بانیِ اصلاحی جماعتؒ کی عظیم خدمات کا مختصر جائزہ

بانیِ اصلاحی جماعتؒ کی عظیم خدمات کا مختصر جائزہ

بانیِ اصلاحی جماعتؒ کی عظیم خدمات کا مختصر جائزہ

مصنف: وقار حسن اکتوبر 2018

سلطان العارفین،برہان الواصلین حضرت سخی سلطان محمد باھو (قدس اللہ سرّہٗ) کا شمار دنیا کے صفِ اول کے صوفیاء کرام میں ہوتا ہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے اصلاح و فلاحِ انسانیت کے لیے آفاقی کارنامے سر انجام دیئے-آپؒ کی عظیم الشان خدمات میں سے ایک اہم کام آپؒ کی تحریریں ہیں-جو پچھلےتقریبا 350سال سے راہ حق کے پیاسوں کو جام معرفت پلا رہی ہیں-آپؒ نے اپنے عہد کی دو بڑی زبانوں فارسی اور لہندی (پنجابی) میں طبع آزمائی فرمائی-مشہور روایت کے مطابق آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے کم وبیش 140 کتب و رسائل تحریر کیے-ان میں سے آپؒ کے کلام کا ایک مجموعہ (ابیات باھو) پنجابی میں ہے جبکہ باقی کتب و رسائل فارسی زبان میں شعر و نثر کا عظیم سرمایہ آپؒ کے قلم سے صفحہ قرطاس پر تحریر ہوا-آپؒ کے اس علم وعرفان کے نایاب سرمائے کی طرف تقریباً تین صدیوں تک کسی نے خاص توجہ نہ دی-آپؒ کی اولاد،خلفاء اور اہل عقیدت نے آپؒ کی ان تصانیف کووقتا فوقتا مختلف صورتوں میں شائع کیا لیکن ان میں متون کی تحقیق پہ تشنگی برقرار رہی -آپؒ کی آل میں سے سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ نے اس میدان میں انمول اور لازوال خدمات سر انجام دے کر سلطان العارفین کی کتبِ مبارکہ کو آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ کر دیا-

بانیٔ اصلاحی جماعت سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی(قدس اللہ سرّہٗ) 14 اگست 1947ء بروز جمعۃ المبارک بمطابق 27رمضان المبارک (لیلتہ القدر) کودنیائے ہست و بود میں تشریف لائے-آپؒ نے اپنے والد گرامی شہباز عارفاں حضرت سلطان محمد عبد العزیز (قدس اللہ سرّہٗ) کی گود مبارک سے ہی فقرِ محمدی (ﷺ)کے اطوار سیکھنا شروع کیے -آپ کا اپنے والدِگرامی شہباز عارفاں حضرت سخی سلطان عبدالعزیز(قدس اللہ سرّہٗ) سے تعلق ایک رسمی رواجی بیٹے کا نہیں بلکہ ایک طالبِ صادق و عاشق کا تھا-آپؒ اپنے مرشد کریم شہباز عارفاں حضرت سخی سلطان عبد العزیز (قدس اللہ سرّہٗ) کی ذاتی خدمت پر 12سال مامور رہے-32سال کی عمر میں شہباز عارفاں حضرت سخی سلطان عبدالعزیزؒ نے آپؒ کو مزار مبارک پیرسید بہادر علی شاہ(قدس اللہ سرّہٗ) پہ بیعت فرمایا اور خلعت خلافت عطا فرمائی-آپؒ کی شخصیت ہمہ جہت تھی-آپؒ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ترویجِ دینِ حق کیلئے سفر میں گزارا اوراحیائے دین اورسنت کیلئے روایتی خانقاہی نظام سے ہٹ کر عملی کردار ادا کیا- آپؒ علامہ اقبال ؒکےاس مصرعہ کی عملی تصویر تھے:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری[1]
 

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے جہاں ایک مرشدِ کامل اور مردِ خود آگاہ کا کردار ادا کیا وہیں آپؒ نے وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کیلئے بھی اقدامات فرمائے-آپؒ نے خود بھی جدوجہد اور تحرک کی زندگی بسر کی اور تمام کارکنان کو بھی تحرک و جد و جہد کا درس دیا-آپؒ نے فقرِمحمدی(ﷺ) کے خزانہ اسم اللہ ذات و تعلیماتِ سلطان العارفینؒ کی ترویج و اشاعت کیلئے 1986ء میں انجمن غوثیہ عزیزیہ حق باھو سلطان پاکستان و عالم اسلام کی بنیاد رکھی-اس کے فوراً بعد ہی 1987ءمیں قرآن مجید کے اس انقلابی پیغام کے تحت اصلاحی جماعت کو قائم فرمایا اور کارکنان کو اپنی نگاہ فقر سے فیض یاب فرماتے ہوئے ان کی روحانی و باطنی تربیت فرمائی:

’’وَالْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلٰی الْخَیْرِ وَیَأْ مُرُوْنَ بِاالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘[2]

’’اے میرے پیارے حبیب (ﷺ) کے اُمتیو! تم میں ایک جماعت ایسی ہو جو بھلائی کی دعوت دے اور راہِ معرفت کا حکم کرے اور بُرائی سے روکے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘-

 بانیٔ اصلاحی جماعت کے عالمگیر امن اور محبت کے مشن کو لے کر چلتی ہوئی یہ جماعت الحمد للہ! دنیا کے 18سے زائد ممالک میں تعلیماتِ فقر کو عام کر رہی ہے اور اس حلقۂ خلوص و محبت میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے- آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے آستانہ عالیہ شہباز عارفاں حضرت سخی سلطان عبدالعزیز(قدس اللہ سرّہٗ) کے مقام پرمروجہ دینی تعلیم کے ابلاغ کیلئے دارلعلوم غوثیہ عزیزیہ انوار حق باھو ؒ کا قیام فرمایاجس کی شاخیں مرکزی درس گاہ کے علاوہ کئی اضلاع میں بھی پھیل چکی ہیں-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے 26دسمبر 1999ءبمطابق 17 رمضان المبارک 1420ھ کو عالمی تنظیم العارفین کی تشکیل فرمائی-لٹریچر کسی بھی جماعت یا تنظیم کی ترویج و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے-اس ضمن میں سلطان الفقر ششم ؒ کی نگاہ بصیرت و مومنانہ فراست نے جو اہم اقدامات اٹھائے وہ بے مثال ہیں-آپؒ نے انٹرنیشنل ماہنامہ مراۃ العارفین،العارفین پبلی کیشنز اور العارفین ڈیجیٹل پروڈکشن کاآغاز فرمایا-آپؒ کی شخصیت علم دوست شخصیت تھی-ماہنامہ مراۃ العارفین کا جب آغاز ہو ا تو اس کی اشاعت محدود پیمانے پر تھی لیکن اب الحمد اللہ یہ رسالہ پاکستان میں شائع ہونے والے تمام رسالوں میں ایک نمایاں اور الگ شناخت رکھتا ہے-ایک اندازے کے مطابق یہ رسالہ باقاعدہ ہر ماہ ایک لاکھ سے زائد کی تعداد میں شائع ہو رہا ہے اور اس کے قارئین میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے-تعلیمات سلطان العارفین کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ یہ رسالہ پاکستان و عالم اسلام کے اہم مسائل پہ بھی قلمی جہاد کر رہا ہے-سلطان الفقر ششم (قدس اللہ سرّہٗ) کا اس خطہ پہ یہ احسان عظیم ہے کہ آپؒ نے تعلیمات سلطان العارفین کو عوام الناس تک حقیقی معنوں میں پہنچانے کے لئے پر خلوص سعی فرمائی-سلطان العارفینؒ کی فارسی کتب کا وہ انمول خزانہ جس پہ گوکہ بعض محققین قابلِ تعریف کام بھی کر رہے تھے مگر  کچھ ایسے بھی تھے جو شخصی تشہیر اور  اپنے مادی و کاروباری مقاصد کیلئے استعمال کر رہے تھے اور جن کا ترجمہ اپنے اصل متن سے کوسوں دور معانی و مفاہیم پر مشتمل تھا اور علمی بد دیانتی کا یہ معیار کہ چند من گھڑت مصنفین و مترجمین ان فقید المثال کتب کے عجیب و غریب تراجم کر کے سستی شہرت حاصل کر رہے تھے یہاں تک کہ ایسی ایسی عبارات شامل کر دی گئیں کہ جن کا سرے سے فکر و فقرِ سلطان العارفینؒ سے تعلق ہی نہیں تھا-اس نازک ترین صورتحال میں کہ جب عوام الناس تک یہ تعلیمات حقیقی معنوں میں نہیں پہنچ رہی تھیں تب سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمداصغر علیؒ نے کتبِ سلطان العارفینؒ کی تحقیق و تراجم کا بیڑا اٹھایا-یہ آپؒ کی نگاہ بصیرت و مومنانہ فراست کا فیض ہے کہ آپؒ نے اس خزانۂ علمی کی حقیقی ترویج و حفاظت کیلئے اپنی نگاہ فقر سے تربیت یافتہ سید امیر خان نیازی ؒکو اس عظیم اور اہم ترین کارِ خیر پہ مامور فرمایا-سید امیر خان نیازیؒ بظاہر فارسی و عربی زبان سے نابلد تھے لیکن سلطان الفقر ششم کی نگاہِ فقر نے ان کو علِم باطن عطا کر کے ان کی اس مشکل کو بھی حل فرما دیا-اس ضمن میں سید امیر خان نیازی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’’ایک مرتبہ موسم سرما میں آپؒ (حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ)نے مجھے گھر سے بلا کر فرمایا کہ نیازی صاحب تم نے کچھ عرصہ میرے ساتھ رہنا ہے-مجھے اپنے مرشد کی بارگاہ سے حکم ملا ہے کہ تمہاری تربیت کروں-میں نے سر تسلیمِ خم کر دیا-آپؒ نے حضرت سلطان العارفین ؒکی تصنیفِ لطیف کلید التوحید (کلاں) کھولی اور فرمایا: یہاں سے پڑھو-میں نے عرض کی: حضور!  مجھے فارسی پڑھنی نہیں آتی-فرمایا:تم بسم اللہ پڑھ کر شروع تو کرو، تمہیں خود بخود پڑھنا آ جائے گا اور جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو میں حیرت زدہ رہ گیا کہ میں اسے آسانی سے پڑھتا بھی گیا اور اس کا مفہوم بھی میری سمجھ میں آتا گیا‘‘-[3]

سید امیر خان نیازی ؒ نے جس محنت،تندہی،لگن اور عرق ریزی سے ان کتب کے متون  کی تحقیق و تدوین اور تراجم کیے وہ پڑھ کر قاری ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے-اس ضمن میں سب سے اہم کام سلطان العارفینؒ کی کتب کے نسخہ جات کی تلاش تھی-ان کتب کی عدم دستیابی کی 5 بڑی وجوہات صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیف ایڈیٹر ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل) مندرجہ ذیل بتاتے ہیں:

1-       جن عقیدت مندوں اور خلفاکے پاس ان کتب کے قلمی نسخہ جات موجود تھے یا ہیں انہوں  نے اپنی زندگی میں اور بعد میں ان کی اولاد نے انہیں تبرکات سمجھتے ہوئے عامتہ الناس کی ہدایت کا ذریعہ نہیں بننے دیا-

2-      مشترکہ ہندوستان کی وجہ سے بعض کتب موجودہ ہندوستان کے کتب خانوں تک محدود ہو گئیں-

3-      جب سکھوں نے قلعہ گڑھ مہر رجب پہ یورش کر کے اسے گڑھ مہا راجہ بنایا اور خانقاہِ عالیہ سلطانیہ کو ویران کیا تو گمان غالب ہے(اللہ نہ کرے ایسا ہوا ہو) کہ سلطان العارفینؒ کی کتب کو جلا دیا گیا ہو-

4-      یہ بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ حکومتِ برطانیہ ان کتب کو کتب خانوں سے ساتھ لے گئی ہو-جس وجہ سے وہ کتب وہاں کی کسی لائبریری میں موجود ہوں-

