تصوف کی علمی جہات اور ابن عربی کی خدمات
شیخ محی الدین ابن عربیؒ تاریخِ انسانی میں ایسی شخصیات میں سے ہیں جو محض افراد نہیں بلکہ عہد ساز مظاہر ہوتی ہیں- ان کی فکر وقت اور جغرافیے کی قید سے آزاد ہو کر صدیوں تک اثر انداز ہوتی ہے-ابن عربیؒ نے اپنی زندگی کا آدھا وقت مغرب اور ا ٓدھا مشرق میں گزارا چنانچہ شرق و غرب کے فلسفیانہ، روحانی، نفسیاتی اور زندگی کے دیگر پہلو ان کی نگاہ میں تھے- انہوں نے بالخصوص مغرب میں مذہبی تعبیرات میں فلسفیانہ اور مشرق میں جذب و شوق اور روحانی وارفتگی کو بہت قریب سے دیکھا تھا - اس پر مستزاد ان کا علمی تبحر ، جو ان کی تحاریر میں چھلکتا ہے - ان سے منسوب کتب کی تعداد تقریباً 500 کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے ، جن میں سینکڑوں عنوانات ہیں جو مشرق و مغرب کا احاطہ کرتے ہوئے ان دونوں تہذیبوں کے مابین ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں-
یہ کہنا کسی طور بھی غلط نہ ہوگا کہ ابنِ عربیؒ ایک صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم مفکر، فلسفی اور فکری معمار تھے جنہوں نے روحانی تجربات کو ایک مکمل عقلی اور فلسفیانہ زبان دی- انہوں نے ایک مخصوص لغت اور اصطلاحات کا ایسا نظام وضع کیا جس نے بیانِ تصوف کو ایک منظم فکری بنیاد فراہم کی- ابنِ عربی ؒنے اپنے مشاہدات اور باطنی تجربات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کیا اور قرآنی آیات میں تفکر کے ذریعے ان روحانی معانی کو ایک فکری ڈھانچے میں ڈھالا، جہاں روحانیت اور عقل دونوں کی ہم آہنگی نظر آتی ہے- یہی وجہ ہے کہ ان کے متون میں فلسفہ، عرفان اور باطنی معانی کی ایسی گہرائی ہے جسے سمجھنے کیلئے کسی ماہر و کامل کی صحبت درکار ہوتی ہے - ابنِ عربی کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے پیشرو حجۃ الاسلام امام غزالیؒ کی راہ پر چلتے ہوئے تصوف کی وجدانی کیفیت کو فلسفیانہ اور منطقی بنیاد پر بیان کیا-
شیخِ اکبر محی الدین ابن عربی کے افکار کی مؤثریت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ ان کی قبولیت کسی ایک خطے تک محدود نہیں رہی بلکہ شرق و غرب میں، ہر علاقے میں ان کے افکار کی گونج صدیوں تک نظر آتی ہے- تمام بڑے صوفی سلاسل شیخ اکبر کے افکار سے استفادہ کرتے ہیں-نو آبادیاتی نظام سے قبل یہ علمی روایت کسی مشکل یا اجنبیت کا شکار نہ تھی- مختلف ادوار اور خطوں میں شیخ الاکبر کی کتب بالخصوص فصوص الحکم کی کثیر شروحات تحریر کی گئیں جن کا تذکرہ اس شمارے کے ایک مضمون میں موجود ہے- عوام و خواص اور مختلف تحریکیں اورسلطنتیں یکساں طور پر شیخ الاکبر کے افکار کو اپنائے ہوئے تھیں- رُو بہ زوال اُمت اسلامی میں فرقہ پرستانہ تعصبات نے ایسی جڑیں پکڑیں کہ اصل علوم اور ان پہ مہارت کی لگن رفتہ رفتہ ’’آؤٹ آف فیشن‘‘ چیز بن گئی ، یعنی ، تعقل کی بجائے خطیبانہ جملے بازی کو ترجیح ملی اور یوں ابن عربی جیسے عظیم مفکرین کے علم و فن سے استفادے کیلئے نہ تو طلبائے علم راغب ہوئے نہ فن کے ماہرین باقی رہے -
مغربی استعمار اور نوآبادیاتی نظام کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ وہ تحریکیں تھیں جو اسلام کے حق اور کفر کے خلاف لڑ رہی تھیں - اس لئے مغربی طاقتوں نے اپنے جاسوسوں کے ذریعے دنیائے اسلام میں ان مزاحمتی تحریکوں کی سرکوبی کیلئے اور عامۃ المسلمین کی تکفیر کے ذریعے دنیائے اسلام میں ایک نہ ختم ہونے والا انتشار پیدا کرنے کیلئے ’’تحریکِ اصلاح‘‘ کے نام پہ ایسے فتنوں کی آبیاری و سہولت کاری کی جِسے آج تک دنیائے اسلام بھگت رہی ہے - مغربی جاسوسوں نے مزاحمتی تحاریک کو کچلنے کیلئے جہاں مسلم تہذیب کے دیگر مضبوط گوشوں پہ حملہ کیا وہیں شیخ اکبر کی علمی روایت کوبھی کمزور کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ نوآبادیات کے خلاف مزاحمت کرنے والی اکثر تحریکوں کے رہنما شیخ اکبر ابن عربیؒ کے افکار سے وابستہ تھے - کبھی ان کے افکار کو یونانی فلسفے سے جوڑنے کی ناپاک جسارت کی گئی تو کہیں اسے رہبانیت سے جوڑنے کی کوشش کی گئی- کمزور ہوتی مسلم دنیا میں جہاں دیگر علمی جہات زوال پذیر ہوئیں وہیں شیخ اکبر کے فکر و فلسفہ سے دوری بھی ہمیں دیکھنے کو ملی -نتیجتاً ہم نے نہ صرف ابن عربیؒ کو کھو دیا بلکہ اپنے عروج اور سامانِ ہمت و یکجہتی کو بھی کھو دیا -
اس کے برعکس، عصرِ حاضر میں مغرب ابن عربیؒ پر بھرپور تحقیق کر رہا ہے- مغربی مفکرین میں علمی تجسس اور فکری تنوع پایا جاتا ہے، جہاں مختلف مکاتبِ فکر کو بغیر کسی مذہبی تعصب کے پڑھا اور سمجھا جاتا ہے- فلسفہ اور مابعد الطبیعات میں دلچسپی رکھنے والے اسکالرز ابن عربیؒ کے نظریات، خصوصاً وحدت الوجود، تخیلِ خلاق اور معرفتِ باطنی کو metaphysics، phenomenology اور mysticism کے ساتھ جوڑتے ہیں-اس ضمن میں مستند تراجم اور ادارہ جاتی معاونت بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے- ولیم چٹک (William Chittick)، ہنری کربن (Henry Corbin) اور جیمز مورس (James Morris) جیسے اسکالرز نے نہ صرف ابن عربی ؒ کی تعلیمات کے تراجم کیے بلکہ انہیں نصاب اور تحقیقی مباحث میں بھی شامل کیا- مغرب میں بین المذاہب مکالمے کے فروغ نے بھی ابن عربیؒ کو ’’universal mystic‘‘ کے طور پر پیش کیا-
دوسری طرف ہمارے ہاں ابن عربیؒ کے فہم میں متعدد رکاوٹیں حائل ہیں- مسلم دنیا میں کلاسیکی عربی تصوف کی تدریس اور فلسفیانہ/منطقی تربیت کی کمی نے بھی اس فکری روایت کے سمجھنے میں مشکلات پیدا کی ہیں- خانقاہی نظام میں پیدا ہونے والے تساہل و تجاہل نے اس ذوق کو وابستگان میں رفتہ رفتہ عنقاء و مفقود کر دیا ہے جس میں تصوف کے جلیل القدر شیوخ کے تذکرے اور تعلیمات کو سبقاً سبقاً سیکھنے کی جستجو پائی جاتی تھی - اس کے ساتھ ساتھ مغربی ایماء پر بعض مسلم ممالک میں سیاسی اور مذہبی سنسرشپ نے صوفیانہ فکر و فلسفے پر آزادانہ تحقیق کو مزید محدود کر دیا ہے - یہ ساری صورتحال ہمارے لیے ایک سنگین علمی المیہ ہے- مغرب، ابن عربیؒ کو ایک عالمی مفکر اور فکری رہنما کے طور پر اپنی علمی روایت میں شامل کر رہا ہے، جبکہ مشرق، وہاں انہیں ایک محدود یا متنازعہ شخصیت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے- نتیجتاً ہم اپنی علمی اور روحانی میراث کو مغربی مطالعات کے ذریعے دوبارہ دریافت کر رہے ہیں، بجائے اس کے کہ خود اس کی تجدید کریں-اگر ہم نے اس علمی ورثے کو اس کے اصل تناظر میں نہ سمجھا تو یہ کمی نہ صرف ہماری فکری شناخت کو مزید کمزور کرے گی بلکہ روحانی اور تہذیبی زوال کو بھی گہرا کرے گی-