آقاکریمﷺ کی غیر ذوی الشعورمخلوقات سے گفتگو

آقاکریمﷺ کی غیر ذوی الشعورمخلوقات سے گفتگو

آقاکریمﷺ کی غیر ذوی الشعورمخلوقات سے گفتگو

مصنف: مفتی محمد منظور حسین ستمبر 2025

اللہ تعالیٰ نے انبیاءکرام (علیھم السلام) کو انسانوں کی ہدایت کےلیے سرچشمہ بنایا اور ساتھ ایسے ایسے معجزات سے نوازا جو ان کی نبوت و رسالت کے دعوی پر شاہد ہیں- حضور نبی پاک (ﷺ) سراپا معجزہ بن کر تشریف لائے اور آپ (ﷺ) کے معجزات میں سے ہے کہ آپ (ﷺ) غیر ذی شعور اشیاء سے کلام فرماتے تھے تو وہ نہ صرف آپ (ﷺ) کے کلام کا جواب دیتے بلکہ آپ (ﷺ)کے خاتم النبیین ہونے کی گواہی بھی دیتے -یہ تمام امور آپ (ﷺ) کی عظمت و رفعت کے مظہر ہیں -

یہ نہ صرف حضور نبی کریم (ﷺ) کی نبوت کی عظمت و حقانیت کا اظہار کرتا ہے بلکہ یہ حقیقت بھی اجاگر کرتا ہے کہ اس جہان کا ہر ذرہ نبی آخر الزمان (ﷺ) کی پہچان ،اطاعت اور محبت سے لبریز ہے- ایسے کئی واقعات ہمیں احادیث مبارکہ کی کتب سے ملتے ہیں جن میں درختوں کا کلام کرنا، کنکریوں کا آپ (ﷺ) کے دست اقدس میں تسبیح کرنا، جانوروں کا آپ (ﷺ)سے کلام کرنا حتی کہ چاند، سورج بھی آپ (ﷺ) کے کلام کو سمجھ کر اس کی فرماں برداری کرتے -یہ ایسے واقعات ہیں جو ہمارے ایمان کو تقویت بخشتے ہیں اور ان غیر ذی شعور اشیاء کا فہم و ادراک اور توحید و رسالت کی گواہی دینا یہ صرف معجزات کی حد تک نہیں بلکہ ان کا تعلق عقیدۂ اسلامیہ اور معرفت نبوت کے اسباب میں ایک مستقل موضوع کا حامل ہے -

1:جبلِ احد سے خطاب

حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ حضور نبی پاک (ﷺ) ایک دن احد پہاڑ پر تشریف لے گئے اور آپ (ﷺ) کے ساتھ سیدنا ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) بھی تھے- پہاڑ زلزلے کی وجہ سے جنبش کرنے لگا تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنا قدم اس پر مارا اور ارشاد فرمایا :

‌ ’’اثْبُتْ ‌أُحُدُ، فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدَانِ ‘‘[1]

’’اے احد ٹھہر جا تیرے اوپر ایک نبی ،صدیق اور دو شہید ہیں‘‘-

2:درختوں کا آقا کریم () کی اطاعت میں آنا:

امام مسلمؒ حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں:

’’ہم آقا کریم (ﷺ) کے ساتھ ایک سفر میں تھے، یہاں تک کہ ہم ایک کھلے میدان میں اترے- حضور نبی کریم (ﷺ) قضائے حاجت کیلئے تشریف لے گئے- میں پانی کا برتن (اداوة) لے کر آپ کے پیچھے گیا- آپ (ﷺ) نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تاکہ کوئی ایسی چیز ملے جس کے پیچھے چھپ سکیں، مگر کچھ نظر نہ آیا- تو وادی کے کنارے دو درخت نظر آئے- آپ (ﷺ) ان میں سے ایک د رخت کے پاس گئے، اس کی ایک شاخ پکڑی اور فرمایا:

فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ. فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَالْبَعِيرِ الْمَخْشُوشِ الَّذِي يُصَانِعُ قَائِدَهُ،

’’اللہ کے حکم سے میرے ساتھ چل تو وہ درخت اونٹ کی مانند تابع بن کر آپ(ﷺ) کے ساتھ چلنے لگا جیسے اونٹ اپنے قائد کے تابع ہو‘‘-

 پھر آپ (ﷺ) دوسرے درخت کے پاس تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا:

انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ. فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَذَلِكَ

’’اللہ کے حکم سے میرے تابع ہو جا۔ چنانچہ وہ اسی طرح اس کے ساتھ تابع ہو گئی‘‘-

اس کے بعد دونوں درختوں کو آپ (ﷺ) نے ساتھ ملا دیا تاکہ ستر پوشی ہو، پھر آپ (ﷺ) نے ان کو حکم دے کر واپس کر دیا‘‘-[2]

اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ حضو نبی کریم (ﷺ) نے درختوں کو بلایا اور وہ اللہ کے حکم سے آپ (ﷺ) کی اطاعت میں چل کر آ گئے- یہ درخت جماد (غیر ذی شعور) ہوتے ہوئے آپ (ﷺ) کی بات کو سمجھے، جواب دیا  اور حرکت بھی کی-

3:ستونِ حنانہ سے کلام فرمانا

سیدنا جابر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ:

’’حضور نبی پاک (ﷺ)  جمعہ کے روز ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے -انصار میں سے ایک عورت یا مرد نے آپ (ﷺ) سے عرض کی: کیوں نا آپ کیلئے ایک منبر بنا دیا جائے -آپ (ﷺ) نے فرمایا اجازت ہے- پس انہوں نے منبر بنا دیا- اگلے جمعہ کے روز حضور نبی کریم (ﷺ) اس پر تشریف لے گئے تو اس تنے نے چھوٹے بچے کی طرح سے آہ وبکا شروع کردی -آپ (ﷺ) منبر پر سے نیچے تشریف لائے اور اسے اپنے ساتھ لگا کر چپ کرانے لگے تو وہ چھوٹے بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگا- آپ (ﷺ)نے فرمایا کہ یہ اس بات پر روتا ہے کہ میں نے اس کے پاس کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد کیوں نہیں فرمایا -اس روایت کو امام بخاری نے کتاب المناقب میں ذکر فرمایا ہے ‘‘-

بعض روایات میں یہ مذکور ہے کہ حضور نبی پاک (ﷺ) کے حکم پر اس تنے نے جب خاموشی اختیار کر لی تو حضور نبی پاک (ﷺ) نے اسے اختیار عطا فرمایا کہ:

’’اگر تو چاہے تو تجھے اسی جگہ اگا دوں اور اگر چاہے تو جنت میں اگا دوں، تاکہ  تو اس کی نہروں اور اس کے چشموں سے (پانی ) پیے اور تیرا اُگنا اچھا ہو اور تو پھل دے- پس اللہ کے اولیاء تیرے پھلوں میں سے کھائیں -

’’اخْتَارَ أَنْ أَغْرِسَهُ فِي الْجَنَّةِ‘‘

’’تو اس خشک تنے نے جنت میں اگایا جانا اختیار کیا ‘‘-[3]

4: حضور پاک () سے گوہ کی محبت :