5-      مقامی زمیندار گھرانے جن کا علم و ادب سےشغف تھا اور ان کے کتب خانے تھے ان میں یہ کتب موجود ہوں-[4]

ان مشکلات کے باوجود سلطان الفقر ششم  (قدس اللہ سرّہٗ) نے بہت سی فارسی کتب کے ماخذات و نسخہ جات اپنی ذاتی نگرانی میں تلاش کروائے اور مکمل توجہ و نگاہ شفقت سے سید امیر خان نیازی کے حوالے کیے- نیازی صاحب نے سلطان الفقر ششم(قدس اللہ سرّہٗ) کے وصال مبارک سے قبل جن کتب کے تراجم کئے ان تمام کتب کے پیش لفظ اور دیباچہ جات اس بات کے عکاس ہیں کہ بانیٔ اصلاحی جماعتؒ تعلیمات سلطان العارفینؒ کی ترویج و اشاعت کیلئےکس قدر محنت شاقہ فرما رہے تھے-اگر یوں کہا جائے کہ تعلیمات سلطان العارفین ؒ کو برصغیر پاک و ہند بلکہ پوری دنیا میں عام کرنے کیلئے بنیادی اور انقلابی کردار بانیٔ اصلاحی جماعتؒ نے ادا کیا تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا-آپؒ نے ان تصانیف کے متن کی تحقیق و تدوین پر خصوصی توجہ فرمائی-معیاری ترجمہ کے لئے متن کی صحت بنیادی چیز ہوتی ہے، ماہرین ترجمہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جب تک صحت مند متن دستیاب نہ ہو اس وقت تک معیاری ترجمہ کا ہونا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے-متن کی صحت کے حوالہ سے بھی آپؒ گہری بصیرت اور اس فن پر مہارت رکھتے تھے-اس ضمن میں ملک نور حیات خان رقمطراز ہیں:

’’بانی اصلاحی جماعتؒ نے برادرم سید امیر خان نیازی کو اس ڈیوٹی پر مامور فرمایا اور کہا کہ کسی بھی کتاب کا ترجمہ اس کے کم از کم تین یا اس سے زائد نسخہ جات کے تقابلی جائزے کے بعد کیا جائے تاکہ متن کی صحت سلامت ہو‘‘-[5]

ان کتب میں سے بعض کتب آپ کی اپنی ملکیت میں بھی تھیں-جو قلمی نسخہ جات شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد بہادر علی شاہ صاحب کے دست مبارک کے تحریر شدہ تھے وہ سلطان الاولیاء حضرت سخی سلطان عبدالعزیز (قدس اللہ سرّہٗ) کی وساطت سے آپؒ تک پہنچے-ان نسخہ جات کے علاوہ ملک کے طول وعرض سے آپؒ نے مریدین اور عقیدت مندوں کے ذریعے سلطان العارفین کی کتب کے نسخہ جات تلاش کروا کر اکھٹے کیے-اس میں بنیادی کام آپؒ نے سید امیر خان نیازی کے ذمہ ہی لگایا- سلطان العارفین کی کتب کےمتن کی تلاش، اصلاح، تدوین اور تراجم کے بارے میں صاحبزادہ سلطان احمد علی نے اظہارِ خیال ان الفاظ میں کیا:

’’سلطان الفقر ششم قدس اللہ سرّہٗ نے سید امیر خان کو اپنی خدمت میں رکھا اور فارسی زبان پر ان کی تربیت فرمائی اور فرمایا کہ کوئی بھی ناتواں نسخہ سامنے رکھ کر آپ نے ترجمہ نہیں کرنا-کم از کم جس کتاب کے چار نسخہ جات آپ کے پاس موجود ہوں اس کتاب کا آپ نے ترجمہ کرنا ہے اور نیازی صاحب کس کرب سے گزرے، ان نسخہ جات کو ڈھونڈتے ہوئے،موازنہ کرتے ہوئے ایک محقق ہی اس کرب کو سمجھ سکتا ہے کہ جہاں لوگوں نے اس کی کنجیاں گم کر دیں اس لئے کوئی ان کتب کے نسخہ جات نہ لے لے وہ اس خزانہ پر ناگ بن کر بیٹھ گئے نیازی صاحب نے ان سے وہ نسخہ جات نکلوائے ان کو سامنے رکھ کر متن تحقیق کیا اور صحت مند ترجمہ کیا-میں بڑے وثوق سے کَہ سکتا ہوں کہ حضرت سلطان باھوؒ کے وصال کے 300 سال بعد ان کتب پر صحیح کام شروع کیا وہ اصلاحی جماعت کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہی کیا گیا اور یہ تصوف میں اتنی بڑی خدمت ہے کہ بانیٔ اصلاحی جماعت نے سید امیر خان نیازی سے لی‘‘-[6]

سلطان الفقرششم(قدس اللہ سرّہٗ) کی توجہ کتب سلطان العارفینؒ کی تلاش،تدوین و اصلاحِ متن کے ساتھ ساتھ ان کے تراجم پر بھی یکساں رہی-آپؒ نے ہر کتاب کا ترجمہ اپنی خاص نگرانی اور اصلاح سے کروایا-سید امیر خان نیازی صاحب کو دورانِ ترجمہ جو مسائل در پیش آتے آپؒ اپنی باطنی فراست سے اس کا تدارک فرماتے-نیازی صاحب کی گردش تو برائے نام تھی درحقیقت ساقی کی نظر کام کر رہی تھی-آپؒ کی اس سعی جلیلہ کا تذکرہ سید امیر خان نیازی نے کچھ ان الفاظ میں ترجمہ ’’عین الفقر‘‘کے دیباچہ میں کیا ہے:

’’ایسے مقامات پر (یعنی جب کچھ ترجمہ کی سمجھ نہ آتی) یا تو حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) نے قلبی کیفیات کے ذریعہ خود راہنمائی فرمائی یا حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب دامت بر کاتہم العالیہ نے یوں دستگیری فرمائی کہ جب کبھی ملاقات ہوتی تو آپؒ عین الفقر کھول کر اسی مقام پر انگلی رکھ کر فرما دیتے ’’کہ نیازی صاحب! یہاں سے پڑھ کر اس کی تشریح کریں‘‘ میں اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق تشریح کر دیتا لیکن آپؒ اس کی شرح اس طرح فرما دیتے تھے کہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا اور میں اس کی اصلاح کر لیتا تھا‘‘-[7]

آپؒ سید امیر خان نیازی کی ظاہری و باطنی ہر دو حوالوں سے راہنمائی فرماتے تھے-اس معاملے میں آپؒ نیازی صاحب سے تراجم سنتے،ان کو پڑھتے اور اصلاح کرتے تھے-سلطان العارفینؒ نے اپنے کتب میں متعدد ایسی صوفیانہ اصطلاحات درج کی ہیں جو نہ تو کسی لغت سے ملتی ہیں اور نہ ہی کوئی عام انسان اتنی درست تشریح کر سکتا ہے-آپؒ ان عمیق اور عارفانہ نکات کی شرح فرما کر نیازی صاحب کی اصلاح فرماتے-آپؒ کی ظاہری و باطنی راہبری کا تذکرہ کرتے ہوئے سید امیر خان رقمطراز ہیں:

’’اگر میں کہوں کہ میں فقط روبوٹ تھا جسے بانیٔ اصلاحی جماعتؒ نے ریموٹ کیا ہے تو یہ بے جا نہ ہوگا-اللہ تعالیٰ مجھے دونوں جہاں میں ان کی رفاقت نصیب کرے (آمین)‘‘-[8]

سلطان الفقر ششمؒ نے ان تعلیمات کی اشاعت کیلئے ایک العارفین پبلیکیشنز کا ادارہ قائم کیا-جہاں سے ان کتب کے تراجم کی عمدہ اور خوبصوت اشاعت ہورہی ہے-آپؒ نے ان کتب کی اشاعت پر بھی خصوصی توجہ فرمائی -آپؒ کتب کی اشاعت کے لیے مناسب کاغذ کا انتخاب فرماتے اور ہر کتاب کےسر ورق کی عمدہ اور خوبصورت تہذیب و آرائش کرواتےجو آپ کے اعلیٰ ذوق اور نفاست کا عملی نمونہ ہے-ان کتب کے تراجم کی اشاعت میں آپؒ کا ایک اور نادر کارنامہ یہ ہے کہ آپؒ اردو ترجمہ کے ساتھ اس کا اصل فارسی متن بھی شائع کرواتے جو اس سے پہلےسلطان الارفینؒ کی کتب کے تراجم کے حوالہ سے کسی نے نہیں کیا تھا-ان تراجم کےمعیاری اور عمدہ ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک کتاب ’’عین الفقر‘‘کے  1993ء سے اب تک 32 ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں-آپؒ کی نگاہ شفقت و علم دوستی کا کمال ہے کہ سلطان العارفینؒ کی وہ کتب جن کے تراجم بانی اصلاحی جماعتؒ نے کروائے ان کتب کے اس وقت مارکیٹ میں متعددایڈیشنز آچکے ہیں اور لاکھوں تشنگان علم ان کتب میں موجود لازوال علمی و الہامی خزانے سے سیراب ہو رہے ہیں-دوسر ی طرف آپؒ نے ان تعلیمات کی اشاعت میں یوں کردار ادا کیا کہ اصلاحی جماعت کے کارکنان کی روحانی تربیت کر کے ان کے ذریعہ تعلیماتِ سلطان العارفینؒ کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کروایا-اس کے ساتھ ساتھ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے ماہنامہ ’’مرأۃ العارفین انٹرنیشنل‘‘ کا اجراء فرماکر اس کے ذریعے تعلیماتِ سلطان العارفینؒ کو عام کرنے کا بندوبست فرمایا-جس میں شروع سے اب تک مسلسل سلطان العارفینؒ کی کتب کے تراجم شائع ہوتے آرہے ہیں-تعلیماتِ سلطان العارفین ؒکے فروغ میں آپؒ کے کردار کے بارے صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے الفاظ ہیں:

’’سلطان الفقر ششمؒ نے جماعت کے دفاتر میں کتب سلطان العارفین اور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) کی کتب کے درُوس شروع کروائے-خدا بھلا کرے میاں چنن دین کا جس نے اللہ والے کی قومی دکان سے حضرت سلطان باھوؒ کی جو خاص کتب اس نیک بخت کو ملیں،وہ چاہے ناقص ترین ترجمے تھے لیکن اس نے دھڑا دھڑ مارکیٹ میں شائع کیےجس سے اہلِ علم لوگوں میں چرچا ہوا کہ حضرت سلطان باھو نے فارسی کتب بھی لکھی ہیں لیکن ان کے اندر کیا بات تھی عامتہ الناس کو اس کاپتہ ہی نہیں-تو سلطان الفقر ششمؒ نے اس نوجوان نسل کے لئے ایک شاہکار کارنامہ سرانجام دیا کہ کتبِ حضرت سلطان باھوؒ کی تفہیم کے لیےمبلغین تیار کیے،اس کا درس ہوتا تھا اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو لوگوں کے باطن کو بیدار کرنے کے لیے پیش کیا،پھر آپؒ نے ماہنامہ مراۃالعارفین کو شروع کیا‘‘-[9]

آپؒ اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھےوہ کام جو ادارے نہ کروا سکے آپؒ کی ذات نے کروائے-آپؒ کے اس کارِ عظیم کو عوام و خواص دونوں میں پذیرائی ملی-ان تراجم کے بازار میں آنے سے لوگوں کو تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کی حقیقت نصیب ہوئی-ان تراجم کی اشاعت کرکے نہ صرف آپؒ نے تصانیف سلطان العارفینؒ کو زندگی بخشی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فارسی زبان سے ناواقف لوگوں کو تعلیماتِ حضرت سلطان باھو ؒکو پڑھنے اور سمجھنے کا نایاب موقع فراہم کر کے اردو زبان و ادب کی بھی خدمت کی-ان تراجم کے معیار کے بارے میں پروفیسر احمد سعید ہمدانی کی رائے کچھ یوں ہے:

’’وہ(سید امیر خان نیازی)فارسی نہیں جانتے تھے -ان کے شوق اور ان کے مرشد حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ کی نگاہ کا کمال تھا کہ انہوں نے یہ ترجمے کیے-ان کے تراجم کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سلطان العارفین کو خود اردو میں پڑھ رہے ہیں‘‘-[10]

آپؒ کا وصال 26 دسمبر2003ء کو ہوا-آپؒ کے وصال سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال ابھرا کہ جو کام آپؒ سر انجام دے رہے تھے وہ اب رُک جائے گا-اس ضمن میں عوام ہی نہیں بلکہ اولادِ سلطان العارفین بھی پریشان اور غمزدہ تھی اور ایک طرح سے یہ فطری عمل بھی تھا -چونکہ آپؒ کے شہزادگان ابھی بظاہر کم عمر تھے اورپوری اولادِ سلطان العارفین(رضی اللہ عنہ) میں آپؒ کے ہم پلہ کوئی شخصیت موجود نہ تھی -اس کیفیت کا اندازاہ معروف ادیب طارق اسماعیل ساگر کی اس بات سے ہوتا ہے کہ:

’’پروفیسر سلطان الطاف علی صاحب نے آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی وفات کو روحانیت کا بڑاخلاء بتایا اور کہا کہ اس سے سلطان باھوؒ کی تعلیمات کی نشرواشاعت کا پروگرام حضور نے جاری فرمایا تھا اسے زبردست دھچکا لگا ہےان کا کہنا تھا کہ آپؒ کی وفات سے خاندان بیس سال پیچھے چلا گیا‘‘-[11]

لیکن آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کے بعد جانشین سلطان الفقر ششم صاحبزادہ حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس نے کم عمری میں ہی آپؒ کے قائم کردہ شعبہ جات کی ایسی باگ دوڑ سنبھالی کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کے کام میں کوئی خلاء آیا ہو- جانشین سلطان الفقر ششم مدظلہ الاقدس کی قیادت کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ فقط لباس ہی تبدیل ہوا ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس کی صورت میں سلطان الفقر آج بھی جلوہ افروز ہیں اور سلطان العارفینؒ کی تصانیف کی نشر واشاعت کا کام جاری و ساری ہے- سلطان الفقر ششمؒ کے وصال کے بعد بھی سلطان العارفین ؒکی کتب کے تراجم شائع ہوئے ہیں- جانشین سلطان الفقر ششم مدظلہ الاقدس نے اس کام کو بڑھا کر اس کا دائرہ اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان تک بڑھا دیا اور انشاءاللہ مستقبل میں ان کتب کے دنیا کی دیگر بڑی زبانوں میں بھی تراجم کئے جائیں گے-آپؒ کی ان خدمات کو تاقیامت یاد رکھا جائے گااور رہتی دنیا تک تعلیمات سلطان العارفین ؒسے تشگانِ علم و معرفت سیراب ہوتے رہیں گے-آج محققین اور تحقیقی اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تصانیف سلطان العارفینؒ پر تحقیق کر کے اس ادبی، علمی، روحانی، سائنسی ، تہذیبی، سماجی، ثقافتی، فلسفیانہ سرمایے کی بازیافت کر کے عوام الناس تک پہنچائیں-

شکوۂ ظلمتِ شب سے، تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

٭٭٭

کتابیات

1-      طارق اسماعیل ساگر-صاحبِ لولاک- لاہور:العارفین پبلیکیشنز، 2011ء

2-      علامہ اقبالؒ-کلیات اقبال مع فرہنگ-لاہور:مشتاق بک کارنر،  2009ء

3-      حضرت سخی سلطان باھو-عین الفقر-مترجم سید امیر خان نیازی-لاہور:العارفین پبلیکیشنز،2016ء

4-      حضرت سخی سلطان باھو-کلید التوحید(خورد)،مجالستہ النبی، رسالہ روحی شریف-مترجم سید امیر خان نیازی-لاہور: العارفین پبلیکیشنز، 2015ء

5-      حضرت سخی سلطان باھو-اسرار القادری-مترجم سید امیر خان نیازی -لاہور:العارفین پبلیکیشنز،2015ء

6-      حضرت سخی سلطان باھو-امیرالکونین-مترجم سید امیر خان نیازی-لاہور:العارفین پبلیکیشنز،2011ء

7-       حضرت سخی سلطان باھو-شمس العارفین-مترجم سید امیر خان نیازی -لاہور:العارفین پبلیکیشنز،2014ء

8-      حضرت سخی سلطان باھو-عقلِ بیدار-مترجم سید امیر خان نیازی-لاہور:العارفین پبلیکیشنز،2015ء

9-       حضرت سخی سلطان باھو-کلید التوحید(کلاں)-مترجم سید امیر خان نیازی-لاہور:العارفین پبلیکیشنز،2016ء

10-    حضرت سخی سلطان باھو-محک الفقر(کلاں)-مترجم سید امیر خان نیازی-لاہور:العارفین پبلیکیشنز،2015ء

11-    حضرت سخی سلطان باھو-نورالہدیٰ(کلاں)-مترجم سید امیر خان نیازی-لاہور:العارفین پبلیکیشنز،2016ء

12-   وقار حسن-سید امیر خان نیازی:شخصیت اردو ادبی خدمات-مقالہ برائے بی-ایس (اردو)، یونیورسٹی آف سرگودھا، 2016ء

13-   مشتاق احمد-خانوادہ سلطان باھو کی ادبی خدمات ابتداء سے 2000ء تک-مقالہ برائے ایم-فل، یونیورسٹی آف سرگودھا، 2017ء

14-   ماہنامہ ’’مرأۃالعارفین انٹرنیشنل-لاہور:العارفین پبلیکیشنز، فائل، اپریل 2000ء تا ستمبر2108ء

 



[1]( علامہ محمد اقبال،ارمغانِ حجاز(اردو)

[2](القران، سورہ عمران، آیت:104)

[3]( سید امیر خان نیازی، سلطان الفقر کا اندازِ تربیت مشمولہ  مرأۃ العارفین، لاہور:2004ء،ج:5،شمارہ:7،ص:17)

[4]( صاحبزادہ سلطان احمد علی،’’حضرت سلطان باھو کی عدم دستیاب کتب کی جستجو‘‘،مشمولہ  مرأۃ العارفین، لاہور: 2011ء، ج:12، شمارہ:1، ص:25-26)

[5]( ملک نور حیات خان،’’تعلیماتِ حضرت سلطان باھو کی ترویج میں اصلاحی جماعت کا کردار‘‘، مشمولہ  مرأۃ العارفین، لاہور:2011ء،ج:12،شمارہ:1،ص:28)

[6](صاحبزادہ سلطان احمد علی،’’اظہارِ خیال‘‘،فکر سلطان الفقر سیمینار،مشمولہ مرۃ العارفین،لاہور:2014ء،ج:15،  شمارہ:6، ص:18)

[7](سید امیر خان نیازی،’’پیش لفظ‘‘،عین الفقر،لاہور:العارفین پبلی کیشنز2007ء،ص:10)

[8](سید امیر خان نیازی،’’پیش لفظ‘‘،عقلِ بیدار،لاہور:العارفین پبلی کیشنز2015ء،ص:15)

[9](صاحبزادہ سلطان احمد علی،’’اظہارِ خیال‘‘،فکر سلطان الفقر سیمینار،مشمولہ  مرأۃ العارفین،لاہور:2014ء،ج:15، شمارہ :6، ص: 17)

[10]( راقم الحروف، استفسار از سید احمد سعید ہمدانی، بمقام محلہ شاہ ہمدان نوشہرہ(وادیِ سون)خوشاب، مورخہ یکم فروری 2016ء،بوقت شام40: 6)

[11]( طارق اسماعیل ساگر،کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزمِ جہاں سے’’مشمولہ  مرأۃالعارفین،لاہور:2012ء،ج:13، شمارہ:6، ص:40)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر