ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق پالیسیز کے نفاذ میں درپیش چیلنجز

ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق پالیسیز کے نفاذ میں درپیش چیلنجز

ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق پالیسیز کے نفاذ میں درپیش چیلنجز

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ جون 2020

مسلم انسٹیٹیوٹ کی طرف سے ریکارڈ ہال لندن میں ’’ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق پالیسیز کے نفاذ میں درپیش چیلنجز‘‘کے موضوع پر ایک راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا-اس موقع پر ڈاکٹر یویس پلنچرل (لیکچرار گرانتھام انسٹیٹیوٹ برائے ماحولیاتی تبدیلی) اور ڈاکٹر اقبال (حسین صدر مسلم انسٹیٹیوٹ برطانیہ) نے اپنے خیالات کا اظہار کیا- جناب علی راؤ(ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ابتدائی کلمات ادا کیے- جناب علی افتخار (پروگرام مینیجر مسلم ڈیبیٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے -

مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:

آج کل کے شدید موسمی حالات کی بنیادی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے جیسا کہ شمالی کرۂ ارض میں شدید سیلاب کی کیفیت اور آسٹریلیا کے جنگلات میں بڑے پیمانے پر لگنے والی آگ کے واقعات شامل ہیں- ہم ایک ایسے دوراہے پر آن پہنچے ہیں جہاں ہمارے کیے گئے فیصلے نہ صرف ہم پر بلکہ ہماری آنے والی نسلوں پر بھی اثر انداز ہوں گے- کچھ مثالوں میں بڑے پیمانے پر ’کورل ریف‘ کا خاتمہ اور مغربی انٹار کٹیکا میں برف کی سطح میں تیزی سے کمی شامل ہے- اگر گلوبل وارمنگ اسی شدت سے جاری رہتی ہے تومختلف حیاتیاتی نظاموں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے- گرین ہاؤس گیسزکی ماحول میں بڑھتی ہوئی مقدار کی وجہ سے ماحولیاتی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے- اگر دنیا کا اوسط درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جاتا ہے تو یہ نہ صرف انسانوں کے لیے بلکہ روئے زمین پر بسنے والے تمام جانداروں کے لیے تباہ کن ہو گا- اس لیے پالیسی سازی کے وقت ہمیں سائنسی حقائق کو مدِ نظر رکھنا ہو گا-

سمندروں میں پانی کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے برف کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے-انٹار کٹیکا میں بھی برف کے پگھلاؤ میں تیزی آئی ہے- اس بات کی تصدیق سیٹلائٹ سے حاصل شدہ ڈیٹا سے بھی ہوئی ہے- اگر گلوبل وارمنگ کو کنٹرول کر لیا جائے تو لاتعداد لوگوں کا میعارِ زندگی بہتر کیا جا سکتا ہے- گلوبل وارمنگ کے لوگوں کی صحت پر بھی واضح اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ملیریا جیسی متعدی بیماریوں میں اضافہ ہو سکتا ہے-

زمین سورج سے آنے والی شعاؤں کو واپس خلا کی طرف منعکس کر دیتی ہے تاکہ اس کا درجہ حرارت حد سے نہ بڑھے لیکن فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کی بڑھتی مقدار ان شعاؤں کا انعکاس روک دیتی ہے- نتیجتاً زمینی درجہ حرارت میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے- بلاشبہ، دوسری وجوہات کے ساتھ انسانی سرگرمیاں بھی ماحولیاتی تبدیلی کا بہت بڑا سبب ہیں جن سے ہر سال تقریباً 5 ٹن فی کس کاربن گیسز ماحول میں شامل ہو کر آلودگی کا باعث بنتی ہیں-زمین کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے- اس وقت ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کا موازنہ آج سے 500 ملین سال پہلے کی مقدار سے کیا جا سکتا ہے - آج کے دور میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا لیول جس تیزی سے بڑھ رہا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی- اسی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں نہایت سبک رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے-

کاربن ڈائی آکسائیڈ کی حد سے زیادہ مقدار نہ صرف زمین بلکہ سمندر ی ماحول کے لیے بھی خطرناک ہے- فضا میں جتنی زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہو گی اتنی زیادہ سمندری پانی میں جذب ہو گی- مختلف ذرائع سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا 31 فیصد سمندر اور 24 فیصد زمین جذب کر لیتی ہے جبکہ 45 فیصد ہوا میں رہ جاتا ہے- کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بڑھا ہوا یہ لیول سمندری پانی میں تیزابی اثرات پیدا کرتا ہے- سمندر کی یہ تیزابی کیفیت دوسرے ماحولیاتی اثرات جیسا کہ گرم پانی، آکسیجن کی کمی، برفانی پگھلاؤ اور ساحلی کٹاؤ کی موجودگی میں آبی حیات کی بقاء کے لیے سنگین خطرہ ہے- سمندری پانی کی یہ تیزابیت کاربونیٹ آئن کی تعداد میں کمی لاتی ہے جن پر سیپ، کیکڑا، مونگا اور دیگر آبی حیات کا اپنے شیلز کی نشوونما کیلیے گہرا انحصار ہے- اسی طرح جب سمندروں کی اوپر والی سطح زیادہ گرم ہو جائے گی تو آکسیجن کا سمندر کی نچلی سطحوں تک سرایت کرنا مشکل ہو جائے گا جبکہ سمندری حیات کی زندگی کا دارومدار آکسیجن پر ہے-

گلوبل وارمنگ کا ایک اور سنگین نتیجہ برف کا پگھلاؤ اور سطح سمندر میں اضافہ ہے- زیادہ درجہ حرارت گلیشیرز اور برفانی چوٹیوں سے پانی کی کثیر مقدار کا سمندروں کی جانب بہاؤ کا باعث بنتا ہے جس سے سمندری پانی کے درجہ حرارت اور سطح دونوں میں اضافہ ہو رہا ہے- پچھلے سو سالوں میں سمندری پانی کی عالمی سطح 4 سے 8 انچ تک بلند ہو چکی ہے جس سے پوری دنیا میں ساحلی حدود میں تبدیلی کے سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں- ان عوامل کی وجہ سے زمین کا درجہ بیاض (کسی چیز کی سطح میں روشنی کو منعکس کرنے کی طاقت)بھی تبدیل ہو رہا ہے جس سے سورج کی زیادہ شعاعوں کو جذب کرنا زمینی درجہ حرارت میں مزید اضافہ کا باعث بنے گا-

شواہد سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی واضح طور پر انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے-ہر انسان کی انفرادی سرگرمی کسی نہ کسی طرح معمولی مقدار میں آلودہ گیسز کے اخراج کا باعث بنتی ہے- اگر ہر شخص میں ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں شعور پیدا ہو جائے اور وہ اپنی ایسی سرگرمیوں کے بارے میں محتاط ہوجائے جو آلودہ گیسز کے اخراج کا باعث بنتی ہیں تو یہ انفرادی کوششیں بڑے پیمانے پر بار آور ثابت ہو سکتی ہیں-ہر انسان کو ذاتی سطح پر آلودہ گیسز کے اخراج میں کمی کیلیے گوشت، دودھ، پنیر، مکھن اور ڈیری کی دیگر مصنوعات کے استعمال کو کم کرنا، علاقائی سطح پر پیدا کی گئی خوراک کے استعمال میں اضافہ، پانی کا محتاط استعمال، گھروں کی انسولیشن، الیکٹرک گاڑیوں یا سائیکل کے استعمال کوبڑھانا اور ہوائی جہازوں کی بجائے ٹرین یا بسوں میں سفر کو ترجیح دینی چاہیے-

اسی طرح غذا کی اقسام اور ذرائع حصول کے بھی اہم ماحولیاتی اثرات ہیں- اگر زیادہ گوشت اور ڈیری پروڈکٹس پر مشتمل غذاؤں کے استعمال میں کمی لائی جائے اور سبزیوں کے استعمال میں اضافہ کیا جائے تو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج پر قابو پایا جاسکتا ہے اور عام آدمی کی صحت بہتر ہوسکتی ہے- ایک اندازے کے مطابق عالمی آبادی 2050ء میں 7.6 ارب نفوس سے بڑھ کر 10 ارب تک پہنچ جائے گی جس کے اس سیارہ پر اہم اثرات ہو ں گے-کم گوشت اور ڈیری مصنوعات پر مشتمل خوراک 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت تک اضافے کے ہدف کے حصول میں معاون ثابت ہو گی-

زمینی بگاڑ ایک عالمی مسئلہ ہے جو کاربن کے ماحول میں موجودہ تناسب کیلیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے- درخت اور پودے ہماری خارج کردہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو استعمال کر کے ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں-تاہم، اس وقت پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی جاری ہے- درختوں کو کاٹا جا رہا ہے اور زمین کو فصلوں کی کاشت کی بجائے دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس سے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے- اگر جنگلات اور زمین کے کٹاؤ پر قابو پا لیا جائے تو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی رفتار کو روکا جا سکتا ہے- تھائی لینڈ نے ہوائی جہازوں کے ذریعے وسیع رقبے پر بیج پھینکے ہیں جو زمین میں جڑ پکڑ کر آخر کار درخت کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور جنگلات کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے- اس سے ملتے جلتے منصوبہ میں پاکستان کے صوبہ KPK میں ایک  ارب درخت لگائے گئے ہیں- اسی طرح پاکستان میں اگلے 5سالوں میں 10 ارب درخت لگانے کا منصوبہ بھی زیرِ غور ہے-

مختلف ممالک ماحولیاتی تحفظ پر بہت سی پالیسیاں بنا رہے ہیں اور ان پر کامیابی سے عمل پیرا ہیں- لیکن یہ حقیقت حیران کن ہے کہ اس دوڑ میں کچھ ترقی یافتہ ممالک سب سے پیچھے ہیں- امریکہ ماحولیاتی تحفظ کیلیے ضروری اقدامات اٹھانے میں ناکام رہا ہے اور عالمی سطح پر ماحولیاتی پالیسی کی تشکیل میں تعمیری کردار ادا کرنے کی بجائے روڑے اٹکا تا رہا ہے- آسٹریلین گورنمنٹ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق پالیسیوں پر عمل کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے- دوسری جانب پرتگال عالمی ماحولیاتی پالیسی پر عمل درآمد کے حوالے سے بنائی گئی ممالک کی لسٹ میں پہلے نمبر پر ہے- ماہرین کے مطابق پرتگال ماحول کو آلودہ کرنے والی گیسز کی روک تھام کے لیے نہایت سنجیدہ اور زبردست اقدامات اٹھا رہا ہےتاکہ 2030ء تک 55فیصد اور 2050ء تک ایسی گیسز کے اخراج کو مکمل طور پر بند کیا جاسکے- اس لسٹ میں پرتگال کے بعد فن لینڈ کا نمبر ہے- فن لینڈ کی نئی منتخب شدہ حکومت 2035ء تک اپنے ملک کو مکمل طور پر کاربن نیوٹرل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے- حیران کن طور پر مراکش بھی اس لسٹ میں نمایاں مقام کا حامل ہے اور اپنے ملک کو 2030ء تک مکمل طور پر ماحولیاتی آلودگی سے پاک کرنے کیلیے مراکش کی حکومت اور معاشرہ تن دہی سے مصروفِ عمل ہے- اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دعوؤں اور عمل میں بہت سا تضاد ہے- بہت سے ایسے ترقی یافتہ ممالک اور معیشتیں ہیں جو ماحولیاتی آلودگی جیسے سنگین مسئلہ اور اس کے انسانی نسل پر اثرات کے متعلق سنجیدہ نہیں ہیں-

کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ماحول سے تلف کرنا آسان نہیں- اس لیے سارا زور ان عوامل کوقابو میں لانے پر دیا جا رہا ہے جن کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے- گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے 2030ء تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کی پیداوار کو نصف پر لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے- اس وقت کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بڑا ذریعہ شہروں میں استعمال کیے جانے والے ذرائع توانائی ہیں- اگرچہ یہ ذرائع توانائی ترقی میں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں لیکن ان کو مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے بہتر کیا جا سکتا ہے- مضبوط پالیسیوں کی تشکیل ماحول میں لاحق خطرات کو کم کر سکتی ہے- اگر گلوبل وارمنگ کو کنٹرول کر لیا جائے تو 20 کھرب ڈالرز کی بچت کی جاسکتی ہے جس سے لاتعداد لوگوں کا میعارِ زندگی بہتر کیا جا سکتا ہے- نامیاتی ایندھن پر سبسڈیز کو ختم کیا جائے تاکہ حکومتوں کے وسائل میں اضافہ ہو- تاہم ان تمام اصلاحات کے غربت پر اثر کو مدِ نظر رکھا جائے - ایسی پالیسیز تشکیل دی جائیں جو کاربن کا اخراج کرنے والے ذرائع کے اصول و ضوابط، قوانین اور قیمت پر کڑی نظر رکھیں- پہلا،ایسی تمام مشینری یا ٹیکنالوجی جو کاربن کے اخراج کا باعث بنتی ہیں ان کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے- اس سے نہ صرف اس مشینری کے استعمال میں کمی آئے گی بلکہ نئی ماحول دوست ٹیکنالوجی کی ایجاد کی طرف بھی توجہ بڑھے گی- دوسرا، نامیاتی ایندھن پر رعایت کا خاتمہ کیا جا ئےتاکہ مارکیٹ میں مقابلہ کا رجحان پیدا ہو اور دیگر ٹیکنالوجی کو بھی یکساں مواقع میسر آئیں- ترقی یافتہ ممالک کے پاس تکنیکی سہولیات اور وافر بجٹ موجود ہے جس کو ماحولیاتی پالیسیوں کو لاگو کرنے میں استعمال کیا جانا چاہیے- اس کرۂ ارض اور اس پر بسنے والے تمام انسانوں کو ماحولیاتی آلودگی کے سنگین نتائج سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر ماحول دوست پالیسیوں پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہیے اور نیز یہ کہ انفرادی سطح پر بھی ہمیں ایسا طرز زندگی اپنانا ہو گا جس سے کاربن فوٹ پرنٹ میں کمی آئے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر