کائنات کی تخلیق کا لمحہ، انسانی فہم سے ماورا اور عرفانِ الٰہی کا پہلا مظہر ہے- اس لمحے میں کیا سب سے پہلے تخلیق ہوا؟ یہ وہ سوال ہے جس پر نہ وحی حتمی خامہ رکھتی ہے، نہ عقلِ خالص- البتہ یہ حقیقت مسلّم ہے کہ پانی ان اولین مظاہر میں سے ایک ہے جنہیں خالقِ کائنات نے وجود بخشا اور جن کے ذریعے زمین کی ہیئت، حیات کی ابتدا اور تہذیبوں کی روانی ممکن ہوئی- جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ‘‘[1]
’’اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا کیا‘‘-
یہ آیت پانی کی مرکزیّتِ تخلیق پر روشنی ڈالتی ہے، نہ کہ ترتیبِ تخلیق پر- مزید برآں یہ آیت’’وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ‘‘[2]اشارہ کرتی ہے کہ پانی عرشِ الٰہی کے ما تحت کائناتی نظام کے اولین ماحول میں موجود تھا یعنی وہ اولین تخلیقی کیفیات میں شامل تھا- تحقیق ’’پانی‘‘ کو محض ایک سائنسی مادّہ یا ماحولیاتی عنصر نہیں، بلکہ ایک جمالیاتی، معنوی اور تمدّنی مظہر کے طور پر دیکھنے کی سنجیدہ علمی کوشش ہے- پانی کی meandering، جھیلوں کا انعکاسی سکوت، آبشار کی صوتی تشکیل اور بارش کی وجدانی کیفیت ،یہ سب فطرت کا خاموش مکالمہ ہیں جو انسان کی حسیات، شعور اور تہذیب کو متأثر کرتے ہیں- پاکستان جیسے ملک میں جہاں دریا، چشمے، جھیلیں اور برسات نہ صرف فطرت بلکہ ثقافت، عقیدہ اور فن کا حصہ ہیں، وہاں ’’آبی جمالیات‘‘ ایک نیا تحقیقی باب کھولتی ہیں-جس میں جغرافیہ اور جمالیات، سائنسی حقیقت اور روحانی تاویل آپس میں ہمآہنگ ہو کر ایک نئے فکری افق کی تشکیل کرتے ہیں-
طہارت کا ذریعہ اور زندگی کا مرکز:
پانی اللہ تعالیٰ کا عظیم عطیہ ہے -کائنات کی ہر شئے کی بقا اور حیات کا راز بھی اسی بیش قیمت نعمت پر موقوف ہے -کہیں اللہ تعالیٰ نے پانی کو ’’طہور‘‘ فرمایاہے تو کہیں اس نعمت کو ’’مبارک‘‘ کی صفت کے ساتھ متصف کیا،کسی چیز کا باعث برکت ہونا یہ خوبی تو ہزار ہا خوبیوں سے بڑھ کر اور برتر ہے -فرمایا: ’’اورہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا اور اس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کیے‘‘-[3] پانی کی ایک صفت اللہ تعالیٰ نے ’’فرات‘‘ یعنی پاک، صاف و شفاف قرار دیا- قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کم وبیش 63مقامات پر پانی کی قدر و قیمت کو بیان فرمایا - جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
- ’’اور تمہیں سیراب کرنے والا میٹھا پانی پلایا‘‘-[4]
- ’’ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل کیا‘‘-[5]
- ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برساتا ہے، پس زمین سر سبز ہو جاتی ہے، بیشک اللہ تعالیٰ مہربان اور باخبر ہے‘‘-[6]
- ’’پھربرسات کی وجہ سے مختلف قسم کی پیداوار بھی ہم ہی پیدا کرتے ہیں-تم خود کھاؤ اور اپنے چوپاؤں کو بھی چراؤ، کچھ شک نہیں کہ اس میں عقلمندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ‘‘-[7]
- ’’کس نے آسمان سے بارش برسائی؟ پھر اس سے ہرے بھرے بارونق باغات اگائے؟ ان باغوں کے درختوں کو تم ہرگز نہ اگا سکتے‘‘ -[8]
سائنسی نقطۂ نظر سے پانی H₂O: ایک آکسیجن اور دو ہائیڈروجن ایٹمز-زمین کا 71 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے- 2.5 فیصدپانی میٹھا(انسانوں کے لئےقابل استعمال) اور باقی کھارا (ناقابل استعمال) ہے- پانی زندگی کی تمام حیاتیاتی، کیمیائی اور جسمانی سرگرمیوں کے لیے انتہائی ضروری ہے-[9]
پانی، جغرافیہ کا سب سے حسین و جمیل عنصر ہے - پانی ناصرف زمین کی ہیئت کو تراشتا ہے، بلکہ تہذیبوں کو بھی جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے- جہاں ہمیں دیوقامت پہاڑ جامد دکھائی دیتے ہیں وہیں پانی اپنی راہ خود بناتا ہے- یہی پانی دریاؤں کی صورت میں وادیاں تراشتا ہے، جھیلوں میں سکون بکھیرتا ہے، آبشاروں میں صوتی حسن پیدا کرتاہے اور ساحلوں پر ثقافتوں کی آباد کاری کرتا ہے-
جغرافیائی اصطلاح میں، پانی ایک متحرک ایجنٹ (Dynamic Agent) ہے جو Erosion، Transportation اور Deposition جیسے عمل کے ذریعے زمین کے مرفولوجیکل خدوخال (landforms) پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے- مگر اسی پانی کا ایک غیر مادی، مگر نہایت طاقتور پہلو بھی ہے – اس کے جمالیاتی مظاہر میں دریاؤں کی meandering دراصل فطرت کا فنِ خطاطی ہے-جھیلوں کی سطح پر سورج کا عکس ایک ساکت تصویر کی مانند ہوتا ہے-آبشار کی دھار ایک صوتی نظم (natural symphony) ہے، جو چٹانوں کو چھوتی ہوئی اترتی ہے-علاوہ ازیں مون سون کی بارش صرف ایک ماحولیاتی مظہر نہیں، بلکہ ایک جغرافیائی وجدانی تجربہ ہے- پاکستان میں اس کی دلکش مثالیں موجود ہیں جن میں دریائے سوات کے کنارے بستیاں، جہاں پانی کی روانی ثقافت کو سیراب کرتی ہے-سیف الملوک جھیل، جس کے جمال پر نہ صرف جغرافیہ بلکہ لوک داستانیں بھی قربان ہو جائیں-بلوچستان کے چشمے، جہاں صحرا کی خشکی میں پانی کی موجودگی معجزہ نما جمال پیدا کرتی ہے-[10] جو کہ پانی کی ماحولیاتی اور جمالیاتی معنویت کو دوہرا کرتے ہیں-ان کے علاوہ راوی، چناب، جہلم اور سندھ جیسے دریا بھی پاکستانی آبی منظرنامے میں نمایاں جمالیاتی اور تمدنی اہمیت رکھتے ہیں-دریائے راوی، جو تاریخی اعتبار سے لاہور کے اطراف کی آبی گزرگاہ رہا ہے، شہر کی زرعی اور تہذیبی ترقی سے وابستہ رہا ہے-چناب اپنی میانداری، زرخیز کناروں اور ثقافتی متون میں تکرار کی وجہ سے ایک نمایاں جمالیاتی پہچان رکھتا ہے-
جہلم، جو جھیل منگلا کے ساتھ جڑا ہوا ہے، خطے کے آبی وسائل اور منظرنگاری میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے-جبکہ دریائے سندھ، نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہے بلکہ ایک تہذیبی ستون کی حیثیت رکھتا ہے، جو آبی نظام، تاریخی روایات، اور علاقائی ثقافتوں کا گہرا مظہر ہے-
پاکستان میں آبی وسائل فقط زراعت یا توانائی کے ذرائع نہیں، بلکہ یہ ایک ثقافتی، روحانی، اور جمالیاتی ورثہ بھی رکھتے ہیں- دریاؤں کی روانی، جھیلوں کی لطافت، چشموں کی چمک اور بارش کی نغمگی ،یہ تمام مل کر اس ملک کو ایک فطرتی جمالیاتی گہوارہ بناتے ہیں-پاکستان وہ سرزمین ہے جسے فطرت نے پانی کے حسین مظاہر سے نوازا جیسے دریا، جھیل، چشمے، نہریں، برفاب، بارش، ہر مظہر گویا جمال کی تسبیح ہے، جو آنکھ سے دیکھی اور دل سے محسوس کی جاتی ہے-
یہاں پانی صرف زراعت یا توانائی کا موجب نہیں، بلکہ وہ خاموش شاعر ہے، جو وادیِ سوات میں سرگوشی کرتا ہے تو کبھی چترال میں بانسری بنتا ہے اور کبھی جھیل سیف الملوک میں وہ خاموش جذبہ بن جاتا ہے، جو فطرت کی گہرائیوں کو دیکھنے والے دل میں خودبخود بیدار ہو جاتا ہے؛ایک ایسا جذبہ جو انسانی جمالیاتی شعور کو چپ چاپ جگاتا ہے-صوفیاء کرام نے بھی پانی کو کبھی دل کی صفائی، کبھی ’’عشقِ حق کی روانی‘‘ اور کبھی خامشی کی عبادت قرار دیا -یہ تحریر، دراصل پانی کی ماہیت، روح اور جمال کو تحقیقی اور فکری عدسہ سے دیکھنے کی ایک کوشش ہے- یہاں پانی کو صرف ماحولیاتی تناظر میں نہیں بلکہ روحانی، جمالیاتی اور ثقافتی معنویت کے ساتھ دیکھا گیا ہے بلکہ یہ تحریر ایک ایسی معنویت کی طرف ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم پانی کو محض مائع نہیں، ایک پیغام سمجھیں-پاکستان کی سرزمین صرف دریاؤں کی گزرگاہ نہیں بلکہ پانی کی لطافتوں کا ایک جمالیاتی مرقع ہے، جہاں دریا صرف زراعت کے اسباب ہی نہیں بلکہ تہذیبی حافظے، روحانی سرور اور فطری حسن کے امین بھی ہیں- دریائے سندھ، جسے مقامی صوفیا نے ’’زندہ روح کا دھارا‘‘قرار دیا، محض ایک طبعی بہاؤ نہیں، بلکہ ایک تمدنی اور ثقافتی دھارا ہے، جو لاکھوں سالوں سے اس خطے کو زندگی بخشتا چلا آ رہا ہے- یا تھر کی پیاسی ریت میں اُبھرنے والے کنوئیں ہر ایک آبی مظہر پاکستان کے جمالیاتی تشخص کا آئینہ دار ہے-یعنی پانی محض ایک کیمیاوی مرکب نہیں بلکہ ’’اللہ کی رحمت کا مظہر‘‘ ہے، جس میں طہارت بھی ہے، جمال بھی اور کائناتی ترتیب بھی-پاکستان کے آبی مناظر میں ہمیں نہ صرف فطرت کا حسن نظر آتا ہے، بلکہ صوفیانہ فکر، شاعری، لوک کہانیوں اور ثقافتی ادراک کی وہ پرتیں بھی جلوہ گر ہوتی ہیں، جو اس دھرتی کو صرف جغرافیہ نہیں بلکہ جمال کا ایک شعری استعارہ بنا دیتی ہیں-
پاکستان کےمشہور آبی مقامات میں دریائے سندھ سر فہرست ہے جو اپنی تہذیب، تاریخ اور روحانیت کا مظہر ہے- ہنزہ کی جھیلیں جوخاموشی میں بسی خوبصورتی کو آشکار کرتی ہیں رومانس اور لوک داستانوں کی جھیل میں سیف الملوک اپنا سحر کا حصار قائم رکھتی نظر آتی ہے اور کہیں وادی نیلم کی ا ٓبشاریں تو کہیں سوات کے بہتے چشمے، کالام، کنہار وغیرہ اپنی فطری مناظر میں بےمثال ہیں- بارش کا موسم بھی آبی جمال میں نہایت اہمیت رکھتا ہے-زراعت ہو یا شاعری، موسیقی، دستاویزی فلم اور لوک گیت میں بارش کا ایک خاص جمالیاتی مقام نظر آتاہے-
پاکستان میں آبی جمالیات اور صوفیانہ فکر:
صوفیاء کے ہاں پانی ایک ’’معمولی مائع‘‘ نہیں بلکہ ’’ماورائی علامت‘‘ ہے: یہ عشق، صفائی، خدا کی طرف بہاؤ اور انسانی ذات کے لطیف شعور کی علامت ہے- پاکستان کے صوفی مکاتب ،سندھ، پنجاب، پختونخوا، بلوچستان ، کشمیر، سب ہی نے پانی کو باطن کی روشنی، نفس کا تزکیہ اور عشقِ الٰہی کی موج کے طور پر پیش کیا ہے-پانی کو اکثر تصوف میں قلب کی صفائی، روح کی طہارت اور تجلیِ ربانی کا وسیلہ سمجھا گیا ہے- بلھے شاہؒ، وارث شاہؒ، شاہ لطیف بھٹائی ؒکے کلام میں دریاؤں کا ذکر ایک باطنی راستہ بھی ہے- پاکستان کے دیگر صوفیا کی طرح سلطان حق باھوؒ بھی اپنے مشہور کلام ’’الف اللہ چنبے دی بوٹی‘‘کے دوسرے مصرعے میں آپ فرماتے ہیں ’’نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی ھو‘‘-اس میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ صوفیا ہمیشہ فطرت سے قریب ترین اشیا سے تشبیہ دیتے ہوئے انسانیت کو اللہ کا پیغام دیتے ہیں-آپ اپنے کلام پاک میں روحانی اور جمالیاتی تصور کو بیان کرتے ہوئے آب حیات، دریا،سمندر سےتشبیہ دیتے ہوئے باطن کی سچائی، معرفتِ الٰہی اور وجودی سفر کو بیان فرماتے ہیں- آپ کاآبِ حیات کا تصور عشقِ حقیقی سے وابستہ ہے-
دل دریا خواجہ دیاں لہراں گھمن گھیر ہزاراں ھُو |
ادب، شاعری اور آرٹ میں آبی جمالیات:
بارش، دریا، آنسو، قطرہ جیسے الفاظ اردو شاعری میں کثرت سے جمالیاتی علامت کے طور پر استعمال ہوتےہیں- علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے :
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرارِ حیات |
پاکستان کے پینٹرز جن میں صادقین وغیرہ نے بھی پانی کے جمال کو مختلف روپ میں پیش کیا ہے- پاکستان کی لوک ادب، صوفی کلام (سیف الملوک، شاہ لطیف) اور تازہ ادبیات میں پانی روح و جمال کا لازمی جزو ہیں-
جغرافیائی لحاظ سے آبی جمالیات:
عالمی سطح پر جغرافیائی لحاظ سے آبی جمالیات میں قابل ذکر تین طرح کے ذخائر بیان کیے جاتے ہیں:
گلیشیئرز: تقریباً 170000 کلومیٹر برفانی ڈھانچے، دنیا بھر کے فریش واٹر کا اہم بنیادی ذخیرہ ہیں-
جھیلیں: سطحی پانی کے قدرتی جمع شدہ راستے؛ مثلاً کاسپیئن، بائی کال میں نمایاں-زیرِ زمین پانی: ریت، چونے اور مٹی میں محفوظ پانی، جو انسان کے استعمال کے لیے کلیدی ہیں-یہ تینوں اکائیاں زمین کی جغرافیائی شکل، موسم، زمینی ساخت اور ماحولیاتی توازن کے لیے نہایت اہم ہیں-
ہم اس مضمون میں آبی جمالیات میں سب سے اہم جمال گلیشیئرز پر بات کریں گے جو کہ موجودہ موسمی تغیرات اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے اثر انداز ہورہے ہیں- دیکھا جائے تودنیا میں سب سے زیادہ گلیشیئرز انٹارکٹیکا میں پائے جاتے ہیں، جو دنیا کی میٹھے پانی کی تقریباً 70 فیصد مقدار اپنے اندر محفوظ رکھتا ہے- اس کے بعد گرین لینڈ کا نمبر آتا ہے-تاہم اگر ہم گلیشیئرز کی تعداد کے لحاظ سے بات کریں تو پاکستان کا ہمالیائی، قراقرم اور ہندوکش سلسلہ دنیا کے ان علاقوں میں شامل ہے جہاں قطب شمالی اور جنوبی کے علاوہ سب سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں-[11]
پاکستان :
براعظم جنوبی ایشیا میں واقع ہے جہاں ہمالیہ کے گلیشیئرز سے نکلنے والے دریا اور زیرِ زمین پانی کے ذخائر موجود ہیں- پاکستان کی 90 فیصد زراعت دریاؤں پر منحصر ہے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں موجود 7000 سے زائد گلیشیئرز اور دنیا کا سب سے بڑا غیر قطبی گلیشیئر (سیاچن) ہے نیز زیرِ زمین پانی کے ذخائر (Indus Basin Aquifer) دنیا کے بڑے ذخائر میں شامل ہیں- قدرتی چشمے، جھیلیں، دریا، مون سون بارشیں-سب کچھ موجود ہے لیکن پانی جتنا قدرتی حسن ہے، اتنا ہی سیاسی ہتھیار بھی بن سکتا ہے - پاکستان قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے جس کے پہاڑ، گلیشیئرز، دریا اور جھیلیں نہ صرف اس کا حسن ہیں بلکہ بقا کا ذریعہ بھی- اقوام متحدہ (UN) اور عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی رپورٹس خبردار کرتی ہیں کہ اگلے 20 سے 30 برسوں میں دنیا کی کئی ریاستیں پانی کی شدید قلت کا شکار ہوں گی اور پانی عالمی تنازعات کی سب سے بڑی وجہ بن جائے گا -[12]
پاکستان کے نمایاں گلیشیئرز:
- سیاچن گلیشیئر (Siachen Glacier) – 76 کلومیٹر
- بیافو گلیشیئر (Biafo Glacier) – 67 کلومیٹر
- بالتورو گلیشیئر (Baltoro Glacier) – 63 کلومیٹر
- پاسو گلیشیئر، ہسپر، ہپر، منٹوکا، رش، وغیرہ ہیں- یہ گلیشیئرز نہ صرف قدرتی حسن کا حصہ ہیں بلکہ پاکستان کے دریاؤں (خصوصاً دریائے سندھ) کا اصل ماخذ بھی یہی ہیں-[13]
عالمی سطح پر گلیشیئرز کی اہمیت:
گلیشیئرز زمین پر میٹھے پانی کے ذخائر کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں- ان کے پگھلنے سے سمندری سطح بلند ہو سکتی ہے- گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جو انسانی بقا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے- پاکستان کا شمالی علاقہ (HKKH) دنیا کا سب سے بڑا غیر قطبی گلیشیئر بیلٹ ہے، تقریباً باہرونگلی 5000 گلیشیئرز اورkm²16,933 رقبہ کرتی ہیں-[14] گلوبل وارمنگ کےپاکستان پر خطرات بھی موجود ہیں-بین الاقوامی موسمیاتی ماڈلز SSP-126, SSP-585 کی روشنی میں 2100 ء تک HKKH گلیشیئرز کا ڈرامائی سکڑاؤ ممکن ہے- [15] PDD (Peaks Dumplines & Deposition میں اضافہ، flash floods، اور GLOFs جیسی بڑے خطرات جنم لے سکتے ہیں-[16]
پاکستان میں شہری و دیہی آبی جمالیات میں نہریں، کنوئیں، تالاب دیہی خوبصورتی کا حصہ ہیں-شہری جمالیات میں لاہور کے باغات میں نہری نظام، پارکوں میں فوارے اور نہر ایک جمالیاتی علامت ہے-
پاکستان کے پانی کا ڈیٹا (Frontiers article):
JWCC (2024) مضمون میں بتایا گیا کہ پاکستان کے پانی کے مجموعی ذخائر میں surface اور aquifers دونوں میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے-[17]
IPCC-AR6 رپورٹ میں جنوب ایشیائی حصہ میں تبدیلیاں، پانی کے بہاؤ اور ذخائر کے بحران ریکارڈ کیے گئے ہیں-[18]
WHO/WRI نے’’پاکستان میں پانی کا دباؤ ‘‘رپورٹ میں پیشگوئی کی کہ 2020ء تک پاکستان شدید واٹر اسٹریس کی زد میں آئے گا-[19]
پاکستان کی آبی پالیسی، اقدامات اور موجودہ حکمتِ عملی پرچند تجاویز:
پاکستان میں پانی سے متعلق پالیسی سازی کے کئی اہم ادارے اور منصوبے موجود ہیں، مگر ان کا عملی نفاذ اور سیاسی ہم آہنگی ناکافی ہے-نیشنل واٹر پالیسی (2018)پاکستان کی پہلی جامع آبی پالیسی جس کے مقاصدپانی کی فراہمی، تحفظ، تقسیم، آلودگی کنٹرول تھی لیکن عمل درآمد کا نظام کمزور، صوبائی اختلافات برقرار نظر آتے ہیں -[20]
ڈیم منصوبے جن میں دیامر بھاشا ڈیم (بننے کے مراحل میں، 2028 متوقع تکمیل) مہمند ڈیم، داسو ہائیڈرو پاور اگر مکمل ہوں تو 13–15 MAF اضافی پانی ذخیرہ ہو سکے گا- پاکستان کو کم از کم 30 MAF سالانہ ذخیرہ کرنے کی صلاحیت چاہیے- دیامر بھاشا اور مہمند جیسے منصوبے بروقت مکمل کیے جائیں -[21]
بارش کے پانی کا ذخیرہ اور ضیاع کی روک تھام، جیسا کہ Rainwater Harvesting Brief بیان کرتا ہے، ضروری اقدامات میں شامل ہیں-[22]
واٹر میٹرنگ اور قیمت گھریلو اور صنعتی سطح پر پانی کے استعمال کی نگرانی کو یقینی بنایا جانا تھا مگر عملی طور پر نہ شہری علاقوں میں واٹر میٹرز نصب ہیں نہ ہی پانی کا باقاعدہ معاوضہ لیا جاتا ہے-
آگاہی مہمات: بعض NGOs اور یونیورسٹیز نے مقامی سطح پر آگاہی مہمات کا آغاز کیا مگر حکومتی سطح پر عوامی تربیت اور پانی کے تحفظ پر کوئی مؤثر قومی پروگرام نظر نہیں آتا- زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ، ڈرپ ایریگیشن، اسمارٹ سینسرز، لینڈ لیولنگ ،پانی کی بچت 30–50 فیصد تک ممکن ہے-شہری سطح پر واٹر ہارویسٹنگ سسٹمز : ہر گھر، اسکول اور ادارے میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کے نظام متعارف کرائے جائیں جیسے دیگر ممالک میں یہ قانوناً لازم ہے (جیسے سنگاپور) صنعتی آلودگی کا کنٹرول کے لیےفیکٹریز کے لیے ری سائیکلنگ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لازمی قرار دیے جائیں، دریاؤں میں فضلہ ڈالنے پر سخت سزا دی جائے- حکومتی سطح پر اسکولوں، جامعات اور میڈیا میں ’’پانی کی تعلیم‘‘ کو شامل کیا جائے- پانی کو بطور نعمت اور قومی امانت سکھایا جائےقومی سطح پر آبی اتحاد، وفاق اور تمام صوبوں میں مشترکہ پالیسی پر اتفاق،ہر سال ’’یومِ تحفظِ آب‘‘ قومی سطح پر منایا جائے-
سائنس و جغرافیہ کی روشنی میں مستقبل کی جانے والی کوششوں میں DEMs، GIT، SRS ٹیکنالوجی استعمال کر کے پاکستان میں گلیشیئر لکیج اور آبی بہاؤ کی رفتار پر تجزیہ کیا جا رہا ہے -[23] SSP ماڈلز بتاتے ہیں کہ اگر گرین ہاؤس گیسوں میں کمی نہ کی گئی تو 2100ء تک پانی کا فاصلہ محال اور موسمی بے ترتیبیاں بڑھی جا سکتی ہیں-
عالمی اداروں (UN, WHO, IPCC) کی رپورٹس میں IPCC AR6 WGII Chapter 4 میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں پانی کے وسائل پر بہت بڑا دباؤ ڈال رہی ہیں-[24]
بلوچستان میں موسمیاتی اثرات کو Introduction & Discussion میں گلیشیئرز، aquifers اور موسمیاتی پریشانیوں کا جائزہ لیا گیا ہے-[25]
پاکستان میں، جہاں پانی نہری نظام، دریا، جھیلیں اور چشموں کی صورت میں ہماری تہذیب، ثقافت اور معیشت سے جُڑا ہوا ہے، وہاں اس کی حفاظت دراصل قومی غیرت کا تقاضا ہے-پانی کی موجوں میں جو حسن و جمال ہے اس سے مستفید ہونے کے ساتھ یہ بھی ہمیں ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ پانی کو حفاظت، صفائی اور اعتدال سے استعمال کرنا خود ایک جمالیاتی عمل ہے- جب وہی پانی آلودہ ہو، بے قدری کا شکار ہو، یا سیاسی مداخلت کا نشانہ بنے، تو وہ صرف ماحولیاتی بحران نہیں، جمال کا زوال ہوتا ہے-آبی جمالیات، صرف مناظر کی خوبصورتی کا بیان نہیں، بلکہ یہ انسان، خدا، فطرت اور تہذیب کےباہمی ربط کا لطیف اظہاریہ ہے- پاکستان میں پانی کی جمالیات کو صرف محسوس نہیں بلکہ محفوظ کرنا بھی ہماری تہذیبی، اخلاقی اور شرعی ذمہ داری ہے- پانی ایک ایسی الٰہی نعمت ہے:جس سے ہر شے زندہ ہے جس کا استعمال سب کا حق ہے جس کی قلت فتنہ اور ظلم کا پیش خیمہ بن سکتی ہے- پانی فطرت کا وہ نازک جمال ہے جس میں زندگی کی روانی اور تہذیب کی روشنی بہتی ہے- اس سے لطف اندوز ہونا تو فطری ہے، مگر اس کی حفاظت، صفائی اور اعتدال سے استعمال کرنا بھی ایک جمالیاتی، اخلاقی ،قومی فریضہ ا وروطن سے وفاداری کا عملی اظہار ہے -
٭٭٭
[1](الانبیاء:30)
[2]اور اس کا عرش پانی پر تھا-(ھود:7)
[3](سورہ ق:9)
[4](المرسلات : 27)
[5](الفرقان : 48)
[6](الحج : 63)
[7](طہ : 54)
[8](النمل : 60)
[9]Gleick, Peter H. "Water and Conflict." International Security 18.1 (1993): 79–112
Barnaby, Wendy. “Do nations go to war over water?” Nature, vol. 458, 2009, pp. 282–283
[10]https://www.unesco.org/reports/wwdr/en/2025/environment,
Ma, J., et al. (2024). Hydro-heritage and gendered water experiences in Swat, Pakistan.
SAGE Journals UNESCO (2023(
[11]National Snow and Ice Data Center (NSIDC):
[https://nsidc.org/cryosphere/glaciers](https://nsidc.org/cryosphere/glaciers
UNEP Report on Glacial Melt: [https://www.unep.org/resources/report/global-glacier state]
(https://www.unep.org/resources/report/global-glacier-state
[12][UN Water Scarcity Report](https://www.unwater.org/water-facts/scarcity)
)earth.org, cissajk.org.pk(
The Melting Glaciers of Pakistan: A Looming Crisis
[13]https://epicexpeditions.co/blog/pakistan-glaciers/#:~:text=Understand%20the%20glacier%20beforehand,treated%20with%20the%20utmost%20caution
[14]sciencedirect.com
[15]link.springer.com
[16]-(pmc.ncbi.nlm.nih.gov گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشیئر لیکس کا خطرہ کو صفحہ 1۰ پر بیان کیا گیا ہے: Shrestha, A. B., et al. (2012)
Glacial lake outburst floods at Himalaya, Journal of Hydrology, 412 413, pp. 7–16.
[17]time.com
[18](ipcc.ch)
[19]ipripak.org
Ishaque, W., Sultan, K., & ur Rehman, Z. (2024)
Water management and sustainable development in Pakistan: Environmental and health impacts of water quality on achieving the UNSDGs by 2030, Frontiers in Water, 6:1267164.
Introduction, صفحہ 1–3: پاکستان کے شہروں میں پانی کے معیار کا خاکہ-
Results, صفحہ 7–10: قریب 80٪ پانی آلودہ پایا گیا (ٹیبل 2) (frontiersin.org, frontiersin.org)-
[20]Ministry of Water Resources, Pakistan
[21]https://www.wapda.gov.pk/
[22]pcrwr.gov.pk
[23]mdpi.com
[24]ipcc.ch
[25]Ishaque, W., & Zia ur Rehman, M. (2025
Impact of Climate Change on Water Quality and Sustainability in Baluchistan, Sustainability, 17(6), 2553.
mdpi.com