شجرِسایہ دار

شجرِسایہ دار

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو نہ صرف انسان کی زندگی کے ہرشعبے میں رہنمائی مہیا کرتا ہے بلکہ مہد سے لحد تک ہر پَل کی زندگی کیلئے اس کو اس انداز میں احکام مہیا کرتاہے جن پہ صدقِ دل سے عمل پیرا ہونے سے نہ صرف عالِم برزخ اور عالم ِ محشر کی زندگی آسان ہو جاتی ہے-بلکہ اس کی دنیاوی زندگی بھی قابل ِ رشک بن جاتی ہے-لیکن صد افسوس! کہ ہمارے مغرب زدہ معاشرے نے اپنی تمام تر توجہ مادیت اور دنیاوی مفاد کیلیے وقف کر دی جس کی بناء پہ لوگوں نے جہاں دیگر کئی حقائق سے منہ موڑ لیا، وہاں والدین جیسے مقدس رشتے کا بھی تقدس پامال ہونے لگا اور اس کی نزاکتوں کو سمجھنا لوگوں کی ترجیح نہیں رہی جس کی بناء پہ ہمارے گرد و نواح میں بعض اوقات اولاد کی اپنے والدین کے ساتھ معاندانہ رویے کے بارے میں بڑی عجیب و غریب اور دل خراش خبریں سننے کو ملتی ہیں جس کو بیان کرنا تو دور کی بات ہے کوئی سلیم الفطرت ان کو سننا بھی گوارا نہیں کرتا-ذیل میں قرآن وحدیث کی روشنی میں والدین کے مقام و مرتبہ کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کے مقام و مرتبہ کو سمجھنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ان کی نافرمانی جیسے قبیح فعل کے ارتکاب سے بچائے-آمین ثم آمین!

والدین کامقام ومرتبہ قرآن کی روشنی میں :

’’قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِـہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا‘‘[1]

’’(اے محبوب ﷺ)فرما دیجیے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو‘‘-

’’وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناًط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ کِلٰہُمَا فَـلَا تَقُلْ لَّہُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا‘‘[2]

’’اور آپ (ﷺ)کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اُف‘‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو‘‘-

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر حضرت زکریا (علیہ السلام) کی شان بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

’’وَّبَرًّام بِوَالِدَیْہِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا‘‘[3]

’’اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بڑی نیکی (اور خدمت) سے پیش آنے والے (تھے) اور (عام لڑکوں کی طرح) ہرگز سرکش و نافرمان نہ تھے‘‘-

سیدناعیسیٰ(علیہ السلام)کےبارے فرمان مبارک ہوا:

’’وَّبَرًّام بِوَالِدَاتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا‘‘[4]

’’اور(اللہ تعالیٰ نے مجھے ) اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور اس نے مجھے سرکش و بدبخت نہیں بنایا‘‘-

مزیدارشادفرمایا:

’’وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا ط وَ اِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا‘‘[5]

’’اور ہم نے آدمی کو تاکید کی اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کی اور اگر وہ تجھ سے کوشش کریں کہ تو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہا نہ مان‘‘-

امام بغویؒ فرماتے ہیں :

’’یہ آیت اور سورہ لقمان:14 اور الاحزاب:72، حضرت سعدبن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) اور ان کی والدہ حمنہ بنت ِ ابی سفیان کے متعلق نازل ہوئی ہیں، جب حضرت سعدبن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوگئے تھے حضرت سعد (رضی اللہ عنہ) سابقین اولین میں سے تھے اور اپنی والدہ کے ساتھ بہت نیکی کرتے تھے،ان کی والدہ نے کہا یہ کون سادین ہے جوابھی ظاہرہواہے؟ اوراللہ کی قسم!میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی جب تک کہ تم اپنے سابق دین کی طرف رجوع نہیں کرو گے ورنہ میں مرجاؤں گی،اورتم کوہمیشہ یہ طعنہ دیاجائے گاکہ تم اپنی ماں کے قاتل ہو،پھران کی والدہ نے پورادن کھائے پئے اورآرام کئے بغیر گزار دیا، اسی طرح دوسرا دن بھی اسی طرح بغیر کھائے پئے گزار دیا- پھر حضرت سعد (رضی اللہ عنہ) ان کےپاس گئے اور کہا اے ماں! اگر آپ کےپاس سو زندگیاں ہوتیں اور آپ اسی طرح ایک ایک کرکے ان زندگیوں کوختم کردیتیں پھربھی میں اپنے دین کو ترک نہ کرتا،آپ چاہیں تو کھاناکھائیں اورچاہیں تو کھانا نہ کھائیں جب ان کی ماں حضرت سعد (رضی اللہ عنہ)کے سابق دین کی طرف لوٹنے سے مایوس ہوگئیں تو پھرانہوں نے کھانا پینا شروع کر دیا اس موقع پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ حکم فرمایا کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کریں اورحسن سلوک کریں اوراگر وہ اللہ تعالیٰ کا شریک بنانے کا حکم دیں تو اس حکم میں ان کی اطاعت نہ کی جائے ‘‘- [6]

مذکورہ روایت میں جہاں ایک صحابی کا اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے ساتھ عہدِ وفاء کا ثبوت ملتا ہے وہاں اس بات کابھی پتہ چلتاہے کہ اللہ پاک نے والدین کا کیامقام ومرتبہ قائم فرمایاہے کہ باوجود اپنادشمن ہونے کے اللہ پاک نے ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ارشاد فرمایا ہے -

مقام والدین احادیث مبارکہ کی روشنی میں :

حضرت ابو اُمامہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) والدین کا اولاد پر کیا حق ہے؟ تو آپ (ﷺ) نےارشاد فرمایا کہ:

’’هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ‘‘[7]

’’وہ دونوں تیری جنت و دوزخ ہیں‘‘-

یعنی تم ان کی دل وجان سے خدمت کرکےاللہ تعالیٰ کی رضااور جنت بھی حاصل کرسکتے ہواوران کی بے ادبی اورنافرمانی تمہیں دوزخ کا مستحق بھی ٹھہراسکتی ہے -

’’حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، عرض کی کس کی یارسول اللہ (ﷺ)؟

آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا ثُمَّ لَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ‘‘[8]

’’جس نے اپنے والدین میں سے دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایاپھروہ( ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوسکا‘‘-

اسی طرح والدکے رشتہ کے تقدس کو بیان کرتے ہوئے اپنی رضا کو والد کی رضامیں رکھ دیا- جیساکہ روایت میں ہے:

’’حضرت عبداللہ بن عَمرو (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’رِضَى الرَّبِّ فِيْ رِضَى الوَالِدِ وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ‘‘[9]

’’اللہ پاک کی رضا، والد کی رضا میں ہے اور اللہ پاک کی ناراضگی والدکی ناراضگی میں ہے ‘‘-

والد وہ مقد س ہستی ہے جس کی زیارت کو اللہ پاک نے عبادت کا درجہ عطا فرمایا ہے،جیسا کہ فرمان مبارک ہے :

حضرت عبداللہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ:

’’ النَّظَرُ إِلَى الْوَالِدِ عِبَادَةٌ‘‘[10]

’’والد کی طرف (محبت سے)دیکھنا عبادت ہے‘‘-

صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)! اگر وہ ایک دن میں سو مرتبہ دیکھے؟ تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’نَعَمْ، اَللهُ أَكْبَرُ وَأَطْيَبُ‘‘[11]

’’ہاں!(اگر وہ سو مرتبہ بھی دیکھے)اللہ پاک اس سے بھی بڑی شان والا اور سب سے پاک ہے‘‘-

اسلام نہ صرف والدین بلکہ ان کے ساتھ تعلق رکھنے والوں سے بھی حسن سلوک کا حکم ارشاد فرماتا ہے، جیسا کہ روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر(﷠)سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

’’إِنَّ أَبَرَّ البِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَهْلَ وُدِّ أَبِيْهِ‘‘[12]

’’بے شک سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے رشتہ دارو ں سے صلہ رحمی کرے‘‘-

صحابہ کرام (﷢) آقا کریم (ﷺ)کے اس فرمان مبارک پہ دل وجان سے عمل کیاکرتے تھے-جیسا کہ روایت میں ہے:

’’حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) کو مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک دیہاتی ملا آپ(رضی اللہ عنہ) نے اس کو سلام کیا اور جس گدھے پر خود سوار تھے اس دیہاتی کو بھی اس پر سوار کر لیا اور اپنے سر سے عمامہ اتار کر اس کو عطا کردیا-ابن دینار کہتے ہیں کہ ہم نے ان سے کہا اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے یہ دیہاتی لوگ ہیں یہ معمولی چیز سے بھی راضی ہو جاتے ہیں- آپ (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ اس شخص کا والد حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کا دوست تھا اور میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:

’’إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ صِلَةُ الْوَلَدِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيْهِ‘‘[13]

’’سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ کوئی بیٹا اپنے والدکے دوستوں سے نیکی کرے‘‘-

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں کچھ ناعاقبت اندیش جن کے پاس مال و دولت بالخصوص جب ان کی شادی وغیرہ ہو جاتی تو والدین کو نظرانداز کرناشروع کر دیتے ہیں- حالانکہ روایت میں ہے:

’’ایک شخص رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)! میرے پاس مال بھی ہے اور میری اولاد بھی ہے؛میرے والد کو میرے مال کی ضرورت بھی ہے تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ‘‘[14]

’’تم خود اورتمہارا مال تمہارے والدکی ملکیت ہے‘‘-

یہ بات ذہن نشین رہے کہ انسان کے والدین کے ساتھ تعلقات یاحسن سلوک صر ف ناسوتی دنیاتک نہیں بلکہ اللہ پاک نے بعد از وفات بھی اس مقدس رشتے کو نبھانے کاحکم ارشاد فرمایا ہے جیسا کہ روایت میں ہے کہ:

’’حضرت ابو اُسید مالک بن ربیعہ ساعدی (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے، آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ ہم حضور نبی رحمت (ﷺ) کی بارگاہِ اقد س میں حاضر تھے کہ بنی سلمہ سے ایک شخص حاضرِ خدمت ہوا اور عرض کی:یارسول اللہ (ﷺ)!کیا میرے والدین کے ساتھ ان کے وفات کے بعد بھی کوئی نیکی ہے؟ تو آپ(ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’نَعَمْ الصَّلَاةُ عَلَيْهِمَا، وَالِاسْتِغْفَارُ لَهُمَا، وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لَا تُوصَلُ إِلَّا بِهِمَا وَإِكْرَامُ صَدِيْقِهِمَا‘‘[15]

’’ہاں!ان کے نمازِ جنازہ میں شریک ہونا اور ان کیلئے دعائے مغفرت کرنا اور ان کے موت کے بعد ان کے (لوگوں سے کیے ہوئے )وعدوں کو پوراکرنااوران کے رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آنا اور ان کے دوستوں سے عزت سے پیش آنا‘‘-

یاد رکھیں! انسان چاہے جتنی نیکی کرلے والدین کا حق ادا نہیں ہوسکتاجیساکہ روایت میں ہے :

’’حضرت میمُون بن ابی شبیب (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ حضرت معاذبن جبل (رضی اللہ عنہ) سے عرض کی گئی کہ:والد کا بیٹے پر کیاحق ہے؟تو آپ(ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ:

’’لَوْ خَرَجْتَ مِنْ أَهْلِكَ وَمَالِكَ مَا أَدَّيْتَ حَقَّهُمَا‘‘[16]

’’اگر تو گھر اور مال بھی خرچ کرے تو پھر بھی ان دونوں کا حق ادا نہیں ہو سکتا‘‘-

والدین کی نافرمانی و بے ادبی تو دور کی بات اگر انسان صرف والدین کو نفرت کا اظہارکرتے ہوئے اگر صرف گھور کے ہی دیکھ لے تو رسول اللہ (ﷺ) نے اس پہ بھی وعید بیان فرماتے ہوئے ارشادفرمایا :

’’مَنْ أَحَدَّ النَّظْرَ إِلَيْهِمَا فِىْ حَالِ الْعَقُوْقِ أُوْلٰئِكَ بَرَآءَ مِنِّىْ وَأَنَا مِنْهُمْ بَرِىْءٌ ‘‘[17]

’’ جس نے ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہوئے اُن کو گھور کر دیکھا وہ مجھ سے بَری ہیں اور میں ان سے بَری ہوں‘‘ -

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے والدین کےساتھ نیکی کرتے ہیں لیکن ہمارے والدین کا رویہ ہمارے ساتھ جانب دارانہ ہے،یاد رکھیں اس صورت میں بھی ہمیں والدین کے ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے جیساکہ روایت میں ہے :

’’حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) روایت بیان فرماتے ہیں کہ: جو بھی مسلمان جس کے والدین حالت ایمان میں حیات ہوں اور وہ ان کے ساتھ نیکی کی حالت میں صبح کرتا ہے تو اللہ پاک اس کیلیے جنت کےدونوں دروازے کھول دیتا ہے-اگر والدین میں کوئی ایک بھی ناراض ہو تواللہ پاک اس سے راضی نہیں ہوگا جب تک وہ اس سے راضی نہ ہو-عرض کی گئی یارسول اللہ (ﷺ):اگرچہ وہ اس پر ظلم بھی کریں؟توآپ (ﷺ) نےارشادفرمایا :

’’وَإِنْ ظَلَمَاهُ‘‘[18]             

’’اگرچہ وہ اس پر ظلم بھی کریں‘‘-

تمام مذکورہ روایات ہمیں اس چیز پہ غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں کہ ہم اپنے تمام رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں بالخصوص والدین کے ادب و احترام کو دل وجان سے بجالائیں بلکہ والدین کے دوستوں سے بھی حسن سلوک سے پیش آئیں-اس صورت میں ہمارے معاشرے سے رنجشیں بھی ختم ہوں گی اور باہم اخوت و محبت کی فضا بھی پروان چڑھے گی-

٭٭٭


[1]( الانعام:151)

[2]( بنی اسرائیل:23)

[3]( سورہ مریم :14)

[4]( مریم:32)

[5]( العنکبوت:8)

[6](معالم التنزیل، باختلاف الفاظ: صحیح مسلم)

[7]( سنن ابن ماجہ،کتاب الاداب)

[8](صحیح مُسلم، كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ)

[9](ایضاً)

[10]( شعب الایمان،باب:برالوالدین)

[11]( شعب الایمان،باب:برالوالدین)

[12]( سُنن الترمذي ، أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ)

[13](ایضاً)

[14]( سنن ابی داؤد)

[15]( سنن أبي داود ، كِتَاب الْأَدَبِ)

[16]( مُصنف ابن شیبہ ، كِتَابُ الْأَدَبِ)

[17]( کنزالعمال)

[18]( اَلأَدبُ الْمُفرَد ، بَابُ بِرِّ وَالِدَيْهِ وَإِنْ ظَلَمَا)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر