حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذاتِ مبارکہ نہ صرف ایک عظیم رہنما اور معلم کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ آپ (ﷺ) کو ایک عادل، باوقار اور غیر جانبدار ثالث کے طور پر بھی تسلیم کیا گیا- آپ (ﷺ) کے فیصلے عدل، حکمت اور غیر جانب داری کا اعلیٰ نمونہ تھے، جنہیں نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلم اقوام نے بھی قابلِ اعتماد اور قابلِ قبول مانا- آپ (ﷺ) کی ثالثی کے دوران ہمیشہ فریقین کے مذہبی اور سماجی پس منظر کا احترام کیا جاتا، حتیٰ کہ یہودی قبائل کے باہمی معاملات میں فیصلہ کرتے ہوئے آپ (ﷺ) نے ان کے اپنے مذہبی قوانین کو بنیاد بنایا، جو آپ (ﷺ) کی بین الاقوامی سطح پر انصاف پسندی کی روشن دلیل ہے- آپ (ﷺ) ثالثی کو ایک مؤثر، پُرامن اور پائیدار ذریعۂ حل سمجھتے تھے، جو آج کے عالمی منظر نامے میں بین الاقوامی تنازعات کے حل کیلئے انتہائی موزوں ماڈل فراہم کرتا ہے-
سیرتِ مبارکہ سے چند ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں، جو آج بھی اقوامِ عالم کے لیے عدل، برداشت اور مصالحت کا منشور ثابت ہو سکتی ہیں-
حجر اسود کا واقعہ:
جب قریش خانہ کعبہ کی تعمیر نو کر رہے تھے تو قریش کے قبائل خانہ کعبہ میں حجرِ اسود نصب کرنے پر جھگڑ پڑے، آخر کار انہوں نے یہ طے کیا کہ جو کل صبح مسجد حرام میں سب سے پہلے داخل ہو وہی فیصلہ فرمائے گا دوسری صبح حضور نبی کریم (ﷺ) سب سے پہلے مسجد حرام میں داخل ہوئے تو ان میں سے جو بزرگ ترین شخص تھا اس نے کہا :
’’ھذا الامین رضینا بہ حکما ھذا محمد ‘‘
’’یہ محمد ہیں ، یہ امین ہیں ، ہم سب ان کے فیصلے پر راضی ہیں ‘‘-
جب آقاکریم (ﷺ) ان کے قریب پہنچے تو انہوں نے سارا ماجرا عرض کیا حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ایک چادر لے آؤ ، وہ چادر لے آئے، حضور پاک (ﷺ) نے اس چادرکو زمین پر بچھایا اور اپنے دستِ مبارک سے حجرِ اسود کو اٹھا کر چادر کے درمیان رکھ دیا - ہر قبیلہ کے ایک ایک سردار کو بلایا اور فرمایا : سب مل کر اس چادر کو پکڑ لو اور اس چادر کو لے آؤ - سب نے اس چادر کو تھام لیا - جب وہ اس مقام پر پہنچے جہاں حجر ِ اسود نصب کرنا تھا تو نبی اکرم (ﷺ) نے اپنے برکت والے ہاتھوں سے اٹھایا اور دیوار میں اس کے مقررہ مقام پر رکھ دیااس طرح اس مقدس کام میں شرکت کا فخر بھی سب کو حاصل ہو گیا اور فتنہ و فساد کے بھڑکنے والے شعلے اپنی موت آپ مر گئے اور سب کے دلوں میں مسرت و شادمانی کی لہر دوڑ گئی- یہ واقعہ اعلان نبوت سے پہلے کا ہے جب آپ کی عمر مبارک 35 برس تھی -[1] یہ فیصلہ نہایت دانشمندانہ اور پُرامن تھا، جس نے شدید تنازع کو ٹال دیا-
میثاق مدینہ:
حضور رحمتِ عالم (ﷺ) نے ایک مدبر قائد کی حیثیت سے ممکنہ خطرات کو کم کرنے اور داخلی استحکام قائم رکھنے کے لیے، مذہب کی تفریق کے بغیر، مدینہ منورہ کے تمام باشندگان کو متحد کیا۔ انصار، مہاجرین اور یہودی قبائل کو شامل کرتے ہوئے آپ(ﷺ) نے ایک جامع معاہدہ مرتب فرمایا، جس کا مقصد مشترکہ مفادات کے تحفظ اور باہمی تعاون کو یقینی بنانا تھا۔یہ منشور، جو بیک وقت اجتماعی، دفاعی، معاشی اور سیاسی نوعیت کا حامل تھا، تاریخ میں ’میثاقِ مدینہ‘ کے نام سے معروف ہوا۔ اس معاہدے کا فوری اثر یہ ہوا کہ کشیدگی کی فضا ختم ہو گئی، باشندگانِ مدینہ کا اعتماد بحال ہوا اور ایک منظم معاشرتی ڈھانچہ وجود میں آیا۔ یہ معاہدہ مدینہ کو ایک مضبوط، پرامن اور متحد معاشرہ بنانے میں سنگِ میل ثابت ہوا، جو بعد میں اسلامی ریاست کی بنیاد بنا- اس میثاق کی دفعات آفاقی اصولوں پر مبنی تھیں، ان میں ہر قوم کو مذہبی آزادی، سکیورٹی اور انصاف کی ضمانت دی گئی-
صلح حدیبیہ:
یکم ذی قعدہ 6 ھ کو حضور پاک (ﷺ) اپنے 1500-1400صحابہ کے ساتھ عمرہ کے ارادہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے اور قربانی کیلئے 70 اونٹ بھی ہمراہ لیے- حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا اور آپ (ﷺ) نے حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا - حضرت عثمان غنی(رضی اللہ عنہ) نے مکہ پہنچ کر رؤسا قریش سے ملاقات کی اور صحیح صورت حال سے آگاہ کیا آپ نے انہیں بتایا کہ ہم جنگ کرنے کی غرض سے نہیں آئے ، ہم نے احرام باندھا ہوا ہے ، قربانی کے جانور ہمارے ساتھ ہیں اور اسلحہ ہمارے پاس نہیں - آپ نے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی ہم یہاں چند روز قیام کے بعد واپس چلے جائیں گےلیکن کفارِ مکہ اپنی ضد پر اڑے رہے-اہل مکہ نے حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کو روک لیا تاکہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہے تو اس دوران یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کو شہید کر دیا گیا ہے تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے بیعت رضوان لی - [2]
جب قریش کو اس بیعت کی اطلاع ملی تو انہوں نے حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کو بھی واپس بھیج دیا اور سہیل بن عمرو کی قیادت میں وفد بھیجا جس نے حضور نبی کریم (ﷺ) سے مذاکرات کیے اور معاہدہ ہوا معاہدے کی اہم شرائط یہ ہیں: دس سال تک فریقین میں جنگ نہیں ہو گی، آپ اس سال واپس چلے جائیں آئندہ سال عمرہ کے لیے تشریف لائیں اور مکہ میں تین دن قیام فرمائیں گے، جس قبیلہ کی مرضی ہو وہ حضور پاک(ﷺ) یا قریش سے معاہدہ کر لے، جو قریش کا آدمی مسلمانوں کے پاس جائے واپس کر دیا جائے گا مگر جو مسلمان قریش کے پاس جائے واپس نہ کیا جائے گا- [3]
مسلمانوں نے جب معاہدہ کی یہ شرائط سنیں تو ان پر رنج و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا- حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:
’’میں اللہ کا رسول ہوں، (اس کے حکم سے صلح کر رہا ہوں) اللہ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا“-
واپسی کے راستے میں سورۃ فتح نازل ہوئی - چنانچہ تبلیغ اسلام کا کام اس زور شور سے شروع ہوا اور ایسی کامیابیاں حاصل ہوئیں کہ گزشتہ 19 برس کی جدوجہد ایک طرف اور صلح کے بعد دو سال کی جدوجہد ایک طرف-اس سفر میں حضور پاک (ﷺ) کے ہمراہیوں کی تعداد 1400 کے قریب تھی اوردو سال بعد جب فتح مکہ کے لیے حضور پاک (ﷺ) روانہ ہوئے تو دس ہزار کا لشکر جرار ہمراہ تھا-
آئندہ سال جب نبی کریم (ﷺ) اپنے صحابہ کے ہمراہ عمرہ قضا کیلئے تشریف لائے تو آپ (ﷺ) نے فرمایا:
’’یہ ہے جس کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا‘‘- جب 8 ھ میں مکہ فتح ہوا اور کعبہ کے کلید بردار نے کعبہ کی کلید بارگاہ رسالت میں پیش کی تو حضور پاک (ﷺ) نے فرمایا عمر بن خطاب کو میرے پاس بلا کر لاؤ جب حاضر ہوئے تو چابی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا :’’یہ وہ چیز ہے جو میں نے تم سے کہی تھی‘‘-
حضرت عمر نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) اسلام میں کوئی فتح صلح حدیبیہ سے بڑی نہیں ہے -[4]
فتح مکہ:
فتح مکہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی سیرتِ طیبہ کا وہ تاریخی لمحہ ہے جو صبروتحمل، حکمت، عدل، عفو اور اخلاقِ حسنہ کا مظہر ہے-صلح حدیبیہ کے 22ماہ بعدشعبان کے مہینے میں قریش اور ان کے حلیف بنو بکر نے ایک ایسی حرکت کی جس سے معاہدہ صلح کالعدم ہو گیا- قریش ،بنو بکر نے باہم مشورہ ہو کر بنو خزاعہ پر شب خون مارا اور بہت زیادہ قتل عام کیا-جب حضور نبی کریم (ﷺ) نے اس واقعہ کی صبح حضرت عائشہ صدیقہ کو تمام واقعہ بتایا- اس واقعہ کے تین دن بعد عمرو بن سالم خزاعی 40 سواروں کے ساتھ مدینہ طیبہ آیا اور تمام واقعہ سنایا اور مدد مانگی آپ (ﷺ) نے فرمایا مدد ضرور کی جائے گی اور انہیں واپس بھیج دیا-پھر ابوسفیان نے مدینہ آ کر تجدید معاہدہ کی کوشش کی لیکن بے سود- حضور نبی کریم (ﷺ) نے ابوسفیان کی واپسی کے کچھ دن بعد تیاری کا حکم صادر فرمایا اور اس کو خفیہ رکھا گیا تاکہ جنگ کی صورتحال پیدا نہ ہو- [5]
10 رمضان المبارک 8 ھ کو مدینہ منورہ سے روانگی ہوئی - مکہ مکرمہ کے قریب ابوسفیان ، بدیل اور حکیم بن حزام حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) کو ملے اور وہ انہیں حضور پاک (ﷺ) کے پاس لے آئے انہوں نے اسلام قبول کیا- حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا جو ابوسفیان اور حکیم بن حزام کے گھر پناہ لے لے اس کے لیے امان ہے، جو مسجد حرام میں پناہ لے لے اس کے لیے امان ہے اور جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر دیا اس کے لیے بھی امان ہے-حضور نبی کریم (ﷺ) نے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم فرمایا اور چاروں طرف سے مکہ میں داخلے کا حکم فرمایا اور تاکید فرمائی کہ وہ اپنی تلواروں کو بے نیام نہ کریں جب تک کفار ان پر حملہ کرنے میں پہل نہ کریں یہ کسی پر حملہ نہ کریں- چنانچہ خالد بن ولید کے علاوہ جتنے سپہ سالار مکہ میں داخل ہوئے کسی نے ان پر حملہ کرنے کی جسارت نہ کی-اس جھڑپ میں28 کفار قتل ہوئے اور 2 صحابہ شہید ہوئے-[6] مکہ فتح ہو گیا تو عفو عام کے اعلان سے پہلے آپ (ﷺ) نے17لوگوں کو اس فیصلے سے استثنٰی فرمایا تھا بعد میں ان میں سے اکثر کو معاف فرما دیا- [7]
عفو عام کا اعلان آپ (ﷺ) نے ان الفاظ میں فرمایا-آپ (ﷺ) نے مشرکین مکہ سے دریافت فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ (آج) میرا تم سے کیا سلوک ہو گا ۔ آپ (ﷺ) کے اس سوال کے جواب میں قریش مکہ نے یک زبان ہو کر کہا۔ وہی جس کی ایک مہربان بھائی کے بیٹے سے امید کی جا سکتی ہے۔ ان کے اس جواب پر آپ (ﷺ) نے فرمایا جاؤ تم سب آزاد ہو-[8] اس موقع پر آپ (ﷺ) نے دشمنوں پر غلبہ پانے کے باوجود انتقام نہیں لیا بلکہ عام معافی کا اعلان فرما کر قیامت تک کے لیے انسانیت کو عدل، رحم اور حکمت کا پیغام دیا- یہی وہ اخلاق ہے جس نے سخت ترین دشمنوں کو بھی گرویدہ کر دیا-
بین الاقوامی تنازعات کے پُر امن حل کےلیے زریں اصول :
بین الاقوامی سطح پر جاری کشیدگیاں، جنگیں اور تنازعات دنیا کو مسلسل عدم استحکام کا شکار کیے ہوئے ہیں- اگرچہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے امن کے قیام کے لیے کوشاں ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ پائیدار امن کا قیام صرف قانونی یا سیاسی معاہدوں سے ممکن نہیں- اس کے لیے اخلاق، عدل، رواداری، مذہبی آزادی، مساوات اور مکالمے جیسے اصول ناگزیر ہیں، جن کی کامل اور زندہ مثال ہمیں سیرت النبی (ﷺ) میں ملتی ہے-رسول اللہ (ﷺ) کی سیرتِ طیبہ انسانیت کے لیے وہ راہِ ہدایت ہے جو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کے تمام پہلوؤں کو منور کرتی ہے- خصوصاً بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل کے سلسلے میں سیرت النبی (ﷺ) ایک مکمل ضابطۂ حیات فراہم کرتی ہے-
رواداری اور مذہبی آزادی:
رسول اللہ (ﷺ) کی سیرت طیبہ انسانی حقوق، رواداری اور مذہبی آزادی کا کامل نمونہ ہے- آپ (ﷺ) نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک، عدل و انصاف اور مذہبی آزادی کا عملی مظاہرہ فرمایا-
جس معاہدے ’’میثاقِ مدینہ’’ کے تحت رسول اللہ (ﷺ) نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم فرمائی اس کی ایک شق تھی ’’للیھود دینھم، و للمسلمین دینھم‘‘ یہودی اپنے دین پر (رہنے کے مجاز) ہوں گے اورمومن اپنے دین پر کاربند رہیں گے- [9]
عیسائی وفد نجران سے آپ (ﷺ) سے گفتگو کرنے کے لیے مدینہ منورہ آیا - جب ان کا وقتِ عبادت آیا توانہوں نے مسجد نبوی میں عبادت کی تو حضور نبی اکرم (ﷺ) نے منع نہ فرمایا -[10] یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام اور حضور نبی کریم (ﷺ) نے دوسروں کو ان کے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں مکمل آزادی دی-
اسلام میں زبردستی کسی کو مذہب قبول کروانے کی اجازت نہیں - جیسے فرمان حق تعالیٰ ہے:
’’ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ‘‘[11]
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں ‘‘-
رسول اللہ (ﷺ) نے اس آیت کی روح کو عملی زندگی میں بھی نافذ کیا- حضور نبی کریم (ﷺ) نے غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی- رسول اللہ (ﷺ) نے مذہبی آزادی، بین المذاہب رواداری اور انسانی حقوق کی جو عملی مثالیں قائم کیں، وہ آج کے دور میں بھی راہنما اصول کا درجہ رکھتی ہیں- آپ (ﷺ) کا اسوہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اختلافات کے باوجود دوسروں کے مذہب، عقیدے اور عبادات کا احترام کیا جائے-
عدل و انصاف:
حضور نبی کریم (ﷺ) کی پوری زندگی عدل و انصاف کا کامل نمونہ تھی- آپ (ﷺ) نے نہ صرف اپنی ذاتی زندگی میں انصاف قائم کیا بلکہ مدینہ کی اسلامی ریاست میں بھی عدل کو بنیاد بنایا- آپ کا عدل نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں، غلاموں، عورتوں اور دشمنوں کیلئے بھی مساوی تھا- آپ (ﷺ) کے عدل و انصاف کی مثالیں پیش خدمت ہیں-
اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن پاک میں حکم فرمایا ہے:
’’وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ‘‘[12]
’’جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو‘‘-
قریبی رشتہ داروں میں بھی آپ (ﷺ)نے عدل قائم فرمایا جیسے قریش کی ایک مخزومی عورت نے چوری کی، تو انہوں نے کہا کہ اس کے حق میں کون سفارش کرے گا؟ کسی نے کہا کہ اسامہ بن زیدؓ، وہ حضور (ﷺ) کے محبوب ہیں، وہ سفارش کریں گے- جب انہوں نے سفارش کی توآپ (ﷺ) نے فرمایا: پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد (ﷺ) بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں - [13]
حضور نبی کریم (ﷺ) کا عدل ایسا تھا جو ہر سطح پر نظر آتا ہےخواہ ذاتی زندگی ہو، حکومتی معاملات ہوں، یا اقلیتوں کے حقوق- آپ (ﷺ)نے عدل کو صرف نظریہ نہیں بلکہ عملی نظام بنایا، جو رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے نمونہ ہے-
صلح و تنازعات کا حل:
رسول اللہ (ﷺ) کی سیرت طیبہ میں مکالمہ اور مفاہمت کی روشن مثالیں موجود ہیں- آپ (ﷺ) نے ہمیشہ اختلافات کو پرامن طریقے سے ختم کرنے، دلوں کو جوڑنے، اور سماج میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش فرمائی- رسول اللہ (ﷺ) نے مکہ مکرمہ میں کفار کے شدید مظالم کے باوجود ان سے پر امن گفت و شنید کا راستہ اپنایا- قریش کے سردار وُفود کی صورت میں بار بار آئے، آپ (ﷺ) نے ان کی ہر بات کو صبر، دلیل اور حکمت سے سنا اور جواب دیا-
اسلام کسی بھی تنازع کے حل کے لیے پہلا راستہ ’’صلح‘ ‘ کو قرار دیتا ہے، جو بین الاقوامی قوانین کی اساس کے عین مطابق ہے-جیسے کہ فرمان حق تعالیٰ ہے:
’’وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا‘‘[14]
’’اور اگر وہ (کفار) صلح کے لئے جھکیں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہوجائیں ‘‘-
6 ھ میں حضور نبی اکرم (ﷺ) نے قریش مکہ کے ساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا، حالانکہ ظاہری طور پر یہ معاہدہ مسلمانوں کے لیے بظاہر نقصان دہ معلوم ہوتا تھا-
مدینہ منورہ میں آپ (ﷺ) نے مختلف یہودی قبائل کے ساتھ’’میثاق مدینہ ‘‘ فرمایا - اس میں مذہبی، سیاسی اور سماجی مفاہمت کی دفعات شامل تھیں-
آقا کریم (ﷺ) نے غزوات کے دوران بھی دشمنوں کو مذاکرات کی دعوت دی- مثلاً غزوہ بدر، احد اور خندق کے مواقع پر بھی قریش کے ساتھ سفارتی رابطے قائم رکھے- رسول اکرم (ﷺ) کا اندازِ دعوت، طرزِ قیادت اور حکمتِ عملی امن، گفتگو اور مفاہمت پر مبنی تھا- آپ (ﷺ) نے کبھی زبردستی، نفرت یا جبر سے دین نہیں پھیلایا بلکہ دلائل، حسنِ اخلاق اور رواداری سے انسانیت کے دلوں کو فتح کیا-
معاہدات کی پابندی:
سیرت النبی (ﷺ) کا ایک درخشاں پہلو یہ ہے کہ آپ (ﷺ) نے ہمیشہ وعدوں، معاہدوں اور معاہداتی ذمّہ داریوں کو پوری دیانت داری اور وفاداری کے ساتھ نبھایا- خواہ وہ دشمن کے ساتھ معاہدہ ہو یا دوست کے ساتھ، آپ (ﷺ) نے کبھی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی- یہی وہ وصف تھا جس نے غیر مسلموں کو بھی آپ (ﷺ) کی صداقت و امانت کا قائل بنایا-
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ‘‘[15]
’’اے ایمان والو! وعدوں (اور معاہدوں) کو پورا کرو‘‘-
مزید فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اَوْفُوْا بِالْعَہْدِ ج اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْـُٔوْلًا ‘‘[16]
’’اور وعدے کو پورا کرو، بے شک وعدے کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘-
6ھ میں قریش مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا- اس میں ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص مکہ سے مدینہ آئے، تو مسلمان اسے واپس کر دیں گے، چاہے وہ مسلمان ہو-جب ابو جندلؓ ہتھکڑیاں پہنے معاہدے کے وقت آئے تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے شدید جذباتی لمحات کے باوجود انہیں واپس کر دیا- آپ (ﷺ) نے فرمایا: اے ابو جندل (رضی اللہ عنہ)اب ان لوگوں کے ساتھ شرط واقع ہو چکی ہے اور عہد باندھا جا چکا ہے - غدر و بے وفائی ہمارا کام نہیں- [17]
اسی طرح ایک اور مثال عرض ہے غزوہ بدر سے پہلے حضرت حذیفہ بن یمان (رضی اللہ عنہ) اور ان کے والد کو قریش نے اس شرط پر رہا کیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہوں- جب وہ مدینہ آئے اور حضور نبی کریم (ﷺ) سے شرکت کی اجازت مانگی تو آپ (ﷺ) نے فرمایا:
’’نفي لهم بعهدهم ونستعين الله عليهم‘‘[18]
’’ ہم ان سے کیے گئے وعدے کو پورا کریں گے، اور اللہ سے ان کے خلاف مدد مانگیں گے ‘‘-
میثاقِ مدینہ کی بابت بھی حضور نبی کریم (ﷺ) نے مکمل پاسداری کی، یہاں تک کہ جب بعض یہودی قبائل نے خلاف ورزی کی، تب بھی آپ (ﷺ) نے عدل کے دائرے میں رہ کر کارروائی فرمائی- رسول اللہ (ﷺ) کی سیرتِ طیبہ میں وفائے عہدکا مقام بہت بلند ہے- آپ (ﷺ) نے ہر معاہدے کو پورے احترام کے ساتھ نبھایا-
انسانی مساوات :
رسول اللہ (ﷺ) کی سیرت طیبہ میں انسانی مساوات کا تصور نہایت واضح، جامع اور قابلِ عمل نظر آتا ہے- آپ (ﷺ) نے عرب کے اس جاہلانہ معاشرے میں، جہاں نسل، قبیلہ، رنگ، زبان اور مال و دولت کی بنیاد پر انسانوں میں فرق کیا جاتا تھا، وہاں تقویٰ، اخلاق اور اعمال کو برتری کا معیار قرار دیا- انسانی مساوات کے بارے فرمان باری تعالیٰ ہے :
’’یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ ‘‘[19]
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ کے نزدیک سب سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو‘‘-
رسول اکرم(ﷺ)نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، سوائے تقویٰ کے- [20]
حضور پاک (ﷺ) کی سیرت سے چند مثالیں پیش خدمت ہیں- حضرت بلالؓ، جو حبشہ (افریقہ) کے غلام تھے، انہیں اسلام نے وہ عزت دی جس کی نظیر نہیں ملتی ، حضور نبی اکرم (ﷺ) نے انہیں مؤذن مقرر فرمایا ، فتحِ مکہ کے دن انہیں بیت اللہ کی چھت پہ اذان دینے بھیجا ، حضرت عمر فرماتے کہ بلال ہمارا سردار ہے -یہ اعلیٰ مقام ایک سابق غلام کو عطا کرنا، انسانی مساوات کا عظیم مظہر تھا-
حضور نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا:
’’تمہارے غلاموں میں سے جو تمہارے مزاج کے موافق ہوں، تو انہیں وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور انہیں وہی پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو اور جو تمہارے مزاج کے موافق نہ ہوں، تو انہیں بیچ دو، اور اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دو‘‘-[21]
حضور پاک نے نسبی و خاندانی فخر کا رد فرمایا -جیسا کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا:
’’سب انسان آدم کی اولاد ہیں، اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے‘‘-[22]
یہ اعلان کسی بھی نسل پرستی یا ذات پات کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے- قانون سب کے لیے برابر ہے یہی اصل مساوات ہے- رسول اللہ (ﷺ) نےرنگ، نسل، قبیلہ اور حیثیت کی بنیاد پر تفریق کو ختم کیا،تقویٰ کو معیارِ فضیلت بنایا اور غلاموں، عورتوں، کمزوروں اور غیر مسلموں کو مساوی انسانی عزت دی -آپ(ﷺ) کی تعلیمات آج بھی انسانی حقوق اور مساوات کے عالمی اصولوں سے بہت آگے ہیں-
اقلیتوں کے حقوق:
حضور نبی کریم (ﷺ) نے غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی - آپ (ﷺ) نے فرمایا :
’’جس نے کسی معاہد (غیر مسلم شہری یا ذمی) کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا، حالانکہ اس کی خوشبو 40 سال کی مسافت سے محسوس کی جاتی ہے‘‘-[23]
حاصل کلام:
سیرت النبی (ﷺ) صرف مذہبی تعلیمات کا مجموعہ نہیں بلکہ بین الاقوامی تعلقات، تنازعات کے حل، انسانی حقوق اور عالمی امن کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے- آج کی دنیا میں اگر اقوامِ متحدہ اور عالمی طاقتیں ان اصولوں کو اپنائیں تو ایک پرامن، منصفانہ اور باوقار عالمی نظام قائم ہو سکتا ہے- سیرت النبی (ﷺ) انسانی تاریخ کا روشن ترین چراغ ہے، جس کی روشنی ہر دور کے لیے کافی ہے-
٭٭٭
[1](طبقات ابن سعد،محمد بن سعد، ج: 1، ص:163)
[2](مدارج النبوت ، شیخ عبد الحق ،جلد 2 ، صفحہ263)
[3](ایضاً)
[4](امتاع الاسماع از امام تقی الدین المقریزی،ج:1، ص:293)
[5](مدارج النبوت از شیخ عبد الحق ،ج:2 ، ص:338)
[6](ایضاً، ص:346)
[7](ایضاً، ص:354)
[8]( تاریخ ابن کثیر از حافظ ابن کثیر، ج:4، ص: 240)
[9](تاریخ ابن کثیر از حافظ ابن کثیر، ج:3، ص: 221)
[10]( تاریخ ابن کثیر از حافظ ابن کثیر، ج:5، ص: 90)
[11](البقرہ: 256)
[12](النساء:58)
[13]( صحیح بخاری، رقم الحدیث: 3475)
[14]( الانفال: 61)
[15]( المائدہ: 1)
[16]( الإسراء: 34)
[17] (مدارج النبوت ، شیخ عبد الحق ،ج:2 ، ص:265)
[18](صحیح مسلم، رقم الحدیث: 1787 )
[19](الحجرات: 13)
[20](مسند احمد ، رقم الحدیث :23489)
[21]( سنن ابی داود، رقم الحدیث:5161)
[22](سنن ابی داود، رقم الحدیث : 5116)
[23](صحیح بخاری ، رقم الحدیث: 3166)