھا جو عشق سے جنم لیتا ہے ایسا فن جو آنکھ کو نہیں، روح کو تسکین دیتا ہے-
جب بھی کچھ لکھیں، پہلے پڑھیں اور تخلیق کریں، مقصد کے ساتھ کریں-ہماری تخلیق ہماری عبادت کی مانند پاکیزہ اور نیت کے ساتھ ہونی چاہئے-
توازن:
اقبال نے ہر قسم کی انتہاپسندی سے خبردار کیا، چاہے وہ دائیں بازو کی سختی ہو یا بائیں بازو کی بے راہ روی-انہوں نے ایک ایسا معاشرہ تصور کیا جو فکری طور پر جدید ہو اور قلبی طور پر روحانی- ایک متوازن معاشرہ-
اپنے ضمیر سے سوال :
اقبال نہیں چاہتے تھے کہ ہم انہیں صرف کتابوں میں یاد رکھیں وہ چاہتے تھے کہ ہم خود کو بیدار کریں-
آج کا سوال یہ نہیں کہ ’’اقبال نے کیا کہا تھا؟‘‘بلکہ یہ ہے کہ اقبال آج ہمیں دیکھ کر کیا کہتے؟کیا وہ ہمیں خواب دیکھنے والی قوم پاتے؟ یا ایسی نسل جو اپنی تقدیر کو صرف سوشل میڈیا پہ سکرول کرتے ہوئے گزار رہی ہے؟
اختتامی جملہ:
- سستی ، لا علمی ، بے حسی زنجیروں کو توڑو
- وسیع مطالعہ کرو
- گہرائی سے سوچو
- اخلاق کے ساتھ جیو
- عقل مند بنو
- ظاہراً باطناً خوبصورت بنو
- روحانیت کو اُجاگر کرو
- اور سب سے بڑھ کر — بیدار ہو جاؤ!
٭٭٭