نظریہ پاکستان، قومی احساس اور سلطان الفقرؒ کا کردار

نظریہ پاکستان، قومی احساس اور سلطان الفقرؒ کا کردار

نظریہ پاکستان، قومی احساس اور سلطان الفقرؒ کا کردار

مصنف: بابرجان خوازی خیل اگست 2025

جس طرح تیزی سے بدلتے ہوئے دنیاوی تصورات اور رائج الوقت طریقہ کار ارتقاء کے منازل طے کرتے ہوئے جدت اختیار کرتے جا رہے ہیں بعین اسی صورت عالمی جنگی حکمتِ عملیاں اور سازشی منصوبے بھی سادہ لوحی سے بالترتیب انتہائی باریک وارداتوں کی طرف رواں دواں ہیں- جدید دور میں براہ ِراست جنگوں کے ساتھ ساتھ قوموں کے اجتماعی شعور کو میدانِ جنگ بنایا جاتا ہے جہاں علم اور معلومات کو بطور ہتھیار استعمال کر کے نظریات و عقائد (جو معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں ) پر ایسا حملہ ہوتا ہے جو انسانی اجتماعی شعور کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہوتا ہے- قوموں کو اکثر اوقات نہایت منظم انداز میں ایسے حالات و واقعات سے دو چار کیا جاتا ہے جہاں بگاڑ کے اصل سبب کا ادراک تک مشکل ہو جاتا ہے -

قومی احساس:

کسی قوم کی بربادی کیلئے فقط یہی کافی ہے کے اس کے بدن سے روح چھین لی جائے یعنی قوم کے اس بنیادی اساس کو ختم کیا جائے جس کی بدولت اس کا قومی وجود قائم ہے- ہماری قومی ساخت کو بغور سمجھا جائے تو اس کے بننے میں عقائد، نظریات، تاریخ اور اسلاف کا عمل دخل واضح نظر آتا ہے اور عمومی طور پر کم و بیش یہی اجزائے ترکیبی دیگر قوموں کے وجود میں آنے کا بھی باعث بنتے ہیں- ان عوامل کو نقصان پہنچا کر باآسانی اس وجود (قوم) کو کمزور کیا جا سکتا ہے-

در اصل ان عوامل کی بدولت قوم کے مختلف افراد میں ایک مشترک احساس پیدا ہوتا ہے ،جو انفرادی سطح پر ایک دوسرے سے اور اجتماعی سطح پر وطن سے وابستگی کا باعث بنتا ہے- اس مشترک احساس کو ابن خلدون نے اصابیہ (common feelings) کا نام دیا ہے-آسان الفاظ میں اس فلسفے کو سمجھیں تو سب سے پہلے عقائد، نظریات، تہذیب، تاریخ اور اسلاف میں سے کوئی ایک یا چند ایک یا سب مل کر اس مشترک احساسِ اپنائیت کو پیدا کرتے ہیں جس کے ذریعے قوم بنتی ہے- قوم کی اپنی منفرد شناخت کی بنا پر ایک الگ منزل اور مخصوص اجتماعی معاشرتی مقاصدظاہر ہوتے ہیں- ان مقاصد کے حصول کے لیے ریاست کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے- بعد ازاں اس ریاست سے عقیدت اور محبت بھی اسی قومی احساس پر منحصر ہوتی ہے کیونکہ مشترک احساس نہیں تو قوم نہیں اور یہ احساس کسی مشترک قدر یا مقصد کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جبکہ مقصد نظریے کے زیرِ اثر قائم ہوتا ہے-

وطنِ عزیز کی موجودہ صورتِ حال کچھ ایسے ہی حالات سے دوچار ہے جہاں اس پر براہِ راست حملے کی بجائے اس کی قومیت کی بنیادی اساس جو کہ وہ قومی احساس اور اس کے اجزائے ترکیبی ( نظریہ پاکستان ،تاریخ ، تہذیب اور اسلاف) ہیں،کو بڑے منظم انداز سے شکوک و شبہات کا شکار کیا جا رہا ہے- ان چار عوامل کی اصل رو سے نا واقفیت یا ان کے اصل خدو خال کے بارے میں بد گمانی اس قومی احساس کا قلع قمع کرتی ہے جس کی بدولت پاکستانی قوم وجود میں آئی ہے-قومیت کے احساس کی عدم موجودگی ہی دراصل وطن سے وابستگی کے جذبے کے خاتمے کا سبب بنتی ہے – تاہم ایسے میں کچھ شخصیات ایسی نظر آتی ہیں جنہوں نے قوم کے اس احساس کے تحفظ کا ذمہ لیا ہے اور نہایت احسان انداز میں اپنا کردار نبھایا ہے-

