ابتدائیہ:
جدیدیت ایک ایسی تمدنی و فکری اصطلاح ہے جو ہمارے معاشرے میں بار بار سنی جاتی ہے، مگر کم ہی لوگ اس کے اصل مفہوم سے واقف ہیں-ہمارے ہاں عام طور پر جدیدیت کو مغربی طرزِ زندگی کی نقالی سمجھا جاتا ہے- لباس، زبان، رسم و رواج، رہن سہن اور ٹیکنالوجی کا استعمال، ان سب میں مغرب کی پیروی کو ہی جدیدت یا دوسرے الفاظ میں ’’ماڈرن‘‘ ہونے کی علامت مانا جاتا ہے- یوں ایک خاص طبقہ صرف ظاہری تبدیلیوں کو جدیدیت سمجھ کر، سر سے پاؤں تک خود کو مغربی طرز پر ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ جدیدیت صرف نئے رسم و رواج یا نئی ٹیکنالوجی اپنانے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک علمی، فکری اور تہذیبی تحریک ہے-اس تحریک نے مغرب کے قدامت پسند اور گھٹن زدہ ماحول میں عقلیت پسندی، تجربیت، سائنسی تحقیق اور فرد کی خودمختاری کو اہمیت دی- جدیدیت کی اصل انسانی سوچ میں وہ تبدیلی ہے جس نے سچائی کو محض روایات کی بجائے عقلی تنقید، انسانی مشاہدے اور آزاد فکر کے ذریعے جاننے کی کوشش کی- مغرب میں یہ تحریک صدیوں کی علمی و فلسفیانہ کاوشوں کے بعد پروان چڑھی اور اس کے اثرات نہ صرف ٹیکنالوجی بلکہ سیاسی، سماجی اور اخلاقی تصورات پر بھی مرتب ہوئے جنہیں ہم جدیدیت کے مظاہر کا نام دے سکتے ہیں-
لہٰذا جدیدیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی ظاہری شکلوں اور مظاہر سے آگے بڑھ کر اس کی فکری روح کو پہچانیں- یہی سوال پاکستان کے تناظر میں سب سے اہم ہے: کیا پاکستان میں جدیدت کو واقعی اختیار کیا گیا ہے یا پاکستان اپنی تہذیبی و ثقافتی بنیادوں پر قائم ہے؟ اگر جدیدیت کو اپنایا گیا ہے تو کیا محض جدیدیت کے مظاہر کو اختیار کر کے ہی اسے جدیدیت سمجھا جا رہا ہے یا جدیدت کے ان علمی و فکری نظریات کو اختیار کیا گیا ہے جنہیں پاکستان کے تہذیبی تناظر میں اختیار کرنا مناسب ہے؟
ایک شبہ کا ازالہ:
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جدیدیت مذہب مخالف ہے لیکن یہ تاثر ایک غلط فہمی پر مبنی ہے- اس تحریک کا اصل مقصد مذہب کا انکار نہیں تھا، بلکہ مغربی معاشروں میں مذہب کی آڑ میں اشخاص کی سیاسی اجارہ داریوں کو چیلنج کرنا تھا، جو کہ علم، تحقیق، سچائی اور فکری آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن چکی تھیں اور علامہ اقبال کے نزدیک بھی مارٹن لوتھر کی تحریک اسی چرچ آرگنائزیشن کے خلاف تھی[1] جس کی وجہ سے یورپ میں عیسائیت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی
تو حقیقت یہ ہے کہ جدیدیت مغرب میں مذہبی پیشوائیت کی اس بے لگام سیاسی طاقت اور مظالم کے مخالف تھی جس میں فرد نہ کوئی تخلیق سرگرمی کر سکتا تھا اور نہ اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کر سکتا تھا- جیسا کہ امیر المؤمنین حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا فرمان ہے کہ معاشرے کفر کے نظام پر چل سکتے ہیں لیکن ظلم کے نظام پر نہیں چل سکتے- یہی وہ نظریہ تھا جسے سامنے رکھتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا:
’’ اسلام اور اسکے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا درس دیا ہے- اس نے ہمیں انسانی مساوات، انصاف اور سب کے ساتھ منصفانہ سلوک کرنا سکھایا ہے- پاکستان کسی بھی صورت میں ایک " تھیوکریٹک" ریاست نہیں بنے گی جس میں مولوی کسی خدائی مشن کے ساتھ حکومت کریں گے- ہمارے ہاں بہت سے غیر مسلم- ہندو، عیسائی اور پارسی – ہیں لیکن وہ سب پاکستانی ہیں‘‘-[2]
لیکن یہاں یہ نکتہ بھی سمجھنا ضروری ہے جو کہ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں بیان کیا ہے کہ:
’’اسلام انسانی وحدت کی روح اور مادے پر مبنی کوئی ایسی تقسیم نہیں کرتا جسکا آپس میں کوئی تعلق ہی نہ ہو- اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، مذہب اور ریاست — سب ایک دوسرے سے مربوط اور ہم آہنگ ہیں‘‘-[3]
”اسلام کی دنیا میں کسی ’لوتھر‘ کا ظہور ناممکن ہے، کیونکہ یہاں قرونِ وسطٰی کی عیسائیت کی طرح کوئی کلیسائی تنظیم موجود نہیں جس کو آ کر کوئی گرا سکے- [4]
اب ہم جدیدیت کے اہم ترین پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے تہذیبی تناظر میں ان کی حیثیت کیا ہے اور پاکستانی معاشرے میں ان کی اہمیت کیا ہے-
1- عقلیت : (Rationality)
جدیدیت کی بنیاد عقلیت پر ہے، جس کے مطابق انسان اپنے فیصلے عقل، دلیل اور حسی علم کے ذریعے کرے اور کسی بھی حقیقت تک رسائی کیلئے عقلی دلیل، مشاہدہ یا تجربے کو بروئے کار لائے-عقلیت پسندی کا مطلب صرف منطق یا حساب کتاب نہیں بلکہ یہ انسان کے اس شعور کی توسیع ہے جس کے ذریعے وہ کائنات، معاشرہ اور خود اپنی ذات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے- اس کے بر عکس ایسے طور طریقوں کی جدیدیت میں مخالفت کی گئی جس میں عقلی دلیل یا انسانی مشاہدے کا کوئی پہلو شامل ہی نہ ہو-
پاکستان میں جدیدیت کے اس پہلو کا آج بھی شدید فقدان ہے- یہاں عقلیت پسندی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے-یہ حالت وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اتنی ابتر ہوگئی ہے کہ آج سوال کرنا گستاخی، غور وفکر کرنا گمراہی، اور دلیل دینا بےادبی بن گیا ہے ہے اور کچھ طبقات تو ایسے ہیں جو جدیدیت کے نام پر سوال کرنے کے آداب ہی بھول گئے ہیں جدیدیت سوال کرنا سکھاتی ہے لیکن وہیں سوال کرنے کے آداب بھی سکھاتی ہے جس کا پاکستان میں ابھی فقدان ہے- یہاں جدیدت اور عقل پرستی کے نام پر باقاعدہ طور پر روایات کا تمسخر، مذہب دشمنی اور بے ادبی کو فروغ دینے کا کلچر بھی عام ہے جو کہ جدیدیت کی اصل کے بلکل منافی ہے ایسے لوگوں کو امانوئل کانٹ اور ہامن کے درمیان مذہب پر ہونے والی مباحث کا مطالعہ ضروری ہے تا کہ وہ جان سکیں کہ ادب کے دائرے میں رہ کر تنقید کرنا ہی جدیدت کا اصول ہے[5] - بد قسمتی سے پاکستان کا ’’فنڈڈ‘‘ لبرل طبقہ ’’مذہب دشمنی‘‘ اور ’’اقدار کے تمسخر‘‘ کو جدیدیت کا نام ہے ، یہ محض جہالت ہے یا پھر تعصب -
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور قرآن پاک میں اکثر مقامات پر ’’عقلی غور و فکر اور انسانی مشاہدے‘‘ [6]کو استعمال کرنے پر زور دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے:
’’ (یہ) کتاب ہم نے تم پر نازل کی ہے با برکت ہے تا کہ لوگ اسکی نشانیوں میں غور کریں اور تا کہ اہل عقل نصیحت پکڑیں‘‘-[7]
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے میں ’’عقل والوں‘‘ کیلئے نشانیاں ہیں‘‘-[8]
’’ (اللہ) جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو "صاحبِ عقل و دانش" ہیں‘‘-[9]
’’ بے شک تمام جانوروں میں اللہ کے نزدیک بدترین ایسے بہرے، گونگے ( انسان) ہیں جو ’’عقل‘‘سے کام نہیں لیتے‘‘-[10]
قرآن کریم نے منکرینِ اسلام کے بارے میں اکثر یہ بات کی ہے کہ یہ غور و فکر نہیں کرتے[11] اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں - [12]
لیکن پاکستان کیسا اسلامی ملک ہے جس میں عقل جیسی خدادادنعمت کی ناشکری اور کھلے عام مخالفت کی جاتی ہے-پاکستانی معاشرے میں فلسفے اور منطق کو کفر کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور تعلیمی اداروں میں تحقیقی اور تنقیدی سوچ کو پروان چڑھانے کی بجائے انہیں نمبروں کی دوڑ میں لگایا جاتا ہے -[13] اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم نہ صرف فکری طور پر کمزور ہو چکے ہیں بلکہ نظریاتی طور پر اتنے ناپختہ ہو چکے ہیں کہ یہاں ہر اختلاف، ہر سوال، ہر نئی بات کو خطرہ سمجھا جاتا ہے- پاکستانی معاشرے کے علمی اور فکری ڈسکورسز میں عقلیت پسندی کی جگہ ’’بیانیہ‘‘، ’’وفاداری‘‘ اور ’’سازش‘‘ نے لے لی ہے- یہاں دلیل سے نہیں، نعرے سے بات کی جاتی ہے اور جو سوال کرے، اسے دین و ملت کا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے-[14] ایسے نظام سے علم و فکر سے آراستہ شہری نہیں، فرمانبردار غلام نکلتے ہیں جو سر ہلاتے ہیں، مگر سوال نہیں کرتے اور یہی وجہ تھی کہ مغرب میں چرچ نے جدیدت کے حامیوں کی سخت مخالفت کی، کیونکہ جدیدت نے چرچ کی سیاسی طاقت پر سوال کھڑے کر دیے تھے اور حیران کن امر یہ ہے کہ سوال کرنے والوں میں خود عیسائی مذہب کے پیروکار بھی شامل تھے-[15]
2-انفرادیت (Individualism) :
جدیدیت کا دوسرا بنیادی اصول ’’انفرادیت‘‘ ہے، یعنی ہر انسان کو اپنی رائے، سوچ اور پسند کے مطابق فیصلے کرنے اور زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو- اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی فرد مذہب یا خاندان سے کٹ جائے، بلکہ یہ کہ ہر انسان کو اس کی انفرادی حیثیت کے مطابق فیصلے کرنے کا اختیار ہو- جدیدیت انفرادیت کو اس لیے اہم سمجھتی ہے کیونکہ جب ہر شخص خود سوچے گا، خود سیکھے گا اور خود فیصلہ کرے گا، تبھی ایک معاشرہ تخلیقی، خوددار اور باوقار بنے گا اور یہ کوئی مغربی خیال نہیں بلکہ یہ تو وہی اصول ہے جسے اسلامی تاریخ میں امام ابو حنیفہ، امام شافعی، ابن رشد، امام غزالی ، شاہ ولی اللہ دہلویؒ جیسے لوگوں نے اپنی فکر اور عمل سے پروان چڑھایا ہے اور اس کی بہترین مثال فقہ میں ’’قیاس‘‘ کا اصول ہے جس میں فردِ واحد کی رائے کو فقہی اور قانونی حیثیت دی جاتی ہے - مغرب میں انفرادیت نے فرد کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے مستقبل، تعلیم، زندگی کے فیصلے، یہاں تک کہ حکومت پر تنقید کا حق بھی آزادانہ استعمال کر سکے- اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں لوگوں میں خود اعتمادی پیدا ہوئی، تحقیق اور تخلیق کو فروغ ملا اور ریاست نے بھی فرد کی آزادی کو اپنی ترقی کا حصہ مان لیا-اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں فرد کو وہی مقام حاصل ہے؟
بدقسمتی سے پاکستان میں انفرادیت کو خودغرضی سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ دراصل خود شعوری کی طرف ایک قدم ہے- خاندانی، قبائلی اور گروہی شناختیں فقط پہچان کا ذریعہ ہی ہیں لیکن یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ یہاں یہ شناختیں اکثر ہی انفرادیت کو کچل دیتی ہیں-[16] یہ بظاہر سماجی طاقتیں ہیں اور پاکستانی معاشرے میں ان کا تعمیری کرداربھی ہے، لیکن جب یہ فرد کی رائے کو مکمل طور پر دباتے ہیں تو یہ طاقت ایک جبر بن جاتی ہے- جب فرد کا عزت و مرتبہ اس کی اہلیت، قابلیت اور اس کے علم و کردار کی بجائے اس کی قبائلی، خاندانی یا گروہی شناخت بن جائے تو نوجوان نسل میں اپنی خودی کو پروان چڑھانے کا جذبہ پیدا ہی نہیں ہوتا- اگر ایک کم مرتبہ کے پڑھے لکھے اور قابل بیٹے نے کمی کمین اور ایک وڈیرے کے جاہل اور اجڈ بیٹے نے ملک/چوہدری/ خان صاحب کہلوانا ہے اور اس کی عزت اس کے علم و قابلیت کی بجائے اس کی ذات پات سے کی جانی ہے تو ایسے کم ظرف ماحول میں کس کا جی چاہے گا کہ وہ علم و ہنر میں کوئی نام پیدا کرے- یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں فرد آج بھی دباؤ کا شکار ہے- کئی موضوعات پر فرقہ، قوم، ذات یا اداروں کی رائے، فرد کی رائے پر اتنا حاوی ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنی رائے دینا بعض اوقات جان کیلئے خطرہ بن جاتا ہے-[17] اسلام بھی ہمیں انفرادی طور پر جوابدہی اور فرد کی آزادی کا سبق دیتا ہے اور کسی فرد پر جبر یا زبردستی کی سختی سے ممانعت کرتا ہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور اگر تمہار پروردگار چاہتا تو جتنے لوگ زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے- تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو کہ وہ مومن ہو جائیں؟‘‘[18]
’’سو جس شخص نے ہدایت قبول کی تو اس نے اپنے ہی فائدہ کے لئے راہِ راست اختیار کی، اور جو بہکا رہا تو آپ فرما دیں کہ میں تو صِرف نصیحت کرنے والوں میں سے ہوں‘‘-[19]
’’ ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ وہ کہتے ہیں اور آپ اُن پر جبر کرنے والے نہیں ہیں، پس قرآن کے ذریعے اس شخص کو نصیحت فرمائیے جو میرے وعدۂ عذاب سے ڈرتا ہے‘‘-[20]
’’کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی‘‘-[21]
ان آیات کریمہ سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر انسان اپنی انفرادی حیثیت میں جوابدہ ہے اور کسی پر کسی قسم کی زبردستی جائز نہیں ہے اور تبلیغ کرنا نصیحت کی حد تک ہے اس سے زیادہ کسی شخص کو مجبور کرنا اس کی انفرادیت اور شخصی آزادی کی خلاف ورزی ہے جس کی اجازت اسے خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے- مزید فرمانِ باری ہے:
’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو- بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اللہ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے‘‘-[22]
یہاں اللہ تعالیٰ نے قوموں اور قبیلوں کو محض پہچان کا ذریعہ قرار دیا ہے اور جاہلیت کے دور کی اس رسم کی نفی کی ہے جس میں قوموں اور قبیلوں کو عزت و مرتبے کی نشانی سمجھا جاتا تھا لیکن ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو یہی نظر آتا ہے کہ لوگ اپنی قومی و قبائلی نسبت پر فخر کرتے ہیں جس کی اسلام نے بھی واضح لفظوں میں مخالفت کی ہے-
3- سائنسی تحقیق و ترقی (Scientific Research and Development) :
جدیدیت کا تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ فرد اور معاشرہ عقلیت پسندی، تجربیت اور سائنسی طریقے کو نہ صرف استعمال کرے بلکہ اس کے ذریعے علم و تحقیق میں اپنا حصہ بھی ڈالے- فرد کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ سوچے، سوال کرے، تحقیق کرے اور پھر نتائج کو دلائل کی بنیاد پر پیش کرے- جابر بن حیان ، ابن سینا سے لے کر ابن ِ شاتر تک اور گلیلیو سے لے کر آئن سٹائن تک، یہ سبھی سائنسدان اس آفاقی انسانی فکر کی پیداوار ہیں جو انسان میں جستجو و تحقیق کا شوق پیدا کرتی ہے- قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ :
’’تعلیم پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اسی لیے پاکستان میں تعلیم اور بالخصوص سائنسی تعلیم کو شروع دن سے اہمیت دی گئی ہے- خلائی تحقیقی پروگرام سے لے کر نیوکلیر اور اٹامک سائنس تک پاکستان نے سائنسی تحقیق میں بھرپور حصہ لیا ہے-[23]
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں سائنسی تحقیقات ریاستی ترجیح تو رہی ہیں مگر عمومی طور پر طلباء اور تعلیمی اداروں میں اس کا رجحان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتا چلا گیا- یہاں سائنسی تحقیق ریاستی پالیسی تو بنی لیکن یہ عوامی کلچر نہیں بن سکی -یہاں مخصوص ادارے تو تحقیق کرتے ہیں لیکن ایک عام طالب علم تحقیق کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا-
آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً 40 فیصد بچوں کو بنیادی تعلیم کی سہولت ملنے کا امکان ہی نہیں ہے اور جو بچے زیرِ تعلیم ہیں ان کی اکثریت میں سوال و جستجو کرنے کی عادت کو ہی بہت کم سراہا جاتا ہے اور تحقیقی طریق کی بجائے رٹا لگوانے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جس سے بہت کم ہی بچے اپنی ذہنی قابلیت کا مکمل اظہار کر پاتے ہیں[24] - ایک وقت تھا جب پاکستان میں انتہائی قابل سائنسدان اور پروفیسرز پائے جاتے تھے[25] اور آج حالات یہ ہیں کہ فزکس کے ڈیپارٹمنٹ میں گنتی کے لوگ ملیں گے جنہیں تھیوری آف ریلیٹیویٹی اور کوانٹم فزکس پر عبور ہو گا- آج بھی کئی پاکستانی سائنس و ٹیکنالوجی میں نام پیدا کر رہے ہیں لیکن اس کے پیچھے پاکستان کی بجائے بیرونی تعلیمی اداروں کا کردار زیادہ ہے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے اپنے تعلیمی اداروں کو اپنا تعلیمی و تحقیقی معیار مزید بہتر کرنا چاہیے-
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان میں سائنسی تحقیق کا مرکز نیچرل سائنسزرہی ہیں جبکہ سوشل سائسز کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی-[26] سوشل سائنسز کی اس نازک صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فلسفہ جیسا اہم مضمون جس کے بطن سے تمام جدید علوم کا ظہور ہوا اسے پاکستان میں آہستہ آہستہ فراموش کردیا گیا ہے- آج پاکستان کی بڑی بڑی اور مشہور تعلیمی درسگاہوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ڈیپارٹمنٹ تو ملیں گے لیکن فلسفہ ڈیپارٹمنٹ نہیں ملے گا- چند تعلیمی اداروں میں فلسفہ ڈیپارٹمنٹ ہے مگر وہاں طلباء کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے کہ ہم نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز کو اہمیت دینا ہی چھوڑ دی ہے-[27] جبکہ دنیا کی بڑی بڑی درسگاہوں میں ان مضامین کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور ان مضامین کی اہمیت اتنی زیادہ سمجھی جاتی ہے کہ ملکی پالیسی بنانے کے عمل میں سوشل سائنسز کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے-[28]
پاکستان میں ایک رجحان یہ بھی ہے کہ کچھ مذہبی طبقات سادہ لوح عوام کو سائنسی اور جدید مغربی تعلیم کے خلاف بھڑکاتے ہیں کہ یہ مغربی تعلیم ہے جس سے مسلمانوں کو بچنا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے عقیدت مند ہیں جو ابھی تک صدیوں پرانے سائنسی نظریات سے یوں چپکے ہوئے ہیں جیسے یہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہوں کہ جن کے اندر تبدیلی سے ایمان کا خطرہ لاحق ہو گا- ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اپنے علمی ورثے کو بھی دیکھیں اور جدید دور میں اپنی علمی کاوشوں کو بھی دیکھیں تو منظر واضح ہو جائے گا کہ جدید سائنسی علوم کو فراموش کرنا کتنی بڑی علمی و تہذیبی خود کشی کے مترادف ہے-
اس حوالے سے یہاں مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کا نکتہ نظر پیش کرنا بہت اہم ثابت ہوگاجو مغرب کے سائنسی علوم کو اصلاً قرآنی علوم قرار دیتے ہیں- اقبال فرماتے ہیں:
’’بے شک قرآنِ حکیم کے نزدیک مشاہدہِ فطرت (Observation of Natural Phenomena) کا بنیادی مقصد انسان میں اس حقیقت کا شعور اجاگر کرنا ہے جس کے لیے فطرت(Nature) کو ایک آیت یا نشانی قرار دیا گیا ہے مگر مقامِ غور تو قرآن کا تجربی رویہ (Empirical Attitude)ہے جس نے مسلمانوں میں واقعیت (حقیقت) کا احترام پیدا کیا اور یوں انہیں بالآخر عہدِ جدید کی سائنس کے بانی کی حیثیت سے متعارف کرایا‘‘-[29]
4-جمہوری نظام(Democratic System) :
جمہوریت ایک مکمل سیاسی، سماجی اور اخلاقی نظام ہے جو مساوات، فرد کی آزادی، قانون کی بالادستی، اداروں کی خودمختاری اور تہذیبی شعور جیسے اصولوں پر قائم ہے- مغرب میں یہ نظام صدیوں کی سیاسی اور فکری جدوجہدکے نتیجے میں سامنے آیا- وہاں رائج بادشاہی نظام کی مخالفت کی گئی جس میں ریاستی طاقت فردِ واحد کے ہاتھ میں تھی اور جہاں قانون بادشاہ کا حکم تھا لیکن بادشاہ کے پیچھے چرچ کی اجارہ داری تھی یوں یہ نظام چرچ کے ہاتھ میں تھا- اس نظام میں لوگوں کے بنیادی حقوق کا استحصال کیا جاتا تھا اور عوام کو غلاموں کی طرح سمجھا جاتا تھا- جدیدیت کی بنیاد میں دراصل اسی نظام کے خلاف نفرت و بغاوت شامل تھی اور اسی نظام کی مخالفت میں جمہوری نظام وجود میں آیا- جمہوریت فرد کو خود مختار مانتی ہے اور اقتدار کو محدود اور جواب دہ بنانے کے لیے مختلف ادارے بناتی ہے جو ایک دوسرے پر نظر رکھتے ہیں-
پاکستان میں رائج جمہوری نظام اور اس کی اہمیت کو قائد اعظم کی درج ذیل فرمان سے سمجھا جا سکتا ہے:
’’ میرے ذہن میں ایک ہی بنیادی اصول ہے جو کہ اسلامی جمہوری اصول ہے- یہ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات ان سنہری اصولوں پر عمل کرنے میں ہے جو کہ ہمارے عظیم قانون ساز، پیغمبرِ اسلام(ﷺ)، نے ہمارے لیے مقرر کیے ہیں‘‘- [30]
’’ میرے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارا بہت بڑا طبقہ پاکستان کو بطور عوامی حکومت تصور کرتا ہے- مجھے یقین ہے کہ جمہوریت ہمارے خون میں شامل ہے‘‘-[31]
ایک بات یہاں واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان کا نظام جمہوری ہے اور یہ نظام مغربی جمہوری نظام سے اس طرح مختلف ہے کہ یہاں قانون سازی اسلام کے قوانین کے مطابق کی جاتی ہے اور کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو کہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہو- لیکن جمہوری نظام کی تکمیل محض قانون سازی سے مکمل نہیں ہوتی جب تک جمہوری نظام کے مقاصد پورے نہ ہوں- مشرق ومغرب میں جمہوری نظام کی کامیابی کا جانچنے کا پیمانہ انہیں مقاصد کی تکمیل ہی ہے جسے قائد اعظم نے اپنے ایک خطاب میں واضح کر دیا تھا:
’’(پاکستان کے قیام کا)اصل تصور یہ تھا کہ ہمیں ایک ایسی ریاست ملے جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح جی سکیں، سانس لے سکیں اور اپنی سوچ اور اپنی تہذیب کے مطابق ترقی کر سکیں اور جہاں اسلامی سماجی انصاف کے اصولوں کو مکمل آزادی کے ساتھ نافذ کیا جا سکے- ہمارا مقصد صرف محتاجی اور خوف کا خاتمہ ہی نہ ہو، بلکہ اسلام کی ہدایت کے مطابق آزادی، اخوت اور مساوات کو بھی یقینی بنانا ہو-[32]
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ان مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے جو کہ ایک جمہوری یا اسلامی جمہوری ریاست کو حاصل کرنے چاہیے؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ پاکستان ابھی تک مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش ہی کر رہا ہے - بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی، سماجی انصاف، قانون کی بالادستی، شخصی آزادی، مساوات، آزاد عدلیہ اور اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ، یہ سب وہ مقاصد جو ابھی تک مکمل طور پر حاصل نہیں کیے جا سکے- اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن ایک وجہ ان سب میں مشترک ہے- یہ وہ تنبیہ بھی ہے جو قائد اعظم نے شروع دن سے کی تھی کہ:
”میں یہاں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں، جو ایک ایسے ظالمانہ اور بدطینت نظام کے ذریعے ہم پر پلتے رہے ہیں جو انہیں اتنا خود غرض بنا چکا ہے کہ ان سے عقلی بات کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے- عوام کا استحصال ان کے خون میں رچ بس گیا ہے- یہ لوگ اسلام کے سبق بھول چکے ہیں- ان کی حرص اور خودغرضی نے انہیں دوسروں کے مفادات کے تابع کر دیا ہے تاکہ وہ خود پیٹ بھر سکیں- آپ دیہات میں کہیں بھی جائیں — میں نے گاؤں دیکھے ہیں — وہاں لاکھوں لوگ ہیں جو بمشکل دن میں ایک وقت کا کھانا حاصل کر پاتے ہیں- کیا یہی تہذیب ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصد تھا؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ لاکھوں لوگ استحصال کا شکار ہوں اور انہیں ایک وقت کا کھانا بھی نہ ملے؟ اگر پاکستان کا مقصد یہی تھا تو میں ایسے پاکستان کو قبول نہیں کرتا-“[33]
پاکستان میں جمہوری نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی ایسے جاگیردار ، سرمایہ دار ہیں جن کیلئے جمہوری نظام ایک خطرے سے کم نہیں ہے- ایسے لوگ جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں؛ اپنے مفادات پر قوم کے مفادات کو قربان کر دیتے ہیں؛ قومی ترقی کی بجائے انفرادی یا گروہی ترقی کو فروغ دیتے ہیں؛ وہ یہاں ایسا نظام پسند نہیں کرتے جو قانون کی نگاہ میں سب کو برابر دکھائے جو سماجی انصاف اور احتساب پر مبنی ہو- اس لیے یہاں جمہوریت کا مطلب صرف انتخابی عمل لیا جاتا ہے کہ عوام اپنے نمائندے خود منتخب کرے- لیکن کیا وہ نمائندے عوام کی خدمت کرتے ہیں یا نہیں یہاں پر معاملات غیر شفاف ہیں- اگر ووٹرز کی بات کی جائے تو ان میں بھی ابھی سیاسی شعور کم ہے وہ ہے، قابلیت کی بجائے زیادہ تر برادری، ذات، مسلک یا شخصی وفاداری کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں- سیاست بھی چند خاندانوں کے ہاتھوں میں ہے یہاں مذہب کو بھی سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے بطور آلہ تو استعمال کیا جاتا ہے مگر مذہبی اخلاقی اصول نظر انداز کر دیے جاتے ہیں- نتیجتاً یہاں جمہوریت ابھی نابالغ ہے، اس کے اندر ابھی نہ وہ فکری روشنی ہے اور نہ اخلاقی گہرائی جو ایک جمہوری معاشرے کے لیے ضروری ہوتی ہے-
5- صنعتی ترقی اور پیداواری معیشت (Industrial Development & Productive Economy):
صنعتی ترقی جدیدیت کا نمایاں پہلو ہے اور اسے جدیدیت کی کامیابی کی بہت بڑی دلیل بھی تصور کیا جاتا ہے- اس نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو بدل کر رکھ دیا ہے- جدیدیت کے تحت عقل اور مشاہدے کو اہمیت حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں لوگوں میں علم و تحقیق کا شوق بڑھنے لگا- لیکن جب برطانیہ اور امریکہ میں پیٹینٹ لاء (Patent Law) نافذ ہوا تو اسی تحقیقی سرگرمی سے ایجادات کا سلسلہ شروع ہوگیا- کہا جاتا ہے کہ بلب کے مؤجد تھامس ایڈیسن کے نام پر تقریباً 1500 ایجادات کی اسناد جاری کی گئیں یعنی اس اکیلے نے اپنے علم اور جستجو سے 1500 ایجادات کے نظریات تشکیل دیے جو اس نے پراڈکٹ بنانے والی کمپنیوں کو بیچے-[34] یوں آہستہ آہستہ مشینوں اور فیکٹریوں سے پیداوار کا عمل تیز، سستا اور زیادہ منظم ہوا- کھیتوں، دستکاری اور چھوٹے پیمانے کی معیشتوں کی جگہ بڑے صنعتی مراکز نے لے لی اور یوں پیداواری معیشت وجود میں آئی- اس معیشت کا زور چیزیں بنانے، بیچنے اور مسلسل ترقی کرنے پر ہے-
جدیدیت کے زیر اثر مغرب میں صنعتی ترقی ایک فکری، سائنسی اور ادارہ جاتی عمل کا نتیجہ تھی، جہاں تعلیم، تحقیق، قانون کی حکمرانی اور منظم پالیسیاں موجود تھیں- اس کے برعکس پاکستان میں صنعت کاری نہ تو ایک فکری تحریک سے ابھری اور نہ ہی اس کی بنیاد سائنسی تحقیق یا ادارہ جاتی نظام پر ہے بلکہ یہاں صنعتی ترقی خالصتا معاشی مقاصد کی حامل ہے-
صنعتی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ افراد اپنے ہنر کے ذریعے حصہ ڈالیں جس کی وجہ سے ملک میں چھوٹے اور درمیانے پیمانے کے کاروبار ترقی کرتے ہیں- لیکن یہاں چھوٹے اور درمیانے طبقے کے کاروبار کی تعداد کم ہے - یہاں کاروباری لوازمات ہی اس نوعیت کے ہیں کہ جن کے بوجھ تلے چھوٹے کاروبار کجا کبھی کبھی تو بڑے کاروبار بھی پس جاتے ہیں[35] لیکن پھر بھی یہاں خاطر خواہ کاروباری سہولیات زیادہ تر بڑے بڑے سرمایہ داروں کو میسر ہیں اور وہی اکثر یت کاروباری سرگرمی کو کنٹرول کرتے ہیں-[36] اس لیے پاکستان کی پیداواری معیشت کی بنیادیں ابھی کمزور ہیں-[37]مزید برآں، زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت جدید سائنسی بنیادوں سے ہم آہنگ نہیں ہے - مزدوروں کے حقوق کمزور ہیں، تعلیم اور ہنر کی کمی ہے، اور توانائی و خام مال کی عدم دستیابی بھی ایک مستقل رکاوٹ ہے-[38]
نتیجتاً، پاکستان کی صنعتی ترقی ایک ناہموار اور غیر مستحکم عمل بن چکا ہے- اگرچہ یہاں کاروباری سرگرمی اور صنعتی پیداوار انتہائی فعال ہے لیکن اس کے باوجود 45 فیصد عوام غربت کی لائن سے نیچے ہے -[39] یہاں کے کاروباری اور ہنر مند دنیا کیلئے بہت کچھ بناتے ہیں[40] لیکن بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ یہ پیداوار صرف معاشی مفاد کی خاطر کی جاتی ہے- اس لیے یہاں سوائے چند مصنوعات جیسا کہ ٹیکسٹائل، کھیل کا سامان اور آلاتِ جراحی کے علاوہ دیگر مصنوعات کے معیار کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی نہ ہی صنعتی تحقیق پر اتنا کام کیا جاتا ہے-[41] جبکہ پاکستان میں اتنا پوٹٰینشل ہے کہ یہ صنعتی پیدوارا کو بہت زیادہ بڑھا سکتا ہے جو کہ آج کے معاشی دوڑ کے دور میں انتہائی ضروری بھی ہے- [42]
نتیجہ:
پاکستان کئی وجوہات کی بنا پر نہ صرف اسلامی دنیا میں بلکہ عالمی طور پر انتہائی اہم ملک تصور کیا جاتا ہے لیکن پاکستان ابھی تک ایک ترقی پذیر ملک تصور کیا جاتا ہے جو ابھی تک سیاسی، سماجی اور معاشی استحکام کیلئے مسلسل کوشش کر رہا ہے-پاکستان کی اپنی ایک زرخیز تہذیب ہے جو انتہائی کارگر اور مفید اصولوں پر قائم ہے لیکن جدیدیت نے جہاں مغربی دنیا کو ترقی یافتہ اقوام بنا دیا ہے وہیں اس تحریک کے اصولوں سے پاکستان بھی بے انتہا فائدہ اٹھا سکتا ہے- اس وقت پاکستان نہ ہی اپنے تہذیبی اصولوں پر مکمل طور پر کاربند ہے اور نہ ہی یہ جدیدت کو بطور فکر اپنی تہذیب کے ساتھ ہم آہنگ کر پا رہا ہے- چونکہ یہ ایک اسلامی ملک ہے اس لیے یہاں یہی سننے کو ملتا ہے کہ ہمیں غیر اسلامی اصولوں کی کیا ضرورت ہے- اس آرٹیکل میں راقم نے یہی ابہام دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ (1) جدیدیت کے بہت سے اصول اسلامی تہذیب سے ہم آہنگ ہیں اور جس اصول کا غیر اسلامی ہونے کا شائبہ ہو تو وہاں تبدیلی ممکن ہے (2) جدیدیت کے بہت سے اصول کسی بھی ملک یا معاشرے کی ترقی کیلئے مذہب یا ملک کی قید نہیں رکھتے - اس لیے پاکستان کو سیاسی، سماجی اور معاشی استحکام کیلئے ان اصولوں سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے -
٭٭٭
[1]https://franpritchett.com/00islamlinks/txt_iqbal_1930.html
[2]https://www.tni.org/en/article/jinnahs-vision-of-pakistan
[3]https://franpritchett.com/00islamlinks/txt_iqbal_1930.html
[4]https://franpritchett.com/00islamlinks/txt_iqbal_1930.html
[5]The Fate of Reason by Frederick C. Beiser
[6](البقرۃ: 73)
[7](سورۃ ص: 29)
[8]( آل عمران: 190)
[9](البقرۃ:269)
[10](الانفال: 22)
[11]( المائدۃ: 103)
[12]( الفرقان: 43)
[13]https://www.dawn.com/news/1908765
[14]https://www.dawn.com/news/1683541
[15]https://www.christianity.org.uk/article/the-enlightenment
[16]https://www.dawn.com/news/1851507
[17]https://tribune.com.pk/story/2514170/seven-more-suspects-charged-over-anti-state-social-media-propaganda
[18](یونس: 99)
[19]( النمل: 92)
[20](سورۃ ق: 45)
[21]( النجم: 38)
[22]( الحجرات: 13)
[23]https://tribune.com.pk/story/2469523/pakistan-rockets-forward-in-space-technology
[24] https://www.dawn.com/news/1808713
[25]https://www.nazariapak.info/Famous-Pakistani/Scientists.php
[26]Dismal State of Social Sciences in Pakistan by S.Akbar Zaidi
[27]https://mos.org.pk/philosophy-departments-in-pakistan-a-downward-spiral-in-academia/
[28]Social Science and the Policy-Making Process by Jennings and Challahan
[29](تجدیدِ فکریاتِ اسلام، ص: 30)
[30]http://pjhc.nihcr.edu.pk/wp-content/uploads/2020/08/1.-Quaid-i-Azam-and-Democracy.pdf
[31]ibid
[32]ibid
[33]http://pjhc.nihcr.edu.pk/wp-content/uploads/2020/08/1.-Quaid-i-Azam-and-Democracy.pdf
[34]Why Nations Fail by Acemoglu & Robinson, p:36
[35] https://www.dawn.com/news/1764773
[36]https://www.thenews.com.pk/print/830837-31-families-control-kse
[37]https://store.ectap.ro/articole/972.pdf
[38]https://pide.org.pk/research/agriculture-is-not-the-future-of-pakistan/
[39] https://www.dawn.com/news/1915759
[40]https://tradingeconomics.com/pakistan/exports-by-category
[41]https://lahoreschoolofeconomics.edu.pk/assets/uploads/lje/Volume11/06_A__R__Kamal2.pdf
[42]https://www.thenews.com.pk/magazine/money-matters/1249476-navigating-pakistans-industrial-future