اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس عالم میں آپ (ﷺ) ہی وہ ہستی ہیں کہ جس نے اول تا آخر سب سے عظیم اور جامع انقلاب برپا کیا ہے، آپ (ﷺ)کی تعلیمات ہمہ جہت اور متنوع ہیں- جن کی یہ پہلی خصوصیت ہے کہ پوری انسانی زندگی کے جملہ گوشوں کا احاطہ کرتی ہے، چنانچہ ماحولیات کے عنوان سے آپ (ﷺ)کی سیرت کے اولین ماخذ قرآن مجید نے آپ (ﷺ)کی زبانی تعلیمات کو ماحولیات کیلئے مینارۂ نور قرار دیا ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ فَلَمَّآ اَضَآءَتْ مَا حَوْلَہٗ ‘‘[1]
’’جب اس نور نے اپنے آس پاس کی چیزوں کو روشن کر دیا ‘‘-
ماحول کےمعنی :
ماحول کی تعریف میں لکھا ہے کہ: کسی جاندار کے گردو پیش کی فضا یا اس پراثر انداز ہونے والی خارجی کیفیت-[2]
’’ما حول‘‘ کا مطلب ہے چاروں طرف کی چیزیں فضا، گرد و نواح ، اثرات یا خارجی حالات جو کسی شخص یا چیز کو متاثر کرتے ہیں - [3]
ماحولیاتی تحفظ پر حالیہ اہم پیش رفت کامختصر جائزہ:
2015ء میں جب ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی سالانہ کانفرنس بنام COP21 ہوئی تو اس میں طے پانے والے پیرس معاہدے (the paris accords) نے ماحولیاتی کارروائی کیلئے اخراج میں کمی کے مرحلہ وار اہداف کے ساتھ ایک منظم منصوبہ قائم کیا تھا- جس کا مقصد 2050ء تک زہریلی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو صفر کرنا تھا- اس معاہدے میں تسلیم کیا گیا تھا کہ صرف گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی ہی موسمیاتی تبدیلیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگی بلکہ باہمی تعاون پر مبنی موافقت کی پالیسیاں، کمزور طبقات کو اس کے اثرات سے بچانے کے لیے ضروری ہیں-[4] مزید یہ کہ معاہدے میں طے پایا گیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سیلسیس سے نیچے رکھنے کے اقدام کئے جائیں اور کوشش کرنا کہ یہ 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رہے- جبکہ ترقی یافتہ ممالک نے کم ترقی یافتہ اور ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کو مالی اور تکنیکی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تاکہ وہ اپنے اخراج کو کم کرنے اور ماحولیاتی اثرات سے نمٹنے کے قابل ہوں- یہ بھی طے پایا گیا تھا کہ ہر ملک کو اپنی قومی سطح پر طے شدہ شراکت (NDC) کا اعلان کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، جس کا ہر 5 سال بعد جائزہ لیا جائے گا- اس معاہدے کے ثمرات اور نقصانات وقت کے ساتھ سامنے آئے -[5] البتہ اس کی ساکھ کھوکھلی رہی کیونکہ ترقی یافتہ ممالک اس معاہدے پر کامیاب نہ اتر پائے-
بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC) کی چھٹی تشخیصی رپورٹ کے مطابق تقریباً 3.6 ارب لوگ جو عالمی آبادی کا قریباً قریباً نصف ہیں، وہ موسمیاتی تبدیلی کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہیں-[6] ترقی پذیر ممالک کیلئے اس معاہدے نے مالی، تکنیکی اور صلاحیت سازی کی مدد کیلئے ایک فریم ورک بھی ترتیب دیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ ترقی یافتہ ممالک کو تخفیف اور موافقت کے لیے ایسے ممالک کو مالی امداد فراہم کرنے میں پیش پیش ہونا چاہیے جو کم دولت مند اور معاشی طور پر کمزور ہیں-
حالانکہ گزشتہ برس، آذربائیجان کے شہر باکو میں منعقد ہونے والی COP29 کو 'finance COP' کا نام دیا گیا اور موسمیاتی فنانس کے لیے ایک نئے عالمی ہدف پر متفق ہونے کی کوشش کی گئی تاکہ 100 ارب ڈالر کے موافقت کے ہدف کو تبدیل کیا جا سکے- توقع ہے کہ نیا ہدف وسیع البنیاد اور نجی و دیگر شعبوں کی جانب سے شراکت کے لیے موزوں ہوگا- [7]
اسی کانفرنس میں پاکستان کی میزبانی میں ’’گلیشیرز کے تحفظ‘‘کے موضوع پر کلائمیٹ فنانس گول میز کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے اقوامِ متحدہ کے فریم ورک پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا- انہوں نے ترقی یافتہ ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لیے آگے آئیں، کیونکہ ان ممالک کو 2030ء تک 6800 ارب ڈالر کی ضرورت ہے- پاکستان نے ملک خداداد میں موجود 7000 گلیشیرز کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی، جو ملک کی پانی کی ضروریات کا 90 فیصد پورا کرتے ہیں-
مزید برآں، گلوبل رسکس رپورٹ 2024ء کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کو ایک اہم خطرے کے طور پر دیکھا جارہا ہے- جس میں شدید موسمی واقعات جیسے سیلاب، طوفان اور خشک سالی کا سامنا کرنے والے ممالک کو خاص طور پر خطرہ لاحق ہے- [8]
جبکہ Oxfam 2023 کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے امیر ترین لوگوں (1 فیصد افراد) نے مصنوعی آلات وغیرہ کے استعمال سے 2019ءمیں اتنی زیادہ کاربن گیسوں کا اخراج کر چکے ہیں جتنا کہ دنیا کی سب سے غریب دو تہائی آبادی نے کیا- رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ اخراج دنیا کے کل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا 16 فیصد تھا، جس کے نتیجے میں 10 لاکھ سے زائد اضافی اموات ہو سکتی ہیں- رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر سپر رچرڈ افراد پر مناسب ٹیکس عائد کیا جائے تو یہ نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کر سکتا ہے بلکہ اقتصادی عدم مساوات کو بھی کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا-[9]
سيرة النبی(ﷺ) اور ماحولیاتی تحفظ :
سيرة النبی (ﷺ) اور ماحولیاتی تحفظ دونوں اہم اور ضروری موضوعات ہیں- ان دونوں کے درمیان تعلق کو سمجھنا نہ صرف اسلامی تعلیمات کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ موجودہ دور کے ماحولیاتی چیلنجز کا حل بھی فراہم کرتا ہے-
پیغمبرِ اسلام حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی تعلیمات نے ماحولیاتی تحفظ اور وسائل کے تحفظ کے مختلف پہلوؤں کا مکمل احاطہ کیا ہے- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ماحولیاتی تحفظ اسلامی تعلیمات کا ایک اہم باب ہے-
یہی وجہ ہے کہ آپ (ﷺ) کی تعلیمات نے ایک مؤمن پر ماحول کی حفاظت کیلئے زندگی کے اہم گوشوں میں متعدد فرائض عائد کر دیئے ہیں جو اسلامی نقطۂِ نظر سے جملہ قدرتی وسائل کے تحفظ سے متعلق ایک ایمان والے کے مثبت طرز عمل کی عکاسی کرتے ہیں جن وسائل حیات کا استعمال ہم اس زمین پر کرتے ہیں -حضور نبی کریم (ﷺ) کی تعلیمات میں اس کا طریقہ استعمال اور انہیں برتنے کا انداز بڑے اعتدال و توازن اور کفایت شعاری کے ساتھ ملتا ہے-
ماحولیاتی تحفظ کا مطلب ہے- قدرتی ماحول کی حفاظت، جیسے کہ پانی، ہوا ، زمین اور حیاتیات کا تحفظ - اس کا مقصد ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کیلئے ماحول کو محفوظ اور صحت مند رکھا جائے- اسلام میں زمین کی حفاظت اور اس کا احترام بہت اہمیت رکھتا ہے- قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں زمین کے وسائل کا صحیح استعمال اور اس کی حفاظت کی تعلیمات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو انسانوں کیلئے ایک نعمت بنایا ہے اور اسے غلط استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اَلَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً ص وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّکُمْ ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ‘‘[10]
’’جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا پھر اس سے تمہارے لیے پھل پیدا کیے جو تمہارے لیے رزق ہیں تو اللہ کیلئے شریک نہ ٹھہراؤ حالانکہ تم جانتے ہو‘‘-
ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ نے زمین کی حفاظت کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ‘‘[11]
’’خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے تاکہ اللہ ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں‘‘-
اس آیت کریمہ میں زمین پر فساد پھیلانے کی ممانعت کی گئی ہے ، بعض مجتہدین کے نزدیک قدرتی وسائل کو برباد کرنا بھی فساد کے زمرے میں آ سکتا ہے - اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان کے اعمال کا نتیجہ دیکھنے کیلئے زمین پر فسادات کی علامات دکھائیں تاکہ وہ صحیح راہ پر آئیں -
آقا کریم (ﷺ) نے بھی زمین کی حفاظت کی تعلیم دی – ترمذی شریف میں حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’جس نے مردہ زمین کو زندہ کیا (آباد کیا ) وہ اس کی ہو جاتی ہے‘‘- [12]
زمین کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے کیلئے بنایا ہے اور اس کی بربادی اور اسراف کو ممنوع قرار دیا گیا ہے - زمین کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے ہمیں اسے آباد اور محفوظ رکھنا چاہیے تا کہ یہ آنے والی نسلوں کیلئے بھی فائدہ مندر ہے-
پانی کا تحفظ اور تعلیمات نبوی (ﷺ):
اللہ تعالیٰ نے پانی کو اپنی عظیم نعمتوں میں شمار کیا ہے قرآن کریم میں فرمایا گیا :
’’وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ ط اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘[13]
’’اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے- تو کیا وہ ایمان نہیں لاتے‘‘-
اس آیت مبارکہ سے واضح ہے کہ پانی زندگی کی بقاء کیلئے انتہائی ضروری ہے اور اس کی حفاظت ہمارا دینی فریضہ ہے-
حضور نبی کریم (ﷺ) نے پانی کے غیر ضروری ضیاع کو ناپسند فرمایا ہے - حضرت عبد الله بن عمر (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’پانی کے استعمال میں اسراف نہ کرو چاہے تم بہتے ہوئے دریا پر ہو‘‘-[14]
پانی کو ضائع کرنا اسلام میں نا پسندیدہ عمل ہے چاہے پانی کی فراوانی ہی کیوں نہ ہو-
حضور نبی کریم (ﷺ) نے پانی کے تحفظ کا عملی نمونہ پیش کیا- آپ(ﷺ) وضو کے دوران بہت کم پانی استعمال کرتے تھے - جیسا کہ حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے:
’’حضور نبی کریم (ﷺ)ایک مد (تقریبا 650 ملی لیٹر) پانی سے وضو ء فرماتے اور ایک صاع (تقریباً 2.75 لیٹر) یا پانچ مد پانی سے غسل کرتے تھے‘‘-[15]
حضور نبی کریم(ﷺ)پانی کا استعمال انتہائی محتاط انداز میں فرماتے- آپ(ﷺ) نے اس بات پر زور دیا کہ پانی کی تقسیم میں انصاف ہو اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا جائے -
جانوروں کا تحفظ اور حقوق :
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی وضاحت کی گئی ہے- یہ تعلیمات اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ انسان اپنی طاقت کا غلط استعمال نہ کرے اور جانوروں کے ساتھ رحم دلی کا برتاؤ کرے-
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طٰٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْط مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمْ یُحْشَرُوْنَ‘‘[16]
’’اور زمین پر چلنے والے کسی جاندار اور اپنے دو پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو یہ سب تمہاری طرح امتیں ہیں ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی پھر سب اپنے رب کے پاس جمع کیے جائیں گے‘‘-
جانور بھی اللہ کی تخلیق کا حصہ ہیں اور وہ بھی اللہ کی مخلوق میں شامل ہیں - حضور نبی کریم (ﷺ)نے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق پر زور دیا ہے-
امام نسائی نے سنن شریف میں حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’جو کوئی کسی چڑیاکو یا اس سے بڑی کسی مخلوق کو نا حق مارے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں اس سے باز پرس فرمائے گا‘‘-[17]
صحیح بخاری میں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے جانور کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ایک شخص راستے میں جا رہا تھا، اس کو بہت پیاس لگی- اس نے ایک کنواں دیکھا اور اس میں سے پانی پی لیا جب وہ کنویں سے باہر آیا تو اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے مٹی چاٹ رہا ہے - اس شخص نے سوچا کہ جیسے مجھے پیاس لگی تھی اس طرح اس کتے کوبھی پیاس لگی ہوگی چنانچہ وہ دوبارہ کنویں میں گیا اپنے موزے میں پانی بھر کر اس کو پلایا الله تعالیٰ نے اس شخص کے اس عمل کو پسند فرمایا اور اس کے گناہوں کو معاف کر دیا‘‘-[18]
حضرت عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں :
’’رسول الله (ﷺ) ایک باغ میں تشریف لے گئے وہاں موجود ایک اونٹ نے جب آپ (ﷺ) کو دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے-آقا کریم (ﷺ) نے اس کے مالک کو بلا کر فرمایا: کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟ یہ جانور جس کا تمہارے پاس اختیار ہے تمہارے بارے میں اللہ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس پر مشقت ڈالتے ہو‘‘-[19]
ان احادیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے جانوروں کے حقوق کے تحفظ پر بھی زور دیا ہے-
درختوں کی حفاظت اور شجرکاری کی اہمیت:
درختوں کو لگانا، ان کی حفاظت کرنا اور ان سے فائدہ اٹھانا اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہے-قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَ ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ج فَاَخْرَجْنَا بِہٖ نَبَاتَ کُلِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْہُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًاج وَ مِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِہَا قِنْوَانٌ دَانِیَۃٌ وَّ جَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُشْتَبِہًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِہٍ ط اُنْظُرُوْٓا اِلٰی ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَ یَنْعِہٖط اِنَّ فِیْ ذٰلِکُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ‘‘[20]
’’اور وہ ایسا ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کے نباتات کو نکالا پھر ہم نے اس سے سبز شاخ نکالی کہ اس سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں اور کھجور کے درختوں سے ان کے گچھے میں سے، خوشے ہیں جو نیچے کو لٹک جاتے ہیں اور انگوروں کے باغ اور زیتون اور انار کے بعض ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوتے ہیں اور کچھ ایک دوسرے سے ملتے جلتے نہیں ہوتے ہر ایک کے پھل کو دیکھو جب وہ پھلتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو ان میں دلائل ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں‘‘-
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے درختوں اور نباتات کی تخلیق کو اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے- یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ درختوں کی حفاظت اور ان کی قدر کرنا ایمان کی نشانی ہے -
آقا کریم (ﷺ) درختوں کی حفاظت اور شجر کاری کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیتی باڑی کرتا ہے پھر اس سے کوئی پرندہ انسان یا جانور کھاتا ہے تو وہ اس کیلئے صدقہ ہوتا ہے ‘‘-[21]
درخت کاٹنے کی ممانعت:
حضرت عبد الله بن حبیب (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’جس نے بیری کا درخت کاٹا الله اس کا سر آگ میں ڈالے گا ‘‘-[22]
حضور نبی کریم (ﷺ) نے درختوں کو بلا وجہ کاٹنے پر سخت تنبیہ کی ہے جو درختوں کی حفاظت کی ضرورت کو واضح کرتا ہے -
ماحولیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ درختوں کا کاٹنا ہے - کیونکہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں- جب درخت کاٹے جاتے ہیں تو یہ گیس ماحول میں بڑھ جاتی ہے اور گرمیوں میں اضافہ کرتی ہے -
درخت لگانے کی اہمیت:
حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول الله (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کس کے ہاتھ میں پودا ہو تو اگر وہ اسے لگانے کی طاقت رکھتا ہو تو ضرور لگائے‘‘- [23]
آپ (ﷺ) نے درخت کاٹنے کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے اور ان کا لگانا صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوتا ہے-یہ تعلیمات ہمیں فطرت کے احترام اور ماحول کی حفاظت کا درس دیتی ہیں -
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے بشمول ماحولیاتی تحفظ- حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنی زندگی میں ہمیں قدرتی وسائل کی حفاظت اور اس کے دَرُست استعمال کی تعلیم فرمائی ہے-
حرف آخر:
آج کے دور میں ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت بڑھ گئی ہے- گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تبدیلیاں اور وسائل کی کمی جیسے مسائل ہمارے سامنے ہیں- سیرۃ النبی(ﷺ)کی روشنی میں اگر ہم قدرتی وسائل کا صحیح استعمال کریں اور ان کی حفاظت کریں تو ہم نہ صرف اپنے ماحول کو بچا سکتے ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات پہ بھی عمل پیرا ہو سکتے ہیں-
٭٭٭
[1](البقرہ : 17)
[2](اردو لغت بورڈ ، ج:20، ص:317)
[3]( فیروز اللغات، ص: 1002)
[4]https://www.bbc.com/urdu/science/2015/12/151212_climate_text_agreed_in_paris_mb?
[5]United Nations Framework Convention on Climate Change (UNFCCC), Paris Agreement (2015): Paris Agreement Full Text
[6]https://ur.council.science/blog/ipcc-report-the-world-must-cut-emissions-and-urgently-adapt-to-the-new-climate-realities
[7]https://unfccc.int/news/cop29-un-climate-conference-agrees-to-triple-finance-to-developing-countries-protecting-lives-and
[8]https://www.weforum.org/publications/global-risks-report-2024/digest/
[9]https://www.oxfam.org/en/press-releases/richest-1-emit-much-planet-heating-pollution-two-thirds-humanity
[10](البقرہ:22)
[11](الروم:41)
[12](سنن ترمذی، رقم الحدیث:1378)
[13](الانبیاء:30)
[14](سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث :425)
[15](صحیح بخاری، کتاب الوضو)
[16](الانعام :38)
[17](سنن نسائی ، رقم الحدیث :4445)
[18](صحیح بخاری،رقم الحدیث: 2363)
[19]( سنن ابوداؤد ، رقم الحدیث : 2549)
[20](الانعام:99)
[21](صحیح بخاری، رقم الحدیث:2320)
[22]( سنن ابو داؤد، رقم الحدیث: 5239)
[23](مسند احمد ، رقم الحدیث: 12902)