بانی اصلاحی جماعت سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ کی کاوشوں کو کسی 'سوشل سائنٹسٹ' کی نظر سے دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بظاہر درویشی لباس میں ملبوس  فقر کے سلطان دراصل معاشرتی علوم کے ایک ایسے ماہر نظر آتے ہیں  جو 'سوشل سائنسز ' کے باریک نکات اور اصولوں کی روشنی میں عملی زندگی میں درپیش معاشرتی اور قومی مسائل کا حل پیش کرتے ہیں- مثلاً آپؒ نے ایسے وقت میں قوم کو قوم بنانے والے عوامل کے بارے میں ابہام کو ختم کرنے کی سعی کی جب دانشوروں کے نزدیک ابھی یہ عوامل قومی زبوں حالی کے سبب کے طور شمار ہی نہ ہوتے تھے- 'سوشل سائنس' کی تعریف کے مطابق نظریہ انسان کے خیالات و تصورات اور اجتماعی شعور میں جنم لیتا ہے جو قوم کی سمت، مقاصد اور منزل کو واضح کر دیتا ہے -نظریہ بھی (جو قوم کے نصب العین کا تعین کرتا ہے) مذہبی عقائد، تاریخ، تہذیب، اسلاف  اور مزاج (psyche) وغیرہ کے زیرِ اثر پروان چڑھتا ہے اور پھر یہی نظریہ جواباً ان عوامل کے تحفظ کا ضامن بن جاتا ہے- لہٰذا نظریے کو ٹھیک کرنے کیلئے آپؒ اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل (مذہبی عقائد، تاریخ، تہذیب، فکرِ اسلاف اور نفسیات و مزاج) کی حفاظت و درست ترجمانی و تشریح فرماتے-مقصد قوم کی یکجہتی ہو تو قوم کے اجزائے ترکیبی (عقیدہ، نظریہ پاکستان، تاریخ و فکر اسلاف) کی تعلیم و تشہیر فرماتے اور موضوع اگر معاشرہ یا نظام ہوتا تو اس منطقی عمل کے نقطۂ آغاز (خیالات، تصورات، اجتماعی شعور) پر خصوصی توجہ فرماتے-تاہم آپؒ غیر محسوس انداز سے بظاہر نظر نہ آنے والی اس بنیاد کو درست کرنے کی سعی فرماتےہیں جس پر قوم و معاشرے کی عمارت تعمیر ہوتی ہے-

مزید برآں آپؒ نے ان گنت ایسے پروگرام ترتیب دیئے جن کا مقصد قومی جذبے اور احساس کی بحالی اور نظریہ پاکستان، تاریخ اور اسلاف کے بارے میں بے جا شکوک و شبہات کا خاتمہ تھا- ماہنامہ مرآۃ العارفین میں شائع ہونے والے متواتر مضامین اور مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ نگرانی منعقدہ متعدد سیمینار اور کانفرنسز میں بارہا نظریۂ پاکستان کی اصل روح کو سامنے لایا گیا اور ساتھ ہی تاریخ کی غلط توجیہات کو دلائل اور جدیدتحقیق کےذریعے ختم کروا کر اسلاف و تاریخ کا قابلِ رشک و قابلِ فخر پہلو عوام الناس تک پہنچایا-

’’14 اگست 1947ء، 27 رمضان المبارک کو آپؒ کی ولادت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ کی پاکستان سے خاص نسبت اور وابستگی ہے جوکسی خاص حکمت سے خالی نہیں ہے-آپ ؒکی بصیرت کے مطابق آپکی خانقاہ سے سعیِ  اتحاد ِامت (Struggle For the Unity of Ummah )کے عنوان سے پاکستان کے طول وعرض میں سیمینار منعقد کیے گئے-جس کا واحد مقصد ملی احساسِ وحدت کو فروغ دینا تھا-آپؒ نے ہمیشہ عارضی اور مصنوعی بنیاد ِقومیت (رنگ، نسل، لسانیت، علاقائیت، صوبائیت، جعرافیائی، فرقہ ورانہ  وغیرہ) کی بجائے اسلامی تشخص اور نظریہ کی بنیاد پر قومیت کے تصور کو اجاگر کیا جو اصل، موئژ، دیرپا اور وحدت کا ضامن ہے- اس کی خاطر آپؒ نے پاکستان کے ہر ضلع میں خود جا کر پروگرامز منعقد کر ائےاور اس فکر پر قومی احساس اجاگر کرنےکی تربیت کا سلسلہ شروع کیا-

افراد کو تسبیح کے دانوں کی طرح دھاگے سے جوڑ کر ایک قوم یا ایک وجود نہیں بنایا جا سکتا نہ ہی قوم کسی لکھے ہوئےمعاہدے پر دستخط کرنے سے وجود میں آتی ہے - یہ ایک شعوری اور نظریاتی تسلیم کا حاصل ہے جہاں مختلف افراد اس شعوری تسلیم کے بعد خود کو ایک قوم اور ایک وجود تصور کرنے لگتے ہیں - کوئی بھی قابلِ قبول واحد وجہ ،مقصد یا نظریہ قوم کے افراد میں مشترک احساس وابستگی پیدا کرتی ہے -اب عام فہم بات ہے کہ اگر اُسی وجہ ،مقصد یا نظریہ کو درمیان سے نکال دیں تو پھروہ مشترک احساس اپنائیت و وابستگی کا وجود بھی قائم نہیں رہ سکتا جس کی وجہ سےقوم قائم ہوتی ہے- اب جب قوم نہیں رہے گی تو وطن سے محبت کا جذبہ، جو حب الوطنی کہلاتا ہے کہاں باقی رہے گا - لہٰذا یہ شعور میں پنپنے والا ایک باہم جڑا ہوا عملِ مسلسل ہے جہاں ایک جزو میں تغیر و تبدل کے نتیجے میں دوسرا اور دوسرے کے نتیجے میں تیسرا خود بخود متاثر ہوتا ہے - سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب ؒ اس منطقی عمل کے نقطہ آغاز( شعور،خیال و تصور، احساس، جذبہ، نظریہ) کی نشو ونما اور آبیاری فرما کر دراصل اس پورے عمل کو آلودہ ہونے سے بچاتے ہیں- یہی ایک فقیر کی فراست ہے کہ بظاہر کسی عمل میں براہ راست شامل ہوئے بغیر اپنی دور اندیشی اور توجہ سے اس کے ہر حصے پر تعمیری انداز سے اثر انداز ہو- فقیر کے دل میں پائے جانے والے ملک و ملت کے درد اور ان کی طرف سے اصلاحِ معاشرہ کے لیے کی گئی گمنام اعانت کی تاثیر کی چھاپ عمل کے ہر حصے پر نظر آتی ہے-آپ صرف خانقاہ کے سرپرست نہیں بلکہ میدان عمل کے وہ سلطان ہیں جو مشترک احساس و پاکستانی قومیت، نظریہ و تحریک پاکستان، تاریخ اور اسلاف کی اساس کےمحافظ ہیں- علاوہ ازیں ان عوامل کی اہمیت کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کا نا صرف بیڑہ اٹھا رکھا تھا بلکہ ان کی حسب حال معنویت اورعہد حاضر سے اس کی مطابقت اور تعلق کی تعلیم بھی مسلسل ارشاد فرماتے رہے-

 تاریخ تحریک پاکستان:

یوں تو اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ، کہا اور سنا جا چکا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ مزید گنجائش باقی نہیں رہی لیکن قارئین کی آسانی کی خاطر اورنگزیب عالم گیر کی وفات کے بعد سے  1947ء تک کے حالات و واقعات کا پاکستانی قوم بنانے میں کردار کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں- اورنگزیب عالم گیر کی وفات سے قبل برصغیر میں مسلمانوں کی صدیوں پر محیط لازوال عہدِ حکمرانی قائم تھی- 18صدی کے آغاز میں (1705-1706) اورنگزیب عالم گیر کی وفات کے بعد پہلی بار برصغیر میں مسلمانوں کا زوال شروع ہوا جو بتدریج ڈیڑھ سو برس تک سیاسی ، سماجی، معاشی، تعلیمی الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں برپا ہوتے ہوئے بالآخر 1857ء میں مکمل غلامی پہ ختم ہوا-1857ء سے 1947ء تک حالتِ غلامی میں جد و جہد کانوے سالہ دور ہے -

حکمرانی سے غلامی اور غلامی سے جد و جہد اور پھر جدوجہد سے آزادی کے اس سفر میں اڑھائی سو برس لگے - پاکستان بنانے کی جستجو یک دم پیدا نہیں ہوئی کہ اچھے بھلے ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانانِ ہند کو اچانک ایک الگ ملک بنانے کا خیال آ گیا  -نظریۂ پاکستان  صدیوں پر محیط فکری جدو جہد اور مرحلہ وار شعوری ارتقاء کے نتیجے میں نکھر کر سامنے آیا-کچھ مکاتبِ فکر نظریہ و تحریک ِ پاکستان کو مسلم لیگ، قائد اعظم اور علامہ اقبال کی جدو جہد کے تناظر میں دیکھتے ہیں لیکن اسے تاریخی شعوری ارتقائی عمل کے نتیجے کے طور پر نہیں دیکھتے –

یہ سوچ ایک دن یا چند  برسوں میں نہیں آئی  اور نہ ہی یہ چند مخصوص لوگوں کی فکر تھی بلکہ یہ فکری جدو جہد کے آخری مرحلہ کا نتیجہ تھا - مسلمانانِ ہند ان ڈیڑھ سو برسوں میں ہر طرح کی پالیسی اپنا کر اور مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر کے دیکھ چکے تھے- اس دوران اکابرین کی طرف سے بیش بہا افکار پیش کیے گئے جن پر قوم نے کاربند رہ کر بھی دیکھ لیا لیکن کچھ کار آمد ثابت نہ ہو سکا- مثال کے طور پہ (06-1705) سے 1857ء تک ان ڈیڑھ سو برسوں میں مسلمانانِ ہند ہر شعبہ ہائے زندگی میں بتدریج زوال پذیر ہو رہے تھے جبکہ ہندوؤں کیلئے ہر میدان میں گنجائش پیدا ہوتی جا رہی تھی-اس دوران مسلمانوں کی زندگی بدلنے کیلئے متعدد  تحریکیں چلیں-ہر ایک نے مسلمانوں کے زوال کی کچھ مخصوص وجوہات بیان کیں اور اپنی دانست کے مطابق ان کا حل پیش کیا -کسی نے احکامات الٰہی اور شریعت سے دوری کو زوال کی وجہ بتایا تو کسی نے مسلح جدو جہد کو حل جانا جبکہ کسی نے سیاسی و فوجی طاقت کے حصول سے مسلمانوں کی حالتِ زار بدلنا چاہی -پھر سر سید احمد خان کی تحریک چلی جو جدید انگریزی تعلیم کے حصول اور انگریز کی وفا داری کو مسلمانانِ ہند کے مسائل کا حل سمجھتے تھے-

اس دور کے دوسرے مرحلے 1857ء سے 1947ء  تک کا جائزہ لیا جائے تو یہ تحریکی اعتبار سے تین مراحل پر مشتمل نظر آتا ہے- پہلا مرحلہ 1857ء سے 1906ء مسلم لیگ کے قیام تک کا ہے جس میں اجتماعی شعور کے مطابق جدید انگریزی و سائنسی تعلیم کا حصول اور انگریزوں کے ساتھ دوستانہ اور وفادارانہ تعلقات کا قیام مسائل کا حل سمجھا جاتا رہا-1906ء میں مسلم لیگ کے قیام کے وقت اس کے اغراض و مقاصد اوپر بیان کردہ تجزیے کی واضح دلیل ہیں  جو درج ذیل تھے:

  1. مسلمانوں میں برطانوی حکومت کے لیے وفاداری کے جذبات پیدا کرنا -
  2. مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور مسلمانوں کے مطالبات پُرامن طریقے سے برطانوی حکومت تک پہنچانا -
  3. ہندوستان کی باقی قوموں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا اور تعصب اور نفرت کو ختم کرنا-

1906ء سے 1938ء تک کی تحریک کے دوسرے مرحلے کے مقاصد کا تجزیہ کریں تو نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جدوجہد انگریز سے آزادی حاصل کرنے کی تھی نا کہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کی- مسلمان سیاسی اکابرین کے مؤقف کو سمجھیں تو اکثر و بیشتر ان کا مقصد ہندوستان کی فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے مسلمانوں کے سیاسی ، سماجی ، معاشی و تہذیبی حقوق کا تحفظ تھا -اس مرحلے میں بھی مقصد آزادی کے بجائے حقوق کا تحفظ اور مسلمانوں کے الگ سیاسی وجود کو تسلیم کروانا تھا جس کی خاطر ہندوستان کے ہر سیاسی عمل کا حصہ بنا گیا - اس دور کے اختتام تک مفاہمت و مزاحمت، اصلاح و ترقی پسندی، وفاداری و دوستانہ تعلقات، جنگیں و شکستیں، مطالبات و تحریکیں الغرض کے ممکنات میں سے ہر راہ اپنا کر دیکھ لی گئی لیکن مسلمانوں کے الگ سیاسی وجود ، ملی و قومی امنگوں اور انفرادی و اجتماعی تہذیبی اظہار کو ہر تجربے کے باو جود کوئی جگہ نہ مل سکی- اب فطری طور پر لازم ہو گیا تھا کہ اس دور میں اکابرین ان سب سے آگے جا کر کوئی نیا حل پیش کریں کیونکہ ماضی کا کوئی طریقہ سود مند ثابت نہ ہو سکا تھا-

1938ء سے 1947ء تک تیسرے مرحلے میں برِ صغیر کے مسلمانوں کی فکری جدو جہد اور اجتماعی شعور ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ مسلمانانِ ہند کے مذہبی، سیاسی و سماجی امنگوں کے اظہار اور ملی و قومی مقاصد کے حصول کے لیے ایک آزاد ریاست کا ہونا ناگزیر ہے - اس فکر کا تعلق نظریہ پاکستان سے ہے- اور دلچسپ امر ہے کہ سیاسی جدوجہد کے بیان کردہ دوسرے دور کے دوران ہی علامہ اقبال ان نتائج پہ پہنچ چکے تھے جن پہ سیاسی قیادت بھی بالآخر تیسرے مرحلے میں پہنچ گئی-

سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب ؒ کی تربیت کی بدولت یہ شعور اجاگر ہوا کہ تاریخ کی غلط توجیہات کی درستگی کی سعی کرنا در حقیقت تاریخ میں اپنا کردار ادا کرنے کے مترادف ہے- تاریخی واقعات کی غلط تفصیلات اور اسلاف کے کردار کو آلودہ کرنے کی کوششوں کے برعکس تحقیق کے ذریعے اصل حقائق عوام کے سامنے لانا ہی تاریخ میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہے - تاریخی حقائق کو مسخ ہونے سے بچانا اور افکارِ اسلاف کی درست ترجمانی اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان کا ہمارے نظریات اور قومی احساس کے بننے میں قابل ِ ذکر کردار ہے- تاریخ کو مسخ کرنے اور اسلاف کی کردار کشی سے ہمارے قومی احساس اور معاشرتی تصورات غیر اہم اور بے معنی ہو جاتے ہیں -لہٰذا ان کا مثبت یا منفی تصور واضح طور پر نسلِ نو کے اذہان پر اثر انداز ہوتا ہے -تاریخ اور افکارِ اسلاف سے آگاہی اور ان پر فخر یا ان کے بارے میں شکوک و شبہات یا تو موجودہ معاشرتی و قومی تصورات کو قائم رکھنےمیں مدد فراہم کرتے ہیں یا انہیں پاش پاش کر دیتے ہیں-

یہ بھی آپؒ کی تعلیمات کا کمال ہے کہ عوام الناس کو تحریکِ پاکستان کا تسلسل سمجھایا کہ یہ تحریک اب بھی جاری ہے جس میں ہم سب اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں- یہ تحریک معنوی اور مقصد کے اعتبار سے اب بھی قائم و دائم ہے- جیسا کہ اس کا مقصد ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست اور معاشرے کا قیام تھا جو جدت کے اعتبار سے ایک مثالی ریاست اور معاشرتی نمونہ پیش کر سکے- مزید برآں جہاں ایسی قوم تیار ہو سکے جو نسلِ انسانی کو در پیش سیاسی، سماجی و معاشی چیلنجز کا ممکنہ حل پیش کر سکے - اس تصور کردہ ملک و معاشرے کی تشکیل کے لیے کی جانے والی تمام تر کاوشیں تحریک پاکستان کے زمرے میں ہی آئیں گی اور ان کاوشوں میں شامل تمام افراد کو تحریک پاکستان کا کارکن ہی گنا جائے گا- اگر مزید وسیع النظری سے کام لیا جائے تو جیسے نظریہ پاکستان اورتحریک پاکستان کا مستقبل اکیسوی صدی میں قائم ہےاسی طرح مقاصد کے اعتبار سےاس کا ربط ماضی سے بھی قائم ہے- نظریہ و تحریک پاکستان  تمام تر اسلامی تاریخ میں اسلامی فلاحی ریاست و معاشرے کے قیام کے لیے کی جانے والی فکری اور عملی جہد و جہد کا ہی تسلسل ہے-یہی نظریہ کی طاقت ہے کہ وہ انسان کو اس کے ماضی اور فکری بنیاد کے ساتھ جوڑ کر اس کے لیے مستقبل میں منزل و مقاصد طے کرتی ہے -

نظریۂ پاکستان :

متعدد لوگوں کی خام خیالی ہے کہ نظریہ پاکستان محض پاکستان بنانے کی جدو جہد کا نام ہے جس کا مقصد صرف آزادی حاصل کرنا اور ایک نیا ملک بنانا تھا- سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انگریز کے جانے سے ہم آزاد نہیں ہوئے ؟ اگر جواب نہیں ہے تو پھر ہندوؤں سے آزادی کیوں ضروری تھی؟ کیا ہندوستان ایک ملک نہیں تھا کہ نیا ملک بنانا ضروری تھا؟ اگر ان سوالات پر ہی غور کیا جائے تو نظریہ پاکستان اور ہمارے اسلاف کی جدو جہد کی اہمیت اور اس کا آج کے دور کے ساتھ تعلق با آسانی سمجھ آ سکتا ہے-

درحقیقت نظریہ پاکستان ایک فکری و شعوری عمل کا دوسرا حصہ ہے جس کا پہلا حصہ دو قومی نظریہ ہے -اس کے مطابق ہندوستان میں دو مختلف قومیں آباد ہیں جن کا دین و عقیدہ ، معاشرت و زبان ،تہذیب و تمدن ، رہن سہن وعادات و اطوار ، امیدیں و امنگیں ، تاریخ و کیلنڈر ، بود و باش و تہواریں الغرض کہ مکمل ضابطہ حیات و طرز زندگی نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ متصادم ہیں-ایک قوم کے نزدیک ثواب کا کام دوسرے کیلئے گناہ اور ایک کا ’’ہیرو‘‘ دوسرے کیلئے ’’وِلن‘‘ تصور ہوتا ہے-اسی الگ شناخت اور منفرد طرزِ زندگی کا تقاضا تھا کہ الگ طرزِ حکومت و معاشرت ، الگ قوانین و اصول ، الگ مقصد و منزل کے تحت قومی زندگی گزاری جائے- اس فطری ضرورت نے ایک نئی فکر کو جنم دیا کہ ہمارے معاشرے کے تصور اور ریاستی تعبیر ہی جدا ہے-لہٰذا! ہمیں اپنے تصور کردہ معاشرے کے قیام کیلئے الگ ریاست کی ضرورت محسوس ہوئی جس کا قیام متحدہ ہندوستان میں ممکن نہ تھا -یہاں سے نظریہ پاکستان قائم ہوتا ہے جس کو اگر قارئین کی آسانی کی خاطر سادہ اور آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ:

  1. ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام-
  2. اسلام کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق ایک معاشرے کا قیام-
  3. ایسی ریاست اور معاشرے کا قیام جہاں ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں اسلام کے اصولوں کے مطابق گزار سکیں-

پس ثابت ہوتا ہے کہ ملک حاصل کرنا واحد مقصد نہیں تھا بلکہ یہ ایک ذریعہ تھا ایک بڑے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے جو کہ ایک اسلامی معاشرے کا قیام تھا اور اس مقصد کے حصول تک نظریہ پاکستان مؤثر اور متعلق رہے گا-اگر مقصد صرف زمین کا ٹکڑا حاصل کرنا ہوتا تو ہندوستان کی صورت میں اس سے بڑا ملک موجود تھا -صرف آزادی ہی لینی ہوتی تو ہندوستان کےاقتدار کے حصول کی جدو جہد کر لی جاتی-

سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ کی کاوشوں اور تحریک سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نظریہ پاکستان کے مقاصد کے حرف بہ حرف امین ہیں -آپؒ نے ہو بہو انہی مقاصد کے حصول کی تگ و دو میں اپنی توانائیاں صرف کیں-تحریک پاکستان کا پہلا ہدف تخلیقِ پاکستان تھا اور آپؒ کی کاوشوں کا رخ تکمیلِ مقاصدِ نظریہ پاکستان کے لیے تھا-آپؒ کی ساری زندگی اس تصور کردہ معاشرے کے قیام میں صرف ہوئی -ایسا معاشرہ جہاں نفرت ناپید ہو ، جہاں امن و محبت کے پھول کھلیں ہوں، جہا ں انتشار عدم ہو،جہاں اعلیٰ اخلاقی معیار پر مبنی ایک مستحکم معاشرے کا قیام ہو،جہاں علمی انقلابات برپا ہوں اور تسخیرِ کائنات کیلئے معاشرے کے افراد پروانے کی طرح تڑپتے ہوں، جہاں فرد کا ربط ملک و ملت سے قائم ہو- جہاں افراد اپنی ذات سے نکل کر اجتماعی فلاح کیلئے بر سرِ پیکار ہوں، جہاں عالمی سطح پر علمی و سائنسی انقلابات میں واضح کردار ہو، جہاں عالمی انسانی ترقی میں اہم حصہ ہوں، جہاں عالمی مسائل کے حل کے لئے تخلیقی اذہان موجود ہوں، جہاں افراد تعمیر کی علامت ہوں، جہاں ارادے حق کی وکالت ہوں، جہاں وجود سر بلند کردار کی علامت ہوں اور جہاں عزائم فطرت کی چاہت ہو

یہ واضح ہےکہ پاکستانی قومیت کا وجود ، جغرافیہ، رنگ و نسل، لسانیت یا فرقہ واریت وغیرہ کی  بجائے نظریہ پاکستان کے باعث قائم ہوا جس کی بقاء اسی نظریہ کے باعث ممکن ہے- اس ضمن میں سابق سفیر ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی مسلم انسٹیٹوٹ کے زیرِ اہتمام منعقدہ سیمینار جس کا عنوان “Challenges to Islamic Identity of Pakistan” 16 جولائی 2012 کے موقع پر بیان کرتے ہیں کہ:

’’پاکستان کی طرز کے فیڈریشن کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی بنیاد کو نظریہ کی بنیاد پر قائم رکھاجائے- پاکستان جغرافیائی شناخت کی  بنیاد پر قائم نہیں رہ  سکتا بلکہ یہ صرف اسلامی نظریاتی شناخت کی بنیاد پر قائم اور مضبوط رہ سکتا ہے‘‘-

جبکہ نظریہ پاکستان اسلام کے زیرِ اثر قائم ہوا ہے جس کا ایک واضح مقصد ہے- لہٰذا  آپؒ  نے نظریہ پاکستان؛ اس کے اجزائے ترکیبی اور اسکے نتیجے میں بننے والے قومی احساس اور اسکے زیرِ اثر قائم ہونے والے مقصد کو فروغ دینے میں اپنی توانائیاں صَرف کیں-

نظریۂ پاکستان محض ماضی کی بات نہیں جو دورِ حاضر میں غیر مؤثر ہے بلکہ آج سے اس کا گہرا ربط قائم ہے- نظریہ پاکستان 1947ء سے ایک مقصد کی طرف سفر کا نام ہےجس کا تسلسل اس مقصد کے حصول تک جاری رہے گا-یہ ہمیں فہم عطا کرتا ہے کہ اپنے قومی مقاصد کے حصول کے لئے ہم کہاں پہنچے ہیں-یہ ہمارے قومی سفر میں ہماری سمت کے تعین کا پیمانہ اور ہماری قومی حالت جانچنے کا میعار ہے-نظریۂ پاکستان اس قوم کی مقصد اور منزل کا تعین کرتا ہے لہٰذا بلا شبہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بقائے پاکستان کا راز نظریہ پاکستان سے جڑا ہے -

اسی نظریہ کی وجہ سے پاکستانی قوم کا وجود قائم ہوا ہے- نظریہ پاکستان نے جب قوم کیلئےمتفقہ منزل کا تعین کیا تو مشترک قومی احساس پیدا ہوا اور نتیجتاً قوم کا وجود عمل میں آیا- یعنی وحدۃ ُ المقصود کی وجہ سے پیدا ہونے والے مشترک احساس نے ہمیں ایک قوم بنا دیا- تاہم نظریہ نہیں تو کوئی مقصد نہیں اور مقصد کی غیر موجودگی میں مشترک قومی احساس بننا محال ہے- جب قوم کا وجود ہی نا رہا تو وطن سے وابستگی کا احساس کہاں باقی رہے گا -ہم قوم نہ رہے تو میرا آپ کا تعلق کیا؟ لہٰذا تحریکِ پاکستان کا نعرہ حادثاتی نہ تھا بلکہ ہمارے اسلاف نے بڑا سوچ سمجھ کے یہ نعرہ دیا تھا -

پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ
تیرا میرا رشتہ کیا لا الہ الا اللہ

آپؒ کی تحریک یا طرزِ جد و جہد کا جب بھی کوئی بھی سکالر غیر جانبدار تجزیہ کرے تو واضح نتیجہ پائے گا کہ سوشل سائنس کے وضع کردہ اصولوں کے عین مطابق آپؒ کی کاوشوں کا مقصد قوم کی بنیادی اساس ( نظریہ پاکستان،تاریخ و اسلاف) اور مشترک احساس قومیت کی حفاظت اور اس کی تقویت تھا -

حیرت بھی ہوتی ہے کہ آپ کیسے جدید علوم کے ان باریک نقاط اور ان کے ملک و معاشرے پر اثرات سے واقف تھے-آپؒ نے ایسا طرزِ عمل اور حکمتِ عملی اپنائی جس کی بدولت ملک و قوم کیلئے ان علوم میں بیان کیے گئے اصولوں کے مطابق متعلقہ مقاصد و فوائد حاصل کیے-

ہمارے عہد میں سمجھ سے بالا تر ایسے شاطرانہ کھیل رچائے جاتے ہیں جن کا ادراک اور سد باب کسی فقیر کی فراست اور دور اندیشی سے ہی ممکن ہے- مثلاً کسی ملک کو تباہ کرنا مقصود ہو تو پہلے اس ملک میں بسنے والی قوم کو نشانہ بنایا جاتا ہے- جبکہ قوم کو برباد کرنے کیلئے ان عوامل (عقیدہ، نظریہ،تاریخ،اسلاف،تہذیب) پر حملہ کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے قوم بنتی ہے -اب اکثر جنگیں قوموں کی اجتماعی شعور میں غیر مادی عناصر کے ذریعے لڑی جا رہی ہیں کیونکہ اس طرز پر قوموں کو تباہی کا احساس بڑی دور جا کر ہوتا ہے -اس کے برعکس مادی عوامل کے ذریعے براہ راست، معاشی، سیاسی یا سفارتی محاظ پر لڑی جانے والی جنگیں ظاہر ہوتی ہیں جس کا بروقت سدباب ممکن ہے - ہردور میں فقراء کا یہ کمال احسان رہا ہے کہ وہ قوموں کی نظریاتی و شعوری ،تصوراتی و تخیلاتی، علمی و فکری اور احساسی و جذباتی سرحدوں کے محافظ رہے ہیں-وہ قوموں کے شعور، نظریات، اعتقاد، احساس اور جذبوں کی حفاظت اور تربیت فرما کر قوم کے افراد کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں انقلابی و تعمیری کردار ادا کر سکیں -

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر