قرآن مجید کی تقریباً 150 آیاتِ کریمہ سے حضور نبی کریم (ﷺ) کی اطاعت، اتباع، سنت، حدیث اور اسوہ ٔ مبارکہ کا حجت ہونا ثابت ہوتا ہے- اس کے علاوہ بہت سی آیات اور بھی ہیں جو مختلف انداز میں آپ (ﷺ) کی اطاعت واتباع کو واضح کرتی ہیں-
سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کا سارا کلام وحی الٰہی ہے کیونکہ بنیادی طور پر وحی کی دو اقسام ہیں : وحی متلواور وحی غیر متلو -
اگر حضور نبی کریم (ﷺ) پر الفاظ اور معانی کا نزول ہو تو یہ وحی متلو ہے اور یہی قرآن مجید ہے ،
اور اگر آپ (ﷺ) پر صرف معانی نازل کیے جائیں اور آپ ان معانی کو اپنے الفاظ سے تعبیر کریں تو یہی وحی غیر متلو ہے اور اس کو حدیث نبوی کہتے ہیں۔
اس لیے امام شافعیؒ فرماتے ہیں :
’’معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور حضور نبی کریم (ﷺ) کے احکام وہ ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں، وہ ایک ہی منہج پرچلتے ہیں‘‘-[1]
علامہ ابن حجر عسقلانیؒ حضرت حسان بن عطیہ (رضی اللہ عنہ) جو بہت بڑے تابعی ہیں، کے حوالے سے فرماتے ہیں :
’’حضر ت جبریل (علیہ السلام) جس طرح آقا کریم (ﷺ) پہ قرآن لے کر نازل ہوتے تھے اسی طرح سُنت بھی لے کر نازل ہوتے تھے اور ان سب کی دلیل ’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ‘ہے‘‘- [2]
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ‘‘[3]
’’کسی مومن مرد وعورت کو گنجائش نہیں ہے جب اللہ اور اس کا رسول (ﷺ)کوئی حکم دے تو پھر ان کے لئے اس کام میں کوئی اختیار باقی رہے‘‘-
یہ آیت زینب بنتِ جحش اسدیہ اور ان کے بھائی عبداللہ بن حجش اور ان کی والدہ اُمیمہ بنتِ عبدالمطلب کے حق میں نازل ہوئی - واقعہ یہ تھا کہ زید بن حارثہ جن کو سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے آزاد کیا تھا، وہ آقا کریم(ﷺ)ہی کی خدمت میں رہتے تھے، آپ (ﷺ)نے زینب کے لئے ان کا پیام دیا، اس کو حضرت زینب نے اور ان کے بھائی نے منظور نہیں کیا - اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور حضرت زینب اور ان کے بھائی اس حکم کو سن کر راضی ہو گئے اور آقا کریم (ﷺ) نے حضرت زید کا نکاح ان کے ساتھ کر دیا- آپ (ﷺ)نے ان کا مَہر 10دینار 60 درہم، ایک جوڑا کپڑا، 50 مُد (ایک پیمانہ ہے) کھانا، 30صاع کھجوریں دیں-
مسئلہ: اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کو آقا کریم (ﷺ) کی طاعت ہر امر میں واجب ہے اور آپ (ﷺ)کے مقابلہ میں کوئی اپنے نفس کا بھی خود مختار نہیں -
امام قرطبیؒ روایت نقل کرتے ہیں:
’’حضرت حسان بن عطیہ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ وحی رسول اللہ( ﷺ) پر نازل ہوتی تھی اور جبرائیل (علیہ السلام) سُنت کے ساتھ نازل ہوتے تھے جو سنت اس (وحی) کی تفسیر کرتی تھی‘‘-
مزید حضرت مکحولؒ نے فرمایا:
’’قران کو سُنت کی زیادہ ضرورت ہے بنسبت سُنت کو قرآن کی ضرورت کے‘‘-
امام اوزاعیؒ سے یہی مروی ہے کہ :
’’یحیی بن ابی کثیرؒ نے کہا سُنت کتاب پر فیصلہ کرنے والی ہے جبکہ کتاب اللہ سنت پر فیصلہ کرنے والی نہیں ‘‘- [4]
اس لیے امام ابن خزیمہؒ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ (ﷺ) کے حکم(مبارک) کی خبر آدمی کو ہو جائے تو اس کا قبول کرنا واجب ہے، اگرچہ اس کی عقل اور رائے اس کو سمجھ نہ سکے اور قبول نہ کرے‘‘-[5]
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ط وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ‘‘[6]
’’ (اے نبی مکرم(ﷺ)! ہم نے آپ (ﷺ) کی طرف ذکر نازل کیا تا کہ آپ (ﷺ) لوگوں کو وضاحت کر دیں کہ ہم نے ان کی طرف کیا نازل کیا ہے، تا کہ وہ قرآن حکیم میں غور وفکر کر سکیں ‘‘-
سادہ سی بات ہے کہ جب ایک شخص خود کہے کہ میں نے کچھ باتیں کیں ہیں ان کی تفصیل میری فلاں کتاب میں موجود ہے ،تو کو ئی کہے کہ ہمیں اس شرح کی کوئی ضرورت نہیں ہے- اس پر افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا-جب اللہ پاک کا فرمان ہے کہ اے محبوب مکرم (ﷺ) یہ جو قرآن پاک ہم آپ (ﷺ) کی طرف نازل کیا ہے ،اس کے اکثر احکام اجمالی ہیں جن کی وضاحت آپ (ﷺ) اپنے اقوال و افعال مبارکہ سے فرمادیں-اس لیے حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
’’مخلوق کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے اپنے اوپر نازل ہونے والی وحی(قرآن پاک) کی وہ شرح بتاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہی نازل فرمائی ہو اور قرآن کریم کی شرح (یعنی حدیث پاک )کتاب اللہ کے مخالف نہیں ہے اور آپ (ﷺ) اسےاللہ عزوجل کے حکم مبار ک سے ہی وہ معنی بیان فرماتے ہیں جواللہ پاک چاہتے ہیں‘‘- [7]
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا‘‘[8]
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول(ﷺ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں‘‘-
معزز قارئین! ذرا غور فرمائیں جو اللہ اور اس کے رسول مکرم (ﷺ) کی اطاعت میں فرق کرنا چاہتے ہیں وہ دراصل ہمیں انبیاء، صدیقین اور صالحین کی رفاقت سے محروم کرنا چاہتے ہیں (العیاذ باللہ)-کیونکہ اقوال ودلائل کی روشنی میں ثابت ہوا کہ حدیث و سنت اور قرآن کریم آپس میں اس طرح لازم و ملزوم ہیں کہ دونوں کو جدا نہیں کیا جا سکتا- یہی وجہ ہے کہ ایک ہی شرعی حکم کی تفصیل و تشریح کچھ قرآن کریم میں ہے، کچھ حدیث رسول (ﷺ) میں-تاکہ کوئی بھی اکتفا کرکے دوسرے سے غافل نہ ہو- جو صرف قرآن کریم کی بات کرتے ہیں وہ دین کے اکثری حصے پر عمل سے محروم ہیں، یا پھر ان کے قول و فعل میں تضاد ہے-
ویسے تو سینکڑوں آیات مبارکہ اطاعت اوراتباع رسول (ﷺ) کا درس دیتی ہیں لیکن اختصار کی خاطر یہاں مزید صرف ایک آیت مبارک کی وضاحت سے لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں :
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
’’کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘[9]
’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول (ﷺ) بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے‘‘-
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پانچ چیزوں کو بیان فرمایا جن میں سے صرف ایک حصے ’’یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا‘‘ کا تعلق قرآن مجید سے ہے جبکہ اگلے چار حصوں’’ وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘ کا تعلق قرآن پا ک کے ساتھ حدیث و سنت کے ساتھ بھی ہے- جیسا کہ امام قتادہؒ بیان فرماتے ہیں:
’’حکمت سے مراد سنت رسول(ﷺ)-اب اگر کوئی حجیتِ حدیث و سنت کا انکار کرنے والا ہے تو وہ آیت مبارک کے چار حصوں کا انکارکررہا ہے‘‘-
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’ فساد ا مت کے وقت میری سنت مضبوطی سے تھامنے والے کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا ‘‘- [10]
حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے میری سنت سے محبت کی بیشک اسے مجھ سے محبت ہے اور جسے مجھ سے محبت ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ‘‘-[11]
حضرت مجاہد (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :
’’پس جس نے میری اقتداء کی،پس وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا، پس وہ مجھ سے نہیں‘‘-[12]
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ روایات مبارکہ میں سُنت کا لفظ مبارک ہے حالانکہ بات حجیت حدیت کی ہور ہی ہے تو اس کے بار ے میں عرض ہے کہ سنت کا لغوی معانی ’’خصلت، طریقہ، طبیعت،شریعت‘‘ [13]اور اصطلاح میں سنت کا لفظ رسول اللہ (ﷺ) کے اقوال، افعال اورآپ (ﷺ) کی تقریر نیز صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کے اقوال وافعال پہ بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اورحدیث کا اطلاق خاص طورپر آپ (ﷺ) کے اقوال پہ ہوتاہے - [14]
اس لیے آئمہ کرام فرماتے ہیں کہ حدیث، سنت کا حصہ ہوتی ہے لیکن سنت صرف حدیث نہیں ہوتی بلکہ اس کے علاوہ بھی ہوسکتی ہیں جیساکہ نکاح کرنا، قربانی کرنا، مسواک کرنا سنن توہیں لیکن احادیث نہیں- یعنی سنت اور حدیث کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہوئی-جبکہ حافظ سخاویؒ اور علامہ فرنگی محلی ؒ دونوں حضرات نے صراحت کی ہے کہ آئمہ حدیث کے کلام اور تصرفات سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث و سنت ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں، یعنی ان میں باہم نسبت تساوی کی ہے-
حجیت حدیث و سنت اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ):
حضرت ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’میرے بعد ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنھم) کی پیروی کرنا‘‘- [15]
اس روایت کو یہاں لکھنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ ان مبارک ہستیوں نے جو کچھ کیا وہ امت کے لیے حجت ہے-بحیثیت امتی اس سے سر موُ(بال برابر بھی ) انحراف کرنے کی گنجائش نہیں -مزید نہایت اختصار کے ساتھ جیّد صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے اقوال و افعال مبارکہ لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام (جوکہ قرآن فہمی کے لیے اوّلین مآخذ میں سے ہیں) کے ہاں سُنت و احادیث مبارکہ کا کیا مقام ومرتبہ تھا-
سیدنا ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ):
’’سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کے وصال مبارک کے بعد تیسرے دن لشکر اسامہ(رضی اللہ عنہ)کو اکٹھا کرنے اور روانہ کرنے کا حکم فرمایا- حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم)کی ایک بڑی جماعت(جن میں عمر بن خطاب بھی تھے) نے وقت کے تقاضے کو آپ (ﷺ)کے سامنے رکھا کہ لشکر نہ روانہ کیا جائے- تو جناب صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ)نےارشاد فرمایا:’’اگر مجھے کتے اور بھیڑیئے اچک لیں، تب بھی میں اسے ویسے ہی نافذ کروں گا جیسے رسول اللہ(ﷺ)نے اس کے نفاذ کا حکم دیا- میں کبھی اس فیصلے کو رد نہیں کر سکتا جو رسول اللہ (ﷺ)نے کیا ہو‘‘- [16]
امیر المومنین عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ):
حضرت سعید (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ)فرمایا کرتے تھے:
’’ دیت صرف والد کے رشتہ داروں کے لیے ہے لہذا بیوی کو اپنے شوہر کی دیت سے کوئی حصہ نہیں ملتا- ضحاک بن سفیان (رضی اللہ عنہ) نے ( امیر المومنین حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) سے عرض کی رسول اللہ (ﷺ) نے مجھے یہ پیغام لکھوا کر بھجوایا کہ میں اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت سے حصہ دلاؤں، چنانچہ سیدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا‘‘- [17]
اسی طرح سیّدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے ہاتھ کی انگلیوں کی دیت کے بارے میں فیصلہ یہ کیا کہ انگوٹھے کی دیت 15 اونٹ، شہادت والی اور درمیانی انگلی کی دیت 10، 10 اونٹ، درمیانی انگلی کے ساتھ والی انگلی کی 9 اونٹ اور چھنگلی کی 6 اونٹ- مگر جب انہیں یہ علم ہوا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے آل حزم کی طرف دیت کے بارے میں ایک خط لکھا تھا جس میں یہ تھا کہ انگلیاں سب برابر ہیں- یعنی سب کی برابر برابر دیت ہوگی تو انہوں نے اپنے فیصلے سے رجوع کیا اور اس حدیث پر عمل کیا‘‘-[18]
سیّدنا عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ):
حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپؓ نے امت مسلمہ کو قریشی رسم الخط اور مکہ مکرمہ کی قرأت پر یکجا فرمایا-[19] حضرت عبداللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) جو اس دوران کوفہ میں موجود تھے-جب مصاحف تیار ہوئے تو انہیں کبار صحابہ کی سند مل جانے کے بعد بلادِ اسلامیہ میں بھجوا دیا گیا- بقیہ نسخہ جات کو جن میں شبہ کی گنجائش تھی، کبار صحابہ کے اجتماع و اجماع اور اتفاق سے دفنا دیا گیا-اس حکمت کے پیشِ نظرحضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا تھا کہ اگر عثمانؓ کی جگہ پر میں حکمران ہوتا تو میں بھی وہی کچھ کرتا جو عثمانؓ نے کیا[20] اتحادِ امت اور وحدتِ قرآن کی حکمت کے پیشِ ِ نظر تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) مصحفِ عثمانی پر متفق و یکجا ہوگئے-نیز ابن ابی داؤد نے حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے صحیح سند سے بیان کیا ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے متعلق سوائے بھلائی کی بات کے، کچھ نہ کہو- اللہ کی قسم! اُنہوں نے جو کچھ کیا، ہمارے مشورے سے کیا-[21] امتِ مسلمہ کو قرآن کے ایک مصحف پر جمع کرنے کی وجہ سے آپ (رضی اللہ عنہ) جامع القرآن کے لقب سے مشہورہیں-
یہ سب حضور نبی کریم (ﷺ) کی سُنت اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی باہم مشاورت سے ہوا اگر معاذ اللہ سُنت و اجماع حجت نہیں تو قرآ ن مجید کی حقانیت کے بارے میں کیا کہوگے؟
سید نا علی المرتضی (رضی اللہ عنہ):
سیدنا علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا:
’’میں رسول اللہ(ﷺ) کی سنت(مبارک) کو کسی کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا ‘‘-[22]
ایک مرتبہ جب آپ (رضی اللہ عنہ)نے جمعہ کے روز ایک عورت کو سنگسار کیا تو ارشاد فرمایا :
’’بیشک میں نے اسے سنت رسول اللہ(ﷺ)کے مطابق سنگسار کیا‘‘- [23]
سید نا عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ):
سید نا عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے:
”اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں پر اور منہ کے بال اکھاڑنے والیوں اور اکھڑوانے والیوں اور دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں پر خوب صورتی کے لیے اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق بدلنے والیوں پر ‘‘-
پھر یہ خبر بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی جس کا نام ام یعقوب تھا، وہ قرآن پڑھا کرتی تھی، وہ ایک مرتبہ سیدنا عبد اللہ(رضی اللہ عنہ)کے پاس آئی اور بولی : ’’مجھے کیا خبر پہنچی ہے کہ تم نے گودنے اور گودوانے اور منہ کے بال اکھاڑنے اور اکھٹروانے اور دانتوں کو کشادہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر لعنت کی ہے‘‘-سیدنا عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:’’میں کیوں لعنت نہ کروں اس پر جس پر رسول اللہ (ﷺ) نے لعنت فرمائی ہو اور یہ تو اللہ کی کتاب میں موجود ہے‘‘-وہ عورت بولی:’’میں نے تو جس قدر قرآن تھا پڑھ ڈالا، مجھے یہ نہیں ملا“-سیدنا عبد اللہ(رضی اللہ عنہ)نے فرمایا :’’اگر تو پڑھتی تو تجھ کو ملتا“ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’جو رسول اللہ (ﷺ) تم کوعطافرمائیں اس کو تھامے رکھو، اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو‘‘-[24]
سید نا عمران بن حصین(رضی اللہ عنہ) :
علامہ خطیب بغدادی (رضی اللہ عنہ) ایک روایت مبارک نقل فرماتے ہیں:
’’سیدنا عمران بن حصین (رضی اللہ عنہ) اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرما تھے-تو کسی نے کہا کہ ہمیں صرف قرآن حکیم سے بتائیں-تو آپ(رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: میرے قریب آؤ، تو وہ شخص آپؒ کے قریب آ گیا-آپ(رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: دیکھو اگر تم اور تمہارے ساتھی صرف قرآن حکیم پر ہی اکتفا کریں گے تو کیا قرآن کریم میں تم اور تمہارے ساتھیوں کو نماز ظہر کی چار رکعت اور نماز عصر کی چار رکعت اور مغرب کی تین رکعات دو رکعات میں اونچی پڑھنے کا ذکر ملتا ہے-اگر تم اور تمہارے ساتھی صرف قرآن حکیم پر ہی اکتفا کریں گے تو کیا قرآن کریم میں تم اور تمہارے ساتھیوں کو بیت اللہ کے طواف کے 7 چکر اور صفا و مروہ کے چکروں کا ذکر پاتے؟پھر فرمایا: اے لوگو! ہم سے (حدیث رسول اللہ (ﷺ) کاعلم) سیکھ لو- اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم ضرور گمراہ ہو گے‘‘- [25]
حضرت خزیمہ (رضی اللہ عنہ) اکیلے کی گواہی دو کے برابر:
حضرت عمارہ بن خزیمہ (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں: ان کے چچا نے ان سے بیان کیا اور وہ حضورنبی اکرم(ﷺ) کے اصحاب میں سے تھے کہ:
’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خریدا، آپ(ﷺ) اسے اپنے ساتھ لے آئے تاکہ گھوڑے کی قیمت ادا کر دیں، آپ (ﷺ) جلدی جلدی چلنے لگے، دیہاتی نے تاخیر کر دی، پس کچھ لوگ دیہاتی کے پاس آنا شروع ہوئے اور گھوڑے کا مول بھاؤ کرنے لگے اور وہ لوگ یہ نہ سمجھ سکے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے اسے خرید لیا ہے، چنانچہ دیہاتی نے رسول اللہ (ﷺ) کو پکارا اور عرض کی: اگر آپ (ﷺ) اسے خریدتے ہیں تو خرید لیجئے ورنہ میں نے اسے بیچ دیا، دیہاتی کی آواز سن کر حضور نبی کریم(ﷺ) کھڑے ہو گئے اورارشاد فرمایا:کیا میں تجھ سے اس گھوڑے کو خرید نہیں چکا؟دیہاتی نے عرض کی : نہیں، اللہ کی قسم! میں نے اسے آپ (ﷺ) سے فروخت نہیں کیا ہے، پھر آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’کیوں نہیں؟ میں اسے تم سے خرید چکا ہوں‘‘-پھر دیہاتی یہ کہنے لگا کہ گواہ پیش کیجئے، تو خزیمہ بن ثابت (رضی اللہ عنہ) بول پڑے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اسے آقا کریم(ﷺ) کو فروخت کر چکے ہو، حضور نبی رحمت (ﷺ)حضرت خزیمہ (رضی اللہ عنہ) کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا: ’’تم کیسے گواہی دے رہے ہو؟‘‘ حضرت خزیمہ بن ثابت (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی : آپ(ﷺ) کی تصدیق کی وجہ سے کہ آپ (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں-تو سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت خزیمہ (رضی اللہ عنہ) کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دے دیا ‘‘- [26]
صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے سینکڑوں ایسے افعال مبارکہ سرانجام دیے جو انہوں نے محض رسول اللہ (ﷺ) کو کرتے ہوئے دیکھا-یہاں اختصار کی خاطر محض ایک روایت پہ اکتفاء کرتا ہوں حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ) نے ایک مرتبہ حجراسود کو بوسہ دیا اور ارشاد فرمایا:
’’اگر میں رسول اللہ (ﷺ) کوتجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتاتو تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا‘‘-[27]
دعوت ِ فکر:
اب جو لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کو سمجھنےکے لیےحدیث مبارکہ کی ضرورت نہیں ہےان سے گزارش ہے کہ اللہ عزوجل نے جو رشتے حرام فرمائے ہیں ان میں (دو بہنوں کو ایک وقت میں نکاح میں جمع کرنا) ہے تو خالہ، پھوپھی، بھانجھی یہ رشتے مسلمانوں کے ہاں اجماعی اور اتفاقی طور پر حرام ہیں اور حرمت کی وجہ بھی حدیث رسول اللہ (ﷺ)ہے-حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’ایک وقت میں اسی طرح خالہ کو بھانجھی کےساتھ اور پھوپھی کو بھتیجی کےساتھ جمع نہیں کیا جاسکتا‘‘- [28]
اب کوئی شخص کہےکہ قرآن کریم میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو اس کے بقول پھوپھی اوربھتیجی کو ایک وقت میں نکاح میں جمع کرنا جائز ہوگا، معاذ اللہ! کیونکہ اس کےبقول توقرآن کوسمجھنے کے لیےکسی چیز کی ضرورت نہیں تو اس کی یہ رائے اسے صریح کفر تک لے جا سکتی ہے -
فتنہ انکار ِ حدیث کی پیشن گوئی:
آپ (ﷺ)نے جو بھی کہا ہے،جو بھی کیا ہے، وہ حق ہے، دین ہے، ہدایت ہے اور نیکی ہی نیکی ہے-اس لئے آپ(ﷺ) کی زندگی جو مکمل تفسیر کلام ربانی ہے آنکھ بند کرکے قابل اتباع ہے- آپ (ﷺ) کو خداےبزرگ وبرتر کی بارگاہ صمدیت سے رفعت و بلندی کا وہ مقام بلند نصیب ہے کہ ساری رفعتیں اس کے آگے سرنگوں ہیں حتی کہ آپ (ﷺ) کے چشم وابرو کے اشارے پر بغیر کسی تردد وتوقف کے اپنی مرضی سے دستبردار ہو جانا معیار ایمان و اسلام ٹھہرایا گیا ہے-ربّ علیم وعزیز کی ان واضح ہدایات کے بعد بھی کیا کسی کو یہ حق پہنچ سکتا ہے کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کے اقوال و افعال میں اپنی جانب سے تقسیم و تفریق کرے کہ یہ ہمارے لئے حجت ہے، اور یہ حجت نہیں ہے-بہر حال ان فتنوں کا ظہور چونکہ ہونا تھا ،ا س لیے پہلے سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :’’بغور سنو! مجھے اللہ تعالیٰ کی جانب سے قرآن دیاگیا ہے اور قرآن کے ساتھ قرآن ہی جیسی (یعنی حدیث وسنت بھی) دی گئی ہے- خبردار رہو! قریب ہے کہ کوئی آسودہ حال شخص اپنی آراستہ سیج پر بیٹھا کہے گا، اسی قرآن کو لازم پکڑو ‘‘- [29]
فتنہ انکار ِ حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سید ی رسول اللہ (ﷺ)نے غیبی ارشارہ فرمایا :
’’خبردار تم میں سے کسی کو وہ شخص فتنہ میں نہ ڈالے جوبستر پر ٹیک لگائے ہوئے ہے (کیونکہ وہ اپاہج ہوگا)کہ اس کے پاس میراحکم آئے جس کا میں نے حکم دیا ہو یا اس سے باز رہنے کا حکم کیا ہو اس پر وہ کہے کہ میں نہیں جانتاہم نے کتاب اللہ میں نہیں پایا کہ ہم اس کی اتباع کریں ‘‘- [30]
نوٹ: حضورنبی کریم (ﷺ )کا یہ غیبی معجزہ ہے جو ہو بہو ثابت ہوا کہ بیسویں صدی ہی میں منکر حجیت حدیث عبد اللہ چکڑالوی پیدا ہوا جو کہ اپاہج تھا اور تکیہ لگائے بیٹھا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے -
پیغامِ آخر:
تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین (ﷺ)کے اقوال و افعال مبارکہ اور شب و روز کے معاملات ہدایت کا سرچشمہ ہیں-قرآن پا ک کو سمجھنا سنت کے بغیر نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے-مثلاً نما ز، روزہ ،حج،زکوٰۃ کے اجمالی احکام توقرآن مجید میں مذکور ہیں ،ان کی تفصیل و وضاحت کے لیے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی سنن اوراحادیث مبارکہ سے رہنمائی لیناایک لازمی امرہے-جس کے بغیر کوئی چارہ کارنہیں -
٭٭٭
[1]الشافعي، محمد بن إدريس (المتوفى: 204هـ)، الرسالہ، (مكتبه الحلبي، مصر)، باب: الفرائض التي أنزل الله نصاً،ج: 1،ص:173
[2]عسقلانی ،أحمد بن علي بن حجر(المتوفى: 852هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاری،(بیروت: دار المعرفة ، 1379ھ)،باب، قَوْلُهُ بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ (ﷺ) يَسْأَلُ مِمَّا لم ينزل عَلَيْهِ الْوَحْيُ۔۔۔ج:13،ص:292
[3](الاحزاب:36)
[4]القرطبي، محمد بن أحمد(المتوفى :671هـ)،الجامع لأحكام القرآن۔ایڈیشن دوم ( القاهرة:دار الكتب المصرية- 1384ھ)،ج:1، ص:39
[5]ابن خزیمہ، محمد بن إسحاق بن خزيمة، صحیح ابن خزیمہ، بَابُ كَرَاهَةِ مُعَارَضَةِ خَبَرِ النَّبِيِّ (ﷺ) بِالْقِيَاسِ وَالرَّأْيِ، ج: 1،ص:75
[6](النحل:44)
[7]الشافعي، محمد بن إدريس المتوفى: 204هـ)، الأم، (دار المعرفة – بيروت)،بَيَانُ فَرَائِضِ اللہِ تَعَالٰی،ج: 7،ص:303
[8](النساء:69)
[9](البقرۃ:115)
[10]المعجم الأوسط للطبرانی،باب الممیم من اسمہ احمد
[11]الترمذی، محمد بن عيسٰى، سنن الترمذی (المتوفى: 279هـ)، ایڈیشن دوم، (الناشر: شركة مكتبة و مطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر (1395ھ) ،َبَابُ مَا جَاءَ فِي الأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ البِدَعِ،ج:5،ص:45، رقم الحدیث:2677
[12]مسند الإمام أحمد بن حنبل۔ أَحَادِيثُ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ (ﷺ)
[13]المنجد،ص:494،دارالاشاعت ۔کراچی ۔
[14]نورالانوار،ص:187،مکتبۃ الحسن،لاھور۔
[15]سنن الترمذی ، بَابُ مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ (ؓ)
[16]ابن الأثير،علي بن أبي الكرم محمد بن محمد (المتوفیٰ:630ھ) الكامل في التاريخ،(دار الكتاب العربي، بيروت،لبنان،الطبعة: الأولى، 1417ھ)،باب ذِكْرُ إِنْفَاذِ جَيْشِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ،ج: 2،ص:194۔195
[17]سنن ابی داؤد، کتاب الفرائض
[18]عبد الرزاق بن همام بن نافع الحميری،المصنف،ایڈیشن دوم ،(بیروت: المكتب الإسلامي،1403ھ)، بَابُ الْأَصَابِعِ۔
[19]الاتقان، ج:1، ص:130
[20]تفسیرِ قرطبی:541
[21]فتح الباری، ج:9، ص:18
[22]صحیح بخاری، کتاب الحج
[23]صحيح البخاری، کتاب الحدود
[24]صحیح مسلم، کتاب اللباس والزينة، باب تحريم فعل الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة۔۔
[25]الخطيب البغدادي، أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد (المتوفى: 463هـ)، الكفاية في علم الرواية۔ بَابُ تَخْصِيصِ السُّنَنِ لِعُمُومِ مُحْكَمِ الْقُرْآنِ، ج:1،ص:15
[26]سنن ابی داؤد، كِتَاب الْأَقْضِيَةِ، بَابٌ إِذَا عَلِمَ الْحَاكِمُ صِدْقَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَحْكُمَ بِهِ۔
[27]صحیح البخاری ، كِتَابُ الحَجِّ
[28]صحیح البخاری، بَابُ لاَ تُنْكَحُ المَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا
[29]سنن أبي داود، کتابُ السنۃ، بَابٌ فِي لُزُومِ السُّنَّةِ
[30]سنن ابی داؤد،باب لزوم السنۃ