’’ایک اعرابی (دیہاتی) بنی سُلیم سے آیا، اس نے ایک ضبّ (گوہ) پکڑا ہوا تھا- اس نے آقا کریم(ﷺ) کی شان میں نازیبا کلمات کہے-حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) غصے میں آئے اور اجازت مانگی کہ میں اس کو قتل کر دوں، مگر حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:

أما علمت أن الحليم كاد يكون نبيًا؟ ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ بردبار شخص نبی بننے کے قریب ہوتا ہے؟

پھر  حضور نبی  کریم (ﷺ) نے اس اعرابی سے فرمایا:تو نے جو بات کہی، کیوں کہی؟ اور میرے مجمع کی بے ادبی کیوں کی؟ اعرابی نے جواب دیا:میں ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ/ضبّ خود گواہی نہ دے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں -آقا  کریم (ﷺ) نے گوہ/ضب سے فرمایا؟

يا ضب، من تعبد؟ اے گوہ، تو کس کی عبادت کرتا ہے؟

تو ضبّ نے عربی زبان میں واضح الفاظ کے ساتھ جواب دیا:’’لبیک وسعدیک یا رسول اللہ!‘‘میں اس ذات کی عبادت کرتی ہوں جس کا عرش آسمان میں ہے، زمین میں اس کی بادشاہی ہے، سمندر میں اس کا راستہ، جنت میں اس کی رحمت اور جہنم میں اس کا عذاب ہے-آپ (ﷺ) نے فرمایا:

فمن أنا؟ میں کون ہوں؟

ضبّ نے جواب دیا:

أنت رسول رب العالمين وخاتم النبيين، قد أفلح من صدقك، وقد خاب من كذبك

’’آپ (ﷺ) ربّ العالمین کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، جس نے آپ (ﷺ) کی تصدیق کی وہ کامیاب ہوا اور جس نے آپ (ﷺ)کو جھٹلایا وہ ناکام ہوا‘‘-

پھر وہی اعرابی اسلام لے آیا اور کہنے لگا:

’’میں آپ (ﷺ) سے سخت نفرت کرتا تھا، مگر اب آپ مجھے اپنی جان، ماں باپ، حتیٰ کہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو چکے ہیں- میں ظاہراً و باطناً، خفیہ و علانیہ، مکمل طور پر ایمان لایا ‘‘-[4]

روایت کے مطابق اس نے اپنے قبیلے کے ایک ہزار افراد کو خبر دی اور وہ سب اسلام لے آئے-

نوٹ: اس روایت مبارکہ کو کئی محدثین اور مفسرین کرام نے مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے یہاں تک کہ امام طبرانیؒ نے اس حدیث پاک پر پوری کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے :

’’حَدِيْثُ الضَّبِّ الَّذِیْ تَكَلَّمَ بَيْنَ يَدَیِ النَّبِيِّ (ﷺ) لِلطِّبْرَانِيْ‘‘

5: درختوں اور پہاڑوں کی گواہیاں:

حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :

’’میں رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ مکہ مکرمہ میں تھا تو ہم مکہ کے کسی گوشہ میں تشریف لے گئےتو کوئی درخت اور کوئی پہاڑ ایسا نہ تھا جس نے آپ (ﷺ) کو ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘نہ کہا ہو‘‘- [5]

اسی طرح ’’الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے(ﷺ)‘‘ میں قاضی عیاض اندلسیؒ ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے:

’’آپ (ﷺ) جس پتھر اور درخت پر سے گزر فرماتے تو وہ آپ (ﷺ) کو سجدہ کرتا‘‘- [6]

6:چاند کا حضور نبی کریم () کی بات پر پھٹ جانا (شق القمر):

امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں  :

’’اہل مکہ نے حضور نبی کریم (ﷺ) سے معجزہ طلب کیا، تو آپ (ﷺ) نے انہیں چاند کو دو ٹکڑے کر کے دکھایا، یہاں تک کہ انہوں نے کوہِ حراء کو ان دونوں کے درمیان دیکھا‘‘- [7]

7:کنکریوں کا حضور نبی کریم () کے ہاتھ میں تسبیح کرنا:

حضرت ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:

’’میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں صرف خیر ہی کہتا ہوں، اور اس کی وجہ وہ بات ہے جو میں نے خود دیکھی-میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی خلوت (تنہائی) کی تلاش میں رہتا تھا تاکہ اس سے فائدہ اٹھاؤں- ایک دن میں نے دیکھا کہ آپ (ﷺ) اکیلے بیٹھے ہیں، تو میں اس موقع کو غنیمت جان کر آپ کے قریب جا کر بیٹھ گیا-پھر حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) آئے، انہوں نے سلام کیا اور آقا  کریم  (ﷺ) کے دائیں جانب بیٹھ گئے-پھر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) آئے، انہوں نے بھی سلام کیا اور حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے دائیں طرف بیٹھ گئے-پھر حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) آئے، انہوں نے سلام کیا اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے دائیں طرف بیٹھ گئے-اس وقت آقا کریم (ﷺ) کے سامنے سات یا نو کنکریاں پڑی ہوئی تھیں- آپ (ﷺ) نے انہیں اپنے ہاتھ میں لیا، تو وہ تسبیح کرنے لگیں یہاں تک کہ میں نے ان سے شہد کی مکھیوں جیسی بھنبھناہٹ کی آواز سنی-پھر آپ (ﷺ) نے انہیں رکھ دیا تو وہ خاموش ہو گئیں- پھر آپ (ﷺ) نے وہ کنکریاں حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے ہاتھ میں رکھیں، تو انہوں نے بھی تسبیح کی حتیٰ کہ میں نے ان سے ویسی ہی آواز سنی-پھر آپ (ﷺ) نے وہ کنکریاں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)  کے ہاتھ میں رکھیں، وہ بھی تسبیح کرنے لگیں-پھر آپ (ﷺ) نے وہ کنکریاں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے ہاتھ میں رکھیں، وہ بھی تسبیح کرنے لگیں حتیٰ کہ میں نے ویسی ہی آواز سنی- پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا:

’’هَذِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ‘‘

’’یہ ہے نبوت کی خلافت‘‘-[8]

8: حضور پاک () سے دراز گوش کا کلا م :

امام ابن کثیرؒ نے "البدایہ والنّہایہ" میں روایت نقل فرمائی:

’’فتح خیبر کے موقع پر ایک گدھے نے آپ (ﷺ) سے کلام کیا آپ (ﷺ) نے اس سے فرمایا :تیرا کیا نام ہے؟ اس نے کہا یزید بن شہاب-پھر اس نے اپنی بات بڑھائی-اس نے عرض کی: یا رسول اللہ(ﷺ)، اللہ تعالیٰ نے میری جد کی نسل سے 60 گدھے (ایسے) پیدا فرمائے اور وہ سب کے سب ایسے ہوئے کہ نبی کے سوا کسی نے ان پر سواری نہیں کی اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ (ﷺ) مجھ پر سواری فرمائیں گے- میرے جد کی نسل میں میرے سوا کوئی نہیں رہا ہے (یعنی میں اپنی نسل کا آخری ہوں ) اور نہ آپ (ﷺ) کے سوا نبیوں میں کوئی باقی رہا ہے (یعنی آپ (ﷺ) بھی آخری نبی ہیں)-آپ (ﷺ) سے پہلے میں ایک یہودی کی ملکیت میں تھا میں اسے قصداً گرا دیا کرتا تھا اور وہ یہودی میرے پیٹ کو تکلیف پہنچاتا اور میری کمر پر مارتا تھا آپ (ﷺ) نےارشاد فرمایا کہ اب تیرا نام یعفور ہے جب آپ (ﷺ) کسی کو بلانے کے لئے کسی کے دروازے پر بھیجتے تو وہ اس کے دروازے پرآکر اپنا سر مارتا اور جب گھر والا باہر نکل کر اس کے پاس آتا تو حضور نبی کریم (ﷺ) کی طرف اشارہ کرتا کہ آپ (ﷺ) بلا رہے ہیں(صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اس کی بات کو سمجھتے اور بارگاہِ نبوت(ﷺ) میں  حاضر ہوجاتے )جب آپ (ﷺ) نے وصال مبارک فرمایا تو ابو ہیثم بن تیہان کے کنویں پر آیا اور خود کو آپ (ﷺ) کے فراق میں اس کنویں میں گرا دیا اور جان دے دی ‘‘- [9]

نوٹ: یہ روایت مبارک مختلف الفاظ کے ساتھ کئی کتب مبارکہ میں موجود ہے-

9:بارگاہِ رسالت مآب () میں اونٹ کا شکایت لے کر حاضر ِ خدمت ہونا:

مسند امام احمدؒ ابن حنبل میں حضرت یعلیٰ بن مُرہ ثقفیؒ  سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ:

’’تین چیزیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کی ذاتِ اقدس سے دیکھیں (جن کا ظہور آپ (ﷺ) کے علاوہ کسی سے نہیں دیکھا)جب ہم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے- پس آپ (ﷺ) نے اس اونٹ کو دیکھا اس پر سختی کی جا رہی تھی- پس آپ (ﷺ) نےارشاد فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کہاں ہے، پس جب وہ آیا تو آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ اس اونٹ کو بیچ دو ا س نے عرض کی نہیں (یا رسول اللہ (ﷺ) میں آپ (ﷺ) کو ہبہ کر وں گا، پھر آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ نہیں تم اس کو بیچ دو،اس نے عرض کی نہیں، بلکہ (یارسول اللہ (ﷺ) میں آپ (ﷺ) کو ہبہ کروں گا کیونکہ ہمارے گھر کی اس کے علاوہ کوئی روزی کا ذریعہ نہیں ہے تو آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کیا تو نے سنا: جو ا س نے اپنا معاملہ ذکر کیا ہے : پس یہ اپنے کثرت ِ عمل اور چارے کی کمی کی شکایت کررہاہے -پس تم اس کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘- [10]

 ذرا غورفرمائیں! اونٹ نے کسی کے سکھائے بغیر رسول اللہ (ﷺ) کو پہچانا اور اس نے شکایت بھی براہِ راست کی-گویا وہ جانتا تھا کہ آپ (ﷺ) اس کی فریاد سنیں گے اور حق دلائیں گے-یہ واقعہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ اونٹ کو نہ صرف رسالت بلکہ آپ (ﷺ) کے خاتم النبیین ہونے کا یقین تھا -مزید اس میں علمی نکتہ یہ ہے غیر ناطق مخلوق کا شعور کے ساتھ نبی کو پہچاننا اور نبوت تسلیم کرنا، نبی کی حقانیت اور خاتمیت کی روشن دلیل ہے-

10: گائے اور بھیڑیے کا کلام کرنا :

صحیح بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فجر کی نماز ادا فرمائی، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

’’ایک شخص گائے ہانک رہا تھا، اُس نے اس پر سوار ہونے کی کوشش کی، تو اُس نے اُسے مارا- گائے بولی: ہم اس (سواری) کیلئے پیدا نہیں کیے گئے، بلکہ ہم کاشت کیلئے پیدا کیے گئے ہیں! لوگوں نے حیرت سے کہا: سبحان اللہ! کیا گائے بھی بولتی ہے؟رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی ایمان رکھتے ہیں، حالانکہ وہ دونوں (اس وقت) وہاں موجود نہ تھے-پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا:’’ایک شخص اپنی بکریوں کے ساتھ تھا، کہ ایک بھیڑیا آیا اور ایک بکری اٹھا لے گیا-اس شخص نے پیچھا کیا اور جیسے اس نے بکری کو بھیڑیے سے چھین لیا،تو بھیڑیا بول اٹھا:تم نے اسے مجھ سے چھین لیا، لیکن اس کا محافظ اُس دن کون ہوگا، جب درندے ہر طرف ہوں گے اور اُس کا کوئی چرواہا نہ ہوگا؟لوگوں نے پھر تعجب سے کہا: سبحان اللہ! کیا بھیڑیا بولتا ہے؟ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی ایمان رکھتے ہیں‘‘-[11]

11:بکری کے گوشت کی گواہی، زبان حال سے نبوت و رسا لت کی تصدیق:

حضرت ابوسلمہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ:

’’سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس میں خیبر کے مقام پہ ایک یہودی نے زہر آلود بھُونی ہونی بکری پیش کی تو رسول اللہ (ﷺ) نے اس میں سے تناول فرمایا اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے بھی تناول فرمایا تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے ہاتھوں کو روک لو کیونکہ اس (بکری) نے مجھے خبر دی کہ یہ زہریلی ہے‘‘- [12]

گوشت کی گواہی کا مقصد یہ تھا کہ آپ (ﷺ) کو محفوظ رکھا جائے، کیونکہ آپ (ﷺ) خاتم النبیین ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں-کائنات کا ہر ذرہ آپ (ﷺ)کی حفاظت پر مامور تھا کیونکہ آپ (ﷺ) کے بعد کوئی نبی آنے والا نہ تھا، اس لیے حفاظتِ نبوت بھی خود فطرت نے سنبھالی-

21: ہرن کا کلام کرنا :

حضرت زید بن ارقم (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں:

’’میں رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ مدینہ کی ایک گلی میں تھا، ہم ایک اعرابی کے خیمے کے پاس سے گزرے، تو وہاں ایک ہرنی بندھی ہوئی تھی-ہرنی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس اعرابی نے مجھے شکار کر لیا ہے، حالانکہ میرے دو بچے جنگل میں ہیں- میرے تھنوں میں دودھ جم گیا ہے-نہ تو وہ مجھے ذبح کر رہا ہے کہ میں راحت پا جاؤں، اور نہ ہی مجھے چھوڑ رہا ہے کہ میں اپنے بچوں کے پاس جا سکوں-رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: اگر میں تمہیں چھوڑ دوں تو کیا تم واپس آؤ گی؟اس نے کہا: ہاں، ورنہ اللہ مجھے عشّار کے عذاب میں مبتلا کرے گا-چنانچہ آقا  کریم (ﷺ) نے اُسے کھول دیا-وہ گئی، اور کچھ دیر کے بعد زبان چاٹتی ہوئی واپس آئی، تو رسول اللہ (ﷺ) نے اسے دوبارہ خیمے کے ساتھ باندھ دیا-پھر وہ اعرابی آیا، اس کے ساتھ ایک مشکیزہ تھا، تو رسول اللہ (ﷺ) نے اس سے فرمایا: کیا تم اسے مجھے بیچو گے؟اس نے کہا: یہ آپ کیلئے ہدیہ ہے، یا رسول اللہ!تو رسول اللہ (ﷺ) نے اسے آزاد کر دیا-زید بن ارقم کہتے ہیں: ’’اللہ کی قسم! میں نے اُسے جنگل میں دوڑتے ہوئے دیکھا، وہ کہہ رہی تھی: لا الہ الا اللہ محمد رسول الله‘‘-[13]

13:نسبتِ رسول() کے حوالے پہ  شیر کا مؤدِّب ہونا

حضرت محمد بن المنکدر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سفینہ (رضی اللہ عنہا)(رسول اللہ (ﷺ) کے آزاد کردہ غلام) نے فرمایا:

’’میں ایک بار سمندر میں سوار ہوا، تو وہ کشتی جس میں میں تھا، ٹوٹ گئی-میں اس کے ایک تختے پر سوار ہو گیا، اور وہ تختہ مجھے بہا کر ایک ایسی جھاڑی میں لے گیا جہاں ایک شیر موجود تھا-شیر میری طرف آنے لگا-میں نے کہا:اے ابو الحارث! میں رسول اللہ (ﷺ) کا غلام ہوں-تو اس نے اپنا سر جھکا لیا اور میری طرف آیا-پھر اُس نے اپنے کندھے سے مجھے دھکیل کر اُس جھاڑی سے باہر نکالااور مجھے راستے پر لا کر رکھ دیا- پھر وہ کچھ آوازیں نکالنے لگا ،مجھے گمان ہوا کہ وہ مجھ سے الوداعی بات کر رہا ہے-یہی اس شیر کے ساتھ میرا آخری معاملہ تھا‘‘-[14]

41:چڑیا کا حضور()سے شکایت کرنا :

حضرت عبد اللہ بن مسعود  (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں:

’’رسول اللہ (ﷺ) ایک جگہ قیام پذیر ہوئے-ایک آدمی ایک جھاڑی (کی طرف گیا اور وہاں سے ایک سرخ پرندے کے انڈے نکال لایا-وہ پرندہ (مادہ) آ کر رسول اللہ (ﷺ) اور آپ کے صحابہؓ کے سروں کے اوپر پریشانی کے عالم میں چکر لگانے لگی-رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:تم میں سے کس نے اسے اس طرح غم زدہ کیا؟ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے اس کے انڈے اٹھائے تھے-رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:اس کے انڈے واپس رکھ دو‘‘-[15]

خلاصہ کلام:

یاد رہے کہ حضور رسالت مآب (ﷺ) کی حیات طیبہ کامل طور پر قرآن کریم کا پیکر ِ عمل ہے تبھی تو ’’لعمرك‘‘ فرماکر آپ کی حیات طیبہ کا مکمل احاطہ کیا گیا قرآن کریم میں متعدد مقام پر مختلف انبیاء کرام (علیھم السلام) کا ذکر موجود ہے جنہوں نے غیر ذی شعور مخلوقات سے کلام فرمایا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو پرندوں کی بولیاں سکھائیں- جیسے ”ہدہد“ اور ”چیونٹی“ سے کلام کرنا اور’’ہوا ‘‘ کو ان کےلیےمسخر کیا جانا -

اللہ تعالیٰ نےتمام انبیاء  کرام (علیھم السلام) کو مخصوص اور معدود معجزات سے نوازا اور آقا علیہ الصلوۃ و السلام کو سراپا معجزہ بنا کر مبعوث کیا اور لا محدود اوصاف و کمالات عطا فرمائے-  آج کل بہت سے لوگ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کا معجزہ بس قرآن ہے اور کچھ نہیں -  ایسے لوگ یا تو جاہل ہیں یا متعصب اور بد ترین خائن ہیں -  اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کا عظیم ترین معجزہ قرآن مجید ہے  اور اس میں شک بھی کیا ہے -  لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر معجزاتِ رسول (ﷺ) کا انکار کر دیا جائے، غیر ناطق مخلوقات سے رسول اللہ (ﷺ) کا کلام فرمانا اور ان مخلوقات کا حضور (ﷺ) کے حکم کی اطاعت اور آپ (ﷺ) کی طرف رغبت و محبت کے ساتھ ساتھ آپ کی رسالت کو پہچاننا بھی معجزات نبوی (ﷺ) میں شامل ہے-معجزات کے ظہور کا مقصد بھولی بھٹکی مخلوق کو اپنے خالق سے روشناس کرایا جائے اسی لیے آپ(ﷺ)کو اللہ تعالیٰ نے اپنی برہان قرار دیا اور تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا- ہمیں چاہیے کہ ہم آپ (ﷺ)کی سیرت طیبہ کو اپنے لیے نمونہ عمل ٹھہرائیں اور صورت طیبہ کے انوار سے اپنے قلوب اور اپنی ارواح کو جلا بخشیں -

٭٭٭


[1](صحیح البخاری كتاب فضائل الصحابة)

[2](صحیح مسلم ‌‌كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ)

[3](مسند الدارمی: ‌‌بَابُ مَا أُكْرِمَ النَّبِيُّ (ﷺ) مِنْ حَنِينِ الْمِنْبَرِ)

[4](مجمع الزوائد، ‌‌كتاب المناقب‌‌)

[5]( سنن الترمذی، أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ  اللہ (ﷺ)

[6](عياض بن موسى(ؒ)(المتوفى: 544هـ)،الشفا بتعريف حقوق المصطفےٰ(ﷺ)،( دار الفيحاء ،عمان،الطبعة: الثانية،1407هـ)، لْقِسْمُ الْأَوَّلُ فِي تَعْظِيمِ الْعَلِيِّ الْأَعْلَى لِقَدْرِ النَّبِيِّ الْمُصْطَفٰے(ﷺ) قَوْلًا وفعلا،ج:1،ص:589)

[7](صحیح البخاری، كتاب فضائل الصحابة)

[8](دلائل النبوة للبيهقي، ‌‌بَابُ مَا جَاءَ فِي تَسْبِيحِ الْحَصَيَاتِ فِي كَفِّ النبي (ﷺ)، ثُمَّ فِي كَفِّ بَعْضِ أَصْحَابِهِ)

[9](ابن کثیر، أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثيرؒ المتوفى: 774هـ،البداية والنهاية۔(الناشر: دار إحياء التراث العربي،الطبعة: الأولى 1408ھ) بَابُ مَا يَتَعَلَّقُ بالحيوانات من دلائل النبوة۔۔۔،ج:6،ص:167)

[10]مسند الإمام أحمد بن حنبل(ؒ) ،حَدِيثُ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ الثَّقَفِيِّ عَنِ النَّبِيِّ (ﷺ)

[11](صحيح البخاري، كِتَاب الْأَنْبِيَاءِ)

[12](سنن أبي داود،كِتَاب الدِّيَاتِ)

[13](الإيماء إلى زوائد الأمالي والأجزاء، مسندُ زيدِ بنِ أرقمَ الأنصاريِّ)

[14](المعجم الكبير للطبراني، ‌‌بَابُ السِّينِ، ‌‌مَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سَفِينَةَ)

[15]( مسند أحمد، ‌‌مُسْنَدُ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ (ﷺ)

اللہ تعالیٰ نے انبیاءکرام (﷩) کو انسانوں کی ہدایت کےلیے سرچشمہ بنایا اور ساتھ ایسے ایسے معجزات سے نوازا جو ان کی نبوت و رسالت کے دعوی پر شاہد ہیں- حضور نبی پاک () سراپا معجزہ بن کر تشریف لائے اور آپ () کے معجزات میں سے ہے کہ آپ () غیر ذی شعور اشیاء سے کلام فرماتے تھے تو وہ نہ صرف آپ () کے کلام کا جواب دیتے بلکہ آپ ()کے خاتم النبیین ہونے کی گواہی بھی دیتے -یہ تمام امور آپ () کی عظمت و رفعت کے مظہر ہیں -

یہ نہ صرف حضور نبی کریم () کی نبوت کی عظمت و حقانیت کا اظہار کرتا ہے بلکہ یہ حقیقت بھی اجاگر کرتا ہے کہ اس جہان کا ہر ذرہ نبی آخر الزمان () کی پہچان ،اطاعت اور محبت سے لبریز ہے- ایسے کئی واقعات ہمیں احادیث مبارکہ کی کتب سے ملتے ہیں جن میں درختوں کا کلام کرنا، کنکریوں کا آپ () کے دست اقدس میں تسبیح کرنا، جانوروں کا آپ ()سے کلام کرنا حتی کہ چاند، سورج بھی آپ () کے کلام کو سمجھ کر اس کی فرماں برداری کرتے -یہ ایسے واقعات ہیں جو ہمارے ایمان کو تقویت بخشتے ہیں اور ان غیر ذی شعور اشیاء کا فہم و ادراک اور توحید و رسالت کی گواہی دینا یہ صرف معجزات کی حد تک نہیں بلکہ ان کا تعلق عقیدۂ اسلامیہ اور معرفت نبوت کے اسباب میں ایک مستقل موضوع کا حامل ہے -

1:جبلِ احد سے خطاب

حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ حضور نبی پاک () ایک دن احد پہاڑ پر تشریف لے گئے اور آپ () کے ساتھ سیدنا ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی (﷢) بھی تھے- پہاڑ زلزلے کی وجہ سے جنبش کرنے لگا تو حضور نبی کریم () نے اپنا قدم اس پر مارا اور ارشاد فرمایا :

’’اثْبُتْ ‌أُحُدُ، فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدَانِ ‘‘[1]

’’اے احد ٹھہر جا تیرے اوپر ایک نبی ،صدیق اور دو شہید ہیں‘‘-

2:درختوں کا آقا کریم () کی اطاعت میں آنا:

امام مسلمؒ حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں:

’’ہم آقا کریم () کے ساتھ ایک سفر میں تھے، یہاں تک کہ ہم ایک کھلے میدان میں اترے- حضور نبی کریم () قضائے حاجت کیلئے تشریف لے گئے- میں پانی کا برتن (اداوة) لے کر آپ کے پیچھے گیا- آپ () نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تاکہ کوئی ایسی چیز ملے جس کے پیچھے چھپ سکیں، مگر کچھ نظر نہ آیا- تو وادی کے کنارے دو درخت نظر آئے- آپ () ان میں سے ایک د رخت کے پاس گئے، اس کی ایک شاخ پکڑی اور فرمایا:

فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ. فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَالْبَعِيرِ الْمَخْشُوشِ الَّذِي يُصَانِعُ قَائِدَهُ،

’’اللہ کے حکم سے میرے ساتھ چل تو وہ درخت اونٹ کی مانند تابع بن کر آپ() کے ساتھ چلنے لگا جیسے اونٹ اپنے قائد کے تابع ہو‘‘-

 پھر آپ () دوسرے درخت کے پاس تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا:

انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ. فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَذَلِكَ

’’اللہ کے حکم سے میرے تابع ہو جا۔ چنانچہ وہ اسی طرح اس کے ساتھ تابع ہو گئی‘‘-

اس کے بعد دونوں درختوں کو آپ () نے ساتھ ملا دیا تاکہ ستر پوشی ہو، پھر آپ () نے ان کو حکم دے کر واپس کر دیا‘‘-[2]

اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ حضو نبی کریم () نے درختوں کو بلایا اور وہ اللہ کے حکم سے آپ () کی اطاعت میں چل کر آ گئے- یہ درخت جماد (غیر ذی شعور) ہوتے ہوئے آپ () کی بات کو سمجھے، جواب دیا  اور حرکت بھی کی-

3:ستونِ حنانہ سے کلام فرمانا

سیدنا جابر بن عبد اللہ (﷜) سے روایت ہے کہ:

’’حضور نبی پاک ()  جمعہ کے روز ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے -انصار میں سے ایک عورت یا مرد نے آپ () سے عرض کی: کیوں نا آپ کیلئے ایک منبر بنا دیا جائے -آپ () نے فرمایا اجازت ہے- پس انہوں نے منبر بنا دیا- اگلے جمعہ کے روز حضور نبی کریم () اس پر تشریف لے گئے تو اس تنے نے چھوٹے بچے کی طرح سے آہ وبکا شروع کردی -آپ () منبر پر سے نیچے تشریف لائے اور اسے اپنے ساتھ لگا کر چپ کرانے لگے تو وہ چھوٹے بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگا- آپ ()نے فرمایا کہ یہ اس بات پر روتا ہے کہ میں نے اس کے پاس کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد کیوں نہیں فرمایا -اس روایت کو امام بخاری نے کتاب المناقب میں ذکر فرمایا ہے ‘‘-

بعض روایات میں یہ مذکور ہے کہ حضور نبی پاک () کے حکم پر اس تنے نے جب خاموشی اختیار کر لی تو حضور نبی پاک () نے اسے اختیار عطا فرمایا کہ:

’’اگر تو چاہے تو تجھے اسی جگہ اگا دوں اور اگر چاہے تو جنت میں اگا دوں، تاکہ  تو اس کی نہروں اور اس کے چشموں سے (پانی ) پیے اور تیرا اُگنا اچھا ہو اور تو پھل دے- پس اللہ کے اولیاء تیرے پھلوں میں سے کھائیں -

’’اخْتَارَ أَنْ أَغْرِسَهُ فِي الْجَنَّةِ‘‘

’’تو اس خشک تنے نے جنت میں اگایا جانا اختیار کیا ‘‘-[3]

4: حضور پاک () سے گوہ کی محبت :

’’ایک اعرابی (دیہاتی) بنی سُلیم سے آیا، اس نے ایک ضبّ (گوہ) پکڑا ہوا تھا- اس نے آقا کریم() کی شان میں نازیبا کلمات کہے-حضرت عمر (﷜) غصے میں آئے اور اجازت مانگی کہ میں اس کو قتل کر دوں، مگر حضور نبی کریم () نے فرمایا:

أما علمت أن الحليم كاد يكون نبيًا؟

’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ بردبار شخص نبی بننے کے قریب ہوتا ہے؟

پھر  حضور نبی  کریم () نے اس اعرابی سے فرمایا:تو نے جو بات کہی، کیوں کہی؟ اور میرے مجمع کی بے ادبی کیوں کی؟ اعرابی نے جواب دیا:میں ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ/ضبّ خود گواہی نہ دے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں -آقا  کریم () نے گوہ/ضب سے فرمایا؟

يا ضب، من تعبد؟

اے گوہ، تو کس کی عبادت کرتا ہے؟

تو ضبّ نے عربی زبان میں واضح الفاظ کے ساتھ جواب دیا:’’لبیک وسعدیک یا رسول اللہ!‘‘میں اس ذات کی عبادت کرتی ہوں جس کا عرش آسمان میں ہے، زمین میں اس کی بادشاہی ہے، سمندر میں اس کا راستہ، جنت میں اس کی رحمت اور جہنم میں اس کا عذاب ہے-آپ () نے فرمایا:

فمن أنا؟ میں کون ہوں؟

ضبّ نے جواب دیا:

أنت رسول رب العالمين وخاتم النبيين، قد أفلح من صدقك، وقد خاب من كذبك

’’آپ () ربّ العالمین کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، جس نے آپ () کی تصدیق کی وہ کامیاب ہوا اور جس نے آپ ()کو جھٹلایا وہ ناکام ہوا‘‘-

پھر وہی اعرابی اسلام لے آیا اور کہنے لگا:

’’میں آپ () سے سخت نفرت کرتا تھا، مگر اب آپ مجھے اپنی جان، ماں باپ، حتیٰ کہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو چکے ہیں- میں ظاہراً و باطناً، خفیہ و علانیہ، مکمل طور پر ایمان لایا ‘‘-[4]

روایت کے مطابق اس نے اپنے قبیلے کے ایک ہزار افراد کو خبر دی اور وہ سب اسلام لے آئے-

نوٹ: اس روایت مبارکہ کو کئی محدثین اور مفسرین کرام نے مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے یہاں تک کہ امام طبرانی(﷫) نے اس حدیث پاک پر پوری کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے :

’’حَدِيْثُ الضَّبِّ الَّذِیْ تَكَلَّمَ بَيْنَ يَدَیِ النَّبِيِّ () لِلطِّبْرَانِيْ‘‘

5: درختوں اور پہاڑوں کی گواہیاں:

حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :

’’میں رسول اللہ () کے ساتھ مکہ مکرمہ میں تھا تو ہم مکہ کے کسی گوشہ میں تشریف لے گئےتو کوئی درخت اور کوئی پہاڑ ایسا نہ تھا جس نے آپ () کو ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘نہ کہا ہو‘‘- [5]

اسی طرح ’’الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے()‘‘ میں قاضی عیاض اندلسی (﷫) ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے:

’’آپ () جس پتھر اور درخت پر سے گزر فرماتے تو وہ آپ () کو سجدہ کرتا‘‘- [6]

6:چاند کا حضور نبی کریم () کی بات پر پھٹ جانا (شق القمر):

امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (﷜) فرماتے ہیں  :

’’اہل مکہ نے حضور نبی کریم () سے معجزہ طلب کیا، تو آپ () نے انہیں چاند کو دو ٹکڑے کر کے دکھایا، یہاں تک کہ انہوں نے کوہِ حراء کو ان دونوں کے درمیان دیکھا‘‘- [7]

7:کنکریوں کا حضور نبی کریم () کے ہاتھ میں تسبیح کرنا:

حضرت ابوذر غفاری (﷜) فرماتے ہیں:

’’میں حضرت عثمان (﷜) کے بارے میں صرف خیر ہی کہتا ہوں، اور اس کی وجہ وہ بات ہے جو میں نے خود دیکھی-میں حضور نبی کریم () کی خلوت (تنہائی) کی تلاش میں رہتا تھا تاکہ اس سے فائدہ اٹھاؤں- ایک دن میں نے دیکھا کہ آپ () اکیلے بیٹھے ہیں، تو میں اس موقع کو غنیمت جان کر آپ کے قریب جا کر بیٹھ گیا-پھر حضرت ابوبکر (﷜) آئے، انہوں نے سلام کیا اور آقا  کریم  () کے دائیں جانب بیٹھ گئے-پھر حضرت عمر (﷜) آئے، انہوں نے بھی سلام کیا اور حضرت ابوبکر (﷜) کے دائیں طرف بیٹھ گئے-پھر حضرت عثمان (﷜) آئے، انہوں نے سلام کیا اور حضرت عمر (﷜) کے دائیں طرف بیٹھ گئے-اس وقت آقا کریم () کے سامنے سات یا نو کنکریاں پڑی ہوئی تھیں- آپ () نے انہیں اپنے ہاتھ میں لیا، تو وہ تسبیح کرنے لگیں یہاں تک کہ میں نے ان سے شہد کی مکھیوں جیسی بھنبھناہٹ کی آواز سنی-پھر آپ () نے انہیں رکھ دیا تو وہ خاموش ہو گئیں- پھر آپ () نے وہ کنکریاں حضرت ابوبکر (﷜) کے ہاتھ میں رکھیں، تو انہوں نے بھی تسبیح کی حتیٰ کہ میں نے ان سے ویسی ہی آواز سنی-پھر آپ () نے وہ کنکریاں حضرت عمر (﷜)  کے ہاتھ میں رکھیں، وہ بھی تسبیح کرنے لگیں-پھر آپ () نے وہ کنکریاں حضرت عثمان (﷜) کے ہاتھ میں رکھیں، وہ بھی تسبیح کرنے لگیں حتیٰ کہ میں نے ویسی ہی آواز سنی- پھر آپ () نے فرمایا:

’’هَذِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ‘‘

’’یہ ہے نبوت کی خلافت‘‘-[8]

8: حضور پاک () سے دراز گوش کا کلا م :

امام ابن کثیرؒ نے "البدایہ والنّہایہ" میں روایت نقل فرمائی:

’’فتح خیبر کے موقع پر ایک گدھے نے آپ () سے کلام کیا آپ () نے اس سے فرمایا :تیرا کیا نام ہے؟ اس نے کہا یزید بن شہاب-پھر اس نے اپنی بات بڑھائی-اس نے عرض کی: یا رسول اللہ()، اللہ تعالیٰ نے میری جد کی نسل سے 60 گدھے (ایسے) پیدا فرمائے اور وہ سب کے سب ایسے ہوئے کہ نبی کے سوا کسی نے ان پر سواری نہیں کی اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ () مجھ پر سواری فرمائیں گے- میرے جد کی نسل میں میرے سوا کوئی نہیں رہا ہے (یعنی میں اپنی نسل کا آخری ہوں ) اور نہ آپ () کے سوا نبیوں میں کوئی باقی رہا ہے (یعنی آپ () بھی آخری نبی ہیں)-آپ () سے پہلے میں ایک یہودی کی ملکیت میں تھا میں اسے قصداً گرا دیا کرتا تھا اور وہ یہودی میرے پیٹ کو تکلیف پہنچاتا اور میری کمر پر مارتا تھا آپ () نےارشاد فرمایا کہ اب تیرا نام یعفور ہے جب آپ () کسی کو بلانے کے لئے کسی کے دروازے پر بھیجتے تو وہ اس کے دروازے پرآکر اپنا سر مارتا اور جب گھر والا باہر نکل کر اس کے پاس آتا تو حضور نبی کریم () کی طرف اشارہ کرتا کہ آپ () بلا رہے ہیں(صحابہ کرام (﷢) اس کی بات کو سمجھتے اور بارگاہِ نبوت() میں  حاضر ہوجاتے )جب آپ () نے وصال مبارک فرمایا تو ابو ہیثم بن تیہان کے کنویں پر آیا اور خود کو آپ () کے فراق میں اس کنویں میں گرا دیا اور جان دے دی ‘‘- [9]

نوٹ: یہ روایت مبارک مختلف الفاظ کے ساتھ کئی کتب مبارکہ میں موجود ہے-

9:بارگاہِ رسالت مآب () میں اونٹ کا شکایت لے کر حاضر ِ خدمت ہونا:

مسند امام احمدؒ ابن حنبل میں حضرت یعلیٰ بن مُرہ ثقفی (﷜) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ:

’’تین چیزیں میں نے رسول اللہ () کی ذاتِ اقدس سے دیکھیں (جن کا ظہور آپ () کے علاوہ کسی سے نہیں دیکھا)جب ہم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے- پس آپ () نے اس اونٹ کو دیکھا اس پر سختی کی جا رہی تھی- پس آپ () نےارشاد فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کہاں ہے، پس جب وہ آیا تو آپ () نے ارشادفرمایا کہ اس اونٹ کو بیچ دو ا س نے عرض کی نہیں (یا رسول اللہ () میں آپ () کو ہبہ کر وں گا، پھر آپ () نے ارشاد فرمایا کہ نہیں تم اس کو بیچ دو،اس نے عرض کی نہیں، بلکہ (یارسول اللہ () میں آپ () کو ہبہ کروں گا کیونکہ ہمارے گھر کی اس کے علاوہ کوئی روزی کا ذریعہ نہیں ہے تو آپ () نے ارشادفرمایا کیا تو نے سنا: جو ا س نے اپنا معاملہ ذکر کیا ہے : پس یہ اپنے کثرت ِ عمل اور چارے کی کمی کی شکایت کررہاہے -پس تم اس کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘- [10]

 ذرا غورفرمائیں! اونٹ نے کسی کے سکھائے بغیر رسول اللہ () کو پہچانا اور اس نے شکایت بھی براہِ راست کی-گویا وہ جانتا تھا کہ آپ () اس کی فریاد سنیں گے اور حق دلائیں گے-یہ واقعہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ اونٹ کو نہ صرف رسالت بلکہ آپ () کے خاتم النبیین ہونے کا یقین تھا -مزید اس میں علمی نکتہ یہ ہے غیر ناطق مخلوق کا شعور کے ساتھ نبی کو پہچاننا اور نبوت تسلیم کرنا، نبی کی حقانیت اور خاتمیت کی روشن دلیل ہے-

10: گائے اور بھیڑیے کا کلام کرنا :

صحیح بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ () نے فجر کی نماز ادا فرمائی، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

’’ایک شخص گائے ہانک رہا تھا، اُس نے اس پر سوار ہونے کی کوشش کی، تو اُس نے اُسے مارا- گائے بولی: ہم اس (سواری) کیلئے پیدا نہیں کیے گئے، بلکہ ہم کاشت کیلئے پیدا کیے گئے ہیں! لوگوں نے حیرت سے کہا: سبحان اللہ! کیا گائے بھی بولتی ہے؟رسول اللہ () نے فرمایا: میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی ایمان رکھتے ہیں، حالانکہ وہ دونوں (اس وقت) وہاں موجود نہ تھے-پھر آپ () نے فرمایا:’’ایک شخص اپنی بکریوں کے ساتھ تھا، کہ ایک بھیڑیا آیا اور ایک بکری اٹھا لے گیا-اس شخص نے پیچھا کیا اور جیسے اس نے بکری کو بھیڑیے سے چھین لیا،تو بھیڑیا بول اٹھا:تم نے اسے مجھ سے چھین لیا، لیکن اس کا محافظ اُس دن کون ہوگا، جب درندے ہر طرف ہوں گے اور اُس کا کوئی چرواہا نہ ہوگا؟لوگوں نے پھر تعجب سے کہا: سبحان اللہ! کیا بھیڑیا بولتا ہے؟ رسول اللہ () نے فرمایا:میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی ایمان رکھتے ہیں‘‘-[11]

11:بکری کے گوشت کی گواہی، زبان حال سے نبوت و رسا لت کی تصدیق:

حضرت ابوسلمہ (﷜) سے مروی ہے کہ:

’’سیّدی رسول اللہ () کی بارگاہ ِ اقدس میں خیبر کے مقام پہ ایک یہودی نے زہر آلود بھُونی ہونی بکری پیش کی تو رسول اللہ () نے اس میں سے تناول فرمایا اور صحابہ کرام (﷢) نے بھی تناول فرمایا تو آپ () نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے ہاتھوں کو روک لو کیونکہ اس (بکری) نے مجھے خبر دی کہ یہ زہریلی ہے‘‘- [12]

گوشت کی گواہی کا مقصد یہ تھا کہ آپ () کو محفوظ رکھا جائے، کیونکہ آپ () خاتم النبیین ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں-کائنات کا ہر ذرہ آپ ()کی حفاظت پر مامور تھا کیونکہ آپ () کے بعد کوئی نبی آنے والا نہ تھا، اس لیے حفاظتِ نبوت بھی خود فطرت نے سنبھالی-

21: ہرن کا کلام کرنا :

حضرت زید بن ارقم (﷜) بیان کرتے ہیں:

’’میں رسول اللہ () کے ساتھ مدینہ کی ایک گلی میں تھا، ہم ایک اعرابی کے خیمے کے پاس سے گزرے، تو وہاں ایک ہرنی بندھی ہوئی تھی-ہرنی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس اعرابی نے مجھے شکار کر لیا ہے، حالانکہ میرے دو بچے جنگل میں ہیں- میرے تھنوں میں دودھ جم گیا ہے-نہ تو وہ مجھے ذبح کر رہا ہے کہ میں راحت پا جاؤں، اور نہ ہی مجھے چھوڑ رہا ہے کہ میں اپنے بچوں کے پاس جا سکوں-رسول اللہ () نے فرمایا: اگر میں تمہیں چھوڑ دوں تو کیا تم واپس آؤ گی؟اس نے کہا: ہاں، ورنہ اللہ مجھے عشّار کے عذاب میں مبتلا کرے گا-چنانچہ آقا  کریم () نے اُسے کھول دیا-وہ گئی، اور کچھ دیر کے بعد زبان چاٹتی ہوئی واپس آئی، تو رسول اللہ () نے اسے دوبارہ خیمے کے ساتھ باندھ دیا-پھر وہ اعرابی آیا، اس کے ساتھ ایک مشکیزہ تھا، تو رسول اللہ () نے اس سے فرمایا: کیا تم اسے مجھے بیچو گے؟اس نے کہا: یہ آپ کیلئے ہدیہ ہے، یا رسول اللہ!تو رسول اللہ () نے اسے آزاد کر دیا-زید بن ارقم کہتے ہیں: ’’اللہ کی قسم! میں نے اُسے جنگل میں دوڑتے ہوئے دیکھا، وہ کہہ رہی تھی: لا الہ الا اللہ محمد رسول الله‘‘-[13]

13:نسبتِ رسول() کے حوالے پہ  شیر کا مؤدِّب ہونا

حضرت محمد بن المنکدر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سفینہ (﷜)(رسول اللہ () کے آزاد کردہ غلام) نے فرمایا:

’’میں ایک بار سمندر میں سوار ہوا، تو وہ کشتی جس میں میں تھا، ٹوٹ گئی-میں اس کے ایک تختے پر سوار ہو گیا، اور وہ تختہ مجھے بہا کر ایک ایسی جھاڑی میں لے گیا جہاں ایک شیر موجود تھا-شیر میری طرف آنے لگا-میں نے کہا:اے ابو الحارث! میں رسول اللہ () کا غلام ہوں-تو اس نے اپنا سر جھکا لیا اور میری طرف آیا-پھر اُس نے اپنے کندھے سے مجھے دھکیل کر اُس جھاڑی سے باہر نکالااور مجھے راستے پر لا کر رکھ دیا- پھر وہ کچھ آوازیں نکالنے لگا ،مجھے گمان ہوا کہ وہ مجھ سے الوداعی بات کر رہا ہے-یہی اس شیر کے ساتھ میرا آخری معاملہ تھا‘‘-[14]

41:چڑیا کا حضور()سے شکایت کرنا :

حضرت عبد اللہ بن مسعود  (﷜)فرماتے ہیں:

’’رسول اللہ () ایک جگہ قیام پذیر ہوئے-ایک آدمی ایک جھاڑی (کی طرف گیا اور وہاں سے ایک سرخ پرندے کے انڈے نکال لایا-وہ پرندہ (مادہ) آ کر رسول اللہ () اور آپ کے صحابہؓ کے سروں کے اوپر پریشانی کے عالم میں چکر لگانے لگی-رسول اللہ () نے فرمایا:تم میں سے کس نے اسے اس طرح غم زدہ کیا؟ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے اس کے انڈے اٹھائے تھے-رسول اللہ () نے فرمایا:اس کے انڈے واپس رکھ دو‘‘-[15]

خلاصہ کلام:

یاد رہے کہ حضور رسالت مآب () کی حیات طیبہ کامل طور پر قرآن کریم کا پیکر ِ عمل ہے تبھی تو ’’لعمرك‘‘ فرماکر آپ کی حیات طیبہ کا مکمل احاطہ کیا گیا قرآن کریم میں متعدد مقام پر مختلف انبیاء کرام (﷩) کا ذکر موجود ہے جنہوں نے غیر ذی شعور مخلوقات سے کلام فرمایا حضرت سلیمان (﷤) کو پرندوں کی بولیاں سکھائیں- جیسے ”ہدہد“ اور ”چیونٹی“ سے کلام کرنا اور’’ہوا ‘‘ کو ان کےلیےمسخر کیا جانا -

اللہ تعالیٰ نےتمام انبیاء  کرام (﷩) کو مخصوص اور معدود معجزات سے نوازا اور آقا علیہ الصلوۃ و السلام کو سراپا معجزہ بنا کر مبعوث کیا اور لا محدود اوصاف و کمالات عطا فرمائے-  آج کل بہت سے لوگ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ رسول اللہ () کا معجزہ بس قرآن ہے اور کچھ نہیں -  ایسے لوگ یا تو جاہل ہیں یا متعصب اور بد ترین خائن ہیں -  اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ () کا عظیم ترین معجزہ قرآن مجید ہے  اور اس میں شک بھی کیا ہے -  لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر معجزاتِ رسول () کا انکار کر دیا جائے، غیر ناطق مخلوقات سے رسول اللہ () کا کلام فرمانا اور ان مخلوقات کا حضور () کے حکم کی اطاعت اور آپ () کی طرف رغبت و محبت کے ساتھ ساتھ آپ کی رسالت کو پہچاننا بھی معجزات نبوی () میں شامل ہے-معجزات کے ظہور کا مقصد بھولی بھٹکی مخلوق کو اپنے خالق سے روشناس کرایا جائے اسی لیے آپ()کو اللہ تعالیٰ نے اپنی برہان قرار دیا اور تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا- ہمیں چاہیے کہ ہم آپ ()کی سیرت طیبہ کو اپنے لیے نمونہ عمل ٹھہرائیں اور صورت طیبہ کے انوار سے اپنے قلوب اور اپنی ارواح کو جلا بخشیں -

٭٭٭



[1](صحیح البخاری كتاب فضائل الصحابة)

[2](صحیح مسلم ‌‌كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ)

[3](مسند الدارمی: ‌‌بَابُ مَا أُكْرِمَ النَّبِيُّ (ﷺ) مِنْ حَنِينِ الْمِنْبَرِ)

[4](مجمع الزوائد، ‌‌كتاب المناقب‌‌)

[5]( سنن الترمذی، أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ  اللہ (ﷺ)

[6](عياض بن موسى(ؒ)(المتوفى: 544هـ)،الشفا بتعريف حقوق المصطفےٰ(ﷺ)،( دار الفيحاء ،عمان،الطبعة: الثانية،1407هـ)، لْقِسْمُ الْأَوَّلُ فِي تَعْظِيمِ الْعَلِيِّ الْأَعْلَى لِقَدْرِ النَّبِيِّ الْمُصْطَفٰے(ﷺ) قَوْلًا وفعلا،ج:1،ص:589)

[7](صحیح البخاری، كتاب فضائل الصحابة)

[8](دلائل النبوة للبيهقي، ‌‌بَابُ مَا جَاءَ فِي تَسْبِيحِ الْحَصَيَاتِ فِي كَفِّ النبي (ﷺ)، ثُمَّ فِي كَفِّ بَعْضِ أَصْحَابِهِ)

[9](ابن کثیر، أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثيرؒ المتوفى: 774هـ،البداية والنهاية۔(الناشر: دار إحياء التراث العربي،الطبعة: الأولى 1408ھ) بَابُ مَا يَتَعَلَّقُ بالحيوانات من دلائل النبوة۔۔۔،ج:6،ص:167)

[10]مسند الإمام أحمد بن حنبل(ؒ) ،حَدِيثُ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ الثَّقَفِيِّ عَنِ النَّبِيِّ (ﷺ)

[11](صحيح البخاري، كِتَاب الْأَنْبِيَاءِ)

[12](سنن أبي داود،كِتَاب الدِّيَاتِ)

[13](الإيماء إلى زوائد الأمالي والأجزاء، مسندُ زيدِ بنِ أرقمَ الأنصاريِّ)

[14](المعجم الكبير للطبراني، ‌‌بَابُ السِّينِ، ‌‌مَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سَفِينَةَ)

[15]( مسند أحمد، ‌‌مُسْنَدُ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ (ﷺ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر