ٹیکنالوجی اور انوویشن : پاکستان کا ڈیجیٹل مستقبل

ٹیکنالوجی اور انوویشن : پاکستان کا ڈیجیٹل مستقبل

ٹیکنالوجی اور انوویشن : پاکستان کا ڈیجیٹل مستقبل

مصنف: ندیم اقبال اگست 2025

ٹیکنالوجی سے مراد وہ تمام چیزیں، طریقے یا اوزار ہیں جو انسان کی زندگی کو آسان بناتے ہیں، اس کا وقت بچاتے ہیں اور اس کے کام کو بہتر بناتے ہیں- آج کے جدید دور میں ہم انگلی کی جنبش، وائس نوڈ، سوچ کی استطاعت اور آٹو ریپلائی پروگرامز(Auto Reply Programs) کے ساتھ دنیا سے جُڑ ے ہوئے ہیں - یہ سب ٹیکنالوجی ہی کی شکلیں ہیں-

 ایجاد (انوویشن) کیا ہے؟

انوویشن دراصل نئی سوچ، نئے طریقے اور نئی راہیں بنانے کا نام ہے- یعنی ایک مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرانے طریقے چھوڑ کر کچھ نیا اور بہتر طریقہ استعمال کرنا- جیسے پہلے لوگ خط لکھ کر ہفتوں میں خبر دیتے تھے، پھر ای میل، ایس ایم ایس اور اب ویڈیو کال پر لمحوں میں بات کر لیتے ہیں - یہ انوویشن کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے-

آج پاکستان میں بھی ٹیکنالوجی اور انوویشن کا چرچا ہر طرف ہے- دیہات کی سطح پر کسان اپنے موبائل پر موسم کی خبریں دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ فصل کب کاشت کرنی ہے- دکان دار حساب کتاب کے لیے ایپ استعمال کرتے ہیں-طالب علم، شہریا گاؤں سے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتا ہے- مریض دنیا کے ماہر ڈاکٹر سے مشورہ لے سکتا ہے یہ سب ٹیکنالوجی اور انوویشن کی بدولت ممکن ہو رہا ہے- یہ وہ طاقت ہے جس کی بدولت بچوں کو اعلیٰ تعلیم، مریضوں کو بہتر علاج، کسان کو اچھی پیداوار، اور کاروباری حضرات کو ترقی کی نئی راہیں دے سکتی ہے-زیرِ نظر مضمون میں یہ بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ ٹیکنالوجی اور انوویشن نے کیسے پاکستان کا مستقبل بدلنے میں کوشش کی ہے اوربطور فرد ہم اس میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں-

پاکستان میں ڈیجیٹل ترقی کا سفر:

پاکستان کا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا سفر 2000ء کی دہائی کے آغاز میں نمایاں ہونا شروع ہوا، جب حکومت نے پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (PTA) اور نیشنل آئی ٹی پالیسی 2000 کے تحت انٹرنیٹ ایکسیس (Internet Access) کو فروغ دینا شروع کیا- 2004ء میں براڈبینڈ پالیسی متعارف کروائی گئی، جس نے شہروں میں انٹرنیٹ کی فراہمی میں بنیادی کردار ادا کیا-[1] 2007ء میں پاکستان نے G3 اور G4 لائسنس کی تیاری شروع کی، جو بعد میں 2014ء میں مکمل ہوئی- اسی دوران نیشنل ڈیٹا سینٹر (NDC) اور ای گورننس کے ابتدائی منصوبے بھی متعارف ہوئے، جن میں نادرا کا ڈیجیٹل شناختی کارڈ سسٹم (Digital CNIC)اور ایف بی آر(FBR) کی ای فائلنگ (E-Filing) سہولیات شامل تھیں-اسی عرصے میں فنانس شعبے میں موبائل بینکنگ نے قدم رکھا، جو فِن ٹیک انوویشن کا بڑا سنگ میل تھا-[2]

ڈیجیٹل پاکستان وژن(Digital Pakistan Vision) جو دسمبر 2019ء میں باضابطہ طور پر متعارف کروایا گیا، جس کا مقصد ملک کو ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لانا ہے- اس وژن(Vision) کے تحت انٹرنیٹ کی دستیابی، اسمارٹ سٹی پروجیکٹس اور ڈیجیٹل فری لانسنگ، بڑے شہروں میں سمارٹ سٹی پائلٹ پراجیکٹس، ڈیجیٹل ادائیگی کیلئے راست (RAAST) سسٹم اور ای-پاسپورٹ (E-Passport) جیسے حوصلہ افزا اقدامات شامل کئے گئے-

Gig Economy Index 2021 کے مطابق، پاکستان دنیا کا چوتھا سب سے بڑا فری لانسنگ ملک بن چکا ہے-[3] اس کامیابی کا انحصار نوجوانوں کا ڈیجیٹل ٹولز کوبروئے کار لانے کی صلاحیت سے ہوا-4Gسروسز کی وجہ سے ڈیجیٹل فنانشل سروسز نے بینکنگ کے روایتی طریقوں کو بدل دیااور اب پاکستان کے دور دراز علاقوں میں بھی لوگ باآسانی رقم بھیج اور وصول کر سکتے ہیں-

پاکستان کے ڈیجیٹل سفر میں دھوکہ دہی ایک بڑی رکاوٹ:

پاکستان کی ڈیجیٹل ترقی جہاں بے شمار مواقع لائی ہے، وہیں ڈیجیٹل دھوکہ دہی (Online Fraud) ایک سنگین اور بڑھتا ہوا مسئلہ بن چکاہے- FIA Cyber Crime Wing کے اعداد و شمار کے مطابق 2020ء سے 2024ء کے درمیان 639000 سے زائد سائبر کرائم شکایات درج ہوئیں- بعض ماہرین کے مطابق ان افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں سے بیشتر نے رپورٹ درج ہی نہیں کروائی-اس ڈیجیٹل فراڈ کی عام مثالوں میں فشنگ لنکس، جعلی ای شاپس اور موبائل بینکنگ کے جعلی نمائندہ فون کالز شامل ہیں اور متعدد آن لائن ادائیگیوں کے بعدنہ رقم واپس نہ ہی سامان -

دھوکہ دہی کی جدید قسم آج کل گیم، منافع اور ٹریڈنگ ایپس کے ذریعے کم دنوں میں امیر اور زیادہ منافع حاصل کرنے کی لالچ میں لوگ اپنی جمع کی ہوئی رقم یا پھر کسی دوسرے شخص سے ادھار اُٹھا کر اُس گیم /ایپس/یا ٹریڈنگ میں لگا دیتے ہیں جس سے منافع کم جبکہ نقصان زیادہ ہوتا ہے- اس وجہ سےراتوں رات امیر ہونے کے خواب لیے بہت سے لوگوں کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ رہ نہیں جاتا- مالی فراڈ کے شکار افراد اکثر اس بات سے انجان ہوتے ہیں- بیشتر ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جنہوں نے انجانے میں میسج، کال یا ای میل میں موجود جعلی لنکس پر کلک کیا اور اُس میں موجود ہدایات پر عمل کیا-

درج ذیل چند احتیاطی تدابیر استعمال کرنے سے ڈیجیٹل دھوکہ دہی سے بچ سکتے ہیں-

  • کبھی بھی اپنے بینک سے متعلقہ یا نجی معلومات کسی بھی کال پر بلا تحقیق نہ دیں-
  • ہمیشہ مضبوط پاسورڈز اور دوہری تصدیق (2FA) استعمال کریں-
  • صرف سرکاری سائٹس یا سرٹیفائیڈ ایپس سے ٹرانزیکشن کریں-
  • مشکوک آگاہی پیغامات کو فوری رپورٹ اور بلاک کریں-
  • بغیر محنت راتوں رات امیر بنانے کا جھانسہ دینے والی ایپلیکیشنز اور ویب سائیٹس سے احتیاط برتیں-
  • غیرمحفوظ، غیر معیاری اور PTA سے نہ تصدیق شدہ موبائل فونزسے بچیں-

(نوٹ:غیر معیاری اور غیر محفوظ موبائل فونز لوگوں کو بظاہر جدید فیچردے کر عوام کی قوت خرید کا مرکز تو بن جاتے ہیں لیکن یہی موبائل فونز صارف کی مہنگی معلومات کو کہیں بھی استعمال کرنے کی اجازت طلب کرتے ہیں اور بہت سے لوگ ان معلومات کو استعمال کرنے کی اجازت بھی دیتے ہیں جومستقبل میں صارف کی پرائیویٹ معلومات تک رسائی حاصل کرکےپاسورڈز سمیت دیگر معلومات کی چوری میں ممکنہ کردار ادا کر سکتے ہیں)-

تعلیم میں ٹیکنالوجی کا کردار:

پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ہمیشہ سے ہی چیلنجز کا شکار رہا لیکن ٹیکنالوجی نے اس میدان میں کئی نئی راہیں کھولی ہیں- سب سے اہم تبدیلی ای-لرننگ، ورچوئل کلاسز اور آن لائن امتحانات کی شکل میں سامنے آئی ہے-جہاں ہزاروں طلبہ کو گھر بیٹھے اعلیٰ تعلیم کے مواقع میسر آئے- انٹرنیٹ کی بدولت آن لائن لیکچرز، ویڈیوز اور ای بکس تک رسائی ممکن ہوئی -

آج تحقیق اور علم کی دنیا بھی ڈیجیٹل ہو چکی ہے- ڈیجیٹل لائبریریاں اور آن لائن ریسرچ کے مواقع پاکستان کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے علم کا خزانہ ہیں- Pakistan Research Repository، HEC Digital Library، اور National Digital Library جیسے منصوبوں نے لاکھوں ریسرچ پیپرز، جرنلز اور ای بکس تک مفت رسائی مہیا کی ہے- ان اقدامات نے نہ صرف تحقیق کو آسان کیا بلکہ علمی معیار کو بھی بہتر بنایا-عالمی سطح پر، پاکستان کے طلبہ Google Scholar،  JSTOR اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز تک رسائی حاصل کر کے اپنی تحقیقی استعداد بڑھا رہے ہیں-

جہاں ٹیکنالوجی کی بدولت طلباء کو پڑھائی جاری رکھنے کا موقع فراہم کیا گیا وہیں طلباء کو مشکلات کا سامنا بھی رہا- دوردراز علاقوں میں انٹرنیٹ کی رفتار کا مسئلہ اور بعض طلباء لیپ ٹاپ جیسی سہولت سے محروم ہونے کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے جس سے اُن کا تعلیمی مستقبل متاثر ہوا-

روبوٹکس فیلڈ میں پیش رفت:

پاکستان میں روبوٹکس کا شعبہ قومی سطح پر شناخت حاصل کر رہا ہے- National Center of Robotics and Automation (NCRA) کے تحت بننے والے 11 سب سینٹرز، جیسے NCRA-NUST، NCRA-GIKI، اور NCRA-UET Peshawar،  خودکار گاڑیوں، ریسکیو روبوٹس، انڈسٹریل روبوٹکس اور میڈیکل روبوٹکس پر تحقیق کر رہے ہیں- [4]UET Lahoreکے روبوٹکس اور مشین وژن لیب نے 2022 ءمیں پاکستان کا پہلا ریئل ٹائم روبوٹک آرم پروٹو ٹائپ کامیابی سے بنایا جو چھوٹے پیمانے کی انڈسٹری میں خودکار پیکنگ اور اسمبلی میں استعمال کے قابل ہے-

عالمی میدان میں، پاکستان کے طلباء اور نوجوان انجینئرز نے کئی بین الاقوامی مقابلوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا- NUST's Team NUSTAG نے RoboCup Rescue League (2019, Sydney) میں شرکت کی جسے اپنی کیٹیگری میں بہترین انوویٹو روبوٹ ڈیزائن کے لیے سراہا گیا- GIKI Robotics Team نے 2018ء میں ترکی میں International Robotic Competition میں خودکار فائر فائٹنگ روبوٹ کے لیے انوویشن ایوارڈ جیتا، جبکہ LUMS RoboSociety کی ٹیم نے 2021ء میں Virtual RoboWars میں نمایاں پوزیشن حاصل کی-

پاکستانی اسٹارٹ اپس، روبوٹکس اور IoT کے اشتراک سے اسمارٹ روبوٹکس سلوشنز (جیسے ذہین ڈرونز (Intelligent Robot) اور پانی صاف کرنے والے روبوٹس (Water Purification Robots) پر کام کر رہے ہیں-

انٹرنیٹ آف تھنگز (Internet of Things) کا کردار:

پاکستان میں انٹرنیٹ آف تھنگز (IoT) ایک ایسا شعبہ بن رہا ہے جو ہماری روزمرہ زندگی، معیشت، صنعت اور شہری نظام کو جدید طرزپر استوار کر رہا ہے- IoT کا مطلب ہے مختلف آلات، مشینیں، سینسرز اور سسٹمز کا انٹرنیٹ کے ذریعے آپس میں جڑ جانا ہے تاکہ وہ خودکار طریقے سے ڈیٹا شئیر کریں اور ذہین فیصلے کریں- پاکستان میں IoT کا کردار اب صرف زراعت تک محدود نہیں رہا؛ موبائل فونز، خودکار گاڑیاں، اسمارٹ ہوم اپلائنسز اور انڈسٹری 4.0 سلوشنز میں بھی IoT کا اہم ستون بن چکا ہے-

مثال کے طور پرچند نجی ادارے اپنی خودکار گاڑیوں میں IoT پر مبنی telematics systems متعارف کروا چکے ہیں، جو گاڑی کی پرفارمنس، لوکیشن اور سروسنگ کی ضرورت کا ڈیٹا ڈرائیور اور کمپنی کو براہ راست فراہم کرتے ہیں -[5]گھریلو سطح پر PTCL Smart Solutions، Nayatel Home Automation اور دیگر کمپنیز اسمارٹ اوون، اسمارٹ فریج، ریموٹ کنٹرولڈ لائٹس اور AC جیسی سہولیات فراہم کر رہی ہیں، جو صارفین کے موبائل فون سے جُڑی ہوتی ہیں اور توانائی کی بچت اور آرام دہ طرزِ زندگی کو ممکن بناتی ہیں-[6] اس کے بڑے شہروں میں اسمارٹ اسٹریٹ لائٹس، ٹریفک مینجمنٹ اور کچرا کلیکشن سسٹمز پر IoT ٹیکنالوجی آزمائی جا رہی ہے-

میڈیکل اور صحت کا شعبہ:

پاکستان میں صحت کا شعبہ بنیادی سہولتوں سے محروم اور وسائل کی قلت کا شکار رہا ہے، مگر ٹیکنالوجی اور انوویشن نے اس میدان میں امید کی نئی کرن پیدا کی ہے- سب سے بڑی پیش رفت ٹیلی میڈیسن(Tele-Medicine) کی صورت میں سامنے آئی-پاکستان کے بہت سے اسپتالوں میں جدید مشینری اور AI پر مبنی تشخیص کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے- جیسے شوکت خانم کینسر ہسپتال اورآغا خان یونیورسٹی ہسپتال-اب AI الگوردمز اور جدید مشینوں کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ کینسر، دل اور دیگر پیچیدہ بیماریوں کی بروقت اور درست تشخیص ممکن بنائی جا سکے-

پاکستان میں کینسر کی تشخیص عموماً بایوپسی، بلڈ ٹیسٹ، الٹراساؤنڈ، سی ٹی اسکین، ایم آر آئی اور ماموگرافی جیسے روایتی طریقوں سے کی جاتی ہے- بڑے ادارے جیسے شوکت خانم کینسر ہسپتال، آغا خان یونیورسٹی ہسپتال اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) ان ٹیسٹس کے ساتھ ساتھ جدید ڈیجیٹل امیجنگ پر بھی انحصار کرتے ہیں- یہی وہ خلا ہے جہاں آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) اور امیج پروسیسنگ نے کینسر کی تشخیص میں انقلاب برپا کیا- جدید AI الگوردمز، خاص طور پر ڈیپ لرننگ ماڈلز جیسے CNNs (Convolutional Neural Networks)، ماموگرافی، سی ٹی اسکین اور بایوپسی امیجز کا تجزیہ کرتے ہیں- یہ ماڈلز لاکھوں امیجز پر تربیت حاصل کر کے پیچیدہ patterns اور ان چھوٹے نشانات کو پہچان لیتے ہیں جو انسانی آنکھ کی نظر سے بچ سکتے ہیں-[7] مثلاً، Google Health AI ماڈل نے بریسٹ کینسر کی اسکریننگ میں 5.7 فیصد false positives اور 9.4 فیصد false negatives کم کرنے کی صلاحیت دکھائی -False Positives (جھوٹا مثبت نتیجہ )سے مراد ہے کہ ٹیسٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مریض کو کینسر ہے لیکن حقیقت میں اُس مریض کو کینسر نہیں ہے- False Negatives (جھوٹا منفی نتیجہ) سے مراد ہے کہ ٹیسٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مریض کو کینسر نہیں ہے حقیقت میں مریض کو کینسر ہے - اس قسم کے مرض کی تشخیص کرنے کیلئے AI اور امیج پروسیسنگ کو استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ بروقت علاج سے زندگی کو محفوظ کیا جا سکے-

افواج اور دفاعی ٹیکنالوجی:

پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کی حفاظت کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا کردار اب ناقابلِ تردید ہے- خاص طور پر جدید اسلحہ سازی، ڈرونز اور سائبر سیکیورٹی میں ہونے والی پیش رفت نے ملکی دفاع کو روایتی جنگی صلاحیتوں سے کہیں آگے پہنچا دیا ہے- پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس اور NESCOM کے اشتراک سے بنائے گئے براق ڈرون اور شاہپر ڈرون نہ صرف نگرانی بلکہ ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں – 2021ء میں وزارتِ دفاع نے بتایا کہ سالانہ درجنوں سائبر حملے ناکام بنائے گئے، جن میں حساس ڈیٹا کی چوری کی کوششیں شامل تھیں-

دفاع میں جدید دور کی جنگیں اب صرف اسلحے پر نہیں بلکہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں (AI) اور ڈیٹا اینالسز (Data Analysis) سے بھی لڑی جا رہی ہیں- پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں اور مسلح افواج مصنوعی ذہانت کے استعمال سے دشمن کی نقل و حرکت، مواصلات اور سائبر سرگرمیوں کا تجزیہ کرتی ہیں- PAF’s Center for Artificial Intelligence and Computing (CENTAIC)،  جو 2020 میں قائم ہوا اور National Center of Artificial Intelligence (NCAI) ، جو 2021ء میں قائم ہوئی جس کا مقصد ڈیٹا اینالٹکس، امیج پروسیسنگ اور پیشن گوئی کے ماڈلز تیار کرنا ہے تاکہ بروقت اور درست فیصلہ سازی ممکن بنائی جا سکے-

مئی 2025ء میں پاک-بھارت کشیدگی کے دوران پاکستان کی مسلح افواج نے آپریشن بنیانِ مرصوص کے نام سے ایک جامع اور کثیر الجہتی دفاعی کارروائی کا آغاز کر کے ’’مہا بھارت‘‘ کا خواب دیکھتی مودی سرکار کو ان کی فضائیہ سمیت دھول چٹا کر سندور مٹا دیا  - BBC، Dawn News اور Al- Jazeera کی رپورٹس کے مطابق، یہ آپریشن بھارت کی جانب سے 7 مئی کو کیے گئے آپریشن سندور کے فضائی حملوں کے جواب میں کیا گیا، جس میں بھارت نے پاکستان کے نور خان، مرید اور شورکوٹ کے فضائی اڈے کو نشانہ بنایا-[8] 10مئی کو شروع ہونے والے آپریشن بنیانِ مرصوص میں پاکستان نے 26 بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا-

آپریشن بنیانِ مرصوص کے دوران پاکستان نے اپنے جدید Al-Fath بیلسٹک میزائل کو کلیدی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، جس نے اس کارروائی کی کامیابی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا- ISPRکے مطابق، Al-Fath میزائل پاکستان کی مقامی دفاعی صنعت کا تیار کردہ شارٹ رینج بیلسٹک میزائل (SRBM) ہے، جس کی رینج تقریباً 300 سے 500 کلومیٹر بتائی جاتی ہے اور یہ ہدف کو ہائی پریسیژن گائیڈنس (High-precision guidance) سسٹمز کی مدد سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے-[9] یہ میزائل اپنے جدید نیویگیشن اور انٹرٹیل(inertial) گائیڈنس سسٹم کی بدولت انتہائی درستگی سے ہدف کا نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے-اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ میزائل میں ’’شوٹ اینڈ سکوٹ‘‘ (یعنی فائر کرنے کے فوراً بعد یہ اپنی جگہ بدل سکتا ہے)اور دوسری خصوصیت ’مینوورایبل ان ٹرمینل سٹیج‘ (جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی بیلسٹک میزائل سسٹم اس کو ہٹ نہیں کر سکتا)-مختلف رپورٹس کے مطابق، اس آپریشن کے بعد دونوں ممالک میں عالمی دباؤ پر سیزفائر عمل میں آیا اور 16 مئی کو پاکستان میں یوم تشکر منایا گیا-

سیاست اور ایڈمنسٹریشن میں ٹیکنالوجی:

ٹیکنالوجی نے پاکستان میں سیاست اور حکمرانی کے ڈھانچے میں بہت انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں اور مزید جدت کے بہت سے مواقع موجود ہیں- سب سے نمایاں اقدام نادرا کے ڈیجیٹل سسٹمز ہیں،جو انتخابی عمل اور ووٹر رجسٹریشن کو شفاف بنانے میں مزید مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں- Election Commission of Pakistan (ECP) اور نادرا کی شراکت سے تیار کردہ الیکٹرانک ووٹر لسٹیں اور بائیو میٹرک سسٹمز نے جعلی ووٹوں اور دہری رجسٹریشن کی روک تھام میں نمایاں کردار ادا کیا-

پاکستان سیٹیزن پورٹل (PCP)، جو 2018ء میں متعارف کروایا گیا، اب تک 4.5 ملین سے زائد شہری شکایات وصول اور حل کر چکا ہے- [10]اس ایپ نے حکمرانی کو عوام کے دروازے تک پہنچا دیا اور حکومتی اداروں کی کارکردگی پر عوام کی براہ راست نگرانی کا ذریعہ بن گیا- مزید یہ کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ای-اسٹامپ، ای-چالان اور لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ سسٹمز نے زمینوں کی خرید و فروخت، ٹیکس کی ادائیگی اور عدالتوں میں شواہد کو شفاف اور آسان بنایا-

سماجی اور ثقافتی زندگی میں ٹیکنالوجی کا کردار:

ٹیکنالوجی نے پاکستان کی ثقافت اور سماجی زندگی پہ بھی گہرا اثر ڈالا ہے اور سب سے نمایاں کردار سوشل میڈیا کے کلچر نے ادا کیا ہے- فیس بک، ٹوئٹر (X)، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز نے عوام کو ایک نئی طاقت دی ہے جہاں وہ اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں، اپنی ثقافتی شناخت کو اجاگر کر سکتے ہیں Digital Rights Foundation کی رپورٹ (2022) کے مطابق پاکستان میں تقریباً 71 ملین لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہے-

سوشل میڈیا نے جہاں ثقافت کو فروغ دینے میں مثبت کردار ادا کیا، وہیں موجودہ دور میں اس کے منفی اثرات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں -جیسے ڈیپ فیک (Deep Fake)، وائس مورفنگ (Voice Morphing) اور AI ٹولز میں Reality کی دخل اندازی نےاصل بات کی حقیقت اورجانچ کرنے میں مشکلات پیداکی ہیں- گھریلو تصاویر، ویڈیوز اور پرسنل ڈیٹا جو کہ نوجوان(مرد اور عورت) سوشل میڈیا پر فخر سمجھ کر شئیر کرتے ہیں وہی تصاویر اور ویڈیوز AI ٹولز کے استعمال کے بعد وہ اُن کی جان کا وبال بن جاتی ہیں- لہذا سوشل میڈیا کا محتاط استعمال ہمیں غلط معلومات کے پھیلاؤ، سائبر بُلنگ اور معاشرتی تقسیم کی شدت میں اضافہ سے دور رکھ سکتاہے-

ٹیکنالوجی نے آن لائن شاپنگ، ڈیجیٹل انٹرٹینمنٹ اور نئی ثقافتی جہتوں کو بھی جنم دیا ہے- دراز، بائیکیہ اور فوڈ پانڈا جیسی ایپس نے خریداری اور روزمرہ کی سہولتوں کا انداز بدل دیا-جس سے پاکستان میں آن لائن شاپنگ میں 35فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا-

سائنس اور تحقیق میں ٹیکنالوجی کا کردار:

پاکستان میں سائنسی تحقیق کی ترقی میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا بہت اہم کردار ہے- مقامی سطح پر سائنسی ریسرچ میں ڈیجیٹل ٹولز نے محققین کو عالمی معیار کے ڈیٹا بیس، سافٹ ویئر اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ تک رسائی دی ہے- یونیورسٹیوں میں سٹوڈنٹس کو ان کی ضرورت اور فیلڈ کے مطابق سیمولیشن سافٹ وئیرز ، پروگرامنگ ٹولزاور ڈیجیٹل سافٹ وئیر مہیا کرنے سےنمایاں بہتری آئی ہے، خاص طور پر کمپیوٹر، انجینئرنگ اور میڈیکل سائنسز میں-

پاکستان میں بائیوٹیکنالوجی میں National Institute for Biotechnology and Genetic Engineering (NIBGE) نے فصلوں کی جینیاتی بہتری اور ویکسینز کی تیاری میں پیش رفت کی ہے، خاص طور پر مقامی ٹیسٹنگ کٹس اور ریسرچ کا کردار قابلِ ذکر رہا- یہ تمام پیش رفت اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان سائنسی میدان میں ڈیجیٹل دور کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے، تاہم اسے پائیدار بنانے کے لیے فنڈنگ، پالیسی سپورٹ اور عالمی اشتراک کی مزید ضرورت ہے-

چیلنجز اور رکاوٹیں:

پاکستان میں ڈیجیٹل ترقی کی رفتار تو بڑھی ہے، مگر اس راہ میں کئی چیلنجز اور رکاوٹیں ایسی ہیں جو اس سفر کو سب کے لیے یکساں اور پائیدار بنانے کی راہ میں حائل ہیں- سب سے پہلا چیلنج ڈیجیٹل ڈیوائیڈ یعنی شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان ٹیکنالوجی تک مساوی عدم دستیابی ہے جس سے پڑھے لکھے نوجوان کا زیادہ فقدان بڑھا- گزشتہ دو دہائیوں میں میٹرک تک تعلیم مفت ہونے کی وجہ سے نوجوان میٹرک تک کو تعلیم حاصل کر چکے لیکن انٹرمیڈیٹ اور بیچلرز اُن کی پہنچ سے باہر ہے - اگر بیچلرز تک تعلیم سٹوڈنٹس کی دسترس میں رہے تو یہ نوجوان ملک و ملت کیلئے بہت سے اقدام کر سکتے ہیں-

دوسرا بڑا چیلنج نوجوانوں کی ہنر تک رسائی ہے جو نوجوان پڑھ لیتا ہے وہ ہنر سیکھنے میں اپنی عار محسوس کرتا ہے اداروں میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ نوجوان کی ذہنی وسعت کے مطابق اُسے ہنر بھی سکھایا جائے تاکہ جب وہ ڈگری حاصل کرے تو ڈگری کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھا ہنرمند بھی ہو- ہنر مند نوجوان اگر واقع میں ایک اچھا کام کرتا ہے جو کہ ملک و قوم کیلئے بہتر ثابت ہو سکتا ہے تو اُس کی حوصلہ افزائی کی جائے- پاکستان میں بد قسمتی سے بہت سے نوجوان اپنے ٹیلنٹ کا استعمال کرتے ہوئے بہت سے چیزیں بنانے میں کامیاب ہوئے اور اُنہیں سوشل میڈیا تک تو رسائی حاصل ہوئی لیکن گورنمنٹ یا اداروں کی جانب سے کوئی موقع فراہم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اُس نوجوان کا ٹیلنٹ، وقت اور سرمایہ سب ضائع ہوا-

تیسرا بڑا چیلنج سائبر کرائمز اور پرائیویسی کے خطرات ہیں- پاکستان میں انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کے ساتھ سائبر جرائم میں بھی اضافہ ہوا- FIA Cyber Crime Report (2022) کے مطابق پاکستان میں سالانہ 100000 سے زائد سائبر کرائم شکایات درج ہوتی ہیں، جن میں مالی دھوکہ دہی، خواتین کی ہراسانی اور ڈیٹا چوری کے کیسز نمایاں ہیں- ملک میں پرائیویسی قوانین ابھی عالمی معیارات کے مطابق نہیں، جس سے عام صارفین کی معلومات کے غلط استعمال کا خطرہ بڑھ جاتا ہے-

پاکستان کا ڈیجیٹل مستقبل صرف جدید ٹیکنالوجی اپنانے سے نہیں بلکہ اسے اخلاقیات اور سماجی اقدار سے ہم آہنگ کرنے سے ہی مستحکم ہو سکتا ہے- آج جب AI اور ڈیجیٹل ٹولز ہماری زندگی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، تو ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی رسائی کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور اقدار کو جوڑنا ناگزیر ہو چکا ہے- Digital Rights Foundation کی 2022ء رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں 68 فیصد انٹرنیٹ صارفین کو آن لائن اخلاقی حدود اور ڈیجیٹل سیکیورٹی سے متعلق آگاہی نہیں-

ایسے میں اسکولوں، کالجوں اور میڈیا کے ذریعے ڈیجیٹل اخلاقیات، پرائیویسی، رواداری اور ذمہ دارانہ آن لائن رویے کی تربیت دینا وقت کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکنالوجی انسانیت کی خدمت کا ذریعہ بنے نہ کہ معاشرتی انتشار کا-

ایک اور مسئلہ چائلڈ جنریشن کا ہے موبائل فون کا ضرورت سے زیادہ استعمال بچوں کی جسمانی، ذہنی اور سماجی صحت پر گہرے اثرات ڈال رہا ہے- عالمی ادارہ صحت (WHO) اور امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس (AAP) کی رپورٹس کے مطابق 2 سے 5 سال کی عمر کے بچوں میں یومیہ اسکرین ٹائم ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اس سے نیند کی خرابی، موٹاپا، نظر کی کمزوری اور سوشل اسکلز (Social Skills) کی کمی جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں- [11]ایک تحقیق کے مطابق 2019ء میں پاکستان میں اسکول جانے والے بچوں میں 35 فیصد بچے اسمارٹ فون ایڈکشن کی علامات کا شکار پائے گئے، جن میں غصہ، چڑچڑاپن، نیند میں کمی اور پڑھائی سے بے توجہی نمایاں تھی- موبائل فون کے زیادہ استعمال سے بچوں کے دماغی نشوونما پر منفی اثرات ہوتے ہیں کیونکہ یہ دماغ کے prefrontal cortex کی نشوونما میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے جو کہ یادداشت اور فیصلہ سازی سے وابستہ ہے-

اختتامیہ :

پاکستان کے پاس دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہونے کا موقع ہے جہاں نوجوانوں کی توانائی کو ڈیجیٹل انوویشن کے ذریعے قومی ترقی کا محرک بنایا جا سکتا ہے- تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ڈیجیٹل پالیسیوں، تربیتی پروگرامز اور انفراسٹرکچر کی ترقی پر مستقل بنیادوں پر کام ہوجس سے پاکستان میں صنعتی ترقی، زرعی بہتری اور طبی سہولیات میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں-

آج جب مایوسی کے سائے پاکستان کے باسیوں پر چھائے نظر آتے ہیں تو جدید ٹیکنالوجی کے علم سے سیاہ بادل چھٹ سکتے ہے، بشرطیکہ ہم سب مل کر اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کریں- پاکستان کے نوجوان، اساتذہ، سائنسدان، کاروباری حضرات اور عام شہری اگر اپنی صلاحیتوں کو مثبت سمت میں لگا دیں تو وہ پاکستان کو ڈیجیٹل ترقی کی ایسی منزل پر پہنچا سکتے ہیں جہاں خوشحالی، خودکفالت اور عزت و وقار ہمارا مقدرہوگا-ایک ایسا پاکستان جہاں ہر جگہ جدید سہولت، تعلیم کے ذرائع، مریض کو علاج میسر اور کاروباری حضرات کو گاہک میسرہوگا- یہ سب خواب صرف اس وقت حقیقت بن سکتے ہیں جب ہم ایک قوم بن کر اس منزل کی جانب بڑھیں- اب وہ وقت ہے جب ہم سب کو اپنے حصے کی شمع جلانی ہے اور پاکستان کے ڈیجیٹل مستقبل کی شاہراہ پر امیدوں کے چراغ روشن کرنے ہیں، کیونکہ یہی راستہ ہماری خودمختاری، ترقی اور وقار کی ضمانت ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر