زبدۃ الاسرار ( از: شیخ محقق شاہ عبدالحق محدثِ دہلوی) قسط 13

زبدۃ الاسرار ( از: شیخ محقق شاہ عبدالحق محدثِ دہلوی) قسط 13

زبدۃ الاسرار ( از: شیخ محقق شاہ عبدالحق محدثِ دہلوی) قسط 13

مصنف: مترجم : ایس ایچ قادری اگست 2016

 ﴿گزشتہ سے متصلہ﴾

مشائخ کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ:-

’’ہم سب بغداد میں شیخ ابو محمد علی بن ادریس یعقوبی کے پاس تھے کہ شیخ ابو حفص عمر جو کہ ان کے قاصد کے طور پر معروف تھے، تشریف لائے تو شیخ علی نے فرمایا کہ ان سب کو اپنا خواب سنائو- انہوں نے فرمایا کہ میں نے خواب میںدیکھا کہ قیامت قائم ہو چکی ہے اور انبیائ اور ان کے اُمّتی میدانِ عرفات کی طرف آ رہے ہیں- کسی نبی کے پیچھے صرف دو آدمی یا ایک ہی آدمی ہے- پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم تشریف لاتے ہیں- آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم کی امت سیلاب اور رات کی مانند ﴿چھائی ہوئی﴾ آتی ہے، جن میں مشائخ بھی ہیں اور ہر شیخ کے ساتھ اس کے ساتھی بھی ہیں جو تعداد ، انوار و تجلیات اور جاہ و جلال میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں- مشائخ کے اس لشکر میں سے ایک شیخ تشریف لاتے ہیںجن کے ساتھ مخلوق کی ایک کثیر تعداد ہے جو دوسروں پر فضیلت رکھتے ہیں- مَیں اُن کے بارے پوچھتا ہوں ﴿کہ یہ بزرگ کون ہیں؟﴾ بتایا جاتا ہے کہ یہ شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اور آپ کے ساتھی ﴿و مریدین﴾ ہیں- مَیں آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہوں کہ حضور! مَیں نے مشائخ میں آپ سے زیادہ کوئی جاہ و جلال والا نہیں دیکھا اور ان کے پیروکاروں میں آپ کے پیروکاروں سے زیادہ کوئی حسین و جمیل بھی نہیں دیکھا ﴿اس کی کیا وجہ ہے؟﴾- آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اشعار پڑھے:-

اذا کان منا سیّد فی عشیرۃ

علاھا و ان ضاق الحناق حماھا

جب ہم میں سے کوئی کسی قبیلہ کا سردار ﴿سیّد﴾ ہوتا ہے تو وہ اسے بلندیوں پر لے جاتا ہے اور اگر اسے کوئی وبائ پہنچے تو وہ ﴿سیّد﴾ اس کی حفاظت کرتا ہے- ‘

و ما اختبرت الا و اصبح شیخھا

و ما افتخرت الا و کان فتاھا

اور جب بھی اس قبیلہ کو آزمایا جاتا ہے تو وہ ﴿سیّد﴾ اس کا شیخ ہوتا ہے اور جب بھی اس قبیلہ پر فخر کیا جاتا ہے تو وہ اس کا جوان ہوتا ہے- ‘

و ما ضربت بالابرقین خیامنا

فاصبح ماوی الطارقین سواھا

اور جب بھی ہمارا خیمہ ﴿بے آب و گیاہ﴾ چٹیل زمین میں گاڑھا جاتا ہے تو وہ ﴿سیّد﴾ باقی خیمہ والوں کے حاجت مندوں کی بھی پناہ گاہ بن جاتا ہے-‘

فرمایا کہ پس جب مَیں بیدار ہوا تو ان اشعار کو یاد کر لیا- شیخ علی بن ادریس نے شیخ محمد الواعظ کو کہا جو کہ اسی مجلس میں حاضر تھے، ’اے محمد! اسی مفہوم میں شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کچھ اشعار پڑھیں‘-

انہوں نے پڑھنا شروع کیا کہ:-

ھنیئا لصحبتی اننی قاید الرکب

اسیر بہم قصداً الی المنزل الرحب

میری صحبت میں آنے والوں کو مبارک ہو کہ مَیں قافلہ سواروں کا قائد ہوں، مَیں انہیں ایک وسیع مقام و منزل کا ارادہ کرتے ہوئے لے کر چلتا ہوں-‘

و اکفیھم و الکل فی شغل امرھم

و انزلھم فی حضرۃ القدس من قرب

مَیں ان کے لئے کافی ہوں حالانکہ وہ سب اپنے کاموں میں مشغول ہوں، مَیں انہیں حضرت القدس ﴿باری تعالیٰ﴾ کے قرب میں لے کر اتروں گا-‘

و لی معہد کل الطوائف دونہ

و لی منہل عذب المشارب و الشرب

مجھ سے وہ وعدہ کیا گیا ہے کہ ہر گروہ اس سے نیچے ہے، مجھے ایسی گھاٹ عطا ہوئی ہے کہ جس کے چشموں کا پانی میٹھا اور خوشگوار ہے-‘

و اھل الصفا یسعون خلفی کلھم

ھمۃ امضی من الصارم الغضب

اور میرے بعد کے تمام اہلِ صفا اس ہمت کی کوشش کرتے ہیں جو غضب کی تیز دھار تلوار سے بھی تیز ہے-‘

شیخ نے انہیں کہا کہ واہ کیا خوب اشعار پڑھے ہیں، تم نے سچ کہا‘‘-

شیخ ﴿غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ﴾ نے ﴿کیا خوب﴾ فرمایا کہ:-

لی من کل طویلۃ فحل لا یقاوم

و لی فی ارض خیل لا یسابق

’’ہر طول و عرض میں میرا ایک ایسا نوجوان مرد ہے جس کا کوئی قائم مقام نہیں، ہر خطۂ زمین میں میرا ایسا گھوڑا ہے جس کا کوئی مدمقابل نہیں-‘‘

و لی فی کل جیش سلطان لا یخالف

و لی کل منصب خلیفۃ لا یعزل

’’ہر لشکر میں میرا ایک سلطان ہے جس کی مخالفت کی کسی کو جرأت نہیں اور ہر منصب کے لیے میرا ایک ایسا خلیفہ ہے جسے کوئی معزول نہیں کر سکتا-‘‘     

شیخ ابو محمد عبد الجبار بن شیخ الاسلام محی الدین عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے کہ:-

’’میری والدہ جب کسی تاریک مکان میں داخل ہوتیں تو ان کے لیے ایک شمع روشن ہو جاتی جس سے وہ اس تاریک کمرہ میں روشنی حاصل کرتیں- ایک مرتبہ میرے والد ﴿سیدنا شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ میری والدہ کے پاس اس شمع کی موجودگی میں تشریف لائے- جب آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی اس شمع پر نگاہ پڑی تو وہ بجھ گئی- پھر آپ نے میری والدہ کو فرمایا کہ یہ نور جو آپ دیکھ رہی تھیں یہ شیطان تھا جو آپ کی خدمت کر رہا تھا- مَیں نے اسے ہٹا دیا ہے اور اس کی جگہ پر تمہارے لئے رحمانی نور رکھ دیا ہے اور مَیں ہر اس کے ساتھ ایسے ہی پیش آتا ہوں جو میری طرف منسوب ہے- اس کے لیے میری عنایت و توجہ ہے-‘‘

﴿مصنف کتاب شیخ عبد الحق محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:-﴾ اے غوث الاعظم ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ ! ہم بھی آپ کی طرف منسوب ہیں اور آپ کے ہاتھ میں عنایت بھی ہے ہمیں اپنی عنایت سے محروم نہ فرما ﴿اٰمین﴾- اے غوث الاعظم ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾! اگر ہم عنایت کے قابل نہیں ہیں تو ہمیں اس کے قابل بنا دے کیونکہ آپ وجودوں میں تصرف فرمانے والے ہیں- آپ کی بارگاہ میں بد بخت اور سعادت مند دونوں پیش کیے جاتے ہیں-

’’آپ ﴿ صاحبزادہ شیخ ابو محمد عبد الجبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایاکہ اس کے بعد میری والدہ جب مکان میں داخل ہوتیں تو چاند کی چاندنی جیسا نور دیکھتیں جو اس گھر کے چاروں طرف پھیلا ہوتا تھا‘‘-

روایت ہے کہ اہلِ بغداد میں سے ایک آدمی آیا اور آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کو عرض کیا کہ میرا والد فوت ہو گیا ہے اور میں نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ مجھے کہہ رہا ہے کہ مجھے قبر میں عذاب ہو رہا ہے اور تم شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی خدمت میں حاضر ہو کر میرے لیے دعا کرائو- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے اس سے پوچھا کہ کیا کبھی وہ میرے مدرسہ سے گزرا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ جی ہاں- پس آپ خاموش ہو گئے- دوسرے دن اس کا بیٹا پھر آیا اور آ کر بتایا کہ اب میں نے اسے خوش و خرم دیکھا ہے اور اس پر سبز رنگ کی چادر بھی تھی اور اس نے مجھے بتایا کہ مجھ سے عذاب بھی ہٹا لیا گیا ہے اور شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی برکت سے مجھے یہ چادر بھی ملی ہے جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ جو مسلمان میرے مدرسے کے دروازے سے بھی گزرا ہوگا تو اس سے قبر کا عذاب کم کر دیا جائے گا‘‘-

اے اللہ! ہمیں بھی یہ سعادت نصیب فرما اور اے اللہ! ہماری دعا بھی قبول فرما بے شک تو سمیع و علیم ہے ﴿اٰمین ثم اٰمین﴾-

روایت ہے کہ آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا گیا کہ ایک میت کی قبر سے چیخنے کی آواز سنائی دی گئی ہے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے پوچھا کہ کیا اس نے مجھ سے خرقہ پہنا تھا؟ ساتھیوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے پوچھا کہ کیا وہ ہماری مجلس میں کبھی حاضر ہوا تھا؟ ساتھیوں نے عرض کیا کہ ہم نہیں جانتے- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ حد سے گزرنے والا ہی خسارہ کا حقدار ہے- پھر آپ نے تھوڑی دیر کے لئے سر مبارک جھکایا تو ایک پُر وقار ہیبت آپ کے چہرے پر ظاہر ہوئی- آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا کہ فرشتوں نے مجھے بتایا کہ ’اس شخص نے آپ کے چہرہ مبارک کی زیارت کی تو ایک اچھا گمان رکھا تھا پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی وجہ سے اس پر رحم فرما دیا ہے‘-

راوی نے بتایا کہ اس کے بعد کئی مرتبہ لوگ اس شخص کی قبر پر گئے لیکن پھر کبھی اس کی چیخنے کی آواز نہ سنائی دی‘‘-

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:-

﴿عثر الحسین الحلاج فلم یکن فی زمنہ من یاخذ بیدہ و لو کنت فی زمنہ لاخذت بیدہ و انا لکل من عثر مرکوبہ من اصحابی و مریدی الی یوم القیامۃ اخذ بیدہ﴾

’’حسین ﴿بن منصور﴾ الحلاج ﴿انالحق کا اعلانِ عام کرنے سے﴾ منہ کے بل گر پڑے اور ان کے زمانے میں ﴿ظاہراً﴾ کوئی ایسی شخصیت نہ تھی جو ان کا ہاتھ پکڑتی- اگر میں ان کے زمانے میں ہوتا تو ضرور ان کا ہاتھ پکڑ لیتا- اگر قیامت تک میرے ساتھیوں اور مریدین میں سے جو بھی اپنی ﴿شریعت کی﴾ سواری سے گرنے والا ہو گا تو مَیں اس کا ہاتھ پکڑنے والا ہوں گا ‘‘- ﴿۱

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ:-

﴿اذا سالتم اللّٰہ فاسئلوا بی﴾

’’جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو میرے وسیلہ سے سوال کیا کرو‘‘-

آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا:-

’’جس نے کسی مصیبت میں مجھ سے مدد مانگی تو وہ مصیبت اس سے دور ہو جائے گی- جس نے کسی سختی میں میرے نام کوپکارا تو وہ سختی ٹل جائے گی- جس نے کسی ضرورت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مجھے وسیلہ بنایا تو اس کی ضرورت پوری ہو جائے گی- جس کسی نے دو رکعت نماز ﴿نفلِ حاجت﴾ اس طرح پڑھی کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص گیارہ مرتبہ پڑھی، پھر سلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجااور آپ کو یاد کیا پھر عراق کی طرف گیارہ قدم چل کر میرا نام پکارا اور اپنی حاجت بیان کی تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کی حاجت پوری ہو جائے گی‘‘-

سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نفاستِ کلام کا تذکرہ:

آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا کلام بھی ایسا کلام ہے کہ کئی عبارتیں اس کی شرح کے تقاضے پورے نہیں کر سکتیں اور کئی اشارات بھی اس کے ادراک تک نہیں پہنچ سکتے لیکن پھر بھی ہم یہاں کچھ ایسے کلام کا تذکرہ کریں گے جو بظاہر سمجھ کے قریب ہے اور اللہ تعالیٰ ہمارا مددگار ہے- ہم آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی اس دعا سے شروع کرتے ہیں جو آپ اپنی مجالس میں فرمایا کرتے تھے:-

’’اے اللہ ہم تم سے ایسے ایمان کا سوال کرتے ہیںجو تیرے سامنے پیش کرنے کے قابل ہو، ایسے یقین کا سوال کرتے ہیں جس کی بدولت قیامت کے روز تیری بارگاہ میں حاضر ہو سکیں، ایسی عزت کا سوال کرتے ہیں جس کی وجہ سے گناہوں کی بہتات سے تو ہمیں بچا لے، ایسی رحمت کا سوال کرتے ہیں جس سے تو ہمارے عیبوں کی میل کچیل صاف کر دے، ایسے علم کا سوال کرتے ہیں جس سے تیرے احکامات کی سمجھ بوجھ آ جائے، ایسی فہم کا سوال کرتے ہیں جس سے تیری بارگاہ میں التجا کرنا سیکھ جائیں- ہمیں دنیا و آخرت میں اپنے دوستوں میں شامل فرما، اپنی معرفت سے ہمارے دلوں کو منور فرما دے، اپنی ہدایت کے سرمے کو ہماری آنکھوں میں لگا دے، ہمارے افکار کے قدموں کو شبہات کی پھسلن سے محفوظ رکھ، ہمارے نفوس کے پرندوں کو شہوت کے ہلاکت خیز پنجروں میں داخل ہونے سے روک دے، ہمارے اعمال کے جریدوں سے ہمارے گناہوں کی سطریں ہمارے نیکیوں کے ہاتھوں سے مٹا دے- جب ہم سے امید ختم ہو جائے، جب اہلِ وجود اپنے چہرے ہم سے پھیر لیں،جب قبر کی تاریکیوں میں ہمارے افعال کا انجام ہمیں حاصل ہوگا تو اے اللہ تو ہمارے لئے قیامت تک امید بن جانا- ﴿اے اللہ! تو﴾ اپنے اس کمزور بندے کو ذلتوں سے بچنے کی عادات سے باخبر کر، اسے اور حاضرین مجلس کو نیک قول و فعل کی توفیق دے، اس کی زبان پر ایسی بات جاری کر جو سننے والے کے لئے نفع بخش ہو- اس کے لیے آنسو بہائے جائیں، دل خشوع کرتے ہوئے جھک جائیں، اس عاجز بندے، حاضرین مجلس اور تمام مؤمنین کو اپنی رحمت سے بخش دے ، اے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے‘‘-

آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ نے فرمایا:-

’’اللہ تعالیٰ نے اپنی حمایت سے تجھے ولایت بخش دی ہے اور اپنی عمدہ رعایت کی وجہ سے تجھے بچا لیا ہے- بے شک سچائی کے قدموں میں جب طلب پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے مطلب کو پا لیتے ہیں، شوق کے ہاتھوں میں جب جذبہ آتا ہے تو وہ مالک بن جاتے ہیں، محبت کے لشکر جب راتوں کو چلتے ہیں تو قتل کر دیئے جاتے ہیں، آزادی کی صفات جب فنا ہوتی ہیں تو بقا حاصل کر لیتی ہیں، وصل کی ٹہنیاں جب ثابت قدم ہو جاتی ہیں تو اگنے لگ جاتی ہیں، قرب کی جڑیں جب مضبوط ہوتی ہیں تو بلند ہونے لگتی ہیں، جب مقدس باغات ظاہر ہوتے ہیں تو آنکھوں کو چکا چوند کرنے لگتے ہیں، اُنس و محبت کی ہوائیں جب چلتی ہیں تو پھیل جاتی ہیں، عقل کے چشمے جب عیاں ہوتے ہیں تو ہوش اڑا دیتے ہیں، محبین کے دل جب ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہیں تو عاشق ہو جاتے ہیں، روحوں کے کان جب قریب ہوتے ہیں تو سننے لگ جاتے ہیں، راز کی آنکھیں جب حاضر ہوتی ہیں تو دیکھنے لگ جاتی ہیں اور قوم کی زبانوں کو جب حکم دیا جاتا ہے تو وہ بولنے لگ جاتی ہیں-

پس اللہ تعالیٰ کے موتیوں جیسے بندے ہیں جن کو ان کے مولا نے سابقہ قدیم زمانہ سے ہی کرم کی زبان سے پکارا، انہیں وصل کی بزم میںفضل کی ندائ سے منادی دی، ان کے لئے محبت کے معانی ظاہر کیے- ان کے لئے اپنی قرب کی بارگاہ کو کھول کر لازم کر دیا- انہوں نے ازل کی ابتدائ سے جمال کی بزرگی کا مشاہدہ کیا اور مجالس کی پروان سے کمال کی عزت کا معائنہ کیا- ان کی نگاہیں غیب کے جہان اور توحید کے نشانات کی طرف متوجہ ہو گئیں، ان کے راز قدس کے مشاہدہ اور تفرید کی معراج کی جانب مصروف ہو گئے، ان کے اسرار بسط ﴿کشادگی﴾ کے قالینوں پر تشریف فرما ہوئے، ان کی روحین خطاب کی خوشبوئوں سے پر سکون ہوئیں- ان میں سے اگر کوئی خاموش ہوا تو حق الیقین کے مشاہدہ کے لئے خاموش ہوا، ان میں سے اگر کوئی بولا تو یقین کا حکم دینے کے لئے بولا-

اگر ان کے کسی مرید کو ﴿افامنوا مکر اللّٰہ﴾ کے خوف نے تردد میں مبتلا کر دیا، یا ﴿یحذرکم اللّٰہ﴾ کی تنبیہ نے اس مرید کے دل کو کسی انجام میں مبتلا کر دیا تو اس ذات نے انہیں ﴿لا تخافا اننی معکما﴾ سے مخاطب کرتے ہوئے ﴿اس خوف﴾ سے نجات دی کہ میں سن بھی رہا ہوں اور دیکھ بھی رہا ہوں- سعادت کے گواہان یہ کہتے ہوئے بولے کہ ﴿بُشرٰی کم الیوم﴾- سخاوت کے سفیر نے کہا ﴿و اما بنعمۃ ربک فحدث﴾، اگر ان کی مراد کے لئے ﴿یختص برحمتہ من یشآئ﴾ کے دیوان سے ﴿ایتونی بہ استخلصہ لنفسی﴾ سے موسوم کوئی چیز خارج ہو جائے تو ﴿اصطفیناہ من عبادنا﴾ کا ہاتھ اسے پکڑ کر ﴿سلام قولا من رب رحیم﴾ کی بارگاہ میں لے جاتا ہے ، وہ ﴿سقاھم ربہم﴾ کی مجلس میں قدم رکھتا ہے اور ﴿فخذ ما آتیتک﴾ کا چہرہ اس کا استقبال کرتا ہے، ﴿شرح لی صدری﴾ کی بساط اپنے بازو کھول لیتی ہے، ﴿نبیئ عبادی﴾ کا جواب دہندہ اسے پکارتا ہے، ﴿ما قلت لھم الا ما امرتنی بہ﴾ کی سچی زبان اسے خبر دیتی ہے- اگر ان کا قطب ﴿من یطع الرسول﴾ پر ثابت قدم رہے، ﴿و ما اتاکم الرسول﴾ پر استقامت کا مظاہرہ کرے اور ﴿ان کنتم تحبون اللّٰہ﴾ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لے تو وہ ﴿من تبعنی فانہ منی﴾ کی نسبت سے متصل ہو جاتا ہے، صاحبِ ﴿قاب قوسین﴾ کے حال پسینے سے سیراب ہوتا ہے، ﴿و ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی﴾ کے سمندر سے فیض یاب ہوتا ہے- اگر تم ان کی سعادت کے مکتوب کو پڑھنا چاہتے ہو تو وہ ﴿فیحبھم و یحبونہ﴾ ہے، اگر تم ان کی بزرگی کے منشور کو دیکھنا چاہتے ہو تو وہ ﴿رضی اللّٰہ عنہم ﴾ ہے ، اگر تم ان کے مقام و مرتبہ کے بارے میں پوچھو تو وہ ﴿فعند ملیک مقتدر﴾ ہے، اگر تم ان کی خوبیوں کی حد بندی کرنا چاہو تو وہ ﴿فاولئک اعظم درجۃ﴾ ہے- بے شک جو بڑی چیز ان سے ظاہر ہوئی وہ ﴿و ما تخفی صدورھم اکبر﴾ ہے، بے شک ﴿علمت نفس ما احضرت﴾ ان کے لئے عنایت ہے ﴿فلا تعلم نفس ما اخفی لھم﴾ پس کیسے نہ ہو حالانکہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک نبی کی طرف وحی فرمائی کہ

میرے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو مجھ سے محبت کرتے ہیں، مَیں ان سے محبت کرتا ہوں،وہ میرے مشتاق ہیں میں ان کا مشتاق ہوں، وہ میرا ذکر کرتے ہیں مَیں ان کا ذکر کرتا ہوں، وہ مجھے دیکھتے ہیں مَیں انہیں دیکھتا ہوں-‘

اس نبی نے عرض کی کہ اے میرے رب! ان کی علامات کیا ہیں؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-

وہ سورج کے غروب ہونے کے ایسے مشتاق ہوتے ہیں جیسے پرندے اپنے گھونسلوں کے - جب رات سیاہ ہو جاتی ہے اور تاریکی چھا جاتی ہے ، بستر پچھا لئے جاتے، چار پایاں لگا دی جاتی ہیںاور ہر محبوب اپنے محبوب کے قرب میں چلا جاتا ہے تو اس وقت یہ اپنے قدموں کو میری بارگاہ میں کھڑا کر لیتے ہیں، اپنے چہروں کو میری طرف بچھا لیتے ہیں- پس چیخنے اور رونے والے کے درمیان، آہ و زاری اور شکایت کرنے والے کے درمیان، قیام کرنے والے اور قعدہ کرنے والے کے درمیان، رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے کے درمیان مجھے میرے کلام سے پکارتے ہیں- وہ میری آنکھ سے ہی میری دی ہوئی موت کو برداشت کرتے ہیں، وہ میری سماعت سے ہی ہجر و فراق کی شکایت کرتے ہیں- پہلی چیز جو میں انہیں عطا کرتا ہوں وہ یہ کہ ان کے دلوں کو اپنے نور سے بھر دیتا ہوںپس وہ میرے بارے میں ایسے ہی بتاتے ہیں جیسے میں ان کے بارے میں بتا رہا ہوں- دوسری چیز کہ اگر تمام زمینیں اور آسمان ان کے مقابل کسی ایک پلڑے میں آجائیں تو ان سے ہلکے ہو جائیں- تیسری چیز کہ اگر میں ان کی طرف اپنا کریم چہرہ کر لوں تو کیا تم جانتے ہو کہ میں جس کی طرف میں اپنا چہرہ کرتا ہوں وہ جانتا ہے کہ میں اسے کیا عطا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں- ‘

پس اے میرے بھائی! تم پر لازم ہے تم ان کی پیروی اختیار کرو- شاید تم بھی ان کے پیروکاروں میں شامل ہو جائو- تم ﴿ان سے﴾ جو دیکھو اور سنو تو ان پر سلامتی بھیجتے رہو، تم خوش بختی کی بلند ترین منزل پر پہنچ جائو گے- ہم اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ہماری آنکھوں میں نورِ ہدایت کا سرمہ لگا دے اور ہمارے عقاید کے رہنمائوں کو حسنِ رعایت سے سیدھا راستہ دکھائے- ﴿اٰمین ثم اٰمین﴾‘‘-

آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:-

’’مومن کے دل میں سب سے پہلے حکم کا ستارہ طلوع ہوتا ہے، پھر علم کا چاند ، پھر معرفت کا سورج-پس وہ حکم کے ستارے کی روشنی سے دنیا کی طرف دیکھتا ہے، علم کے چاند کی روشنی سے آخرت کی طرف اور معرفت کے سورج کی روشنی سے مولیٰ کی طرف دیکھتا ہے- نفسِ مطمئنہ ستارہ ہے، دلِ سلیم چاند ہے اور پاکیزہ راز سورج ہے- نفس کا مقام دروازے میں ہے، دل کا مقام شہر میں ہے اور راز کا مقام اس کمرہ میں ہے جو حق تعالیٰ کے سامنے قائم ہے- راز دل کو تلقین کرتا ہے، دل نفسِ مطمئنہ کو تلقین کرتا ہے اور نفس ہی زبان پر اپنا ارادہ ظاہر کرتا ہے‘‘-

آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ یہ کیسے ہوتا ہے- فرمایا:-

’’مومن جب نیک عمل کرتا ہے تو اس کا نفس قلب میں تبدیل ہو جاتا ہے،پھر قلب راز بن جاتا ہے ، پھر راز فنائ کی صورت اختیار کر لیتا ہے، پھر فنائ ﴿بقائ کا﴾ وجود اختیار کر لیتا ہے- تمام دوست اس تمام مقامات کی کوشش نہیں کرتے- توحید مخلوق سے جدائی کا نام ہے، تیری طبیعت کے فرشتوں کی سی طبعیت میں تبدیل ہونے کا نام ہے، پھر فرشتوں کی سی طبیعت سے بھی فنایت ہے- تمہارے پہلے راستے سے ملحق ہونے سے تمہارا رب تمہیں جو چاہے گا پلائے گا، تمہارے دل میں جو چاہے گا کاشت کرے گا- اگر تم نے اس کا ارادہ کر لیا ہے تو تم پر پہلے اسلام کی پیروی لازم ہے پھر عاجزی ضروری ہے- پھر اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم ، پھر اس کی معرفت کا علم، پھر اس کے ساتھ بقائ- جب تجھے اس کے ساتھ بقا نصیب ہو جائے گی تو وہ تمہارا ہمیشہ ہو جائے گا- زُہد ایک گھڑی کا عمل ہے، ورع ﴿پرہیزگاری﴾ دو گھڑیوں کا عمل ہے اور معرفت ہمیشہ کا عمل ہے‘‘- ﴿۲

آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:-

’’تمہارا اس کی طلب کے راستے میں منفرد ہونا تمہاری محبت کے صحیح ہونے کی نشانی ہے- تمہارے دل کی آنکھ کا اس کے ماسوائ کی طرف دیکھنا دوری کی علامت ہے- تمہارا اس کے ذکر کے بغیر بولنا تمہارے دل کے صاف آئینہ پر داغ کی علامت ہے- اسے وصل کی مٹھاس کیسے نصیب ہو سکتی ہے جو اس کے غیر میں مشغول ہو- اس کی بارگاہِ رحمت کے قرب سے اس شخص کو کیا ملنا ہے جو ایک پلک جھپکنے جتنا بھی اس کے ما سوائ کی طرف مائل ہوا‘‘-

آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:-

’’مقامِ فنائ میں اللہ کے حکم سے مخلوق سے لا تعلق ہو جا، اللہ کے امر سے اپنی خواہش سے لاتعلق ہو جا، اللہ کے عمل کی وجہ سے اپنے ارادے سے بھی لا تعلق ہو جا اس کے بعد تم اللہ کے علم کی ایک پکار ﴿دعا﴾ بننے کے قابل ہوگے- مخلوق سے تیری فنایت کی نشانی یہ ہے تم ان سے ﴿باطنی طور پر﴾ منقطع ہو جائو، جو کچھ ان کے پاس ہے اس سے مایوس ہو جائو- تمہارا اپنی ذات اور اپنی خواہش سے فنایت کی علامت یہ ہے کہ تم اسباب سے تعلق بھی ختم کر دو- تمہارا اپنے ارادے سے فنا ہونے کی نشانی یہ ہے کہ تم اللہ عز وجل کے ارادہ کے ساتھ اس کے ماسوائ کا ارادہ نہ کرو- اس حال میں تمہارے اعضائ پر سکون ہوں، تمہارا دل مطمئن ہو، تمہارا سینہ کشادہ ہو، پیٹ ﴿قناعت سے﴾ آباد ہو، مخلوق کے خالق کے مشغول ہونے کی وجہ سے مخلوق کی مشغولیت سے تم بے نیاز رہو ‘‘-

آپ ﴿شیخ غوث الاعظم﴾ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:-

’’عارفین کے دلوں کے آسمان میں ازلی بارگاہ سے ایک بجلی چمکی، مکاشفین کی ارواح کے مسام پر ابدیت کے باغ سے ہوا چلی، مشاہدین کے رازوں کی کلیوںپر مقدس کلی کی خوشبوئیں پھیلیں، ان عقلوں نے ﴿بسم اللّٰہ﴾ کے سمندر میں سفر اختیار کیا تاکہ بالاخر ﴿الرحمن الرحیم﴾ کی بارگاہ کے کناروں تک پہنچ سکیں-‘‘                                                               

 ﴿جاری ہے--- 

توضیحی نوٹ از مترجم:

﴿۱﴾ آپ کے اس فرمان سے معلوم ہوتاہے کہ جو حقیقی قادری مرید ہوگا وہ کبھی شریعت کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اور جنہوں نے شریعت کی خلاف ورزی کی یا کریں تو ان کی نسبت سیدنا عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صادق نہیں ہو سکتی-

 

﴿۲﴾ یہی وہ بات ہے جس کی طرف حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جو دم غافل سو دم کافر ‘‘ یعنی معرفت ایک دائمی عمل ہے جو ہر سانس میں تصور اسم اللہ ذات کے ساتھ ہی ممکن ہے-

﴿گزشتہ سے متصلہ﴾

مشائخ کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ:-

’’ہم سب بغداد میں شیخ ابو محمد علی بن ادریس یعقوبی کے پاس تھے کہ شیخ ابو حفص عمر جو کہ ان کے قاصد کے طور پر معروف تھے، تشریف لائے تو شیخ علی نے فرمایا کہ ان سب کو اپنا خواب سنائو- انہوں نے فرمایا کہ میں نے خواب میںدیکھا کہ قیامت قائم ہو چکی ہے اور انبیائ اور ان کے اُمّتی میدانِ عرفات کی طرف آ رہے ہیں- کسی نبی کے پیچھے صرف دو آدمی یا ایک ہی آدمی ہے- پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم تشریف لاتے ہیں- آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٰ وسلم کی امت سیلاب اور رات کی مانند ﴿چھائی ہوئی﴾ آتی ہے، جن میں مشائخ بھی ہیں اور ہر شیخ کے ساتھ اس کے ساتھی بھی ہیں جو تعداد ، انوار و تجلیات اور جاہ و جلال میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں- مشائخ کے اس لشکر میں سے ایک شیخ تشریف لاتے ہیںجن کے ساتھ مخلوق کی ایک کثیر تعداد ہے جو دوسروں پر فضیلت رکھتے ہیں- مَیں اُن کے بارے پوچھتا ہوں ﴿کہ یہ بزرگ کون ہیں؟﴾ بتایا جاتا ہے کہ یہ شیخ عبد القادر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اور آپ کے ساتھی ﴿و مریدین﴾ ہیں- مَیں آپ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہوں کہ حضور! مَیں نے مشائخ میں آپ سے زیادہ کوئی جاہ و جلال والا نہیں دیکھا اور ان کے پیروکاروں میں آپ کے پیروکاروں سے زیادہ کوئی حسین و جمیل بھی نہیں دیکھا ﴿اس کی کیا وجہ ہے؟﴾- آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اشعار پڑھے:-

اذا کان منا سیّد فی عشیرۃ

علاھا و ان ضاق الحناق حماھا

جب ہم میں سے کوئی کسی قبیلہ کا سردار ﴿سیّد﴾ ہوتا ہے تو وہ اسے بلندیوں پر لے جاتا ہے اور اگر اسے کوئی وبائ پہنچے تو وہ ﴿سیّد﴾ اس کی حفاظت کرتا ہے- ‘

و ما اختبرت الا و اصبح شیخھا

و ما افتخرت الا و کان فتاھا

اور جب بھی اس قبیلہ کو آزمایا جاتا ہے تو وہ ﴿سیّد﴾ اس کا شیخ ہوتا ہے اور جب بھی اس قبیلہ پر فخر کیا جاتا ہے تو وہ اس کا جوان ہوتا ہے- ‘

و ما ضربت بالابرقین خیامنا

فاصبح ماوی الطارقین سواھا

اور جب بھی ہ?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر