بے حد حمدو ثنا اس خالقِ ارض و سماء کی جس نے کائنات کی نہایت عمدہ تدبیر فرمائی: زمین اور آسمانوں کو پیدا فرمایا، بادلوں سے میٹھا پانی اتارا اور اس کے ذریعے غلہ اور سبزیاں پیدا فرمائیں، رزق مقرر فرمایا اور پاکیزہ کھانوں کے ذریعے اعمال صالحہ پر مدد فرمائی - اہلِ دانش کی غایتِ حیات مالکِ یکتاء کی معرفت حاصل کرنا ہے، جو کہ علم و عمل کے بغیر نہیں ہو سکتی- علم و عمل پر دوام بدن کی سلامتی کے بغیر ممکن نہیں، اور بدن کی سلامتی رزق کے بغیر نہیں ہوتی- وقت کے تکرار کے ساتھ حسب ضرورت کھانا کھانا ضروری ہے- [1]
زیر نظر مضمون میں محاسنِ مصطفےٰ (ﷺ) سے آدابِ طعام پرجامع نقطۂ نظرپیش کرنے کی سعی کی گئی ہے- طعام کے عصری رجحانات کے انسانی صحت اور ماحول پر اثرات کی سائنسی نقطۂ نظر سے وضاحت پیش کی گئی ہے- مضمون انسانی صحت اور ماحولیاتی مسائل کا حل اسوۂ رسول (ﷺ) میں تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے- سید البشر (ﷺ) کی ذات مبارکہ وہ مرکزِ کمال ہے جہاں جملہ محاسن علی وجہ الکمال مجتمع ہیں- سنتِ مصطفےٰ (ﷺ) سے آدابِ طعام پر عمل کر کے مسلمان ایک عام سے عمل کو عبادت میں بدل سکتا ہے- جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’كُلُوا۟ مِنَ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَٱعْمَلُوا صَـٰلِحًا‘‘[2]
’’پاکیزہ چیزوں سے کھاؤ اور اچھے کام کرو‘‘-
کھانا جب علم و عمل پر مدد حاصل کرنے اور تقویٰ کے لیے قوت حاصل کرنے کے مقصد سے کھایاجائے تو انسان کو اپنے اُشتر ِ نفس کو کھانے کے آداب کی مہار ڈالنی پڑتی ہے- ایسا عمل جو دین کا ذریعہ اور وسیلہ ہو، ا س پر دین کے انوار ظاہر ہونےچاہیئں- اس کیلئے ہر لقمے کے ساتھ آقا کریم (ﷺ) کی ذات مبارکہ سے حاصل کردہ آداب کو ملحوظ خاطر ر کھنا ضروری ہے-سیرتِ رسول (ﷺ) کی روشنی میں آدابِ طعام پیش خدمت ہیں-
تنہا کھانا:
تنہا کھانا کھانے سے پہلے 7 امور ضروری ہیں:
- کھانا ذاتی طور پر حلال ہونے کے ساتھ ساتھ کمانے کے اعتبار سے پاک اور سنت و تقویٰ کے موافق ہو- کمائی کا ذریعہ ایسا نہ ہو جو شریعت میں ناپسندیدہ ہے- اللہ تعالیٰ نے حلال کھانے کا حکم دیا اور باطل طریقے پرکھانے کی ممانعت فرمائی، کیونکہ حرام کا معاملہ بہت بڑا ہے اور حلال کی برکت عظیم ہے- ارشادِ خداوندی ہے: ’’اے ایمان والو ایک دوسرے کے مال نا حق طور پر نہ کھاؤ اور اپنے نفسوں کو ہلاک نہ کرو‘‘-[3]
- فرمانِ مصطفےٰ (ﷺ) ہے: ’’کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا ناداری کو دور کرتا ہے اور بعد میں دھونا جنون کو دور رکھتا ہے‘‘-[4] کام کاج میں مشغولیت کی وجہ سے ہاتھ آلودہ ہوتے ہیں- ان کو دھونا پاکیزگی اور طہارت کے زیادہ قریب ہے- علاوہ ازیں، دین پر مدد کی نیت سے کھانا کھانا عبادت ہے، تو مناسب یہی ہے کہ اس سے پہلے وہ عمل کیا جائے جو نماز کی طہارت کے قائم مقام ہو-[5]
- کھانا زمین پر بچھے ہوے دسترخوان پر رکھا جائے- حدیث شریف میں ہے کہ جب آپ (ﷺ) کے لیے کھانا دیا جاتا تو آپ اسے زمین پر رکھتے تھے-[6] البتہ، اونچے دستر خوان پر کھانا منع نہیں ہے-
- حضور نبی کریم (ﷺ) کھانا تناول فرمانے کیلئے بعض اوقات دو زانوں ہو کر پاؤں کی پشت پر بیٹھتے اور بعض اوقات دائیں ٹانگ کھڑی کرکے بائیں پر بیٹھتے- [7]
- کھانے سے عادت اور عیش پرستی مقصود نہ ہو اور میانہ روی اختیار کی جائے-محبوب خدا (ﷺ) نے فرمایا: ’’آدمی اپنے پیٹ سے زیادہ بُرا، بَرتن نہیں بھرتا انسان کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اگر ایسانہ کر سکے تو تہائی حصہ کھانے کیلئے، تہائی پانی کیلئےاور ایک تہائی سانس کے لیے ہو‘‘- [8]
- موجود رزق اور حاضر طعام پر راضی ہو: عیش پرستی، زیادہ کی طلب اور سالن کی انتظار میں نہ رہے-
- تنہا کھاتے ہوئے بھی یہ یاد رکھے کہ کھانے میں بہت سے ہاتھ جمع کرنے کی کوشش کرنا اُولیٰ ہے - مصطفےٰ کریم (ﷺ) تنہا کھانا نہیں کھاتے تھے اور فرمایا: تم سب مل کر کھانا کھاؤ اور الگ الگ ہو کر مت کھاؤ، اس لیے کہ برکت سب کے ساتھ مل کر کھانے میں ہے- [9]
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ پڑھ کر دائیں ہاتھ سے ابتداء اور الحمدللہ پر اختتام کرے- نمک سے شروع کرے اور اسی پر ختم کرے- لقمہ چھوٹا ہو اور اچھی طرح چبائے- جو کچھ کھا رہا ہے اس میں عیب نہ نکا لے، کیونکہ سَروَرِ انبیاء (ﷺ) کھانے میں عیب نہیں نکالتے تھے اگر پسند آتا تو کھا لیتے ور نہ چھوڑ دیتے-[10] آپ (ﷺ) کے عظیم خُلق کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں گھر کے کھانے میں تھوڑی بہت کمی بیشی کی صورت میں غصے والا رویہ نہیں اپنانا چاہے-
اپنے سامنے سے کھائے البتہ پھل ادھر ادھر سے بھی کھا سکتا ہے- آقائے دو جہاں (ﷺ) نے فرمایا اپنے آگے سے کھاؤ- [11] ایک اور موقعہ پر جب آپ (ﷺ) نے اپنے سامنے پڑے ہوے پھلوں میں سے ادھر اُدھرسے پھل تناول فرمائے، تو پوچھنے پرسَروَرِ کَونَین (ﷺ) نے فرمایا کہ یہ ایک قسم نہیں ہے-[12] سیّد المرسلین (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو وہ اسے اٹھا لے اگر اس کے ساتھ کچھ لگا ہوا ہو تو اسے دور کرے (اور کھالے) اور شیطان کے لیے نہ چھوڑے اور جب تک انگلیوں کو چاٹ نہ لے ہاتھوں کو رومال سے صاف نہ کرے، کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ کھانے کے کس حصے میں برکت ہے‘‘- [13]
گرم کھانے میں پھونک نہ مارے-کھجوریں طاق تعداد میں کھائے- ایک ہی پلیٹ میں کھجوروں اور گٹھلیوں کو جمع نہ کرے- سیرہونے سے پہلے رُک جائے -
اجتماعی کھانا:
اجتماعی کھانے کی صورت میں یہ 7 اضافی آداب ہیں:
- جب ایسے شخص کے ساتھ کھا رہا ہو جو عمرمیں بڑا ہونے یا علم و فضل میں فضیلت کے باعث تقدیم کے لائق ہے تو خود کھانےکی ابتداء نہ کرے-
- کھانا تناول کرتے ہوئے بالکل خاموش نہ ہوں، بلکہ نیکی کی باتیں کریں-
- برتن میں اپنے ساتھی کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں، عام عادت سے زیادہ کھانے کا ارادہ نہ کریں، بلکہ دوسرے کو ترجیح دیں-
- اپنے ساتھی کو یہ کہنے پر مجبور نہ کریں کہ کھاؤ، یعنی خود کھائیں، دوسروں کو کہنے کی ضرورت نہ پڑے-
- ہاتھ دھونے کے لئے اگر کوئی دوسرا آپ کی عزت کرتے ہوئے تھال آپ کے آگے کرے، تو اسے قبول کریں-
- کھانے میں شریک ساتھیوں کی طرف نہ دیکھیں، اس طرح وہ شرم محسوس کریں گے-
- ایسا کام نہ کریں جس سے دوسرے کو کراہت محسوس ہو-
صفائی اور طہارت ایمان کا لازمی حصہ ہیں- اسی لیے حضور نبی کریم (ﷺ) نے برتن میں سانس تک لینے سے منع فرمایا- یہ تعلیمات نہ صرف روحانی اجر کا باعث بنتی ہیں، بلکہ اچھی صحت اور بہترین اخلاق کو بھی فروغ دیتی ہیں-
مہمان نوازی کی فضیلت اور آداب:
مہمان نوازی اسلام، اخلاق اور تہذیب کا ایک اہم ستون ہے-آنے والے احباب کو کھانا پیش کرنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے- خاتم النبیین (ﷺ) نے فرمایا:
’’جو شخص اپنے مہمانوں کے ساتھ کھاتا ہے اس سے مواخذہ نہ ہوگا‘‘-[14]
’’سب سے زیادہ محبوب کھانا آپ (ﷺ) کے نزدیک وہ ہے جو مل کر کھایا جائے یعنی اس کھانے پر زیادہ ہاتھ پڑیں‘‘-[15]
اسوۂ رسول (ﷺ) نے مہمان کے لیے بھی آداب مقرر فرمائےہیں، تاکہ معاشرتی ہم آہنگی، احترام اور محبت قائم رہے- سیدِ عرب و عجم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’مہمان کے لیے تکلف نہ کرو اس طرح تم اس سے نفرت کرنے لگو گے اور جو آدمی مہمان سے نفرت کرے اس نے اللہ تعالیٰ کو برا جانا (معاذ اللہ) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو اچھا نہ جانے اللہ تعالیٰ اسے برا جانتا ہے‘‘-[16]
مہمان نوازی تہذیبِ نبوی (ﷺ) میں اخلاص، سادگی اورحُسنِ ظرف کا مظہر سمجھی جاتی ہے- لہٰذا اس پاکیزہ روایت میں تکلّف، بناوٹ اور تصنّع کی کوئی گنجائش نہیں ہے- کسی نے سید البشر (ﷺ) سے عرض کی کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ "سلام پھیلاؤ اور تم کھانا کھلاؤ ‘‘-[17]
طعام کے عصری رجحانات اسوۂ مصطفیٰ (ﷺ) سے روشنی:
سال 2022ء میں دنیا بھر میں تقریباً 691 سے 783 ملین افراد بھوک کا شکار رہے، جب کہ ضائع اور تلف شدہ خوراک عالمی غذائی نظام میں توانائی کے کُل استعمال کے 38 فیصد کا سبب بنی- خوراک کی اس گھمبیر صورت حال، عالمی سطح پر قدرتی وسائل کی تیزی سے کمی اور ماحولیاتی تغیر جیسے سنگین مسائل سے مؤثر طور پر نمٹنے کے لیے خوراک کے ضیاع کی کمی اب ایک فوری اور ناگزیر ضرورت بن چکی ہے- [18]اس ضمن میں پاکستان بھی سنگین صورتِ حال سے دوچار ہے -یہاں کھیت سے لے کردسترخوان تک، انسانوں کے استعمال کے لیے پیدا کی جانے والی خوراک کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہر سال ضائع ہو جاتا ہے-[19] اس صورتحال کے باوجود پاکستانی معاشرے میں خوراک کے ضیاع کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے- گلوبل فوڈ سیکیورٹی انڈیکس 2023ء میں پاکستان 102 نمبر پر ہے-Global Hunger Index 2024ء میں پاکستان 127 میں سے 109 نمبر پر ہے-[20]
طعام کے عصری رجحانات میں ایک رجحان کھانے پینے کے حوالے سے اسراف (یعنی غیر ضروری ضائع کرنے) کا پایا جانا ہے- اسوۂ مصطفےٰ(ﷺ) میں اسراف کو ناپسند کیا گیا ہے بلکہ راہ اعتدال اختیار کرنے کا حکم ہے-کھانے پر شکرگزاری اسلامی کردار کا حصہ ہے- آپ (ﷺ) فرماتے ہیں:
’’بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے راضی ہوتا ہے جب وہ ایک لقمہ کھائے تو اللہ کی تعریف کرے، یا پانی کا گھونٹ بھی پئے تو اللہ کی تعریف کرے‘‘-[21]
آدابِ سُنّت پر عمل کرنا ہمیں نہ صرف رزق کی نعمت پر شکرگزاری سکھاتا ہے، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے جو کھانے کے معاملے میں نسبتاً کم خوش نصیب ہیں ان کی ہمدردی کے جذبات بھی پیدا کرتا ہے-
گزشتہ چند دہائیوں سے طعام کے مسنون اوقات سے انحراف معمول بن چکا ہے، جس سے ہماری صحت بہت متاثر ہو رہی ہے- ہمیں دن کو ضروریات زندگی کی تکمیل اور رات کو آرام اور عبادت الٰہی کیلئے استعمال کرنا چاہیے- سورۃ النباء میں ربّ العزّت کا ارشاد ہے:
’’وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا وَجَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاسًا وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا‘‘
’’ہم نے تمہارے لیے نیند کو آرام کا ذریعہ بنایا اور رات کو بمنزلہ لباس بنایا اور ہم نے دن کو ذریعہ معاش بنایا ‘‘-
رات گئے دیر تک لہو لعب کی محفلیں جمانے کو نا پسند فرمایا گیا ہے (البتّہ عبادت شمار کئے جانے والے اعمال میں رات کو بیدار رکھنا نیکی ہے) -[22]
انسانیت پر بیماریوں کا بڑھتا ہوا بوجھ اور طریق ِ مصطفےٰ (ﷺ) کا سہارا:
بحیثیتِ مجموعی انسانیت پر بڑھتے ہوئے بیماری کے بوجھ کا مسنون نُقطۂ نظر سے حلال اور طیب رزق اور صحت مند طرزِ زندگی کے اصولوں کو اپنا کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے- اس میں پاکیزہ اور مفید غذا کا استعمال، صفائی کا خیال رکھنا اور ایسا متوازن طرزِ زندگی اپنانا شامل ہے جو جسمانی اور روحانی فلاح دونوں کو شامل کرے-
یہ ایک معروف سائنسی اور طبی حقیقت ہے کہ زیادہ کھانے سے انسان سستی، کاہلی اور موٹاپے کا شکار ہوتا ہے، جو مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے- ذیابیطس اور دل کی بیماریاں کھانے پینے میں بے اعتدالی کا براہِ راست نتیجہ ہوتی ہیں-
اسوۂ نبوی (ﷺ) میں کھانے کے آداب ہمیں ضبطِ نفس، صبراور قناعت سکھاتے ہیں- مل بیٹھ کر کھانا سماجی رکاوٹوں کو ختم کرتا ہے- کھانے میں عیب نہ نکالنا اور دوسروں کے ساتھ کھانے کو بانٹنا، ہمدردی اور شکرگزاری کو فروغ دیتا ہے- کھانے کی ابتداء اور اختتام اللہ کے پاک نام سے کرنا، روزمرہ زندگی میں شعوری طرزِ عمل پیدا کرتا ہے- سیرتِ طیبہ(ﷺ) صحت مند خوراک، خوراک کی حفاظت و صفائی، خوراک کی تقسیم، دستیابی اور استعمال کے حوالے سے بالکل واضح ہے-
سائنس، اسوۂ نبوی (ﷺ) اور طیّب رزق:
نباتات سے تعلّق رکھنے والی خوراک میں آقا پاک (ﷺ) نے زیتون، کھجور اور انجیر وغیرہ پسند فرمائے- انجیر کاربوہائیڈریٹس اور معدنیات جیسے اسٹرونشیئم، کیلشیم، میگنیشیم، فاسفورس اور آئرن کا اچھا ذریعہ ہے- اس کے علاوہ اس میں فینولکس، فلیوونائڈز اور الکلا ئڈز جیسے فائیٹو کیمیکلز بھی پائے جاتے ہیں - اسی طرح زیتون میں فینولک ایسڈز، فینولک الکحولز اور فلیوونائڈز مرکبات پائے جاتے ہیں، جو جسمانی افعال پر مثبت اثر ڈالتے ہیں- کھجور میں کاربوہائیڈریٹس، پروٹینز، وٹامنز، فائبر اور ضروری معدنیات کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے- کھجور غذائی کمی اور کمزوری کو دور کرنے، اینٹی آکسیڈنٹ، اینٹی میوٹاجینک، سوزش کم کرنے والی، معدے، جگر، گردوں کی حفاظت کرنے والی، کینسر سے بچاؤ اور قوتِ مدافعت بڑھانے والی خصوصیات رکھتی ہے-[23]
امام غزالیؒ کے زمانے کے مقابلے میں آج کے دور میں حلال کا مسئلہ کافی پیچیدہ ہو گیا ہے، کیونکہ خوراک میں کیمیکل کی ملاوٹ، اضافی اجزاء اور جانوروں کی پرورش میں مشکوک طریقوں کا استعمال عام ہو چکا ہے- ہمیں مشکل سوالات کا سامنا ہے، مثلاً: کیا مسلمان مرغیاں جو چھوٹے پنجرے میں قید ہو کر پرورش پاتی ہیں، کھا سکتے ہیں؟
’’ “Novel Foodsمیں وہ اشیاء شامل ہیں جن کی سالماتی ساخت نئی یا مخصوص طریقے سے تبدیل شدہ ہو، یا وہ خوراک جو micro-organisms، کیڑے مکوڑوں، یا جانوروں کے tissue culture سے تیار کی گئی ہو- اُسوۂ رسول (ﷺ) کسی بھی جاندار سے بدسلوکی کی اجازت نہیں دیتا- battery farm حقیقت میں قید خانوں جیسے ہوتے ہیں جہاں مرغیوں کو نہایت ظالمانہ اور غیر مناسب ماحول میں رکھا جاتا ہے- آج دنیا بھر میں 100 سے زیادہ کمپنیاں ایسے cell-cultured meat کی پیداوار کو تجارتی سطح پر لانے اور بڑے پیمانے پر تیار کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں-[24]
حالیہ تحقیقی مقالات میں روایتی نظامِ خوراک میں شامل ایسے عناصر کا جائزہ لیا گیا ہے، جو موٹاپے اور ٹائپ 2 ذیابیطس جیسے صحت کے نتائج کیلئے ذمہ دار سمجھے جا سکتے ہیں- 1970ء سے 2010ء کے درمیان خوراک کی عادات میں تبدیلی، غیر صحت بخش چکنائیوں اور میٹھے اجزاء کے بڑھتے ہوئے استعمال نے عالمی سطح پر موٹاپے اور ذیابیطس کی شرح میں نمایاں اضافہ کیا ہے-[25]
جب ہم اپنی غذا میں حلال و طیب ہونے کے معیار اور اخلاقِ نبوی (ﷺ) کو نظرانداز کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ ذہنی و جسمانی صحت کے بگاڑ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے- اسلام ایک مکمل اور جامع طرزِ زندگی ہے، جو انسان کو بہتر طرزِ حیات کی طرف رہنمائی کرتا ہے- صحت مند غذا کا انتخاب کرنا اور غیر صحت بخش کھانے سے پرہیز کرنا بہترین صحت برقرار رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے-[26] صحت بخش اجزاء جسم کے بیشتر افعال کے لیے نہایت اہم ہیں، جیسے کہ وزن کو متوازن رکھنا، مدافعتی نظام کو مضبوط بنانا، دماغی صحت اور metabolism کو بہتر بنانا- کیونکہ آقا کریم (ﷺ) کا تعلق حکمتِ الٰہیہ کے سرچشمے سے تھا اور آپ (ﷺ) کو مختلف غذاؤں کی خصوصیات اور اثرات کا مکمل ادراک تھا، اس لئے آپ (ﷺ) صحت بخش غذا کھانا پسند فرماتے تھے- آقا کریم (ﷺ) کی یہ حکیمانہ نصیحت کہ کھانے میں اعتدال برتا جائے، آج طبی اور سائنسی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ زیادہ کھانا مختلف بیماریوں اور امراض کا سبب بن سکتا ہے- آج میڈیکل سائنس بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ زیادہ کھانا نقصان دہ ہے- مثلاً، زیادہ کیلوریز والی غذا کا مسلسل استعمال یادداشت کی کمزوری اور ذہنی مسائل سے جوڑا گیا ہے- اس کے علاوہ، جب انسان حد سے زیادہ کھاتا ہے تو جسم میں ایک دباؤ پیدا کرنے والا ہارمون ’’norepinephrine‘‘ خارج ہو سکتا ہے، جس سے خون کا دباؤ اور دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے- ہزار برس قبل آپ (ﷺ) نے سکھایا کہ کھانے میں ایک تہائی حصہ خوراک کے لیے ہو، ایک تہائی پانی کے لیے اور ایک تہائی ہوا کیلئے خالی چھوڑا جائے، یہی صحت مند زندگی کا نبوی (ﷺ) نسخہ ہے-[27]
شکم پرستی، طمع (gluttony) اور ماحولیاتی بحران:
جب ہم اپنی روزمرہ کی بقاء کے سب سے بنیادی وسیلے یعنی کھانے کے بارے میں اپنا رویہ درست کر لیتے ہیں، تو زندگی کے باقی معاملات خود بخود آسان ہو جاتے ہیں- آج ہم کھانے پینے کے معاملے میں دوسروں کے سامنے دکھاوے اور حساسیت کا شکار ہو چکے ہیں- یہ حقیقت کہ جدید دنیا کا سارا دھیان کھانے پینے اور ظاہری خواہشات پر مرکوز ہے، اس بات کا ثبوت ہے کہ انہی چیزوں سے زندگی کے باقی معاملات جنم لیتے ہیں- اگرہم ان دو چیزوں (خوراک اور خواہش) کو سنبھال لیں، تو دین کے باقی پہلو ہم پر آسان ہو جائیں - اخلاقی خرابیوں کا بیشتر آغاز انہی دو بنیادی خواہشوں، کھانے اور دکھاوے سے ہوتا ہے-
اسی کو اگر ہم ایک اور پہلو سے دیکھیں، توآج کی دنیا کا سنگین ترین بگاڑ شکم پرستی اور طمع (gluttony) کی وجہ سے ہے- ہم بہت زیادہ کھاتے ہیں اور یہی زیادتی ہمیں ایک خطرناک ماحولیاتی بحران کی طرف لے جا رہی ہے- زیادہ کھانے کی وجہ سے صنعتی زراعت، حد سے زیادہ مچھلیوں کا شکار اور زمین کے وسائل کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے، جو زمین کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں- جدید زراعتی طریقے اور بڑی بڑی کھاد کی کمپنیاں، جو اس نظام کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہو گئی ہیں، خطرناک تباہی کا با عث بن رہی ہیں- یہ خطرناک صورتحال ہے- مسلمان دنیا کی آبادی کے تقریباً پانچویں حصے کی نمائندگی کرتے ہیں-مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر اس چیز کے خلاف قیادت کریں کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتیں، جو حلال اور طیب ہیں، انہیں بازاری مال نہ بنایا جائے- اسلامی آداب کی سب سے خوبصورت مثالیں کھانا بانٹنے، کھلانے اور مہمان نوازی سے جڑی ہوئی ہیں- اسی لیے ہم آقا کریم (ﷺ) سے اپنی محبت کے اظہار میں اکثر اُن کی بھوک کا تذکرہ کرتے ہیں- وہ اللہ کے محبوب، دو جہانوں کے سردار ہیں، مگر بھوک اس قدر برداشت کرتے ہیں کہ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے- اسوۂ مصطفےٰ (ﷺ) وہ خوبصورت مشعل ہے جو حیاتِ انسانی کے ہر پہلو کو روشن کرتی ہے -
٭٭٭
[1](احیا العلوم از ابو حامد الغزالی)
[2](ا لمؤمنون: 51)
[3](النسا: 29)
[4](احیا العلوم از ابو حامد الغزالی: باب آدابِ طعام)
[5](احیا العلوم از ابو حامد الغزالی)
[6](احیا العلوم از ابو حامد الغزالی: باب آدابِ طعام)
[7](سنن ابی داوود، کتاب الاطعمہ)
[8](سنن ابن ماجہ، کتاب الاطعمہ)
[9](ایضاً)
[10] (صحیح بخاری، کتاب الاطعمہ)
[11](ایضاً)
[12](سنن ابن ماجہ ، کتاب الاطعمہ)
[13](صحیح مسلم،کتاب الاشربہ)
[14](کنز العمال، رقم الحدیث: 23637)
[15](الشفاء القاضی عیاض مالکی)
[16](مسند امام احمد بن حنبل،مرویات عقبہ بن عامر )
[17](صحیح بخاری، رقم الحدیث:6236)
[18]UNICEF. (2023). The state of food security and nutrition in the world 2023.
[19]https://doi.org/10.5281/zenodo.15645948
[20]https://www.globalhungerindex.org/pakistan.html
[21](صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2734)
[22]( طعام کے عصری رجحانات اور قرآنی تعلیمات: تجزیاتی مطالعہ 2004)
[23]https://ijns.sums.ac.ir/article_43444.html
[24]https://ijns.sums.ac.ir/article_43444.html 8