شیخ ابن عربی ؒ کاتصورِ انسان کامل: عقلی اثبات و عصری اطلاق

شیخ ابن عربی ؒ کاتصورِ انسان کامل: عقلی اثبات و عصری اطلاق

شیخ ابن عربی ؒ کاتصورِ انسان کامل: عقلی اثبات و عصری اطلاق

مصنف: مترجم : حافظ محمد شہباز اکتوبر 2025

تعارف:

محمد بن علی بن محمد بن العربی الطائی التمیمی جو عرفِ عام میں ابنِ عربیؒ کہلاتے ہیں اسلامی افکار کی دنیا میں ایک برگزیدہ شخصیت کے مرتبے پہ فائز ہیں جنہیں ہر دور کے جلیل القدر صوفیائے کرام کی صف میں شمار کیا جاتا ہے- 1165ء میں ولادت پانے والےشیخ ابنِ عربیؒ نے اسلامی تصوف پر اَن مٹ نقش چھوڑے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ انہیں ’’کمالاتِ روحانی میں برتر شخصیت‘‘جیسا بلند پایہ لقب عطا ہوا اور ’’شیخ الاکبر‘‘ (مغرب میں Doctor Maximus یا The Great Master ) کے عظیم خطاب سے نواز گیا - [1]

شیخ ابنِ عربیؒ نے فلسفیانہ اصطلاحات کو نئے معنوی اسلوب کے ساتھ بَرَت کر فلسفہ و تصوف کے مابین حد بندیوں کو حسنِ تدبیر سے طے کیا اور یوں وہ ’’صوفی فلسفی‘‘ جیسے عظیم الشان لقب کے حقدار ٹھہرے - فلسفیانہ اور عارفانہ زاویۂ نظر کے اِ س مثالی امتزاج نے اسلامی فکر پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں اور شیخ ابنِ عربی ؒکی شہرت کو صوفی فلسفے کےعظیم امام کے طورپہ مستحکم کردیا ہے-

اپنی تصانیف میں شیخ ابن عربی ؒ نے متنو ع مآخذ و مصادر سے استفاد کیا ہے- شیخ ابن ِ عربی ؒکی شہرۂ آفاق تصنیف ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ ([2](The Meccan Revelations اُن کے وسیع ذخیرۂ علم اور افکارِ عمیق کا منہ بولتا ثبوت ہے جو صوفیانہ فکر اور روحانی سلوک کا عمیق و ہمہ گیر مطالعہ پیش کرتی ہے-یہ شاہکار تصنیف اسلامی فکر پہ دور رس اثرات مرتب کر چکی ہے جس نے علماء ، صوفیا اور متلاشیانِ حق کی کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے-

شیخ ابنِ عربی ؒ کا اثر و نفوذ فکریاتِ اسلام کی حدود سے کہیں آگے تک پھیلا ہوا ہے ، اُن کے افکار و نظریات نے میسٹر ایکہارٹ (Meister Eckhart) اور جووانی پیکو دلا میراندولا ( Giovanni Pico della Mirandola) جیسے جَیّد مغربی فلاسفہ کو متاثر کیا- اُن کے افکار نے دنیائے ادب پر بھی گہرا اثرا چھوڑا ، مولانا رومی ؒ اور ابنِ حزمؒ جیسے ارباب ِ علم و دانش نے ان کے تصنیفی سرمائے سے اکتسابِ فیض کیا-یہ بین الثقافتی وبین العلومیاتی اثر و نفوذ تعلیماتِ ابن ِ عربیؒ کی لازوال معنویت اور عالمگیر مقبولیت کی بیّن دلیل ہے-

شیخ ابن ِعربی ؒ: حیات و افکار اور پسِ منظر:

شیخ ابن عربی ؒکے عارفانہ افکار پہ اندلس(سپین) کے ماحول نے گہرا اثر چھوڑا-اپنی جوانی میں شیخ ابنِ عربیؒ اندلس کے شہر سیویل( Seville) شہر میں مقیم تھے جو علمی وفکری اور صوفیانہ مشاغل کا مرکز تھا- وہاں انہوں نے متعدد نامور صوفی شیوخ (رہبر ومرشد) سے شرفِ ملاقات حاصل کیا - تصوف میں اشتیاق و رغبت کی بنا پر شیخ ابن ِ عربیؒ ان صوفیاء کے عقائد اور طرزِ حیات کے گرویدہ ہوگئے- مزید برآں! خاندان سے منتقل شدہ عارفانہ میراث نے انہیں صوفیانہ زُہد و تقوی کی نہ صرف راہ دکھائی بلکہ اسِ جانب رغبت کو مزید جلا بخشی- ایامِ شباب میں اُن پہ وارد ہونے والے متعدد عرفانی تجربات ومشاہدات میں سے ایک یہ تھا کہ انہیں آسمان سے آواز سنائی دی جو آپ کو رضائے الٰہی کے برخلاف ہر عمل ترک کرنے اور اُس ذات( اللہ تعالیٰ) کی کامل ’’خدمہ‘‘  یعنی اطاعت بندگی میں زندگی گزارنے کی ترغیب دے رہی تھی -

شیخ ابنِ عربیؒ کی فکر تصوف کے اُن نظریات وعملی طرق کا امتزاج تھی جو حضرت ذوالنون المصری ؒ اور شیخ النہر جوریؒ نے وضع کیے تھے- [3] ابنِ عربیؒ کی فکر پہ اثر چھوڑنے والے سابقہ اکابرینِ تصوف میں حضرت منصور حلاجؒ ‎(858ء– 922ء)، حضرت بایزید بسطامی ؒ‎(804ء–874ء)، حضرت جنید بغدادیؒ ‎(830ء–910ء)، حضرت سہل تستری ؒ ‎(818ء–896ء) اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ ‎(1077ء –1166ء) سرِ فہرست ہیں -

تصورِ انسان اور شیخ ابنِ عربیؒ :

شیخ ابنِ عربی ؒنے اپنی تصانیف میں تصورِ انسان کا عرق ریزی سے تفصیلی مطالعہ پیش کیا ہے-اُن کے ہاں ’’انسان‘‘ محض مروجہ تصورات تک محدود نہیں بلکہ وہ اسے کائنات کا مصغر عکس یا عالمِ صغیر(Microcosms) کہتے ہیں جو عالمِ کبیر(Macrocosm)کی مکمل عکاسی کرتا ہے-اپنی فلسفیانہ اور عرفانی تعبیرات و توضیحات میں وہ انسان کی صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہونے اور اپنی اصل حقیقت تک رسائی کی صلاحیت کو اُجاگر کرتے ہیں- شیخ ابنِ عربی ؒ کے تصوراتِ انسان کا اثر صوفیانہ فکر اور فلسفہ اسلامی میں جاگزیں ہوچکا ہے جو روحانیت،عرفانِ خودی اور انسان اور خداکے مابین نفیس تعلق کے بارے زاویۂ نظر تشکیل دیتا ہے- [4]

شیخ ابنِ عربی ؒ کی عارفانہ فکر میں تصورِوحدت الوجود :

تصوف (عرفانی تجربہ) میں وحدت الوجود کو نقطۂ معراج سمجھا جاتا ہے- صوفیانہ روایت میں ’’وحد ت الوجود‘‘ (Unity of existence) کا تصور سب سے پہلے شیخ ابن عربیؒ نے متعارف کروایا - وحدت الوجود کی تعلیمات کو شیخ ابنِ عربیؒ نے اس طور بیان کیا ہے کہ وہ حقیقتِ وجود کی یکتائی کی معرفت پہ خصوصی زُور دیتے ہیں-اس کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات میں موجود ہرشئے اگرچہ بظاہر جداگانہ دکھائی دیتی ہےتاہم حقیقت میں اُس کاا پنا کوئی وجود نہیں بلکہ ہر شئے ذاتِ خداوندی کی محتاج ہے جو خالق و مختارِ کل ہے-

خود ابنِ عربیؒ نے اللہ تعالیٰ کو مطلق وجود جبکہ اس کے مقابلے میں کائناتِ مشہودہ یعنی عالمِ مظاہرکو نسبی وجود کہا ہے-یہ کمال درجے کا روحانی شعور محض ایک قیاسی تصور نہیں بلکہ ذاتِ حق تعالیٰ سے عارفانہ راز و نیا ز کے توسط سے حاصل ہونے والی کیفیات و واردات (ذوق) پہ اُستوار ہے-

اپنی وجودی فکر میں، ہم عصر دیگر مابعد الطبیعیاتی صوفیاء کی طرح قرون وسطیٰ میں رائج نظریۂ تخلیق کے موافق، ابنِ عربی ؒ نے صُدور (تجلی) پہ ایمان ر کھا یعنی اللہ تعالیٰ نے علم کے وجود سے لے کر مادے کے وجود تک کائنات کی ہر شئے کو ظہور بخشا ہے- چنانچہ شیخ ابنِ عربیؒ کے نزدیک ہر شئے کا وجود  تجلیٔ ربانی اور لاتعداد مظاہر میں ذاتِ مطلق کا ظہور ہے -[5]

وحدت الوجود کے تصور پہ بحث کرتے ہوئے شیخ ابنِ عربیؒ اکثر تمثیلاتی انداز اپناتے ہیں جو اُن کے روحانی تجربات و مشاہدات کی ترسیل کو قابلِ فہم اور مؤثر بنادیتا ہے-ذاتِ حق کی جلوہ گری یا تجلّیاتِ حق تعالیٰ اُن کے فلسفے کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے-یہ عقیدہ اُن کا اِس حدیث ِ قُدسی پر گہرے تدبّر و تفکّر سے متاثر ہے-

’’میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، میری چاہت بنی کہ میں پہچانا جاؤں،پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا تاکہ میری پہچان ہو‘‘-

اِس تصور کے تحت ، مخلوق اللہ تعالیٰ کی تجلّی ہے جو اس کے آثارِ تخلیق کے ذریعے ظہورپاتی ہے-شیخ ابنِ عربی ؒکے نزدیک اس کائنات کی ہر شے ذاتِ مطلق کی محض تجلّی ہے-ذاتِ مطلق کے وجود کو ’’چھپاہوا خزانہ‘‘  کی اصطلاح سے تعبیر کیا گیا ہے جو اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ کائنات سے قبل اپنی ذات کو مخفی رکھا اور پھر مخلوق کے ذریعے اپنا ظہور فرمایا تاکہ پہچانا جائے- لہذا شیخ ابنِ عربیؒ کایہ دعوی ہے کہ کائنات کے (یعنی تخلیقِ عالم کے وسیلہ سے) ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے-

شیخ ابن عربیؒ کا تصورِ انسان ِ کامل:

صوفیاء انسان کامل کی اصلاح ایسے مسلمان کیلئے استعمال کرتے ہیں جو روحانی کمال کی انتہا یعنی فنا فی اللہ تک رسائی حاصل کرچکا ہو- شیخ ابنِ عربیؒ انسانِ کامل کو ظہورِ الٰہی کیلئے ایک کامل ظرف (محلِ ظہور ) کے طورپہ دیکھتے ہیں-اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان’’الکون الجمیل‘‘ ہے یعنی انسان وہ مرکزی ہستی ہے جو عالمِ صغیر کے طور پہ عالمِ کبیر میں منعکس ہوتی ہے اور صفاتِ الٰہیہ بھی اسی سےجھلکتی ہیں- اس کا مفہوم یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ کسی آئینے کی مثل انسان سے انوارِ حق کا ظہور ہوتا ہے-

صوفیاء کے نزدیک کائنات اللہ تعالیٰ کی صفات و اسماء (الاسماء الحسنیٰ) کا آئینہ ہے-ہر مرتبہ ٔ وجود خواہ وہ جمادات ہوں، نباتات ہوں بعض صفاتِ الٰہیہ کا عکس سمجھا جاتا ہے-تاہم کائنات کی تمام مخلوقات میں سے کوئی بھی مخلوق صفاتِ الٰہیہ کی عکاسی انسان کے برابر نہیں کر سکتی-اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جو بطور عالمِ صغیر جملہ عناصرِ کائنات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے مرتبہ کمال تک رسائی کے بعد تمام الٰہی صفات کا بہ تمام و کمال مظہر بننے کی صلاحیت رکھتا ہے -اسی بنا پر انسان کو انسانِ کامل کہا جاتا ہے-  [6]

انسان ِ کامل کی تکمیل نورِ محمدی (ﷺ) (الحقیقۃ المحمدیہ)   کے وسیلہ جلیلہ سے ذاتِ الٰہی کے ظہور کا نتیجہ ہے - حقیقتِ محمدی (ﷺ) ذاتِ الٰہی کے ظہور کے لیے کامل پیکر اور اللہ رب العزت کی اوّلین تخلیق ہے-[7] چنانچہ ایک پہلو سے انسانِ کامل ذاتِ الٰہی کے ظہور کیلئے کامل وسیلہ ہے جبکہ دوسرے پہلو سے وہ کل کائنات کا ایک خُرد نمونہ /عکسِ صغیر ہے کیونکہ اس میں کائنات کی جزوی حقیقتیں خواہ وہ مادی ہوں یا ماورائی دونوں منعکس ہوتی ہیں-

کمالِ انسانیت سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ انسان مقامِ اُلوہیت تک پہنچ جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مثل و مشابہ کوئی شئے ہو ہی نہیں سکتی جو اس کی ہمسری کرسکے- شیخ ابن ِ عربیؒ اِس حقیقت کو ’’ھولا ھو‘‘ یعنی 'وہ ہے مگر عین وہ نہیں 'کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں-انسان، انسان کامل تو ہے لیکن  عین ذات نہیں ہے-عین ذات تو اللہ وحدہ لا شریک ہے-پس انسان اپنی ذات میں وہی رہتا ہے جو وجود کی اصل کے سوا کچھ نہیں-انسان میں یہ صلاحیت  ودیعت کر دی گئی ہے کہ وہ ہر شئے میں تمام اسرار و حقائق ربّانی کا احاطہ کر سکے- اس لحاظ سے مخلوق میں انسان نہ صرف یکتا و بے مثل ہے بلکہ کائنات میں اپنا مؤثر و فعال کردار بھی بخوبی نبھاتا ہے-لہٰذا، انسان کو ’’انسانِ کامل‘‘ کہا جا سکتا ہےبشرطیکہ وہ اپنی روح کو پاکیزہ و طیب رکھ کر ہر طرح کے ایسے خصائل رذیلہ سے اجتناب کرے جو اس کی باطنی و روحانی بصیرت کو اندھا کر سکتے ہیں-

شیخ ابنِ عربیؒ : انسانِ کامل اور ایمان کا عقلی اثبات

شیخ ابن عربی ؒکے دو کلیدی نظریات (وحدت الوجود اور انسانِ کامل) کی بنا پر انسانِ کامل کی بحث ایک دلچسپ اور قابلِ تحقیق موضوع ہے- وہ اِس بات پہ زور دیتے ہیں کہ اِ س کائنات کی جملہ مخلوقات میں سے انسان کے علاوہ کوئی بھی مخلوق صفاتِ الٰہیہ کی کامل عکاسی نہیں کرسکتی -[8]

شیخ ابن ِ عربیؒ کے نزدیک انسانِ کامل دو اقسام میں منقسم ہے: پہلی قسم انسانِ کامل کی ’’حقیقت‘‘ہے جو بنیادی یا ابتدائی قالب میں موجود ہے اور ہر انسان اللہ تعالیٰ کےخاص فضل و عنایت سے منتخب ہستی قرار دیا گیاہے-اس صورت میں انسانی فرد سے مراد انبیاء و اولیاء کی شخصیت ہے جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی انعام یافتہ منتخب ہستیوں کی حیثیت سے موجود ہیں-ابنِ عربیؒ اسے حقیقتِ محمدیہ (ﷺ) کے طور پر پیش کرتے ہیں-  [9]

حیرت انگیز طور پہ یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان میں کائنات کی کل موجودات پنہاں ہیں-یہ اسرارِ ذات ہی ہیں جو انسان کو انسانِ کامل کے مرتبے تک پہنچاتے ہیں کیونکہ تخلیق میں ظہورِ الٰہی کی کامل تجلی موجود ہے جس میں اُس کے اسمائے حسنٰی جلوہ گر ہیں-چنانچہ انسان تمام صفاتِ الٰہیہ کا مظہر ہے جو کائنات کی جانب اللہ تعالیٰ کے ظہور کی مختلف شکلیں ہیں -

شیخ ابن ِ عربیؒ کا تصورِ ’’انسانِ کامل‘‘ اُن کے فلسفیانہ و روحانی نظامِ فکر کا طُرَّۂ امتیاز ہے-[10]  یہ تصور حیاتِ انسانی کے منتہائے مقصود کی نمائندگی کرتا ہے جو کہ کسی فرد کی ذات میں صفات و اوصافِ الٰہیہ کو عیاں کرتا ہے-مزید یہ تصور اپنی نوعیت میں جِدَّت کا حامل ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت اور ذاتِ خداوندی سے متعلق مروّجہ تصورات کو چیلنج کرتا اور انسانی حالت کی ایک زیادہ ہمہ گیر و مربوط تفہیم پیش کرتا ہے-

شیخ ابن ِ عربیؒ کا تصورِ انسانِ کامل جو عقلی ایمان اور فکری وجدان کے ذریعے متحقق ہوتا ہے انسانی فطرت اور حقیقتِ وجود کی تفہیم کیلئے عقلی و عرفانی نقطہ ہائے نظر کا مثالی امتزاج پیش کرتا ہے-[11]  یہ امتزاج اِس لحاظ سے جدّت کا حامل ہے کہ یہ فلسفہ، الٰہیات اور تصوّف کے مابین روایتی قیود سے آزاد ہوکر وجودِ انسانی اور حقیقتِ وجود کا ہمہ گیر و ہمہ جہت فہم عطا کرتا ہے-

شیخ ابنِ عربیؒ کے تصورِ انسانِ کامل نے اسلامی فکریات پر بالخصوص تصوف اور اسلامی فلسفہ کے میدان میں گہرا اور دیرپا اثر چھوڑا ہے-اُن کے افکار و نظریات نے اسلامی تصوف کی تدوین و تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا اور آج تک متلاشیان حق اور فلاسفہ کےلیے مشعلِ راہ ہیں -[12]   شیخ ابن ِ عربیؒ کی فکر نے جلیل القدر صوفیاء جیسے مولانا رومی ؒ اور عطار نیشا پوریؒ پہ گہرا اثر مرتب کیا -[13]   اس کے علاوہ فلسفۂ ابن عربیؒ نے اسلامی فلاسفہ جیسے ملا صدرا اور میر داماد کو بھی متاثر کیا جنہوں نے اُن کے نظریات کوفکری بنیاد بناکر انہیں مزید وسعت بخشی-[14]  مزید تصورِ انسانِ کامل نے اسلامی اخلاقیات و فضائل کی ترقی پہ بھی اثر مرتب کیا ہے جس میں  فردِ انسانی کو صفاتِ الٰہیہ کا مظہر بننے کی ضرورت واہمیت پہ زور دیا گیا ہے-

تصورِ انسان کامل کا عصری اطلاق:

صوفیانہ فلسفے میں عقلی ایمان کی تعبیر و توضیح کے ضمن میں شیخ ابنِ عربیؒ کا’’تصورِ انسانِ کامل ‘‘ایک عظیم کارنامہ ہے- اِس سے مصنف یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ شیخ ابنِ عربیؒ کے افکار جدید دور کے تناظر میں بھی انتہائی اہمیت و مؤثریت کے حامل ہیں-

اوّل، ’’انسانِ کامل‘‘ کا تصور اس امر کی ضرورت و اہمیت سے عیاں ہوتا ہے کہ شعور اور وجود کی اعلیٰ ترین سطح تک رسائی کےلیے انسانی صلاحیتوں کو اُجاگر کیا جائے-یہ تصور حیاتِ انسانی کے مختلف پہلوؤں پر عملی اثرات و نتائج مرتب کرتا ہے- یہ انسان میں ذاتِ الٰہی تک رسائی کے حصول  کا ذوق، روحانی شعور، علم اور سچائی کی جستجو، خود آفرینی یا اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی قدر شناسی ،اخلاق و فضائل کے مطابق زندگی بسر کرنے، سماج اور ماحول پہ مثبت و تعمیری اثر مرتب کرنے، سماجی فکر(معاشرتی ذمہ داری کا احساس) اور باطنی و روحانی پاکیزگی کے تجربات سے عیاں ہوتے ہیں -  [15]

دوّم ، انسان کامل کا تصور محض اندھی تقلید پر مبنی نہیں بلکہ عقل و علم پہ اُستوار عقلی ایمان کی اہمیت پہ زور دیتا ہے- یہ استدلالی نشو ونما (منطقی فکر کے طریقہ کار) ، عقیدہ میں عقلی فہم (مبادیاتِ عقیدہ کی معرفت)،تحقیق اورعلمی مطالعہ کی قدر  شناسی ،مباحثہ و مکالمہ میں دلچسپی، وسعتِ علمی، عبادت میں کیف و سرور محسوس کرنے، روحانی پاکیزگی اور سماجی زندگی میں نمونۂ عمل بننے سے جھلکتا ہے-  [16]

سوّم، تصورِانسانِ کامل کائنات یا فطری قوانین کی تفہیم و معرفت پہ زور دیتا ہے جن کا اطلاق نوِ ع انسان کے ہر فرد پہ ہوتا ہے خواہ اُس کا تعلق کسی بھی تہذیب و ثقافت یا مذہب سے کیوں نہ ہو- یہ تصور عالمی سائنسی تحقیق کے لیے انسانی وسعتِ نظر ی ، قوانینِ فطرت کی معرفت ، خیرِ کُل یعنی پوری انسانیت کی بہبود کےلیے علومِ سائنس کا عملی اطلاق، ثقافتی تنوع کی قدر شناسی، تمام تر تناظرات میں گوناگوں افراد کے ساتھ باہمی تعاون و اشتراک قائم رکھنے ، عالمگیر اخلاقی اقدار و اصولوں کی پاسداری، علومِ کائنات کی تعلیم کو فروغ دینے اور ماحولیاتی تحفظ کے ذریعے آشکار ہوتا ہے-  [17]

چہارم، انسان کامل کا تصور کائنات کے امین و نگہبان کی حیثیت سے انسانی ذمہ داری کی اہمیت پہ زور دیتا ہے کہ وہ کائنات کے نظم و نسق اور وسائل کو دانشمندی سے برتے جو پائیدار انتظام و تحفظ کاذریعہ بنے- یہ انسان کی ماحولیاتی تحفظ و بقاء کیلئے جدوجہد،وسائل کے پائیدار ومؤثر استعمال ،ماحولیاتی تحقیق کے ذریعے ماحولیاتی انتظام و انصرام میں نئی ایجادات کی جستجو، ماحولیاتی تعلیم کے فروغ، ماحولیاتی نظم کے اخلاق و اصولوں کی تشکیل، ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی تعاون، استحصال کے منفی اثرات سے باخبر رہنے، زندگی کی قدر شناسی اور ماحولیاتی بحرانوں کے تدارک کےلیے فی الفور مؤثر اقدامات کرنے سے ظاہر ہوتا ہے -[18]

پنجم ،انسان ِ کا مل کا تصور خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کی معرفت کےلیے ایک مثالی نمونہ پیش کرتا ہے ،نیز انسانوں میں اُن کے حقیقی وجود (باطنی حقیقت) تک رسائی کی صلاحیت کو بھی اُجاگر کرتا ہے-[19]  کائنات میں وجودِ مطلق کی موجودگی کا تیقن باطنی اوصاف اور اخلاقیات کی نشوونما کرنے،  حق کی جستجو، خدمتِ خلق، عرفانِ ذات کی آبیاری، روحانی ہستی کی حیثیت سے پروان چڑھنے، اللہ تعالیٰ سے روحانی وحدت ویگانگت کی نگہداشت، تمام مخلوقات سے باہمی ربط و تعلق کے شعور اور تمام انسانی صلاحیتوں (روحانی، عقلی،  جذباتی) میں حصولِ کمال کےلیے سعی پیہم کرنے سے عیاں ہوتا ہے -

ششم، انسان ِ کامل کا تصور تعلیم کے میدان میں بھی نمایاں اثرات مرتب کرتا ہے کیونکہ یہ انسانی صلاحیتوں کی نشو و نما و ترقی اور عقلی ایمان کی اہمیت پہ زوردیتا ہے- مراد یہ ہے کہ ایک ہدف مقرر ہو جس کو ملحو ظ رکھ کر ایسے بااخلاق، تعلیم یافتہ اور ذمہ دار افراد تیار کیے جائیں جو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی اہلیت رکھتے ہوں-[20]  یہیں سے ایمان مضبوطی و پختگی سے نشو ونما پاکر کائنات کی دانشمندانہ تنظیم میں عقلی طور پر معاون ثابت ہوتا ہے- اِس تصور کے اثرات و مضمرات ہمہ جہتی تعلیم (جسمانی، ذہنی و فکری، جذباتی اور روحانی)، فردی صلاحیت (قابلیتیں یا مہارتیں) کی نشوو نما و ترقی، اخلاقی و روحانی تعلیم، عقلی ایمانیات(عقائد) کی تعلیم، ماحولیاتی تحفظ و پائیداری کی تعلیم، سائنس اور فلسفہ کی تعلیم (صحیح عقلی استدلال کی آبیاری)، سیرت و کردار سازی کی تعلیم، انتظامِ کائنات میں فعاّل شمولیت، عالمگیر مسائل کے مؤثر حل کی تعلیم اور بین الثفافتی مکالمہ پہ مشتمل تعاون پر مبنی نظام تعلیم کا احاطہ کیے ہوئےہیں- [21]

چنانچہ شیخ ابنِ عربیؒ کے تصورِ ’’انسان کامل‘‘کی روح اور خلاصہ یہ ہے کہ محبت و طلبِ الٰہی سے برتر اور اشرف دین میں اور کوئی چیز نہیں-

اختتامیہ:

بلاشبہ شیخ ابنِ عربیؒ ایک تخلیقی، جمالیاتی اور ہمہ جہت صوفی و صاحبِ بصیرت فلسفی سمجھے جاتے ہیں - یہ حقیقت اُ ن کے صوفیانہ و فلسفیانہ افکار کے گنجِ گراں مایہ سے بخوبی عیاں ہے -شیخ ابنِ عربیؒ کی فکر ایمان باللہ کی عقلی تفہیم میں فلاسفہ و متکلمین کیلئے حقیقتاً ایک رہنما مثال ہے-مزید اُن کے فکری سرمائے میں عقلی بنیادوں پہ اُستوار تصورِ ’’انسان کامل‘‘ خالق و مخلوق کے مابین تعلق کی معرفت کیلئے ایک قابلِ عمل مثالی نمونہ پیش کرتا ہے-  الغرض شیخ ابنِ عربیؒ اِس حقیقت کے ادراک میں معاونت فراہم کرتے ہیں کہ عقلِ انسانی ایما ن کے اسرار و رموز سے متضاد و مغائر نہیں بلکہ اِس کا مقصد وجودِ الٰہی کو حقیقت پسندانہ زاویۂ نظر سے آشکار کرنا ہے-

٭٭٭


[1]Stephen Hirtenstein, The Unlimited merciful, the spiritual life and thought of Ibnu Arabi

(Oxford: Anga Publishing, 1999), ix.

[2]Michel Chodkiewicz, The Meccan Revelations: Text and Commentary ([t.k.] Pir Press, 2002), xiii.

[3]Maribel Fierro, “Opposition to Sufism in Andalusia,” in Islamic Mysticism Contested, eds. Irene J. F. de Jong and  Bernd  Radtke  (Leiden: Brill, 1999), 178, https://doi.org/10.1163/9789004452725_013. 

[4]Rebekah Zwanzig, An Analysis of Ibn al-Arabi’s al-Insan al-Kamil, the Perfect Individual, with a Brief Comparison to the Thought of Sir Muhammad Iqbal, (Faculty of Philosophy, Brock University St. Catharines, 2008), 38.

[5]محمد ابنِ عربی، فصوص الحکم، (قاہرہ:     1946ء)، ص: 28

[6]مولیادی کرتنکرا (Mulyadhi Kartanegara)، تصوف کے عمیق پہلوؤں میں غوطہ زنی (Menyelami Lubuk Tasawuf) ، (جکارتہ: ارلانگگا"Erlangga"، 2006ء)، ص: 66

[7]یونسریل علی (Yunasril Ali)، انسان: عکسِ الٰہی (Manusia Citra Ilahi)، ص :56

[8]Toshihiko Izutsu, Sufism and Taoism: A Comparative Study of Key Philosophical Concepts (Pakistan: Suhail Academy Lahore, 2005), 329.

[9]Wiliam C. Chittick, Imaginal Worlds: Ibn al-ʿArabi and the Problem of Religious Diversity (Albany: State University of New York Press, 1994), 55.

[10]M. Chodkiewicz, An Ocean Without Shore: Ibn Arabi, the Book, and the Law (USA: State University of New York Press, 2009), 123.

[11]A. Knysh, Sufism: A Very Short Introduction, (Oxford University Press, 2017), 181

[12]W. C., Chittick, The Self-Disclosure of God: Principles of Ibn Arabi’s Cosmology, (SUNY Press, 2017), 205.

[13]A., Schimmel, Mystical Dimensions of Islam (USA: Yale University Press, 2013), 204.

[14]S. H., Nasr, The Essential Seyyed Hossein Nasr: A Collection of Essays (World Wisdom, 2015), 278.

[15]Masataka Takeshita, Ibn ‘Arabi’s Theory of the Perfect Man and Its Place in the History of Islamic Thought [E-Book], (Tokyo: University of Foreign Studies, 1987), 201,

https://archive.org/details/IbnArabiSTheoryOfThePerfectManAndItsPlaceInIslamicThought.

[16]Masataka Takeshita, Ibn ‘Arabi’s Theory of the Perfect Man and Its Place in the History of Islamic Thought, 206.

[17]I.b.i.d.

[18]Masataka Takeshita, “The Theory of the Perfect Man in Ibn ‘Arabi’s Fusus Al-Hikam,” J-STAGE 19 (1983): 91, https://doi.org/10.5356/orient1960.19.87. 

[19]Masataka Takeshita, Ibn ‘Arabi’s Theory of the Perfect Man and Its Place in the History of Islamic Thought, 208.

[20]I.b.i.d.

[21]I.b.i.d., 209.

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر