مغرب کی ترقی اور مسلمانوں کی تنزلی کے اسباب اور ان کا سدِباب

مغرب کی ترقی اور مسلمانوں کی تنزلی کے اسباب اور ان کا سدِباب

مغرب کی ترقی اور مسلمانوں کی تنزلی کے اسباب اور ان کا سدِباب

مصنف: ڈاکٹرحبیب الرحمٰن مئی 2021

آج ہر پڑھا لکھا اور باشعور مسلمان جس کا تعلق کسی مسلم یا غیر مسلم ملک سے ہے وہ اپنے آپ اور دوسروں سے یہ سوال کرتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم اپنی بھر پور تاریخ و تہذیب اور وسائل و ذرائع رکھنے کے باوجود قومی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر غربت و افلاس کا شکار اور معاشی سطح پر تنزلی اور علمی طور پر پسماندگی کا شکار ہیں- اگرچہ کہ اِس سوال کے کئی جوابات ہو سکتے ہیں لیکن ذیل میں چند اہم نکا ت کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے تا کہ تیسری دنیا بالعموم اور مسلم ممالک بالخصوص اس تجزیاتی مطالعہ کے نتائج سے مستفید ہو کر اپنے وسائل کا رخ ان خاص امور کی طرف موڑنے کی کوشش کریں جو آج بھی کسی قوم کے عروج اور ترقی کا یقینی ذریعہ بن سکتے ہیں-

مغرب کی حکومتوں، جامعات، تنظیمات، جمعیات (Organizations)  اہل علم و فن، سیاست دانوں، مفکروں، مدبروں او ردانشوروں نے گزشتہ تین صدیوں سےاپنے جملہ وسائل نہایت منظّم اور شفاف انداز سے مسلسل اور مستقل مزاجی کی بنیاد پر تحقیق کی نذر کر دیے ہیں- ہر وزارت، ادارے، یونیورسٹی اورکمپنی کے ساتھ ریسرچ سینٹر،ریسرچ لیب،تشخیصی مرکز کا قیام وہ انقلابی کام تھا جس نے مغرب کو سوئی سے لے کر راکٹ تک ہر چیز خود ایجاد کرنے اور پھر اسے تجارتی بنیادوں پر اپنے شرائط کے ساتھ دنیا بھر میں بیچنے اور اس کے ذریعے سے کھربوں ڈالر کمانے میں مدد دی-

اس کے برعکس گزشتہ 200 سال میں مسلمان ممالک کے جملہ وسائل یا تو اندرونی و بیرونی فتنوں کی سرکوبی میں صرف ہوئے یا پھر بڑے پیمانے پر مسلمان بادشاہوں اور حکمرانوں کا سارا زور اپنے اللّوں تلّلوں، عیاشیوں اور بدمعاشیوں یا پھر طاؤس و رُباب کی خدمت پر رہا -باقی ماندہ وسائل ان حاکموں نے اپنی حکمرانی کے استحکام کیلئے غیر ضروری خفیہ ایجنسیوں کے قیام پر لگا ڈالے-انہوں نے اپنی رعایا کو تحقیق تو دور کی بات ہے، علم اور تعلیم کی راہوں پر آنے ہی نہیں دیا تا کہ وہ جاہلوں کے غول اور نادانوں کی بھیڑ پر اپنی خرمستیوں کے باوجود آزادانہ حکمرانی کر سکیں-اپنی رعایا کو جاہل رکھنے کی وجہ یہ بھی رہی کہ جاہل ظلم سہتا، تکلیف برداشت کرتا اور دکھ جھیلتا ہے لیکن خاموش رہتا ہے اور سوال نہیں کرتا کہ آخر یہ ظلم کیوں ہو رہا ہے؟ جبکہ تعلیم یافتہ افراد ہر مسئلے پر سوال کرنا اپنی بنیادی حق سمجھتے ہیں- دنیا کےمعاملات سے بے خبر اپنے آباء واجداد کی عظمتوں میں کھوئے ہوئے اور اپنے لوگوں کے مقابلے میں احساس برتری میں مبتلا ناداں اور ظالم مسلمان حکمرانوں کے لئے جہالت کا اندھیرا کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا -وہ اگر کسی چیز سے خوف زدہ تھے تو وہ علم کا نور اور تعلیم کا سویرا تھا جس کی روشنی انسان کو کیا؟کیوں؟کیسے؟ اور کب؟ کی شاہ ِکلید تک لے جاتی ہے جوایجادو اکتشاف کے ہر قُفل کوبوقت ضرورت کھول کر رکھ دیتی ہے-

ان حکمرانوں نے اپنی اور اپنے خانوادوں کی ترقی کو ہمیشہ مقدم رکھا جبکہ اپنے اقوام کی ترقی اور بھلائی ہمیشہ ان کی آنکھ میں کھٹکتی رہی- وہ پڑھ کر سوچنے، غور وفکر کرنے اور تعمیر اور ترقی کی باتیں کرنے والوں کو اپنا سیاسی رقیب اور جماعتی حریف سمجھتے رہے- اِس دوران مسلم اُمت کو جادہ ِتحقیق پر گامزن کرنے کے بجائے ہر اس شخص اور ادارے کی راہ میں جان بوجھ کر رکاوٹیں کھڑی کرنے کی براہ راست یا بالواسطہ کوششیں کی گئیں جس نے اُمت کوترقی اور تعمیر سے ہمکنار کرنے کا کوئی منصوبہ پیش کرنے کی کوشش کی-مسلمان حکمرانوں کی طرف سے کبھی بھی خود معیاری ، تعلیمی وتحقیقی درسگاہوں اور اداروں کے قیام کا کوئی منظم منصوبہ آئندہ 100 اور 200 سال کی ضروریات کو پیشِ نظر رکھ کر پیش نہیں کیا گیا البتہ اپنی اولادوں کو مسلمان حکمرانوں اور امراء نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے نام پر مغرب کی درسگاہوں کی گود میں ڈال دیا جہاں انہوں نے الحاد اور بے دینی کے خوراک سے پرورش پائی اور مغرب کے اخلاق و کردار کا مجسمہ اور ان کی معاشرت کی نقالی کر تے ہوئے خود اپنی تہذیبی عظمتوں، تاریخی رفعتوں، مذہبی اقدار، روحانی آدرشوں سے تہی دامن ہو کرہر بات اور معاملہ میں مغرب کی عظمت کے گن گانا اپنا وظیفہ سمجھ لیا -ان بدبخت حکمرانوں نےپوری دنیا میں اپنی اپنی اقوام کو اجڑے ہوئے اسکول، ویران کالج، ضروری ساز وسامان سے تہی دامن جامعات کے نام پر عمارتیں بنا کر ضرور دیں لیکن ان اداروں کا مقصداپنی اقوام کو اعلیٰ تعلیم کے نام پر بیوقوف بنانا یا ان کی اولادوں کو ان سرکاری اداروں میں پڑھا کر سرکار کی نوکری یا پھر بابو گیری کے لئے ڈگری کے نام پر کاغذ کے چند پُرزے دینا رہا ہے-

مغرب کی ترقی کا دوسرا سبب اہل مغرب کی پیدائشی و اضافی ذہانت و ذکاوت نہیں ہے بلکہ ان کی سیاسی وقومی قیادت کے دور رس نتائج پر مبنی وہ منظّم اور مربوط پالیسی کے تسلسل پر مبنی جو اقدامات ہیں جن کے ذریعے ہر انسان نے جو کچھ نہ کچھ کرنے کی اہلیت رکھتا تھا مناسب ماحول اور وسائل کی دستیابی کی وجہ سے اس کا کچھ بھی بڑی ایجاد میں بدل گیا-

جبکہ اسلامی دنیا میں تمام تر ذہانت اور اختراعی ذہن کی موجودگی کے باوجود سیاسی قیادت اور حکمرانوں کی تحقیق ،تحقیقی اداروں اور تحقیق کاروں کے معاملات سے ہمیشہ عدم دلچسپی کا خمیازہ اُمتِ مسلمہ نے یہ بھگتا ہے کہ ادارتی سطح پر جن تحقیق کاروں نے ایجادات کیں، وقتی و لفظی تحسین پر اکتفا کر کے ان تحقیق کاروں کی محنت شاقہ اور مسلسل جد و جہدکو اپنی جہالت کے سمندر میں غرقاب کر دیا - اہلِ علم وتحقیق کے ساتھ اکثر اوقات تلخ رویہ اختیار کیا گیا یا اُن کے کام میں جان بوجھ کر روڑے اٹکائے گئے اور اُن کی محنت اور ایجاد کو بیوروکریسی کے سرخ فیتے کی نذر کر دیا گیاجس سے وہ بالآخر مجبور ہو کر ملک سے رخت ِ سفر باندھ کر کسی ترقی یافتہ ملک میں مستقل رہائش پذیر ہو گئے جہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے منہ مانگی قیمت کے عوض ان کی قیمتی ایجادات کو حقوقِ ملکیت کے ساتھ خرید لیا -حالانکہ یہی وہ ایجادات تھیں جنہیں کچھ عرصہ کے بعد ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنا لیبل لگاکر پوری دنیا میں اربوں ڈالرکے عوض بیچ ڈالا اور پھر منافع کا ناختم ہونے والا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کے بل بوتے پر ہزاروں فرنچائزز لاکھوں ورکرز کی نوکریاں اور پھر متعلّقہ حکومتوں کو ان ایجادات کی فروخت سے حاصل شدہ منافع کی مد میں غیر معمولی رقوم کی ادائیگیاں ٹیکس وغیرہ کے نام پر کی گئیں- مسلمان ممالک کے حکمران اس وقت تھوڑی سے توجہ اور کچھ وسائل کا رُخ اِن محققین کی تحقیقات او رایجادات کے فروغ کی طرف موڑ دیتے تو صرف ایک ہی ایجاد سے وہ مسلسل اربوں ڈالر کا زرِمبادلہ سالانہ بنیاد پر حاصل کر رہے ہوتے اور اِنہی ایجادات کی بنیاد پر لگائی ہوئی صنعتیں لاکھوں مسلمان اہلِ وطن کے روزگار کا سبب بن جاتیں-اس کے ساتھ ساتھ عالمی طور پر کئی ممالک میں آپ کی فرنچائز کا قیام عمل میں آ جاتا اور اسلامی ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں سےاپنے چھوٹے چھوٹے منصوبوں کیلئے اُونچی شرح ِسود پر اربوں ڈالر لے کر پورے ملک کو گروی اور قوم کے بچے بچے کو مقروض بنانے کی نوبت نہ آتی -

یہ تو ہمارے مسلمان ملکوں کے نااہل بلکہ جاہل حکمرانوں کی جہالت کا ایک رُخ تھا جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ چوٹی کے مسلمان سائنسدان جو اپنے اپنے ملکوں کو اپنے اپنے شعبہ جات میں اعلیٰ مقام ومرتبہ اور خُود کفالت دلوا سکتے تھے، اُن کو کسی الزام کے تحت خود مسلمان حکمرانوں کے ہاتھوں جھوٹے الزامات میں پس ِ زندان کر دیا یا پھر ان کو عالمی استعماری وصیہونی گماشتوں کے ذریعے اغواء یا قتل کر وا دیا گیا تاکہ مظلوم امت مسلمہ کے ساتھ استعماری مغرب کا کھلواڑ جاری رہ سکے -

مغرب نے اپنے ہاں ایسا نظام تعلیم مرتب کیا کہ طلباء چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی تحقیق کے عمل سے گزرنے پر ویسے ہی اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں جس طرح سمندر سے گوہر تلاش کرنے کیلئے ماہر تیراک تیرنےپر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے -ہر طالب علم جو ڈگری کے حصول کا طلب گار ہو اسے کچھ نیا بنانا، دکھانا،بتانا یا پیش کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ہر شعبے میں پڑھنے والے طلباء نظری ابحاث سے کم جبکہ عملی انسانی مسائل، وسائل اور ضروریات کو ٹھوس دلائل، عملی اقدامات تجرباتی اساس اور مشاہداتی واقعات کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے طالب علم کتابوں کی سطور سے علم کو مقتبس ضرور کرتا ہے لیکن اس کی پیش کش مسائل کے حل کی سنجیدہ اور عملی کوشش ہوا کرتی ہے-یہی سنجیدگی طالب علم کو کچھ نہ کچھ نیا کرنے یا نیا بنانے پر آمادہ کئے رکھتی ہے-چنانچہ مغربی نظام تعلیم میں ضرورت محتاجی کا نام نہیں رہ پاتیں بلکہ ضرورت ایجاد کی ماں بن جاتی ہے -

جبکہ اس کے مقابلے میں امت مسلمہ بالعموم اور پاکستان بالخصوص آج تک اپنا یکساں نظام تعلیم نہیں بنا سکی-مسلمان ممالک کانظام تعلیم چوں چوں کا مربہ ہے جس میں ایک حصہ کسی ایک ملک سے سرقہ شدہ دوسرا حصہ کسی دوسرے ملک سے مستعار لیا ہوا اور تیسرا حصہ کسی تیسرے ملک کے نظام تعلیم سے بغیر کسی نظریاتی یا فکری اساس اور احساس کے اخذ کیا ہوا ہے- زبان و بیاں میں ولایت کی تقلید جبکہ افکار و نظریات میں مغرب کی اندھی پیروی سمیت ایک انتہائی غیر منظّم ،بے مقصد معاشرتی ومذہبی اقدار سے لاتعلق،سیرت و کردار کی تعمیر سے بے بہرہ،تحقیق اور ترقی کی منزل سے نا شناسا، درسی کتابوں کی کثرت، لیکن معنویت ومقصدیت کی قلت پر مشتمل ہمارا نظام تعلیم لاغرگھوڑےکی طرح نامراد منزل کے حصول میں سراب کے پیچھے پاوں گھسیٹنے والا نظام ہے جس سے جتنا جلد ممکن ہو سکے گلو خلاصی کی ضرورت ہے-

مغرب کی ہر میدان میں ترقی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ انہوں نے باصلاحیت افرادکی اہم اور متعلقہ مناسب پر تقرری کے حوالے سے کسی بھی قسم کی سفارش اور مداخلت کے بارے میں عدم ِ برداشت کا نہایت سخت رویہ اپنارکھا ہے- ملکی سطح پر علم و تحقیق کے حوالے سےاگر کسی باصلاحیت شخص کی دستیابی ممکن نہ ہو تو باصلاحیت یا اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد کو شہریت سمیت جملہ ممکن مراعات دے کراپنے ہاں بلالیا جاتا ہے- اس سلسلے میں تمام تر تعصبات کے باوجود رنگ ،نسل ، قوم اور مذہب کا اختلاف بھی خندہ پیشانی سے گوارا کرلیا جاتا ہے لیکن اقربا پروری کسی قیمت پر گوارا نہیں کی جاتی-

جبکہ اُمتِ مسلمہ کاایک بڑا مسئلہ گزشتہ تین صدیوں کے درمیان یہ بھی رہا ہے کہ اقربا پروری کی وجہ سے باصلاحیت افراد پرتمام اداروں میں ناتجربہ کار، کم علم،بے صلاحیت لیکن چاپلوس اور سفارشی لوگوں کو جان بوجھ کر مسلط کیا جا تا رہا ہے-جنہوں نے چن چن کراپنے اپنے فن میں ماہراور تجربہ کار افراد کی تذلیل،تحقیراور اُن کو نام نہاد قوانین اور ضوابط کے نام پر جکڑنے، نقصان پہنچانےاوربے دست و پا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر کے قابلیت و صلاحیت کا بے رحمانہ قتلِ عام کیا ہے-آج بھی مسلمان ممالک میں عمومی طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر وہ شخص بنا ہوا ملے گا جس کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعریف بھی نہیں آتی ہوگی، ملکی دفاع کا وزیر وہ ملے گاجو جدید و قدیم وار فیئر، عصری جنگی ٹیکنالوجی کے ابجد سے بھی واقف نہیں ہوگا، برّی، بحری اور فضائی سطح پہ ملک کی دفاعی ضروریات کے ادراک سے عاری ہوگا ، تعلیم کا وزیر وہ ملے گا جوتعلیم کے نظریہ، مقصد اور فلسفہ سے بھی بالکل نابلد ہوگا،علیٰ ھذا القیاس- آج بھی باصلاحیت افراد کوجاہلوں کے پنجہ استبداد سے نجات مل جائے تو اُمتِ مسلمہ اپنی عظمتِ رفتہ کو ازسرِ نو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے-

مغرب کے امرا٫ اور اہل ثروت نے صدیوں سے اپنے مال ودولت میں اضافہ اور اُس کو اپنی ملکیت میں باقی رکھنے کے لیے سرخ لکیر (Red Line) کا تعین کررکھا ہے-اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کے امرا٫ بھی اپنی دولت میں بے قید اضافہ کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن وہ قبل از وقت اس بات کا تعین کر لیتے ہیں کہ متعین مقدار میں دولت کے حصول کے بعد وہ اضافی رقم ملک و قوم کی فلاح وبہبود اور تعلیم و تحقیق کے میدان میں سہولیات کی فراہمی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیش رفت کیلیے وقف کردیں گے- یہی وجہ ہے کے ان امرا ٫ نے مغرب میں بڑے بڑے تعلیمی ادارے یونیورسٹیوں میں تجربہ گاہیں، ہسپتال میں لیبارٹریز، سائنسی پروجیکٹس کی پشتی بانی، ایجادات کی تجارتی بنیادوں پر تیاری،  طلبا٫ اساتذہ تحقیق کاروں اور سائنس دانوں کی فراخ دلانہ مالی معاونت نے کیچڑوں اور دلدلوں میں ڈوبے ہوئے قرونِ مظلمہ کے وحشی اور درندہ صفت مغرب کوتحقیق و ایجاد کے اوج ِ ثریا پروہاں پہنچا دیا ہے جہاں سے آج اُن کی ترقی کے مقابلے میں انہیں دوسری اقوام جاہل، غیر مہذب، جنگلی اور وحشی نظرآتے ہیں- بلکہ وہ علی الاعلان اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ دنیا کی دوسری تمام اقوام کے حکمران ان کے سامنے نوکروں اور خادموں کی حیثیت رکھتے ہیں اسی لیے وہ ہر ملک کے حاکم کے لیے خواہ وہ منتخب صدر یا وزیر اعظم ہویا اپنے ملک کا غیر منتخب بادشاہ اور شہنشاہ سب بے چوں و چراں اُن کے حکم کو مانے پر مجبور ہیں-اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمان ممالک آج تک بحیثیت مجموعی کسی بھی علم و فن میں تحقیق اور تحقیقاتی مراکز کے قیام کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہیں -

اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ 58 آزاد اور خود مختار اسلامی ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا 20 فیصد (تقریبا سوا ارب ) ہے اس آبادی کا تقریبا ً40 فیصد حصہ ان پڑھ ہے- تمام اسلامی ممالک میں موجود یونیورسٹییز کی تعداد تقریبا 350 ہے جن میں پنجاب یونیورسٹی لاہور (1882ء) انڈونیشیا ء یونیورسٹی (1950ء )جکارتہ ،تہران یونیورسٹی (دانش گاہ طہران 1851ء) جامعہ ملک سعود (ریاض نومبر 1957ء) اور جامعۃ الازھر (قاھرہ مصر 1970ء ) وغیرہ شامل ہیں-ان یونیورسٹیوں سے سالانہ تقریباً ایک ہزار افراد پی ایچ ڈی کرتے ہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ان اسلامی ممالک کی مجموعی افرادی قوت صرف 80 لاکھ کے قریب ہے جو ان شعبوں میں مصروف عمل عالمی آبادی کا تقریبا ً4 فیصد ہے-دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی کتب اور 20 لاکھ سے زائد سائنسی مقالات شائع ہوتے ہیں- جبکہ اسلامی ممالک سے شائع ہونے والی سائنس اور تحقیقی کتب اور مقالات کی سالانہ تعداد ایک ہزار سے تجاوز نہ کر سکی -یہ ان اسلامی ممالک کا مجموعی حال ہے جن کی آزاد مملکتیں کرۂ ارض کے تقریباتین کروڑ مربع کلومیٹر پر محیط ہیں-جو تیل کے پوری دنیا میں موجود ذخائر کے تین چوتھائی حصے کے مالک ہیں اور جنہیں اپنے لا محدود قدرتی وسائل سے استفادہ کی سہولت حاصل ہے ا س کے باوجود علوم جدیدہ میں مغرب سے مسابقت کے بجائے غفلت اور تساہل نے اسلامی ممالک کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا ہے -

مسلم ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیق پر مجموعی طور پر جو رقم خرچ کی جاتی ہے -صرف جرمنی اس سے دو گنا اور جاپان 4 گنا زیادہ رقم خرچ کرتا ہے-پاکستان اپنی قومی پیداوار کا بمشکل 2فیصد (21 ارب روپے) عام تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ ناروے اپنی قومی پیداوار کا 6.5 فیصد، جاپان 6.3 فیصد، فرانس6.1فیصد، امریکہ 6فیصداور جرمنی 4.8 فیصد خرچ کر رہا ہے -

تجاویز:

1-موجودہ علمی،سائنسی،معاشی اور مالی زوال اور پستی سے نکلنے کا واحد قابل ِ عمل راستہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک مختلف علوم و فنون اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے تحقیقاتی مراکز لائق و قابل اہل علم کی سربراہی میں قائم کرکے اپنی معیشت کو علم و تحقیق پر مبنی معیشت قرار دیں-

2-تمام اسلامی ممالک تحقیقی اداروں کی علیحدہ سے وزارت اور نظامت قائم کریں جن کے پاس قلیل المدتی اور طویل المدتی منصوبہ جات ہوں اوراس وزارت و نظامت کے لئےکم از کم سائنس دان درجہ کا قابل ترین شخص ہی متعین ہو-

3-تمام تحقیقی منصوبہ جات اور تحقیقی مراکز سیاسی تبدیلیوں اور سیاسی پسند و ناپسند کے گھٹیا معیار سے بلند ہوں، اس کیلیے ایسے تمام تحقیقی منصوبہ جات کو پارلیمنٹ کی توثیق اور تائید حاصل ہونی چاہیے تاکہ ان کی حیثیت قومی اہمیت کے حامل اثاثے کے طور پر متعین ہو جائے-

4-تمام اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان ہر بڑے صنعتی یونٹ اور ہر یونیورسٹی پر تحقیقی مرکز کے قیام اور مطلوب نتائج کے حصول کی پابندی عائد کر کے دوسرے تمام پیداواری اداروں کو مختلف شعبہ جات میں تحقیقی فنڈ کے قیام اور اس کے صحیح خرچ کا پابند بنائیں-

5-تمام اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں کے غریب مگر قابل طلباء کو اعلیٰ علوم و فنون اور تحقیق کیلئے جملہ مطلوب وسائل کی فراہمی کو اندرون و بیرون ملک یقینی بنائیں -

6-ملک کے تمام قابل اساتذہ، پروفیسرز اور تحقیق کاروں کی حیثیت،عزت،مراعات کسی بھی صورت میں وفاقی یا صوبائی سیکریٹری سے کم نہیں ہو ں-

7-تمام تحقیق کاروں کو اپنی تحقیق میں کامیا بی پر قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا جائے-

8-قومی ہیروز کی فہرست میں ملک کے نامور اہل علم و دانش کوحکومتی سطح پر شامل کرکے نئی نسل کیلئےانہیں رہنما بنایا جائے -

9-تمام قومی و بین الاقوامی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر ایسے تحقیق کاروں کی زندگی پر ڈاکومنٹریز یا ان کے زندہ ہونے کی صورت میں ان کے براہ راست انٹرویوز پیش کیے جائیں جس میں ان سے ان کی زندگی کی داستان، محنت و مشقت اور کامیابی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا طریقہ و سلیقہ نئی نسل کو بتایا،سنوایا اور سکھایا جائے-

10-مسلمان ممالک اپنے سالانہ مالیاتی میزانیہ کا بڑا حصہ علم و تحقیق اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے متعین کر دیں-

11-سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت صرف اور صرف کسی نامور سائنس دان، تعلیم کی وزارت صرف اور صرف قومی و بین الاقوامی طور پر مسلمہ علمی و تعلیمی شخصیت جبکہ تحقیق کی وزارت کسی ممتاز اور نامور محقق کو حوالے کرکے ان دونوں وزارتوں کو غیر سیاسی قرار دے دیا جائے -

اگر مذکورہ بالا تجاویز میں سےچند شقوں پر بھی عمل ہو جاتا ہے تو زیادہ سے زیادہ ایک عشرے میں مسلمان ممالک کی معاشی،  مالی اور سیاسی و بین الاقوامی حیثیت بدلنا شروع ہو جائے گی اور ان کی تنزلی عروج کی راہ پر گامزن جبکہ غربت امارت میں بدل جائے گی-اسی طرح وہ لینے والوں کی صف سے نکل کر دینے والوں کی صف میں شامل ہو جائیں گے-دینے والے جب بھی کسی کو کچھ دیتے ہیں تو اس کے ساتھ اپنا نظریہ حیات اور فلسفہ زندگی صراحتاً یا کنایۃ ضرور دیا کرتے ہیں،لینے والے بہت کچھ لینے کے ساتھ ساتھ دینے والوں کی فکر اور فلسفہ زندگی لینے سے انکار کی پوزیشن میں نہیں ہوتے چنانچہ امت مسلمہ جو دنیا کو اسلام کی شکل میں اللہ تعالیٰ کا آخری دین اور اس کی دعوت پیش کرنے کیلئے نامزد ہوئی تھی وہ اپنی علمی،عملی اور تحقیقی بنیادوں پر غالب حیثیت سے کل بنی نوع ِ انسان کو دوبارہ دعوت ِ اسلام کے فریضے سےبحسن و خوبی سبکدوش ہو پائے گی-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر