کوروناوائرس : عالمی سیاسی و سماجی تناظر

کوروناوائرس : عالمی سیاسی و سماجی تناظر

کوروناوائرس : عالمی سیاسی و سماجی تناظر

مصنف: احمد القادری اپریل 2020

تعارف:

اکیسویں صدی میں جب میڈیکل سائنس نے دنیا کو نت نئے کرشمات سے اپنے طلسم میں محو کیا ہو ا ہے، کورونا وائرس جیسی اچھوتی بیماری نے انسان کی صلاحیتوں کو آزمانے کیلیے اپنی سیاہ پرچھائی روئے زمین پر پھیلانا شروع کی- کورونا وائرس کی بائیولوجیکل تنظیم اور اس کے پھیلاؤ کی وجوہات پر تحقیق جاری ہے- یہ وائرس درحقیقت جراثیموں کی ایک خاص قسم ’’Coronaviridae‘‘میں سے ہے - چین کے سائنسدانوں نے اس کو وائرس کے کورونا نامی خاندان سے جوڑا ہے-2000ء میں وبا کا باعث بننے والا سارس وائرس بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا- یہ وائرس مائیکروسکوپ کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے- مائیکروسکوپ میں یہ ایک نوکدار رنگ کی شکل میں نظر آتا ہے-درحقیقت نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اس کو کورونا کہا جاتا ہے- یہ وائرس آر این اے کی ایک لڑی پر مشتمل ہوتا ہے جو زندہ خلیات میں داخل ہونے کے بعد خلیے کے افعال کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تعداد کو بہت تیزی سے بڑھانا شروع کر دیتے ہیں- جیسے ہی مزید وائرس بنتا ہے وہ دیگر خلیات پر حملہ شروع کر دیتا ہے- ابھی تک کی تحقیق کے مطابق اس طرح کا وائرس عموماً جنگلی جانوروں بالخصوص چمگادڑ وغیرہ میں پایا جاتا ہے -انسانوں میں منتقل ہونے کے بعد اس وائرس کی وجہ سے بخار، سانس کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم پیدا ہو جاتا ہے - ایسے افراد جن کے جسم میں قدرتی مدافعتی نظام کمزور ہے (مثلاً بیمار، بچے یا بوڑھے لوگ)ان کو شدید مسائل کو سامنا ہوتا ہے-

یہ وائرس سب سے پہلے چین کے شہر وہان (Wuhan) میں پھیلا جس کے بعد اس نے دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کو محصور ہونے پر مجبور کر دیا- تاوقتِ تحریر کورونا وائرس سے تقریباً تین لاکھ افراد متاثر، 13 ہزار افراد کی موت واقع ہوئی اور ایک لاکھ لوگ صحت یاب ہوئے ہیں- اس وائرس کے اثرات و دورانیہ کے بارے میں متفرق آراء پائی جا رہی ہیں جن کے مطابق وائرس کی وجہ سے دنیا پر کیا اثرات ہوں گے؟ اس بارے میں شیکسپئیر (Shakespeare) کے مشہورناول ہیملٹ (Hamlet) کی ایک لائن ’’To be or not to be‘‘ کے تناظر میں کچھ حتمی رقم کرنا قبل از وقت ہوگا-لیکن اس کے اثرات کو جانچنا جتنا مشکل ہے ان کے بارے میں آگاہی اتنی ہی آسان ہے تاکہ اس وائرس کی وجہ سے دنیا میں احتیاطی تدابیر اور میڈیکل ریسرچ پر زور دیا جائے اور اس بیماری کے خلاف عالمی برادری کو مل کر مقابلہ کرنے کے لیے متحد کیا جائے تب ہی دنیا کو اس وائرس کے نقصان سے بچایا جا سکتا ہے-

کورونا وائرس عالمی تناظر میں: تقابلی جائزہ

تاریخ ِ نوعِ انسان ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے جنہوں نے انسانی تاریخ میں اپنے مستقل نقش چھوڑے ہیں - جن چند پُر اثر اور تاریخی واقعات میں 1918ء سپین سے پھیلنے والا نزلہ (Spanish flu Pandemic) ، عظیم تنزلی (Great Depression)، نیو کلئیر انرجی (Nuclear Energy)، نائن الیون اور معاشی زوال 2008 (Economic Crisis 2008)، ایڈز، کینسر جیسے واقعات نمایاں ہے- ان تمام واقعات نے عالمی ترجیحات کو مسائل کی صورت آزمایا اور بنی نوع انسان کی صلاحتیوں کو مزید نکھارا- اسی طرح کورونا وائرس نے ایک بار پھر سے آج کے دور میں عالمی ترجیحات کو آزمانے اور انسانوں کی صلاحیتوں کو آزمانے کیلیے جنگ کا اعلان کیا ہے- ان تمام تاریخی واقعات کی وجوہات اور اثرات عالمی نوعیت کے تھے جنہوں نے عالمی ترجیحات کو یکسر بدل کر رکھ دیا –

درج بالا واقعات میں سے ایک میڈیکل، ایک معاشی سائنس اور ایک سوشل سائنس کے واقعہ کو تقابلی تجزیہ کے لیے تحریر کا حصہ بنایا گیا ہے-

  1. 1.      سپین سے پھیلنے والا نزلہ

 (Spanish flu Pandemic)

1918ء میں سپین سے پھیلنے والے نزلہ نے دنیا بھر کی ایک تہائی آبادی کو اپنا شکار بنایا اور تقریباً 5 کروڑ افراد اس وجہ سے ہلاک ہوئے- اس بیماری نے دنیا میں نوزائیدہ عالمی نظام کو بھر پور دھچکا دیا اور ترقی کی رفتار کو سست کرنے میں کامیاب رہی- خاص طور پر اس نے معاشرتی اقدار کو دوبارہ سے سمجھنے اور پرکھنے پر مجبور کیا اور سماجی فاصلوں کو ہوا دی- کورونا وائرس نے ایک بار پھر اس بیماری کے نقش تازہ کر دیے ہیں اور دنیا کو ایک ایسی صورت حال میں دھکیل دیا ہے جو سابقہ سے زیادہ خطرناک اور پیچیدہ ہے- مگر دونوں نے میڈیکل سائنس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے-

2. عظیم تنزلی (Great Depression )

پہلی جنگ کی تباہی کے بعد، 1930ء میں امریکہ سے شروع ہونے والی معاشی تنزلی جب پوری دنیا میں پھیلی تو اس کو عظیم تنزلی کے نام سے پہچانا جانے لگا- اس تنزلی کی وجوہات میں کاروباری لین دین میں کمی تھی اور بے روزگاری کی شرح میں بے پناہ اضافہ تھا- اس تنزلی کی وجہ سے عالمی معیشت کو ناقابلِ برداشت دھچکا لگا- کورونا وائرس کی وجہ سے منسوخ ہوتی عالمی تجارت اور کاروباری مراکز دنیا کو ایک بار پھر عالمی معاشی تنزلی کی طرف لے کر جا رہی ہے جس کا صحیح اندازہ لگانا مشکل مگر مفروضات قائم کر نا آسان ہے-

3. نائن الیون(9/11)

میڈیکل و معاشی سائنس کے بعد سوشل سائنس کی صلاحیت کو 2001ء میں نائن الیون کے بعدآزمایا گیا جس میں مذاہب اور تہذیبوں کا ٹکراؤ نمایاں تھا- اس غیر یقینی دہشتگردی کے واقعہ نے گلوبل ویلج میں سمٹی دنیا کو بکھیر کر رکھ دیا اور انسانوں کو بارود کی مدد سے آزمایا- اس واقعہ نےسوشل سائینسز کے نظریے کنسٹرکٹیوزم (Constructivism) کے ذریعے اسلامو فوبیا کی تشریح کی اور خاص مذہب و حلیہ کے لوگوں کو دہشتگرد گرداننا شروع کر دیا- اسی طرح کورونا وائرس نے دنیا میں ایک بار پھر کنسٹرکٹیوزم کے ذریعے زینو فوبیا (Xenophobia) کی تشریح کی جا رہی ہے جس کی واضح مثال عالمی رہنما کا کورونا وائرس کو چینی وائرس گرداننا ہے- اس وائرس نے تہذیبوں کے ٹکراؤ (Clash of Civilization) کی سیموئل پی ہنٹنگن کی دم توڑتی تھیوری کو ایک بار پھر زندہ کرنے کی کوشش کی ہے - ٹرمپ انتظامیہ چائنا پہ الزام دھر رہی ہے ، جبکہ چین اور ایران امریکہ پر -

کورونا وائرس :

عالمی رویے ، سیاست و نظریات

کورونا وائرس،ریئل ازم (Realism) نظریات کے حامی لوگوں کیلیے زحمت میں رحمت (A blessing in disguise) کا مترادف ہے- کورونا وائرس دنیا میں، اجتماعیت (Collectivism) کی بجائے انفرادیت (Individualism)،  گلوبل ویلج کی بجائے قومیت پرستی (Nationalism)، لبرازم (Liberalism) کی بجائے مرکنٹائل ازم (Mercantilism)، ادارہ جاتی امن (Institutional Peace) کے بجائے انتشار پسندی (Anarchy) وغیرہ کی ترویج کر رہا ہے- اس وائرس کی وجہ سے عالمی سرد جنگ کی لہر دوبارہ سے جنم لے سکتی ہے جس میں سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) اور اشتراکیت (Socialism) رائج نظام کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے- البتہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں سوشلزم کے نظریات کو کافی تقویت مل رہی ہے-

دنیا میں فوجی مشقیں، کھیلوں کے میدان، تعاون تنظیموں کے اجلاس، سیاحت، عالمی تجارت، عالمی روابط کو منسوخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے - عالمی سطح پر اور ملکی سطح پر تمام قسم کے ایونٹ ختم کیے جا رہے ہیں اور اس گلوبل ویلج کو گلوبل جیل میں تبدیل کیا جا رہا ہے جس میں انفرادیت اور سماجی فاصلوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے- ان سب کی حقیقت و اثرات کی نوعیت کے بارے میں ابھی کئی سوالات اذہان میں جنم لے رہے ہیں جن کے جواب تلاش کرنا ابھی باقی ہیں- اس لیے عالمی و علاقائی اداروں کی کارکردگی پر جامع تحقیق کے لیے وقت کی ضرورت ہے کیونکہ اس وائرس کے بعد میڈیکل سائنس میں برتری کی ایک لہر عالمی رویوں میں نظر آ رہی ہے جس میں ملکی وقار کو انسانی علاج پر فوقیت دینے کا امکان خارج نہیں کیا جا سکتا- ہر نئے دور میں آتے مسائل کو پرکھنے اور مقابلہ کرنے کے لیے عالمی رویوں سیاست میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ایسے نظریات کے منفی کرداروں کو پھیلنے سے پہلے ہی دفن کیا جا سکے جو انسانی تہذیب و تمدن کے حسین ارتقاء کو خطرے میں ڈالتے ہیں-

عالمی مسائل اور کورونا وائرس کے اسباق:

عالمی سیاست کو کورونا وائرس سے اسباق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ عالمی مسائل صرف باتوں یا چند لوگوں کی نیک خواہشات سے حل نہیں ہوتے - اسی طرح عالمی مسائل صرف چندلوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ پوری عالمی برادری کی ذمہ داری ہے جس کیلیے عالمی ادارے قائم کیے گئے تا کہ وہ کشمیر و فلسطین جیسے دوسرے انسانی اَلمیوں کے پُر امن حل کیلیے مل بیٹھیں اور انسانیت کو بارود و جبر کے قہر سے محفوظ کریں- اگر دنیا نے ہر صدی میں اٹھنے والے واقعات سے سبق نہ سیکھے تو وہ دن دور نہیں جب انسان اپنے ارتقاء کا گلا خود اپنے ہاتھوں سے دبا کر خود کو کسی پتھر کے دور میں بند کر لے گا جہاں انسانی تہذیب و تمدن کا حسین ارتقاء ایک خواب بن کر رہ جائے گا-

عالمی معیشیت اور کورونا وائرس :

کورونا وائرس نے عالمی معیشت کی تمام سر گرمیوں کو منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا جس کی وجہ سے تقریباً آدھی دنیا نیم کرفیو (Lockdown) کی حالت سے دور چار ہے- فیکٹریاں، مارکیٹس بند کر دی گئی ہیں، جہاز گراؤنڈ کر دیے گئے ہیں، سرحدیں بند کر دی گئی ہیں- اس وقت عالمی خسارہ تقریباً 2 ٹریلین ڈالر بتایا جا رہا ہے - سیاحت کی انڈسٹری کو تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے- ہوا بازی (Air Lines) کو تقریباً 29 بلین ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے- دنیا میں طلب و رسد کے بگڑتے توازن نے عالمی معاشی ماہرین کو تشویش میں ڈال دیا ہے- چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے (BRI) منصوبے پر سب سے زیادہ سوالیہ نشان لگائے جائے رہے ہیں کیونکہ دنیا اس وقت قومیت و علاقہ پرستی کی طرف جا رہی ہے جس میں اس عالمی پروجیکٹ کی افادیت کورونا وائرس جیسے عالمی المیہ کی صورت میں سمجھنے کی ضرورت ہے- کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی ترجیحات کو سمجھتے ہوئے چند ممکنہ اصلاحات کے بارے میں جاننا ضروری ہے-

بائیو سکیورٹی:

کورونا وائرس کے پیش ِ نظر عالمی سیاست ایک بار پھر دوسری عالمی جنگِ عظیم کے بعد کی جانے والی انسانی حقوق اور ہیومن سکیورٹی جیسی اصلاحات کی طرف توجہ دے گی- اب بائیو سکیورٹی کی مزید کوششیں کی جائیں گی اور گلوبل ویلج میں لوگوں کو اس طرح کی اچھوتی بیماری کے لیے پہلے سے تیار کیا جائے گا اور معاشرتی قدریں کافی حد تک اصلاحات سے گزریں گی- ضرورت اس امر کی ہے ان تمام اصلاحات میں معاشرتی، مذہبی اور سیاسی نظریات کو مد نظر رکھا جائے تاکہ بائیو سکیورٹی کی وجہ سے کسی بھی قوم کے جذبات مجروح نہ ہوں - لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ عالمی قوانین میں کسی بھی طرح کی ناپسندیدہ تبدیلی کیلئے تیار نہ ہوں -گو کہ آج سے 45 سا ل قبل 26 مارچ 1975ء کو بائیولوجیکل ہتھیاروں کےبنانے، جمع کرنے اور استعمال کرنے پر ایک بین الاقوامی کنوینشن کے ذریعے عالمی پابندی عائد کی گئی تھی مگر اکیسویں صدی میں سکیورٹی کے بدلے ہوئے تناظرمیں ہمیں اس طرح کی کنوینشنز کو نہ صرف موثر بنانا ہو گا بلکہ نئے معاہدے بھی کرنے ہوں گے جن میں ملکوں اور سرحدوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ انسانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور مختلف مذاہب و تہذیبوں کے انسانوں میں تفریق کو کم سے کم کیا جا سکے-

ڈیجیٹل کرنسی:

انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس (Artificial Intelligence) میں ترقی نے انسان کو خود کار مشینوں اور ایسے نظام کی طرف لے جانے کیلیے کوششیں کرنے پر مجبور کر دیا ہے جس میں انسان کی مداخلت کافی حد تک محدود ہو گی - اس میں کورونا وائرس کی وجہ سے پیپر کرنسی کافی خطرے میں ہے کیونکہ پیپر کے ذریعے وائرس کے منتقلی کے واقعات اور چین کے شہر وہان (Wuhan ) میں پیپر کرنسی کو جلانے کے واقعات بھی دیکھنے کو ملے ہیں- اس وائرس کے بعد ڈیجیٹل کرنسی کے نظریات کے حامی ایک بار پھر کمر بستہ ہو چکے ہیں اور دنیا میں ڈیجیٹل کرنسی کی ترویج کے لیے اس وائرس کے اثرات کو اپنے دلائل بنا کر پیش کر رہے ہیں - چین اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ڈیجیٹل کرنسی استعمال کرنے والا ملک ہے جس میں ڈیجیٹل کرنسی کے استعمال کے بارے میں فیصلے کافی اہمیت کے حامل ہوں گے- یورپ میں ڈیجیٹل کرنسی کی باتیں، دنیا کے کرنسی سسٹم پر کورونا وائرس کے اثرات کی تصدیق کرتی ہیں اور کرنسی کے نوعیت کے بارے میں اصلاحات ممکنات میں شامل ہیں-عین ممکن ہے دنیا میں مختلف طرز کی ڈیجیٹل کرنسیوں کی دوڑ شروع ہو جائے (مسلمان ممالک کو اس وقت معاشی طور متحد ہونا چائیے) - دسمبر 2019ء میں ملائیشیا کے شہر کولالمپور میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں تمام مسلم دنیا کے ایک یکساں کرپٹو کرنسی اپنانے کی تجویز سامنے آئی تھی- مسلم دنیا کو تاریخ کےاس اہم موڑ پر سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا چائیے-

سماجی رویوں پر کورونا کے اثرات:

کورونا وائرس سے سماجی رویوں پر بہت زیادہ اثر ہوا ہے-اجتماعات، سیر و تفریح، سیاحت وغیرہ تقریباً ختم ہوگئے ہیں -دنیا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی دوڑ رک گئی ہے- لوگ اپنی بنیادوں کی طرف لوٹنے پر مجبور ہو چکے ہیں- کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں اسلام کے بنیادی اخلاقی و مذہبی عقائد نے اہم کردار ادا کیا ہے- پیغمبر ِ اسلام خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے (ﷺ)نے اس طرح کی وبا ء کے پھوٹنے کے متعلق متعدد احکامات فرما رکھے ہیں جن میں وبائی علاقوں میں آنے یا وہاں سے جانے کی ممانعت، وباء کے شکارشخص سے میل جول وغیرہ میں پرہیز ، گھروں میں رہنااور حکومتِ وقت کے ساتھ مکمل تعاون وغیرہ سرِ فہرست ہیں -تقریباً یہی تمام احتیاطی تدابیر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن و دیگر ماہرین نے بھی تجویز کی ہیں- جن ممالک میں لوگوں نے ان احتیاطی تدابیر کو سنجیدگی سے نہیں لیا وہاں اس وبا نے بہت تباہی مچائی ہے- البتہ جہاں تک سماجی رویوں میں تبدیلی کی بات ہے تو کورونا وائرس نے عبادت گاہیں، پارکس، شادی حال، جنازہ گاہوں اور اس طرح کی دوسری سماجی اجتماعات کی نوعیت و شدت کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے- لوگ ایک دوسرے سے سماجی فاصلے ( Social Distance) کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کو اقوام متحدہ نے جسمانی فاصلے (Physical distance ) کے طور پر گرداننے کی اپیل کی ہے- اس مشکل وقت میں احتیاط ضروری مگر انسانی قدروں کو بھولنا غیر مناسب ہے- اپنے اردگرد کے بیمار لوگوں، بے روزگار اور غریب لوگوں کا خیال رکھنا ہمارا اور حکومتوں کا اولین فرض ہے- یہ ہمارا ملی و مذہبی فریضہ بھی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد سفید پوش و غریب افراد کا خیال رکھیں-ایسے لوگوں کو کھانا و دیگر ضروریات ِ زندگی پہنچانا ریاست کے ساتھ ساتھ ہمارا فرض ہے-

کورونا: انسانی ارتقاء کی بقاء کے اصول

کورونا وائرس نے انسانی عقل کے ان تمام منفی پہلوؤں کو مات دیتے ہوئے انسانی ارتقاء کی بقاء کے اصول سیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے- اس مشکل وقت میں انسان نے اپنی مرضی کو خدا اور قانون کے تابع کرنے کی مشق کی ہے جو کہ عموماً انسانی رویوں اور سماجی تعاون میں نظر نہیں آتی ہے اور آئے دن اخلاقی و مذہبی قدروں کو یکسر بدلنے کی کوششیں نظر آتی ہیں- قدرت کی ہر حد و قانون کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے اور انسان جب ان کو بدلنے یا یکسر ختم کرنے کی بات کرتا ہے تو یورپین ادب (European Literature) میں شاعر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قدرت اس پر اپنا قہر برساتی ہے- اس لیے انسان کو اپنی حدوں اور ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ایک ذمہ دار شہری و انسان کے طور پر زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے-

دوسری طرف قدرت نے انسان کو قدرتی آفت کے ذریعے ماحول کی حفاظت کا درس دیا ہے- کورونا وائرس نے دھوئیں کے کارخانے بند کروا دیے ہیں اور انسان کی ان تمام سماجی و معاشی کوششوں کو منسوخ کر دیا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ بن رہی ہیں- انسان نے مشینوں کے اس دور میں قدرت کے رنگوں کو سمجھا ہے اور رشتوں کی لذت سے واقف ہوا ہے- عالمی اداروں اور سماجی سائنسدانوں کو ایک ایسے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو انسان کو ماحول دوست بننے پر مجبور کر دے اور ماحول دوست نظریات کے اطلاق پر اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار کرے-

اختتامیہ :

کورونا وائرس انسانی ارتقاء کی تاریخ میں اپنے نقش چھوڑ جائے گا اور جلد باقی واقعات کی طرح تاریخ کا حصہ ہو گا مگر اہم بات یہ ہوگی کہ ’’ہم نے کیا سیکھا؟‘‘

یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ہم اپنی میڈیکل سائنس، معاشی سائنس، سوشل سائنس، کمپیوٹر سائنس وغیرہ کی تعمیر نو کن اصولوں پر کرتے ہیں جس سے آنے والے کسی بھی المیہ چاہے انسانی وار فئیر ہو یا قدرتی آفت ہو خود کو کتنا تیار کر پاتے ہیں - کیا ہم ہر بارکسی واقعہ کے بعد اپنی تیاری شروع کریں گے یا پہلے سے خود کو اتنا تیار کریں گےکہ کوئی بھی المیہ انسانی تہذیبی ارتقاء میں داخل ہونے سے پہلے سو بار سوچے کہ کس تخلیق سے الجھنے کی جسارت کرنے لگا ہے- آج اگر عالمی طاقتیں پری ایمپٹیو ( Pre-Emptive ) دفاع کی قائل ہیں تو نت نئے سر اٹھاتے مسائل کے خلاف اس طرزِ دفاع کو کیوں نہیں اپنایا جا رہا-

بطور انسان ایک بار ہم اس خطرناک بیماری سے چھٹکارہ پا لیں تو سماجی و معاشرتی انقلاب برپا ہونے کے امکان ہیں- عین ممکن ہے کہ اس بیماری کے بعد :

v     ہمارے اندر پاکیزگی اور سر سبز ماحول کی عادت ابھرے

v     ٹیکنالوجی انسانی حرکت و عمل کو محدود کر دے

v     زیادہ تر حکومتی و عالمی منصوبے آن لائن چلیں گے

v     تعلیم خصوصاً کمپیوٹر اور میڈیکل سائنس کی فیلڈز فوقیت حاصل کریں گی

مستقبل میں ایسی وباؤں و دیگر مسائل سے بچنے کے لیے:

v     دنیا میں اخراجات کا مرکز سیٹلائٹس و ایٹمی ہتھیاروں کی بجائے انسان اور انسانوں کی صحت و تحفظ کو بنانا ہو گا-

v     دنیا کو عالمی وباؤں اور بائیولوجیکل ہتھیاروں کے خلاف لڑنے کیلیے مزاحمتی حکمتِ عملی بنانا ہو گی- صرف ایک محدود طبقے کی ترقی کی بجائے اجتماعی ترقی کو فرو غ دینا ہو گا- تعلیم، صحت اور معیشت میں تمام لوگوں کو برابری کی بنیادوں پر شریک کرنا ہو گا وگرنہ معاشرے ایسی وباؤں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے-

v     دہشت گرد تنظیمیں بائیولوجی کے ماہر (بائیولوجسٹ) کی مدد سے اس قسم کے کسی وائرس کی تشکیل کر کے مسائل کھڑےکر سکتی ہیں- لہذا دنیا کوقبل از وقت اقدامات کرنے ہوں گے کہ اقوام و انسان محفوظ و صحت مند رہ سکیں- بائیولوجیکل کنوینشن کی طرز پر مزید معاہدے کیے جا سکتے ہیں - جس طرح ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد دنیا نے اکٹھے ہو کر ایسے ہتھیاروں پر مکمل پابندی عائد کی تھی اور جوہری انرجی کے استعمال کی حدود مقررکی تھیں، اب بائیولوجیکل سائنس کی حدود کا تعین بھی کرنا ہو گا-

v      چونکہ یہ وائرس مخصوص قسم کے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے لہذا انسانوں کو اپنی خوراک میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنا ہوں گی- اسلام کے حلال خوراک کے فلسفے کو عالمی سطح پر پریکٹس کیا جا سکتا ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر