آج کل ذہنی دباؤ، گھبراہٹ، بےچینی، افسردگی، موڈ سؤنگز(mood swings)جیسے الفاظ بہت عام ہو چکے ہیں- یہ الفاظ ہماری روزمرہ گفتگومیں شامل ہوگئے ہیں۔ انہیں نفسیاتی مسائل کہا جاتا ہے - ان مسائل میں گرفتار آج کا انسان بالخصوص نوجوان اس فکر میں مبتلا ہے کہ اسکا کوئی مستقل اور پائیدار حل مل جائے تاکہ اس سے جان بچائی جاسکے-ذہنی کشمکش اور نفسیاتی بحران کے علاج کے لئے جدید سائنس جن ادویات یا تھیراپی[1] کی طرف اس مرض سے نجات کیلئے لے جاتی ہے، اس میں ایک تو زائد خرچ کا ہونا یا ری ایکشن کا ڈر یاطویل مدت کا انتظار یا ادویات کا بارہا یا مستقل استعمال ودیگر عناصر شامل ہیں-
اکیسویں صدی کا انسان جس تیز رفتار، مادی، پرتشویش اور غیر یقینی دور سے گزر رہا ہے، اُس کی نفسیات متزلزل ہوچکی ہے-ٹیکنالوجی میں جدت اور اس کے منفی پہلو، سوشل میڈیا پر بے جا وقت کا ضیاع، لاحاصل مقابلے کی دوڑ، اقدار کا زوال اور روحانیت و مقصدیت سے دوری نے انسان کو عجیب بے چینی، اضطراب، مایوسی، احساسِ کمتری، خودکشی کے رجحانات، تشدد، ذہنی تناؤ اور اضطراری رویوں کا شکار بنا دیا ہے-بات کڑوی ہے مگر سچ ہے کہ مادی ترقی کی دوڑ میں باطن کی سکون گاہ آج نسلِ نو سے کھو چکی ہے- البتہ ان تمام نفسیاتی الجھنوں اور مسائل سے بچنے کی تدبیر کرنے کیلئے ہمیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت سے مکمل رہنمائی ملتی ہے-
اب ہم چند سوالات پر غور کرتے ہیں کہ ذہنی طور پرصحت مند ہونا کیا ہے؟ نفسیاتی مسائل کیا ہوتے ہیں؟ دینِ اسلام اس متعلق کیا کہتا ہے؟اور اس مرض سے ہم کس طرح بچ سکتے ہیں؟
ذہنی صحت اس سکون کا نام ہے جس کے ہونے سے انسان متوازن رہتا ہے- اگر یہ سکون کسی وجہ سے قائم نہ رہے تو کئی مشکلات جنم لیتی ہیں- جسطرح جسمانی صحت کے لئے مناسب غذا ، ورزش، طبی معائنہ اور صفائی کا خیال رکھنا اورروحانی تقویت کے لئے انسان کا عبادت و ریاضت کرنا ضروری ہے ، اسی طرح ذہنی و نفسیاتی صحت کے لئے حقیقت پسندانہ اور کارآمد خیالات کا ہونا، جذبات کو توازن /قابو میں رکھنے کی صلاحیت کا ہوناوغیرہ ضروری ہے- اگر یہ عوامل غیر متوازن اورناہموار ہو رہے ہوں توممکن ہے کہ انسان نفسیاتی مسائل کا شکار ہوکر رہ جائے-
نفسیات (Psychology) کی تعریف:
نفسیات وہ علم ہے جو انسانی ذہن (mind)، رویوں (behavior)، جذبات (emotions)، حواس (perceptions)، عادات (habits) اور شعور (consciousness) کا سائنسی مطالعہ کرتا ہے- یہ فرد کی ظاہری حرکات کے ساتھ ساتھ اس کے باطنی احساسات اور خیالات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے- آکسفورڈ لغت کے مطابق:
’’انسانی ذہن اور اس کے افعال کا سائنسی مطالعہ، خصوصاً وہ افعال جو کسی خاص صورتِ حال میں انسانی رویّے پر اثر انداز ہوتے ہیں-یا پھر کسی فرد یا گروہ کی ذہنی کیفیت، مزاج یا طرزِ فکر کا مطالعہ علمِ نفسیات کہلاتا ہے‘‘-
جان واٹسن لکھتا ہے:
“Psychology is the science of behavior”.[2]
’’نفسیات وہ علم ہے جو انسانی رویے کا مطالعہ کرتا ہے‘‘-
اسی طرح حجۃ الاسلام امام غزالی کے مطابق ’’نفسیات‘‘ صرف سائنسی مشاہدہ نہیں بلکہ روحانی و اخلاقی تطہیر کا راستہ ہے- ابنِ سینا نے بیان کیا:
’’النفس جوہر روحانی یدبر الجسد و یتکامل بالعلم و العمل‘‘[3]
’’نفس ایک روحانی جوہر ہے جو جسم کی تدبیر کرتا ہے اور علم و عمل سے کمال پاتا ہے‘‘-
الغرض نفسیات ایک ایسا علم ہے جو انسانی نفس کے افکار، جذبات، محرکات اور رویوں کا مطالعہ کرتا ہے-
سیرت النبی (ﷺ) کی روشنی میں اِن مسائل کا حل:
آپ (ﷺ) نےارشاد فرمایا:
’’إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق ‘‘[4]
’’ مجھے تو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ میں اخلاق کے اعلیٰ درجے کو مکمل کر دوں ‘‘-
حضور نبی اکرم (ﷺ) نے اپنے قول و فعل سے ثابت فرمایا کہ دلوں کو سکون صرف اللہ کی طرف رجوع، دعا، توازن، عفو، ہمدردی اور مقاصدِ حیات کی وضاحت سے حاصل ہوتا ہے-ہم اس بات سے متفق ہیں کہ انسان کی زندگی میں اُس وقت تک کامل رہنمائی ممکن نہیں جب تک اُس کے سامنے ایک عملی، متوازن اور مکمل نمونہ (Role Model) موجود نہ ہو- اسلام ہمیں ایک زندہ، جامع اور مکمل عملی نمونہ عطا کرتا ہے اور وہ نمونہ بے شک سیرتِ نبوی (ﷺ) ہے-
کہا جاتا ہے کہ نوجوانی انسان کی زندگی کا سب سے نازک، پُرجوش اور فیصلہ کن مرحلہ ہے- یہی عمر انسان کے کردار، شخصیت اور مستقبل کی بنیاد رکھتی ہے لیکن بدقسمتی سے آج کا نوجوان کئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہے- جن میں ذہنی دباؤ (Depression)، احساسِ کمتری(inferiority complex)،مقصدِ حیات کا بحران (life without vision and goal)،مایوسی و خودکشی(suicidal thoughts or despair)، بے راہ روی وغیرہ شامل ہیں- غور کریں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے نوجوانوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور ان کی نفسیاتی کیفیات کو سمجھتے ہوئے اصلاح فرمائی-
ذہنی دباؤ (Depression):
ذہنی دباؤ ایک کیفیت ہے جس میں انسان شدید غم، مایوسی، تھکن، بے بسی، بیزاری اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے- یہ کیفیت انسان کو اپنے رب سے اور خود سے بدظن کر دیتی ہے- قرآن مایوسی سے بچنے کی تلقین فرماتا ہے-انسانی سوچ جب میزان کے پلڑوں کو برابر نہ رکھ پائے تو یا تو وہ بہت مثبت (optimistic) ہوجاتی ہے یا تو بہت منفی (pessimistic) - لیکن اسلام بندے کو خوف و رجاء کے درمیان رہنے کا حکم دیتا ہے اور مایوسی کو کفر بتلاتا ہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’قَالَ وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ‘‘[5]
’’اور اپنے رب کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی نا امید ہوتے ہیں‘‘-
مزید حکم فرمایا گیا ہےکہ صبر اور نماز کے ذریعے سکون تلاش کیا جائے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ‘‘[6]
’’صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگو‘‘-
صبر اور نماز دونوں نفسیاتی مضبوطی کے اہم ذرائع ہیں- نماز انسان کو اللہ سے جوڑتی ہے اور صبر ذہنی استقامت دیتا ہے-
رسول اللہ (ﷺ) نے امت مسلمہ کو غم سے بچنےکی دعا سکھائی ہے -آپ(ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:
’’اے اللہ! میں تیرے پاس پناہ مانگتا ہوں: غم و اندوہ سے، کمزوری و سستی سے، بخل و بزدلی سے، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے‘‘-[7]
اسی طرح مصیبت پر صبر کا اجر بیان فرمایا تاکہ بندہ مومن باطنی طور پر کمزور نہ پڑے اور اس کی قوت ارادی (will power) مضبوط رہے- حدیث پاک ہے:
’’مومن کے ہر معاملے میں خیر ہے... اگر اسے خوشی ملتی ہے تو شکر کرتا ہے، اگر مصیبت پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے، اور یہ اس کے حق میں بہتر ہے‘‘-[8]
رسول اللہ (ﷺ) نے انسانی ذہن کو ششدر ہونے سے بچانے کے لئے توبہ، دعا اور توکل کی ترغیب فرمائی ہے- حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان ہے:
’’جو استغفار کو لازم پکڑ لے، اللہ تعالیٰ ہر تنگی سے اس کے لیے نجات کا راستہ بنا دیتا ہے‘‘-[9]
احساس کمتری:
احساسِ کمتری (Inferiority Complex) یہ ہے کہ انسان اپنی ذات سے نفرت، دوسروں سے حسد، ناکامی کا خوف اور خود کو کمتر سمجھنے پر مجبور کرتا ہے-اسکی چند وجوہات یہ ہوسکتی ہیں:
- مسلسل ناکامی یا تنقید
- دوسروں سے موازنہ
- معاشرتی دباؤ
- غربت یا رنگ و نسل کا احساس
- روحانیت سے دوری اور خود اعتمادی کی کمی
احساسِ کمتری دراصل اللہ کی عطا کی گئی عزت کو نہ پہچاننے کا ہی تو نتیجہ ہے- انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے- جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘[10]
’’یقیناً ہم نے انسان کو بہترین انداز (قامت و فطرت) میں پیدا کیا‘‘-
احساسِ کمتری اس حقیقت سے لاعلمی یا انکار ہے- اسی طرح دیکھا جائے تو قرآن حکم دیتا ہے کہ نسب، رنگ یا مال کی بنیاد پر فخر یا شرمندگی نہیں کرنی چاہئے- جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ ‘‘[11]
’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے‘‘-
احساسِ کمتری کی وہ بنیادیں جو ظاہری فرق پر مبنی ہیں، اسلام میں بے وقعت ہیں- اسی طرح کسی کو بھی کسی پر فضیلت نہیں- جیسا کہ فرمان مبارک ہے:
’’کسی عربی کو عجمی پر، اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر، اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے‘‘-[12]
اسی کے ساتھ ساتھ خودی (Self-Respect) کی تلقین فرماتے ہوئے آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’طاقتور (بااعتماد و مضبوط) مؤمن اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے کمزور مؤمن سے‘‘-[13]
ہر انسان اللہ کی مخلوق ہے اور قابلِ عزت ہے- ظاہری چیزوں میں برتری یا کم تری سے غرض نہیں بلکہ تقویٰ، عمل اور نیت ہی اصل معیار ہیں-
حقیقت حیات سے لاعلمی:
نوجوان اکثر زندگی کو بے مقصد سمجھتے ہیں جس سے مایوسی اور لایعنی پن پیدا ہوتا ہے- بے مقصد زندگی ایک ایسا روحانی، نفسیاتی اور معاشرتی بحران ہے جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے-
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘[14]
’’پس جان لو (معرفت حاصل کرو) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘-
یہاں’’اَعْلَمْ‘‘ کا لفظ ’’علم و معرفت‘‘ کی طرف دعوت ہے- ایسی دعوت جس میں صرف عقیدہ نہیں بلکہ شعوری معرفت اور کامل یقین بھی مراد ہے- اہل معرفت نفسیاتی طور پر مضبوط ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ایک مقصد ہوتا ہے اور یہ مقصد ان کو تقویت بخشتا ہے -
اسی طرح فرمایا گیا:
’’بہترین علم اللہ کی معرفت ہے‘‘-[15]
معرفتِ الٰہی سےمومن کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے معمور ہو جاتا ہے- اسی کے برعکس جو اس سے محروم ہو، وہ بے سکون، مضطرب اور مایوس رہتا ہے اورزندگی محض خواہشات کی پیروی کا نام بن جاتی ہے- قرآن پاک اس کے بارے میں بیان کرتا ہے:
’’وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا‘‘[16]
’’اور جو میری یاد سے منہ موڑے گا، اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی‘‘ -
بے راہ روی اورفحاشی:
اسلامی تعلیمات میں بے راہ روی اور فحاشی کو سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو کمزور کرتے ہیں اور روحانی و نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ‘‘[17]
’’جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کیلئے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘-
حدیث مبارک میں فرمایا گیا:
’’الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ‘‘[18]
’’شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ) ایک اور مقام پر فرمایا:
’’يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ‘‘[19]
’’اے نوجوانوں کے گروہ! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو، وہ نکاح کرے‘‘-
اسلام میں زنا سے بچنے کا بہترین حل نکاح ہے- ہمیں چاہیے کہ ہم نکاح کو آسان اور سستا بنائیں- ٹی وی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر فحش مناظر سے بچاؤ کے لیے تربیت، مکمل نگرانی اور روحانی تعلیمات کا فروغ ضروری ہے-
حرف آخر:
آج کا دور نفسا نفسی کا دور ہے- جہاں ذہنی دباؤ، احساسِ کمتری، اضطراب اور بے مقصدیت عام ہو چکی ہے- جدید نفسیات کے مطابق ان مسائل کے اسباب میں بچپن کے تجربات، سماجی دباؤ، شناخت کا بحران اور میڈیا کے غیر حقیقی معیارات شامل ہیں- ایسے میں روحانی اصلاح ناگزیر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ نفسیاتی امداد، سماجی رہنمائی اور ادویاتی مشورہ بھی ضروری ہو چکا ہے- نسلِ نو اگر ان مسائل سے دوچار ہوجائے تو اسے ایسے ماہرینِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے جو جدید سائنسی طریقوں کے ساتھ دینی شعور رکھتے ہوں تاکہ علاج میں توازن قائم رہے-
قرآن کریم اور سیرتِ نبوی (ﷺ) ایسے اخلاقی اور روحانی رہنما اصول فراہم کرتے ہیں جو ذہنی سکون، خودی کی بحالی اور مقصدِ حیات کے تعین میں مددگار ثابت ہوتے ہیں- اگر ان اصولوں کو جدید نفسیاتی بصیرت کے ساتھ جوڑا جائے تو ایک ایسا ہمہ جہتی فکری و عملی نمونہ سامنے آتا ہے جو نوجوان نسل کو نہ صرف نفسیاتی بحران سے نکال سکتا ہے بلکہ انہیں ایک باوقار، بامقصد اور متوازن زندگی کی جانب بھی رہنمائی دے سکتا ہے-
٭٭٭
[1]یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہر انسان کی حالت اور اس کی طبیعت کی سنجیدگی کی بنا پر یہ مراحل پیش آتے ہیں اور ہم اسے ہر گز غلط نہیں سمجھتے بلکہ عین ضرورت مانتے ہیں-
[2]Watson, J. B. (1913).
Psychology as the behaviorist views It. Psychological Review, 20(2), 158-177.
[3]کتاب الشفاء، ابن سینا، حصہ: النفس
[4]موطا امام مالک
[5]الحجر: 56
[6]البقرہ: 45
[7]صحیح بخاری، رقم الحدیث: 6369
[8]صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2999
[9]سنن ابی داؤد،رقم الحدیث: 1518
[10]التین: 4
[11]الحجرات: 13
[12]مسند احمد، رقم الحدیث: 23489
[13]صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2664
[14]سورہ محمد(ﷺ): 19
[15]احیاء علوم الدین
[16]طہ:124
[17]النور: 19
[18]صحیح بخاری، رقم الحدیث: 24
[19]صحیح بخاری، رقم الحدیث: 5065