قوتِ اخوتِ عوام

قوتِ اخوتِ عوام

جب تاریخِ انسانی کے اوراق کو پلٹا جائے تو یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ قوموں کی بقا اور ترقی کا راز صرف عسکری طاقت، اقتصادی خوشحالی یا جغرافیائی وسعت میں نہیں، بلکہ ایک ایسی اخلاقی و روحانی طاقت میں پوشیدہ ہوتا ہے جسے ’’اخوت‘‘ کہا جاتا ہے- یہی وہ جذبہ ہے جو افراد کو قوم میں تبدیل کرتا ہے اور ایک منتشر ہجوم کو متحد و منظم قوت میں ڈھال دیتا ہے- اس اخوت کی اصل قوت عوام کی سطح پر پروان چڑھتی ہے-

اخوت کا مفہوم عام طور پر بھائی چارے، ہمدردی، محبت اور یگانگت سے تعبیر کیا جاتا ہے، مگر یہ تصور اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے- یہ ایک ایسی فکری، سماجی اور روحانی بنیاد ہے جو انسان کو انسان سے جوڑتی ہے، دلوں کو قریب لاتی ہے اور ایک اجتماعی شعور پیدا کرتی ہے- اخوت ایک اسلامی اصول ہے جو نسل، زبان، رنگ، قوم، ذات کے تعصبات کو ختم کر کے انسانیت کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے-

اخوت ان تصورات میں شامل ہے جو کسی قوم کی اجتماعی بقاء، فکری وحدت اور روحانی ترقی کا مرکز ہوتے ہیں- اخوت کا عظیم تصورقوم کے دل و اذہان میں ہم آہنگی، ہمدردی اور محبت کا نقش کندہ کرتا ہے جو افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر ایک ناقابلِ تسخیر قوم میں تبدیل کر دیتا ہے- جب یہ جذبہ عوامی سطح پر اپنی اصل روح کے ساتھ زندہ ہو، تو یہی اخوت ایک ’’قوت‘‘ بن جاتی ہے؛ ایسی قوت جو جنگ، بحران، افلاس اور بیرونی سازشوں کے باوجود قوم کو ٹوٹنے نہیں دیتی-

اسلام میں اخوت کی تاریخ مکی دور میں بھی ملتی ہے اور مدنی دور میں بھی ، جہاں دکھ درد اور خوشی کو بانٹنے کے لئے ، مقاصد و ترجیحات کو قائم کرنے اور ان کے حصول کے لئے، عملی جدوجہد سے ایک یقینی نتیجہ اخذ کرنے کے لئے مواخات کا سلسلہ قائم کیا گیا ، کہنے دیکھنے سننے کو تو یہ ایک چھوٹی سی تقریب تھی جس میں مسلمانوں کو مسلمانوں کا بھائی بنایا گیا ، اور یہ سلسلہ آپ (ﷺ) کے بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی قائم رہا- اخوت و بھائی چارے کی مثالیں زمانہ جہالیت کی تاریخ سے بھی ملتی ہیں لیکن جو مواخات آقا پاک (ﷺ) نے قائم فرمائی اس فیصلے کو مسلمانوں نے ایسا قبول کیا کہ اپنی جائیداد میں وراثت کا حق دینے کے لئے بھی رضامند ہو گئے - آقاکریم (ﷺ) کے اس فیصلے کے دور رس نتائج ایسے سامنے آئے کہ مکہ تو ایک قلیل مدت میں فتح ہوا اور اسلام کا بول بالا ہو گیا لیکن مسلمانوں نے روم وایران جیسی سپر پاور ز کو بھی مطیع و فرمابردار بنا لیا - یہ فقط عسکری طاقت کی بدولت نہ تھا بلکہ جذبہ ایمانی اور قوتِ اخوت کے باعث بھی تھا-

قوتِ ا خوتِ عوام ، فقط ایک نعرہ یا مصرعہ نہیں بلکہ ایک نظام کا انتہائی اہم حصہ ہے جو قوموں کی زندگی بناتا بھی ہے اور بگاڑتا بھی- قوت ِ اخوتِ عوام ہمارے عظیم قومی ترانے کا مصرعہ ہے - قومی ترانے کے بارے میں مختصرًا بتاتا چلوں کہ قومی ترانے کی دھن 1949 ءمیں ترتیب دی گئی ، 1952ء میں ابوالاثر حفیظ جالندھری نے قومی ترانہ لکھا ان کا ایک عظیم کارنامہ شاہنامہ اسلام بھی ہے- ایس ایم اکرم کی صدرات میں قائم ہونے والی نیشنل سانگ سلیکشن کمیٹی کے نو ممبران تھے جن میں ابو الاثر حفیظ جالندھری بھی شامل تھے اس کمیٹی میں سردار عبدالرب نشتر، پروفیسر چکرورتی، چودھری نذیر احمد، ذو الفقار علی بخاری، پیرزادہ عبد الستار، اے ڈی اظہر، نسیم الدین شامل تھے- کمیٹی کو 723 ترانے موصول ہوئے جن میں سے کمیٹی نے حفیظ جالندھری، حکیم احمد شجاع اور سید ذو الفقار علی بخاری کے ترانے منتخب کیے- مکمل  جانچ کے بعد حفیظ جالندھری کے ترانے کو دھن کے مطابق عین معیاری قرار دیا گیا- جس کے بعد 4 اگست 1954ء کو مرکزی کابینہ نے حفیظ جالندھری کے ترانہ کو بطور قومی ترانے کے منظور کر لیا- اس سارے عمل میں تقریباً 5سال کا عرصہ لگا -

پاکستان کی تخلیق ہی اس اخوت کے جذبے پر ہوئی جس نے برصغیر کے بکھرے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کر دیا- یہ وہ دور تھا جب قومیت کے جدید تصورات رنگ، نسل، زبان اور جغرافیہ کے پیمانوں سے وابستہ تھے، ٹوپی و تسبیح سے لیس ، محراب و منبر سے، کانگریس کی خوشنودی اور انگریز کی ایما پر ارضی پیوستگی کے راگ الاپے جا رہے تھے ، لیکن مسلمان اپنے الگ تشخص، الگ تہذیب اور الگ روحانی وحدت کے امین ہونے کی معرفت سے بہرمند تھے- وہ پنجاب، بنگال، سندھ، سرحد اور بلوچستان جیسے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے، ان کی زبانیں، رسم و رواج اور ثقافتیں مختلف تھیں، لیکن ان سب کو جو چیز ایک قوم میں ڈھال رہی تھی، وہ اسلام کی مشترکہ تہذیبی و روحانی میراث تھی- یہی وہ تصورِ اخوت تھا جسے علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہٰ آباد (1930)  میں فلسفیانہ بنیاد پر واضح کیا، اور قائداعظم محمد علی جناح نے سیاسی حکمتِ عملی میں ڈھال کر ایک علیحدہ ریاست کی صورت میں حقیقت کا روپ دیا-

یہی تصورِ اخوت آج بھی پاکستان کی روح ہے- یہ ایک ایسی روحانی قوت ہے جو قومی شناخت کا سرچشمہ بھی ہے اور اجتماعی بقا کی ضمانت بھی- جب بھی پاکستان کو کسی بڑے چیلنج، آزمائش یا بحران کا سامنا ہوا، چاہے وہ زلزلے کی تباہ کاریاں ہوں، سیلاب کی یلغار، دہشت گردی کی لہریں، سیاسی افراتفری، یا بھارت جیسے دشمن کی جانب سے درپیش بیرونی خطرات تو پاکستانی عوام نے ہر بار اخوت، ایثار اور اتحاد کی وہ مثالیں قائم کیں جو دنیا کے دیگر معاشروں کے لیے مشعلِ راہ بن سکتی ہیں-

اخوت کا یہی جذبہ ہے جو ایک عام مزدور کو بھی ایک سپاہی کی طرح فرض کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے اور ایک طالب علم کو بھی قوم کے مستقبل کا محافظ بنا دیتا ہے- یہ وہ جذبہ ہے جس کے تحت ایک شہری اپنے محدود وسائل کے باوجود اپنے متاثرہ بھائی کے لیے آہنی دیوار بن جاتا ہے اور ایک قوم بکھرنے کے بجائے آپس میں مزید جڑ جاتی ہے- اخوت کی یہ عملی جھلکیاں ہمیں ہر اُس موقع پر نظر آتی ہیں جب پوری قوم ’’ایک جان، ایک آواز‘‘ بن کر ابھرتی ہے- درحقیقت، یہی ’’قوتِ اخوتِ عوام‘‘ پاکستان کے نظریاتی خدوخال کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور اسے ایک روشن مستقبل کی طرف لے جانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے-

ہمیں وہ وقت یاد ہے جب بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کئے اور پاکستان کو دھمکانے کی کوشش کی لیکن پاکستان نے اس دھونس کو ماننے سے انکار کیا اور بدلے میں چھے ایٹمی دھماکے کئے اور ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا ، قوم میں ایک ایسا جذبہ اخوت دیکھنے کو مل رہا تھا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی - ہر کوئی خوش تھا ، مٹھائیاں بانٹی جا رہی تھیں ، شمشیر و سنان کی تیز دھار کا جشن طاوس ورباب و ڈھول و شہنائی کی گونج میں منایا جا رہا تھا ، پوری قوم یک آواز تھی ، جہاں اپنے سائنسدانوں، پالیسی سازوں اور فیصلہ سازوں کے ترانے گائے جا رہے تھے وہیں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا جا رہا تھا :

واجپائی تیرا شکریہ تو نے سوئی قوم کو جگا دیا !

یہ سونا کیا تھا ، یہ رشتہ اخوت کی ذرا کمزوری تھی، یہ اس بات کو ذرا بھول جانے کا اقرار تھا کہ ہر قیمت پہ ملک و قوم کا دفاع کریں گے، آج ایٹم بم بن گیا، عامی پابندیاں لگ گئیں لیکن رشتہ اخوت مضبوط ہو گیا ، مشکل کو قوم نے ہنس کر سہہ لیا کیونکہ ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے کی اہلیت بڑھ گئی تھی-

کچھ ناعاقبت اندیش قوم سے اسی جذبہ اخوت کو نکالنا چاہتے ہیں، اسے سرد و بے مہر کرنا چاہتے ہیں، علاقائیت کو اجتماعیت پر، انفرادیت کو قومی زندگی پر ترجیح دینا چاہتے ہیں ، اغیار کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، اپنی خودی کو بیچ چکے ہیں، مواخات سے نکل چکے ہیں، اپنی بنیادوں کو الگ کرنا چاہتے ہیں  اور  اپنی میراث کو قبول کرنے سے انکاری ہیں- دشمن ان کے ذریعے قوم سے اخوت و بھائی چارے کے جذبہ حب الوطنی کو نکال دینا چاہتا ہے، مفادات کا کھیل ہے، سوشل میڈیا پر ویڈیو عام ہوئی کہ ہتھیار نہ خریدو ، دو عدد رافیل کے پیسے ان پر لگا دو جو ہماراا ٓلہ کار بن چکے ہیں، اپنے مقاصد حاصل کرلو گے- لیکن یہ نادان جانتے نہیں کہ پاکستانی قوم، قوت اخوت پر کھڑی ہے چاہے سیلاب ہو زلزلے ہوں ، یا کوئی اور آفات دنیا نے دیکھا کہ زلزلہ آیا اتنی امداد کی گئی کہ اعلانات ہوئے کہ اب مزید امداد کی ضرورت نہیں ، حالانکہ موسم کی شدت اپنے عروج پر تھی، دہشتگردی کا مسئلہ اٹھا، یونیورسٹیز میں طلباء نے آئی ڈی پیز طلبا کی فیس اپنے جیب خرچ سے دینا شروع کر دی ، حکومت نے ان کی فیس و دیگر اخراجات منع کر دیئے ، ہاسٹل ان کو دے دئیے گئے، خاندانوں نے ایک ایک خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اٹھا لی،  یہ قوم سکھ میں تھوڑا سہل پسندی کی طرف جاتی جسے دیکھ کر لوگ دو رافیل کی قیمت میں اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ وہ ہیں کہ :

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
 ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں

قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا بھارت نے نہ جانے کس زعم میں آ پریشن سندور لانچ کر دیا- جس کے نتیجے میں پاک فوج نے آپریشن بنیان مرصوص کی صورت میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جسے دنیا نے دیکھا اور اس کا اعتراف کیا- اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام نے بھارتی جارحیت کے خلاف اپنے سیکیورٹی اداروں، حکومت اور ایک دوسرے کے ساتھ جس وفاداری اور اتحاد کا مظاہرہ کیا، وہ ’’قوتِ اخوتِ عوام‘‘ کی سب سے خوبصورت اور قابل دید مثال ہے-

کیونکہ پاکستان کا قومی ترانہ بھی کہتا ہے کہ :

پاک سر زمین کا نظام
قوتِ اخوت ِ عوام
قوم ملک سلطنت
پائندہ تابندہ باد
شاد باد منزل مراد

پاکستان کے قومی ترانے پر بے جا اعتراض کرنے والے دراصل اس ترانے کے عظیم فکری و روحانی پیغام سے خوفزدہ ہیں -

’’قوتِ اخوتِ عوام‘‘ ایک ایسا فکری، روحانی اور عملی تصور ہے جو کسی قوم کی حیاتِ اجتماعی کو نئی جہت دیتا ہے- پاکستان کے عوام میں یہ جذبہ موجود ہے اور وقتاً فوقتاً اس کا مظاہرہ ہوتا رہا ہے- مگر اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اس اخوت کو عارضی مواقع تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اسے ایک مستقل قومی رویہ بنا لیں-ادب، تعلیم، مذہب، سیاست اور میڈیا سب کو مل کر ایسا ماحول تشکیل دینا ہوگا جہاں اخوت صرف نعرہ نہ ہو بلکہ ایک زندہ، متحرک اور فعال سماجی قوت ہو تاکہ منزل مراد کو شاد باد ہو کر پا لیا جائے -

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر