ابن عربی کا تفسیری منہج اور جلدِاول کے اشارات

ابن عربی کا تفسیری منہج اور جلدِاول کے اشارات

ابن عربی کا تفسیری منہج اور جلدِاول کے اشارات

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی اکتوبر 2025

محی الدین شیخ الاکبر ابن عربیؒ ان آئمہءِ تفسیر میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اشاری و تاویلات میں تفسیر کی ، اور قرآن مجید کی آیات کے ان معانی کی طرف توجہ دلائی جس طرف اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے خاص الخاص بندوں اطلاع دیتا ہے - اس فنِ تاویل میں دیگر بھی جلیل القدر علمائے بر حق نے تفاسیر لکھی ہیں ، مثلاً؛ امام الآئمہ  امام ابو قاسم القشیری ، امام نجم الدین کبریٰ ، امام فخر الدین رازی ، اور شیخ اسماعیل حقی حقی-

تاویل کیا ہے؟

تاویل کا لفظ اَوْل سے مشتق ہےیعنی اپنی اصل کی طرف لوٹنا-[1] اصطلاح شرع میں،ایک لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے ہٹا کر ایک ایسے معنی پر محمول کرنا جس کاوہ احتمال رکھتا ہو اور وہ احتمال کتاب و سنت کے موافق ہو[2]-تاویل کی تعریف میں علامہ مرتضے ٰزبیدی نے ابن ِ کمال کاقول نقل کرتے ہوئے فرمایا:

’’آیت ِ قرآنی کو ظاہری معانی سے پھیر کر دوسرے مفہوم کی طرف لانا،بشرطیکہ وہ معانی کتاب و سنت کے موافق ہو تاویل کہلاتا ہے‘‘- [3]

تفسیر اشاری پہ اعتراض اور اس کا مختصر جواب:

فی زمانہ زبانِ زد عام ہے کہ قرآن پاک کا ظاہری معانی ہی کافی ہیں،اس کے باطنی معانی یاتاویل کی کیا ضرورت ہے- کیونکہ قرآن پاک کے باطنی اسرارورموز اللہ پاک ہی جانتا ہے -

بلاشبہ قرآن پاک کا ہر لفظ ہدایت و رحمت کا منبع ہے لیکن اس کو صر ف ظاہر تک محدود کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے-ظاہری لغت کے اعتبارسے بھی عربی لغت اپنے اندر وسعت رکھتی ہے- جیسا کہ گھوڑے کے لئے عربی زبان میں 500 سے زائد لفظ استعمال ہوتے ہیں،باقی تفسیری اشاری یا صوفیانہ تاویلات پہ اعتراض کرنے والوں سے پہلی گزارش تو یہ ہے کہ خود تاجدارِ انبیاء ختم الرسل، مولائے کل (ﷺ)نے تاویل کا علم صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کو عطا فرمایا- جیساکہ حضرت عبداللہ ابن عباس(رضی اللہ عنہ) کے حق میں دعا فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل‘‘[4]

’’اے اللہ !ان کو دین کی فہم اورعلم ِ تاویل عطافرما‘‘-

اس لیے علامہ سید محمودآلوسی مذکورہ حدیث مبارک کو لکھنے کے بعد فرماتے ہیں:

’’اگر تاویل کو اللہ پاک کے علاوہ کوئی نہ جانتا ہوتا تو اس دعا کا کیا مطلب ہوگا‘‘- [5]

دوسری گزارش یہ ہے کہ بعض نصو ص ایسی ہوتی ہیں کہ وہاں ظاہری معانی مراد لینا محال ہوتاہے اور تاویل کے بغیر کوئی چارہ کارنہیں ہوتا- جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان عالی شان ہے:

’’فَفِرُّوْا اِلیَ اللہِ‘‘ [6]

’’پس دوڑو اللہ تعالیٰ کی طرف‘‘-

مزید ارشادفرمایا:

’’ وَمَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِہٖ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی‘‘ [7]

’’اور جو شخص اس (دنیا) میں اندھا رہا سو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا‘‘-

تو ان مذکورہ آیات بیّنات میں ہم جب تک دوڑنے اور اندھا پن کی تاویل نہیں کریں گے معنی واضح نہیں ہوگا-

مذکورہ تعریفات و توضیح سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تاویل کا جواز نہ صرف قرآن و سُنت میں ہے بلکہ بعض اوقات اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں -

(نوٹ: اس اس موضوع پہ مزید تفصیل کیلئے بندہ ناچیز کا مضمون ’’تاویلات کی شرعی حیثیت‘‘ ملاحظہ کیجئے جو ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل ، مئی 2019 میں شائع ہوا، ویب سائیٹ پہ بھی موجود ہے )-

تفسیر ابن عربی ؒ کا اسلوب اور تفسیری نکات :

شیخ محی الدین ابن عربیؒ آیات کی تاویل میں روحانی اشارات تلاش کرتے ہیں آپؒ کی بنیادیں دراصل عارفانہ نظریات، وحدت الوجود کے فہم اور باطنی معانی تک رسائی کے اصول پر قائم ہیں- ان کی تفسیر میں قرآن کے ظاہر (لفظی معنی) کو ترک نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کے پیچھے چھپے روحانی و عرفانی معانی کو ظاہر کیا جاتا ہے-

ابن عربیؒ کے نزدیک قرآن کے دو پہلو ہیں:

  1. ظاہر: لغوی، نحوی اور شریعت کے احکام سے متعلق-
  2. باطن: دل کی دنیا، معرفتِ الٰہی اور روحانی حقائق سے متعلق-

آپؒ ظاہر کو بنیاد اور باطن کو کمال سمجھتے ہیں-ان کے نزدیک قرآن صرف ماضی میں نازل ہونے والا متن نہیں بلکہ ہر وقت دلوں پر نازل ہونے والی ایک زندہ حقیقت ہے اور مومن کا قلب، نزولِ معانی کا محل بن سکتا ہے- وہ مخلوقات کو ’’حق کے مظاہر‘‘ سمجھ کر آیات کی تاویل کرتے ہیں-آیات میں رموز اور اشارات کو مرکزی اہمیت دیتے ہیں-باطنی تفسیر میں ہر آیت کو سلوک کے مراحل پر منطبق فرماتے ہیں نفسِ امارہ سے مطمئنہ تک کے سفر کو اشاروں اور کنایوں میں ایک حسین انداز میں پیش فرماتے ہیں ،قلب کی صفائی اور روح کی معراج پہ زور دیتے ہیں باوجود عرفانی تاویلات کے، ابن عربیؒ شریعت سے انحراف نہیں کرتے-ان کے نزدیک باطنی معنی، ظاہری شریعت کی تکمیل ہیں، اس کا رد نہیں-وہ اپنی باطنی تفسیر میں ذاتی مکاشفات اور روحانی تجربات سے مدد لیتے ہیں-لیکن ان مکاشفات کو ہمیشہ قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں-

اب ہم ذیل میں شیخ محی الدین ابن عربی ؒ کی باطنی تفسیر میں ذکر کردہ تفسیری نکات کو زیرِ بحث لاتے ہیں-

1:’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ‘‘[8]

’’نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا‘‘-

اس آیت مبارک کی تاویل میں محی الدین ابن عربی ؒ فرماتے ہیں کہ :

’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ‘‘ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صرف ظاہر پہ اکتفا کیا- جیسا کہ یہود اور ’’وَ لَا الضَّآلِّیْنَ‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے صرف باطن پہ اکتفا کرلیا- جیسا کہ عیسائی ‘‘-

نوٹ: سیدنا محی الدین ابن عربی ؒ کی تفسیر خود ظاہر ی کرتی ہے کہ آپ اسلام کی حقانیت یعنی ظاہر وباطن کی طہارت وتزکیہ کے قائل ہیں بلکہ اس کے پرزور داعی بھی ہیں-دراصل یہی رسول اللہ (ﷺ) کی اُمت کا امتیازی وصف اور خاصہ ہے کہ اللہ پاک نے اس امت کو ظاہر بھی شاہانہ اورباطن بھی بے مثل عطافرمایا ہے -

2:’’ هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘[9]

’’اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کیلئے‘‘-

متقی کی تعریف میں آپ ؒ فرماتے ہیں کہ :

’’قرآن پاک اُن کیلئے ہدایت ہے جو اپنے آپ کو بُری عادات(زنا،چوری ،حسد ،کینہ وغیرہ ) سے بچاتے ہیں اور ایسے(اپنے دلوں کو ایسے) حجابات سے بچاتے ہیں جو حجابات دل کو حق بات قبول کرتے سے روکتے ہیں ‘‘-

3: ’’وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ‘‘[10]

’’اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘-

اس کی تفسیر میں آپ ؒ فرما تے ہیں کہ :

’’نماز اور زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ادا کی جائے نہ کہ محض ثواب کی خاطر ادا کی جائے ‘‘-

4: ’’وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ‘‘[11]

’’اور صبر اور نماز سے مدد چاہو‘‘-

اس کی تفسیر میں آپ ؒ فرماتے ہیں کہ :

’’صلاۃ دل کی حضوری کا نام ہے کہ جس کے ساتھ صفات ِ تجلیات ملی ہوئی ہوتی ہیں ‘‘-

5: ’’وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘[12]

’’اور قریب ہے کہ نیکی والوں کو اور زیادہ دیں ‘‘-

آپ ؒ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’محسنین سے مراد مشاہدہ کرنے والے ہیں جس طرح کہ حضورنبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’ اَلاحسان ان تعبد اللہ کانک تراہ ‘‘

’’مرتبہ احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے‘‘-

6: ’’وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ‘‘[13]

’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہےجو اللہ کی مسجدوں کو روکے ان میں نامِ خدا لیے جانے سے‘‘-

اس کی تفسیر میںارشاد فرماتے ہیں کہ:

’’ اس اسم سے مراد اللہ کا خاص نام ہے جو کہ اسم اعظم ہے اور اس اسم کی تجلی صرف دل پر ہی ہوتی ہے اور وہ تجلی ذات کی ہوتی ہے اس کی تمام صفات کے ساتھ ‘‘-

7:’’وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ‘‘[14]

’’اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں‘‘-

’’لَّا تَشْعُرُوْنَ‘‘ کی تفسیر میں آپؒ فرماتے ہیں کہ :

’’تمہیں شعور نہیں ہےتمہاری بصیرتوں کے (دل کی آنکھ کے) اندھا ہو نے اور تمہارا نور سے دور ہونے کی وجہ سے اور یہ وہ نور ہے جس کے ساتھ دل عالم قدس اور ارواح کی حقیقتوں کو ظاہر طور پر دیکھتا ہے‘‘-

8: ’’ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ‘‘[15]

’’ہم اللہ کیلئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘‘-

علامہ ابن عربیؒ کے نزدیک یہ رجوع صرف موت کے بعد نہیں بلکہ ہر لمحہ وجودی رجوع ہے- مخلوق ہر آن اپنی اصل یعنی ذاتِ حق کی طرف متوجہ ہے، چاہے شعوری طور پر ہو یا غیر شعوری طور پر-

9: ’’وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘‘[16]

’’اور لڑو اللہ کی راہ میں اور جان لو کہ بیشک اللہ سنتا جانتا ہے‘‘-

 اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

’’پہلے اپنے نفس کے ساتھ لڑو پھر شیطان کے ساتھ-تیسرے نمبر پہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں موت سے نہ ڈرو‘‘-

01: وَ تُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ ز وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ‘‘[17]

’’اور مردہ سے زندہ کو نکا لے اور زندہ سے مردہ کو نکا لے اور جسے چاہے بے حساب عطا کرے‘‘-

اس کی تفسیر میں شیخ الاکبر فرما تے ہیں کہ :

’’دل کی زندگی کو مردہ نفس سے نکا لتا ہے اور مردہ نفس کو دل کی زندگی سے نکا لتا ہے بلکہ علم اور معرفت کی زندگی کو مردہ جہالت سے نکالتا ہے اور مردہ جہالت کو علم کی زندگی سے نکالتا ہے جو کہ نور پر حجاب کا سبب بنتی ہے جس طرح بلعم بن بعور کا حال ہوا‘‘-

11: ’’لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ‘‘[18]

’’تم ہر گز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو‘‘-

اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ :

’’ہر وہ فعل جو کرنے والے کو اللہ کے قریب کرتا ہے وہ بر یعنی نیکی ہے اور اللہ کی بارگاہ تک اس وقت تک رسائی ممکن نہیں جب تک اللہ کے سوا ہر چیز سے بیزار نہیں ہو جاتا-پس جب کوئی شخص کسی چیز سےبہت زیادہ محبت کرتا ہے تو وہ اس کی وجہ سے اللہ سے حجاب میں آ جاتا ہے اور غیر اللہ سے محبت کرنے کی وجہ سے وہ شرک خفی کرتا ہے-جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰه‘‘

’’ اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنالیتے ہیں کہ انہیں اللّٰہ کی طرح محبوب رکھتے ہیں‘‘-

21:’’ وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ‘‘[19]

’’اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں‘‘-

اس آیت کی تفسیر میں ابن عربیؒ فرماتےہیں کہ :

’’تم میں سے ایک ایسی جماعت ہو نی چاہئے جو علم والی بھی ہو،عمل والی معرفت والی اور دین میں استقامت والی بھی ہو‘‘-

31:وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاط بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ‘‘[20]

’’اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں‘‘-

اس آیت کی تفسیر میں فرما تے ہیں کہ:

’’ان کا قتل جہاد اصغراور اللہ تعا لیٰ کی رضا کو طلب کرنے کیلئے نفس کو ذلیل کرنے کی وجہ سے ہو یا جہا د اکبر اور نفس کو شکست دینا اور ریا ضت کے ساتھ خواہشات کو جڑ سے ختم کرنے کی وجہ سے ہو‘‘-

41: ’’الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ‘‘[21]

’’وہ جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے‘ ‘-

اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ :

’’قِیٰمًا‘‘ مقام روح میں مشاہدہ کی وجہ سےکھڑا ہونا ہے، اور ’’ قُعُوْدًا‘‘دل کے محل مکاشفہ کی وجہ سے ہے اور ’’عَلٰى جُنُوْبِهِمْ‘‘ان کا نفس کے مکان میں پھرنا مجاہدہ کی وجہ سے ہے‘‘-

51:’’الٓمّٓصٓ‘‘[22]

اس کی تفسیرمیں آپ ؒ فرماتے ہیں کہ:

’’(الف) سے واحد ذات کی طرف اشارہ ہے - (ل) سے ذات مع صفت العلم کی طرف اشارہ ہے- (م) سے اشارہ ہے ا یسی جامع تحریر کی طرف جو کہ محمد (ﷺ) کے معنی میں ہے- یعنی آپ (ﷺ) کا نفس اور آپ (ﷺ)کی حقیقت-(ص) سے اشارہ صورت محمدیہ (ﷺ)کی طرف ہے جو کہ آپ (ﷺ) کاجسم اور آپ(ﷺ) کا ظاہر مبارک ہے-

حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور پاک (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ :

’’جبل بمکۃ کان علیہ عرش الرحمٰن حین لا لیل ولا نھار‘‘

’’مکہ مکرمہ میں ایک پہاڑ ہے اس پر رحمٰن کا عرش ہے جس میں نہ دن ہے اور نہ رات‘‘-

’’جبل‘‘سے حضور(ﷺ) کے جسم اقدس کی طرف اشارہ ہے اور عرش الرحمٰن سے آپ (ﷺ) کے قلب کی طرف-جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ’’مؤمن کا دل اللہ کا عرش ہے‘‘- ایک اور حدیث قدسی ہے کہ ’’میں نہ زمین میں سماتا ہوں اور آسمانوں میں بلکہ بندہ مومن کی دل میں سماتا ہوں‘‘-

’’حین لا لیل ولا نھار‘‘ میں اشارہ وحدت کی طرف ہے اس لیے کہ دل نفس کی زمین کے سائے میں واقع ہوتا ہے اور نفس کی ظلمات کی وجہ سے پردے میں آ جاتا ہے تو وہ رات کی طرح ہو جاتا ہے اور جب اس پر روح کے نور کا سورج طلوع ہوتا ہے اور اس کی روشنی پھیل جاتی ہے تو وہ دن کی طرح روشن ہو جاتا ہے اور جب معرفت اور شہود ذاتی کی وجہ سے حقیقی وحدت تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے نزدیک نور اور ظلمت برابر ہو جاتے ہیں تو اس وقت اس پر نہ دن ہوتا اور نہ رات اور اس وقت وہ رحمٰن کا عرش ہوتا ہے-

16:’’ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ ‘‘[23]

’’یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں‘‘-

اس آیت مبارک کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

’’اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے مراد اس کی صفات کے انوار ہیں کیونکہ جب نفس کی صفات سے پرہیز کا حصول اس وقت تک آسان نہیں ہے جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے انوار کا ظہور نہ ہوجائے ‘‘-

17:’’ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ‘‘[24]

’’ اور پا کیزہ رزق میں سے کھاؤ‘‘-

 اس آیت کی تفسیر میں آپ ؒ فرماتے ہیں کہ :

’’یعنی اخلا ق کے علوم کا رزق اور استقامت ،رضا اور توکل کے مقام کا رزق (یہ پاکیزہ رزق کل) قیامت کے دن مختلف رنگوں کی ملاوٹ سے پاک ہوگا ‘‘-

18: ’’وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ لا رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ‘‘[25]

’’اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو (پیروی کرنے والے) ہوئے اللہ ان سے راضی ہوا‘‘-

’’رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ :

’’صفات کے کشف ا ور مقام رضا تک پہنچنے میں اُن کے ساتھ شریک ہیں اور(اللہ تعالیٰ کی رضا کوئی معمولی چیز نہیں)بلکہ مقام رضا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا دروازہ ہے‘‘-

19:’’اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ‘‘ [26]

یہ ہیں وہ جن کے دل پر اللہ نے مُہر کر دی ہے

آپ ؒ اس کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ

’’اصل میں ان کےدل کی سختی اور ناپاکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی پس اللہ تعالیٰ نے اُن کیلئے الہام، فہم اور کشف کے طریقے کو نہیں کھولا (واضح نہیں فرمایا)‘‘-

20:’’وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ‘‘[27]

’’ اور بےشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی‘‘

اس کی تفسیر میں آپ فرماتے ہیں کہ

 ’’اللہ نے اولاد آدم کو بولنے، فرق کرنے،عقل اور معرفت کے ساتھ عزت دی ہے ‘‘-

21:’’هٰٓؤُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً‘‘[28]

’’یہ جو ہماری قوم ہے اس نے اللہ تعالیٰ کے سوا خُدا بنا رکھے ہیں‘‘-

’’هٰٓؤُلَآءِ قَوْمُنَا‘‘کی تفسیر میں آپؒ فرماتے ہیں کہ :

’’اس سے مراد نفس امارہ اور اس کی معاونین ہیں اس لیے کہ ہر قوم کا ایک معبود ہوتا ہے جس کی وہ عبادت کرتی ہے اور وہی اُن کا مطلوب اورمراد ہوتی ہے اور نفس خواہش کی عبادت کرتا ہے جس طرح کہ اللہ کا فرمان مبارک ہے

’’اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ‘‘

’’کیا تم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ‘‘-

22:’’مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا‘‘[29]

’’جسے اللہ تعالیٰ راہ دے تو وہی راہ پرہے اور جسے گمراہ کرے تو ہرگز اس کا کوئی حمایتی، راہ دکھانے والا (ولی، مرشد)نہ پاؤ گے ‘‘-

 آپ ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ :

’’اللہ عزوجل کی ہدایت سے مراد یہ کہ وہ بندے کو مقام ِ مشاہدے تک پہنچاتا ہے اور اس مقام پہ اس کو استقامت عطافرماتا ہے -پس وہی حقیقت میں ہدایت یافتہ ہے نہ کہ کوئی اور ’’وَ مَنْ یُّضْلِلْ‘‘ یعنی اللہ پاک اس کو اپنے چہرے کے نور سے محروم فرمادیتا ہے اور پھر اس کیلئے نہ کوئی ہادی ہوتا ہے اور نہ کوئی مرشد-یا اس سے مراد یہ ہے کہ ہدایت یافتہ وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنی پہچان اور اپنی حقیقت تک رسائی عطافرماتا ہے اور گمراہ وہ ہوتا ہے جن کو اللہ پاک اپنی ذاتوں کے غافل فرمادیتا ہے -

23:’’وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیّ‘‘

’’اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں‘‘-

آپ ؒارشاد فرماتے ہیں کہ :

’’اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ اور اولیاءاللہ کی معیّت میں صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور غیراللہ کی طرف توجہ نہ کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے -یہ (صبر کرنا) استقامت و تمکین کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور یہ اللہ پاک کی توفیق سے ہی ہوتا ہے‘‘-

خلاصہ کلام :

اس بات پر اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ جو نصوص واضح اور غیر مبہم ہوں ان میں تاویل اور اجتہاد کی گنجائش نہیں ہوتی-جیسے ’’قل ھواللہ احد‘‘ یہی وجہ ہے کہ قطعیات( عقائد، حدود اوراصول) میں تاویل جائز نہیں ہے-مزید یہ کہ نصوص میں تاویل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اس کے لئے کچھ شرائط ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ کرنے والے مجتہد ہوں اور کی گئی تاویل قرآن وسُنت کے مخالف نہ ہو- حضرت عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:’’تما م علوم قرآن میں موجود ہیں لیکن لوگوں کی سمجھ کی ان تک رسائی نہیں ‘‘-[30]

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن پاک میں ہر چیز کا بیان ہے اور ہر قسم کا علم ہے تو ہم اس سے کیوں محروم ہیں، اور ہمیں اس سے وہ موتی کیوں نہیں ملتے جن سے ہمارے اسلاف اپنے دامن کو بھرتے تھے-اس کی بڑی وجہ ہمارے ہاں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ؒ جیسی مقدس ہستیوں کا فقدان ہے جن کے قلوب  عشقِ مصطفٰے (ﷺ)سے لبریز تھے اور جن کا اوڑھنا بچھونا تدبر قرآن تھا-اگر آج بھی ہم اپنے قلوب میں عشقِ مصطفٰے (ﷺ) کا چراغ جلاکر صحیح معنوں میں قرآن پاک میں غور و فکر اور تدبر شروع کر دیں تو ہمیں اپنے جمیع مسائل کا حل قرآن مجید فرقان حمید میں مل سکتا ہے-آخر میں امام جلال الدین سیوطی ؒ کے اس اقتباس سے اپنی معروضا ت کو سمیٹتا ہوں –

’’تم جان لو کہ اس گروہ کی تفسیر یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے رسول مکرم (ﷺ) کے کلام کی تفسیر اشاری عربی معانی کے ساتھ کرنا، ظاہرکو ظاہر سے پھیرنا نہیں لیکن آیت جس مقصد کیلئے آئی ہے آیت کے ظاہر سے وہ بات سمجھ میں آتی ہے اور زبان کا عرف اس پر دلالت کرتا ہے- لیکن اس کےکچھ باطنی مفہوم ہیں جو آیت و حدیث سے ان لوگوں کو سمجھ آتے ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کھول دیتا ہے- لہٰذا ان لوگوں سے ان معانی کےحصول سے تجھے یہ بات نہ روکے کہ کوئی جھگڑالو اور معارضہ کرنے والا کہے کہ یہ (تفسیر اشاری) اللہ تعالیٰ کے کلام اور رسول اللہ (ﷺ)کے کلام کو (ظاہر سے) پھیرنا ہے- یہ پھیرنا اس صورت میں ہوتا اگر وہ کہتے کہ آیت کا صرف یہی معنی ہے،جبکہ انہوں نے یہ بات نہیں کہی بلکہ وہ ظاہر کو ان کے ظاہر پہ رکھتے ہوئے ان کے موضوعات مراد لیتے ہیں اور اسے مضبوط کرتے ہیں اور اللہ پاک کی طرف اس بات کو سمجھتے ہیں جو ان کی طرف الہام کی جاتی ہے ‘‘- [31]

بلاشبہ امت مسلمہ کا عروج وزوال قرآن پاک پہ عمل پیرا ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ وابستہ ہے- آج ضرورت اس امرکی ہے قرآن پاک میں غوطہ زنی کرکےاس کے اسرار و رموز سے آشنائی حاصل کی جائے- بقول علامہ اقبال :

وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر
قُرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جِدّتِ کردار

٭٭٭


[1](غريب القرآن للأصفهانی)

[2]( کتاب التعریفات، ص:22، مطبوعہ المطبعۃ الخیریۃ، مصر)

[3]( تاج العروس ج :7، ص:215)

[4](مستدرک حاکم/ مسنداحمد(

[5](روح المعانی، زیر آیت، آل عمران:7)

[6](الذاریات:50)

[7]( الاسراء:72)

[8](الفاتحہ:7)

[9](البقرۃ:2)

[10](البقرہ:43)

[11](البقرہ :45)

[12](البقرہ :58)

[13](البقرہ: 114)

[14](البقرہ: 154)

[15](البقرۃ:156)

[16](البقرہ:244)

[17](آل عمران:27)

[18](آل عمران: 92)

[19]( آل عمران :104)

[20](آل عمران:169)

[21](آل عمران :191)

[22](الاعراف:1)

[23](الاعراف:26)

[24](الاعراف:32)

[25](التوبہ:100)

[26](النحل:108)

[27](الاسراء:70)

[28](الکہف:15)

[29](الکہف:17)

[30](مرقاة المفاتيح، باب مناقب أہل بيت النبیؐ)

[31](الاتقان، جلد دوم)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر