فصوص الحکم کی شروحات پر ایک نظر

فصوص الحکم کی شروحات پر ایک نظر

فصوص الحکم کی شروحات پر ایک نظر

مصنف: وسیم فارابی اکتوبر 2025

پیش لفظ:

ایک مفکر کی فکر سب سے پہلے تخیلات و تصورات کے مقام پر ظاہر ہوتی ہے جس کا اظہار بعد میں الفاظ کی صورت میں ہوتا ہے-یہ ایک یونیورسل لاء ہے اور اس میں جو سمجھنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ فکر ہمیشہ سراپا معنی ہی ہوتی ہے، بالفاظ دیگر فکر مغز  اور گودے کی مانند ہوتی ہے-اس (یعنی معنی )کا اظہار دو طریق سے ہوتا ہے ، ایک الفاظ کی صورت میں اور ایک بغیر الفاظ کے-معنی کو بغیر الفاظ کے دوسرے تک پہنچانا، یہ طریقہ اہل اللہ کے ہاں مروج ہے-جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :

مرشد ہادی سبق پڑھایا بن پڑھیوں پیا پڑھیوے ھو
انگلیاں وچ کناں دے دتیاں بن سنیوں پیا سنیوے ھو
نین نیناں ول تُر تُر تکدے بن ڈٹھیوں پیا ڈسیوے ھو
باھوؔ ہر خانے وچ جانی وسدا کن سر اوہ رکھیوے ھو

دیکھا کہ ابھی پڑھا یا نہیں، لیکن پڑھا جا رہا ہے،ابھی سنایانہیں ، لیکن سنا جا رہا ہے ، ابھی دکھایا نہیں ، لیکن دیکھا جا رہا ہے ، یہ وہ بازار ِمحبت ہے ، جہاں حواس کو دخل نہیں ہوتا -میرا اس وقت موضوع یہ ہے کہ معنی کو الفاظ کی صورت میں بیان کرنا -لہٰذا، ایک مفکر کے پاس اس کی فکر ایک جامع صورت میں ہوتی ہے یعنی اس فکر کا جوہر (معنی) اور اس کی صورت (الفاظ) ایک ہی مقام پر یکجا ہوتے ہیں- یہی وہ نکتہ ہے جو ایک شارح یا مترجم کیلئے محنت طلب اور دشوار مرحلہ بن جاتا ہے کہ ایک فکر کی صورت کو کسی دوسری صورت (زبان یا شرح) میں کس طرح تبدیل کیا جائے کہ اس کا جوہر برقرار رہے-کیونکہ وہ پہلے ایک قاری ہے اور پھر ایک شارح ہے، ایک قاری جب کسی متن کو پڑھتا ہے تو اس متن کے معنی پر اس کی اپنی فکری بناوٹ ضرور اثر انداز ہوتی ہے - اس لیے ایک شارح کا کمال ہی یہی ہے کہ وہ جوہر کو تبدیل کیے بغیر صورت کو بدل دے- دوسری بات یہ کہ ایک مفکر سوچ سمجھ کر اپنے الفاظ اور اصطلاحات کا چناؤ کرتا ہے- اگر اس کی اصطلاحات مشکل ہیں تو ایک شارح کا کام ان کو آسان بنانا نہیں بلکہ قابل فہم بنانا ہے- شیخ الاکبر ابنِ عربیؒ نے تو خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ انہوں نے کسی مقصد کے تحت اپنے افکار کو ایک خاص صورت میں پیش کیا ہے- اس لیے، مفکر کی اصطلاحات کا دھیان رکھنا شارح اور مترجم دونوں کیلئے بہت ضروری ہے- ان کا کام قاری کو مفکر کی فکری سطح پر لانا ہے نا کہ مفکر کو قاری کی فکری سطح پر-جیسا کہ صنوبر بلند و بالا پہاڑیوں پر ہی زیادہ جچتا ہے -

راقم الحروف نے یہ تمہید اس لیے پیش کی ہے تا کہ اس معیار کو مختصرا بیان کر دیا جائے جس کی بنیاد پر فصوص الحکم کی شروحات کا جائزہ لیا گیا ہے- اس کے ساتھ ساتھ، شیخ کے اسالیب اور مقاصد کو بھی سامنے رکھا گیا ہے تا کہ ہر شرح کا ایک مختصر اور جامع تجزیہ پیش کیا جا سکے- یوں تو فصوص الحکم کی کئی زبانوں میں بہت سی شروحات ہیں لیکن اس مضمون میں مجھے ’’منتخب‘‘ پہ ہی اکتفاء کرنا پڑ رہا ہے جن شروحات و تراجم کا تعارف نہیں آسکا مجھے اُس کا دکھ ہے ، لیکن ، وہ سب کسی جگہ تفصیل میں شامل ہونے کے قابل ہیں-

1- صدر الدین قونویؒ: الفکوک فی اسرارِ مستندات حِکَم الفصوص

صدر الدین قونویؒ (1207-1274) ابنِ عربیؒ کے شاگردِ خاص تھےاور شیخ کی صحبت میں تربیت بھی پائی- قونوی شیخ کے افکار کے سب سے پہلے شارح بھی تھے-شیخ کی وفات کے بعد وہ مولانا جلال الدین رومیؒ (1207-1273) کی وفات تک ان کی صحبت میں رہے -قونوی کے بہت سے شاگرد ہوئے جن میں مؤیدالدین الجَندی، عفیف الدین طلمسانی ، سعید الدین فرغانی اور فخر الدین عراقی کے نام مشہور ہیں- قونوی نے فصوص الحکم کی سب سے پہلی شرح لکھی اور اس شرح اور ان کی دیگر کتب کا ابنِ عربی کے آنے والے شارحین پر واضح اثر نظر آتا ہے- شیخؒ کے نظریات کی نہ صرف ترویج بلکہ ان کی فہم میں قونویؒ کا اتنا بڑا کردار ہے کہ مولانا جامی ؒلکھتے ہیں:

’’صدر الدین قونوی کے افکار کو پڑھے بغیر، ابنِ عربی کے وحدت الوجود سے متعلق افکار کوکسی ایسے طریقے سے سمجھنا نا ممکن ہے جو عقلی اور شرعی لحاظ سے درست ہو‘‘-[1]

الفکوک میں بنیادی طور پر قونوی نے فصوص الحکم کے ہر باب میں موجود اہم اور پیچیدہ نکات کی تشریح کی ہے - الفکوک کی فصوص الحکم کی شروحات میں اہمیت یہ ہے کہ بعد میں لکھی جانے والی شروحات اس سے بہت زیادہ متاثر ہوتی چلی گئیں- الفکوک کا اندازِ بیان صوفیانہ کم اور فلسفیانہ زیادہ ہے حالانکہ فصوص کے متن کو سامنے رکھا جائے تو شیخ ابن عربؒی قرآن، حدیث، آثارِ صحابہ اور صوفیائے کرام کی اقوال کو بنیاد بنا کر اپنا مدعا ثابت کرتے ہیں- مثلاً ، شیخ اعیانِ ثابتہ کی جب بات کرتے ہیں تو اسے کسی فلسفیانہ روایت یا اصطلاح میں بیان کرنے کی بجائے علمِ الٰہی سے جوڑتے ہیں کہ اعیانِ ثابتہ ہر موجود کی وہ حقیقت ہیں جو علمِ الٰہی میں ازل سے ہیں- ہر موجود اسی حقیقت کے مطابق جہان میں ظاہر ہوتا ہے- جبکہ صدر الدین قونوی اس کی وضاحت کرتے ہوئے اسے ابنِ سینا کے وجودی فلسفے کے تصور ِماہیت سے بھی جوڑتے ہیں-

اگر کوئی اس کا یہ مطلب لیتا ہے کہ صدر الدین قونوی چونکہ شیخ ؒکے شاگردِ خاص تھے تو اس لیے انہوں نے شیخؒ سے ہی یہ اندازِ شرح لیا تو یہ سراسر بے بنیاد بات ہوگی- قونوی نے الفکوک کے مقدمہ میں ہی یہ بات واضح کر دی ہے کہ انہوں نے شیخؒ سے صرف فصوص کے مقدمے کی شرح سیکھی تھی جبکہ بقیہ شرح ان کی اپنی ہے- تو اب سوال یہ ہے کہ قونوی کے فلسفیانہ جھکاؤ کی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں- پہلی وجہ یہ کہ قونوی نے یہ شرح اپنے حلقہ ارادت کے کہنے پر لکھی تھی جنہیں فصوص کو سمجھنے میں دشواری آرہی تھی- شیخ اور قونوی دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اس کتاب کی کما حقہٗ فہم کیلئے روحانی پاکیزگی اور کشف ناگزیر ہیں- مگر جن لوگوں نے قونوی سے شرح لکھنے کی درخواست کی ان کے پاس کشفی فہم تک رسائی ہوتی تو وہ شرح کی درخواست ہی کیوں کرتے؟ لہٰذا، صدرالدین قونوی نے شرح کرتے ہوئے اسے فلسفے میں ڈھالنے کی کوشش (Philosophization) کی تا کہ انہیں عقلی طریقے سے کچھ حد تک سمجھایا جا سکے جس سے وہ (حلقہ ارادت) خود اچھے سے واقف ہیں- اس کی بہترین مثال عین القضاۃ ہمدانی کی کتاب ’’زبدۃ الحقائق‘‘ہے جس میں انہوں نے روحانی حقائق کو سمجھانے کیلئے فلسفیانہ دلائل کا استعمال کیا ہے-

دوسری وجہ یہ ہے کہ قونوی فلسفے میں بہت زیادہ شغف اور مہارت رکھتے تھے ان کی خواہش بھی تھی کہ کسی طرح شیخؒ کے نظریات اور فلسفیانہ افکار میں تطبیق کی راہ پیدا کی جائے - اسی لیے صدرالدین قونوی کی اپنے دور کے ابنِ سینا کے فلسفے کے ماہر اور مبلغ نصیر الدین طوسی (1201-1274) کے ساتھ اس حوالے سے خط و کتابت بھی چلتی رہتی تھی- قونوی کی اس کاوش کی وجہ صرف ان کا فلسفے سے شغف ہی نہیں تھا بلکہ (کچھ محققین کے نزدیک) اس کی خاص وجہ شاید ابنِ عربی کے نظریات کو اہلِ تصوف تک محدود نہ کرنا تھا- اس کا فائدہ ہمیں نظر بھی آرہا ہے کہ نہ صرف آج بلکہ صدیوں سے شیخؒ کے قاری نہ صرف صوفی بلکہ فلسفی بھی رہے ہیں-ابنِ عربی کے نظریات کو فلسفے میں شامل کر کے باقاعدہ طور پر پڑھانے کا رواج بھی صدرالدین قونوی کی اس کاوش سے پیدا ہوا-

2- مؤیدالدین الجَندی: شرح فصوص الحکم

مؤیدالدین الجَندی، صدر الدین قونوی کے شاگرد تھے- انہوں نے شیخؒ کی کتب فصوص الحکم اور مواقع النجوم کی شروح لکھیں - الجَندی کی شرح فصوص الحکم بعد میں لکھی جانے والی شروحات کا ماخذ سمجھی جاتی ہے کیونکہ الجَندی کی شرح بہت زیادہ مفصل اور طویل ہے- الجَندی نے ایک ایک اصطلاح اور نکتے کی سینکڑوں صفحات کی شرح بیان کر کے شرح کو بہت ہی ضخیم بنا دیا ہے- شاید اسی وجہ سے الجَندی کی شرح اتنی عام نہیں ہوئی- الجَندی کی شرح کو یہ اہمیت بھی حاصل ہے کہ شیخ ؒ نے فصوص کے خطبے کی جو شرح صدر الدین قونوی کو بیان کی تھی وہ اس شرح کے مقدمے میں تفصیل سے موجود ہے کیونکہ الجَندی کو صدر الدین قونوی نے وہ شرح خود املا کروائی - تو اس طرح الجَندی کی شرح کی صورت میں شیخ ؒکے خطبے کی شرح آج تک محفوظ ہے-

الجَندی شرح کرتے ہوئے متن کی مشکلات کو حل کرنے اور اس میں ربط پیدا کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دیتے- انہوں نے فصوص کی ایسی شرح کی ہے جس میں ما بعد الطبیعاتی اور کونیاتی پہلو کھُل کر سامنے آتے ہیں بالخصوص عالمِ مثال اور اس کے حقائق کو مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے-

3- عبدالرزاق الکاشانی: شرح الکاشانی

عبد الرزاق الکاشانی، مؤید الدین الجَندی کے شاگرد تھے- انہوں نے اکثر تشریحات اور تفاصیل الجَندی سے ہی لی ہیں لیکن اس کے باوجود اس میں الکاشانی کی انفرادیت نمایاں نظر آتی ہے -

 الکاشانی نے اپنے اسلوب میں فلسفیانہ دلیل اور صوفیانہ تعلیمات دونوں کو شامل کرتے ہوئے قاری کو علم و حکمت کے درمیان تعلق سمجھانے کی کوشش کی ہے- انہوں نے اصطلاحات کی وضاحت، روحانی مفاہیم کی تشریح اور فلسفیانہ دلائل پیش کیے ہیں تاکہ قاری شیخؒ کے پیچیدہ افکار کو مرحلہ وار سمجھ سکے- الکاشانی نے فلسفیانہ اور روحانی نقطۂ نظر کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ صرف نظریاتی مطالعہ تک محدود نہ رہے، بلکہ قاری کو روحانی بصیرت اور تجرباتی فہم کی طرف بھی رہنمائی فراہم کرے-مگر وہ اس توازن کو برقرار نہیں رکھ پاتے، وہ کئی مقامات پر آہستہ آہستہ شیخؒ سے دور اور ابنِ سینا کے قریب جاتے دکھائی دیتے ہیں - مثال کے طور پر وہ، روحانی مشاہدات، صوفیانہ اقوال، عقلِ اول اور وجودی حقائق کی تشریح کرتے ہوئے تقریباً فلسفی ہی بن جاتے ہیں- ابنِ سینا کے تصوف، عقلِ اول اور وجود سے متعلق نظریات سے واقف قاری آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ یہ شیخِ اکبر نہیں بلکہ ابنِ سینا ہے جو ان کے قلم سے اپنا اظہار کر رہا ہے-

شیخ کے علمی نظام (System of Knowledge) سے متعلق ایک اصول ذہن نشین کر لیں کہ جب بھی شیخ کے نظریات کی تشریح کیلئے کسی عقلی تفہیمی نظام پر مکمل انحصار کیا جائے گا یا ان کے نظریات کی تشریح کے لئے تخفیفانہ (Reductionist) طریقہ اختیار کیا جائے گا تو نہ صرف شیخؒ کے نظریات بلکہ شیخؒ کا پورا نظام ہی بے معنی (Absurd) ہو جائے گا- یہ اپنا روحانی اور تربیتی اثر کھو دے گا جو شیخ کا بنیادی مقصد ہے - یہ نظام ایک ایسے فلسفے میں تبدیل ہو جائے گا جس میں کوئی باقاعدہ ربط نہیں ہے اور نہ ہی کوئی واضح طریقِ تحقیق ہے- ان تمام نقائص کے باوجود، عبدالرزاق کاشانی کی تشریح شیخؒ کے افکار کی فکری تفہیم کیلئے ایک معتبر ماخذ ہے جس سے آنے والے شارحین اور قاری دونوں مستفید ہوئے ہیں-جدید دور میں پروفیسر لوری کا، کاشانی پر کام اس کی بہترین مثال ہے - [2]

4-شرف الدین داؤود قیصری: مطلع خصوص الکَلِم فی معانی فصوص الحکم

داؤود قیصری(1260-1350)، الکاشانی کے شاگرد تھے- قیصری کی شرح ایک امتیازی مقام رکھتی ہے- متعدد محققین، شیخؒ کے افکار پر قیصری کی مہارت کی تصدیق کرتے ہیں اور انہیں اس علم کا بہت بڑا عالم مانتے ہیں- اس لیے کہ وہ نہ صرف صوفیانہ و کلامی افکار پر عبور رکھتے تھے بلکہ وہ خود بھی ایک کامل صوفی تھے- اس لیے پیش لفظ میں جو معیار بیان کیا گیا ہے یہ شرح اس معیار کے انتہائی قریب ہے- انہوں نے عرفان و تصوف کی اصطلاحات و اشارات کو کلامی مباحث کے ساتھ ملایا ہے تاکہ یہ تاثر نہ جائے کہ شیخ کے افکار شرع کے خلاف ہیں- قیصری نے فصوص الحکم میں شیخ کے اختیا کردہ اسالیب یعنی عربی زبان کے منفرد استعمال پر مبنی تاویل اور اعتبار؛ تخیل؛ تمثیلات؛ قرآنی آیات، احادیث اور صوفیانہ اقوال کی تشریح اور دیگر نظری و فکری علوم کے نظریات کے استعمال، کی بہترین عکاسی کی ہے- اتنے عرصے کے زمانی فاصلے کے باوجود بھی یہ شرح قاری کو اتنی زیادہ روحانی و فکری گنجائش دیتی ہے کہ قاری قدرے محنت سے شیخ ؒکے نظریات کو قریب سے قریب تر ہو کر جان سکتا ہے-

اس شرح کا ایک امتیاز اس کا مقدمہ ہے- یہ مقدمہ شیخ کے نظریات اور تصوف کو سمجھنے کیلئے اتنا مفید ہے کہ اس کی الگ شرو حات لکھی جا چکی ہیں-[3] قیصری مقدمے کے آغاز میں ہی بنیادی مشکلوں کو انتہائی سادہ اور قابل فہم انداز میں واضح کر دیتے ہیں جو فصوص کے قاری کیلئے مسائل پیدا کر سکتے ہیں-انہوں نے فصوص الحکم کو عین اس مقدمے پر کھڑا کیا جو کہ ایک کلی حیثیت میں دین اسلام کا مقدمہ ہے جو انسان کی طبیعی اور روحانی دونوں اطراف کو جامعیت سے مخاطب کرتا ہے- یہ ایسی جامعیت ہے جہاں انسان محض ایک حیوان ناطق یا روحانی مخلوق نہیں رہتا بلکہ انسان اپنی وجودی حیثیت سے جو قابلیتیں رکھتا ہے وہ سب اس میں شامل ہوجاتی ہیں- جب ایسی جامعیت سے کوئی حکم لگایا جاتا ہے تو وہ طبیعی ، روحانی، فکری، سیاسی و سماجی تمام اطراف پر برابر طور پر اثر انداز ہوتا ہے- اس لیے قیصری کا بنیادی مقدمہ یہی ہے کہ ایسی ہی جامعیت شیخ کے ہاں بھی واضح طور پر پائی جاتی ہے جسے سمجھنا انتہائی ضروری ہے-شاید یہی وجہ ہے کہ قیصری کا مقدمہ اور اس کی شرح درسگاہوں میں تدریسی نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا رہا ہے اور ابھی تک بھی مراکش ، تیونس وغیرہ میں پڑھایا جاتا ہے- دیگر زبانوں بالخصوص فارسی، اردو اور انگریزی میں فصوص الحکم پر ہونے والے کاموں میں قیصری کے مقدمے اور شرح کو مرکزی حیثیت حاصل ہے-

5- نورالدین عبدالرحمٰن جامی: شرح الجامی

نور الدین عبد الرحمٰن جامی (1414-1492) علمی و صوفیانہ میدان میں عظیم مقام رکھتے ہیں- مندرجہ بالا شروحات صدرالدین قونوی کی پیروی میں لکھی جانے والی شروحات ہیں اور انہیں قونوی کے علمی شاہکاروں میں ہی شامل کیا جاتا ہے کیونکہ داؤود قیصری سے پیچھے تک یہ سلسلہ صدرالدین قونوی پر اختتام پذیر ہوتا ہے- امام جامی کی شرح اس سلسلے کی کڑی نہیں ہے لیکن امام جامی کا اہم پہلو یہ ہے کہ ان کو پچھلی تمام شروحات پر کافی گہری اور محققانہ دسترس حاصل تھی - جامی نے اپنی علمی و روحانی قابلیت کی بنیاد پر اس شرح میں اضافہ ضرور کیا ہے لیکن وہ اکثر مقامات پر داؤود قیصری سے لے کر صدرالدین قونوی تک ہر کسی سے کچھ نہ کچھ ضرور لیتے ہیں-اس لیے جامی کی شرح کو درج بالا شروحات کا خلاصہ بھی کہا جا سکتا ہے-

ہر شارح کی طرح جامی کی بھی کوشش یہی تھی کہ فصوص کے مشکل اور مبہم افکار کو عام فہم و تدریسی شکل میں پیش کیا جائے- ان افکار میں وحدت الوجود، تنزیہ و تشبیہ، ظہورِ حق، فرق مابین حق و خلق کلیدی اہمیت کے حامل ہیں- انہوں نے نہ صرف شیخ ابنِ عربیؒ بلکہ قونوی، الجندی، کاشانی، قیصری وغیرہ کے بہترین نکات کو اختصار سے جمع کیا اور بعض مقامات پر مفصل عبارت یا اصل تشریحات کو بالکل ویسے ہی نقل کیا تاکہ ابنِ عربیؒ کے رموز پڑھنے والوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوں-

6-عبدا لغنی نابلسی: جواہر النصوص فی الحل الکلمات الفصوص

عبدالغنیٰ نابلسی(1641-1731) دمشق کے جلیل القدر صوفی و مفسر تھے جنہوں نے فصوص الحکم کی روایتی انداز سے ہٹ کر شرح کی- ان کا تشریحی طرز ایسا ہے کہ انہوں نے فصوص کے اصل متن کی عبارات پر براہِ راست تشریح و وضاحت کی ہے- اس طرز نے ان کی شرح کو ایک ایسی منفرد شرح بنا دیا جو قاری کو اصل عبارت میں رہتے ہوئے اس کے راز و معانی سمجھنے میں مدد دیتی ہے- ان کے اس تشریحی طرز کو شیخ ؒکے مغربی محققین جیسا کہ Andrew Lane اور Henry Corbin نے بہت سراہا ہے - [4]

نابلسی نے اپنی شرح کے مقدمے میں واضح کیا ہے کہ اس سے پہلے لکھی گئی شروحات( قونوی، کاشانی یا قیصری وغیرہ) اہل کشف یا تجربہ کار افراد تک محدود رہ گئیں جبکہ ایک عام قاری جو کشفی علم نہیں رکھتا یا جسے تدریسی طور پر ان شروحات کے پڑھنے کا موقع ملا ( جن میں مخالفین کی تعدارد زیادہ ہے) ان کیلئے ایسی شرح کا موجود ہونا ضروری تھا تا کہ ان تک بھی شیخؒ کے نظریات ایسی صورت میں پہنچ سکیں جو قابل فہم ہو اور جس میں اعتراض کی گنجائش بھی نہ ہو- اس بنیاد پر انہوں نے ایک ایسی تشریح لکھنے کی نیت کی جو ایسے قارئین کے سامنے واضح کرے کہ شیخ کے نظریات اصولی، کلامی، قرآن اورحدیث کی بنیاد پر قائم ہیں-

نابلسی کا تشریحی طرز پانچ طرح سے انفرادیت رکھتا ہے- پہلا یہ کہ انہوں نے انبیاء کے روحانی مراتب اور شیخؒ کے ان سے متعلق نظریات پر محققانہ بحث کی ہے- دوسرا یہ کہ انہوں نے قرآن و حدیث کو اس طریقے سے استعمال کیا ہے جو کہ شیخ ؒکے طریقے سے مختلف ہے اور اس میں قرآنی آیات و حدیث کے سیاق و سباق کا خاص خیال رکھا گیا ہے- تیسرا یہ کہ شیخؒ کی اصطلاحات، تشبیہات اور استعاروں کی عقلی تفہیم کرتے ہوئے بہت احتیاط کی گئی ہے تا کہ اس کا کوئی ایسا معنی مراد نہ لیا جائے جو شیخؒ کے نظریات سے متضاد ہو- چوتھا یہ کہ انہوں نے کلامی و فلسفیانہ نکات کی تحدید کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے-یعنی انہوں نے علمِ  الکلام (یعنی عقائد سے متعلقہ بحثیں) اور فلسفہ کے نکات کو واضح دائرے میں لانے، ان کی حدود متعین کرنے اور انہیں مبہم یا لا محدود بحثوں سے بچانے کی کوشش کی ہے اس حوالے سے نابلسی کی شرح کاشانی کی شرح سےبالکل مختلف ہے، یہ خوبی نابلسی کو کاشانی سے بہت زیادہ منفرد بنا دیتی ہے- پانچواں یہ کہ انہوں نے فصوص کے ان مسائل کو حتیٰ الامکان حل کرنے کی کوشش کی ہے جو مخالفین کی بنیادی وجہ تنازع ہیں - اس طرح کے دیگر متفرد مسائل کو نابلسی نے منطقی و فقہی استدلال سے حل کرنے کی ایسی کوشش کی ہے جو کہ قابل ستائش ہے-

7- اسماعیل حقی بُرصوی: روح الحکم فی شرح فصوص الحکم

اسماعیل حقی (1653 – 1725) عثمانی دور کے نامور عالم اور صوفی تھے- ان کی شرح عثمانی دور کی ممتاز شروحات میں شمار ہوتی ہے- جس طرز پر انہوں نے قرآن کی تفسیر ’’روح البیان‘‘لکھی ہے بالکل اسی طرز پر انہوں نے فصوص کی تشریح لکھی ہے- قیصری کے بعد اسماعیل حقی کی شرح پیش لفظ میں دیے گئے معیار کے بہت زیادہ قریب آتی ہے- ان کی تشریح فلسفیانہ بحثوں کی بجائے زیادہ تر صوفیانہ اور کشفی اندازِ بیان رکھتی ہے-ان کا اسلوب قونوی اور کاشانی جیسے فلسفیانہ و اشراقی میلانات سے بری ہے- وہ مشکل فلسفیانہ اصطلاحات کو زیادہ استعمال نہیں کرتے بلکہ سادہ مگر عارفانہ زبان میں مطالب بیان کرتے ہیں -

جس طرح داؤود قیصری نے اپنےمقدمے میں شیخؒ کے نظریات کا سادہ فہم خلاصہ پیش کیا ہے اور اصطلاحات کی وضاحت کی ہے، اسی طرح اسماعیل حقی نے بھی شرح کی ابتدا میں بارہ (12) نکات پر مشتمل مختصر و جامع باب لکھا ہے- ان بارہ نکات میں انہوں نے بالترتیب شیخؒ کے روحانی فضائل اور ان کے مخالفین کا رد، حق تعالیٰ کا مطلق ذات ہونا، حق تعالیٰ کی ذات و صفات سے متعلق مسائل پر بحث، اعیانِ ثابتہ اور ان کی حقیقت، تنزلاتِ(حاضراتِ) ستہ، حروف و کلمات میں فرق، نبوت و ولایت کی حقیقت، ظاہری علم اور باطنی علم میں فرق، مقامِ عشق، انسانِ کامل اور حقیقتِ محمدیہ پر سیر حاصل اور آسان فہم کلام کیا ہے- جو شخص یہ کہتا ہو کہ اسے شیخ ؒکے نظریات شرع کے خلاف محسوس ہوتے ہیں یا ان کی بنیاد محض فلسفیانہ مو شگافیوں پر ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسماعیل حقی کے ان بارہ نکات کو توجہ سے پڑھے- مجھے امید ہے کہ ان نکات کو پڑھنے کے بعد وہ نہ صرف شیخؒ کے نظریات کا قائل ہو جائے گا بلکہ شیخؒ کے مداحوں میں شامل ہو جائے گا-

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے حنفی-ماتریدی فقہی و کلامی پس منظر کو بھی مدِنظر رکھا ہے- اسلامی علوم کے نکتہ نظر سے ان کا طرز اتنا جامع ہے کہ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ فصوص الحکم کی شرح نہیں بلکہ قرآن کی تفسیر پڑھ رہا ہے-

اس شرح کی ایک اور امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عملی سلوک اور تزکیۂ نفس کے تناظر میں پیش کر کے قاری کی روحانی تربیت بھی کرتی ہے- یہ کہنا کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ یہ فصوص الحکم کی وہ واحد شرح ہے جو عین اس مقصد کی تائید کرتی ہے جو مقصد فصوص الحکم کے حوالے سے شیخ ابنِ عربیؒ کا تھا یعنی انسان کو اس کی وجودی حقیقت سے آشنا کر کے اسے وجود کے نکتہ عروج تک پہنچانا- اس لئے اسماعیل حقی کا بیان نہ رسمی ہے، نہ فلسفیانہ، بلکہ صوفیانہ ہے-

8- امیر عبدالقادر الجزائری: کتاب المواقف فی الوعظ والارشاد

امیر عبد القادر الجزائری (1883-1808) قادری صوفی تھے گوکہ ان کی پہچان الجزائر پہ فرانسیسی قبضے کے خلاف مزاحمت سے ہے - لیکن جلا وطنی کے بعد جب وہ دمشق گئے تو وہاں رہ کر انہوں نے تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا اور وہیں وفات پائی اور شیخؒ ابن عربی کے پہلو میں دفن ہوئے-

کتاب المواقف فصوص الحکم کی باقاعدہ شرح نہیں ہے بلکہ اسے تصوف کی کتاب کہنا زیادہ درست ہوگا لیکن ان کو شیخؒ اور بالخصوص فصوص کے شارحین میں شامل کرنے کی بنیادی وجوہات تین ہیں- پہلی یہ کہ وہ ، شیخؒ کے ساتھ قلبی و روحانی تعلق رکھتے تھے اور وہ تعلق اتنا خاص تھا کہ ان کے بقول انہوں نے کئی مرتبہ شیخؒ کی خواب میں زیارت کی اور ان کے ساتھ فصوص کے راز و رموز سمیت دیگر روحانی موضوعات پر گفتگو کی- اس بنا پر وہ اکثر خود کو شیخؒ کا روحانی شاگرد مانتے تھے- دوسری یہ کہ امیر عبد القادر نے الفتوحات المکیہ کے تمام نسخے اکھٹے کر کے ایک جدید اور مستند نسخہ تیار کیا- تیسری وجہ یہ کہ وہ شیخؒ کے افکارکا الہامی و مکاشفاتی علم رکھتے تھے جو کہ شیخؒ کے نزدیک ان کے افکار کو سمجھنے کا مستند طریقہ ہے-

کتاب المواقف میں کئی مقامات پر انہوں نے فصوص الحکم کی عبارتیں درج کی ہیں- ان کے اس تحریری انداز کی وجہ یہ ہے کہ دمشق کے لوگ شیخؒ کے افکار کو سمجھنے کیلئے آپ سے سوالات کرتے رہتے تھے تو انہوں نے اپنی اس کتاب میں مختلف مقامات پر فصوص کی شروحات کر کے ان سوالوں کے جوابات دیے ہیں- علمی اعتبار سے امیر عبد القادر کے نزدیک فصوص الحکم محض ایک فلسفیانہ یا نظری افکار کا مجموعہ نہیں بلکہ روحانی اور مکاشفاتی علوم کا خزانہ ہے- المواقف میں وہ باربار کہتے ہیں کہ شیخؒ کے افکار کو صرف عقل سے نہیں بلکہ ذوق (روحانی تجربے) سے سمجھنا چاہیےاورسمجھا جا سکتا ہے -ان کے نزدیک فصوص، انبیاء کی حکمتوں کے آئینے میں انسانِ کامل کی حقیقت کو سمجھنے کا ایک ذریعہ ہےاس لیے اس کی ہر ’’فص‘‘ محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ روحانی حقیقت ہے-

9- برِصغیر پاک و ہند میں لکھی جانے والی شروحات:

برِ صغیر پاک و ہند میں شیخؒ کے افکار اور تصانیف کب اور کیسے پہنچیں؟ خلیق احمد نظامی کے نزدیک سلطان فیروز تغلق کے دور میں (1388-1351) شیخؒ کی تصنیفات برِ صغیر میں پھیل چکی تھیں جس کے ثبوت میں وہ امیر کبیر شاہِ ہمدانؒ کی شرح فصوص الحکم اور شیخ کے افکار سے متاثرہ مسعود بیگ کی کتاب ’’مراۃ العارفین‘‘ کا تذکرہ کرتے ہیں-[5] ابتدائی دور میں برِصغیر میں لکھی جانے والی فصوص الحکم کی شروحات کا تذکرہ مولانا سید عبدالحئی نے اپنی کتاب ’’الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند‘‘ [6]میں کیا ہے جس میں انہوں نے درج ذیل شروحات کا تذکرہ کیا ہے -

v      امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒ نے فارسی میں فصوص الحکم کی شرح لکھی- شاہِ ہمدان 1314ء ایران میں پیدا ہوئے اور 1379ء میں ہجرت کر کے کشمیر آگئے اور یہاں اسلام کی تبلیغ فرمائی - ان کی شرح فصوص الحکم کو نظامی صاحب نے برِ صغیر میں لکھی جانے والی پہلی شرح قرار دیا ہے-

v     شیخ شرف الدین دہلویؒ(متوفی:1392ء) نے عین الفصوص کے نام سے عربی میں شرح لکھی جس کا قلمی نسخہ آصفیہ کتب خانہ حیدر آباد دکن میں ہے-

v     حضرت خواجہ سید محمدگیسو درازؒ (متوفی 1422ء ) نے بھی فصوص الحکم کی شرح لکھی-

v     شیخ علی مہائمی(المتوفی:1431) نے فصوص الحکم کی دو شروحات لکھیں جن کے نام ’’مشرح الخصوص فی شرح فصوص‘‘ اور ’’ فصوص النعم فی شرح فصوص الحکم‘‘ ہیں- ان کو شیخ ؒ کے افکار پر اتنی مہارت تھی کہ مولانا سید عبدالحئی کے بقول ان کو ’’ابنِ عربی ثانی‘‘ کہا جا سکتا ہے-ان کو شیخ ابن عربیؒ سے اتنا لگاؤ تھا کہ شیخؒ کے ایک مخالف کو سمجھانے کیلئے ہندوستان سے یمن تک چلے گئے-

v     شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ (متوفی 1537ء ) جو کہ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے صوفی تھے انہوں نے بھی فصوص الحکم کی شرح لکھی-

v     شیخ عماد الدین عارف المعروف عبدالنبی شطاریؒ آگرہ کے مشہور عالم تھے انہوں نے ’’شرح الفصوص‘‘ کے نام سے شرح لکھی-

v     شیخ محب اللہ الٰہ آبادیؒ (المتوفی، 1648) شیخ ابنِ عربیؒ کے افکار کے ماہر تھے- انہوں نے عربی و فارسی میں الگ الگ فصوص الحکم کی شروحات لکھیں-

v      شیخ علی اصغر قنوجیؒ (1641-1728) قنوج کے مشہور علماء میں سے تھے اور معاصر علوم پر مہارت رکھتے تھے- انہوں نے ’’جوامع الکلم فی شرح فصوص الحکم‘‘ کے نام سے شرح لکھی-

v     شیخ محمد افضل الٰہ آبادیؒ(1751-1619) نے ’’شرح الفصوص علی وفق النصوص ‘‘ کے نام سےفصوص الحکم کے ایک شرح لکھی جو ان کے زمانے میں بہت مقبول ہوئی -

v     شیخ نور الدین احمد آبادی(1742-1654) کا شمارگجرات کے مشاہیر علماء میں ہوتا تھا- انہوں نے ’’الطریقۃ الامم شرح فصوص الحکم‘‘ کے نام سے شرح لکھی-

v     علامہ عبد العلی بحر العلوم (المتوفی:1819) برِ صغیر کے نامور عالم تھے انہوں نہ صرف فصوص الحکم بلکہ مولانا رومی کی مثنوی کی بھی شرح لکھی- ان کی شرح الفصوص کا ایک نسخہ رامپور کے کتب خانے میں موجود ہے-

اس کے علاوہ دیگر شروحات میں نقش الفصوص شیخ شمس الدین دہلوی، شرح الفصوص حضرت جہانگیر اشرف کچھوچھوی، شرح عبدالکریم سلطان پوری، شرح شیخ عبدالنبی نقشبندی سیام چوراسی، شخوص الحکم شیخ غلام مصطفیٰ،نیسری دہلوی (فارسی)، شرح شیخ طاہر بن یحییٰ عباسی الہ آبادی، تاویل المحکم شیخ محمد حسن امروہوی، شرح شیخ جمال الدین گجراتی،شیخ عبدالکریم لاہوری (فارسی) اورمولوی احمد حسین کانپوری (فارسی) کی شروحات بھی شامل ہیں-

برصغیر میں شیخ الاکبرؒ کے افکار نے ایک اور کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے- یہ تو ثابت ہو چکا کہ تقریبا چودہویں صدی عیسویں کے نصف تک برِ صغیر شیخؒ کے افکار اور تصانیف بالخصوص فصوص الحکم سے آشنا ہو چکا تھا -

10-تراجم وحاشیے:

آخر میں فصوص الحکم پرحاشیہ اور تراجم کا ایک مختصر جائزہ لینا دو وجوہات کی بنا پرضروری ہے- پہلی یہ کہ حاشیے اور تراجم تقریبا اٹھارہویں صدی سے لکھے جانے لگے جس سے فصوص اور شیخؒ کے قاریوں میں پوری دنیا میں حیرت انگیز حد تک اضافہ ہوا ہے جس میں نہ صرف مشرق بلکہ مغرب میں بھی قارئین و محققین کی بڑی تعداد شامل ہے- دوسری یہ کہ اس میں مغرب میں شیخؒ پر ہونے والے کام کا بھی جائزہ شامل ہو جائے گا جس سے شیخؒ کے افکار کی عالمگیریت کا پہلو کھل کر سامنے آیا ہے اس عالمگیریت کا اندازہ شیخؒ کے افکار پر کام کرنے والے امریکی محقق جیمز ونسٹن مورس (James Winston Morris) کی نقل کردہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں موجود تھے جس میں بار بار ابن عربی کے افکار کا تذکرہ ہورہا تھا- وہاں موجود ایک مسیحی اسکالر نے شیخؒ کے افکار کی جدید دور میں افادیت پر یہ جملہ کہا :

’’اگر آج ابنِ عربی موجود نہ ہوتا تو کسی نہ کسی کو بطور ابنِ عربی  لازمی طور پر وجود میں لانا پڑتا‘‘-[7]

فارسی تراجم:

 شاہ ولی اللہ دہلوی:

شاہ ولی اللہ دہلوی (1762-1703) نے فصوص الحکم کا فارسی میں ترجمہ کیا اور اس پر حاشیہ بھی لکھا- لیکن اس ترجمے کا ایک مقصد برِ صغیر کی عوام تک شیخؒ کی افکار کی درست ترجمانی تھا جس کی وجہ سے وحد ت الوجود کا مسئلہ سامنے آیا جس کی وضاحت میں شیخ احمدسر ہندی نے وحدت الشہود کا نظریہ پیش کیا - شیخ احمد سرہندی خود شیخؒ ابن عربی کے معتقد تھے - انہوں نے نا سمجھ لوگوں کو سمجھانے اور اس مسئلے کو ختم کرنے کیلئے وحدت الوجود کی شہودی تشریح کی- لیکن شاہ ولی اللہ دہلوی نے واضح کردیا کہ در اصل وحدت الشہود، وحدت الوجود ہی ہے دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے- شاہ ولی اللہ کا اسلوب معتدل تھا انہوں نے شیخ ؒ کے مکاشفات کو بھی سراہا اور ان کی ایسی سادہ فہم وضاحت کی جس سے شریعت کی نفی کا پہلو نہ نکل سکے-

مولانا فضل احمد گجراتی:

مولانا فضل احمد گجراتی(وفات:1889) نے فصوص الحکم کا فارسی میں ترجمہ کیا اور اس پرحاشیہ بھی لکھا- ان کا اسلوب فنی ہے- انہوں نے کوشش کی ہے کہ فصوص کے متن کو فارسی میں بغیر کسی تبدیلی کے پیش کیا جائے- اس لیے انہوں نے شیخ کی اصطلاحات کی وضاحت یا تاویل نہیں کی ہے- اسی وجہ سے ان کا ترجمہ بھی ماہرین کیلئے زیادہ قابلِ فہم ہے جبکہ عام قاری کیلئے شاہ ولی اللہ دہلوی کا فارسی ترجمہ بہتر ہے-

اردو تراجم:

عبدالغفور دوستی:

خلیق احمد نظامی کے نزدیک یہ اردو زبان کا پہلا ترجمہ تھا- اس کا ایک نسخہ ریختہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے جس کا سنِ طباعت 1888ء ہے- یہ ترجمہ انتہائی دقیق کلاسیکل اردو میں لکھا گیا ہے جو کہ فصوص کا لغوی ترجمہ ہے جس میں شیخؒ کے افکار اور اصطلاحات کی وضاحت پر زور نہیں دیا گیا- لیکن اس کا مقدمہ بہترین انداز میں لکھا گیا ہے جس میں شیخ کے بنیادی افکار کی وضاحت اور انکا دفاع کیا گیا ہے-

شیخ مبارک علی:

شیخ مبارک علی نے فصوص الحکم کا اردو ترجمہ کیا اور مختصر حاشیہ بھی لکھا- یہ ترجمہ شیخؒ کے افکار کو اردو میں پیش کرنے کی بہترین کاوش تھی- یہ ترجمہ کلاسیکل اردو میں کیا گیا ہے جسے آج کے قارئین کو سمجھنے میں دشواری بھی آ سکتی ہے- ان کا انداز صوفیانہ ہے اور کئی مقامات پر شیخ ؒ کی مشکل اصطلاحات کی تشریحات بھی ملتی ہیں- ترجمے کے شروع میں ایک طویل مقدمہ بھی لکھا گیا ہے جو کہ اس ترجمے کی خاصیت ہے-

مولانا عبدالقدیر صدیقی:

مولانا عبدالقدیر صدیقی (1962-1871) جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دَکن کے شعبہ اسلامیات کے صدر تھے- انہوں نے اردو زبان میں فصوص الحکم کا ترجمہ کیا جو کہ آج بھی اپنی انفرادیت کی وجہ سے خاص و عام میں مقبول ہے- اس ترجمے کی اہمیت یہ ہے کہ صدیقی صاحب نے اس میں شیخؒ کے نظریات کو آسان ترین طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے- انہوں نے اس سلسلے میں جدید علوم مثلا فزکس ، کیمسٹری اور جدید ٹیکنالوجی کی مثالوں سے شیخ کے دقیق نظریات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے- ان کی دوسری انفرادیت یہ ہے کہ صدیقی صاحب نے شیخ کے کئی نظریات کو اپنے اشعار کی صورت میں بھی پیش کیا ہے- اس ترجمے کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس میں کئی مقامات پر فصوص کے الفاظ اور صدیقی صاحب کی وضاحت میں فرق واضح نہیں رہتا تو قاری کو یہ سمجھنے میں دشواری آتی ہے کہ یہ الفاظ شیخؒ کے ہیں یا صدیقی صاحب کے-

ذہین شاہ تاجی:

بابا ذہین شاہ تاجیؒ (1978-1902) نے اردو زبان میں فصوص الحکم کا ترجمہ کیا-اس ترجمے کے محاسن اور خوبیوں پہ مختصر پیراگراف میں بات نہیں کی جا سکتی ، چونکہ بہت سے تراجم میں نے خود کئی کئی بار پڑھے ہیں اس لئے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر شیخ ابن عربی اردو زبان میں فصوص الحکم لکھتے تو  میرا گمان غالب یہ ہے کہ یہ کتاب اسی صورت میں ظہور پذیر ہوتی جو صورت بابا ذہین شاہ تاجی کے ترجمے کی ہے - ہر ترجمے اور ہر مترجم کی کثیر خوبیاں ہیں ، اپنی طرف سے کسر کسی نے نہیں رکھی ، مگر یہ ترجمہ بالکل شیخ اکبر کی اپنی زبان لگتا ہے - اس ترجمے کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں ہرفص سے پہلے اس کے موضوعات کی وضاحت پیش کی گئی ہے تا کہ قاری فصوص کے متن کو بہتر سے بہتر سمجھ سکے- اس کی دوسری انفرادیت یہ ہے کہ فصوص کا عربی متن بھی ہر فص سے پہلے دیا ہوا ہے -

ابرار احمد شاہی:

انہوں نے شیخؒ کی کتب کے اردو تراجم کا بہترین سلسلہ شروع کیا ہے جو قابلِ ستائش ہے- ابرار احمد شاہی صاحب نے دیگر کتب کے ساتھ ساتھ فصوص الحکم کا بھی ترجمہ کیا ہے جو کہ ترجمہ اور حاشیہ دونوں ہی ہیں- ان کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے عصری اردو زبان کے فہم اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ترجمہ کیا ہے- اس لیے ان کی زبان انتہائی آسان اور سلیس ہے- اس کے ساتھ ساتھ باقی تراجم اور شروحات کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے شیخؒ کے دقیق افکار کی جگہ جگہ وضاحت بھی موجود ہے- جدید قارئین کیلئے یہ ترجمہ انتہائی مفید ہے جو اردو کی مشکل اصطلاحات کو سمجھنے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں-

فرانسیسی تراجم:

فرانسیسی زبان میں شیخ ابنِ عربیؒ کی تصانیف پر کام کا آغاز ایک فرانسیسی محقق رینے گونوں(Rene Guenon) کے زیر اثر جنم لینے والی تحریک Perennialism سے ہوا- رینے گونوں بعد میں مسلمان ہو گیا اور اس نے اپنا نام عبد الواحد یحیٰ رکھا-اس تحریک نے یورپ میں شیخؒ کے افکار پر کام کا نیا سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری ہے- اسی تحریک سے وابستہ ایک محقق ٹائٹس برک ہارٹ (Titus Burckhardt) نے فصوص الحکم کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا- اس کے علاوہ مائیکل شودکیویچ (Michel Chodkiewicz) نے فتوحات المکیہ کے کچھ ابواب کا فرانسیسی ترجمہ کیا ہے اور فصوص الحکم پر بھی فرانسیسی زبان میں بہت کچھ شائع کیا ہے-

انگریزی تراجم:

 رالف آسٹن(Ralph Asutin):

انگریزی زبان میں فصوص الحکم کا پہلا باقاعدہ ترجمہ رالف آسٹن نے کیا جو کہ 1980 میں شائع ہوا- اس ترجمے کا پیش لفظ ٹائٹس برک ہارٹ نے لکھا - ترجمے کے شروع میں رالف آسٹن نے شیخؒ کے حالاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ شیخؒ کے افکار پر مغرب میں ہونے والے کام کا ذکر کیا ہے- اس کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کے ابتدائیہ میں رالف آسٹن نے شیخ کے افکار کا ایک جامع جائزہ دیا ہے جس میں شیخ کے افکار کا نہ صرف دیگر صوفیاء بلکہ فلسفے اور روحانیت کی دیگر روایات سے بھی موازنہ کیا ہے- اس تحقیق کا بنیادی مقصد شیخؒ کی فکر کی انفرادیت کو ظاہر کرنا ہے تا کہ عام قاری اسے دیگر ملتےجلتے افکار مثلا اشراقی فکر،افلاطونی فکر یا ہندی فکر سے جدا کر کے سمجھے- اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے شیخؒ کے اہم ترین افکار پر بھی وضاحت پیش کی ہے -

بنیامین ابراہاموف(Binyamin Abrahamove):

بنیامین ابراہاموف کا فصوص الحکم کا انگریزی ترجمہ 2015 میں شائع ہوا- اس ترجمے کی انفردایت یہ ہے کہ اس میں کئی مقامات پر مختصر حاشیہ بھی دیا گیا ہے جس سے قاری کو شیخ کے نظریات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے- اس ترجمے کے ابتدا میں ایک مختصر مقدمہ بھی ملتا ہے جس میں شیخ کی فکر کا خلاصہ دیا گیا ہے - انگریزی زبان میں مہارت رکھنے والے قارئین کیلئے یہ ایک بہترین ترجمہ ہے-

ولیم کلارک چٹِک (William Clark Chittick):

ولیم چِٹک ایک امریکی محقق ہیں جو ابنِ عربی اور مولانا رومی کے افکار پر اپنی دسترس کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں- شیخؒ ابنِ عربی نے خود بھی فصوص الحکم کا خلاصہ لکھا تھا جس کا نام انہوں نے ’’نقش الفصوص‘‘ رکھا تھا- ولیم چِٹک نے نقش الفصوس کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے-اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فصوص الحکم کے ابواب کے ناموں کی شرح بھی لکھی ہے- ولیم چٹِک کی انفرادیت یہ ہے کہ ان کا اسلوب انتہائی آسان اور سادہ فہم ہے- وہ شیخ ؒ کے نظریات کو بہتر سے بہتر انداز میں سمجھانے کی کمال مہارت رکھتے ہیں- ان کا یہ انداز نہ صرف فصوص الحکم پر ان کے کام میں نظر آتا ہے بلکہ ان کے دیگر کاموں میں بھی یہ اسلوب بہت واضح ہے-

عائشہ بیولی(Aisha Bewely) :

عائشہ بیولی کا ترجمہ فصوص الحکم کو آسان فہم بنانے اور اس سے فلسفیانہ رجحانات کو ختم کرنے کی ایک کاوش ہے- عائشہ بیولی کا ترجمہ لغوی ترجمہ ہے جس میں کوئی وضاحت یا حاشیہ موجود نہیں ہے لیکن انہوں نے مشکل اصطلاحات کیلئے آسان اور موزوں الفاظ استعمال کیے ہیں- اس ترجمے میں ایک رجحان موجود ہے کہ اصطلاحات کو آسان کرنے کی کوشش میں شیخؒ کے افکار کے معنی بدلنے کا بھی خدشہ موجود ہے- اگرچہ بعض جگہوں پر ان کا ترجمہ شیخ ؒ کے معنی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے تاہم بعض جگہوں پر وہ اتنا سطحی ہو جاتا ہے کہ معنی ہی چھپ جاتا ہے-

دیگر زبانوں میں تراجم:

اس کےعلاوہ دیگر زبانوں میں فصوص الحکم کے مکمل یا جزوی تراجم بھی موجود ہیں جن میں اطالوی، جرمن(رائنر بیڈنر)، ہسپانوی(آسین پالاسیوس- ان کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے شیخؒ کے افکار کا دانتے کی ڈیوائن کامیڈی پر اثرات کا مطالعہ بھی کیا ہے)، ملائی، بنگالی پیش پیش ہیں-

حرفِ آخر:

فصوص الحکم کی شروحات کا پہلا سلسلہ صدر الدین قونوی سے شروع ہو کر داؤود قیصری تک پہنچتا ہے - بعد میں لکھی جانے والی شروحات ان شروحات سے بہت زیادہ متاثر ہیں بشمول حضرت مُلّا جامیؒ کے ، تاہم چند آزدانہ کوششیں بھی ہیں جن میں نابلسی اور اسماعیل حقی کی شروحات کو امتیازی حیثیت حاصل ہے- اگرچہ قونوی کے زیرِ اثر لکھی جانے والی شروحات نے شیخ ؒکے نظریات کی تفہیم و ترویج میں بہت کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن وہیں ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوا کہ انہوں نے ایک الگ اور پیچیدہ نظری ادب کے مجموعے کو پیدا کرنے کی راہ پیدا کر دی جس کا ایک اپنا آزاد تصوراتی فریم ورک تھا اور اپنی فکری اصطلاحات تھیں- اس ادب نے کئی فلسفیانہ اور مذہبی مسائل کی فکری تفہیم اور وضاحت پر توجہ مرکوز کی، جو زیادہ تر ابن عربیؒ کی تحریروں سے اخذ کی گئے تھے لیکن ان کی اہمیت اتنی بڑھ گئی کہ لوگوں نے انہیں مسائل کو پیشِ نظر رکھا اور اسی نظری ادب کو ہی زیادہ توجہ دی- اس بیچ ابنِ عربیؒ کی کتابوں کا مطالعہ انتہائی محدود ہوتا گیا، عوام و خواص دونوں کی اکثریت صرف فصوص الحکم اور اس کی شروحات کا ہی مطالعہ کرتی رہی جبکہ شیخ کی دیگر کتب کا مطالعہ بہت کم ہو گیا- شیخ ابنِ عربیؒ کی مخالفت کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ ان کی تمام کتب کا مطالعہ نہیں کیا گیا اور ان کی چند ایک عبارتوں کو من مرضی کا لباسِ معنیٰ پہنا کر تنقید کی گئی جو اصولِ تحقیق کے بھی خلاف تھا اور دیانت کے بھی -

فصوص الحکم کی شروحات کا دوسرا سلسلہ برِ صغیر میں شروع ہوا جس کی وجہ سے یہاں شیخؒ کے افکار پر آج تک کام ہو رہاہے- لیکن یہاں شیخؒ سے منسوب کردہ نظریہ وحدت الوجود اول روز سے زیر بحث رہا جس کی وجہ مسعود بیگ اور شیخ عبد القدوس گنگوہی جیسے شارحین کا عوامی سطح پر ان دقیق افکار کا پرچار تھا- اگر مشائخ اپنے کسی شاگرد کو فصوص الحکم پڑھاتے تو پہلے اس کی قابلیت کا جائزہ لیتے اور پھر اکیلے میں اس کو فصوص کے رموز سمجھاتے تھے- برِ صغیر میں تمام سلاسل و مکاتبِ فکر کے قائدین و شیوخ، شیخ الاکبرؒکے معتقد ہی رہے ہیں اگر کسی نے سختی کی ہے تو اس لیے کہ عام عوام ان افکار کی اپنی مرضی سے تاویل کر کے اس کا پرچار نہ شروع کر دے-

فصوص الحکم کی شروحات کا تیسرا سلسلہ مغرب میں بیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہوا جس میں سب سے پہلے فرانسیسی اور اس کے بعد انگریزی زبان میں شیخ کے افکار اور فصوص الحکم پر کام کیا گیا ہے جو اب تک جاری ہے- اس کام سے شیخؒ کی فکر کی عالمگیریت واضح ہوجاتی ہے کہ کس طرح اس فکر میں آج بھی اتنی قوت ہے کہ یہ بظاہر مختلف افکار رکھنے والے لوگوں کو کس طرح اپنے دامن میں سمو لیتی ہے اور ایک دوسرے کے نہ صرف قریب کرتی ہے بلکہ ان میں محبت و امن کے جذبات بھی پیدا کر دیتی ہے- شاید اسی لیے ان مسیحی اسکالر نے کہا تھا کہ اگر آج ابنِ عربی موجود نہ ہوتا تو کسی نہ کسی کو بطور ابنِ عربی لازمی طور پر وجود میں لانا پڑتا-

٭٭٭


[1](نفحات الاُنس: ص،582)

[2]https://hurqalya.ucmerced.edu/node/3231

[3]Sharḥ-i muqaddamah-ʻi Qayṣarī bar Fuṣūṣ al-ḥikam by Jalāl al-Dīn Āshtiyānī

[4]https://ora.ox.ac.uk/objects/uuid:533fc636-91c8-42fd-a40b-ac9771ad591c

[5](ابنِ عربی اور ہندوستان از ماہنامہ برہان دہلی جنوری 1950)

[6](الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند( اردو ترجمہ)،ص: 261-260)

[7]Ibn ‘Arabī in the “Far West”: Spiritual Influences and the Science of Spirituality by William Winston Morris

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر