پاکستان کے قیام کے وقت دفتر خارجہ (Foreign Office) میں عملہ نہایت محدود تھا اور صرف چار تربیت یافتہ افسران موجود تھے جن میں اکرام صاحب کو سیکرٹری خارجہ مقرر کیا گیا- ان حالات کے باوجود، قائداعظم محمد علی جناح نے ایک بصیرت افروز خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی جو امن، عالمی تعاون اور قانونی سفارت کاری (Lawful Diplomacy) پر مبنی تھی- وہ عالمی امن کے پرزور حامی تھے اور اقوام متحدہ (United Nations) سے ابتدائی سطح پر رابطہ کر کے پاکستان کی رکنیت کیلئے اقدامات کیے- ان کی اقوام متحدہ سے وابستگی دراصل قوموں کی برادری (Community of Nations) کے تصور کی حمایت تھی جہاں مختلف نظریات رکھنے والی قومیں باہمی احترام کے ساتھ امن قائم رکھ سکیں-
محمد علی جناح کی خارجہ پالیسی میں خود ارادیت کے حق (Right to Self-Determination) اور مظلوم اقوام سے یکجہتی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو- فلسطین کے لیے مسلسل حمایت کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا، شام، مراکش، برما اور سیلون جیسے ممالک کی تحریکوں کی حمایت آپ کے وسیع تر انسانی جذبے کی عکاسی کرتی ہے- اس کے علاوہ،آپ اسلامی ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات (Brotherly Ties) قائم کرنے کے خواہاں تھے- پاکستان کا پہلا سفارتی وفد فیروز خان نون کی قیادت میں، صرف مسلم ممالک جیسے ترکیہ، شام، لبنان اور اردن کے دورے پر گیا- وسائل کی کمی کے باوجود آپ نے ایران اور افغانستان [1]جیسے مشکل ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو دانشمندی سے سفارتکاری، باہمی احترام اور ثقافتی تبادلے (Cultural Exchange) کے ذریعے سنبھالا- آپ کی پالیسی کا ایک اور اہم ستون تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن بقائے باہمی (Peaceful Coexistence) تھا، چاہے وہ بھارت ہو، چین ہو یا برما، اگرچہ ان کے ساتھ کشیدگی موجود تھی- سرد جنگ (Cold War) کے دو قطبی دور میں قائد کی غیرجانبداری، خودمختاری اور نظریاتی آزادی کے عزم کا ثبوت تھی - [2]
فروری 1948ء میں، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل نے امریکہ کے عوام سے ریڈیو خطاب میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے درج ذیل اہداف بیان کیے-
“Our foreign policy is one of friendliness and goodwill towards all the nations of the world. We do not cherish aggressive designs against any country or nation. We believe in the principle of honesty and fair play in national and international dealings and are prepared to make our utmost contribution to the promotion of peace and prosperity among the nations of the world. Pakistan will never be found lacking in extending its material and moral support to the oppressed and suppressed peoples of the world, and in upholding the principles of the United Nations Charter”.[3]
’’ہماری خارجہ پالیسی دنیا کی تمام اقوام کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور خیرسگالی پر مبنی ہے- ہمارا کسی بھی ملک یا قوم کے خلاف جارحانہ عزائم رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں- ہم قومی اور بین الاقوامی معاملات میں دیانتداری اور انصاف کے اصول پر یقین رکھتے ہیں اور دنیا کی اقوام کے درمیان امن اور خوشحالی کے فروغ کے لیے اپنی بھرپور کوششیں کرنے کے لیے تیار ہیں- پاکستان کبھی بھی دنیا کے مظلوم اور محکوم عوام کی مادی اور اخلاقی مدد فراہم کرنے میں پیچھے نہیں رہے گا، اور اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں کی پاسداری میں پیش پیش رہے گا ‘‘-
آج پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کئی پیچیدہ چیلنجز کا سامنا ہے، جس کی وجہ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی رقابت (U.S.-China rivalry)، خطے میں عدم استحکام (regional instability)، اور بدلتے ہوئے عالمی اتحاد (global alliances) ہیں- دوسری جانب، افغانستان میں طالبان کی واپسی، ایران کے ساتھ سرحدی کشیدگی جن میں سرحد پر اسمگلنگ، انسانی نقل و حرکت اور غیر قانونی سرگرمیاں شامل ہیں اور فلسطین کے مسئلے پر امریکی حمایت کے باعث پیدا ہونے والی پیچیدگیاں، پاکستان کی سفارتی صورت حال کو مزید مشکل بنا رہی ہیں- موجودہ اقتصادی مسائل (economic leverage) اور سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چین اور امریکہ دونوں کے ساتھ توازن برقرار رکھنا، علاقائی امن کے لیے آواز بلند کرنا، قومی مفادات کا دفاع کرنا، اور فلسطین اور کشمیر جیسے مظلوم اقوام کی حمایت کرنا شامل ہے- ساتھ ہی، پاکستان کو تزویراتی خودمختاری (strategic autonomy) اور کثیر الجہتی سفارت کاری (multilateral diplomacy) کو فروغ دینا ہے - [4]
خارجہ پالیسی کے اصطلاح معنی
خارجہ پالیسی ایک حکمتِ عملی ہے جس کے ذریعے حکومتیں اپنے سفارتی تعلقات اور بین الاقوامی تعاملات کو منظم کرتی ہیں- یہ کسی ملک کی اقدار (Values)، مقاصد (Goals) اور عالمی سطح پر اس کے مفادات (Interests) کی عکاسی کرتی ہے، جن میں سیاسی، معاشی اور سلامتی سے متعلق امور شامل ہوتے ہیں- خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں جغرافیائی، مالیاتی، اور سیاسی حالات، دیگر ممالک کی پالیسیاں، عالمی سطح پر جنگیں یا تجارتی ترقی (Trade Developments) اور طویل المدتی اہداف جیسے تکنیکی یا معاشی ترقی شامل ہیں- خارجہ پالیسی ملکی داخلی پالیسی (Domestic Policy) کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے تاکہ اندرونی استحکام اور بین الاقوامی حیثیت کو مضبوط بنایا جا سکے، اور سفارتکاروں اور حکومتی اداروں کو مشترکہ چیلنجز کے حل میں مدد ملے-
خارجہ پالیسی عالمی سیاست (Global Politics) اور عالمی معیشت (World Economy) کو متاثر کرتی ہے- یہ نہ صرف عالمی حالات سے متاثر ہوتی ہے بلکہ ان پر اثر بھی ڈالتی ہے، خاص طور پر اقوام متحدہ، او آئی سی ( OIC)،نیٹو (NATO)، اور یورپی یونین (EU) جیسے اداروں کے ذریعے- اس کے اقتصادی اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں، خارجہ پالیسی کے فیصلے عالمی منڈیوں (Global Markets) کو بدل سکتے ہیں، رسد کے نظام (Supply Chains) میں خلل ڈال سکتے ہیں اور تجارتی حرکیات (Trade Dynamics) کو تبدیل کر سکتے ہیں، جیسا کہ ہمیں یوکرین کی جنگ اور کووڈ-19 کی عالمی وبا کے دوران دیکھنے کو ملا - [5]
افلاطون (Plato) کے نزدیک:
“He who wishes to serve his country must have not only the power to think, but the will to act”.[6]
’’جو شخص اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے، اُس کے پاس صرف سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں بلکہ عمل کرنے کا عزم بھی ہونا چاہیے ‘‘-
اس کے علاوہ ہانس جے مورگنتھاؤ (Hans J. Morgenthau) ایک جرمن، امریکی ماہرِ بین الاقوامی تعلقات ، جو حقیقت پسندی (Realism) کے نظریے کے بانیوں سے ہیں ان کے مطابق:
“International politics, like all politics, is a struggle for power”.[7]
’’بین الاقوامی سیاست، تمام سیاست کی طرح، طاقت کے حصول کی جدوجہد ہے ‘‘-
زیادہ تر دو اقسام کی خارجہ پالیسی ہوتی ہیں- ایک نرم خارجہ پالیسی جو کشش، قائل کرنے (Persuasion)، ثقافتی اقدار (Cultural Values)، سیاسی نظریات (Political Ideals) اور سازگار خارجہ پالیسیوں (Favorable Foreign Policies) کے فروغ پر انحصار کرتی ہے تاکہ طویل مدتی اتحاد (Long-term Alliances) بنائے جا سکیں اور عالمی رائے (Global Opinion) پر اثر ڈالا جا سکے- یہ سفارت کاری میڈیا، تعلیم اور مشترکہ مفادات (Shared Interests) کے ذریعے تعاون کو فروغ دیتی ہے - اس طریقہ میں طاقت اور دھمکیوں کا استعمال نہیں کیا جاتا -
اس کے برعکس، سخت خارجہ پالیسی (Hard Foreign Policy) میں زبردستی (Coercion) شامل ہوتی ہے، جیسے کہ فوجی طاقت (Military Strength)، معاشی دباؤ (Economic Pressure)، پابندیاں (Sanctions)، یا مراعات (Inducements) کا استعمال، تاکہ دیگر ممالک کو کسی خاص طریقے سے عمل کرنے پر مجبور کیا جا سکے- جہاں نرم طاقت (Soft Power) خیرسگالی (Goodwill) اور پائیدار شراکت داری پیدا کرتی ہے، وہاں سخت طاقت (Hard Power) فوری نتائج دیتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ردعمل کا خطرہ بھی ہوتا ہے -[8]
کارل فون کلاوزویٹ (Carl von Clausewitz) جرمن فوجی نظریہ ساز اور اسٹریٹیجسٹ تھے جنہوں نے جنگ اور سیاست کے تعلق پر گہری تحقیق کی، ان کے مطابق:
“War is merely the continuation of policy by other means”.[9]
’’جنگ دراصل پالیسی کا تسلسل ہے، مگر دوسرے ذرائع سے ‘‘-
پاکستان کی خارجہ پالیسی کو درپیش مسائل :
تیزی سے بدلتی ہوئی کثیر قطبی دنیا (multipolar world) (جب ایک سے زیادہ طاقتور ممالک ہوں) میں پاکستان کو بڑی عالمی طاقتوں جیسے چین ، امریکہ اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم رکھنے جیسے پیچیدہ چیلنجز کا سامنا ہے، جبکہ اسلامی ممالک کے ساتھ اسٹریٹجک روابط اور بھارت کے ساتھ علاقائی کشیدگی بھی موجود ہے- تاریخی صف بندیاں تبدیل ہو رہی ہیں اور نئے جیو پولیٹیکل حالات ابھر رہے ہیں، جن کے پیش نظر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)، بھارت میں امریکی مفادات، روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مسلم دنیا میں فرقہ وارانہ کشمکش جیسے معاملات کو سنبھالنا ہوتا ہے- غیر ملکی امداد اور عالمی اداروں تک رسائی پر انحصار بھی فیصلوں کو مزید پیچیدہ بناتا ہے- قومی مفادات اور استحکام کے لیے ایک متوازن، خودمختار اور حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی درکار ہے جو غیر جانبداری، اقتصادی مضبوطی اور علاقائی تعاون پر مبنی ہو -[10]
امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ نے پاکستان کوایک نازک معاشی، قانونی اور سفارتی صورتحال میں ڈال دیا ہے- چین کی جانب سے سی پیک کے تحت 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور امریکہ کے ساتھ دیرینہ تجارتی تعلقات کی موجودگی پاکستان کو ایک پیچیدہ توازن میں لے آئی ہے جہاں کسی ایک فریق کی حمایت مہنگے قانونی نتائج یا معاشی پابندیوں (sanctions) کا باعث بن سکتی ہے- امریکہ نے چینی اشیاء پر 145 فیصد تک ٹیرف (tariff) لگا دیا، جس کے ردعمل میں چین نے 125 فیصد ٹیرف نافذ کیا اور صرف 20 دنوں میں امریکی معیشت کو 4 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا، جس سے عالمی مارکیٹ غیر مستحکم ہو گئی- پاکستان کا ٹیلی کام سیکٹر چینی کمپنیوں جیسے ہواوے (Huawei) اور زیڈ ٹی ای (ZTE) پر انحصار کرتا ہے، جبکہ ڈیٹا پروٹیکشن کے مؤثر قوانین کی عدم موجودگی امریکی کمپنیوں کی ناراضگی اور ممکنہ پابندیوں کا باعث بن سکتی ہے- کیونکہ امریکہ کو خدشات ہیں کہ چینی کمپنیاں حساس ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتی ہیں- ایسی صورتحال میں قانونی، اقتصادی اور سفارتی دباؤ کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک حساس چیلنج بن چکا ہے، جہاں ہر قدم بین الاقوامی قانون اور عالمی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے -[11]
روس-یوکرین بحران، جو 24 فروری 2022ء کو مکمل جنگ (full-scale invasion) کی صورت اختیار کر گیا اور جو اب تک جاری ہے، نے پاکستان کی معیشت، سفارتکاری اور تزویراتی استحکام (strategic stability) کو نمایاں طور پر متاثر کیا- پاکستان، اگرچہ جغرافیائی لحاظ سے دور ہے، پھر بھی اسے (گلوبلائزیشن کی وجہ سے) شدید معاشی اثرات کا سامنا کرنا پڑا،خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا کیونکہ یوکرین سے درآمدات میں خلل آیا اور عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا- مثال کے طور پر، پاکستان کی گندم کی درآمدات، جو 1996ء سے 2020ء تک سالانہ 15.5 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی تھیں، متاثر ہوئی، جس سے غذائی عدم تحفظ بڑھا- توانائی کی قلت میں اضافہ ہوا کیونکہ مائع قدرتی گیس (LNG) اور تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں- 6.5 ملین مہاجرین (refugees) اور عالمی سپلائی چین (global supply chains) شدید دباؤ کا شکار ہوئیں- سفارتی سطح پر، پاکستان کو روس کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے اور مغربی طاقتوں (Western powers) کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں (sanctions) میں توازن قائم رکھنے کا چیلنج درپیش رہا - [12]
پاکستان کے اسٹریٹیجک عزائم (strategic ambitions) وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے پر مرکوز ہیں، خاص طور پر توانائی کے تعاون، تجارت اور علاقائی رابطے کیلئے- تاہم، پاکستان کو کئی اہم رکاوٹوں کا سامنا ہے، TAPI (ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-انڈیا) گیس پائپ لائن جیسے منصوبے متاثر ہیں ، یہ منصوبہ 1100 میل سے زائد طویل ہے اور سالانہ 33 ارب مکعب میٹر (billion cubic meters) قدرتی گیس کی فراہمی کا ہدف رکھتا ہے- ایران-پاکستان تعلقات، اگرچہ 2012 میں گیس پائپ لائن کے معاہدے کے تحت بہتر ہونے کی امید تھی، اب بھی کشیدہ ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان 900 کلومیٹر سے زائد سرحد (border) کومنشیات کی اسمگلنگ، شدت پسندی اور غیر قانونی نقل و حرکت سے روکنا ایک بڑاچیلنج ہے-
پاکستان کو چین اور مغرب، خصوصاً امریکہ، کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنے کیلئے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے، کیونکہ مغربی مالیاتی اداروں (Western Financial Institutions) پر انحصار کے باعث پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں- اگرچہ چینی شہریوں کے لیے مشترکہ سیکیورٹی نظام نافذ کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، لیکن ان میں ابہام اور عملی رکاوٹیں درپیش ہیں، باوجود اس کے کہ انسداد دہشتگردی (Counterterrorism) اور انٹیلی جنس تعاون کو فروغ دینے کے وعدے کیے گئے ہیں-[13] اس کےعلاوہ پاکستان کے دنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں -
2023ء میں پاکستان نے عالمی تجارت میں اپنی شراکت جاری رکھی، لیکن تجارتی خسارے اور محدود تجارتی انضمام کے باعث اسے چیلنجز کا سامنا رہا- اگرچہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہوا، تاہم درآمدات کے زیادہ ہونے کے سبب تجارتی توازن منفی رہا-
پاکستان کی 2023 کی عالمی تجارتی صورتحال [14]:
- کل برآمدات (Total Exports): تقریباً $35.8 ارب
- عالمی درجہ بندی: دنیا کا 66واں بڑا برآمد کنندہ
- اہم برآمدی منڈیاں (Top Export Destinations):
- امریکہ: $5.18 ارب
- متحدہ عرب امارات: $3.7 ارب
- چین: $3.4 ارب
- جرمنی: $2.43 ارب
- برطانیہ: $2.28 ارب
- اہم برآمدی اشیاء (Top Export Commodities):
- ہاؤس لینن (House Linens):$4.07ارب
- ریفائنڈ پیٹرولیم (Refined Petroleum): $2.79 ارب
- چاول (Rice): $2.47 ارب
- نان نٹ مردانہ سوٹس (Non-knit Men’s Suits): $2.27 ارب
- نِٹ سویٹرز (Knit Sweaters): $1.56 ارب
- تجارتی خسارہ (Trade Deficit): تقریباً $19.5 ارب
خارجہ پالیسی علاقائی منظر نامے میں:
پاکستان کا جغرافیائی محلِ وقوع (Geopolitical Location) جنوبی ایشیا میں ہے، جو اسے ایک نہایت حساس علاقائی تناظر میں رکھتا ہے- پاکستان کی سرحدیں بھارت، افغانستان، ایران اور چین سے ملتی ہیں، جس کے باعث اسے کئی اسٹریٹیجک (Strategic) چیلنجز کا سامنا ہے- بھارت کے ساتھ دیرینہ دشمنی، خاص طور پر مسئلہ کشمیر کی وجہ سے، دونوں ممالک کے درمیان بار بار جنگیں اور ایک مستقل ہتھیاروں کی دوڑ، حتیٰ کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری (Nuclearization) دیکھنے کو ملتی ہے- افغانستان کی صورتحال، خاص طور پر امریکی مداخلت کے دوران اور بعد میں، پاکستان کی مغربی سرحدوں کو غیر مستحکم کرتی رہی ہے، جس کے نتیجے میں پناہ گزینوں کی آمد، عسکریت پسندی (Militancy) اور سرحد پار کشیدگی جیسے مسائل پیدا ہوئے- چین کے ساتھ اقتصادی تعاون خصوصاً چائنا-پاکستان معاشی راہداری کے ذریعے انفراسٹرکچر (Infrastructure) کی ترقی کے مواقع تو پیدا ہوئے ہیں، لیکن اس سے علاقائی سطح پر تزویراتی مقابلے (Strategic Competition) میں اضافہ بھی ہوا ہے اور بھارت و مغرب کی طرف سے سیکیورٹی خدشات بھی بڑھے ہیں- پاکستان کی اندرونی سیکیورٹی کو مزید پیچیدہ بنانے والے عناصر میں غیر ریاستی عناصر اور فرقہ وارانہ تشدد ہیں- [15]
مئی میں بیجنگ (Beijing) میں ایک اہم اجلاس ہوا جس میں پاکستان اور افغانستان نے سفارتی تعلقات دوبارہ قائم کرنے پر اتفاق کیا، جو برسوں سے خراب تھے- اس موقع پر افغانستان کو چائنا-پاکستان اقتصادی راہداری میں شامل کرنے کی دعوت بھی دی گئی، جو چین کی اقتصادی منصوبہ بندی کا اہم حصہ ہے- یہ پیش رفت چین کی ثالثی کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جسے علاقائی استحکام کیلئے ضروری سمجھا جا رہا ہے- طالبان حکومت نے دہشت گردوں کی کارروائیاں روکنے کا عہد کیا ہے تاکہ پاکستان کے مغربی سرحدی علاقے کو محفوظ بنایا جا سکے، جو CPEC کی سرمایہ کاری کے لیے بھی اہم ہے- چین نے اس معاہدے کو اپنی عالمی سفارتی حیثیت مضبوط کرنے کا ذریعہ بھی بنایا ہے، جبکہ افغان طالبان کو معاشی دباؤ اور عالمی پابندیوں کا سامنا ہے- اس نئے معاہدے سے پاکستان خطے میں چین کے علاقائی تجارتی منصوبوں کا مرکز رہنے کی توقع رکھتا ہے اور افغانستان کو وسطی ایشیا سے جوڑنے کا ایک اہم لنک سمجھا جا رہا ہے -[16]
پاک- بھارت کشیدگی :
7 مئی 2025 کو بھارت نے پاکستان میں آپریشن سندور کے تحت پاکستان کے 9 مقامات پر میزائل حملے کیے- جواباً پاکستان نے آپریشن بنیان مرصوص کے ذریعے 26 بھارتی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا اور دونوں ایٹمی ریاستوں کے درمیان پہلی بار ڈرون جنگ (drone warfare) کا آغاز ہوا- اس بحران کے دوران دونوں ممالک میں مجموعی طور پر 48 سے زائد شہری ہلاک ہوئے، جبکہ سفارتی تعلقات شدید متاثر ہوئے، جن میں سندھ طاس معاہدے (Indus Waters Treaty) کی معطلی اور سفیروں کی بے دخلی بھی شامل تھی- اس تصادم نے عالمی سطح پر جوہری تصادم (nuclear escalation) کے خدشات کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے فوری سفارتی مداخلت کی- بالآخر 10 مئی 2025 کو جنگ بندی (ceasefire) عمل میں آئی، تاہم بھارت کی جانب سے اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے خلاف ورزیاں جاری رہیں -[17]
پاکستان نے ایک جامع ڈوزیئر جاری کیا ہے جس میں آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی اور پہلگام حملے کو ایک جھوٹا جنگی عذر (false flag operation) قرار دیتے ہوئے بھارت کی سازش کو بے نقاب کیا گیا ہے- اس ڈوزیئر میں سیٹلائٹ تصاویر، بین الاقوامی میڈیا رپورٹس اور شواہد شامل ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت نے بغیر کسی تحقیق کے صرف دس منٹ میں پاکستان کے خلاف ایف آئی آر (FIR) درج کر کے اس واقعے کی ذمہ داری عائد کر دی، جو بھارتی عزائم پر سوالات اٹھاتا ہے- پاکستان نے غیر جانبدار تیسری پارٹی کے تحت مشترکہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی، جسے بھارت نے مسترد کر دیا- اس من گھڑت بیانیے کو جواز بنا کر بھارت نے پاکستان کے شہروں مریدکے، بہاولپور اور مظفر آباد، پر میزائل حملے کیے جن میں درجنوں بے گناہ شہری، خواتین اور بچے شہید ہوئے، جبکہ بھارت نے 100 سے زائد ڈرونز پاکستانی حدود میں بھیجے- جوابی کارروائی میں پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت ایک نپی تلی مگر بھرپور عسکری کارروائی کی، جس میں بھارت کے پانچ لڑاکا طیارے (Rafale، MiG-29، SU-30) مار گرائے گئے، 84 ڈرونز تباہ کیے گئے، اور آدھم پور اور بھُج میں موجود S-400 سسٹمز کو ناکارہ بنایا گیا- پاکستان کے درست نشانے پر بیاس اور ناگروٹا میں موجود براہموس میزائل اسٹوریج بھی تباہ ہوئے، جبکہ کے جی ٹاپ اور نوشہرہ میں بھارتی بریگیڈز (10 اور 80 بریگیڈ) کو بھی نشانہ بنایا گیا- پاکستان نے بین الاقوامی قانون کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے صرف بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جبکہ بھارت نے مسلسل پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا- ڈوزیئر میں بھارتی میڈیا پر جنگی جنون پھیلانےاور اختلافی آوازوں کو دبانے پر تنقید کی گئی ہے- پاکستان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ وہ ایک امن پسند ریاست ہے، لیکن کسی بھی جارحیت کا بھرپور اور منہ توڑ جواب دیا جائے گا - [18]
پاکستان کی خارجہ پالیسی عالمی تناظر میں:
عالمی نظام بہت تیزی سے تبدیل رہا ہے، جس میں نئے طاقتور ممالک، فوجی اتحاد اور بڑھتی ہوئی مقبولیت پسندی (populism) شامل ہیں، جو ایک متحرک اور حالات کے مطابق خارجہ پالیسی کا تقاضا کرتا ہے ملک سے کرتا ہے- جب کہ کثیرالاقوامی تعاون (multilateralism) کمزور پڑ رہا ہے اور دنیا کو موسمیاتی تبدیلی، معاشی ناہمواری ، عالمی وباؤں (pandemics) اور تنازعات جیسے پیچیدہ چیلنجز درپیش ہیں- ان حالات میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خودمختاری، معاشی استحکام اور علاقائی امن کو اولین ترجیح دے اور اس مقصد کے لیے مؤثر سفارت کاری اور تزویراتی شراکت داریوں پر انحصار کرے- پاکستان ایک جغرافیائی اقتصادی (geo-economic) وژن پر کاربند ہے جو امن، ترقی اور علاقائی روابط کے فروغ پر مبنی ہے، خصوصاً (CPEC) جیسے منصوبوں کے ذریعے- پاکستان تمام بڑی طاقتوں، ہمسایہ ممالک اور مسلم دنیا کے ساتھ متوازن تعلقات رکھنا چاہتا ہے، اور مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل، افغانستان میں امن، سارک (SAARC) کی بحالی، امریکہ سے بہتر تعلقات اور افریقہ و آسیان (ASEAN) ممالک سے تعاون کو اہم سمجھتا ہے- غیر جانبداری (non-alignment) کی پالیسی کو اپناتے ہوئے پاکستان اقوام متحدہ (UN) کی اصلاحات اور ایک زیادہ مؤثر اور جمہوری عالمی نظام کی حمایت کرتا ہے اور اقتصادی سفارت کاری امن و سلامتی اور مشترکہ ترقی کے ذریعے اپنے قومی مفادات اور عالمی مقام کو مستحکم بنانے کا خواہاں ہے -[19]
پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ہمیشہ پیچیدہ رہے ہیں، جو سرد جنگ (Cold War) کے دوران بالخصوص 1979ء میں سویت یونین کی افغانستان پر چڑھائی کے بعد قریبی دفاعی تعاون سے لے کر حالیہ دہائیوں میں کشیدہ اور غیرمتوازن تعلقات کی صورت میں نظر آئے- باوجود چیلنجز کے، پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کی ہے، تاہم برآمدات پر مبنی معیشت (export-driven economy) کی طرف منتقلی کی خواہش کو اس وقت دھچکا لگا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپریل میں، پاکستانی مصنوعات پر 29 فیصد ٹیرف (tariff) عائد کر دیا - [20]
وزیرِاعظم پاکستان نے 24 تا 27 مئی میں ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان کا ایک اہم سفارتی دورہ کیا، جس کا مقصد پاکستان کی علاقائی شراکت داری کو مضبوط بنانا اور ملک کے پرامن اور سفارتی ویژن کو اجاگر کرنا تھا- انقرہ میں ترکیہ نے پاکستان کے ساتھ اپنے تاریخی، روحانی اور سیاسی تعلقات کی تجدید کی اور موجودہ پاک-بھارت بحران کے دوران مکمل حمایت کا یقین دلایا، جبکہ دفاع، تجارت اور اسلاموفوبیا کے خلاف مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا- تہران میں ایران نے پاک-بھارت کشیدگی میں ثالثی کی پیشکش کی ، جسے پاکستان نے سراہا، اور سرحدی تحفظ، توانائی تعاون ، اور افغان امن عمل پر مل کر کام کرنے پر اتفاق ہوا- باکو میں آذربائیجان نے بھارت کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کی کھل کر حمایت کی اور دونوں ممالک نے دفاع، توانائی اور رابطہ کاری میں تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا- ترکیہ، پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان سہ فریقی اجلاس مسلم اتحاد کا مظہر بنا- دوشنبہ میں تاجکستان کے ساتھ گوادر کے ذریعے تجارت، پن بجلی اور تعلیمی تبادلوں پر بات ہوئی، جس سے وسطی ایشیا سے پاکستان کے روابط کو فروغ ملے گا- ان دوروں کے دوران دو طرفہ معاہدے تجارت، دفاع اور ثقافتی تبادلے پر طے پائے، جو طویل مدتی علاقائی انضمام کی بنیاد بنیں گے-
وزیرِاعظم کے اس دورے کے دوران 2 ارب ڈالر سے زائد کی ممکنہ سرمایہ کاری اور تجارتی منصوبے زیرِ بحث آئے، جو پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے- اس دورے نے پاکستان کو جنوب و وسطی ایشیا کے 30 کروڑ سے زائد صارفین سے منسلک کرنے والے تجارتی راستوں کی بنیاد رکھی- مجموعی طور پر، یہ دورہ پاکستان کی اس سفارتی حکمتِ عملی کا مظہر تھا جس میں جارحیت کے بجائے مکالمہ، دباؤ کے بجائے اصول اور خوف کے بجائے دوستی کو اپنایا گیا- مختصر مدت میں مضبوط سیاسی اعتماد اور طویل مدتی طور پر مسلم ممالک کے اتحاد پر مبنی ایک علاقائی بلاک کی راہ ہموار ہوئی، جو امن، ترقی اور مشترکہ مفادات پر مبنی ہوگا - [21]
پاکستان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انسداد دہشت گردی کمیٹی کا نائب چیئرمین اور طالبان پر پابندیوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹی (1988 Sanctions Committee) کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک نمایاں سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے- یہ دونوں عہدے اقوام متحدہ جیسے اہم عالمی فورم پر پاکستان کی بڑھتی ہوئی ساکھ، سفارتی اثر و رسوخ اور انسداد دہشت گردی کے میدان میں اس کے کردار کو تسلیم کرنے کا مظہر ہیں- ان کمیٹیوں کی قیادت نہ صرف پاکستان کے بین الاقوامی تشخص کو مضبوط کرتی ہے بلکہ اس سے ملک کو علاقائی سلامتی، دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور افغانستان کی صورتِ حال میں عالمی پالیسی سازی کا براہ راست حصہ بننے کا موقع بھی ملتا ہے - [22]وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ:
’’یہ پاکستان کے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1988 (2011) کے تحت پابندیوں کی کمیٹی کا چیئرمین، قرارداد 1373 (2001) کے تحت انسداد دہشت گردی کمیٹی کا نائب چیئرمین، اور دستاویزات و پابندیوں سے متعلق غیر رسمی ورکنگ گروپ (IWG) کا شریک چیئرمین مقرر کیا گیا ہے-یہ اہم تقرریاں بین الاقوامی برادری کے پاکستان پر اعتماد اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ہماری صلاحیتوں پر یقین کا ثبوت ہیں، اور یہ اس عالمی خطرے کے خاتمے کے لیے ہماری مضبوط اور غیر متزلزل وابستگی کو تسلیم کرنے کا اظہار بھی ہیں-دہشت گردی کا شکار ہونے والے بڑے ممالک میں شامل پاکستان نے 90,000 سے زائد جانوں کا نذرانہ دیا اور 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان برداشت کیا، اور اس چیلنج کے خلاف ہماری قربانیاں بے مثال رہی ہیں ‘‘- [23]
اختتامیہ :
پاکستان کی خارجہ پالیسی قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ارتقاء کے مراحل سے گزرتی رہی ہے، جس کی بنیاد قائداعظم محمد علی جناح کے اصول، خودمختاری، پرامن بقائے باہمی، اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری اور مظلوم اقوام سے یکجہتی پر استوار ہے- موجودہ عالمی نظام میں جہاں کثیر قطبی طاقتیں، جیوپولیٹیکل تناؤ اور موسمیاتی بحران شدت اختیار کر رہے ہیں- پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ تزویراتی خودمختاری، اقتصادی سفارت کاری اور متوازن علاقائی روابط کو اپنی پالیسی کا محور بنائے- چین، امریکہ، مسلم دنیا اور وسطی ایشیا سے شراکت داری کے ساتھ بھارت سے کشیدگی پر ذمہ دارانہ حل اور افغانستان میں استحکام کا کردار پاکستان کی حقیقت پسند اور فعال سفارت کاری کا مظہر ہے- حالیہ پاک-بھارت کشیدگی اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کمیٹی میں تقرری اس امر کا ثبوت ہے کہ عالمی برادری پاکستان کو ایک ذمہ دار اور پُرامن ریاست کے طور پر تسلیم کر رہی ہے- بھارت مسلسل پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کو فروغ دیتا ہے، لیکن اس فیصلے سے بھارت کا پروپیگنڈا ناکام ہوا ہے- یہ ثابت ہوا ہے کہ پاکستان ایک پُرامن ملک ہے اور خطے میں امن چاہتا ہے- ان حالات میں ایک مربوط، حقیقت پسند اور جمہوری خارجہ پالیسی ہی پاکستان کو داخلی استحکام اور عالمی وقار کی طرف گامزن کر سکتی ہے-
٭٭٭
[1]سرد جنگ کے دوران، پاکستان کے افغانستان اور ایران سے تعلقات خطے کی صورتحال اور نظریاتی اختلافات سے متاثر رہے۔ پاکستان نے سوویت قبضے کے خلاف افغان مجاہدین کی حمایت کی، جبکہ ایران سے تعلقات مغربی بلاک میں شراکت داری اور علاقائی سیکیورٹی تعاون پر مبنی تھے۔ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد نظریاتی اختلافات کے باوجود، پاکستان نے دونوں ممالک سے تعلقات قائم رکھے تاکہ اسٹریٹجک مفادات اور خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنایا جا سکے-
[2]Dar, Farooq Ahmad. “Pakistan’s Foreign Policy in the Light of Quaid-e-Azam’s Vision.” Muslim Perspectives, 2019. Accessed June 4, 2025.
https://www.muslim-perspectives.com/Publication-Detail?publication=72/Pakistan%E2%80%99s-Foreign-Policy-in-the-Light-of-Quaid-e-Azam%E2%80%99s-Vision.
[3]Ministry of Foreign Affairs, Government of Pakistan. “Foreign Policy.” Accessed June 4, 2025.
[4]Hasnat, Iqra. “Pakistan Foreign Policy Challenges: Post US Presidential Election 2024.” The Express Tribune, February 14, 2025. https://tribune.com.pk/story/2528540/pakistan-foreign-policy-challenges-post-us-presidential-election-2024.
[5]University of York. “What Is Foreign Policy?” University of York Online, accessed June 4, 2025.
https://online.york.ac.uk/resources/what-is-foreign-policy/.
[6]Plato, quoted in The Great Thoughts, compiled by George Seldes (New York: Ballantine Books, 1985).
[7]Morgenthau, Hans J. Politics Among Nations: The Struggle for Power and Peace. 5th ed. New York: Alfred A. Knopf, 1978.
[8]Rebecca Kivak, “Soft and Hard Power,” EBSCO Research Starters: Social Sciences and Humanities, published 2025, https://www.ebsco.com/research-starters/social-sciences-and-humanities/soft-and-hard-power.
[9]Carl von Clausewitz, On War, ed. and trans. Michael Howard and Peter Paret (Princeton, NJ: Princeton University Press, 1976)
[10]Rao, Mahum. "Pakistan’s Foreign Policy Challenges in Multipolar World." The Tribune International, June 2, 2025. https://thetribuneinternational.com/2025/06/02/pakistans-foreign-policy-challenges-in-multipolar-world/.
[11]Imran, Areeba. “Trade War Between the US & China: Navigating Pakistan’s Legal Tightrope.” Paradigm Shift, May 8, 2025. https://www.paradigmshift.com.pk/trade-war-us-china/.
[12]Noor, Rida. "Russia-Ukraine Crises and its Impact on Pakistan." Social Science Review Archives 3, no. 1 (2025): 818-828.
[13]Muhammad Amir Rana, “Between China and the US,” Dawn, February 9, 2025, https://www.dawn.com/news/1890769.
[14]Observatory of Economic Complexity. “Pakistan.” OEC - The Observatory of Economic Complexity. Accessed June 5, 2025. https://oec.world/en/profile/country/pak.
[15]Shah, Anwar ul Mustafa, Ahmed Hussain Shah Bukhari, and Ghulam Mustafa Gaho.
Regional Politics and Its Impact on National Stability: A Case Study of Pakistan's Strategic Challenges.
Advance Social Science Archives Journal 3, no. 1 (2025): 1674–1686.
[16]Rick Noack, Christian Shepherd, Haq Nawaz Khan, and Shaiq Hussain, “As Afghanistan and Pakistan Mend Ties, China Could Be the Real Winner,” The Washington Post, June 5, 2025,
https://www.washingtonpost.com/world/2025/06/05/afghanistan-pakistan-relations-china-taliban/.
[17]Clary, Christopher. “Four Days in May: The India-Pakistan Crisis of 2025.” Stimson Center, May 28, 2025.
https://www.stimson.org/2025/four-days-in-may-the-india-pakistan-crisis-of-2025/.
[18]Ahmad El-Assasy. “Pakistan Is Guardian of Peace Yet Resolute to Defend Its Territorial Integrity and Sovereignty: Brutal & Measured Response to Indian Aggression.” See News, May 18, 2025. https://see.news/pakistan-is-guardian-of-peace-yet-resolute-to-defend-its-territorial-integrity-and-sovereignty-brutal-measured-response-to-indian-aggression.
[19]Aleem, Sara. "The Evolving Global Landscape and Challenges for Foreign Policy of Pakistan." Modern Diplomacy, January 14, 2023. https://moderndiplomacy.eu/2023/01/14/the-evolving-global-landscape-and-challenges-for-foreign-policy-of-pakistan/.
[20]Shabbir, Saima. "Pakistan PM Pushes for Deeper Economic and Security Ties with Visiting US Delegation." Arab News, April 9, 2025. https://www.arabnews.com/node/2596384/pakistan.
[21]Zamir Ahmed Awan. “Shahbaz Sharif’s Strategic Diplomatic Tour.” Modern Diplomacy, May 31, 2025. https://moderndiplomacy.eu/2025/05/31/shahbaz-sharifs-strategic-diplomatic-tour/.
[22]BBC Urdu. “Pakistan Gets Appointed Chair of UN Security Council Committees: Reaction in India – BBC URDU.” YouTube video, 3:42. Reported by Khadija Arif, June 5, 2025.
[23]Sharif, Shehbaz. “It is a matter of great pride that Pakistan has been appointed as Chair of UNSC Sanctions Committee under Res.1988(2011)…” X (formerly Twitter), June 5, 2025. https://x.com/CMShehbaz/status/1930582407347900786.