کتاب دوستی و احترامِ کتاب :قوم کی تعمیروتشکیل

کتاب دوستی و احترامِ کتاب :قوم کی تعمیروتشکیل

کتاب دوستی و احترامِ کتاب :قوم کی تعمیروتشکیل

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز مارچ 2020

ہر اہل ِ فکرو دانش اور علم و حکمت کا متلاشی یہ حقیقت تسلیم کرتا ہے کہ ’’نہیں ہے کوئی رفیق کتاب سے بہتر‘‘ اور تاریخ اس سچ کی گواہی دیتی  ہے کہ وہ اقوام اپنے علم وفن کی بنا پر ترقی کی منازل طے کرتی اور فاتح اقوام کی صف میں شمار ہوتی ہیں جن کا ہتھیارقلم اور اوڑھنا بچھونا کتاب ہوتی ہے-لیکن اس کے برعکس جو اقوام علم کی قدر نہیں کرتیں اور کتاب سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہیں وہ نہ تو معراج انسانیِ کے کمال کو پاسکتی ہیں اور نہ ہی ترقی اور فکر وفن کی منازل طے کرپاتی ہیں-کتاب کی اسی ضرورت و اہمیت کے پیش ِ نظر مشہور فرانسیسی مفکر والٹیر کہتا ہے کہ:

’’تاریخ میں چند غیر مہذب وحشی قوموں کو چھوڑ کر کتابوں ہی نے لوگوں پر حکومت کی ہے-فرق صرف یہ ہے کہ جس قوم کی قیادت اپنی عوام کو کتابیں پڑھنا اور ان سے محبت کرنا سکھادیتی ہے وہ دوسروں سے آگے نکل جاتی ہے‘‘-[1]

آج بھی مغربی سماج کی ترقی و خوشحالی میں ایک  اہم کردار کتاب بینی و کتاب دوستی کا ہے- کتاب بھولی بھٹکی قوموں کی زندگی میں روشن قندیل کا کام کرتی ہے-لیکن گزشتہ چند عشروں بالخصوص جب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا  ارتقاء ہوا اور سوشل میڈیا کا رجحان بڑھا تو انسان نےاس قندیل سے استفادہ کرنا چھوڑ دیا اور اس کےدل سے کتاب کا ذوق و شوق کم ہوتا چلا گیا- کتاب اور انسان کا باہمی تعلق بہت  قدیم ہے -  انسان نے کتاب سے قطع تعلق کرتے ہوئے اپنے صدیوں پرانے تہذیبی ورثے کو پسِ پشت ڈال دیا- باالفاظ دیگر ڈیجیٹل انقلاب نے انسان کے دل سے احساسِ مروت کا عنصر کچل ڈالا اور وہ جدید آلات کا اسیر ہو کر رہ گیا-ان آلات نے جہاں انسان سے حسنِ اخلاق و احترام کا عنصر چھین لیا وہیں تسہل پسندی و تن آسانی کےبھنور میں انسان کو اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث سے کوسوں دور کردیا -جس کی مثال عصرِ حاضر میں ذوق ِ علم اور مطالعہ ٔ کتاب سے دوری ہے-

یہ حقیقت ہے کہ جس معاشرے میں علم و تحقیق اور مطالعہ کا عمل رک جائے وہ معاشرہ  ذہنی و فکری طور پر مفلوج ہو جاتا ہے- علم دوست معاشرے میں علم کی قدر کی جاتی ہے جہاں لوگوں میں مطالعۂ کتاب کا ذوق و شوق کثرت سے پایا جاتا ہے-جاپان کی ہی مثال لیجئے- مجتبیٰ حسین اپنے سفر نامہ ’’جاپان چلو جاپان‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:

’’پورے ایشیاء میں جاپانی سب سے زیادہ پڑھا کو قوم ہے اور دنیا بھر میں ان کے اشاعتی کاروبار کی دھا ک بیٹھی ہوئی ہے-جہاں جائیں لوگ کتاب خریدنے اور پڑھنے میں مصروف ہوتے ہیں -ٹوکیو میں ایک محلہ ہے کندا جو شہنشاہ ِ جاپان کے محل سے متصل ہے اس میں ہر طرف کتابیں فروخت ہوتی ہیں کتابوں کی اتنی بڑی دکانیں ہم نے کہیں نہیں دیکھیں-ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں بھی کتابوں کی فروخت کا انتظام موجود ہے- چار پانچ سال کے کم عمر بچے بھی بڑے ذوق وشوق سے کتابیں خریدتے اور پڑھتے ہیں- جاپان کی آبادی تقریباً ساڑھے گیارہ کروڑ ہے اور سال بھر میں تقریباً 80 کروڑ کتابیں فروخت ہوتی ہیں-گویا ہر جاپانی سال میں ساڑھے چھ کتابیں ضرور خریدتا ہے‘‘- [2]

کتاب انسان کیلئے جہاں اہم علمی و فکری اثاثہ ہے وہیں یہ انسان کیلئے امید کا محور بھی ہے- کتاب سے ہمیں جہانِ تازہ و افکارِ تازہ کی دولت نصیب ہوتی ہے-کتاب دوستی کی اہمیت سے متعلق معروف فلسفی سقراط کا یہ قول قابلِ غور ہے کہ:

’’وہ گھر جس میں کتابیں نہ ہوں وہ اس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو‘‘-[3]

اسی طرح انگریز دانشور جان ملٹن لکھتا ہے کہ:

’’ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے -اس کو محفوظ کرنے کا مقصد ایک زندگی کے بعد دوسری زندگی کو اس عظیم رو ح سے روشناس کرانا ہے‘‘-[4]

تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم تہذیب کتاب بینی اور محبت ِ کتاب کے حوالے سے ایک منفرد وممتاز مقام رکھتی ہے اور علوم و فنون کی ترقی میں اسلامی تہذیب کا کردار بے مثل ہے- اسلامی تاریخ کتاب دوستی کی عظیم امثال سے مزین ہے جس سے پتہ چلتا ہے جتنی بھی عظیم شخصیات گزری ہیں تمام کا کتاب سے گہراتعلق تھا جس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہمارے اسلاف علم و تحقیق کی جستجو میں کس قدر اعلی ٰ اقدار کے حامل تھے- چند مثالیں قارئین کے پیشِ خدمت ہیں جن سے ہمارے اسلاف کی وسعت ِ علمی اور کتاب سے ان کی محبت کا اندازہ ہوتا ہے:

’’امام احمد بن محمد المقریؒ (986-ھ1041ھ) جو فنِ حدیث کے بہت بڑے عالم تھے-ان کے متعلق ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں امام ذہبیؒ نے نقل کیا ہے کہ آپ کو ایک کتاب سے حوالہ نقل کرنے کیلئے 70 دن کا سفر کرنا پڑا-وہ کتاب اس حالت میں تھی کہ اگر کسی نان بائی کو دےکر ایک روٹی بھی خریدنا چاہتے تو شاید وہ اس پر بھی تیار نہ ہو‘‘- [5]

چھٹی صدی کے ایک معرو ف حنبلی عالم امام ابن الخشابؒ سے متعلق ایک واقعہ مذکور ہے کہ:

’’موصوف نے ایک دن ایک کتاب 500 درہم میں خریدی،قیمت ادا کرنے کیلئے کوئی چیز نہ تھی لہذا تین دن کی مہلت طلب کی اور مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر مکان بیچنے کا اعلان کیا اور اس طرح اپنے شوق کی تکمیل کی‘‘-[6]

اسی طرح شمس الآئمہ امام سرخسی ؒ کو جب قید کردیا گیا تو انہوں نے جیل کے کنویں میں میں بیٹھ کر اپنی ایک معرکۃ الآرا ء کتاب ’’المبسوط ‘‘ لکھی جس کی 30 جلدیں ہیں -

 مزیدیہ کہ مختلف مسلمان حکمرانوں کے دور میں کتاب بینی کےفروغ کیلئےجواقدامات کیےگئے اورکتب خانوں کاقیام عمل میں لایاگیاوہ تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے -

عہدِ عباسی میں کتاب دوستی اور کتب خانوں کی تعمیر کے متعلق مصنف لکھتا ہے:

’’سلاطینِ اسلام ان مکانوں کی بہت حفاطت کرتے تھے جو عام کتب خانوں کیلئے مخصوص ہوتے تھے- مثلاً شیراز، قرطبہ اورقاہرہ میں ان کتب خانوں کیلئے علیحدہ عمارتیں تعمیر کرائی گئی تھی- جن میں مختلف کاموں کیلئے متعدد کمرے ہوتے تھے مثلاً گیلریاں جن میں کتابوں کی الماریاں رکھی جاتی تھیں اور وہ کمرے جہاں شائقین کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے-بعض کمرے ان کاتبوں کیلئے مختص تھے جہاں وہ کتابوں کی نقلیں تیار کیا کرتے تھے‘‘- [7]

اسی طرح خلیفہ بغداد ہارون الرشید اور اس کے بیٹے مامون الرشید کے دورِ حکومت میں کتب خانوں کی تعمیر سے مسلم تہذیب میں کتاب کی محبت و اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو تا ہے-

’’ہارون الرشید اور اس کا بیٹا مامون الرشید کتب خانوں کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے-خلیفہ مامون الرشید نے بیت الحکمت کے نام سے ایک عظیم کتب خانہ قائم کیا، جس کا فیض ہلاکو خان کے حملہ بغداد(تیرھویں صدی) تک جاری رہا-یہ پہلا پبلک کتب خانہ تھا،جو اعلیٰ پیمانے پر قائم کیا گیا تھا -اس بے نظیر کتب خانے میں عربی، فارسی، سریانی، قبطی اور سنسکرت زبانوں کی 10 لاکھ کتابیں تھیں‘‘-[8]

یہ حقیقت ہےکہ جب تک مسلمانوں میں کتاب دوستی کا رجحان رہا وہ دنیا پر حکمران رہے لیکن جیسے جیسے وہ علم و تحقیق سے دور ہوتے چلے گئے تو محکومی و زوال ان کا مقدر ٹھہرا جس کی واضح منظر کشی ہم درج ذیل پیرائے میں دیکھ سکتے ہیں:

’’یہ بات سچ ہے کہ جس قوم پر کتاب کی حکمرانی ہو وہ قوم دنیا پر حکمران ہوتی ہے اور اس کی مثال مسلمانوں کا وہ سنہری دور ہے جس میں مسلمان معاشرہ کتاب لکھنے، خریدنے اور پڑھنے میں سب سے آگے تھا- علم فلکیات، ریاضی، طب، کیمیا اور طبیعات کے میدان میں کتب کی تخلیق و اشاعت اور مطالعہ ٔ مسلم معاشرے میں عام تھا-معاشرے کا ہر فرد کتاب دوستی کا مزاج رکھتا تھا اور اسے ایک شاہانہ مشغلہ سمجھا جاتا تھا- اپنی کتاب دوستی اور علم و تحقیق کی بدولت مسلمانوں نے ایک طویل عرصے تک دنیا پر حکمرانی کی-لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرہ علم و ادب اور کتاب سے بہت دور ہوتا چلا گیا اور آخر کار ترقی وعروج کی دوڑ میں اقوامِ عالم کی نسبت بہت پیچھے رہ گیا‘‘- [9]

مزید برآں! کتاب دوستی اور احترام کتاب کے احوال سے مختلف مسلم مفکرین کے اقوال قابلِ غور ہیں:

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ فرماتے ہیں کہ:

’’میں نے کتاب سے زیادہ مخلص دوست نہیں دیکھا‘‘[10]

محبتِ کتاب کے حوالے سے عہدِ عباسیہ کا مشہور شاعر متنبی لکھتا ہے:

’’دنیا میں سب سے عزت والی جگہ گھوڑے کی زین ہے اور زمانے میں بہترین رفیق کتاب ہے‘‘-

مذکورہ بالا بیان کےبعد بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہماری بدقسمتی اور ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں کتاب کی بجائے جوتوں کو ترجیح دی جا رہی ہے اور کتابیں فٹ پاتھ پر جبکہ جوتے شیشے کی الماریوں میں پڑے نظر آتے ہیں - گزشتہ روز کتب کی خریداری کیلئے بازار جانے کا اتفاق ہوا جہاں فٹ پاتھ پر پڑی کتابیں دیکھ کر دل خون کے آنسو رویا اور اس دن محسوس ہوا کہ ہماری اخلاقی پستی،علمی پسماندگی اور دیگر اقوام کی نسبت فکر و فن کے میدان میں پیچھے رہ جانے کی ایک بہت بڑی وجہ کتاب سے لاتعلقی اور اس عظیم ثقافتی ورثے کی قدر نہ کرنابھی ہے-

سعادت اللہ خان اس حوالے سے بی بی سی میں اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں کہ:

’’بقول شاہ محمد مری کتابوں کی دکانوں کو جوتے کے کاروبار نے دھکا دے کر خودکو میز پر سجا لیا -کتاب اور بحث کا کلچر ٹھکانے لگا تو سچ روادری اور انسانی اقدار بھی رخصت ہونے لگیں -انہیں واپس لانا ہے تو کتابی کلچر کو واپس لانا ہو گا‘‘-

اسی طرح ہمارے معاشرے میں علم دوستی و کتاب دوستی کے فقدان سے متعلق ریحان احمد یوسفی لکھتے ہیں کہ:

’’یہاں ( معاشرے میں) لوگ کسی بھی چیز کیلئے پیسے خرچ کرسکتے ہیں مگر کتاب کیلئے نہیں -قوم کی اکثریت مطالعہ کے ذوق سے عاری ہے-بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے غلبے کے بعد تو قوم مطالعہ کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے-نتیجتاًکتاب کی موت واقع ہورہی ہے‘‘- [11]

ہمارے اسلاف نے ہمیں کتاب اور علم و ادب سے محبت کا درس دیا ہے بلکہ حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ ادب (علم و تحقیق ) اور دین میں گہرا تعلق بیان کرتے ہوئے اسے قوموں کی خودی کی تعمیر کا ایک اہم ذریعہ گردانتے ہیں -مثلاً انکی نظمیں ’’دین و تعلیم‘‘ اور ’’دین و ہنر‘‘ اسی فکر کی عکاس ہیں - ضرب ِ کلیم (دین وہنر ) میں فرماتے ہیں کہ:

ہوئی ہے زیرِ فلک امتوں کی رسوائی
خودی سے جب دین و ادب ہوئے بیگانہ

اسی طرح علامہ اقبالؒ اپنی معرو ف نظم ’’بچے کی دعا‘‘ میں بھی ہماری نئی نسل کو اللہ رب العزّت سے یہی دعا مانگنے کی تلقین کرتے ہیں کہ یا رب! علم کی طلب و جستجو میں ہماری زندگی مثلِ پروانہ ہو کہ جس طرح پروانہ شمع کا اسیر ہوتا ہے اور اس کی خاطر اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتا اسی طرح علم کی شمع سے محبت اور اس کے حصول کیلئے ہمیں پروانے کا ذوق عطا فرما-

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب

اب عصری تقاضوں کو بھانپتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی اور عوامی سطح پر کتاب بینی کا شعور اجا گر کرنے کیلئے مختلف ثقافتی و ادبی میلوں اور سرگرمیوں کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ معاشرے میں بالخصوص نوجوان نسل کو کتاب دوستی اور کتاب بینی کی طرف مائل کیا جا سکے- پبلک لائبریرز کا قیام اور ان کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے-جہاں تک احترام ِ کتاب کا تعلق ہے تو جو لوگ روزگار کی غرض سے فٹ پاتھ پر بیٹھے کتا بیں بیچنے پر مجبور ہیں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو بہتر سہولیات فراہم کرے تاکہ کتابوں کی اس طرح فٹ پاتھوں پر بے حرمتی نہ ہو- یہ کتاب ہی ہےجس سے ہم ادب واحترام سیکھتے ہیں لیکن جب اس کتاب کی ہم بے حرمتی شروع کردیں اور اسے لا تعلقی اختیار کرلیں تو پھر ہمارے لئے علم و تحقیق کے مخزن تک رسائی حاصل کرنا ناممکن ہے- اپنے اسلاف کے مخزنِ فکر و فن تک رسائی حاصل کرنے کیلئے کتاب سے عشق اور احترامِ کتاب ہم پر لازم ہے-

گر خواہش ہے رمز تحقیق و علم کی
غزالیؒ کے مخزنِ فکر و فن کی
پھر لازم ہے تم پر احترام ِ کتاب
پھر لازم ہے تم پر احترام ِ کتاب

مزید برآں! ہمارے ملک میں چند ایک بڑے بک سٹورز  اور بک شاپس موجود تو ہیں لیکن وہاں کتابیں اس قدر مہنگی اور ہوش ربا قیمت پر بیچی جاتی ہیں کہ ایک عام آدمی انہیں خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا -یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کتاب دوست معاشرے کے قیام کیلئے اپنا کلیدی کردار اداکرے اور بالخصوص قومی سطح پر ایسی تعلیمی پالیسیاں مرتب کرے جس میں نصابِ تعلیم کے علاوہ بھی نوجوان نسل میں کتاب بینی کے فروغ کیلئے اہم پیش رفت ہوسکے -فی الحقیقت احترامِ کتاب اور کتاب کو رفیقِ حیات بناتے ہوئے ہم نہ صرف اپنی ذہنی و فکری آبیاری کرسکتے ہیں بلکہ اپنی ثقافتی روایات کے اچھے محافظ بھی ثابت ہوسکتے ہیں- شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

اللہ رب العزّت ہمیں احترام ِ کتاب اور کتاب سے دوستی کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم صحیح معنوں میں علم کی شمع سے استفادہ کرسکیں-آمین

نوٹ: لفظ ِ کتاب سے راقم کی مراد کوئی بھی کتاب بشمول مقدس آسمانی کتب کے کیونکہ ان کی حرمت و تعظیم تو ہم پر لازم ہے جس سے قطعاً انکار نہیں کیا جا سکتا -اس کے علاوہ ایسی کتابیں جو انسانی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کریں، اس کےلئے علمِ نافع کا ذریعہ بنیں اور اس کی تباہی کی بجائے نجات  کا سامان بخشیں-

٭٭٭


[1]www.urduweb.org/mehfil/threads/93925

[2]https://www.rekhta.org/ebooks/japan-chalo-japan-chalo-mujtaba-husain-ebooks?lang=ur

[3]http://jaras01.com/urdu/aqwal-e-zarrin.php

[4]www.urduweb.org/mehfil/threads/93925

[5]https://www.minhaj.org/urdu/tid/37020

[6](الذیل علی الطبقاۃ الحنابلہ ،ج:2، ص:251)

[7]http://magazine.mohaddis.com/shumara/348-96-1982-jun/3295-islami-kutab-khany-or-unka-intzam

[8]https://m.dailyhunt.in/news/india/urdu/qindeel-epaper-qindel/-newsid-106980022

[9]https://www.humsub.com.pk/164595/ghayour-alvi-2/

[10]http://www.farooqia.com/ur/lib/1437/08/p61.php

[11]http://www.al-mawrid.org/index.php/articles/view/ilmi-pas-mandgi

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر