آج کے ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے دور میں جہاں ہر چیز تشہیر، نمائش اور اظہار پر مبنی ہے، وہاں حیاء ایک نظر انداز کردہ، بلکہ بعض اوقات مذاق بنائی گئی قدر بن چکی ہے-ڈیجیٹل میڈیا و سوشل میڈیا کے جہاں میں حیاء ’’منہدم‘‘ہوئی محسوس ہوتی ہے- ایسا ماحول بن چکا ہے، جہاں نوجوان لڑکیاں اور لڑکے ’’لائکس، ویوز، فالوورز‘‘ اور سوشل میڈیا سے ارننگ اور مشہور ہونے کی بھوک میں اپنے جسمانی خدوخال اور خاندان کو سب کے سامنے پیش کر رہے ہیں- اس نازک دور میں حیاء جیسے نازک،نفیس مگر طاقتور جذبے کو پھر سے سمجھنے، سیکھنے اور اس کے سائے میں جینے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے-
حیاء کی تعریف اور اسلامی تناظر:
تعریف:
لغوی طور پر حیاء کا مطلب ہے، وقار، متانت، سنجیدگی اور پرہیزگاری ہے - یہ فحش ، لغو یات اور بے حیائی کی ضد ہے تو واضح ہوا کہ کوئی برا کام کرتے ہوئے کسی کی موجودگی کے باعث جھجکنے اور اس کام سے رک جانے کے عمل کو حیاء کہتے ہیں -
حضور نبی کریم (ﷺ) نے نہ صرف حیاء کو سراہا بلکہ خود اس کی جیتی جاگتی مثال بن کر اُبھرے-حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں حضور نبی کریم (ﷺ) کنواری عورت سے زیادہ حیادار تھے- جب آپ کو کوئی بات ناپسند ہوتی تو ہم آپ کے چہرے سے پہچان لیتے تھے -
آپ (ﷺ) کی خاموشی میں بھی پیغام ہوتا تھا- آپ نے غیر ضروری سوالات و افعال سے اجتناب ، نگاہ کی حفاظت اور بول چال ( جو سوچ کی عکاسی کرتی ہے) کے انداز میں حیاء کا بے مثال عملی نمونہ پیش کیا- قرآن و حدیث میں یہ اخلاقِ حسنہ میں سے ہے اور ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے-
آقا پاک (ﷺ) نے فرمایا :
’’حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے‘‘- [1]
رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:
’’حیاء ہمیشہ خیر ہی لاتی ہے‘‘-
اور ایک روایت ہے کہ ’’حیاء سراپا خیر ہے ‘‘-
ایک اور روایت میں ہے:
’’ہر دین کی ایک خصلت ہوتی ہے، اسلام کی خصلت حیاء ہے‘‘-
ایک اور مقام پہ آپ (ﷺ) نے فرمایا:
’’جب تم میں حیاء نہ رہے، تو جو چاہو کرو‘‘-[2]
یعنی جب حیاء ختم ہو جائے، تو انسان گناہوں میں بے باک ہو جاتا ہے اور اسے احساس زیاں بھی نہیں ہوتا -
حیاء کا اصطلاحی مفہوم :
آقا پاک (ﷺ) کی احادیث مبارکہ میں موجود حکمت اور دانائی پر اگر غور کیا جائے تو حیاء کا اصطلاحی مفہوم لغوی مفہوم سے کہیں بڑا اور وسیع ہے- حیاء انسانی فطرت میں ودیعت کی گئی وہ روشنی ہے جو انسان کو خیر و شر میں تمیز سکھاتی ہے- یہ صرف ایک سماجی رسم یا ظاہری پردے کا نام نہیں بلکہ ایک روحانی کیفیت، اخلاقی بصیرت اور اندرونی اخلاقی حِس ہے جو انسانی سوچ و عمل کی نگرانی اور اس کی حساسیت کو توانا رکھنے کی موجب ہے- حیاء اُس باطنی وقار کا نام ہے جو انسان کو نامناسب بات اور عمل سے روکتی ہے، حیاء انسان میں وہ نظام ہے جو اس کی ضبط ِنفس کی تربیت میں معاون ہوتا ہے اور انسان کو زندگی کی شاہراہ پر اپنے آپ پر قابو پانے کی اہلیّت سے لبریز کرتا ہے اور باوقار رہنے کی ترغیب دیتاہے -
علامہ ابن قیم الجوزی ؒ نے اپنی معروف کتاب ’’مدارج السالکین‘‘ میں جہاں مختلف اصطلاحات کی تعریف و تشریح کی ہے وہیں حیاء جیسے اہم اور باریک فلسفے کو بھی موتیوں میں پرویا ہے- آپؒ نے قرآن و سنتِ نبوی (ﷺ) میں حیاء کے موضوع پر موجود آیات اور احادیث سے آغاز کرتے ہوئے ، حیاء کی تعریف، اقسام اور درجات کو بیان فرمایا ہے ، ہم یہا ں امام جوزیؒ کی حیاء کی تعریف اور اس کی بنیادی قسم جسے درجہ اول کہا گیا ہے اس کی تخلیص پیش کرتے ہیں کیونکہ اس میں امام جوزی ؒ نے امام جنید بغدادیؒ اور دیگر اکابرین اولیائے کاملین کی تعریفِ حیاء پر بحث فرمائی ہے ، آپؒ فرماتے ہیں کہ :
’’حیاء، خواص کیلئے سلوک کی ابتدائی منازل میں سے ہے- یہ ایک ایسی حالت ہے جو محبت کے ساتھ جُڑی ہوئی تعظیم سے جنم لیتی ہے‘‘-
یعنی حیاء ایسی کیفیت ہے جو تعظیم اور محبت کے امتزاج سے پیدا ہوتی ہے-
’’حضرت جنیدؒ فرماتے ہیں: حیاء نعمتوں کے مشاہدے اور اپنی کوتاہیوں کے احساس سے پیدا ہوتی ہے‘‘-
ابن قیم فرماتے ہیں کہ:
’’بعض مشائخ کا کہنا ہے کہ حیاء دل کے اُس شعور سے پیدا ہوتی ہے جو اسے اُس شے سے شرمانے پر آمادہ کرتا ہے اور یہی کیفیت حیاء کہلاتی ہے‘‘-
یعنی، دل کو جب اس بات کا شعور ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسی بات یا عمل کے کرنے سے شرمندہ ہو گا اور وہ عمل سے رک جائے اور اگر یہ خیال آ جائے کہ یہ عمل رب کی ناراضگی کا باعث بنے گا ، تو یہی شعور حیاء بن جاتا ہے-
اگر ہم حیاء کے اصطلاحی پہلو کی جانب توجہ کریں تو سیرت ِطیبہ، احادیث مبارکہ اور ان کی شرح میں اقوالِ اولیائے کاملین ہمیں متوجہ کرتے ہیں کہ یہ احساس و شعور جو لمحہ بھر کو ہمارے دل میں موجزن ہوتا ہے، عام نہیں بلکہ بہت خاص اور اہمیت کا حامل ہے- اس ایک لمحہ کو کسی حال میں بھی کوتاہی کی نظرنہیں کرنا، بلکہ اپنے عمل و سوچ کا فیصلہ اسی شعور و ادراک کی روشنی میں کرنا ہے - اگر یہ لمحہ ہاتھ سے چھوٹ جائے تو حدیث مبارکہ اور اس حدیث پاک کا لب ولہجہ ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے کہ ’’ جب تم میں حیاء نہ رہے، تو جو چاہو کرو‘‘ -
حیاء، علم اور حکمت کا ساتھی ہےجو حیاء سے محروم ہو جائے، وہ بے خوف ہو جاتا ہے اور بے خوفی بسا اوقات گمراہی کی طرف لے جاتی ہے-یہاں مرد حضرات کیلئے بھی تربیتی نکتہ موجود ہے حیاء صرف خواتین کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ مردوں کے لیے بھی حیاء کا مطلب ہےنگاہوں کی پاکیزگی، لباس میں سادگی اور وقار، گفتگو میں شرافت اور احترام اور تنہائی میں بھی خود کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھنا- حیاء انسان کی فطرت میں ایک ایسی روشنی ہے جو اخلاقی شعور، خود احتسابی اور روحانی بیداری سے جڑی ہوتی ہے- جوہمیں یہ بات سمجھاتی ہے کہ حیاء صرف جنس سے متعلق نہیں، بلکہ یہ ایک اندرونی نرمی، باطنی شعور اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کی پاکیزگی سے وابستہ ایک خوبصورت احساس ہے، جو انسان کو خود سے آگاہ اور خود پر بھروسا کرنا سکھاتا ہے-
حیاء اور نفسیات :
اعتمادکے ضمن میں حیاء اور خود اعتمادی کو عام طور پر متضاد سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اسلامی نفسیات کے مطابق یہ دونوں ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں- حیاء انسان کو اپنے اندرونی وقار سے جوڑتی ہے، جبکہ اعتماد اس وقار کو دنیا کے سامنے لانے کی ہمت دیتا ہے-سر وکٹر فرینکل کا نظریہ:
“Meaninglessness produces neurotic anxiety”.
’’جب زندگی بے معنی ہو جائے تو انسان اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے‘‘-
اسی اصول کو حیاء پر لاگو کریں تو واضح ہوتا ہے:
’’جب حیاء کا مطلب صرف رسم بن جائے، تو وہ اضطراب، دکھاوا اور بغاوت کو جنم دیتی ہے‘‘-
آج نوجوان نسل (بلا تخصیص جنس) سوشل میڈیا، کلچر اور ٹرینڈ زکی،معنویت گُم کرتی دنیا ( بے مقصدیت) میں حیاء کو ’’بے فائدہ بوجھ‘‘ سمجھنے لگی ہے- بات گو تلخ ہے لیکن ہے حقیقت کہ آج کا جدید انسان، خاص طور پر نوجوان، حیاء کو صرف روایتی قید یا سماجی بندش سمجھنے لگاہے اور اس کا روحانی پہلو جو آقا پاک(ﷺ) کی سیرت طیبہ سے اخذ کردہ ہے اس کی نظر سے اوجھل ہوا جاتا ہے تو نتیجتاً وہ دو انتہاؤں میں جھولنے لگاہے:
- منافقت اور دکھاوا: جہاں ظاہری حجاب ہو، مگر نگاہ، زبان یا نیت میں فحاشی ہو -
- بغاوت اور بے راہ روی: جہاں حیاء کو بوجھ سمجھ کر ترک کر دیا جاتا ہے اور اپنی من مرضی کی تعریف و تاویل کی جاتی ہے-
یہ دونوں صورتیں انسان میں ان عصابی اضطراب (neurotic anxiety)، جن کا ذکر فرینکل کرتا ہے کے ساتھ ساتھ مزید اضطرابات جن میں شدت، حسد ، جرم جیسے کہ کسی کو تنگ کرنا حتی کہ قتل تک کر دینا شامل ہیں، ہمارے سامنے آ رہے ہیں -ہم اگر اپنے معاشرے کی بات کریں تو مندرجہ بالا حقائق کے علاہ حیاء کا تصور انتہائی محدود ہے - معاشرے میں حیاء کو عمومی طور پر ظاہری لباس، عورتوں کی خاموشی اور پردے کے ظاہری معیار سے جوڑ دیا گیا ہے- اس کے اثرات درج ذیل ہیں:
صرف عورتوں تک محدود تصور حیاء کو زیادہ تر خواتین کا ’’زیور‘‘ سمجھا جاتا ہے، مردوں کے کردار، نظروں، گفتار، یا آن لائن رویوں پر کم توجہ دی جاتی ہے اور حیاء کو مرد کا زیور نہیں سمجھا جاتا -خاموشی کو حیاء کہا جاتا ہے اکثر بچوں، خاص طور پر بچیوں کی خاموشی، سوال نہ کرنا، یا بحث سے اجتناب کو حیاء سمجھا جاتا ہے، جب کہ یہ ان کی اعتماد شکنی اور فکری دباؤ کا سبب بن سکتا ہے-لباس کو ہی معیار بنا دینا لباس کی وضع قطع کو حیاء کا مکمل پیمانہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ انسان کے نظریات، نیت اور آنکھوں کی پاکیزگی بھی حیاء کا اہم پہلو ہیں-
موجودہ بحران:
سوشل میڈیا، بے حیائی اور نفسیاتی اثرات: نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اور کسی حد تک بڑی عمر کے لوگ بھی سوشل میڈیا کے طوفان میں جسمانی اظہار، بے سروپا فیشن، ویڈیوز اورشارٹس اور ریلز کے ذریعے توجہ حاصل کرنے کے چکر میں حیاء سے دور اور فحاشی سے نزدیک ہو رہے ہیں- اس کے نتیجے میں، اضطراب، خوداعتمادی کی کمی، روحانی خلا اور ڈپریشن جیسی نفسیاتی و روحانی بیماریاں معاشرے کو دیمک کی طرح لگ رہی ہیں جو جلد یا بادیر اس معاشرے کو اور اس کی اقدارکو چاٹ جائیں گی، اس کے حل کے لئے درج ذیل تجاویز گار گر ہو سکتی ہیں :
نوجوانوں کو صرف ’’پردے‘‘کا حکم نہ دیا جائے، بلکہ حیاء کے فلسفے اور جمالیاتی روح کو سکھایا جائے-ان کو اچھے برے کی تمیز اور اس سے بڑھ کر اس پیمانے سے روشناس کروایا جائے جس پر اچھے اور برے کی جانچ کرنی ہے -
سیرت کے رول ماڈلز: سیدہ مریم (علیہ السلام)، حضرت فاطمہ(رضی اللہ عنہا)، حضرت خدیجہ(رضی اللہ عنہا)، ان خواتین کی زندگیوں کو تحقیق، تربیت اور میڈیا میں روشناس کروایا جائے- خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا (رضی اللہ عنہا)کی پاک ذات اور ان کے اعلیٰ اخلاق اور پختگی کردار کو آج کی نوجوان نسل کے سامنے لایا جائے- آپ (رضی اللہ عنہا) کے بارے میں حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایا :
گر پندے ز درویشے پزیری |
’’اگر تو اس درویش کی نصیحت پلے باندھ لے،تو ہزار قومیں مر جائیں ، مگر تو نہیں مرے گی- سیدہ فاطمہ الزہرا بن اور اس دور سے پنہاں رہ ' تا کہ تو کسی شبیر کو جنم دے سکے‘‘-
اسی طرح، ملکہ ِ عالم، ام سیدۃالنساءؓ حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کی ذات مبارکہ کی کامیاب زندگی کے پہلو اجاگر کئے جائیں تاکہ آج کی نوجوان نسل خصوصاً خواتین ایک اعتماد اور سربلندی کے ساتھ اپنی اقدار کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا سکیں ،اس کے علاوہ آج کے دور میں بھی ہمیں بے تحاشا خواتین جو حیاء کی ردا میں لپٹی اپنے پروفیشنل کام بھرپور طور پر انجام دے رہی ہیں ان کی کیس سٹڈیز کو پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ دورکے چیلنجز اور ان سے نبرد آزما خواتین کی مثال سے ہماری نوجوان نسل ترغیب و تحریک پائے -
مر د حضرات کے لئے آقاپاک(ﷺ) اور اسلاف کی باحیاء اور کامیاب زندگی کے پہلو روشن کیے جائیں ،کیونکہ حیاء کا تعلق انسان سے ہے نہ کہ جنس سے اور یہ صرف عورتوں کا زیور نہیں بلکہ مردوں کے سرکا بھی تاج ہے-
ڈیجیٹل تربیت:
سوشل میڈیا پر ’’ادب، پردہ اور حیاء کی تعلیماتی مہمات‘‘ کا آغاز ہو، جس میں اسلامی نفسیاتی اصول کو جدید انداز میں پیش کیا جائے جسے آج کا نوجوان قبول کرنے کے لئے تیار ہو -
٭٭٭