ورثائے شہداء اور حضوراکرمﷺ کی آغوش رحمت

ورثائے شہداء اور حضوراکرمﷺ کی آغوش رحمت

ورثائے شہداء اور حضوراکرمﷺ کی آغوش رحمت

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری ستمبر 2025

اللہ  تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَمَآ  اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً  لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘[1]

’’محبوب ہم نے آپ کو سارے جہانوں کیلئے سراپا رحمت بناکر بھیجاہے ‘‘-

آپ (ﷺ) کا یہ وصف اپنے اندر ایسی جامعیت رکھتا ہے گویاکہ حسنِ اخلاق اوردونوں جہان کی ساری رعنائیاں اسی ایک وصف میں جمع فرما دی ہیں -

اس دھرتی نے وہ زمانہ اور دور بھی دیکھا ہے کہ جس میں پیکر رحمت و شفقت اور حامئ بے کساں نے بلاتفریق مخلوق خداکو ایسا پیار دیا جو انہیں اورکہیں نصیب نہ ہُوا ، آپ نے خاص طور پر یتیموں، مسکینوں، بے سہاروں اور لاچاروں کو ایسا پیار دیا جو انہیں اپنے گھر وں اورماں باپ کے  ہاں بھی نصیب نہ ہو سکا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ آپ کے ہی ہو کر رہ گئے ،اسی والہانہ پیار ومحبت اور دستِ رحمت و شفقت رکھنے کی وجہ سے حضور رحمۃ اللعالمین کو شفیع المذنبین، انیس الغریبین،محب الفقراء و المساکین جیسے القابات سے نوازا  گیا -

ویسے تو حضور  نبی اکرم (ﷺ) کی رحمت و شفقت ہر کسی کیلئے عام تھی جیسا کہ ہم سیرت طیبہ اور ذخیرۂ احادیث میں پڑھتے ہیں لیکن اس مضمون میں آپ (ﷺ) کی سیرت میں سے ایک خاص عنوان پر ہم آپ کی رحمت و شفقت کی چند مثالیں پیش کریں گے وہ عنوان یہ ہے -

ابنائے شہداء اور حضور اکرم () کی آغوشِ رحمت:

جب صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کسی جنگ میں شہید ہوجاتے تو آپ ان کے بچوں کے ساتھ خصوصی شفقت فرماتے ، اُن کو اپنی آغوشِ رحمت میں لے لیتے،جس وجہ سے اُن کے سارے دُکھ اور غم ٹل جاتے انہیں باپ سے بھی زیادہ شفقت اور پیار بھری گود نصیب ہوجاتی-

حضور نبی اکرم (ﷺ) کے ایک پیارے صحابی حضرت بشربن عقربہ ہیں بعض روایات میں اُن کا نام  بشیر بھی آیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ :

’’مَیں اُس وقت چھوٹا تھا میرے والد غزوہ احدمیں شہید ہوگئے تھے ایک دن میں کسی جگہ اکیلا رو رہا تھا آقا کریم (ﷺ) میرے پاس سے گزرے مجھے روتا ہُوا دیکھ کر میرے پاس آئے اپنا دست شفقت میرے سر پر رکھا، مجھے تسلی اور پیار دیتے ہُوئے ارشاد فرمایا: بیٹا خاموش ہو جاؤ  کیا تو اس بات سے راضی نہیں ہےکہ میں تیرا باپ اور عائشہ تیری ماں ہو جائے، تو انہوں نے آپ (ﷺ)  کی بارگاہ میں عرض کی حضور میرے ماں باپ آپ پر قربان کیوں نہیں آپ واقعی میرے باپ اور حضرت عائشہ میری ماں ہیں‘‘- [2]

شہید اہل بیت حضرت جعفر طیّار بن ابی طالب کی رفیقہ حیات حضرت اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں کہ جس روز جنگ موتہ  میں حضرت جعفر طیّار اور اُن کے ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا اُس روز رحمت دوعالم (ﷺ) میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا جعفر کے بیٹوں کو میرے پاس لاؤ میں انہیں لے کرخدمت اقدس میں حاضر ہوئی تو حضور (ﷺ) نے انہیں پیار سے سونگھا آپ کی چشمان مقدس سے آنسو ٹپکنے لگے یہاں تک کہ ریش مبارک تر ہوگئی میں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں حضور کیوں رو رہے ہیں کیا جعفر اور اُن کے ساتھیوں کے بارے کوئی اطلاع ملی ہے فرمایا ہاں وہ آج شہید ہوگئے ہیں -یہ سن کر بے ساختہ میری چیخ نکل گئی اس کے بعد کچھ عورتیں بھی جمع ہوگئیں ، ہادی برحق نے ارشاد فرمایا :

’’اے اسماء کوئی بیہودہ بات زبان پر نہ لانا اور اپنے رخساروں کو طماچے نہ مارنا پھر سرکار دو عالم (ﷺ) نے حضرت جعفر  (رضی اللہ عنہ)کیلئے اس طرح دُعا فرمائی ؛اے اللہ جعفر کو بہترین ثواب عطا فرما اے اللہ تو جعفر کی اولاد کیلئے اس کا بہترین قائم مقام بن جس طرح اپنے بندوں میں سے اپنے کسی بندے کا تو اُن کی اولاد کیلئے قائم مقام ہُوا ہے-اس کے بعد آقا کریم (ﷺ) اپنے کاشانہ اقدس میں تشریف لے گئے اور اپنے اہل خانہ کو فرمایا جعفر کے گھروالوں کیلئے کھانا تیار کرنےمیں غفلت نہ کرنا آج انہیں کھانا پکانے کا ہوش نہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھوکے رہیں- حضرت جعفر کے صاحبزادےعبد اللہ فرماتےہیں کہ آپ (ﷺ) کی خادمہ سلٰمی نے جَو صاف کیے پھر انہیں پیسا زیتون سے سالن تیار کیا- ہم نے وہ کھانا کھایا سرکار دو عالم (ﷺ) نے تین روز مجھے اپنے پاس رکھا- جس  ام المومنین کی باری ہوتی وہاں حضور تشریف لے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے تین روز بعد مجھے اپنے گھر آنے کی اجازت ملی‘‘-[3]

اُم المؤ منین حضرت اُم سلمہ (رضی اللہ عنہا) پہلے ابو سلمہ عبد بن الاسد کی زوجیت میں تھیں ان دونوں کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی - ان سے ان کے چار بچے بھی پیداہُوئے ،ابو سلمہ (رضی اللہ عنہا)غزوہ احد میں زخمی ہوکر تندرست ہوگئے اس کے بعد ان کو ایک لشکر کے ساتھ بھیجا جب وہاں سے واپس آئے تو ان کے زخم پھر تازہ ہوگئے پھر انہیں زخموں کی وجہ سے شہید ہوگئے ، حضرت اُم سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم (ﷺ) سے سن رکھا تھا کہ جس مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ یہ دُعا مانگے :

’’اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منھا‘‘

’’اے خدا میری مصیبت میں میرااجر قائم فرما اور اس سے بہتر میرے لیے اس کا قائم مقام بنا‘‘-

تو میں نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد اس کو اپناوظیفہ بنالیا لیکن جب بھی یہ دُعا پڑھتی تو میرے دل میں خیال آتا کہ میرے شوہر ابوسلمہ سے بہتر مسلمانوں میں کون ہوگا، لیکن چونکہ آپ (ﷺ) کا ارشادگرامی تھا میں اس کو برابرپڑھتی رہی -ا یک دن محبوب کریم (ﷺ) میرے گھر تشریف لے آئے ابو سلمہ کی وفات پر تعزیت فرمائی اور دُعا فرمائی-اے خدا ان کے غم کو تسکین دے اور ان کی مصیبت کو بہتر بنا اور بہتر عوض عطا فرما-پھر ایسا ہی ہُوا مجھے ابو سلمہ سے بہتر عوض ملا-کچھ عرصہ بعد آپ (ﷺ) نے نکاح کا پیغام بھیجا تو میں نے اس کو فورًا قبول کرلیا لیکن ساتھ یہ عرض کی کہ ایک تو میں بڑی عمرکی عورت ہوں اور دوسرا میرے ساتھ یتیم بچے ہیں میرے آقا کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا میری عمر تمہاری عمر سے زیادہ ہے رہی بات بچوں کی تو آپ (ﷺ) نے اُن پر کمال شفقت و رحمت کرتے ہُوئے فرمایا تمہارے یتیموں کی پرورش خدااور اس کے رسول کے ذمے ہے ایک روایت میں ہےکہ سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارے بچے وہ میرے بچے ہیں‘‘-[4]

لشکر اسلام جب غزوہ احد سے واپس لوٹ رہا تھا تو سب سے پہلے راستے میں حضور (ﷺ) کی پھوپھی امیمہ بنت عبد المطلب کی بیٹی حمنہ بنت جحش سے ملاقات ہوئی -ہادیٔ دوعالم (ﷺ) انہیں ارشاد فرماتےہیں:

’’اے حمنہ اپنے صبر کا اجراپنے رب سے طلب کر-وہ پریشان ہوکر پوچھتی ہے کس  پر صبر کا اجر اپنے رب سے طلب کروں فرمایا :تیرے ماموں حمزہ بن عبد المطلب شہید ہو چکے ہیں-یہ غم ناک خبر سن کر حمنہ بنت جحش نے ’’انا للہ واناالیہ راجعون ‘‘ پڑھا اور ساتھ دُعا کی اللہ تعالیٰ انہیں بخشے اور یہ شہادت انہیں خوشگوار ہو-آقا کریم  (ﷺ) نے دوبارہ ارشاد فرمایا:اپنی مصیبت کا اجر اپنے رب سے مانگ اُس نے عرض کی کس کی موت پر صبر کا اجر اپنے رب سے طلب کروں فرمایا تمہارا بھائی عبداللہ بن جحش شہید ہوچکے ہیں تو اُنہوں نے پھر وہی سابقہ کلمات دہرائے -آقاکریم (ﷺ) نے تیسری مرتبہ پھر دہرایا  حمنہ اپنی مصیبت کا اجر اپنے پروردگار سے مانگ- حمنہ پھر عرض کرتی ہے کس کی موت پر صبر کا اجر اپنے رب سے طلب کروں فرمایا تیرے شوہر مصعب بن عمیر شہید ہوچکے ہیں- وہ کہنے لگی صد افسوس! پھر ان کی چیخ نکل گئی، مصعب کی شہادت پر خاتون کے کلمات سن کر آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:  عورت کے دل میں اس کے شوہر کا ایک خاص مقام ہوتا ہے ،پھر آپ نے پوچھا کہ تم نے صدافسوس کیوں کیا عرض کرنےلگی یارسول اللہ (ﷺ) مجھے ان کے بیٹوں کا یتیم ہونا یاد آیا تو میں خوفزدہ ہوگئی، آپ نے جب اُس کی یہ پریشانی سنی تو اُن کو بے سہارا نہیں چھوڑا بلکہ انہیں اپنی دُعا کی آغوش رحمت میں لیا، بارگاہِ الٰہی میں دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور اُن کیلئے خصوصی دُعا فرمائی کہ :یا اللہ! حمنہ اور اُن کے بچوں پر اپنا خصوصی فضل اور احسان فرما ‘‘-[5]

ان تمام روایات و واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضورنبی رحمت (ﷺ) شہید صحابہ کرام کے بچوں کو لاوارث اور بے سہارا نہیں چھوڑتے تھے بلکہ اس مشکل گھڑ ی اور مصیبت میں سہارا بن کر اُن کی ضروریات کا خیا ل رکھتے اُن کےساتھ اُنس اور پیار ومحبت کا اظہار کرتے اُن کی ہرطرح سے دلجوئی کرکے اُن کو اپنی آغوش رحمت میں لے لیتے- جس کی بناء پر وہ یتیم بچے اپنے سروں پر باپ سے بھی زیادہ شفیق ذات کا سایہ محسوس کرتے -

سرور کائنات (ﷺ) کا یہ حسن سلوک شہید صحابہ کرام کے صرف چھوٹے بچوں کے ساتھ ہی خاص نہ تھا بلکہ اگر اُن کے بچے جوان ہوتے تو اُن کی بھی تسلی اور دلجوئی کا پورا سامان  فرماتے-

’’جیسے حضرت اُسامہ بن زید ان کے والد حضرت زید جو آ پ کے آزادہ کردہ غلام تھے اور منہ بولے بیٹے بھی تھے صحابہ کرام میں ان کی امتیازی شان یہ بھی ہے کہ اُن کا نام قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ آیا ہے، حضرت زید جنگ مؤتہ میں جب شہید ہوئے تو اُن کے بیٹے حضرت اُسامہ جوان تھے -اس کے بعد آپ نے اُن کا بڑا خیال رکھا اُن کی تربیت فرمائی یہاں تک کہ 18 برس  کی عمر میں اُن کو لشکر کا امیر مقرر کیا - بچپن میں بھی آقا کریم (ﷺ) ان کے ساتھ بڑی محبت فرماتے تھے اور وہ  اہل بیت میں ایک فرد کی حیثیت رکھتے تھے خود حضرت اسامہ بن زید فرماتے ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا ، تو بعض اوقات حضور پاک (ﷺ) مجھے پکڑ کر ایک ران پر بٹھادیتے اور حضرت امام حسن (رضی اللہ عنہ) کو دوسری ران پر بٹھا دیتے پھر ہم دونوں کو ملا کر یہ کہتے کہ یا اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں  تو بھی ان سے محبت کر‘‘ -[6]

اسی طرح حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) کے والد حضرت عبداللہ جنگ احد میں شہید ہُوئے تو آپ نے اُن کے غم کو دور کرنے اور اُن کی دلجوئی کیلئے انہیں بلایا اور فرمایا :

’’اے جابر کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ تمہارے باپ سے اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے:میں نے عرض کیا جی ہاں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے بغیر حجاب کے کسی سے کلام نہیں فرمایا لیکن تمہارے باپ سے بغیر حجاب کے کلام فرمایا ہے اور فرمایا ہے اے میرے بندے مجھ سے کچھ مانگ کہ میں تجھ کو عطاکروں تیرے باپ نے عرض کیا اے میرے رب مجھے دوبارہ زندہ فرمادے تاکہ میں تیرے راستے میں دوبارہ قتل کیا جاؤں-اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تو ہم پہلے ہی طے کرچکے ہیں کہ یہاں آنے کے بعد دنیا میں واپسی نہ ہوگی ‘‘-[7]

رحمتِ دوعالم (ﷺ) نے صرف انہیں تسلی ہی نہ دی بلکہ ایک موقع پر اُن کے  قرض کی پریشانی کو بھی دورکیا -حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) خود فرماتے ہیں کہ:

’’میرے والد محترم جب شہید ہوگئے تو اُن پر  قرض تھا- میں  آقا کریم (ﷺ) کی خدمت اقدس میں حاضر ہُوا اور عرض کی یارسول اللہ (ﷺ) میرے والد نے پیچھے قرضہ چھوڑا ہے اور میرے پاس اس کی ادائیگی کیلئے کچھ بھی نہیں ماسوائے اس پیدا وار کے جو کھجور کے چند درختوں سے حاصل ہوتی ہے ان سے کئی سالوں میں بھی قرض ادا نہیں ہوگا آپ میرے ساتھ چلیں تاکہ قرض خواہ مجھ پر سختی نہ کریں- آپ ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے کھجوروں کے ڈھیروں میں سے ایک ڈھیر کے گرد چکر لگائے اور دُعافرمائی پھر دوسرے ڈھیر کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا اس کے بعد آپ ایک ڈھیر کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا قرض خواہوں کو ماپ  کردیتے جاؤ آپ کی برکت سے سب قرض خواہوں کا پوراپورا قرض ادا کردیا گیا اور اتنی ہی کھجوریں بچ بھی گئیں جتنی کہ قرض میں دی تھیں‘‘-[8]

الغرض! محبوب کریم (ﷺ)  کا شہید صحابہ کرام کی اولادوں کے ساتھ حسن سلوک اور یتیموں کے ساتھ شفقت و محبت کا اظہار آپ کی سیرت طیبہ کا ایک حسین اور روشن پہلوہے کیونکہ آپ خود بھی دُریتیم تھے، لہٰذایتیمی کے درد کو اچھی طرح سمجھتے تھے -

اب اس مشفقانہ طرزعمل کے پیچھے دو حکمتیں کار فرما تھیں-ایک حکمت تو یہ تھی کیونکہ یتیموں کے ساتھ حسن سلوک یہ اللہ تعالیٰ کی رضا ، بہت بڑے اجروثواب اور دل کی نرمی کا سبب ہے -

حضرت سہل بن سعد الساعدیؒ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کیا اور اُن کے درمیانی کشادگی رکھی ‘‘-[9]

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ:

’’ایک شخص نے آپ کی بارگاہ میں آکر دل کی سختی کو دُور کرنے کے بارے سوال کیا تو رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا تم یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرو اور اُس کو کھانا کھلاؤ (یہ عمل دل کی سختی دُور کرتا ہے) ‘‘-[10]

دوسری حکمت یہ تھی کہ آپ نے یہ طرز عمل اختیار کر کے درحقیقت امتِ مسلمہ کو یہ سبق اور پیغام دیا کہ جو لوگ دینِ  اسلام یا ملک و قوم کی خاطر اپنی جان قربان کردیتے ہیں وہ پوری قوم کا اثاثہ ہوتےہیں- لہٰذا اُن کے بیوی بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا مصیبت میں اُن کا سہارا بننااور اُن کی ہر قسم کی مدد کرنا یہ دینی،اخلاقی اور قومی فریضہ ہے -

لہٰذا! فی زمانہ جو لوگ ملک وقوم کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتےہیں تو ارباب اختیار کی یہ ذمہ داری ہےکہ تعلیمات ِ نبوی(ﷺ) کو اپناتےہُوئے شہداءکے بیوی بچوں کا خاص خیال رکھیں اور اُن کا ایک بہترین کفیل بن کراُن کی ضروریاتِ زندگی کو پورا کریں تاکہ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح خوش وخرم زندگی گزار سکیں-

٭٭٭


[1](الانبیاء:107)

[2](شعب الایمان: باب فی رحم الصغیر)

(التاریخ الکبیر للبخاری ،جز:2،ص:78)

[3](سیرۃ الحلبیۃ ،جز:3،ص:98)

[4](مدارج النبوۃ،ج:2،ص:550)

[5]( ضیاءالنبی ،ج:3،ص:538)

[6](الطبقات الکبری لابن سعد، جز:4،ص:46)

[7](سنن ابن ماجہ ، باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللہ)

[8](صحیح البخاری ،باب علامات النبوۃفی السلام)

[9](ایضاً: باب فضل من یعول یتیما)

[10](مجمع الزوائد، رقم الحدیث :13508)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر