شیخ ابن عربیؒ اور نظریہ وحدت الوجود

شیخ ابن عربیؒ اور نظریہ وحدت الوجود

شیخ ابن عربیؒ اور نظریہ وحدت الوجود

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری اکتوبر 2025

اکثر لوگ شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی کو پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کی کتب کی منطقی دِقّت اور فلسفیانہ عُمق کی وجہ سے کتراتے ہیں -  بعض تساہل پسند قارئین جو پڑھ تو لیتے ہیں لیکن گہرائی میں اترنے اور اصطلاحات کو سمجھنے کی تکلیف اٹھانا گوارا نہیں کرتے وہ اپنی سطحی ذہنیت کی وجہ سے کئی طرح کے سوالات میں الجھ جاتے ہیں -  حتیٰ کہ میرے ذاتی تجربے میں بھی یہ بارہا آیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ دینی مدارس کے طلباء بلکہ کئی ایک اساتذہ کرام بھی شیخ ابن عربی کی کتب کی مشکل پسندی سے خائف ہو کر انہیں پڑھنے کا تکلف کوئی گوارا نہیں کرتا-جس وجہ سے علم و حکمت اور تزکیہ و تربیت کے کئی ایسے پہلو ہیں جن سے نہ صرف علم سے دور لوگ محروم ہو رہے ہیں، بلکہ خود اہلِ علم بھی اپنے دامن پھولوں سے خالی کرتے جا رہے ہیں-  زیرِ نظر مضمون میں کوشش کی ہے کہ شیخ ابن عربی سے منسوب ان کے معرکۃ الآراء نظریہ ’’وحدت الوجود‘‘کی آسان وضاحت کی جائے  - 

مضمون کے رخ زیبا سے حجاب سرکنے سے قبل ایک وضاحت دینا یہاں ضروری سمجھتا ہوں  کہ شیخ ابن عربی ؒ نے اپنی کتب میں کسی بھی جگہ وحدت الوجود کی اصطلاح استعمال نہیں کی، ان کے ایک شاگرد امام صدر الدین قونوی ؒ نے ایک جگہ کسی اور مفہوم میں یہ اصطلاح برتی ہے – لیکن بعد میں آنے والوں نے یہ اصطلاح شیخ کے کھاتے میں ڈال دی گو کہ یہ دیانت و صداقت کا تقاضا تو نہیں تھا – مگر ، بعد میں ہوا یوں کہ اس اصطلاح کو شیخ الاکبر کے اپنے چاہنے والوں کے حلقے میں پذیرائی ملی تو یہ اصطلاح اب شیخ سے منسوب سمجھی جاتی ہے -  اس تسلسل میں ہم بھی اسی اصطلاح کو استعمال کر  رہے ہیں وگرنہ شیخ ابن عربی یا ان کے شاگردوں نے شیخ کے نظریات کیلئے ’’وحدت الوجود‘‘ کی اصطلاح کبھی استعمال نہیں کی تھی -   

بعض حضرات کو شیخ کے اس نظریے کو سمجھنے میں بڑا مغالطہ لگا ہے جس کی بنا پر انہوں نے کہا کہ یہ نظریہ توحید کے خلاف ہے اور شیخ کو مورد الزام ٹھہرایا- لیکن اگر تعصب کی عینک اتار کر صحیح طریقے سے عارفانہ نگاہ سے اس نظریے کی روح کو سمجھا جائےتو یہ نظریہ عین توحید ہے -

اس نظریے کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے لفظ وجود کو سمجھیں وجود کا لغوی معنی ہے پایا جانا، موجود ہونا اور اصطلاحی معنی یہ بیان کیا جاتا ہے :

’’ثبوت العین وما یصح بہ ان يعلم الشئ و يخبر عنه ‘‘[1]

’’کسی شے کے ثابت ہونے کا نام وجود ہے اور جس کے متعلق کچھ جانا جاسکے اور اس کے بارے خبر دی جا سکے‘‘-

اب اس وجود کی معروف دو قسمیں ہیں:

 1 -واجب الوجود                                 2-ممکن الوجود

واجب کا لغوی معنی تو لازم ہوتا ہے اور اصطلاحی معنی یہ ہے -

’’ مالا يقبل العدم عقلا ‘‘[2]

’’عقلا جس پر عدم ( نہ ہونا )محال ہو ‘‘-

جیسے ذات و صفات باری تعالیٰ -  اب واجب الوجود کا مطلب یہ ہوگا کہ جس کا وجود لازم و واجب ہو-علماء نے واجب الوجود کا اصطلاحی معنی اس طرح کیا ہے-

’’ھو الذی یکون وجوده من ذاته ولا یحتاج الی شیء اصلاً‘‘[3]

’’واجب الوجود وہ ہے کہ جس کا وجود ذاتی ہو اور  وہ اپنے پائے جانے میں کسی شے کا محتاج نہ ہو‘‘-

تو یہ معنی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر صادق آتا ہے کسی اور پر نہیں اسی لیے تو ذات باری تعالیٰ کیلئے کہا جاتا ہے کہ وہ واجب الوجود ہے- جب واجب الوجود کا مطلب اور  معنی سمجھ آ گیا تو ممکن الوجود کاسمجھنا بالکل آسان ہے وہ اس کا بر عکس ہے یعنی ممکن الوجود وہ شے ہے کہ جس کا وجود لازم نہ ہو بلکہ اسے عدم طاری ہو -وہ بذات خود نہ پایا جائے بلکہ اپنے پائے جانے میں (اللہ تعالیٰ کا) محتاج ہو-

 تو یہ معنی ماسوی الله جملہ موجودات پر سچا آتا ہے- اسی لیے تو علامہ صدر الدین الدمشقی شرح ’’العقيدة الطحاویہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ کل ماسوی اللہ محدث ممکن الوجود موجود بايجاد الله تعالىٰ‘‘[4]

’’ہر وہ شے جو اللہ کی ذات کے علاوہ ہے وہ محدث، ممکن الوجود ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے کی وجہ سے ہی موجود ہے‘‘-

جب ان دونوں وجودوں کی حقیقت ہمارے سامنے آگئی تو ممکن الوجود کو دیکھنے کا انداز ہر ایک کا مختلف ہوتا ہے ہر ایک اپنے مقام و مرتبہ کے مطابق اس پر حکم لگاتا ہے صوفی ممکن الوجود کو اس زاویے سے دیکھتا ہے کہ اس کا اپنا کمال تو ہے ہی نہیں اس کا وجود اللہ کی وجہ سے ہے- اگر یہ موجود ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی وجہ سے ہے تو اس کا وجود مستعار (مانگا ہوا) ہو گیا تو جو چیز مستعار ہو اُس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ محض اعتباری ہوتی ہے تو اس کا وجود محض اعتباری ہوا حقیقی نہ ہوا- لہٰذا صوفی اعتباری وجود پر عدم محض کا حکم لگاتا ہے مطلب کہ وہ موجود ہو کر بھی لاشی کے درجے میں ہے -  اللہ (خالق) بھی موجود ہے اور اشیاء (مخلوق) بھی موجود ہیں لیکن دونوں کا موجود ہونا یکساں نہیں ہو سکتا -اسی حقیقت کو امام غزالی بیان کرتے ہیں کہ:

وجود دو قسم کے ہیں :

’’1-ذاتی وجود ، 2- کسی شے کا وجود غیر کی وجہ سے ہو تو جس کا وجود غیر کی وجہ سے ہو تو اس کا وجود مستعار ہے- بذات خود اسے کوئی قوام حاصل نہیں وہ موجود ہے تو اس حیثیت سے کہ اُس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اُس کا وجود حقیقی نہیں  لہٰذا وہ عدم محض کے درجے میں ہے‘‘-[5]

امام غزالی مزید فرماتے ہیں کہ:

 ’’ہر شے کی دو جہتیں ہیں ایک جہت اس کی اپنی ذات کی طرف ہے اور ایک جہت اُس کی رب کی طرف ہے-اپنی ذات کی جہت کے اعتبار سے وہ عدم ہے اور اپنے رب کی جہت کے اعتبار سے موجود ہے تو نتیجہ یہ نکلا کہ ’’لا موجود الا الله ‘‘-[6]

یہ حقیقت ہے کہ جو وجود اعتباری ہو وہ فانی ہوتا ہے اور باقی کے مقابلے میں فانی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی فانی باقی کے مقابلے میں لاشی کا درجہ رکھتا ہے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :

’’کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ ‘‘[7]

’’ہر شے ہلاک ہونے والی ہے سوائےاُس کی ذات کے‘‘-

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ؁ وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلٰلِ وَ الْاِکْرَامِ‘‘[8]

’’زمین پر جتنے ہیں سب کو فنا ہے اور باقی ہے تمہارے رب کی ذات عظمت اور بزرگی والا‘‘-

ذرا بخاری شریف سے آقا کریم (ﷺ) کے اس فرمان پر غور کریں آپ نے ارشاد فرمایا:

’’اللھم لاعيش الا عيش الآخرة ‘‘[9]

’’یا اللہ نہیں ہے زندگی مگر آخرت کی زندگی‘‘-

اب قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضور اکرم (ﷺ) نے صرف آخرت کی زندگی کا اثبات ہی کیوں کیا- حالانکہ دنیاوی زندگی بھی تو ہے نا اور لوگ دنیاوی زندگی گزارتے بھی ہیں لیکن محبوب کریم (ﷺ) نے اس کی نفی کر دی وہ ہے بھی نہیں تو در حقیقت یہ بتانا مقصودتھا کہ دنیاوی زندگی فانی ہے- اُخروی زندگی دائمی اور باقی رہنے والی ہے آخرت کی زندگی کے مقابلے اس دنیاوی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں وہ ایسے ہے جیسے ہے ہی نہیں اس لیے اس کی نفی کردی-

جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ تمام موجودات قائم بغیرہ ہیں اور یہ فانی اور ان کو عدم لازم ہے تو یہ حقیقت کھلی کہ اصل وجود اور حقیقی وجود ایک ہی ہوا وہ ہے واجب الوجود تو اس بنا پر شیخ ابن عربی اور دیگر صوفیاء فرماتے ہیں کہ حقیقی وجود اللہ کاہے-

باقی سب ممکنات اُس کی صفات اور افعال و اسماء کی تجلیات کا پرتو اور مظاہر ہیں- جیسا کہ شیخ نعمۃ الله بن محمود فرماتے ہیں کہ یہ جو عالم میں ہمیں آثار نظر آتے ہیں یہ سب اُس کی ذاتی صفات کی تجلیات اور اُس کے اسماء کمالیہ ، جمالیہ اور جلالیہ کی تجلیات کی وجہ سے ہیں -[10]

اس پوری بحث کو اگر مد نظر رکھا جائے تو نظریہ وحدت الوجود کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے اور اس کا آسان مطلب یہ ہے کہ اصل اور حقیقی وجود ایک ہی ہے وہ ذات باری تعالیٰ کا ہے-باقی تمام موجودات کے وجود ظلی ہیں - 

ظلی وجود سے کیا مراد ہے؟

ظل سائے کو کہتے ہیں ، جیسے درخت کا سایہ ، دیوار کا سایہ وغیرہ، خیمے کا سایہ  -  سایہ بذاتِ خود موجود نہیں ہوتا بلکہ اپنے ہونے کیلئے درخت، دیوار یا خیمے کی احتیاج رکھتا ہے -  مخلوقات کا وجود اسی تناظر میں ظِلّی کہا جاتا ہے کہ مخلوق از خود موجود نہیں بلکہ اپنے ہونے کیلئے ذاتِ حق کی احتیاج رکھتی ہے -   جیسے کسی شے کا سایہ ہوتا ہےتو اس کے وجود کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ اس کا اعتبار اُس شے کے اصلی وجود کی وجہ سے ہوتا ہے-

جب تمام موجودات کا فانی ہونا اور واجب الوجود کے سامنے لاشے ہونا ثابت ہو گیا تو ایک صوفی یہی چیز مشاہدے میں بھی دیکھتا ہے-

جب ایک عارف قرب کی منازل طے کرتا ہے تو ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ تجلیات میں گم ہو جاتا ہے تو وہ ماسوی اللہ کو دیکھ نہیں پاتا تمام موجودات اسے" لاشئے" یعنی کوئی شے نہیں نظر آتیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے انوار کے مشاہدے میں ایسا مستغرق ہوتا ہے کہ اُسے نور کے علاوہ تو کوئی شے نظر بھی نہیں آتی جب وہ اس کیفیت میں جاتا ہے تو وہ پکار اٹھتا ہے کہ ’’لا موجود الا لله‘‘  اُس ذات کے علاوہ تو کوئی (حقیقی طور پہ) موجود نہیں ہے-

اس بات کو اس مثال کے ذریعے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی کی آنکھوں پر ٹارچ کی تیز روشنی تھوڑی دیر کے لئے ماری جائے تو اسے روشنی کے علاوہ کوئی چیز بھی نظر نہیں آئے گی حالانکہ ارد گرد اس کے تمام چیزیں موجود ہیں وہ دوسروں کو تو نظر آرہی ہوں گی لیکن اُسے نظر نہیں آرہی ہوں گی -

اب اگر وہ کہے یہاں تو کوئی شےموجود نہیں ہے ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے تو وہ سچا ہے اور دوسرے لوگ کہیں کہ نہیں دوسری چیزیں بھی یہاں موجود ہیں-تو وہ بھی سچے ہیں کیونکہ ان پر ٹارچ کی روشنی نہیں پڑی بس اسی سے سمجھ لیجیے کہ جس پر تجلی پڑتی ہے تو اسے نور کے علاوہ کوئی شے نظر نہیں آتی تو وہ کہ اٹھتا ہے لا موجود الا اللہ اور جن پر تجلی نہیں پڑتی تو وہ اس صوفی کے دعوے کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں -

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ :

’’وحدت الوجود کا معنی یہ ہے کہ حقیقت جامعہ کی معرفت میں اس طرح محو ہو جانا کہ سارا عالم اس میں فنا ہو جائے یہاں تک کہ اس سے تفرقے اور امتیاز کے احکام یعنی فرق، جدائیگی اور فرق مراتب  ساقط ہو جائیں جو کہ خیر اور شر کی پہچان کا ذریعہ ہوتے ہیں‘‘-[11]

مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت میں انسان اس طرح غرق ہو جائے کہ مخلوق اور دیگر جتنے امتیازات ہیں وہ غیر حقیقی محسوس ہونے لگیں- شیخ نعمۃ الله بن محمود فرماتے ہیں :

’’ جب ایک مشاہد اللہ کے نور کا مشاہدہ کرتا ہے تو وہ اس کے جمال میں ایسا مستغرق ہوتا ہے کہ وہ اُس ذات کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھتا‘‘-[12]

امام غزالی بھی اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ:

’’ جس کی بصیرت قوی اور قوت غالب ہو وہ اپنے اعتدال کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں دیکھتا اور نہ ہی کسی کو پہچانتا ہے-وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی شے موجود نہیں غیر کے افعال اسی کی قدرت کے آثار میں سے ایک اثر ہیں وہ اُسی کے تابع ہیں- حقیقت میں اس ذات کے بغیر اس کے غیر کا بھی وجود نہیں-حقیقی وجود اسی ذات واحد کا ہے جس شخص کا یہ حال ہوتا ہے وہ جس فعل کو بھی دیکھتا ہے اس فعل میں اس کے حقیقی فاعل کو دیکھتا ہے وہ تو نہ آسمان کو آسمان کی حیثیت سے دیکھتا ہے نہ ہی زمین کو زمین کے طور پر نہ ہی درخت و حیوان کو درخت و حیوان کے اعتبار سے وہ جس شے کو بھی دیکھتا ہے تو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ ذات حق کی صنعت و کاری گری ہے ‘‘-[13]

 ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں کہ آنکھ کے نور میں جس قدر اضافہ ہوتا جائے گا تو اُسی قدر غیر اللہ کے وجود میں ہی کمی ہوتی جائے گی اگر وہ سلوک کے راستے پر یونہی برقرار رہے تو کمی کے بڑھتے جانے سے دوسرا وجود ختم ہو جائے گا-اب اسے اللہ تعالیٰ کے انوار کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دے گا یوں اسے کامل توحید کا درجہ حاصل ہوگا-[14]

علامہ اسماعیل حقی شیخ ابن عربی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

’’کل موجودات اگر چہ باطل سے موصوف ہیں تب بھی من حیث الوجود حق ہیں لیکن جس پر سلطان المقام (یعنی اللہ کی ولایت یا اس کی تجلیات ) کا غلبہ ہوتا ہے وہ تمام ممکنات کو باطل سمجھتا ہے کہ اُس کا ذاتی طور پر اُس کا کوئی وجود نہیں اس بنا پر وہ عدم کے حکم میں ہیں اس لیے کہ اس جہان کا ذرہ ذرہ اپنے طور پر نہیں بلکہ وجود باری تعالیٰ سے قائم ہے اسی اعتبار سے اُسے باطل کہا جاتا ہے وہ عارف باللہ جو مقامات قرب میں عرفان کی ابتدائی منزلیں طے کر رہا ہوتا ہے تو اسے بسا اوقات تمام موجودات لاشئی نظر آتی ہیں وہ اُسں عرفان کی وجہ سے مشاہدہ خلق سے محجوب ہو جاتا ہے ‘‘-[15]

 تو نتیجہ یہ نکلا کہ نظریہ وحدت الوجود مشاہدے پر قائم ہے - اس کاتعلق کشف و کیفیات اور مشاہدات کے ساتھ ہے- صاف ظاہر ہےکہ جب ایک عارف مقام فنا پر پہنچتا ہے تو باقی مخلوق تو کجا اُسے اپنے ہونے کا احساس بھی نہیں ہوتا اسے ہر طرف نور ہی نور نظر آتا ہے- باقی تمام موجودا ت اس کے حق میں معدوم ہوجاتی ہیں لہذا وہ جس چیز کا مشاہدہ کرتا ہے اسی کو بیان کرتا ہے- وہ یہ کہتا ہے کہ اصل اور حقیقی وجود اللہ تعالیٰ کا ہے باقی تو تمام چیزیں زائل ہونے والی ہیں یہی وحدت الوجود ہے- کیونکہ نظریہ وحدت الوجود کا تعلق مشاہدے اور حقیقت کے ساتھ ہے- تو یہ غور نہ کرنے والے لوگوں کی سمجھ سے بالاتر رہتا ہے یاد رہے کہ جس چیز کا تعلق کشف اور مشاہدے کے ساتھ ہو اُس کو علمی مباحثے میں ایک حد تک تو جانا اور سمجھا جا سکتا ہے لیکن اُس کی حقیقت تک کشف یا صاحبِ کشف کے ذریعے ہی پہنچا جا سکتا-یہی تو وجہ ہے کہ جب اس نظریہ وحدت الوجود کو کشف یا اہلِ کشف سے ہٹ کر محض علمی انداز میں سلجھانے کی کوشش کی گئی تو بہت سے لوگ ٹھوکر کھا گئے اور ایسا نظریہ جو عین توحید ہے اس کو شرک کہہ بیٹھنے کے مرتکب ہوگئے -  دنیائے علم و عرفان کے بے تاج بادشاہ شیخ ابن عربی پر طرح طرح کے الزامات لگائے -  بقول اقبال:

رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
کہ یہ منصور کی سُولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا

بعض حضرات کو لفظ وحدت الوجود سے یہ مغالطہ لگتا ہے کہ شیخ نے خالق اور مخلوق کے وجود کو ایک کر دیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے اگر لفظ پر بھی غور کریں تو بات سمجھ آجاتی ہے- یہ وحدت الوجود ہے اتحاد الوجود نہیں اتحاد اور وحدت میں فرق  ہے :

اتحاد کم از کم دو چیزوں کو ایک کرنے ، جمع کرنے ، یا اکٹھا کرنے کا نام ہے تو اتحاد الوجود کا معنی ہوگا  دو وجودوں کو ایک کرنا اب ذرا وحدت الوجود کو دیکھئے وحدت مصدر ہے جس کا معنی ہے ایک ہونا نہ کہ ایک کرنا : تو وحدت الوجود کا معنی ہوگا ایک وجود کا ہونا نہ کہ ایک وجود کرنا -  یعنی ایک حقیقی وجود (واجب الوجود) کا ہونا اور اس کے تخلیق فرمانے سے ظلی وجود (ممکن الوجود) کا ہونا- 

اسی وحدت سے واحد ہے اور واحد کے دومعنی آتے ہیں اکیلا اور یکتا جب کہا جاتا ہے اللہ واحد تو عام لوگوں کو سمجھانے کیلئے یہ معنی کیا جاتا ہے اللہ ایک ہے یا اکیلا ہے-لیکن اگر حقیقت میں دیکھاجائے تو اس کا معنی ہے الله یکتا ہے ، یعنی اپنی ذات وصفات اور افعال میں یکتا ہے اُس کی مثل کوئی شے نہیں-

 اسی چیز کو امام اعظم ابوحنیفہ نے الفقہ الاکبر میں بیان فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ واحد ہے لیکن بطریق عدد نہیں بلکہ اس طریق سے کہ اس کا کوئی شریک نہیں وہ ’’لم یلد ولم یولد‘‘ہے اُس کے کوئی ہم پلہ نہیں- اس کی مخلوق میں سے کوئی شے بھی اُس کے مشابہ نہیں -وہ اپنے اسماء اور صفات ذاتیہ اور فعلیہ کے ساتھ ہمیشہ سے قائم ہے ‘‘-[16]

امام صاحب کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب تم اللہ واحد کہتے ہو تو اس کے معنی عدد کے اعتبار سے نہ کرو کہ اللہ ایک ہے اکیلا ہے بلکہ معنی اس طرح کرو کہ اللہ یکتا ہے اپنی ذات و صفات، افعال و اسماء میں اور اُس کا کوئی شریک نہیں -

لہٰذا وحدت الوجود کا مطلب یہ جاکر نکلے گا یکتا کا پایا جانا بے مثل اور بے مثال کا پایا جانا -صاف ظاہر ہے تمام موجودات کی ذات وصفات اور افعال،اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور افعال جیسے نہیں ہیں- یہ خالق ہے وہ مخلوق ہیں اللہ کی ذات واجب الوجود ہے اور کائنات کی تمام اشیاء ممکن الوجود ہیں-

خلاصہ:

نظریہ وحدت الوجود ایک خالص تو حید پر مبنی نظریہ ہے-جس میں شیخ ابن عربی نے خلق خدا کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کائنات میں جتنی بھی چیزیں ہمیں نظر آرہی ہیں ان کا وجود سائے کی طرح ہے ان کا وجود حقیقی نہیں- حقیقی اور اصل وجود ذات باری تعالیٰ کا ہے یہ تمام ممکنات فانی ہیں-

باقی کے مقابلے میں فانی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی -اگر یقین نہیں آتا تو پھر معرفت کی راہ کے مسافر بنو جب مشاہدات کی دنیا میں داخل ہوگے تو پھر ہر طرف واجب الوجود کا نور ہی نور اور اس کے جلوے ہوں گے- مخلوق کا وجود تمہیں نظر نہیں آئے گاپھر تم پکار اٹھو گے ’’لا معبود الا الله ، لا موجود الا الله ، لا مقصود الا الله‘‘-

لہٰذا! اس فانی دنیا کو چھوڑو اور اُس باقی ذات کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرو تاکہ تمہیں حقیقی توحید نصیب ہو جائے - 

جیوے مرشد کامل باھُو، جیں ایہہ بوٹی لائی ھُو

٭٭٭


[1](المواقف، جز:1، ص:233)

[2](تہذیب شرح السنوسیہ، ص:26-27)

[3](کتاب التعریفات از امام الجرجانی، ص: 174)

[4](شرح الطحاویہ، جز:1، ص:89)

[5](مشکاۃ الانوار، جز:1، ص:56)

[6](ایضاً)

[7](القصص:88)

[8](الرحمٰن:26-27)

[9](صحیح بخاری، باب لاعیش الاعیش الآخرۃ)

[10](الفواتح الالھیہ، جز:1، ص:212)

[11](فیصلہ وحدۃ الوجود  والشہود، ص:5)

[12](الفواتح الالھیہ، جز:1، ص:212)

[13](تہذیب احیاء العلوم، ج:5، ص:330)

[14](ایضاً)

[15](روح البیان، جز:4، ص:109)

[16](الفقۃ الاکبر، ص:14)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر