تیسری دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس مولانارومیؒ وحضرت سلطان باھُوؒ

تیسری دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس مولانارومیؒ وحضرت سلطان باھُوؒ

تیسری دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس مولانارومیؒ وحضرت سلطان باھُوؒ

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ جون 2020

مسلم انسٹیٹیوٹ اور پنجاب یونیورسٹی لاہور نے 20 اور 21 فروری 2020ء کو الرازی ہال پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ’’مولانا رومی اور حضرت سلطان باھُو:دنیا میں  انسان دوستی، بھائی چارے اور امن و سلامتی کے پیام رساں‘‘ کے موضوع پر انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا- امریکہ، برطانیہ، پولینڈ، ایران، سوڈان اور پاکستان کے تمام صوبوں سے سکالرز نے کانفرنس میں شرکت کی اور اپنے مقالہ جات پیش کیے- وفاقی و صوبائی وزراء اور متعدد جامعات کے وائس چانسلر نے بھی کانفرنس میں شرکت کی- کانفرنس سات مختلف سیشنز (افتتاحی سیشن، چار اکیڈمک سیشنز، اختتامی سیشن اور ثقافتی سیشن)پر مشتمل تھی- مختلف یونیورسٹیز کے طلبہ،اساتذہ، تھنک ٹینکس کے نمائندگان، صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے کانفرنس میں شرکت کی- ہر سیشن کی ابتداء میں کلامِ باھُو و رومی پیش کیا گیا-

پہلا روز

افتتاحی سیشن

افتتاحی سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر (وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی، لاہور) نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی جناب یاسر ہمایوں سرفراز (صوبائی وزیر برائےہائیر ایجوکیشن، پنجاب) تھے- پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحسن (شعبہ اردو، یونیورسٹی آف پنجاب) نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دئیے -

مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:-

استقبالیہ کلمات

پروفیسرڈاکٹر سلیم مظہر: پرو وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ، لاہور

مَیں آپ سب کو تیسری ’’مولانا جلال الدین رومیؒ و حضرت سلطان باھُوؒ‘‘انٹرنیشنل کانفرنس میں دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں-میں تمام مقررین خصوصاً بیرونِ ملک سے اس کانفرنس میں شرکت کیلیے تشریف لانے والے وفود اور مہمانانِ گرامی کا انتہائی مشکور ہوں- صوفیائے کرام نے ہمیں اپنے روز مرہ کے معاملات میں دانشمندی اور سوجھ بوجھ سے کام لینے کی تلقین کی ہے- کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے محنت و کوشش ضروری ہے-مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنے روحانی تصرف کی وجہ سے مسلم معاشرے کی تنظیمِ نو میں اہم کردار ادا کیا- ان عظیم شخصیات پر مسلم انسٹیٹیوٹ اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کی مشترکہ کاوشوں سے یہ تیسری انٹرنیشنل کانفرنس ہے اور یہ ہمارے معاشرے کی بہتری میں اہم کردار ادا کرے گی-

ابتدائی کلمات

صاحبزادہ سلطان احمد علی:چئیر مین مسلم انسٹیٹیوٹ

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ نے ہمارے معاشرے کی ترقی میں مذہبی، معاشرتی اور روحانی طور پر اہم تعمیری کردار ادا کیا ہے- سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے کلچر پر ان کا بہت گہرا اور بڑا اثر ہے-جب فارسی زبان ہمارے نصاب اور ثقافت سے معدوم ہو گئی تو ہم اخلاقی بدحالی کا شکار ہو گئے- پنجاب یونیورسٹی اور مسلم انسٹیٹیوٹ کی یہ مشترکہ کاوش ان صوفیاء کی تعلیمات کی ازسر نو احیاء کے لیے ہے جس سے دانشوروں اور عوام پر اہم اثرات مرتب ہوں گے- گوکہ مسلم انسٹیٹیوٹ اور پنجاب یونیورسٹی کسی باہمی افہام و تفہیم کی دستاویز میں رسمی طور پر منسلک نہیں ہیں لیکن یہ مل کر وہ کام کر رہے ہیں جو بہت سے ادارے آپس میں M.O.U ہونے کے باوجود بھی نہیں کر سکتے -

معزز مہمان

پروفیسر ڈاکٹر سلطان شاہ

ڈین، فیکلٹی آف لینگویجز، اسلامک اینڈ اوریئنٹل لرننگ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور

صوفیائے کرام کے فیوض و برکات اس معاشرے کی تبدیلی کے لیے اہم اور مثبت کردار ادا کرتے ہیں - مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ جیسے عظیم صوفیائے کرام نے اسلام کی ترویج کیلیے اہم خدمات سر انجام دیں اور ان کی ادبی اور روحانی کاوشوں نے ہمارے اوپر نہایت مثبت اثرات چھوڑے ہیں-آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان صوفیائے کرام کی تعلیمات کا اپنی زندگیوں میں مکمل اطلاق کریں- صوفیائے کرام کی تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے اور ان کی تعلیم ہماری جامعات میں دی جانی چاہیے - اخلاق و کردار کی تعمیر پر مبنی ان صوفیائےکرام کی تعلیمات موجودہ معاشرتی انحطاط اور اخلاقی برائیوں کے تدارک کے لیے نہایت اہم ہیں-

معزز مہمان

جناب محمد حنیف پتافی:مشیرِ وزیرِ اعلیٰ پنجاب برائے صحت

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صوفیاء نے تخلیقِ پاکستان میں اہم کردار ادا کیا- مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ اسلامی تہذیب اور ثقافت کے مشعل بردار ہیں- ان کی شاعرانہ اور ادبی کاوشوں کے اسلامی معاشرہ پر اہم اثرات ہیں- انہوں نے سچائی اور حقیقت پر قائم رہنے کی تلقین کی-

معزز مہمان

عزت مآب محمد رضا ناظری:

کونسل جنرل ، اسلامی جمہوریہ ایران، لاہور

مختلف ادوار میں اس خطے میں فارسی زبان و ادب کے حوالے سے جو خدمات سرانجام دی گئی ہیں وہ قابل تحسین ہیں-دورِ حاضر سے تعلق رکھنے والے ان ادبأ و شعراء کا تذکرہ بھی بر محل ہو گا جو فارسی زبان کا گہرا علم رکھتے ہیں اور اس کی ترویج کیلیے کوشاں ہیں-وہ افراد جو فارسی زبان کا سرمایہ ہیں ان کو فرہنگستان زبان وادب فارسی، کی طرف سے اعزازات سے نوازا جارہا ہے- یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ پاکستان سے دو افراد جنہوں نے فارسی زبان و ادب کے میدان میں بہت اہم خدمات سر انجام دی ہیں انہیں اکیڈمی آف لیٹرز تہران کی جانب سے تاحیات ممبر شپ کے لیے منتخب کیا جا رہا ہے-

معزز مہمان

پروفیسر ڈاکٹر ہمایوں احسان:ڈین پاکستان کالج آف لاء، لاہور

صوفیائے کرام نے اپنے عمل اور کلام سے جس طرح انسانیت کا اظہار کیا ہے اس سے بہتر انسانیت کو بیان نہیں کیا جاسکتا- جب سے انسانی تہذیب شروع ہوئی ہے فلسفی بنیادی فلسفیانہ سوالوں کا جواب ڈھونڈھ رہے ہیں جیساکہ ہم کون ہیں؟ ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ صوفیاء نے قرآنِ کریم کی تعلیمات کی روشنی میں بخوبی انسان اور کائنات کے بارے میں فلسفیانہ گتھیوں کو سلجھایا ہے- مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ نے اللہ پاک کی وحدانیت پر زور دیا- آپ نے ذات پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر معاشرتی تفریق کی سختی سے نفی کی- اسی طرح دونوں صوفیائے کرام نے انسانوں کے درمیان ہر قسم کے تفرقہ کی بھی سختی سے حوصلہ شکنی کی-

مہمانِ خصوصی

 جناب یاسر ہمایوں سرفراز :صوبائی وزیر پنجاب برائے ہائیر ایجوکیشن

آج کی کانفرنس کا موضوع میرے دل کے بہت قریب ہے-بے شک برصغیر اور اس خطے میں اسلام کو پھیلانے میں صوفیائے کرام کا بہت اہم کردار ہے- جنوبی ایشیا میں ذات پات کی بنیاد پر بہت زیادہ تفریق تھی جس نے معاشرے کا سماجی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا- صوفیائے کرام نےاس نظام کی نفی کی اور برابری و انصاف کا پرچار کیا-ہمیں صوفیاء کے طریقہ کار کے مطابق اپنے تعلیمی اداروں کی تشکیل نو کی ضرورت ہے- وزیر اعظم عمران خان کی پالیسی ہے کہ نئی یونیورسٹیاں مختلف صوفی بزرگوں کے نام پہ قائم کی جائیں گی -

صدرِ نشست

پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر:وائس چانسلر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور

حضرت سلطان باھُوؒ اور مولانا رومی ؒ رسولِ اکرم (ﷺ)  کے سچے امتی اور پیروکار تھے- اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر کوئی اس سے محبت کرتا ہے تو حضور نبی کریم (ﷺ) کی اتباع کرے- اسلام بر صغیر میں ہمارے آباؤ اجداد تک صوفیائے کرام کے توسط سے پہنچا- پیغمبرانِ کرام اور صوفیاء کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ ہستیاں اللہ تعالیٰ کی نہایت خوبصورت اور کامل تخلیقات ہیں- صوفیائے کرام کا پیغام بردباری کا ہے- یہ دنیا اس وقت 6 ارب نفوس سے زائد پر مشتمل ہے جو اس کرہ ارض پر کچھ اصولوں کے تحت ہی امن و سکون سے زندگی گزار سکتے ہیں جن میں باہمی احترام اور اخوت سرِ فہرست ہیں-

پہلا اکڈیمک سیشن

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کی روشنی میں فرد کی اصلاح:

پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا (سابق ڈین و پرنسپل اوریئنٹل لرننگ کالج ، پنجاب یونیورسٹی لاہور) نے اس سیشن کی صدارت کی جبکہ اسامہ بن اشرف(ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے- مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے-

کلامِ حضرت سلطانِ باھوؒکافنی اسلوبِ بیاں:

چندتفہیمی پہلو

جناب عزیز اللہ شاہ  ایڈووکیٹ

ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ، اسلام آباد

حضرت سلطان باھُوؒ صوفیائے کرام میں ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں- آپؒ کی فارسی شاعری بھی پُر مغز صوفیانہ فکر کی حامل ہے جس پر ابھی تحقیق ہونا باقی ہے- حضرت سلطان باھُوؒ کی شاعری باربط خیالات کا ایسا مجموعہ ہےجوقاری کو خیالات کی گہری وادیوں اور فقر ومعرفت کے دریا کی طغیانی سے روشناس کرتی ہے- آپؒ نے جہاں نظریہ توحید، تصور اسم اللہ ذات، ذکر اسم اللہ ذات، فلسفہ عشق، عشقِ حقیقی، حقیقتِ دل، ضبطِ نفس، درس ادب، تصورِ مرشد، مقامِ مرشد اور طلبِ دنیا جیسے موضوعات کو زیر بحث لایاہے، وہیں شاعری کے فنی اصولوں کوبھی ملحوظ خاطررکھا اورتمام موضوعات کو عمدہ ترین شعری پیکر میں ڈھالا ہے-آپؒ کی پنجابی شاعری ایک خاص اسلوب رکھتی ہے جس کو ابیات کہا جاتا ہے- ہر بیت کے آخر میں ’’ھُو‘‘ کا استعمال آپ کے مخصوص شاعرانہ انداز کا اظہار ہے-

تکمیلِ باطن: سلطان باھُوؒ اور مولانا رومیؒ کی تعلیمات کا جائزہ

ڈاکٹر فیصل جمعہ

ڈپٹی رجسٹرار، لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز، لسبیلہ، بلوچستان

قرآنِ کریم میں باطنی تکمیل کے حوالے سے چار چیزوں پر زور دیا گیا ہےجن میں ارادہ، کوشش، ایمان اور مرشد شامل ہیں- مرشد کامل سالک کے باطن کو پاک کر کے اس کو باطنی مراحل طے کراتا ہے- حضرت شمس تبریزؒ سے ملاقات کے بعد مولانا رومیؒ نے بھی اس بات کو سمجھ لیا کہ محض کتب بینی باطن کی تکمیل کے لیے کافی نہیں ہے- بلکہ اس کے لیے مرشد کامل کا ساتھ ضروری ہے جو طالب کو روحانی بلندیوں تک لے جاتا ہے- جب مولانا رومیؒ نے حضرت شمس تبریز کی رہنمائی میں روحانیت کے عروج کو پالیا تو آپ بے ساختہ بول اٹھے:

مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم
تا غلام ِ شمس تبریزی نہ شد

اسی طرح حضرت سلطان باھُوؒ بھی تلقین فرماتے ہیں کہ باطن کی تکمیل کے لیے مرشدِ کامل کی راہنمائی ضروری ہے-

حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کی روشنی میں

مرشدِ کامل کا تصور

ڈاکٹر شگفتہ یاسمین

اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ فارسی، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد

مرشد کے لغوی معنی گائیڈ اور رہنما کے ہیں- مرشدِ کامل ایک ایسا رہبر ہے جو اپنی نگاہِ کیمیا سے مرید کے دل کو ایک ہی لمحے میں دنیاوی آلائشوں اور نفسانی خواہشات سے پاک کر کے نئی جلا بخشتا ہے اور اس کو اس دنیا سے روشناس کرواتا ہے جس کا ادراک بھی اس کیلیے مشکل تھا- یہی وہ کیفیت ہے جس کو آپؒ نے اپنے پنجابی ابیات میں بیان کیا-

اللہ چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد لائی ھُو
نفی اثبات دا پانی مِلیس ہر رگے ہر جائی ھُو
اندر بوٹی مُشک مچایا جاں پھلاں تے آئی ھُو
جیوے مرشد کامِل باھُوؒ جیں ایہ بوٹی لائی ھُو

حضرت سلطان باھُوؒ اس بات کے معترف نظر آتے ہیں کہ خالق حقیقی سے عشق کی جوت لگانے والی ان کے مرشد کی ہی ہستی ہے جس نے نہ صرف عشقِ حقیقی سے ان کے دل کو روشن کیا بلکہ عشقِ حقیقی کے اس پودے کی نگہداشت کے ساتھ نفی اور اثبات کے پانی سے اس کی آبیاری بھی کی اور یوں اس کی مہک ہر سو پھیل گئی-

عالمی تہذیب کے قیام کے لیے قرآنِ کریم کی روشنی میں مولانا رومیؒ اورحضرت سلطان باھُوؒ کی صوفیانہ تعلیمات

ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی:

اسسٹنٹ پروفیسر، ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک لرننگ، کراچی یونیورسٹی

ہمیں قرآنِ کریم کی تعلیمات کی روشنی میں عالمی تہذیب کے قیام کے اسباب کو سمجھنا ہو گا- یہ دونوں اولیائے کرام اس کرۂ ارض پر تمام انسانوں کا آپس میں امن و آشتی سے رہنے کیلیے حُب الٰہی اور رواداری کو ہی بنیاد سمجھتے ہیں- اس لیے یہ صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ انسان کا نقطہ آغاز ایک ہی ہے- اس وقت انسانوں میں تفرقہ و لڑائی کی وجہ صرف ظاہری پہلوؤں پر سار ی توجہ مرکوز کرنا ہے جبکہ ہم اپنی زندگیوں میں روحانیت کے کردار کو مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں-

مولانا رومیؒ و حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات میں

روحانی اصلاح کا تصور

پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال شاہد

چئیرمین، شعبہ فارسی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور

اللہ تعالیٰ جب کسی کو سعادت بخشنا چاہتا ہے تو اللہ والوں سے ملاتا ہے -درحقیقت، یہ کانفرنسز ہماری روحانی، سماجی اور اخلاقی تربیت کا حصہ ہیں- مرشد کے حوالے سے اقبال ’’اسرار خودی‘‘میں ایک خواب کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک رات میرا دل فریاد پہ مائل تھا اور خاموشی میں یا رب یا رب کہنے کی صدائیں آ رہی تھیں -یہ سب مرشد کامل کی رہنمائی کا اثر تھا- مرشد کا تصرف یہ ہوتا ہے کہ انسان سانس بھی اس کی مرضی سے لیا کرے- عقیدت و سپردگی کے متعلق مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں کہ روحانی استاد کو مان لینے اور خود سپردگی کی منزل پر پہنچ جانے کے بعد معاشرے میں امن کے پھول کھل اٹھتے ہیں -

عالمی امن کے لیے صوفیانہ تعلیمات کی اہمیت

پروفیسر ڈاکٹر کریم نجفی:پیامِ نور یونیورسٹی، ایران

 حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کسی ایک خطہ یا قوم کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلیے ہیں- اسی طرح مولانا جلال الدین رومیؒ کا پیغام بھی آفاقی اہمیت کا حامل ہے- لفظ ’’باھُو‘‘ کا مطلب ’’ھُو‘‘ یعنی اللہ کے ساتھ کے ہیں- رسولِ کریم (ﷺ)  صرف مسلمانوں کیلیے رحمت نہیں بلکہ رحمت اللعالمین یعنی تمام جہانوں کیلیے رحمت ہیں- حضرت سلطان باھُوؒ اپنی کتاب ’’امیر الکونین‘‘ میں حضرت علیؒ سے ایک واقعہ منسوب فرماتے ہیں جس میں امام عالی مقام نے ایک مسلم گورنر کو مسلمانوں اور غیر مسلموں میں برابر انصاف کی تلقین کی- یہی صوفیاء کا پیغام ہے کہ انسانوں میں برابری کی جائے اور کسی سے زیادتی نہ ہو-

مولانا رومی ؒ کی تعلیمات میں ’’رقص ‘‘ کا تصور

ڈاکٹر راشدہ قاضی:

ڈین، فیکلٹی آف آرٹس، غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان

رومی کی شاعری عشقِ حقیقی سے لبریز ہے- ان کی سوچ کے اثرات ادب اور جمالیات کے ہر پہلو پہ روشنی ڈالتے ہیں- عشق حقیقی کو انہوں نے اپنی روح میں سمو کر موسیقی کا ہر رنگ اپنے رقص میں جذب کر لیا- درویش کی موسیقی اور رقص لفظوں کے محتاج نہیں ہوتے- یہ رقص وقت اور زمانے کی قید سے آزاد ہوتے ہیں-یہ دائروں میں گھومنے اور سرور کی حدوں کو چھونے والی کیفیت ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا- سیدھا ہاتھ دائروں میں گھومتا ہوا لطف کی وادیوں سے آگے بڑھتا ہے اور خدا کی رحمتوں سے فیض یاب ہوتا ہے-اسی کیفیت سے مالامال بائیاں ہاتھ زمین کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے-

صدرِ نشست

ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا:

سابق ڈین و پرنسپل اوریئنٹل لرننگ کالج، پنجاب یونیورسٹی، لاہور

صوفیاء کی خصوصیت رہی ہے کہ وہ معاشرہ میں دانش مندانہ رویوں کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں- اس ضمن میں انہوں نے ہمیشہ معاشرے میں سچ، محبت اور ایمان کو پھیلایا ہے- ان کا ہمیشہ سے عقیدہ رہا ہے کہ انسان کو اپنی جسمانی اور باطنی دونوں زندگیوں پر توجہ دینی چاہیے- اگر ان میں توازن نہ ہو تو انسان کی زندگی کا سکون برباد ہو جاتا ہے- اس کے علاوہ صوفیاء مادیت پرستی کی بھی حوصلہ شکنی کرتے ہیں- کسی بھی انسان کی زندگی میں قلب اور روح کا اطمینان اس کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے اور یہ صرف اور صرف انسانیت کی خدمت سے حاصل ہوتا ہے- جیسا کہ حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:

ادھی لعنت دنیاں تائیں تے ساری دنیاں داراں ھُو

مولانا رومیؒ بھی یہی پیغام دیتے ہیں -آپؒ کے بقول صرف قناعت ہی انسان کو دل اور روح کا سکون عطا کر سکتی ہے-

دوسرا اکڈیمک سیشن

مولانا رومیؒ اورحضرت سلطان باھُوؒ کا صوفیانہ ادب

پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر، وائس چانسلر جھنگ یونیورسٹی نے اس سیشن کی صدارت کی جبکہ ڈاکٹر محمد صابر (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ فارسی ،پنجاب یو نیورسٹی لاہور) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے - مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے-

فارسی ادب اور صوفیانہ تعلیمات: ایک جائزہ

پروفیسر ڈاکٹر محمد ناصر

چئیرمین شعبہ فارسی، پنجاب یونیورسٹی، لاہور

رومی ؒکی شاعری کا پہلا پیغام انسانوں کو محبت کی لڑی میں پرونا ہے- دوم، مختلف نظریات کے حامل گروہوں میں اخوت کے علمبردار ہیں- سوم، وہ انسانیت کی تکریم کے قائل ہیں کیونکہ تمام انسانوں کی ابتداء ایک ہے- ہمارے معاشرہ میں رومیؒ کی فکر کی ترویج کیلیے مخلصانہ کوششوں کی ضرورت ہے- اس ضمن میں میڈیا اور سماجی اداروں کا کردار بہت اہم ہے کہ وہ بردباری اور امن پر مبنی صوفیائے کرام بالخصوص رومیؒ کے پیغام کو عام کریں-

فکرِ رومیؒ اور سلطان باھُوؒ کی عصری معنویت

ڈاکٹر محمد سفیر

سربراہ شعبہ فارسی، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) اسلام آباد

حضرت سلطان باھُوؒ روحانیت کا ایک سمندر ہیں جو بنی نوع انسان کو اپنی روحانی فکر سے سیراب کرتے آرہے ہیں- تصوف کا مقصود انسانی شخصیت میں اخلاقی اوصاف اور محاسن پیدا کرنا ہے-ان دونوں صوفیاء نے اپنے کلام میں عوام الناس کو اخلاق، محبت، عدل و انصاف، علم و عمل، انسان دوستی اور عجز و انکساری کی تعلیم دی تاکہ معاشرے میں امن قائم ہو سکے- معاشرے میں امن کے قیام کیلیے مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ نے ادب، اخلاق سے بھرپور اندازِ گفتگو، ظلم و ستم کے خاتمے، غرور تکبر سے اجتناب، علم کے حصول اور اس پر عمل کرنے کی تلقین کی-

حضرت سلطان باھُوؒکے فارسی کلام میں عرفانِ اسلامی کا تصور

ڈاکٹر انجم حمید:

ڈائریکٹر نیشنل لینگویج پروموشن ڈیپارٹمنٹ، اسلام آباد

برِصغیر پاک و ہند میں فارسی زبان و ادب کی تاریخ نہایت شاندار اور قدیم ہے-اس خطے میں اسی زبان کے ذریعے اسلام پھیلا اور فارسی میں بیشتر صوفیاء نے کلام لکھا جن میں حضرت سلطان باھُوؒ کا نام سرِ فہرست ہے- حضرت سلطان باھُوؒ ایک عارفِ با صفا اور حقیقی صوفی تھے- انہوں نے عرفانِ اسلامی سے آگاہی کے لیے دور دراز کے سفر بھی کیے- آپؒ نے راہِ حق کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے اپنے کلام اور علمی آثار کے توسط سے طالبانِ حق کو تعلیماتِ اسلامی و عرفانی سے منور کیا-

صوفیانہ مشاہدات کو کلام میں ڈھالنا :

مولانا رومیؒ اور سلطان باھُوؒ کا جائزہ

پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر

چئیرمین، شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی لاہور

حضرت سلطان با ھُوؒ ذکر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مرشدِ کامل انسان کے قلب میں عشقِ حقیقی کا پودا لگاتا ہے-’’لا الہ الا اللہ‘‘ کے ذکر میں ’’لا الہ‘‘ سے مراد دنیاوی خواہشات اور غیرِ حق کی نفی ہے جبکہ ’’الا اللہ‘‘ کا مطلب اللہ تعالیٰ کی ذات کی صدقِ دل سے تصدیق ہے- جب انسان پر روحانی علوم کے اسرار منکشف ہوتے ہیں تو اس کا قلب محبت ِ الٰہی سے معمور ہو جاتا ہے- جیسے جیسے انسان کے وجود میں عشقِ حقیقی کا اثر سرایت کرتا ہے وہ سکونِ قلب کی دولت سے مالامال ہو جاتا ہے- حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں کہ  اسمِ ذات کا ذکر انسان کے وجود میں تاثیرکرکے اسے عمل تحقیق بخشتا ہے اور انسان اللہ کا رفیق بن جاتا ہے-

مولانا رومیؒ کی مثنوی اور ابیاتِ باھُوؒ کےبرِ صغیر پر اثرات

پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمان

چئیر پرسن شعبہ پنجابی، پنجاب یونیورسٹی لاہور

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کا اثر ایک فرد سے شروع ہوتا ہے اور پورے معاشرہ اور خطے پر اس کے مثبت نتائج مرتب ہوتے ہیں- صوفی ازم سے ایک انسان کو اپنے تمام تر معاملاتِ زندگی خواہ وہ معاشرتی ہوں یا اقتصادی، رہنمائی حاصل ہوتی ہے- جیسا کہ تمام صوفیائے کرام نے کسبِ حلال کو اپنا نصب العین بنانے کی تلقین کی-اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم تصوف اور صوفیائے کرام کی تعلیمات کو عملی طور پر اپنی زندگیوں میں نافذ کریں-

قرآن مجید کےحضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات پر اثرات

جناب ایم -اے-خان:مصنف و مترجم، لیوٹن ، انگلینڈ

حضرت سلطان باھُو ؒ کی فکر پہ قرآنِ مجید کا گہرا اثر ہے - آپؒ نے اپنی کتب میں جگہ جگہ پر کلامِ باری تعالیٰ کا ذکر کیا ہے اور قرآنِ مجید کی آیات کا بہت سی جگہ پر حوالہ دیا ہے- مثلاً آپ کی فارسی کتاب ’’اسرار القادری‘‘ 80 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں 70 قرآنی آیات کا حوالہ ہے- اسی طرح 226 صفحات پر مشتمل آپ کی کتاب ’’امیر الکونین‘‘ میں 92 قرآنی آیات کا حوالہ موجود ہے- آپ کی ہر کتاب میں کثیر تعداد میں قرآنِ مجید کی آیات کا تذکرہ کیا گیا ہے- جیسے کہ ایک سالک ذکر کے ذریعے ذاتِ باری تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے، اسی طرح حضرت سلطان باھُوؒ کی کتب میں روحِ قرآنی کی جھلک موجود ہے- حضرت سلطان باھُو ؒ کی کتب کے تراجم کیلئے مترجم کو تکنیکی ہنر کے ساتھ ساتھ روحانی معانی سے آشنا ہونا بھی ضروری ہے-

صدرِ نشست

انجینئر ڈاکٹر شاہد منیر:وائس چانسلر یونیورسٹی آف جھنگ

حضرت سلطان باھُوؒ اور مولانا رومیؒ کا پیغام عالم گیر اور آفاقی ہے- سب سے پہلے دونوں شخصیات نے اپنے باطن کی پاکیزگی پر زور دیا- اس کے بعد دنیاوی خواہشات اور نفس کی پیروی سے بچنے کی تلقین کی-دونوں صوفیاء نے انسانیت سے محبت کی بھی خاص تبلیغ کی- اپنی ذات کی نفی، عاجزی و انکساری اور روحانیت کو مادیت کے اوپر ترجیح دینا بھی ان صوفیاء کی تعلیمات کا خاصہ ہے- حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی کتاب ’’عین الفقر‘‘ میں اور مولانا رومی ؒ نے اپنی مثنوی میں فقر کی نہایت عمیق وضاحت بیان کی- حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا فرمان ہے فقر مجھ سے ہے اور فقر میرا فخر ہے- حضرت سلطان باھُوؒ اپنے ایک پنجابی بیت میں فرماتے ہیں:

کوڑا تخت دنیا دا باھُو تے فقر سچی بادشاہی ھُو

ثقافتی سیشن

پہلے روز کے اختتام پہ ایک ثقافتی سیشن کا انعقاد ایوان اقبال لاہور میں کیا گیا جس میں راجہ حامد علی نے مولانا رومی اور حضرت سلطان باھوؒ کا کلام پیش کیا- اس سیشن میں مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی- پروفیسرڈاکٹر سلیم مظہر( پرو وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ، لاہور) نے شرکاء کیلیے اظہار تشکر کے کلمات ادا کیے-

دوسرا روز

تیسرا اکڈیمک سیشن

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کا

معاشرتی ارتقاء میں کردار

اس سیشن کی صدارت ڈاکٹر نوشاد علی خان (وائس چانسلر، اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور) نے کی جبکہ ڈاکٹر عظمیٰ زریں نازیہ (شعبہ فارسی پنجاب یونیورسٹی لاہور) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے - مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:-

سلطان العارفین (سلطان باھُوؒ)اپنی کتاب

’’شمس العارفین‘‘ کے آئینہ میں

محترمہ رابعہ کیانی:پی-ایچ-ڈی اسکالر

برِصغیر کے عظیم المرتبت صوفی بزرگ حضرت سلطان باھُوؒ کی ذاتِ گرامی صدیوں سے سرچشمٔہ فیوض و برکات رہی ہے- کتاب ’’شمس العارفین ‘‘حضرت سلطان باھُوؒ کی کوئی علیحدہ تصنیف نہیں بلکہ ان کی آٹھ تصانیف کلید التوحید، قربِ دیدار، مجموعہ الفضل، عقلِ بیدار، جامع الاسرار، نور الھدیٰ، عین نما اور فضل اللقاء سے منتخب شدہ اسباق پر مشتمل رسالہ ہے- گویا یہ کتاب سلطان العارفینؒ کی جملہ تصانیف کا خلاصہ ہے جس سے طالب کی روح بیدار ہو جاتی ہے- اس کتاب کے پر خلوص مطالعہ سے قاری میں ابتدائی اور حیران کن تاثیر پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے وجود میں خالص طلب الہیٰ کا ظہور ہوتا ہے-سالک روز بروز ترقی کرتا ہے حتیٰ کہ اسرارِ ربانی کاا نکشاف شروع ہو جاتا ہے اور طالب بامراد ہو جاتا ہے-

مذہبی عدم برداشت کے خاتمے میں مولانا رومیؒ اور

حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کا کردار

پروفیسر ڈاکٹر فلیحہ زہرہ کاظمی

چئیر پرسن شعبہ فارسی، لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی، لاہور

مولانا جلال الدین رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ دونوں ہی انسان دوستی، برداشت اور محبت کے عملی پیکر تھے-ان کے کلام سے ہر خاص و عام کو یہی پیغام محبت ملتا ہے- انسانی روح کا خدا اور اس کے بندوں سے رشتہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے؛اور خالق سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی مخلوق سے محبت کرنا سیکھی جائے-اس سلسلے میں تعلیمی مراکز اور مختلف یونیورسٹیز اہم کردار ادا کرسکتی ہیں-

انسان بحیثیت اشرف المخلوقات: مولانا رومیؒ اور

حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات

پروفیسر ڈاکٹر خالق داد ملک:

چئیرمین شعبہ عربی پنجاب یونیورسٹی، لاہور

حضرت سلطان باھُوؒ اور حضرت مولانا رومیؒ کی تعلیمات میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات کیسے بن سکتا ہے-ان دونوں جلیل القدر شخصیات نے اس اعلیٰ مقام کو حاصل کرنے کیلیے تمام شرائط و ضروریات کو واضح طور پر بیان کر دیا ہے- دونوں نے ایک نیا طریقہ تشکیل دیا جس میں احیائے اسلام کا عظیم جذبہ کار فرما ہے- انہوں نے قرآن و سنت سے تزکیہ نفس کے روحانی اور عقلی استدلال اخذ کرتے ہوئے ایک نئی صدائے حق کے ذریعے انسانوں کو بڑی کامیابی سے حق تعالیٰ کی معرفت عطا کی-

معاشرتی برائیوں کے سدِ باب میں مولانا رومیؒ اور

حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کا کردار

ڈاکٹر عثمان علی سعد الدین :صدر، سوڈانی کمیونٹی پاکستان

جنوبی ایشیاء کی طرح افریقہ میں بھی صوفیاء نے اسلام کا پیغام پھیلایا- سوڈان کی عوام کی اکثریت حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے طریقہ کی تعلیما ت پر عمل پیرا ہے-بلاشبہ، دیگر اولیائے کرام کی طرح مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ نے دنیا میں انسانیت، برداشت، امن، محبت، اخوت اور بقائے باہمی کو ترویج دینے کا پیغام دیا- عاجزی انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے- عداوت اس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی اپنی تعلیم، طاقت، دولت یا خوبصورتی کے زُعم میں اپنی اصلیت بھول جاتا ہےاور اس میں دوسروں کو مطیع کرنے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے- حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:

رات اندھیری کالی دے وچ عشق چراغ جلاندا ھو

مہمانِ خصوصی

پروفیسر ڈاکٹر محمد رضا نصیری

سیکریٹری، اکیڈمی آف لیٹرز تہران، ایران

مثنوی کے اس جدید نسخہ کا ذکر اہم ہے جو پروفیسر محمد علی موحد نے مرتب کیاہے -انہوں نے اس نسخہ کی تیاری کے لئے 40 سال صرف کیے ہیں اور ان قدیم مسودات سے استفادہ حاصل کیا جو مولانا کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتے ہیں- علی موحد نے نیکلسن اور دوسرے مسودات جیسا کہ طائف عباسی کے مثنوی کے 80تصحیح شدہ نسخہ جات کا مطالعہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ مثنوی کے سلسلہ میں نکلسن کا کام سب سے بہترین ہے-40 سال کی عرق ریزی کے بعد علی موحد نے جدید انگریزی فرہنگ میں مثنوی کا نسخہ مرتب کیا-

مہمانِ خصوصی

عزت مآب عبدالرحمٰن محمود:سفیر ، سفارتخانہ سوڈان ، اسلام آباد

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ کا پیغام انسانیت کے لیے ہے اور بنی نوع انسان کو خود شناسی اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عظمت کے حصول کی جانب لے کے جاتا ہے- بہت سا وقت گزر جانے کے باوجود آج بھی دونوں صوفیاء کی تعلیمات کی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے- رومیؒ کے مطابق، جب تک ہم اپنی خواہشات کے غلام رہیں گے، ہمیں سکون و چین نصیب نہیں ہو گا - اگر ہم اپنی عمومی ضروریات کا جائزہ لیں تو ہم پر واضح ہو گا کہ یہ بہت محدود ہیں اور ان کا حصول بہت مشکل نہیں- سو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ہمیں اپنا اصل وقت اپنی زندگی کے مقصد، اپنے باطن کی پہچان اور اس کائنات کی تخلیق پر غور کرنے میں صرف کرنا چاہیے-

صدرِ نشست

ڈاکٹر نوشاد علی خان:وائس چانسلر اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور

یہ فیصلہ ہماری زندگی سے بھی اہم ہے کہ ہم زندگی کیسے گزارنا چاہتے ہیں، امن سے یا خطرات سے بھر پور- ایک انسان ظاہری جسم اور روح کا مجموعہ ہے- عموماً لوگ صرف اپنے جسم کی دیکھ بھال کرتے ہیں جبکہ خاص لوگ جسم کے ساتھ اپنی روح کی نشوونما کا بھی خیال رکھتے ہیں- مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ اللہ کی وہ جلیل القدر ہستیاں ہیں جنہوں نے روح کی پاکیزگی کی تلقین کی- اس پر آشوب دور میں یہ ہمارا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اکیسویں صدی میں درپیش چیلنجز کے مقابلہ کیلیے تیار رکھیں- اس وقت مسلم اُمہ کی رہنمائی کیلیے اجتہاد کا ادارہ بھی قائم کیا جانا چاہیے- مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کو ہمارے تعلیمی نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے-

چوتھا اکڈیمک سیشن

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ کے کلام کی اہمیت

سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی (وائس چانسلر بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان )نے کی جبکہ انجینئر رفاقت ایچ ملک (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ)  نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے- مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے :-

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُو ؒ کی

شاعری میں روح کی اہمیت

ڈاکٹر محمد مسعود عباسی

شعبہ اردو، یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر، مظفر آباد

بر صغیر میں طلوع اسلام کے وقت ذات پات کا نظام تھا ، کسی کم ذات کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ کسی اعلیٰ ذات کے شخص سے کچھ استفادہ کر سکے- دوسری طرف صوفیاء نے خانقاہی نظام قائم کیا- مبلغینِ اسلام حق کی تبلیغ کرتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول کا پیغام دیتے تھے - ہر کسی کو اجازت تھی کہ وہ ان کی گفتگوسن سکے اور حق کی جانب مائل ہو- مولانا رومیؒ کی مثنوی حقیقت میں علومِ معارف اور حکمتِ دانش کا عظیم خزینہ ہے-

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ کی

شاعری کی دانشورانہ جہتیں

ڈاکٹر سعید احمد سعیدی

شعبہ اسلامک سٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی، لاہور

تصوف بذات خود ایک ذات کی پکار ہےجس کی طرف روح کشش محسوس کرتی ہے- اگر علم اور مذہب میں تعلق جوڑنا ہے تو صوفیاء کی تعلیمات کے مطابق انہیں تصوف اور تزکیہ کی تربیت گاہوں سے گزارنا ہوگا- اس حوالے سے مولانا رومی ؒنے فرمایا:

علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود

’’علم اگرجسم پروری کیلیے خرچ ہونے لگے تو وہ سانپ بن کر ڈستا ہے اور اگر اس کا رشتہ روح سے جڑ جائے تو دوست بن کر رہنمائی کرتا ہے‘‘-

حضرت سلطان باھُوؒ بطور مرشدِ معنوی

جناب ندیم بھابھہ:شاعر، مصنف و تجزیہ نگار

میں ضروری سمجھتا ہوں کہ لفظِ ’’مرشد‘‘  کی پاکیزگی اور عظمت انہی الفاظ میں دہراؤں جو حضرت سلطان باھُوؒ نے بیان کیے ہیں- مرشد صاحبِ تصرف فنا فی اللہ بقا باللہ فقیر ہوتا ہے جو مردہ قلب کو زندہ کرتا ہے اور زندہ نفس کو مار دیتا ہے- مرشد اس سنگِ پارس کی مثل ہوتا ہے جو اگر لوہے کو چھو جائے تو وہ لوہا سونا بن جاتا ہے- اس کی نگاہ آفتاب کی طرح فیض بخش ہوتی ہے جو مرید کے وجود سے برے خصائل مٹا دیتی ہے - مرشد صاحبِ خُلق ہوتا ہےاور حضور نبی کریم (ﷺ)کے خُلق کا مالک ہوتا ہے، مہرباں ایسا کہ ماں باپ سے زیادہ اورموجِ کرم ایسا کہ جیسے موتیوں کا دریا -

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ کی

شاعری میں محبت و اخوت کا پیغام

پروفیسر ڈاکٹر فخر الحق نوری

سابقہ ڈین و پرنسپل، اوریئنٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی، لاہور

آج کے دور میں ہمیں جن چیلنجز کا سامنا ہے ان چیلنجز سے نمٹنے کیلیے ہمیں مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ جیسی ہستیوں سےفیض حاصل کرنا ہے- تصوف درحقیقت ایک ضابطہ حیات ہے جو کہ ہمارے سامنے صوفیانہ شاعری جیسا کہ مثنوی اور ابیات کی صورت میں موجود ہے- یہ ایسی ہی ہستیوں کی وجہ سے ہے جس کی بنا پر صوفیانہ شاعری کو یہ رتبہ ملا- اس شاعری میں صرف توحید کی بات کی گئی، تصوف کی بات کی گئی، انسان کی تطہیر کی بات کی گئی اور قلوب کو منور کرنے کی بات کی گئی-

عالمی امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کیلیے صوفیانہ تعلیمات

پروفیسر ڈاکٹر پیوٹر کلاڈکووسکی

سینٹر فار کمپیریٹو سٹڈیز آف سویلائزیشنز، جیگالونین یونیورسٹی، پولینڈ

اگر مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو مثالی توازن اور اعتدال نظر آئے گا- آج ہم عدم توازن کی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں مادی، نظریاتی، نفسیاتی اور سیاسی عدم توازن شامل ہیں- عالمی طاقتیں زیادہ سے زیادہ لوگوں اور علاقوں پر قابض ہونا چاہتی ہیں جس سے آج کی دنیا میں اعتدال کا فقدان ہے- اکیسویں صدی کی دنیا کے لیے صوفیاء کا پیغام نہایت اہم ہے- یہ برابری، اخوت اور برداشت کا پیغام ہے جو ہمیں مادی اور نظریاتی عدم توازن سے محفوظ رکھے گا اور یہ پیغام امن ہر خطے اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کیلیے ہے- میرا مشورہ ہوگا کہ ہمیں رومی اور سلطان باھُو کی تعلیمات کا ’’کاگنیٹیو‘‘ مطالعہ ضرور کرنا چاہئے-

صدرِ نشست

پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی

وائس چانسلر بہاو الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان

مولانا رومیؒ کی شاعری عام فہم فارسی زبان پر مشتمل ہے جو کوئی بھی فارسی زبان کا معمولی سا علم رکھنے والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے- ایک دفعہ کسی نے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی درگاہ پر حاضری دینے والے سے پوچھا کہ آپ کو ان کی خانقاہ سے کیا حاصل ہوا- اس شخص نے جواب دیا کہ آپؒ بلا تفریق مذہب و قوم اپنی درگاہ پر آنے والے کو نوازتے ہیں- آپ کا دستر خوان اور لنگر بہت وسیع ہے جس پر ہر خاص و عام کی تواضع کی جاتی ہے- مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کا مغز سچائی، اخوت اور تمام انسانوں سے محبت ہے- اس ضمن میں کتاب ’’مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ‘‘ جو کہ چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے شائع کی گئی ہے، نہایت اہم ہے-

اختتامی سیشن

اس سیشن کے مہمان خصوصی پیر نور الحق قادری (وفاقی وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی) اور صاحبزادہ محمد محبوب سلطان (وفاقی وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور) تھے- عثمان حسن (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے - مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:-

استقبالیہ کلمات

پروفیسرڈاکٹر سلیم مظہر:پرو وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی

روحانی اور فیوض و برکات والی محفل میں تشریف لانے پر دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں- صاحبزادہ سلطان احمد علی اس محفل کے میزبان اول و آخر ہیں - حضرت رابعہ بصری نے اپنے وقت کہ کسی بڑے عارف اور صوفی سے پوچھا تھا کہ میں اگر توبہ کر لوں تو کیا اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرما لے گا ؟ اس صوفی نے کہا تھا کہ اللہ توبہ کا خیال ہی کسی کہ دل میں اُس وقت ڈالتا ہے جب وہ اس کی توبہ قبول کر چکا ہوتا ہے-یہ مکمل توفیق والا معاملہ ہے- پنجاب یونیورسٹی کااعزاز ہے کہ تیسری بار صوفیاء کے پیغام کو نوجوان نسل تک پہنچانے کیلئے اس کانفرنس کی توفیق نصیب ہو رہی ہے - شروع میں اس کانفرنس کا آغاز ایک روزہ کانفرنس سے ہواتھا اور اب دو دن کی جاری ہے- اب محسوس ہو رہا ہے کہ دو دن بھی تھوڑے ہیں اور اگلے سال سے سہ روزہ کانفرنس کا انعقاد کرنا ہوگا -

معزز مہمان

چرن جیت کور

سابقہ ایجوکیشن انسپکٹر، ارلنگ ڈسٹرکٹ، برطانیہ

رومیؒ کی کتب اور شاعری کا یورپ اور امریکہ میں اچھے تراجم کی وجہ سے بہت چرچا ہے جبکہ سلطان باھُو ؒ کا کلام بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے- صوفی ازم اور روحانیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے- روحانیت انسان کے باطن کو روشن کرتی ہے جس سے انسان میں لگن، جذبہ اور مصمم ارادہ پیدا ہوتا ہے اور انسان مثبت سمت میں سوچنے لگتا ہے- صوفیانہ تعلیمات انسان میں روحانیت، اخوت اور محبت پید ا کرتی ہیں- صوفی کلچر انسان میں قدرت کا ادراک، پاکیزگی اور انسانیت پیدا کرتا ہے- اگرچہ ظاہری طور پر رومیؒ اور سلطان باھُوؒ ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن دونوں شخصیات روحانی طور پر اپنی تعلیمات کے ذریعے ہمارے دلوں میں موجود ہیں-

معزز مہمان

گرمیت سنگھ ہنزارہ

صدر گردوارہ سری گرو سنگھ سبھا، ہنسلو، برطانیہ

اس دنیا میں جتنی بھی لڑائی ہے وہ نفرت کی وجہ سے ہے-اگر ہم نفرت کو ایک طرف کر دیں تو پیچھے پیار رہ جاتا ہے-ہمیں بنانے والا ایک ہے-ہمارا رب ہمیں کہتا ہے کہ اے بندے تو میرا بن جا-اے بندے تو اس دنیا میں بندگی کے لیے آیا تھا لیکن تو جھگڑوں میں پڑ گیا- ہمیں ایک ہوکر ایک کا ہونا ہےاور اس ایک کو سب میں دیکھنا ہے- اسی طرح ہمیں تمام مخلوق کو برابر پیار کرنا ہوگا- تب ہی ہم اس رب کی خوشنودی حاصل کر سکیں گے- ہم پھول سے سیکھ سکتے ہیں کہ خود کیسے ہنسنا ہے اور دوسروں کو کیسے ہنسانا ہے- حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:-

تسبیح پھری تے دل نہیں پھریا، کی لینا تسبیح پھڑ کے ھو

معزز مہمان

پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم

وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد

مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ نے امن و اخوت کے پیغام کو پھیلایا اور دین کے وضع کردہ اصولوں پر پوری طرح کاربند رہے- انہوں نے اپنے عمل کے ذریعے تلقین کی- ان کی تعلیمات میں مختلف سماجی مسائل کے لیے پیش کیے گئے حل آج بھی اپنی اہمیت رکھتے ہیں-اگرچہ ان جیسے صوفیاء نے ظاہری تعلیم حاصل نہیں کی لیکن ان کی عقل و دانش انسانی سوجھ بوجھ کو خیرہ کیے دیتی ہے- اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی اور وہ تھی خدائے باری تعالیٰ کی ذات سے سچی محبت و اطاعت- ان صوفیائے کرام نے اپنی تصانیف و شاعری کے ذریعے دور حاضر میں درپیش سیاسی و اقتصادی مسائل کے بارے بھی حل پیش کیے-

معزز مہمان

پروفیسر ڈاکٹر قمر علی زیدی

پرنسپل، اوریئنٹل کالج،پنجاب یونیورسٹی، لاہور

صوفی اپنے وجود، قول اور فعل سے اس رحمت کو عام کرتا ہے جس رحمت کے امین آقا علیہ الصلاۃ و السلام ہیں- صوفی فکر والوں کیلیے فکری رہنمائی عطا کرتا ہے، عمل والوں کیلیےعملی رہنمائی عطا کرتا ہے اور وحدہٗ لاشریک تک پہنچنے کا راستہ آسان کرتا ہے- جیسا کہ حضور غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ جو شخص زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کے ساتھ اپنے ایمان کو کلمہ طیبہ کے ساتھ مستحکم نہیں کرتا اس کیلیے کبھی بھی راہِ حقیقت کا دروازہ نہیں کھل سکتا- یہی تصوف، یہی طریقت، یہی حقیقت اور یہی شریعت ہے-

معزز مہمان

پروفیسر ڈاکٹر محمد علی شاہ :

وائس چانسلر قائدِ اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد

جہاں مولانا رومیؒ کا مزار ہے اُس کے ساتھ ایک میوزیم بھی ہے جس میں ایک کا سہ بھی موجود ہے -مولانا رومیؒ کے پاس جو شاگرد آتے تھے ان کو وہ کاسہ اس لیے دیا جاتا تھا کہ اُن کے نفس کو مارا جاسکے-آپؒ نے زور دیا کہ انسان وہی ہے جو دوسروں کی مدد کرتا ہے-مولانا رومیؒ کا فلسفہ انسان کی تحقیر نہیں بلکہ اس کے اندر عاجزی پیدا کرنا ہے- حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرہٗ) اس روئے زمین کے عظیم صوفی شعراء میں سے ہیں- اپنے کلام میں آپ نے علمِ ظاہر کی نفی نہیں کی بلکہ ایسے علم کے حصول پر زور دیا جو انسان میں انسانیت کے لیے محبت پیدا کرے-

مہمانِ خصوصی

صاحبزادہ محمد محبوب سلطان

وفاقی وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور

وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان چاہتے ہیں کہ تصوف پہ کام کیا جائے اور اس سلسلہ میں پاکستان میں باضابطہ طور پر القادر یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے- بزرگاِن دین کا کلام پڑھنےوالے اور اِن کی تعلیمات پرعمل پیرا ہونے والے کبھی نفرت،  بغض،  فتنے، فساد اور شر انگیزی کا باعث نہیں بنتے بلکہ یہ تمام انسانیت کی بات کرتے ہیں- صرف انسانیت ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقاتِ خدا سے محبت کی بات کرتے ہیں- مثال کے طور پر حضرت سلطان باھُوؒ نے فطرت سے جو نکات اخذ کئے ہیں وہ کس قدرخوبصورت ہیں یعنی وہ دریا سے، سمندر سے، کوئل سےحتیٰ کہ پرندوں جیسے شہباز سے بھی سبق اخذ کرتے ہیں-

مہمان خصوصی

پیر نور الحق قادری

وفاقی وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی

مولا نا جلال الدین رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ جب مرشد کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی روح مبارک ہوتی ہے-اسی طرح حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جب مرشد کا ذکر فرماتے ہیں توان کی منشا حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس ہوتی ہے -حضرت سلطان باھُوؒ نے تصوف کو محبت کاپیغام اور نفرتوں سے اجتناب کا نام دیا- تصوف اخلاق کا نام ہے جو اخلاق میں بلند ہو گیا وہ تصوف میں بھی اونچے مرتبہ پر ہے-ایک دفعہ امام شافعیؒ قاہرہ کی ایک گلی سے گزر رہےتھے کہ گلی کی دوسری جانب سےایک کتا آتا ہوا نظر آتا ہے- آپؒ کے شاگرد نے کتے کو بھگانے کے لیے پتھر اٹھایاتو آپؒ نے غصہ کا اظہار کیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن میرا رب مجھ سے باز پرس کرے گا-ایک کتے کا بھی راستے پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ انسانوں کا-

اظہارِ تشکر

پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد:وائس چانسلر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور

میں انتہائی مشکور ہوں صاحبزادہ محمد محبوب سلطان صاحب اور پیر نور الحق قادری صاحب کا جو اس کانفرنس میں شرکت کے لیے بطور خاص تشریف لائے - میں صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب اور سلیم مظہر صاحب کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے اتنی اہم کانفرنس کا انعقاد کیا- یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ نوجوان نسل کی تربیت کیلیے اس طرح کی تقریبات کا اہتمام کریں- مولانا رومی ؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ کے پیغام کا منبع سرکار دو عالم سیدنا محمد (ﷺ) کی ذات ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کے انصاف کا نظام ایسا مثالی تھا کہ اگر کسی مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا تو آپ (ﷺ)سے اس کا فیصلہ کروایا جاتا -

اختتامی کلمات

صاحبزادہ سلطان احمد علی:چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ

 یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ایران، پولینڈ، سوڈان، برطانیہ اور پورے پاکستان کے کونے کونے سندھ، پنجاب، خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور آزاد جموں و کشمیر سے مہمان تشریف لائے ہیں -ان کانفرنسز سے ہمیں یہ مو قع مل رہا ہے کہ ہم پاکستان کی نظریاتی اساس کو بخوبی سمجھ سکیں اور اس ثقافت کو دوبارہ سے زندہ کر سکیں جو پچھلے 40 سال سے دہشتگردی کا شکار ہے- مولانا رومیؒ ایک عظیم صوفی بزرگ کے طور پر جانے جاتے ہیں- اسی طرح حضرت سلطان باھُوؒ ایک جلیل القدر صوفی بزرگ اور مادر زاد ولی اللہ تھے جن کے رخ ِاطہر کی بچپن میں ہی اگر کوئی غیر مسلم زیارت کرتا تو فوراً کلمہ پڑھ لیتا اور مسلمان ہو جاتا- اگرچہ اس کانفرنس کا آغاز ایک محدود پیمانےپر ہوا لیکن اب یہ پاکستان میں مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھُوؒ پر ہونے والی کانفرنسز میں نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے جو کہ ایک خوش آئند امر ہے-

ہر سیشن کے اختتام پہ معزز مقررین کو کانفرنس کی لوحِ یادگار پیش کی گئیں اور گروپ فوٹو بنائی گئیں-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر