ابن عربی ، رومی اور اقبال: افکار کا مختصر تقابلی مطالعہ

ابن عربی ، رومی اور اقبال: افکار کا مختصر تقابلی مطالعہ

ابن عربی ، رومی اور اقبال: افکار کا مختصر تقابلی مطالعہ

مصنف: محمد عظیم اکتوبر 2025

شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربیؒ، مولانا جلال الدین رومی ؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے مختصر افکار:

ان عظیم مفکرین کے اگرچہ اسلوب آہنگ جدا، مگر حقیقت میں ہم صدا ہیں؛ ایک نے وحدت کے نغمے چھیڑے اور حقیقت کے راز تلاش کیے- دوسرے نے اصلی وطن کی تلاش میں بانسری کے ساتھ عشق کے ترانوں کو سوز بخشا اور تیسرے نے انسان کے اندر شاہین کی قوت پرواز کے ساتھ ساتھ خودی کو بیدار کیا-

(محی الدین ابن عربی ؒ کے افکاروخیالات کے بارے میں علامہ محمد اقبالؒ کی رائے مختلف ادوارمیں مختلف رہی ان کو سمجھنے کے لئے تحقیقی مضمون : ’’علامہ اقبال اور ابن عربی:گریز و کشش کی روداد‘‘[1]محمد شفیع بلوچ، مراۃ العارفین انٹرنیشنل ، اپریل 2015) کا مطالعہ کریں -

وحدت الوجود :

وحدت الوجود تصوف کے بنیادی نظریات میں سے ہے-فلسفہ وحدت الوجود کے متعلق عبدالسلام رامپوری اپنے مضمون ’’ابنِ عربی کا نظریۂ وحدت الوجود‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’وحدت الوجود کے مطابق حقیقی معنی میں صرف اللہ ہی موجود ہے (لاموجود الا اللہ) خارج میں یعنی کائنات کا وجود حقیقی نہیں بلکہ ظلی ہے جو بظاہر موجود و مشہود ہے مگر اس پر وجود کا اطلاق نہیں ہوسکتا- وجود صرف ذاتِ واجب میں منحصر ہے-وحدت الوجود کے معنی یہ ہیں کہ کائنات میں صرف ایک ہستی یعنی واجب الوجود حقیقی معنوں میں موجود ہے اور یہ کائنات اس کی ذات و صفات کا مظہر ہے اور اِس کا وجود مستقل بالذات اور حقیقی نہیں بلکہ عطائے خداوندی ہے- بالفاظِ دیگر کائنات اپنے وجود اور اپنی بقا کیلئے ہر آن خدا کی محتاج ہے‘‘-[2]

شیخ ابنِ عربی ؒفرماتے ہیں:

فلم یبقیٰ الا الحق لم یبق کاین
فماتمتہ موصول و مائمہ بان

’’وجود اور احدیت میں تو سوائے حق تعالیٰ کے کوئی موجود رہا ہی نہیں -پس یہاں نہ کوئی ملا ہوا ہے نہ ہی کوئی جدا ہے یہاں تو ایک ہی ذات ہے‘‘-

مولانا جلال الدین رومی ؒ ’’دفتر اول، مثنوی معنوی ‘‘میں فرماتے ہیں:

جمله معشوق است و عاشق پَرده‌ ای
زنده معشوق است و عاشق مرده ‌ای[3]

’’تمام کائنات معشوق ہے اور عاشق پردہ ہے معشوق زندہ ہے اور عاشق مردہ ہے‘‘-

 علامہ محمد اقبالؒ نے اکثر تصانیف میں وحدت الوجودی افکار کو  یوں بیان کیا ہے:

تلاش او کنی جز خود نہ بینی
تلاش خود کنی جز او نیابی[4]

’’اس کی تلاش کرو گے تو اپنے سوا کچھ نہیں دیکھو گے، اپنی تلاش کرو گے تو اس (ذات) کے سوائے کسی اور کو نہیں پاؤ گے‘‘-

ایک اور مقام پہ علامہ اقبالؒ فرماتےہیں:

 

 

زمین و آسمان و چار سو نیست
دریں عالم بجز اللّٰہ ھُو نیستؔ[5]

’’یہ زمین و آسمان اور چہار اطراف نہیں ہیں، اس جہاں میں سوائے اَللہُ ھُو کے اور کچھ نہیں‘‘-

مقامِ مصطفےٰ()-انسان کامل:

شیخ محی الدین ابن عربی کے نزدیک’’انسانِ کامل‘‘ خدا کی تمام صفات اور کمالات کا مظہر ہے- وہ ایک آئینہ ہے جو خدا کی تمام صفات کو منعکس کرتا ہے- آپ کے نزدیک انسان کامل حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی ذات اعلی ہے- آپ فرماتے ہیں :

’’عالم کی ہر شئے انسان کامل کے دست مسخر میں ہے‘‘- [6]

مولاناجلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں:

مہترین و بہترینِ انبیاء
جز محمد نیست در ارض و سماں

’’حضرت محمد(ﷺ) انبیاء (علیھم السلام) کے سردار امام الانبیاء  ہیں، آپ کے مثل کائنات میں کوئی نہیں-

ایک اور مقام پہ   مولانارومی  فرماتےہیں:

آں محمد حامد و محمود شد
شکلِ عابد صورتِ معبود شد

’’وہ محمد(ﷺ)  حامد یعنی  اللہ کی حمد  کرنے والا (اتنی تعریف کی ) کہ محمود بن گیا ، یعنی جس کی تعریف کی جائے -ان کی شکل تو عابد (عبادت گزار) کی سی تھی، مگر ان میں معبود کی صفات و  تجلیات ظاہر ہو گئیں ‘‘-

ابن عربی کا ’’انسانِ کامل‘‘ جسے مولانا جلال الدین رومی ’’حقیقتِ محمدیہ ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں یہی تصور، علامہ محمد اقبالؒ نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں ’’عبدہ‘‘ کے اسم سے یوں پیش کیا:

عبدہٗ از فہمِ تو بالاتر است
زانکہ اوہم آدم وہم جوہر است
جوہر او نی عرب نی اعجم است
آدم است و ہم ز آدم اقدم است
عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر
ما سراپا انتظار او منتظر
مرد مومن در نسازد با صفات
مصطفی راضی نشد الا بذات[7]

’’عبدہٗ کے معنی تیری سمجھ سے بالاتر ہیں- وجودِ مطلق کا تعیّن ِاوّل ہونے کی حیثیت سے آپ (ﷺ) مخلوق ہیں-

’’آپ (ﷺ) آدم بھی ہیں یعنی آپ (ﷺ) میں ناسوتی شان کے ساتھ ساتھ لاہوتی شان بھی پائی جاتی ہے -آپ (ﷺ) کا جوہر یعنی آپ (ﷺ) کی حقیقت تمام مادی یا جسمانی علائق سے بالاتر ہے-عبد اورعبدہٗ میں فرق یہ ہے کہ عبد خدا کی توجہ کا منتظر رہتا ہے اور عبدہٗ کی شان یہ ہے کہ خود خدا یہ دیکھتا رہتا ہے کہ میرا بندہ (عبدہٗ) کیا چاہتا ہے؟ مردِ مومن صفات کے مشاہدے پر قناعت نہیں کرتا- کیونکہ رہبرِ اعظم حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) نے بھی ذات کے دیدار کے علاوہ کسی نعمت کو نہیں چاہا‘‘-

مرشد / رہبر راہ:

صوفیاء کرام  نقل  کرتے ہیں  کہ حضور اکرم (ﷺ) نے فرمایا :

’’ الرفیق ثم الطریق‘‘[8]

’’پہلے رہبر تلاش کرو (جب مل جائے) پھر راستے پر چلو‘‘-

شیخ ابن عربی مرشد کامل اور ناقص مرشد میں فرق ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’عارف بصیرت سے اللہ کی جانب بلاتا ہے اور غیر عارف تقلید اور جہالت سے اللہ کی جانب بلاتا ہے‘‘-[9]

مولانا رومی کے نزدیک صحبت مرشد سالک کےلیے ناگزیر ہے- آپؒ فرماتے ہیں:

قال را بگزیں و مرد حال شو
زیر پائے کاملاں پامال شو[10]

’’قیل و قال کو چھوڑ کر مرد حال بن جا اور کسی مرد کامل کے قدموں میں خود کو پامال کر دے (تاکہ تو بھی کامل بن جائے)‘‘-

ایک اور مقام پہ   مولانارومی  فرماتےہیں:

پیر را بگزین که بی پیر این سفر
هست بس پر آفت و خوف و خطر[11]

’’مرشد کامل اکمل تلاش کرکیونکہ (راہِ حق کا) یہ سفر آفات اور خوف و خطرات سے پُر ہے- اگرخطرات سے بچنا چاہتے ہو تو کسی کامل مرشد کا دامن تھام لیں‘‘-

علامہ اقبال  بھی تلاشِ حق کیلئے راہبر کی ضرورت پر فرماتے ہیں کہ:

من از طریق نپرسم، رفیق می جویم
کہ گفتہ اند نخستین رفیق و باز طریق[12]

’’میں راستہ نہی پوچھتا، ساتھی ڈھونڈھتا ہوں، کیونکہ کہتے ہیں پہلے رفیق بعد میں طریق (راستہ)‘‘-

ایک اور مقام پہ علامہ اقبالؒ فرماتےہیں:

شکوہ کم کن از سپہر گرد گرد
زندہ شو از صحبت آن زندہ مرد[13]

’’اس سپہر گرداں کی شکایت چھوڑ اور زندہ مرد کی صحبت سے زندگی حاصل کر‘‘-

اولیاء اللہ:

اللہ تعالیٰ ہر دور میں ایسی پاکیزہ ہستیاں بھیجتے ہیں،جو اس کے دوست اور رازوں کے امین ہوتے ہیں- یہ لوگ اللہ کے نور سے مصفی اور مزین ہو کر بندگان خدا کی ہدایت کا سامان پیدا کرتے ہیں-حضرت ابن عربی ؒ ولایت کے حوالے سے فرماتے ہیں:

’’ولی اللہ کی صفت ہے- اس لیے ولایت تاابد قائم رہے گی‘‘- [14]

مولانا جلال الدین رومی ؒ اس حوالے سے فرماتے ہیں کہ:

اولیا را هست قدرت از اله
تیر جسته باز آرندش ز راه[15]

’’اللہ کے ولیوں کو رب کی طرف سے طاقت حاصل ہے کہ وہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کو بھی واپس کردیتے ہیں یعنی تقدیر بدل دیتے ہیں‘‘-

علامہ اقبال فرماتے ہیں:

پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد[16]

’’پیر رومی نے خاک کو (علامہ کو جن کی حیثیت کچھ نہ تھی) اکسیر بنا دیا اور میرے غبار سے کئی جلوے تعمیر کئے‘‘-

کیمیا پیدا کن از مشت گلے
بوسہ زن بر آستان کاملے[17]

’’تو مٹی کی ایک مٹھی سے کیمیا پیدا کر، کسی کامل انسان کے آستانے پر بوسہ دے ‘‘-

ذکر اللہ کی اہمیت:

ذکر وہ پل ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندے کو آپس میں جوڑتا ہے- انسان کی زندگی کا مقصد ہر گھڑی یاد الٰہی میں مستغرق رہنا ہے- فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ‘‘[18]

’’اور کثرت سے ’’ذکر اللہ‘‘ کیا کرو تا کہ تمہیں چھٹکارہ اور خلاصی نصیب ہو ‘‘-

ابن عربیؒ فرماتے ہیں:

’’بیشک حق تعالیٰ ذکر کرنے والے کا ہم نشین ہوتا ہے اور ہم نشین ذکر کرنے والے کا مشہود ہوتا ہے‘‘-[19]

مولانا جلال الدین رومی  فرماتےہیں:

اذکرو الله شاه ما دستور داد
اندر آتش دید ما را نور داد
چون در آید نام پاک اندر دهان
نه پلیدی ماند و نه اندهان[20]

’’حق تعالیٰ نے ہم کو اپنی کثرت یاد کا دستور عطا فرما دیا ہم خواہشاتِ نفسانی کی آگ میں تھے ہم کو اپنے حکم ’’اَذَروَالله‘‘ سے نور کی طرف طلب فرمایا-جب الله تعالیٰ کا پاک نام منہ سے جاری ہو گا، اسی وقت نہ پلیدی باقی رہے گی، اس پاک نام کی برکت سے منہ پاک ہو جائے گا‘‘-

علامہ اقبال فرماتے ہیں:

گفت مرگ قلب ؟ گفتم ترک ذکر[21]

’’اس نے پوچھا قلب کی موت؟ میں نے کہا ذکر ترک کر دینا‘‘-

ایک اور مقام پہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

حفظ جانها ذکر و فکر بی حساب
حفظ تنها ضبط نفس اندر شباب[22]

’’جانوں کی حفاظت بے حساب ذکر و فکر سے ہے، اور بدن کی حفاظت جوانی میں اپنے نفس پر قابو پانے میں ہے‘‘-

اپنی اردو شاعری میں علامہ اقبال فرماتے ہیں:

شوق مری لے میں ہے، شوق مری نے میں ہے
نغمہ 'اللہ ھو' میرے رگ و پے میں ہے[23]

قرب خدا:

انسانی روح ہر وقت اپنی اصل کی جانب لوٹنے کو بے قرار رہتی ہے، کیونکہ روح نور الٰہی سے وجود میں آئی ہے- تخلیق انسان کی منشا معرفت و قرب ربانی کا حصول ہے-

مولانا جلال الدین رومی  فرماتےہیں:

تو توهم می ‌کنی از قرب حق
که طبق ‌گر دور نبود از طبق
این نمی‌بینی که قرب اولیا
صد کرامت دارد و کار و کیا[24]

’’تو اللہ تعالیٰ کے قرب کا گمان کرتا ہے کہ طباق بنانے والا طباق سے دور نہیں ہوتا-تو یہ نہیں دیکھتا کہ اولیاء اللہ کا قرب سینکڑوں کرامتیں اور شان و شوکت رکھتا ہے‘‘-

علامہ اقبال   فرماتےہیں:

اگر زیری زخود گیری زبر شو
خدا خواہی؟ بخود نزدیک ترشو[25]

’’اگرتوکمزورہے توتسخیرِانفس سے زبردست ہوجا،اگر تو اللہ تعالی کا قرب چاہتا ہے تو پہلے اپنے قریب ہو جا‘‘-

 مسئلہ جبر و قدر:

مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ تقدیر پر ایمان لاتا ہے اور اپنے دائرہ اختیار کی حد میں اعلیٰ منازل کی جانب سفر جاری رکھتا ہے-

حضرت رومی کے بقول:

بند تقدیر و قضای مختفی
کی نبیند آن به جز جان صفی[26]

’’تقدیر کے بند اور قضائے الٰہی کے پوشیدہ رازوں کو، سوائے پاکیزہ و صفا دل کے علاوہ کوئی نہیں دیکھ سکتا‘‘-

علامہ محمد اقبالؒ نے نظم ”تقدیر (ابلیس و یزداں)“شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربیؒ کی شہرۂ آفاق کتاب ’’فصوص الحکم ‘‘سے مسئلۂ تقدیر سے متعلق کچھ مطالب اخذ کر کے، شعر کے لباس میں پیش کیے ہیں- اقبال کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو جو باطنی قدرت عطا فرمائی ہے اس کے ظہور کا نام تقدیر ہے- یہ تقدیر اْن کے ہاں مخفی ہے-حریت کے حوالے سے بھی اقبال اور ابن عربی میں ہم آہنگی پائی جاتی ہےاور اقبال اپنی نظم میں یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ابلیس کو آزادی تھی، اطاعت یا معصیت کی-تو اْس نے آزادی کے ساتھ معصیت اختیار کی، اْس پر اِس حوالے سے کوئی جبر روا نہیں کیا گیا-اس آزادی کا اظہارعلامہ اقبال کے  ان اشعار میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے:

پستیِ فطرت نے سِکھلائی ہے یہ حُجتّ اسے
کہتا ہے ’تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود،
دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام
ظالم اپنے شُعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دُود![27]

موجودات و کائنات:

شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی ؒکے نزدیک وجود فردِ واحد ہی میں منحصرہے ، حقیقت کی نظر میں بجز ذات حق اور کوئی شئے موجود نہیں ہے -یعنی کائنات معدوم ہے -لیکن اللہ تعالیٰ کی تجلی صفات پڑنے سے موجود ہوگئی ہے - واضح ہوکہ ابن عربی کائنات کو تجلیٔ صفات یاظہورِ ذات کہتے ہیں-

’’یہ عالم اس کی صورت ہے اور وہ اس عالم کی تدبیر کرنے والی روح ہے‘‘-[28]

مولانا جلال الدین رومی  فرماتےہیں:

پس به صورت عالم اصغر توی
پس به معنی عالم اکبر توی[29]

’’یعنی صورت کے اعتبار سے تو ایک جہانِ صغیر ہے لیکن معنی / باطن کے اعتبار سے تو جہانِ کبیر ہے ‘‘-

علامہ  اقبال بھی انہی نظریات کے علم بردار اورترجمان ہیں-جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

میں کہاں ہوں تو کہاں ہے ؟یہ مکاں کہ لامکاں ہے؟
یہ جہاں میرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی؟[30]

عشق:

عشق وہ حرارت ہے جس کی بدولت بزم ہستی کی تابانیاں قائم رہتی ہیں- عشق ہی تو وہ دولت ہے جو قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے- مومن ہر وقت عشق الٰہی کی طلب میں محو رہتا ہے- یہ وہ طاقت ہے جو انسان کو سوائے خالق کائنات کے ہر چیز سے بے نیاز کر دیتی ہے-

شیخ ابن عربی صاحب فرماتے ہیں:

’’جب دل میں حق سما جاتا ہے تو غیر کی گنجائش نہیں رہتی‘‘-[31]

مولانا روم دولت عشق کی مدح سرائی میں لکھتے ہیں:

عشق را پانصد پرست و هر پری
از فراز عرش تا تحت‌ الثری
ملتِ عشق از همه دینها جداست
عاشقان را ملت و مذهب خداست
عشق‌ بشکافد فلک را صد شکاف
عشق لرزاند زمین را از گزاف[32]

’’عشق کے پانچ سو پر ہیں اور ہر پر عرش کی بلندی سے زمین کے نیچے تک ہیں ‘‘-

’’عشق والوں کا مذہب سب مذہبوں سے جدا ہے، عاشقوں کا مذہب صرف اللہ کا قُرب حاصل کرنا ہوتا ہے‘‘-

’’عشق آسمان میں سو شگاف ڈال دیتا ہے، عشق زمین میں لرزش پیدا کر دیتا ہے‘‘-

علامہ محمد اقبالؒ بھی عشق کی توصیف میں یوں گویا ہیں:

دین نگر دد پختہ بے آدابِ عشق
دیں بگیر از صحبتِ اربابِ عشق[33]

’’آدابِ عشق کے بغیر دین پختہ نہیں ہوتا، تو اہلِ عشق کی صحبت سے دین حاصل کر‘‘-

اپنی اردو شاعری میں علامہ اقبال فرماتے ہیں:

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دِیں بتکدہِ تصورات[34]

علم کا مقصد:

قرآن و احادیث میں علم کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے- علم مومن کی میراث ہے- علم وہی کامل و نفع بخش ہے جو معلوم یعنی بارگاہ الٰہی تک رسائی بخشے- شیخ ابن عربی صاحب فرماتے ہیں:

’’علم کی اصل شہود سے ہے فکر سے نہیں، یہ علم صحیح ہے، اس کے علاوہ سب کچھ تخمینہ اور اندازہ ہے‘‘-[35]

مولانا جلال الدین رومی  فرماتےہیں:

علم را بر تن زانی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود[36]

’’علم کو اگر ظاہری وجود کے لئے حاصل کیا جائے تو یہ سانپ کی مانند ہے- علم کو اگر روح کے لئے حاصل کیا جائے تو یہ یار بن جاتا ہے‘‘-

علامہ اقبال فرماتے ہیں:

علم را مقصود اگر باشد نظر
می شود ھم جاہ و ہم راہبر[37]

’’اگر علم سے مقصود نظارہ جمال ہے تو وہ راستہ بھی ہے اور رہبر بھی‘‘-

’’اسرارِ  خودی‘‘ میں علامہ اقبال یوں  فرماتے ہیں:

علم از سامانِ حفظِ زندگی است
علم از اسبابِ تقویمِ خودی است[38]

’’علم تو زندگی کی حفاظت کے اسباب میں سے ہے، علم تو خودی کو مستحکم کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘‘-

خلاصہ کلام :

مذکورہ بالا برگزیدہ شخصیات کی وسیع تعلیمات کے اس مختصر مطالعہ سے بخوبی عیاں ہوتا ہے کہ ان کی پیش کردہ تعلیم و تلقین میں واضح مماثلت پائی جاتی ہے- عصر حاضر میں انسانیت مادیت کے چنگل میں بھٹک رہی ہے اور تہذیبیں ظاہری ترقی کے باوجود باطنی ویرانی و انتشار کا شکار ہیں- ایسے حالات میں ابنِ عربیؒ کی معنویت، مولانا رومیؒ کا عشق اور علامہ محمد اقبالؒ کی خودی ایک ایسے سہ رخی مینار کی مانند ہیں جو تاریکی میں روشنی اور بے سمتی میں سمت متعین کرتے ہیں اور ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ انسان کا جسم مٹی سے ہے، مگر اس کی روح نور ہے اور یہی نور اس کے عروج کا راز ہے- اصل انسان وہ ہے جو روحانی طور پر بیدار ہو، عشق سے معمور ہو اور کائنات میں اللہ کی خلافت کا شعور رکھتا ہو-

 ان عظیم شخصیات کے پیغام حق کے مطابق مقصد حیات کے حصول کیلئے رہنمائے ہادی، مرشدکامل و اکمل کی تلقین و تفہیم لازم ہے- جس کے متعلق حضرت سلطان باھُوؒ یوں فرماتے ہیں:

جاگ بنا ددھ جمدے ناہیں باھُوؒ بھانویں لال ہونْون کڑھ کڑھ کے ھُو

عامتہ الناس کی اصلاح اور دعوت الی اللہ کا فریضہ سر انجام دینے میں کسی بھی مخالفت کی قطعاً پرواہ نہ کی اور نامساعد حالات حتیٰ کہ ظلم و ستم بھی ان کے پایہِ استقلال میں لغزش نہ لا سکے اور وہ حق گوئی و بے باکی کے ساتھ رشد و ہدایت کا اہم فریضہ سر انجام دیتے رہے-بقول علامہ اقبال:

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

تصوف وعرفان کا علم بلا امتیاز ہر مکتبہ فکر اور خطہ ارض پر بسنے والے ہر انسان کے لئے نافع ہونے کے ساتھ ساتھ محبت، اخوت اور امن و آشتی کا داعی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج کے اس پرفتن دور میں ان تعلیمات کا فروغ ناگزیر ہو چکا ہے-

٭٭٭


[3] (مثنوی معنوی، دفتر اول)

[4] (پیام مشرق)

[5] (ارمغانِ حجاز)

[6](فص موسوی)

[7] (جاوید نامہ)

[8](مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج:8، ص: 209 )

[9](فص ہودیہ)

[10] (مثنوی معنوی، دفتر اول)

[11] (مثنوی معنوی، دفتر اول)

[12] (زبور عجم)

[13] (پس چہ باید کرد)

[14](فص عزیری)

[15] (مثنوی معنوی، دفتر اول)

[16] (اسرار خودی)

[17] (اسرار خودی)

[18](الجمعہ :10)

[19](فص یونسی)

[20] (مثنوی معنوی، دفتر دوم)

[21] (جاوید نامہ)

[22] (جاوید نامہ)

[23] (بال جبریل)

[24] (مثنوی معنوی، دفتر سوم)

[25] (زبور عجم)

[26] (مثنوی معنوی، دفتر سوم)

[27] (ضرب کلیم)

[28](فص ہودی)

[29] (مثنوی معنوی، دفتر چہارم)

[30] (بال جبریل)

[31](فص شعیبی)

[32] (مثنوی معنوی، دفتر پنجم)

[33] (جاوید نامہ)

[34] (بال جبریل)

[35]( فص ایوبی)

[36] (مثنوی معنوی، دفتر اول)

[37] (جاوید نامہ)

[38](اسرار خودی)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر