اقتباس

اقتباس

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

’’الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون‘‘ (یونس: 62)

’’سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم‘‘-

رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’حضرت عبد اللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے،  فرماتے ہیں کہ میں نے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور آپ (ﷺ)یہ ارشاد فرما رہے  تھے: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے‘‘- (سُنن اِبْنِ ماجه، كِتَابُ الْفِتَنِ،بَابُ حُرْمَةِ دَمِ الْمُؤْمِنِ وَمَالِهِ )

فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ:

ابو یزید بسطامیؒ کا قول ہے :’’اہل اللہ، اللہ تعالیٰ کی دلہنیں ہیں‘‘-ایک اور روایت میں آیا ہے: ’’اولیاءاللہ ،اللہ تعالیٰ کی دُلہنیں ہیں‘‘- اور دلہن کو اُس کے محرم کے سوا کوئی نہیں دیکھتا - اِسی طرح اولیاء اللہ بھی حجاباتِ انسانیہ میں چھپے رہتے ہیں اور اُنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں دیکھتا - چنانچہ حدیث ِقدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’میرے اولیاءمیری قبا کے نیچے چھپے رہتے ہیں اُنہیں میرے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا ‘‘ -اور ظاہر میں تو لوگ سوائے دلہن کی ظاہری زینت کے اور کچھ نہیں دیکھ سکتے -حضرت یحییٰ ابن ِمعاذ رازیؒ فرماتے ہیں :’’ولی اللہ، اللہ تعالیٰ کی زمین کا خوشبودار پھول ہے جسے اہل ِ تصدیق سونگھتے ہیں تو اُن کے دلوں میں شوقِ الٰہی موجزن ہو جاتا ہے اور اُن کی عبادت اُن کے اخلاق و درجۂ فنا کے مطابق بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس قدر اللہ تعالیٰ سے اُن کی قربت بڑھتی ہے اُسی قدر اُن کا مرتبۂ فنا بڑھتا ہے - پس ولی اللہ وہ ہے جو اپنے حال میں فانی اور مشاہدۂ حق میں باقی ہو،نہ اُس کے پاس ذاتی اختیار ہو اور نہ  اُسے اللہ کے سوا کسی کے ساتھ قرار ہو‘‘-(سر الاسرار)

فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ:

س: سُن فریاد پِیراں دِیا پِیرا مَیں آکھ سنانواں کینوں ھو
تیرے جیہا مَینوں ہور نہ کوئی مَیں جیہیاں لَکھ تینوں ھو
پھَول نہ کاغذ بَدیاں والے دَر تُوں دھک نہ مینوں ھو
مَیں وچ ایڈ گُناہ نہ ہوندے باھوؒ تُوں بخشیندوں کینوں ھو (ابیاتِ باھو)

فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ:

ایمان ، اتحاد، تنظیم

’’تعلیم کے معنی صرف کتابی تعلیم ہی نہیں اور اس وقت تو وہ بھی بہت پست درجہ کی معلوم ہوتی ہے،ہمیں جوکچھ کرناچاہیے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کومجتمع کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کے کردار کی تعمیرکریں-فوری اوراہم ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کوسائنسی اورفنی تعلیم دیں تاکہ  ہم اپنی اقتصادی زندگی کی تشکیل کرسکیں‘‘- (آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس کے نام پیغام کراچی ،27نومبر 1947ء)

فرمان علامہ محمد اقبال ؒ:

خودی میں ڈُوبنے والوں کے عزم و ہمّت نے
اس آبُجو سے کیے بحرِ بے کراں پیدا
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے
جو ہر نفَس سے کرے عُمرِ جاوداں پیدا (ضربِ کلیم)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر